اتوار, ستمبر 23, 2012

یورپ میں آزادی اظہار کا دوہرا معیار

فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔

20 مسلمان ملکوں میں فرانس کے سفارت خانے، قونصلیٹ اور انٹرنیشنل سکول جمعے کے روز بند کردئیے گئے۔ اس ہفتے کے شروع میں فرانس کے ایک مزاحیہ رسالے میں پیغمبرِ اسلام کو کارٹونوں کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ ان کارٹونوں کے خلاف جو ردعمل ہوا ہے اس کے جواب میں فرانس کی حکومت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فرانس میں اظہارِ رائے کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ آزادیٔ تقریر کے معاملے میں، فرانس اور بعض دوسرے یورپی ملکوں نے، دوہرے معیار اپنائے ہوئے ہیں۔

فرانس کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کارٹونوں سے جن لوگوں کے جذبات مجروح ہوئےہیں، وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جا سکتے ہیں۔

اطلاع کے مطابق، کم از کم ایک مسلمان گروپ نے پیرس میں پراسیکیوٹرز کے پاس پہلے ہی فوجداری شکایت درج کرا دی ہے۔ سرکاری وکیلوں کو ابھی یہ طے کرنا ہے کہ کوئی قانونی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔

اس سے قبل جب مذہبی گروپوں کی دل آزاری کرنے کے الزام میں ہفتے وار رسالے Charlie Hebdo کے خلاف مقدمے دائر کیے گئے ہیں، تو ان کا فیصلہ رسالے کے حق میں ہوا ہے۔ چار سال قبل، جب اس رسالے نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں وہ کارٹون شائع کیے جو اس سے پہلے ڈنمارک کے ایک رسالے میں شائع ہوچکے تھے، تو اس نے وہ مقدمہ جیت لیا تھا جو اس کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔ 2008 میں جب اس رسالے نے پوپ کا کارٹون شائع کیا، تو اس کے خلاف شکایت درج کرائی گئی تھی لیکن وہ بھی ناکام رہی تھی۔

فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر ان کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔ فرانس میں مذہبی وجوہ، کافی نہیں ہوتیں۔


وہ کہتے ہیں کہ مذہب پر تنقید کرنا مقبول قومی مشغلہ ہے۔ انگریزی بولنے والے ملکوں میں لوگوں کا خیال ہے کہ فرانس کیتھولک ملک ہے۔ لیکن یہ مفروضہ غلط ہے۔ یہاں بیشتر لوگ سیکولر، لا دین یا دہریے ہیں۔ وہ مذہبی شعائر پر عمل نہیں کرتے۔ اور روایتی طور پر، فرانس میں بائیں بازو کی تحریک نے اپنی بنیاد کیتھولک چرچ کی مخالفت پر رکھی تھی۔ لہٰذا، فرانس میں مذہب کی مخالفت کی روایت بڑی طویل ہے اور یہ مخالفت دوسرے مذاہب تک پھیلی ہوئی ہے۔

Matt Rojansky امریکہ میں قائم ریسرچ تنظیم Carnegie Endowment for International Peace سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں فرانس  کے علاوہ اور بھی ملک ہیں  جہاں  تقریر کی آزادی پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس طرح منافقت اور دو عملی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، الجزائر اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے مسلمان اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ یورپ کے بعض ملکوں میں سر پر حجاب لینا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ یورپ میں آزادیٔ تقریر پر بعض پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ لیکن پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان ملکوں  میں، دوسرے لوگ، ان کے خیال میں، سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں، وہ کارٹون شائع کرسکتے ہیں اور جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ قوم پرست سیاستداں بہت سے باتیں کہتے ہیں، اور ان چیزوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا، مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ یہ سرا سر منافقت ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک یورپ اس تضاد کو دور نہ کرے، مسلمانوں کا استدلال صحیح ہے۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لئے براہ کرم نیچے لنک پر کلک کریں

یورپ میں آزادی اظہار کا دوہرا معیار ہے

جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو شکست دے دی

سری لنکا میں جاری ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو 32 رنز سے شکست دے دی۔ سری لنکا نے پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو جیتنے کے لیے 7 اوورز میں 79 رنز کا ہدف دیا تھا۔ جواب میں سری لنکا 7 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 46 رنز بنا سکی۔ سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے درمیان گروپ سی کا میچ 20 اوورز سے کے بجائے سات سات اوورز کا ہو گیا ہے۔

سری لنکا کی جانب سے کوئی بھی کھلارٹی جم کر نہیں کھیل سکا اور وقفے وقفے سے وکٹیں گرتی رہیں۔ جنوبی افریقہ کی پہلی وکٹ اس وقت گری جب لیوی کو کلاسیکرا نے آؤٹ کیا۔ لیوی نے 4 رنز سکور کیے۔ ہاشم آملہ نے 9 گیندوں میں 16 رنز سکور کیے اور ان کو ہیراتھ نے آؤٹ کیا۔ ہاشم آملہ کے آؤٹ ہونے کے بعد ڈی ویلیئرز نے عمدہ بیٹنگ کی۔ لیکن 65 کے مجموعی سکور پر ڈیویلیئرز 30 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ انہوں نے ایک چوکا اور دو چھکے مارے۔ جنوبی افریقہ کی چوتھی وکٹ 68 کے سکور پر گری جب پلیسی 13 رنز سکور کرکے آؤٹ ہوئے۔ سری لنکا کی جانب سے کلاسیکرا، ملنگا، ہیراتھ اور پریرا نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ اس سے قبل ہمبنٹوٹا میں میزبان ملک سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلے جانے والے میچ میں بارش کے باعث پونے تین گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ اس تاخیر کے بعد دونوں ٹیموں کے کپتان مہیلا جے وردھنے اور اے بی ڈیویلیئرز میدان میں ملے اور فیصلہ کیا کہ اس میچ کو کم کرکے سات سات اوورز کا کر لیا جائے۔

