جمعرات, دسمبر 13, 2012

کبھی یاد آئے تو پوچھنا

کبھی یاد آئے تو پوچھنا

ذرا اپنی خلوتِ شام سے

کیسے عشق تھا تیری ذات سے

کیسے پیار تھا تیرے نام سے

ذرا یاد کر کہ وہ کون تھا؟

جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا

وہ جو جی اٹھا تیرے نام سے

وہ جو مرمٹا تیرے نام سے

ہمیں بے رخی کا نہیں گلہ

کہ یہی وفائوں کا ہے صلہ

مگر ایسا جرم تھا کون سا؟

گئے ہم دعا و سلام سے

نہ کبھی وصال کی چاہ کی

نہ کبھی فراق میں آہ کی

کہ میرا طریقہ بندگی ہے جدا

طریقہ عام سے

2 تبصرے:

  1. بہت خوب

    بے لوث وفاؤں کا صلہ یوں نہ دیا کر
    اپنوں کو تو نزدیک سے پہچان لیا کر
    ہر وقت نہ اپنی ہی طرف دیکھ کے خوش ہو
    اوروں کی بھی تکلیف کا احساس کیا کر

    جواب دیںحذف کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