1) نماز با جماعت:
واجبی آداب یہ ہیں کہ روزہ دار تمام ان قولی و فعلی عبادات کو بجا لائے جنہیں اس کے اوپر اللہ تعالٰی نے واجب قرار دیا ہے، ان میں سب سے اہم فرض نمازیں ہیں جو شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے زیادہ تاکیدی رُکن ہے، لہذا ضروری ہے کہ روزہ دار اس پر محافظت اور ارکان و واجبات و شرطوں کے ساتھ اس کی ادائیگی کا اہتمام کرے۔ وقت کی پابندی کے ساتھ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھے کیونکہ باجماعت نماز یہ اس تقوی کا ایک حصہ ہے جس کے لئے روزہ مشروع اور فرض کیا گیا ہے، برخلاف اس کے نماز کو ضائع کرنا تقوٰی کے منافی اور عذاب الٰہی کا سبب ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ’’پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا‘‘۔ (سورۃ مریم : ٥٩)
ان پر واجب ہونے کے باوجود بعض روزہ دار باجماعت نماز کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالٰی نے اس کا حکم دیا ہے: ”وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ۔۔۔۔۔۔“ ’’جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو، پھر یہ سجدہ کرچکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں ..........‘‘ (النساء : ١٠٢)
ذرا سوچیں کہ جب اللہ تعالٰی نے حالتِ حرب و خوب میں (جنگ کی حالت میں) باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو امن و اطمینان کے حالت میں تو بدرجہ أولی اس کا حکم ہوگا، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلّم، مسجد تک لانے کے لئے کوئی میرا مدد گار نہیں ہے اس لئے آپ مجھے گھرمیں نماز پڑھنے کی رخصت دے دیجئے (آپ صلی اللہ علیہ سلّم نے اولاً تو رخصت دے دی) لیکن جب وہ جانے لگے تو آپ نے انہیں واپس بلایا اور سوال کیا: ھل تسمع النداء، ”کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟“ انہوں نے جوا ب دیا ہاں، اذان کی آواز سنتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”فأجب“ ”تب تو اس کا جواب دو (یعنی مسجد میں حاضری دو)“۔ (صحیح مسلم : ٦٥٤)
اسی طرح باجماعت نماز کی بڑی فضیلت بھی بیان کی گئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے ”باجماعت نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ ثواب رکھتا“۔ (صحیح بخاری : ٦٤٥، مسلم : ٦٥٠)
اسی طرح باجماعت نماز چھوڑنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منافقین کی صف میں شامل فرمایا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ”اقامت کا حکم دوں اور جماعت چھوڑنے والوں کو ان کے گھروں سمیت جلا دوں“۔ (بخاری : ٦٥٧، مسلم : ٦٥١)
اسی طرح باجماعت نماز کی بڑی فضیلت بھی بیان کی گئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے ”باجماعت نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ ثواب رکھتا“۔ (صحیح بخاری : ٦٤٥، مسلم : ٦٥٠)
اسی طرح باجماعت نماز چھوڑنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منافقین کی صف میں شامل فرمایا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ”اقامت کا حکم دوں اور جماعت چھوڑنے والوں کو ان کے گھروں سمیت جلا دوں“۔ (بخاری : ٦٥٧، مسلم : ٦٥١)
2) جھوٹ سے پرہیز:
روزے کے واجبی آداب میں یہ بھی داخل ہے کہ روزہ دار ایسے تمام اقوال وافعال سے پرہیز کرے جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا، چنانچہ جھوٹ سے پرہیز کرے (واقع کے خلاف خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں) اور سب سے بڑی جھوٹ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنا ہے جیسے کسی حرام کام کی حلّت اور حلال کام کی حُرمت کی نسبت اور اس کے رسول کی طرف کرنا، ارشاد باری تعالٰی ہے: ”وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ“ ”کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالٰی پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے“ (النحل : ١١٦)
3) غیبت سے پرہیز:
روزہ دار کو غیبت سے بھی پرہیز کرنا چاہئے، اپنے بھائی کی ناپسندیدہ بات عیب کو اس کے پیٹھ پیچھے بیان کرنا غیبت ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کاارشاد ہے: ”تو اپنے بھائی کا عیب بیان کررہا ہے اگر اس میں پایا جارہا ہے تو یہی تو غیبت ہے اور اگر اس کا عیب جو بیان کررہا ہے وہ اس میں نہیں ہے تو، تو نے اس پر بہتان باندھا ہے“۔ (الترمذی : ١٥٧٨)
4) چُغل خوری سے پرہیز:
روزہ دار کو چاہئے کہ چغل خوری سے پرہیز کرے۔ چغل خور ی یہ ہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے شخص تک فساد و اختلاف کی غرض سے پہنچائی جائے۔ چغل خوری گناہ کبیرہ ہے، اس سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: ”لا یدخل الجنة نمام“ ”چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا“ (بخاری : ٦٠٥٦، مسلم : ١٠٥)
5) دھوکہ دہی سے پرہیز:
روزہ دار کو چاہئے کہ خرید و فروخت، پیشہ مزدوری اور رہن وغیرہ جیسے معاملات میں دھوکہ دہی سے بچتا رہے اور ہر مشورہ اور نصیحت طلبی کے وقت بھی دھوکہ دہی سے پرہیز کرے، کیونکہ دھوکہ دینا کبیرہ گناہ ہے، دھوکہ دینے والے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے براء ت کا اظہار کیا ہے چنانچہ آپ نے فرمایا: ”من غشنا فلیس منا“ ”جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں“ حدیث ان الفاظ میں بھی مروی ہے کہ ’’من غش فلیس منی‘‘ ”جس نے دھوکہ دیا وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے“۔ (صحیح مسلم : ١٠٢)
6) گانا بجانا:
روزہ دار کو چاہئے کہ گانے بجانے کے آلات سے پرہیز کرے، لہو ولعب کے تمام آلات خواہ وہ سارنگی ہو، رباب ہو، دو تارو ستار ہو، یا بانسری و کمان، سب کے سب حرام ہیں اور اگر اس کے ساتھ سُریلی آواز میں گیت اور جذبات کو ابھارنے والے گانے ہوں تو ان کی حرمت و قباحت اور بڑھ جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ‘‘ ”اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے“۔ (لقمان : ٦)
روزہ دار کو چاہئے کہ گانے بجانے کے آلات سے پرہیز کرے، لہو ولعب کے تمام آلات خواہ وہ سارنگی ہو، رباب ہو، دو تارو ستار ہو، یا بانسری و کمان، سب کے سب حرام ہیں اور اگر اس کے ساتھ سُریلی آواز میں گیت اور جذبات کو ابھارنے والے گانے ہوں تو ان کی حرمت و قباحت اور بڑھ جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ‘‘ ”اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے“۔ (لقمان : ٦)
بہت شکری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکتہ
حذف کریںآپ کی آمد کا بہت شکریہ، سدا خوش رہیں۔