دونوں ٹیمیں پہلے ہی اگلے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کر چکی ہیں۔

جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو شکست دے دی

آسٹریلیا کی 17 رنز سے جیت

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے میچ میں ڈک ورتھ لیوس کے تحت آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو 17رنز سے شکست دے دی۔ ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو جیتنے کے لیے 192 رنز کا ہدف دیا ہے۔ آسٹریلیا نے9.1 اوور میں 100 رنز سکور کیے اور اس کا ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا تھا۔ اس وقت بارش شروع ہو گئی تھی جس کے باعث میچ کو روکنا پڑا۔ آسٹریلیا نے اس جیت کے ساتھ اگلے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرلیا ہے۔ ویسٹ انڈیز کا مقابلہ اب آئر لینڈ کے ساتھ ہوگا۔

آسٹریلیا کی جانب سے شین واٹسن نے 24 گیندوں میں 41 رنز سکور کیے جبکہ مائیکل ہسی نے 19 گیندوں میں 28 رنز سکور کیے اور دونوں آؤٹ نہیں ہوئے۔ اس سے قبل ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم مقررہ 20 اوورز میں 8 کھلاڑیوں کے نقصان پر 191 رنز بنا سکی۔ اوپنر اور ویسٹ انڈیز کے جارحانہ بلے باز گیل نے 33 گیندوں پر 54 رنز بنائے۔ انہوں نے 5 چوکے اور 4 شاندار چھکے مارے۔ ان کا واٹسن نے اپنی ہی گیند پر کیچ پکڑا۔ گیل کے آؤٹ ہونے کے بعد سیمیولز نے عمدہ بیٹنگ کی اور 32 گیندوں میں 3 چوکوں اور 4 چھکوں کی مدد سے نصف سنچری بنائی۔ ان کا کیچ وارنر نے ہوگ کی گیند پر پکڑا۔ وین براوو نے بھی تیز کھیلتے ہوئے 21 گیندوں پر 27 رنز سکور کیے۔

آسٹریلیا کی جانب سٹارک نے تین، واٹسن نے دو اور کمنز، کرسچیئن اور ہوگ نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

آسٹریلیا کی سترہ رنز سے جیت

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے 10 نمایاں ستارے

سری لنکا میں منگل سے چوتھا ٹی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی شروع ہوا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں 12 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور فائنل میچ 7 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔

اس ورلڈ کپ میں کون کون سے ایسے کھلاڑی ہیں جو اپنی اپنی ٹیموں کے لیے اہم کارکردگی دکھا سکتے ہیں یا جن سے ان کی ٹیموں کی امیدیں وابستہ ہیں۔ 

مختلف عالمی ٹیموں کے ٹاپ ٹین پلیئرز کے کریئر پر ایک نظر

سعید اجمل؛

کسی بھی آف سپنر کے اسلحہ خانے میں جو بھی ہونا چاہئے وہ سعید اجمل کے پاس موجود ہے۔ فلائٹ اور رفتار میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنی عام آف سپن کو ’دوسرا‘ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وہ خود کو عصر حاضر کا سب سے خطرناک آف سپنر ثابت کرچکے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں طویل بولنگ کرکے بیٹمسینوں پر دباؤ قائم کرنے کی بات ہو یا محدود اوورز کے محدود مواقع میں خود کو منوانا، دونوں صورتوں میں سعید اجمل کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ شاندار کارکردگی کی کئی مثالیں سعید اجمل کے کیریئر کو قابل ذ کر بنائے ہوئے ہیں۔ عالمی نمبر ایک انگلینڈ کی ٹیم پاکستانی بولنگ کے سامنے سرنگوں ہوئی تو اسے اس مقام تک پہنچانے میں سعید اجمل کی چوبیس وکٹوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔

انگلینڈ کی ٹیم نے اس کارکردگی کو سراہنے کے بجائے ان کے بولنگ ایکشن پر سوالیہ نشان لگا کر تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آئی سی سی نے سعید اجمل کے بولنگ ایکشن کے بارے میں ہر قسم کے شکوک وشبہات مسترد کرکے یہ بحث ہی ختم کردی۔

سعید اجمل کی ایک کے بعد ایک شاندار کارکردگی انہیں ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں تیسرے اور ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر فائز کرچکی ہے لیکن عالمی رینکنگ مرتب کرنے والوں کو ہی سعید اجمل کی شاندار کارکردگی دکھائی نہیں دی اور جب آئی سی سی ایوارڈ کے امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دیتے وقت ان کی 72 وکٹوں کی غیرمعمولی کارکردگی پر ورنن فلینڈر کی 56 وکٹوں کو ترجیح دے دی گئی۔

سعید اجمل اس وقت ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر ہیں اور گزشتہ دو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی طرح اس بار بھی پاکستانی ٹیم حریف بیٹنگ کو قابو کرنے کے لیے سعید اجمل ہی کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہے۔


