دنیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
دنیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ, دسمبر 14, 2012

عالمی دن منائے جانے کی تاریخیں

  • 02۔ فروری آب گاہوں کا عالمی دن 
  • 04۔ فروری سرطان (کینسر) کے خلاف آگاہی کا عالمی دن 
  • 06۔ فروری عورتوں کے اعضاء کاٹنے کے خلاف عالمی دن 
  • 10۔ فروری عدم تشدد کا عالمی دن 
  • 13۔ فروری ریڈیو کا عالمی دن 
  • 20۔ فروری سماجی انصاف کا عالمی دن 
  • 21۔ فروری مادری زبانوں کا عالمی دن 
  • 22۔ فروری سکاؤٹ تحریک کا عالمی دن 
  • 08۔ مارچ خواتین کا عالمی دن 
  • 14۔ مارچ دریاﺅں کی آگاہی کا عالمی دن
  • 20۔ مارچ تھیٹر کا عالمی دن 
  • 22۔ مارچ پانی کا عالمی دن 
  • 23۔ مارچ موسمیات کا عالمی دن 
  • 24۔ مارچ تپدق (ٹی بی) کا عالمی دن 
  • 07۔ اپریل صحت کا عالمی دن 
  • 17۔ اپریل ہیمو فیلیا کا عالمی دن 
  • 21۔ اپریل سائنسی ایجادات اور تخلیقات کا عالمی دن 
  • 22۔ اپریل زمین کا عالمی دن 
  • 23۔ اپریل کتابوں کا عالمی دن 
  • 25۔ اپریل ملیریا سے بچاﺅ کا عالمی دن 
  • 26۔ اپریل حقوق ملکیت دانش کا عالمی دن (Intellectual Property Day) 
  • 01۔ مئی مزدوروں کا عالمی دن 
  • 03۔ مئی دمہ سے آگاہی کا عالمی دن 
  • 12۔ مئی نرسوں کا عالمی دن 
  • 17۔ مئی بلند فشار خون کا عالمی دن 
  • 22۔ مئی حیاتیاتی تنوع کا عالمی دن 
  • 23۔ مئی کچھوﺅں کا عالمی دن 
  • 31۔ مئی تمباکو نوشی کا عالمی دن 
  • 04۔ جون جارحیت کا شکار بچوں کا عالمی دن 
  • 05۔ جون ماحولیات کا عالمی دن 
  • 08۔ جون سمندروں کا عالمی دن 
  • 12۔ جون محنت کش بچوں کا عالمی دن 
  • 14۔ جون خون عطیہ کرنے کا عالمی دن 
  • 20۔ جون پناہ گزینوں کا عالمی دن 
  • 26۔ جون منشیات کے خاتمے کا عالمی دن 
  • 11۔ جولائی آبادی کا عالمی دن 
  • 28۔ جولائی ہیپاٹائٹس سے آگاہی کا عالمی دن 
  • 09۔ اگست کو قدیم مقامی باشندوں کا عالمی دن
  • 12۔ اگست نوجوانوں کا عالمی دن
  • 04۔ ستمبر حجاب کا عالمی دن 
  • 08۔ ستمبر خواندگی کا عالمی دن 
  • 08۔ ستمبر پیرالمپک کا عالمی دن 
  • 16۔ ستمبر اوزون کے بچاؤ کا عالمی دن 
  • 21۔ ستمبر امن کا عالمی دن 
  • 27۔ ستمبر سیاحت کا عالمی دن 
  • 29۔ ستمبر امراض قلب کا عالمی دن 
  • 02۔ اکتوبر عدم تشدد کا عالمی دن 
  • 05۔ اکتوبر اساتذہ کا عالمی دن
  • 10۔ اکتوبر ذہنی صحت کا عالمی دن
  • 11۔ اکتوبر بیٹی سے محبت کا عالمی دن
  • 12۔ اکتوبر انڈوں کا عالمی دن 
  • 13۔ اکتوبر قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن 
  • 15۔ اکتوبر نابینا افراد کا عالمی دن 
  • 16۔ اکتوبر خوراک کا عالمی دن 
  • 17۔ اکتوبر غربت کا عالمی دن 
  • 24۔ اکتوبر پولیو کا عالمی دن 
  • 24۔ اکتوبر اقوام متحدہ کا عالمی دن 
  • 28۔ اکتوبر جلد کی بیماری سورائسز سے آگہی کا عالمی دن 
  • 14۔ نومبر ذیا بیطس کا عالمی دن 
  • 15۔ نومبر سگریٹ نوشی سے انکار کا عالمی دن 
  • 16۔ نومبر برداشت اور رواداری کا عالمی دن 
  • 17۔ نومبر طالب علموں کا عالمی دن 
  • 18۔ نومبر نمونیہ کے خلاف آگہی کا عالمی دن 
  • 19۔ نومبر مردوں کا عالمی دن 
  • 20۔ نومبر بچوں کا عالمی دن 
  • 21۔ نومبر ماہی گیروں کا عالمی دن 
  • 21۔ نومبر ٹی وی کا عالمی دن 
  • 25۔ نومبرعورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن 
  • 30۔ نومبر کمپیوٹر سیکورٹی کا عالمی دن 
  • 01۔ دسمبر ایڈز کا عالمی دن 
  • 03۔ دسمبر معذوروں کا عالمی دن 
  • 05۔ دسمبر رضا کاروں کا عالمی دن 
  • 07۔ دسمبر شہری ہوا بازی کا عالمی دن 
  • 09۔ دسمبر انسداد بدعنوانی کا عالمی دن 
  • 10۔ دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن 
  • 11۔ دسمبر پہاڑوں کا عالمی دن
  • 13۔ دسمبر ہاتھ دھونے کا عالمی دن
  • 18۔ دسمبر مہاجر مزدوروں کا عالمی دن
  • 20۔ دسمبر انسانی یک جہتی کا عالمی دن


