اسامہ بن لادن لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسامہ بن لادن لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, دسمبر 09, 2012

شکیل آفریدی نے سی آئی اے حکام سے 4 ملاقاتیں کیں

شکیل آفریدی کو مخبری کے دس ہزار ڈالر ملے، رابطے کے لئے سپیشل ڈیوائس تیار ہوئی۔ ہیپاٹائٹس ٹیسٹ کے بہانے اسامہ کے بچوں کے سیمپل امریکا بھجوائے گئے۔ اہلیہ کی وائس میچنگ بھی کی گئی۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ دنیا نیوز نے حاصل کر لی۔

ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی آخری وقت تک اس بات سے لاعلم تھے کہ ایبٹ آباد کمپاونڈ میں جن افراد کی ڈی این اے سیمپلنگ انہیں کرنی ہے وہ کوئی اور نہیں اسامہ کے بچے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سی آئی اے کے لوگوں کے ساتھ پہلی ملاقات پشاورمیں ایک بین الاقوامی این جی او کے دفتر میں ہوئی تین سے چار ملاقاتوں میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایبٹ آباد کے اس علاقے میں جہاں اسامہ کا کمپاونڈ موجود تھا ہیپاٹائٹس کے خلاف مہم چلانے کی حامی بھر لی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اس علاقے میں تین بار ہیپاٹائٹس کے خلاف کمپئین چلائی مگر اسامہ بن لادن کے بچوں کو قطرے پلا سکے نہ اس کی آڑ میں سمپلنگ ہو سکی جس کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایک لیڈی ہیلتھ وزیٹر کو تیس ہزار روپے انعام کا لالچ دیا اور کہا کہ اگر اس کمپاونڈ میں رہنے والے بچوں کی سمپلنگ نہ ہو سکی تو ہمارا پروگرام بند ہو جائے گا۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹر نے اسامہ کے ساتھ رہائش پذیر خالد الکویتی کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور اس کے ذریعے ڈی این اے سمپل حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ خالد الکویتی نے اس شرط پر کہ وہ گھر میں داخل نہیں ہو گی۔ بچوں کو باہر بلا کر ویکسین پلانے کی اجازت دے دی اور لیڈی ہیلتھ وزیٹر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ یہ سمپل کنفرمیشن کے لئے امریکہ بجھوائے گئے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شکیل آفریدی کے پاس سی آئی اے کی دی ہوئی ایک ڈیوائیس تھی جس پر اسلام آباد سے سی آئی اے کی ایک خاتون اہلکار ان کے ساتھ رابطہ کرتی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شکیل آفریدی کو اسلام آباد بلایا جاتا تھا۔ اس دوران ایک بڑی گاڑی میں سی آئی اے کی ایک لیڈی ایجنٹ لیٹ کر سفر کرتی تھی تاکہ گاڑی بظاہر خالی محسوس ہو۔ ایجنسیوں کے پیچھا کرنے کا خدشہ دور ہونے پر شکیل آفریدی کو اس گاڑی میں سوار کرایا جاتا اور وہ بھی اس گاڑی میں لیٹ کر سفر کرتے جنہیں ہدایات دینے کے بعد گاڑی سے اتار دیا جاتا۔ اسامہ کے کمپاونڈ کی مکمل معلومات بھی سی آئی اے کو ڈاکٹر شکیل کو دی گئی ڈیوائیس کے ذریعے حاصل ہوئیں، اسامہ کی اہلیہ خیریہ کی وائس میچنگ بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی ایک اسسٹنٹ ڈاکٹر آمنہ کے ذریعے کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ڈی این اے کی کنفرمیشن پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ہدایت ملی کہ وہ تین روز میں اپنا پراجیکٹ وائینڈ اپ کر دیں۔ اپنی جائیداد کا انتظام کریں اور امریکہ شفٹ ہو جائیں۔ آپریشن کے دن تک سی آئی اے ڈاکٹر شکیل کو پاکستان چھوڑنے کا کہتی رہی انہیں بگرام کے راستے افغانستان لے جانے کی پیش کش بھی کی گئی لیکن وہ لیت لعل سے کام لیتے رہے اور آپریشن کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈآکٹر شکیل آفریدی کو سی آئی سے اس کام کے عوض دس ہزار ڈالر دئیے گئے۔

شکیل آفریدی نے سی آئی اے حکام سے 4 ملاقاتیں کیں: ایبٹ آباد کمیشن

جمعرات, نومبر 15, 2012

بن لادن کے قتل کا منصوبہ ساز سی آئی اے کا سربراہ

بیوی کے ساتھ بے وفائی کرنے کی خبر افشاء ہونے کے بعد سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ڈیوڈ پیٹریوس کے استعفے کے بعد مائیکل موریل کو سی آئی اے کا قائم مقام سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس کا پاک امریکہ تعلقات اور خاص طور پر سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟

مائیکل موریل کو ”اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والی سی آئی اے کی ٹیم“ کا سربراہ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے بارے تیاری میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ پس مائیکل موریل کے نئے عہدے پر تعیناتی کو خطے میں اچھا نہیں خیال کیا جائے گا، جغرافیائی سیاسی مسائل بارے اکادمی کے صدر کرنل جنرل لیوند ایواشوو سمجھتے ہیں، ”سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کو مثبت کی بجائے منفی لیا جائے گا۔ پاکستان کے لوگوں اور کلی طور پر خطے کے لوگ اس سے خوش نہیں ہونگے۔ اسامہ بن لادن جو اور جیسا بھی تھا وہ اسلامی دنیا کی بیشتر آبادی کے لیے اہمیت رکھتا تھا اور اس کے قاتل کو وہاں مطعون سمجھا جاتا ہے۔“

اس خطے کے ملکوں اور امریکہ کے تعلقات کی ایک دکھتی رگ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ ملحق علاقوں مین ڈرون طیاروں کے ذریعے کیے جانے والے حملے ہیں۔ ان حملوں میں جنگجو طالبان کے علاوہ عام پاکستانی شہریوں کا مارا جانا اب بھی جاری ہے۔ پھر مائیکل موریل کو ڈروں کے ذریعے حملوں کا بہت بڑا حامی خیال کیا جاتا ہے تاکہ پاکستان، افغانستان، یمن اور دیگر ملکوں میں اسلام پسند جنگجووں سے نمٹا جا سکے۔

پاک امریکہ تعلقات میں باہمی اعتماد کی فضا بے حد خراب ہے۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین تعاون بھی بحال نہیں ہو پایا ہے۔ اس برس کے ماہ اگست میں پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کے دورہ امریکہ کے متوقع نتائج برآمد نہیں ہو سکے تھے۔ پاکستان کے راستے نیٹو کے دستوں کو سامان پہنچائے جانے کا عمل معاہدے پہ دستخط ہو جانے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹرکوں اور ٹینکروں پہ طالبان جنگجووں کے حملے جاری ہیں۔

سی آئی اے کے نئے سربراہ مائیکل موریل پاکستان میں خاصے جانے پہچانے ہیں، شاید یہی ایک وجہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بااعتماد بنانے کے کام آ سکے۔
 

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

اسامہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر تھے، کمیشن کی رپورٹ

ایبٹ آ باد کمیشن کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں اور تحقیقاتی رپورٹ جلد حکومت کو پیش کردی جائے گی۔ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ، انٹیلی جنس چیفس ائرچیف، متعلقہ حکام اور عینی شاہدین سمیت دو سو افراد کے بیانات قلمبند کرنے، ایبٹ آ باد اور پاکستانی فضائی حدود کے جائزے اور اسامہ کمپاؤنڈ کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسامہ بن لادن اسی کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر تھے۔

کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسامہ بن لادن نو گیارہ کے حملوں کے بعد قندھارسے روپوش ہوکر اکتوبر یا نومبر دو ہزار ایک میں کراچی پہنچا۔ اس کے ہمراہ ابراہم آکا اور ابو احمد الکویتی بھی تھے۔ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق دو ہزار دو میں اسامہ بن لادن اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پشاور آئے جہاں وہ چند دن قیام کے بعد سوات روانہ ہوگئے۔ سوات میں قیام کے دوران خالد شیخ محمد نے اسامہ بن لادن سے ملاقات کی اور دو ہفتے اسامہ کے ہمراہ قیام کے بعد روالپنڈی روانہ ہوگیا۔ ایک ماہ بعد خالد شیخ محمود کو راولپنڈی سے گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد اسامہ بن لادن ہری پور منتقل ہوگیا۔

اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کے خون کے نمونے حاصل کرنے کے لیے سی آئی اے نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات حاصل کیں۔ شکیل آفریدی اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کے خون کے نمونے حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکی جاسوسی نیٹ ورک ابو احمد الکویتی کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