شاہد آفریدی؛

کرکٹ کو رونق بخشنے والے کرداروں کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے۔ شاہد آفریدی بھی ایک ایسے کرکٹر ہیں جنہوں نے خود شہ سرخیوں میں رہ کر کرکٹ کو بھی ہمیشہ صفحہ اوّل پر رکھا ہے۔ شاہد آفریدی پر ہمیشہ یہی ایک اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ ان میں مستقل مزاجی کی کمی ہے لیکن یہی ان کی خوبی بھی ہے کہ اپنے موڈ اور مزاج کے مطابق کھیل کر وہ سب کے دل جیت لیتے ہیں۔ آفریدی کی بیٹنگ کے بارے میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کردینا۔ بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی پہلی ہی اننگز سے انہوں نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ 37 گیندوں پر تیز ترین سنچری کا عالمی ریکارڈ کئی بلے بازوں کو اُکساتا رہا ہے لیکن ریکارڈ تو نہیں ٹوٹا البتہ ان بلے بازوں کی ہمت ضرور ٹوٹتی رہی ہے۔

شاید ہی کوئی بولر ایسا ہو جو آفریدی کے غیظ وغضب سے محفوظ رہا ہو۔ باؤنڈری چاہے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو اس کے بارے میں سوچے بغیر آفریدی کو گیند فضا میں اچھال کر اسے میدانوں کی چھتوں تک پہنچانا خوب آتا ہے اور یہی عادت انہیں ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں سب سے زیادہ چھکے لگانے والا بیٹسمین بنا چکی ہے۔ شاہد آفریدی بیٹنگ کے ساتھ ساتھ بولنگ میں فتح مند ہیں۔ وہ اپنی لیگ سپن بولنگ سے پاکستان کو کئی اہم میچز جتوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

شاہد آفریدی کا ٹیسٹ ریکارڈ بھی متاثر کن ہے لیکن دو بار ریٹائرمنٹ لے کر انہوں نے خود کو محدود اوورز کی کرکٹ تک محدود کرلیا ہے اور ٹی ٹوئنٹی کی لہر آنے کے بعد سے وہ اس طرز کی کرکٹ میں بہت زیادہ مصروف ہوگئے ہیں۔

شائقین کو جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا پہلا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی یاد ہے جس میں شاہد آفریدی اپنی بولنگ کے بل پر بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ شائقینِ کرکٹ انگلینڈ میں کھیلا گیا دوسرا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی بھی نہیں بھولے ہیں جس کے سیمی فائنل اور فائنل میں ان کی دو شاندار اننگز نے پاکستان کو فاتح بنوا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ توقعات اس بار بھی کم نہیں ہیں لیکن یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ شاہد آفریدی کی کرکٹ ان کے اپنے مزاج کے تابع ہے۔


مہیلا جے وردھنے؛

عصر حاضر کے چند ہی بیٹسمین ہیں جو تینوں فارمیٹس میں اپنی ٹیم کی ضرورت ہیں اور مہیلا جے وردھنے ان میں سے ایک ہیں۔ ٹیسٹ اور ون ڈے میں 10 ہزار سے زائد کا بھاری بھر کم رنز اکاؤنٹ رکھنے والے جے وردھنے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھی کسی طور پیچھے نہیں رہے۔ اس طرز کرکٹ میں وہ تقریباً ہزار رنز بناچکے ہیں جن میں تین ہندسوں کی ایک اننگز بھی شامل ہے جو انہوں نے گزشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کھیلی تھی۔

جے وردھنے کو صورت حال کے مطابق بیٹنگ کرنے میں مہارت حاصل ہے اسی لیے ٹیسٹ کرکٹ میں مڈل آرڈر بیٹسمین کی حیثیت سے سری لنکن ٹیم کو حوصلہ دینے کے بعد وہ محدود اوورز کی کرکٹ میں اوپنر کی حیثیت سے بھی کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ جے وردھنے کی بیٹنگ دلکش سٹروکس سے سجی ہوئی ہے۔ وہ جتنے اعتماد سے کور ڈرائیو کھیلتے ہیں اتنے ہی اعتماد سے کلائی کا استعمال کرتے ہوئے گیند کو آن سائیڈ پر کھیلنے میں انہیں کمال حاصل ہے۔ تیز بولنگ سے مرعوب نہ ہونے والے جے وردھنے کو اپنے درست فٹ ورک اور تیکنیک کے سبب سپن بولنگ کھیلنے میں کبھی دشواری نہیں ہوتی۔

جے وردھنے کے بارے میں ناقدین صرف ایک ہی بات کہتے ہیں کہ انہوں نے جتنی بڑی اننگز سری لنکا میں کھیلی ہیں ملک سے باہر ان کا ریکارڈ اتنا متاثر کن نہیں ہے۔

جے وردھنے نے سری لنکن ٹیم کی کپتانی بھی ذہانت سے کی ہے اور ان کی قیادت میں ٹیم ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلی ہے۔


اوئن مورگن؛

اوئن مورگن کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں لیکن اس بات پر سب کو حیرانی ضرور ہے کہ آخر وہ ان صلاحیتوں کے بھرپور اظہار میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ مورگن بائیں ہاتھ سے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے بیٹسمین ہیں جو گیند کو بھرپور قوت کے ساتھ باؤنڈری کے باہر پھینکنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