*** پاکستان میں ہر سال مئی کا دوسرا اتوار ماؤں کا دن منایا جاتا ہے۔

*** ہر سال جولائی کے پہلے ہفتہ کے روز امداد باہمی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

*** دنیا بھر میں ہر سال ابتدائی طبی امداد کا دن ستمبر کے دوسرے ہفتے میں منایا جاتا ہے۔

*** اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی یوم سکونت ہر سال اکتوبر کے پہلے پیر منایا جاتا ہے۔

*** اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو ہر سال نومبر کی تیسری جمعرات دنیا بھر میں فلسفے کا عالمی دن مناتا ہے۔

*** اقوام متحدہ کے تحت ہر سال نومبر کا تیسرا اتوار دنیا بھر میں ٹریفک حادثات کے شکار افراد کی یاد میں عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اتوار, دسمبر 02, 2012

ملالہ یوسف زئی پاپولر چوائس

ملالہ یوسف زئی
لندن — معروف ہفت روزہ جریدہ ٹائم نے ’پرسن آف دا ائیر‘ منتخب کرنے کے لیے چالیس شخصیات اور خیالات پر مشتمل ایک فہرست شائع کی ہے۔ جس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی پندرہ سالہ ملالہ یوسف زئی کا نام بھی شامل ہے۔ برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کے مطابق سال 2012 کے لیے میگزین نے ایسی شخصیات اور خیالات کو منتخب کیا ہے جو بارہ مہینوں کے دوران اچھے یا برے حوالے سے سب سے زیادہ خبروں کا حصہ بنے ہوں۔ ملالہ کے علاوہ اس فہرست کی دیگر شخصیات میں امریکی صدر باراک اباما، مصر کے صدر محمد مرسی، شام کے صدر بشارالاسد، امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن، مٹ رومنی، سابق امریکی صدر بل کلنٹن، گنگم سٹائل پی ایس وائی اور کئی اہم نام شامل ہیں۔

ٹائم میگزین ہر سال کے اختتام پر پرسن آف دا ائیر کا انتخاب ایک عوامی پولنگ یا رائے عامہ کے ذریعے کرتا ہے، تاہم آخری فیصلے کا اختیار میگزین کے ایڈیٹر کے پاس ہوتا ہے۔ اب تک مصر کے صدر محمد مرسی کو ڈیفینٹلی اور نو وے دونوں ہی کالموں میں تقریباً ایک ہی تعداد میں ووٹ ملے ہیں شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے ڈکٹیٹر کم جونگ اون نےسب سے زیادہ ووٹ ڈیفینٹلی کے کالم میں حاصل کیے، جب کہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حق مانگنے پر سوات میں طالبان کی گولی کا نشانہ بننے والی بہادر ملالہ کو تقریباً 70 فیصد لوگ سال 2012 کے لیے پرسن آف دا ائیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ نا قدین کی رائے میں بھی ملالہ یوسف زئی پاپولر چوائس کے طور پر سامنے آئی ہے۔