آپریشن ٹائم لائن۔ امریکی فورسز کی جلال آباد سے روانگی۔ 2300 - 2310 پاکستانی فضائی حدود میں داخلہ۔ 2320 دو بلیک ہاکس ایبٹ آباد پہنچ گئے۔ 0030 ایک بلیک ہاک ناکارہ ہوا۔ 0031 متبادل شینوک ہیلی کاپٹر کی آمد۔ 0040 آپریشن کا دورانیہ۔ 0030 سے 0106 امریکی ہیلی کاپٹروں کی واپسی۔ 0106 ناکارہ بلیک ہاک تباہ کیا گیا۔ 0106 رسپانس فورسز اور پولیس کی جائے وقوعہ پر آمد۔ 0115 سے 0130 آرمی چیف کی ائر چیف سے گفتگو۔ 0207 پہلے شینوک کا پاکستانی حدود سے اخراج۔ 0216 دوسرے شینوک اور بلیک ہاک کا پاکستانی حدود سے اخراج۔ 0226 پاکستانی ایف سولہ طیاروں کی مصحف ائربیس سے پرواز۔ 0250 آرمی چیف کا وزیراعظم کو ٹیلی فون۔ 0300 ایف سولہ طیاروں کی ایبٹ آباد آمد۔ 0315 آرمی چیف کا ایڈمرل مائیک مولن کو فون۔ 0500 آرمی چیف نے صدر کو آگاہ کیا۔ 0645 آپریشن میں شریک امریکی سیل نے پشتو میں مقامی افراد کو گھروں میں رہنے کو کہا۔

ابرار اور اس کی بیوی کو امریکی فورسز نے گراؤنڈ فلور پر قتل کردیا تاہم ان کے بچے محفوظ رہے۔ آپریشن شروع ہوتے ہی اسامہ کا بیٹا ابراہیم ، بیٹی سمیعہ، مریم اور ان کے بچے اپنے والد کے پاس تیسری منزل پر پہنچ گئے۔ انہوں نے حملہ کردیا ہے۔ ہر کوئی پرسکون رہے اور کلمہ پڑھے۔ اسامہ بن لادن کی بچوں کو ہدایت اسامہ کا بیٹا خالد بچوں کی مدد کے لیے نچلی منزل پر جاتے ہوئے امریکی سیلز کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اسامہ بن لادن نے اپنے اہل خانہ کو ہدایت کی وہ ان سے دور رہیں کیونکہ آنے والوں کا نشانہ ان کی ذات ہے، اسامہ نے غیرمعمولی حالات کے پیش نظر اپنا پستول نکال لیا اور شیلف میں گرینیڈ کی تلاش شروع کردی۔ قدموں کی آواز سن کر اسامہ بن لادن پلٹا لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ امریکی سیل کی گولی اس کی ماتھے کو چیر کر عقبہ دیوار میں پیوست ہوگئی۔ باپ کو گولی لگتے ہی سمیعہ اور اسامہ کی بیوی امل امریکی کمانڈوز پر جھپٹ پڑیں۔ کمانڈوز کی گولی سے امل کا گھٹنہ زخمی ہوا جبکہ سمیعہ پر تشدد ہوا۔ سمیعہ اور مریم نے امریکی سیلز کواپنے بیان میں تصدیق کی کہ مرنے والا شخص اسامہ بن لادن ہے۔

امریکی کمانڈوز اپنے ہمراہ اسامہ بن لادن کے زیر استعمال بعض اہم اشیا، چھ کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈرائیوز اور دیگر اشیا ساتھ لے گئے۔ شینوک ہیلی کاپٹر اسامہ کا جسد خاکی لے کر سیدھا افغانستان جبکہ بلیک ہاک پاکستانی حدود میں ری فیولنگ کے بعد قندھار پہنچا۔ آپریشن کے دوران پاکستان ائرفورس کی جانب سے کسی ردعمل سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی فضائی حدود میں اواکس طیارے محو پرواز رہے۔

اسامہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر تھے، کمیشن کی رپورٹ

ہفتہ, ستمبر 01, 2012

اسامہ کی ہلاکت: مصنف پر مقدمے کا امکان

امریکی محکمۂ دفاع پینٹا گون نے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے شائع ہونے والی کتاب نو ایزی ڈے کے مصنف اور امریکی بحریہ کے سابقہ اعلیٰ اہلکار پر مقدمہ کر سکتی ہے جنہوں نے اسامہ بن لادن کے قتل کے لیے کی جانے والی کارروائی میں حصہ لیا تھا۔

محکمۂ دفاع یعنی پینٹاگون کے اعلیٰ وکیل نے بحریہ کے اس سابق سیل کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اُس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس میں انہوں نے فوجی خفیہ رازوں کو فاش نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

امریکی محکمۂ دفاع کے مطابق مذکورہ سیل نے دو ہزار سات میں دو خفیہ معلومات افشاء نہ کرنے والے فارمز پر دستخط کیے تھے۔

امریکی محکمۂ دفاع، وائٹ ہاؤس اور سی آئی اے میں سے کسی نے اشاعت سے پہلے اس کتاب پر نظر ثانی نہیں کی ہے۔