مورگن کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ ریورس سوئپ سے رنز ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مورگن نے اپنی بین الاقوامی کرکٹ آئرلینڈ کی طرف سے شروع کی اور سکاٹ لینڈ کے خلاف اپنے پہلے ہی ون ڈے انٹرنیشنل میں وہ صرف ایک رن کی کمی سے سنچری مکمل نہ کرسکے۔ تین سال آئرلینڈ کی نمائندگی کرنے کے بعد مورگن نے انگلینڈ کی طرف سے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ 2010 میں انہوں نے ویسٹ انڈیز بنگلہ دیش اور پاکستان کے خلاف ون ڈے میچوں میں سنچریاں بنائیں اس کے بعد 2 سال میں اگرچہ وہ کوئی سنچری نہ بناسکے لیکن سات نصف سنچریاں بنانے میں ضرور کامیاب ہوئے۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں مورگن نے 4 سنچریاں اور 17 نصف سنچریاں بنائی ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ان کی بنائی گئی تین نصف سنچریوں میں وہ اننگز آج بھی یاد رکھی جاتی ہے جو انہوں نے چیمپئنز ٹرافی میں جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی اور پانچ چھکّوں اور سات چوکوں کی مدد سے پچاسی رنز سکور کیے۔

مورگن نے ٹیسٹ کرکٹ میں 2 سنچریاں اور 3 نصف سنچریاں بنائی ہیں یہ تمام اننگز انہوں نے انگلش میدانوں میں کھیلی ہیں تاہم سپن بولنگ پر ان کی کمزوری کھل کر سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں چھ اننگز میں وہ کوئی قابل ذکر سکور نہ کرسکے جس کے سبب ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کردیے گئے۔

اگرچہ مورگن نے اس سال کھیلے گئے سات ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں انتہائی مایوس کن بیٹنگ کا مظاہرہ کیا ہے اور اسی وجہ سے انہیں عالمی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلی پوزیشن سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود کرکٹ کے پنڈت انہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں انگلینڈ کی ایک بڑی امید کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ خود مورگن کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ کیون پیٹرسن کی غیرموجودگی میں ان سے کتنی زیادہ توقعات وابستہ کی جاچکی ہیں اور یہ وقت ان توقعات پر پورا اترنے کا ہے۔


کرس گیل؛

کوئی بھی بولر اس وقت بولنگ کرنا بالکل پسند نہیں کرتا جب اس کے سامنے کرس گیل ہوں اور ان کا بلا آگ برسا ہورہا ہو۔ کرس گیل کرکٹ کے اس مقبول مقولے پر یقین رکھتے ہیں کہ حملہ بہترین دفاع ہے۔ آنکھوں اور ہاتھوں کی مکمل ہم آہنگی ہی دراصل ان کی بیٹنگ کی سب سے بڑی خوبی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی مرضی کے سکرپٹ پر کہانی تشکیل دیتے ہیں۔ بیٹنگ میں جارحیت کے منفرد انداز کے سبب وہ اُن گنے چنے بیٹسمینوں میں سے ایک ہیں جو پانچ دن کی کرکٹ میں بھی شائقین کی بیزاری دور کرکے انہیں بہترین تفریح فراہم کردیتے ہیں۔

اب تک صرف چار بیٹسمینوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں دو ٹرپل سنچریاں بنائی ہیں اور کرس گیل ان میں شامل ہیں۔ انہوں نے ایک ٹرپل سنچری اس وقت بنائی جب جنوبی افریقی ٹیم 4 سنچریوں کی مدد سے پانچ سو سے زائد کا سکور کرکے ویسٹ انڈیز کو دباؤ میں لانے کا سوچ رہی تھی اور دوسری ٹرپل سنچری گال کے سپن ٹریک پر انہوں نے اس وقت سکور کی جب اجانتھا مینڈس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

ٹیسٹ اور ون ڈے کے بعد جب کرس گیل ٹی ٹوئنٹی کھیلتے نظر آئے تو ایسا لگا کہ جیسے یہ مختصر دورانیے کی کرکٹ انہی کے لیے شروع کی گئی ہو۔ کرس گیل کو 20 اوورز کی بین الاقوامی کرکٹ کی اولین سنچری سکور کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ جب دو ملکوں کی قید سے نکل کر تجارتی منڈی کی شکل اختیار کرگئی تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کاروبار کی کامیابی کرس گیل کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

بھارت کی آئی پی ایل ہو یا آسٹریلیا، بنگلہ دیش اور زمبابوےکی لیگ ہوں، سب نے کرس گیل کو اپنی کامیابی کا ایک اہم ذریعہ تسلیم کیا اور کرس گیل نے بھی اپنے مالکان اور شائقین دونوں کو مایوس نہیں کیا اور اپنی جارحانہ بیٹنگ سے ان مقابلوں میں بجلی بھردی۔

کرس گیل چونکہ ویسٹ انڈین ہیں لہٰذا خون بھی گرم ہے جو ان کی بیٹنگ اور مزاج دونوں سے جھلکتا ہے۔ وہ متعدد بار اپنے کرکٹ بورڈ کے ساتھ تنازعات میں الجھتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں وقتی طور پر بین الاقوامی کرکٹ سے بھی دور رہنا پڑا لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موجودہ عہد کی کرکٹ اگر چند کرکٹرز کی وجہ سے ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ کررہی ہے تو ان میں کرس گیل بھی پیش پیش ہیں۔