سال 1928ء سے شائع ہونے والے میگزین کی روایت ہے کہ سال کے آخری شمارے کا سرورق ’پرسن آف دا ائیر‘ کی تصویر سے سجا ہوتا ہے اور اندر سپیشل کور سٹوری اس جریدے کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ ٹائم میگزین کے سرورق پر تین مرتبہ پرسن آف دا ائیر بننے والی شخصیت امریکی صدر بل کلنٹن کی ہے۔ پولنگ کا اختتام 12 دسمبر رات بارہ بجے ہو جائے گا جبکہ 14 دسمبر کو میگزین کے ایڈیٹر کی جانب سے منتخب پرسن آف دا ائیر کے نام کا اعلان کیا جائے گا ۔

کیا ملالہ بنے گی ٹائم میگزین کی پرسن آف دا ائیر

اتوار, اکتوبر 07, 2012

آئن سٹائن سے بھی زیادہ ذہین ۔۔ اولیویا ماننگ

اولیویا ماننگ
برطانیہ کے شہر لیور پول کی 12 سالہ طالبہ نے آئی کیو کے امتحان میں 162 پوائنٹس حاصل کر کے ذہانت کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس کا یہ سکور نظریہ اضافیت کے بانی آئن سٹائن اور موجودہ دور کے عالمی شہرت یافتہ سائنس دان پروفیسر سٹیفن ہاکنگ سے دو پوائنٹ زیادہ ہے۔ اس نئے عالمی ریکارڈ کے بعد اولیویا ماننگ کا نام ذہین ترین افراد کے کلب میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ماہرین نفسیات کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ذہین ترین افراد کی تعداد دو فی صد سے بھی کم ہے۔

​​اولیویا کا تعلق لیور پول کے علاقے ایورٹن سے ہے اور وہ نارتھ لیور پول اکیڈمی کی طالبہ ہیں۔ ذہانت کے امتحان میں انتہائی بلند سکور حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے سکول کی انتہائی پسندیدہ شخصیت بن گئی ہیں۔ جب اولیویاسے اس شاندار کامیابی پر ان کے تاثرات پوچھے گئے تو انہوں نے کہا کہ مجھے آئی کیو ٹیسٹ میں اپنا سکور دیکھ کر یقین نہیں آیا اور ایسے لگا جیسے میرے بولنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے اور میرے پاس کچھ کہنے کو ایک بھی لفظ نہیں تھا۔

اس سوال کے جواب میں ذہانت کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنے کے بعد ان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے تو اولیویا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سکول کے بہت ساتھیوں نے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میں ہوم ورک میں ان کی مدد کیا کروں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں چیلنجز کا سامنا کرنا پسند ہے اور سوچ بچار کرنا اچھا لگتا ہے۔

سکول کی پرنسپل کے سکیو نے اولیویا کی شاندار کامیابی کو اپنے سکول کے لیے ایک بڑا اعزاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کے انتہائی ذہین افراد کے کلب میں ہمارے سکول کی ایک طالبہ کی شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ نئی نسل میں بہت ٹیلنٹ ہے اور وہ مستقبل میں دنیا کو آگے لے جانے اور بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

لیور پول کے علاقے ناریس گرین ہاؤسنگ سٹیٹ رہنے والی اولیویا کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ اولیویا نے بتایا کہ ان کی یاداشت بہت اچھی ہے۔ جو چیز ان کی نظر سے گذرتی ہے فوراً یاد ہوجاتی ہے۔ اولیویا اس ٹیم کی رکن ہیں جو سکول کا وقت ختم ہونے کےبعد طالب علموں کو پڑھائی میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اولیویا دوسرے طالب علموں کو خاص طور پر ریاضی کے سوال حل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ وہ سکول کی ڈرامہ کلب کی بھی ممبر ہیں ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ڈائیلاگ دوسروں کے مقابلے میں بہت جلد اور کم وقت میں ازبر کرلیتی ہیں۔

