اتوار, اپریل 10, 2016

کَلرکہار ... خوبصورت سیاحتی مقام

کلرکہار ضلع چکوال کا خوبصورت سیاحتی مقام ہے، اور چکوال سے تقریباً 26 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد، لاہور موٹر وے کے ساتھ واقع ہے۔ کلرکہار میں لوکاٹ، ناشپاتی اور انار کے بڑے بڑے باغات کے علاوہ دیگر کئی اقسام کے پھلوں کے درخت کثیر تعداد میں ہیں جن میں کیلے کے درخت پر قابل ذکر ہں۔ ان درختوں سے پھل توڑنے کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ سرکار اس کا ٹھیکہ دیتی ہے اور روپے کماتی ہے، اور ٹھیکیدار کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ان درختوں میں ’’مور‘‘ کھلے عام پھرتے یعنی آزادانہ پھرتے بہت مشہور ہیں۔ پہاڑ ہرے بھرے ہیں، درخت اور جھاڑیاں کثیر تعداد میں ہیں۔ 

کلرکہار میں تخت بابریبہت مشہور جگہ ہے، جو انار کے باغ میں‌ واقع ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کشمیر جاتے ہوئے یہاں ٹھراؤ کیا تھا۔ گرمیوں میں موسم کافی گرم اور سردیوں میں سرد ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار بھی ہے جہاں اکثر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کافی لوگ ہائیکنگ بھی کرتے ہیں۔

لوکاٹ اور انار کے باغات کے ساتھ ہی راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے۔ جھیل جانے کے لئے پہلے صرف ایک طرف راستہ تھا یعنی جہاں سے داخلہ وہیں سے واپسی، چھٹی کے روز گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب صورت حال کافی بہتر ہوگئی ہے، کیوں اب ایک طرف سے جاکر دوسری طرف سے واپسی ممکن ہے۔

چکوال سے کلرکہار اور خوشاب جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی علاقوں میں کافی خطرناک موڑ ہیں جس کے باعث کئی مہلک حادثات ہوچکے ہیں۔ پہلے سڑک کافی تنگ اور خراب حالت میں تھی لیکن اب مناسب حد تک چوڑا کرنے سمیت معیار بھی بہتر ہے۔ پہاڑ کاٹ کر کئی موڑ ختم اور کئی کافی چوڑے کر دیئے گئے ہیں۔ اسلام آباد لاہور موٹروے (ایم ٹو) کی تعمیر سے کلرکہار کی شہرت اور سیاحوں کی آمد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مقامی لوگوں کا روزگار بڑھا اور اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کے اقدامات کیے گئے ہیں، جھیل کے سامنے ریسٹورنٹ اور گیسٹ ہائوسز بنائے گئے، سٹالز اور بچوں کے جھولے بھی لگائے گئے ہیں، جھیل کا راستہ چوڑا کیا گیا اور کشتی رانی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔

کلرکہار سے مشرق کی جانب ایک سڑک چوآسیدن شاہ جانے کے لئے ہے، جس کے راستہ میں مشہور جگہ ’’کٹاس‘‘ ہے جس کے مشہور ہونے کی وجہ وہاں ہندوئوں کے پرانے زمانے کے مندروں کا ایک سلسلہ ہے، اور پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’’گنگا کی آنکھ‘‘ ہے۔ اس علاقہ میں کوئلہ کی بہت ساری کانیں بھی ہیں، اس حوالے سے ایک سرکاری سکول بھی یہاں قائم کیا گیا ہے۔

کلرکہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے سڑک پر سیمنٹ کے کئی کارخانے قائم کئے گئے ہیں، جن میں ’’لفارجے سیمنٹ‘‘ پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کی سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ ہے، اس کا پرانا نام ’’چکوال سیمنٹ فیکٹری‘‘ تھا جو مصر کی ایک کمپنی نے خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ ’’ڈی جی سیمنٹ‘‘ اور ’’بیسٹ وے سیمنٹ‘‘ کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں، ’’ڈی جی خان سیمنٹ‘‘ اور ’’بیسٹ وے سیمنٹ‘‘ کے کارخانے پرویز مشرف کے دور میں‌ قائم ہوئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