لستھ ملنگا؛

متایا مرلی دھرن اور شعیب اختر کے بعد جس بولر کا بولنگ ایکشن سب سے زیادہ موضوع بحث رہا ہے وہ لستھ ملنگا ہیں۔ لیکن مرلی دھرن اور شعیب اختر کی طرح ملنگا پر کبھی کوئی کٹھن وقت نہیں آیا کہ کسی ایمپائر نے ان پر اعتراض کیا ہو یا انہیں اپنے بولنگ کے مختلف زاویوں کی جانچ پڑتال کے لیے کسی طبی معائنے کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

ملنگا اپنے راؤنڈ آرم بولنگ ایکشن کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ٹینس کی گیند سے مسلسل کرکٹ کھیلتے رہنے کے سبب ہے لیکن اب یہی ان کی پہچان ہے۔ خاص کر اس وقت جب یہ ایکشن انہیں یارکر گیند کرانے میں بہت مدد دیتا ہے۔ ملنگا کی یارکر وقاریونس کی یاد تازہ کر دیتی ہیں کہ اگر وکٹ نہیں اُڑی تو بیٹسمین کا پنجہ سلامت نہیں۔ ملنگا جب تیزرفتاری سے بولنگ کرتے تھے تو بلے بازوں کے لیے ان کے باؤنسر کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ مانگا کو دھیمی رفتار کی گیند کا استعمال بھی خوب آتا ہے۔ بولر یہ تمام گر اسی وقت آزما سکتا ہے جب اس کے کندھے مضبوط ہوں اور ملنگا میں یہ مضبوطی گال سے بارہ کلومیٹر اپنے گاؤں کی جھیل میں تیراکی کرکے آئی تھی۔

ملنگا کا ٹیسٹ کیریئر آسٹریلیا کی چھ وکٹوں سے شروع ہوا تھا اور انہیں وہ لمحہ اچھی طرح یاد ہے جب میچ کے بعد ایڈم گلکرسٹ نے سری لنکن ڈریسنگ روم میں جاکر انہیں ایک سٹمپ تحفے میں دی تھی۔

100 وکٹوں پر ٹیسٹ کرکٹ ختم کرنے والے ملنگا نے ون ڈے انٹرنیشنل میں وکٹوں کی ڈبل سنچری مکمل کررکھی ہے۔ لیکن ون ڈے انٹرنیشنل میں جو بات انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی 3 ہیٹ ٹرکس ہیں جن میں سے 2 عالمی کپ مقابلوں میں ہیں۔ ملنگا ایک اور دلچسپ عالمی ریکارڈ کے مالک ہیں اور وہ ہے ون ڈے میچ میں چار مسلسل گیندوں پر چار وکٹیں حاصل کرنا۔

ٹی ٹوئنٹی میں بیٹسمین تیز بولرز کو ہر وقت اپنے اشاروں پر نچانے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن ملنگا نے انہیں بھی تگنی کا ناچ نچایا ہے۔ آئی پی ایل ہو یا چیمپئنز لیگ وہ ایک کامیاب بولر کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔

سری لنکا میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ملنگا کو ایونٹ ایمبسیڈر مقرر کیا گیا ہے۔


برینڈن میکلم؛

برینڈن میکلم کو بولرز پر حاوی ہونا خوب آتا ہے۔ جب وہ کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی طرف سے بیٹنگ کرتے ہیں تو 13 چھکے اور 10 چوکے لگا کر 158 رنز کی ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جب وہ نیوزی لینڈ کی طرف سے آسٹریلوی بولنگ کے سامنے آتے ہیں تو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی دوسری سنچری ریکارڈ بک میں درج ہوجاتی ہے۔

نجی لیگ ہو یا بین الاقوامی میچز، برینڈن میکلم 20 اوورز کی کرکٹ میں اپنی جارحانہ بیٹنگ کے نقش چھوڑنے میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز۔ سب سے زیادہ چوکوں اور سب سے زیادہ چھکوں کے ریکارڈز کے سامنے برینڈن کا نام لکھا ہوا ہے۔ بیس اوورز کی کرکٹ ہی پر کیا موقوف برینڈن ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں بھی کسی طرح پیچھے نہیں رہے ہیں۔ آئرلینڈ کے خلاف ایک سو چھیاسٹھ رنز کی اننگز کھیلتے ہوئے انہوں نے نیوزی لینڈ کی تاریخ کی سب سے بڑی 274 رنز کی ون ڈے پارٹنرشپ قائم کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اوپننگ شراکت کے علاوہ برینڈن نیوزی لینڈ کی مزید تین ریکارڈ ون ڈے پارٹنرشپس میں بھی شریک رہے ہیں۔

برینڈن جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرنے والے بیٹسمین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار وکٹ کیپر بھی ہیں جنہیں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں نیوزی لینڈ کی طرف سے سب سے زیادہ کیچز اور سٹمپ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تاہم بیٹنگ گلوز پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے انہوں نے ٹیسٹ میچز میں وکٹ کیپنگ گلوز اتار دیے ہیں۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں نیوزی لینڈ کی ٹیم راس ٹیلر اور مارٹن گپٹل سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے لیکن سب کو پتہ ہے کہ حریف بولنگ کو پہلا زخم برینڈن میکلم ہی لگاسکتے ہیں۔


یوراج سنگھ؛

یوراج سنگھ کے دوبارہ کرکٹ شروع کرنے کو بہت سے مبصرین ان کی دوسری اننگز سے تعبیر کررہے ہیں لیکن خود یوراج کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ درحقیقت یہ نئی زندگی ہے جو انہوں نے شروع کی ہے۔