اسی سکول کی ایک اور طالبہ لورین گانن نے، جن کی عمر 12 سال ہے، آئی کیو کے ٹیسٹ میں 151 پوانٹس حاصل کیے ہیں ان کا نام بھی دنیا کے ذہین ترین افراد کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔

آئی کیو کیا ہے؟
آئی کیو ذہانت کی پیمائش کا ایک ٹیسٹ ہے۔ یہ انگریزی الفاظ Intelligence quotient کا مخفف ہے۔ کئی مراحل پر مشتمل اس امتحان میں ریاضی، روزمرہ سائنس، زبان، سماجی سوجھ بوجھ، پیچیدہ مسائل کے حل کی صلاحیت اور دیگر کئی شعبوں میں مہارت کا جائزہ لے کر ذہانت کی عمومی سطح کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ ذہانت کا اوسط معیار ایک سو پوائٹس ہیں۔ سو سے کم سکور حاصل کرنے والے ذہنی لحاظ سے کمزور تصور کیے جاتے ہیں، جب کہ پوانٹس سو کے ہندسے سے جتنے آگے بڑھتے جاتے، اسے اتنا ہی ذہین سمجھا جاتا ہے۔

نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا آئی کیو سکور 70 اور 130 کے درمیان ہوتا ہے۔ اس گروپ کے افراد کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 95 فی صد ہے۔ دنیا کی کل آبادی کے دو تہائی افراد کا آئی کیو 85 اور 115 کے درمیان ہے، جب کہ ذہانت کے پیمانے پر 130 سے زیادہ پوانٹس حاصل کرنے والے محض دو فی صد ہیں۔

ذہانت کے مروجہ امتحانوں کا آغاز 1905ء کے لگ بھگ ہوا جسے ایک فرانسیسی ماہر نفسیات الفرڈ برنٹ نے ترتیب دیا تھا، جس میں بعدازاں دوسرے ماہرین نے کئی اضافے کیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہانت کا خواندگی سے گہرا تعلق ہے۔ خواندہ معاشروں میں آئی کیو کا عمومی اوسط زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہناہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی ترقی آئی کیو ذہانت کے اوسط معیار میں اضافہ کررہی ہے اور گذشتہ چند عشروں سے ہر دس سال میں اوسط آئی کیو تین پوائنٹ بڑھ رہا ہے۔

​​آئن سٹائن نے کبھی آئی کیو ٹیسٹ نہیں دیا۔ مگر ان کے علم اور ذہنی صلاحتیوں کی بنا پر ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ ان کا سکور کم ازکم 160 تھا۔

اچھے آئی کیو کا حامل شخص عموماً ایک کامیابی زندگی گذارتا ہے کیونکہ اس میں حالات کا سامنا کرنے کی بہتر صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن آئی کیو کا اچھا سکور ہمیشہ ہی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا کیونکہ کامیاب زندگی گذرانے میں کئی اور عوامل بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح کم آئی کیو کے حامل افراد بھی ہمیشہ ناکام نہیں رہتے، بلکہ اکثراوقات وہ زیادہ کامیاب زندگی گذارتے ہیں۔ آئی کیو ٹیسٹ صرف مخصوص ذہنی صلاحیتوں کو پرکھتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ زیادہ تر انگریزی میں ہیں۔ دوسری زبانیں بولنے والے افراد محض انگریزی میں کم مہارت کی وجہ سے وہ سکور حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ تاہم یہ ٹیسٹ کسی بھی شخص کی ذہانت کا ایک عمومی خاکہ پیش کرتے ہیں اور اس پیمانے پر اکثر لوگ پورے اترتے ہیں۔

آئن سٹائن سے بھی زیادہ ذہین ۔۔ اولیویا ماننگ

بدھ, ستمبر 19, 2012

سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں


سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

واشنگٹن — تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا ایک مدت سے سائنس دانوں کی آرزو رہی ہے۔ سائنسی اندازوں کے مطابق تخلیقِ کائنات کا واقعہ لگ بھگ 14 ارب سال پہلے پیش آیا تھا۔ اب اتنے پرانے واقعے کی کھوج لگانا کچھ آسان کام تو ہے نہیں، اسی لیے ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان ایک مصنوعی (ورچوئل) کائنات تخلیق دے کر ’بِگ بینگ‘ کا تجربہ دہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