دوسری طرف حکام نے متنبہ کیا ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو خفیہ معلومات کو غلط طریقے سے افشاء کرنے پر فوجداری الزامات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پینٹاگون کے وکیل جیہ جانسن نے اس کتاب کے مصنف کو خط لکھا جس میں ان پر یہ واضح کیا کہ ان کے دستخط شدہ ’نان ڈسکلوژر‘ یا خفیہ معلومات افشاء نہ کرنے کے فارم کی رو سے وہ کبھی بھی یہ خفیہ معلومات افشاء نہیں کرسکتے ہیں۔ اس خط میں مصنف کو لکھا گیا ہے کہ ’محکمۂ دفاع کے فیصلے کے مطابق آپ نے مواد افشاء نہ کرنے کے جس فارم پر دستخط کر رکھے ہیں ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معاہدہ شکنی کی ہے‘۔ اس خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ پینٹاگان ’قانونی طور پر میسّر ہر ممکن حل پر غور کررہا ہے۔

گزشتہ ہفتے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اس کتاب میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ سرکاری طور پر بیان کی گئی کہانی کے واقعات سے مختلف بیان کیا گیا ہے۔

جمعرات, اگست 30, 2012

اسامہ کی ہلاکت: ’آنکھوں دیکھا احوال سرکاری بیان سے متضاد‘

اسامہ بن دلان
امریکی نیوی سیلز کے ایک سابق کمانڈو کی کتاب میں اسامہ بن دلان کی ہلاکت کا آنکھوں دیکھا احوال سرکاری بیان سے متضاد ہے۔ سابق کمانڈر امریکی نیوی سیلز کی اس ٹیم کے رکن تھے جس نے گزشتہ سال مئی میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی تھی۔

سابق اہلکار نے مارک اوون کے فرضی نام سے کتاب ’نو ایزی ڈے‘ میں اس کارروائی کا آنکھوں دیکھا احوال لکھا ہے۔ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس نے کتاب ’نو ایزی ڈے‘ کی کاپی حاصل کی ہے۔ کتاب کے مطابق اسامہ بن لادن نے جیسے ہی اپنے بیڈ روم یا سونے کے کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو انہیں ہلاک کردیا گیا اور اس وقت سیلز سڑھیوں سے اوپر جارہے تھے۔

تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کو صرف ایک بار گولی ماری گئی جب وہ اپنے کمرے میں واپس چلے گئے۔ حکام کے مطابق اسامہ کی حرکات سے ایسا محسوس ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ ہتھیار لینے کے لیے جارہے تھے۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ناشر نے کتاب پینٹاگون کے پاس جمع نہیں کرائی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ کوئی خفیہ معلومات افشا نہ ہونے پائیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کتاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ سڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ بالکل اسی فوجی کے پیچھے تھے جس نے نشانہ باندھ رکھا تھا۔

سڑھیوں کے اوپر تک پہنچنے سے’پانچ قدم سے بھی کم‘ پر انہوں نے گولیاں چلنے کی مدھم آواز سنی۔ نشانہ لینے والے فوجی نے دیکھا کہ برآمدہ کی دائیں جانب ’ایک شخص دروازے سے باہر جھانک رہا ہے۔‘

مصنف کے بقول اسامہ بن لادن اپنے کمرے کی جانب واپس مڑے اور سیلز نے ان کا پیچھا کیا، اس وقت وہ فرش پر سمٹے ہوئے پڑے تھے اور خون بہہ رہا تھا جبکہ ان کے سر کی دائیں جانب ایک نمایاں سوراخ تھا اور ان دو خواتین ان کے جسم پر ماتم کررہی تھیں۔

ان خواتین کو پیچھے ہٹایا گیا اور اسامہ کے جھٹکے لیتے جسم پر کئی گولیاں اس وقت چلائیں جب تک وہ بے حس و حرکت نہیں ہوگئے۔ اس کے بعد سیلز نے دروازے کے قریب سے دو غیر استعمال شدہ ہتھیار برآمد کیے۔

اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ واپس کمرے میں مڑے اور اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ کہیں ہتھیار نہ نکال لیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے بدھ کی رات تک سابق فوجی کی کہانی پر تبصرہ نہیں کیا۔

واشنگٹن میں بی بی سی کے نامہ نگار پال ایڈمز کے مطابق مصنف کا کہنا ہے کہ حکام کےطویل جھڑپ شامل سمیت آپریشن پر دیئے گئے ابتدائی بیانات گمراہ کن ہیں۔

مصنف کے مطابق ایبٹ آباد کارروائی کو ایک بری ایکشن فلم کی طرح سے بیان کیا گیا۔

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یہ کوئی حیران کن انکشاف نہیں ہے کیونکہ کارروائی کے بعد چند روز تک وائٹ ہاؤس کے اپنے موقف میں بظاہر تضاد تھا۔

اس کتاب میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کارروائی میں حصہ لینے والے کمانڈو نے اگرچہ صدر اوباما کی جانب سے آپریشن کرنے کے فیصلے کی تعریف کی لیکن وہ صدر اوباما کے کوئی زیادہ مداح نہیں تھے۔

’آنکھوں دیکھا احوال سرکاری بیان سے متضاد‘