گزشتہ سال بھارت کی عالمی کپ کی جیت میں یوراج سنگھ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ایک سنچری اور 4 نصف سنچریوں کے ساتھ ساتھ 15 وکٹوں کی عمدہ کارکردگی انہیں 4 مین آف دی میچ ایوارڈز کے علاوہ ورلڈ کپ کا بہترین کھلاڑی قرار دیئے جانے کا سبب بھی بنی تھی۔ لیکن صرف 7 ماہ بعد جیسے سب کچھ ہی بدل گیا جب یہ پتہ چلا کہ وہ پھیپھڑے کے سرطان میں مبتلا ہیں۔ یوراج سنگھ کو علاج کے لیے امریکہ جانا پڑا اور جتنا وقت بھی ان کا علاج جاری رہا ان کے پرستار اپنی نیک تمناؤں سے ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ جب وہ وطن واپس لوٹے تو نئی زندگی میں بھی کرکٹ کو تلاش کررہے تھے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف چنئی کے ٹی ٹوئنٹی میچ میں ان کی واپسی نے ماحول کو جذباتی بنادیا تھا۔ جب وہ فیلڈنگ کررہے تھے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بیٹنگ میں انہوں نے 26 گیندوں پر 34 رنز سکور کئے لیکن آخری اوور میں ان کی وکٹ گرنے کے بعد بھارت ایک رن سے میچ ہار گیا تاہم یوراج سنگھ یہ پیغام دے گئے کہ وہ ایک بڑے چیلنج کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے زیادہ تر بیٹسمین خود کو دفاعی خول میں بند کرنا پسند نہیں کرتے۔ یوراج سنگھ بھی کھلی فضا کے پنچھی ہیں۔ پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں سٹورٹ براڈ کا چہرہ لوگ ابھی بھی نہیں بھولے ہیں جو اوور کی تمام چھ گیندوں پر چھ چھکے کھانے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی رو پڑیں گے۔

یوراج سنگھ ون ڈے بیٹسمین کی حیثیت سے بین الاقوامی کرکٹ میں آئے تھے لیکن انہیں ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بننے کا بھی پورا پورا موقع دیا گیا۔ انہوں نے اپنی تینوں ٹیسٹ سنچریاں پاکستان کے خلاف سکور کیں لیکن سوئنگ بولنگ اور اعلٰی معیار کی سپن پر کمزوری انہیں ٹیسٹ ٹیم میں مستقل جگہ نہ دلا سکی۔ یوراج سنگھ نے ون ڈے انٹرنیشنل میں ورلڈ کلاس بولنگ کے خلاف 13 سنچریاں سکور کی ہیں اور لیفٹ آرم سپنر کی حیثیت سے بھی جب جب موقع ملا کامیابیاں سمیٹی ہیں۔

ژاک کیلس؛

ژاک کیلس کو جنوبی افریقی بیٹنگ کا بوجھ سنبھالے ہوئے 17 سال ہوچکے ہیں اور اس طویل عرصے میں وہ میچ جتوانے کی کنجی بھی ثابت ہوئے ہیں اور میچ بچانے کی ڈھال بھی۔ ژاک کیلس درست تیکنیک اور مضبوط قوت ارادی کے بل پر بڑی اننگز بہت آسانی سے کھیلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور یہی بات ان کی ٹیم کے حوصلے بڑھا دیتی ہے لیکن اس سے حریف ٹیم کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ جب وہ بولنگ کرتے ہیں تو ان کی رفتار سوئنگ اور باؤنس حریف بیٹسمین کو کسی پل آرام نہیں لینے دیتا۔ جب وہ سلپ میں فیلڈنگ کررہے ہوتے ہیں تو مشکل سے مشکل ترین کیچز بڑی آسانی سے لے کر اپنے بولرز کے چہروں پر مسکراہٹیں لے آتے ہیں۔

کھیل کے تینوں شعبوں میں دسترس نے کیلس کو ایک مکمل کرکٹر بنا رکھا ہے۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 12 ہزار اور ون ڈے میں 11 ہزار سے زائد رنز بناچکے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں اگرچہ انہوں نے 5 نصف سنچریاں بنائی ہیں لیکن اس طرز کی کرکٹ میں اتارچڑھاؤ بھی دیکھے ہیں۔

آئی پی ایل کے پہلے ٹورنامنٹ کے لیے وہ 9 لاکھ ڈالرز کے عوض خریدے جانے والے بنگلور کے مہنگے ترین کرکٹر تھے لیکن کارکردگی اتنی ہی مایوس کن رہی تاہم انہوں نے جیسے ہی خود کو ٹی ٹوئنٹی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا کامیابیاں حاصل کرتے گئے۔ کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی طرف سے کھیلتے ہوئے انہوں نے کئی اہم اننگز کھیلیں اور نئی گیند سے بولنگ کی ذمہ داری بھی بخوبی نبھائی۔ اس سال بھارت کے خلاف جوہانسبرگ کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 61 رنز کی عمدہ کارکردگی نے سلیکٹرز کو کیلس پر دوبارہ اعتماد کرنے پر مجبور کردیا جو 2 سال سے ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے باہر رہے تھے۔

انگلینڈ کے خلاف حالیہ سیریز کے پہلے میچ میں جب 119 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کی 3 وکٹیں 29 رنز پر گر گئی تھیں کیلس نے 48 رنز کی اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو جیت دلادی۔

