اتوار, اپریل 10, 2016

مجھے پورا یقین تھا تنہا نہیں چھوڑو گے



جناب میرا دوست میدان جنگ سے نہیں لوٹا، میں اس کو ڈھونڈنے جانا چاہتا ہوں اجازت دیجیئے-

کمانڈر نے کہا:
میں تمہیں وہاں جانے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا-
کمانڈر نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں زندگی کسی ایسے شخص کی وجہ سے خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتا جس کے بارے میں قوی احتمال ہے کہ وہ مارا جا چکا ہے-
کمانڈر کی بات اپنی جگہ درست تھی مگر سپاہی اس سے نہ تو قائل ہوا اور نہ ہی اس نے کوئی اہمیت دی کہ اس کا میدان جنگ میں جانا اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، وہاں سے بھاگ کر سیدھا میدان جنگ میں پہنچ گیا جہاں گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا-

گھنٹے بعد زخموں سے چور لڑکھڑاتا کاندھے پر دوست کی لاش اٹھائے آتا دکھائی دیا تو کمانڈر نے بھاگ کر اس کے کندھے سے لاش اتاری، اسے سہارا دے کر زمین پر بٹھایا اور تاسف کرتے ہوئے کہا:
میں نے تمہیں کہا تو تھا کہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر محض ایک لاش تلاش کرنے جانا اس وقت ہر گز دانائی نہیں ہوگی مگر تم نے میری بات نہیں مانی اور دیکھ لو اپنا یہ حشر کروا کے لوٹے ہو- سپاہی نے کراہتے ہوئے مختصراً کہا:
نہیں جناب، جب میں اپنے دوست کے پاس پہنچا تو وہ ابھی بقید حیات تھا-
اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا تھا:
مجھے پورا یقین تھا کہ تم مجھے یوں تنہا مرنے کے لیے نہیں چھوڑو گے۔
سپاہی نے لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ اپنی بات پوری کرتے ہوئے کہا: میں نے اپنی دوست کی آنکھوں میں اپنی مردانگی پر ناز اور دوستی سے وفا کرنا پڑھا تھا جو میرے لیے کافی ہے-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