جنوبی افریقہ نے کیلس کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں اوپنر کی حیثیت سے کھلانے کی منصوبہ بندی تیار کی ہے۔ کیلس 37ویں سالگرہ سے زیادہ دور نہیں لیکن وہ 2015 کا عالمی کپ کھیلنے کی خواہش دل میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہی ایک ایسی جیت ہے جو ابھی تک جنوبی افریقہ سے دور ہے اور یہی کسک کیلس کے دل میں موجود ہے۔


ڈیوڈ وارنر؛

آسٹریلوی کرکٹ کی روایتی جنگجویانہ صفت ڈیوڈ وارنر کی بیٹنگ میں صاف جھلکتی ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت بخوبی لگایا جاسکتا ہے جب ان کے تیز طاقتور شاٹس پر گیند سڈنی اور میلبرن گراؤنڈ کی چھتوں پر جا گرتی ہے اور بولر کوئی اور نہیں برق رفتار شان ٹیٹ ہوں۔

ڈیوڈ وارنر فرسٹ کلاس کرکٹ شروع کرنے سے پہلے ہی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں آسٹریلیا کی نمائندگی کر چکے تھے اور جنوبی افریقہ کے خلاف اس میچ میں انہوں نے صرف 43 گیندوں پر 89 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی۔ آسٹریلوی کرکٹ کی تاریخ میں 1877 کے بعد یہ پہلی مثال تھی کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے بغیر ہی کسی کرکٹر نے بین الاقوامی کرکٹ شروع کی ہو۔ اس چونکا دینے والے آغاز کے بعد آئی پی ایل کا پرکشش معاہدہ وارنر کا منتظر تھا جبکہ آسٹریلوی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں بھی وہ کامیابی کی ضمانت سمجھے گئے۔ 2009 کی چیمپئنز لیگ نیوساؤتھ ویلز نے جیتی لیکن وارنر صرف ایک نصف سنچری بنا سکے۔ گزشتہ سال نیوساؤتھ ویلز کی ٹیم چیمپئنز لیگ کا سیمی فائنل ہاری لیکن وارنر کسی کے قابو میں آنے کے لیے تیار نہ تھے۔ چنئی سپرکنگز اور بنگلور کے خلاف انہوں نے سنچریاں سکور کیں اور ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بنے۔

وارنر کی زیادہ تر کامیابیاں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں رہی ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے مواقع انہیں بہت ہی کم میّسر آئے ہیں لیکن اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میں انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری بنا کر اور اننگز کے اختتام تک ناٹ آؤٹ رہ کر یہ ثابت کردیا کہ ان میں صرف طوفان ہی نہیں ٹھہراؤ بھی ہے البتہ ان کی دوسری ٹیسٹ سنچری ان کے مزاج کے مطابق تھی جو انہوں نے صرف 69 گیندوں پر مکمل کی۔

وارنر نے انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے گزشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں بھی چند اچھی اننگز کھیلیں اور اب سری لنکا میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی ان کے ارادے خطرناک دکھائی دیتے ہیں جس کی جھلک وہ پاکستان کے خلاف دبئی کے تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں دکھا چکے ہیں جس میں انہوں نے صرف 34 گیندوں پر 59 رنز سکور کئے تھے اس اننگز میں 6 چھکے شامل تھے۔

پالیکلے: پاکستان نیوزی لینڈ آج آمنے سامنے

پاکستان کی کرکٹ ٹیم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں اپنا پہلا میچ آج نیوزی لینڈ کے خلاف پالیکلے میں کھیلے گی۔ پاکستانی وقت کے مطابق یہ میچ دوپہر 3 بجے شروع ہوگا۔ اس میگا ایونٹ میں پاکستان ٹیم سب سے زیادہ 6 دن کے انتظار کے بعد پہلی بار میدان میں اترے گی۔

نیوزی لینڈ نے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کو برینڈن مک کیولم کی انتہائی جارحانہ بیٹنگ کے ذریعے آؤٹ کلاس کردیا تھا۔ نیوزی لینڈ کے تیز بالرز کائل ملز اور ٹم سوتھی نے عمدہ بولنگ کرکے پاکستان کو خطرے کا سگنل دے دیا تھا کیونکہ پالیکلے میں جب بادل چھائے ہوں تو تیز بالروں کے چہروں پر رونق آجاتی ہے۔

پاکستانی ٹیم کی پالیکلے سے یادیں خوشگوار نہیں ہیں۔ گزشتہ سال ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف شکست اور اس میچ میں راس ٹیلر کی سنچری وہ ابھی تک نہیں بھولی ہے تاہم نیوزی لینڈ کے کپتان اس سنچری کے لیے وکٹ کیپر کامران اکمل کے شکر گزار تھے جنہوں نے شعیب اختر کی گیند پر کیچ ڈراپ کرکے میچ کا پانسہ ہی پلٹ دیا تھا وہ شعیب اختر کا آخری میچ ثابت ہوا تھا۔

پاکستانی ٹیم کے کپتان محمد حفیظ کا کہنا ہے ’وہ میچ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور ٹیم موجودہ صورت حال پر نظر رکھتے ہوئے اس بڑے چیلنج کے لیے پوری طرح تیار ہے‘۔ پاکستانی بلے بازوں کی حالیہ غیرمستقل مزاج کارکردگی کے بارے میں محمد حفیظ کا کہنا ہے کہ وہ اس پر پریشان نہیں ہیں کیونکہ آسٹریلیا جیسی بڑی ٹیم کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد ٹیم نے کچھ تجربے کیے اور ہر کھلاڑی کو موقع دیا گیا۔

پاکستانی کپتان کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ شاہد آفریدی کا وسیع تجربہ اس ایونٹ میں ٹیم کے کام آئے گا انہوں نے ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں جو شاندار کارکردگی دکھائی ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

محمدحفیظ کے مطابق پاکستانی ٹیم نے ٹیسٹ اور ون ڈے میچوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی میں اس کی غیرمعمولی کارکردگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کھلاڑی آزاد ہوکر کھیلتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا کھل کر مظاہرہ کرتے ہیں۔

پالیکلے: پاکستان نیوزی لینڈ آمنے سامنے

موبائل کے ذریعے ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ وقت ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﯾﮟ

بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ موبائل سے بیٹری نکالیں تو موبائل فون سے وقت اور تاریخ ختم ہوجاتی ہے۔ اگر کبھی آپ کے موبائل میں وقت اور تاریخ ختم یا غلط ہوجائے اور فوری طور پر درست تاریخ اور وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو اپنے موبائل سے ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ وقت ﻣﻌﻠﻮﻡ کرنے کے لئے ایک مفید ٹپ نوٹ کریں، ایسی ٹپ ﺟﺲ کے ذریعے پاکستانی شہری اپنی ﯾﻮ ﻓﻮﻥ ﺳﻢ کے ذریعے صرف 6 پیسے خرچ کرکے نہ صرف درست ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ وقت معلوم کرسکتے ہیں بلکہ نمبر بھی معلوم کرسکتے ہیں۔

اپنے موبائل سے #780* ﮈﺍﺋﻞ ﮐﺮﯾﮟ، ﺁﭖ کے موبائل سکرین پر چار آپشن (تصویر میں ملاحظہ فرمائیں) 1۔ ٹائم، 2۔ ڈیٹ، 3۔ مائی نمبر اور 5۔ ایگزیٹ ظاہر ہوں گے۔ آپشن نمبر 4 نہیں ہے۔ اس طرح ﺁﭖ ﺗﺎﺭﯾﺦ، وقت اور اپنا نمبر معلوم کرسکتے ہیں۔ اس سروس کے لئے صرف 6 پیسے کٹوتی کی جاتی ہے۔

سب سے مقبول غیر ملکی ٹیم

پاکستان کی کرکٹ ٹیم میچ جیتے یا ہارے دونوں صورتوں میں وہ سری لنکا میں سب سے مقبول غیرملکی ٹیم ہے۔ کولمبو کی طرح کینڈی میں بھی پاکستانی ٹیم کے پرستاروں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو اس کا ذکر کرتے ہوئے پرجوش ہوجاتی ہے۔

یہ پرستار چاہے رکشہ ڈرائیور ہوں، دکاندار یا پھر ہوٹل کے ویٹر وہ یہ دیکھ کر کہ آپ پاکستانی ہیں کرکٹ پر بات شروع کردیتے ہیں اور پاکستانی ٹیم کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔

پاکستانی ٹیم کے ان پرستاروں کی گفتگو عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس اور انضمام الحق سے شروع ہوتی ہے اور جب ذکر موجودہ کرکٹرز کا آتا ہے تو ظاہر ہے وہ شاہد آفریدی کو اپنا پسندیدہ ترین کرکٹر کہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

کولمبو میں انگلینڈ کے خلاف وارم اپ میچ کے اختتام پر شائقین کی ایک بڑی تعداد شاہد آفریدی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیےجمع تھی اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ موبائل فون کے کیمرے سے شاہد آفریدی کے ساتھ تصویر بنوا لے لیکن سخت سکیورٹی نے ان کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔

ورلڈ کپ کی طرح ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے موقع پر بھی شہر میں جگہ جگہ مختلف کھلاڑیوں کے بیٹنگ اور بالنگ ایکشن والے کٹ آؤٹ لگے ہوئے ہیں اور ان میں صرف شاہد آفریدی ہی واحد پاکستانی کرکٹرز دکھائی دیتے ہیں۔

سری لنکا کے میدانوں میں جب بھی پاکستانی ٹیم میچ کھیل رہی ہوتی ہے تو شائقین کسی دوسری ٹیم کی نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم کی حمایت کررہے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ صرف اس وقت رک جاتا ہے جب پاکستان کا مقابلہ ان کی اپنی ٹیم سے ہو ایسے میں ان کی ہمدردیاں سری لنکن ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں۔

پاکستان کے دو سابق سپنرز دو مختلف ٹیموں کے کوچنگ سٹاف میں شامل ہو کر سری لنکا آئے ہوئے ہیں۔ لیگ سپنر مشتاق احمد انگلینڈ کی ٹیم کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ ثقلین مشتاق کے تجربے سے بنگلہ دیشی ٹیم فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ثقلین مشتاق کا معاہدہ دسمبر تک ہے۔ اس سے قبل وہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے بالنگ کنسلٹنٹ رہ چکے ہیں۔

ثقلین مشتاق انگلینڈ میں مقیم ہیں لیکن پاکستان کے حالات سے سخت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی یہ ارادہ کیا کہ پاکستان جا کر مستقل سکونت اختیار کر لی جائے تو کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے اور پھر وہ اپنا ارادہ ترک کردیتے ہیں۔

پاکستان کے حالات پر سری لنکن بھی افسوس ظاہر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ جس طرح ان کے ملک میں دہشت گردی اور خون ریزی ختم ہوگئی پاکستان میں یہ کب ختم ہوگی؟

’سب سے مقبول غیر ملکی ٹیم‘