امریکی محکمہ توانائی کی ’ارگون نیشنل لیبارٹری‘ سے منسلک ماہرینِ طبیعات دنیا کے تیسرے تیز ترین کمپیوٹر کی مدد سے ’بِگ بینگ‘ کے اس تجربے کو دوبارہ دہرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس سے انہیں امید ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

ایک مدت تک سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات ٹیلی سکوپوں کے ذریعے اندھیرے آسمانوں کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور اس مشق کے ذریعے انہوں نے کائنات کے نقشے تیار کیے ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے کائنات اور کہکشاؤں کے ان نقشوں کو حقیقت سے مزید ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی ہے۔

اب انہی آسمانی نقشوں کی مدد سےماہرین نے ’ارگون میرا سپر کمپیوٹر‘ پر ایک مصنوعی کہکشاں تخلیق کی ہے جس پر وہ اب تک کا سب سے ہائی ریزولوشن والا ’بِگ بینگ‘ تجربہ کریں گے اور کائنات میں مادے کی تقسیم کی حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔

سلمان حبیب اس منصوبے کے قائدین میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں نے اس بڑے پیمانے پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ سلمان حبیب کے بقول کائنات کی تخلیق کا راز سمجھ میں آجانے سے پوری سائنس سمجھی جاسکتی ہے۔

اس منصوبے کے ایک اور قائد کیٹرن ہیٹمین کے مطابق تجربے کے دوران میں مختلف اوقات میں کائنات کی مختلف ہیئتوں کی تصویروں اور موویز سے مدد لی جائے گی۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس تجربے سے ’ڈارک میٹر‘ یا ’تاریک مادے‘ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں مدد ملے گی۔ ’ڈارک میٹر‘ مادے کی ایک خیالی قسم ہے جس کے بارے میں ماہرین کا گمان ہے کہ کائنات کا بیش تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔

سلمان حبیب کہتے ہیں خلا کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ یا تو رکی ہوئی ہے یا ایک مخصوص شکل میں موجود ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی خلائیں تخلیق پارہی ہیں۔

سلمان کہتے ہیں کہ کائنات میں توسیع کا فلسفہ آئین سٹائین کی 'تھیوری آف ریلیٹویٹی' سے بھی تقویت پاتا ہے لیکن اس نظریے کے مطابق اس توسیعی عمل کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سست پڑجانا چاہیے تھا۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور 2011ء میں طبعیات کا 'نوبیل انعام' حاصل کرنے والی تحقیق اور دیگر مشاہدوں سے یہ پتا چلا ہے کہ کائنات کی توسیع کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔

سلمان حبیب کے مطابق اس راز پر تاحال پردہ پڑا ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن کئی سائنس دانوں نے اس گمان کا اظہار کیا ہے کہ کائنات کی اس توسیعی عمل کے پیچھے درحقیقت 'تاریک توانائی' یا 'ڈارک انرجی' کی قوت موجود ہے۔

'ڈارک میٹر' کی طرح 'ڈارک انرجی' بھی توانائی کی ایسی قسم ہے جس کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 70 فی صد کائنات اس توانائی پر مشتمل ہے اور امید ہے کہ یہ تجربہ 'ڈارک انرجی' کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے گا۔

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

ہفتہ, اگست 18, 2012

ندال کے خلاف کورٹ مارشل کی سماعت روک دی گئی

ریاست ٹیکساس کےشہر فورٹ ووڈ میں قائم مسلح افواج کی ’کورٹ آف اپیل‘ نے میجر ندال حسن کےخلاف جاری کورٹ مارشل کی کارروائی غیرمعینہ مدت کے لیے روک دی ہے، تاکہ یہ طے کیا جاسکے آیا عدالت کی سماعت کے دوران ملزم کو کلین شیو کے ساتھ حاضر ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟

مروجہ فوجی ضابطوں کے تحت، بغیر شیو کیے کورٹ مارشل عدالت کے سامنے حاضر ہونا خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

کورٹ مارشل جج، کرنل گریگری گراس اپنے نکتہٴ اعتراض میں کہہ چکے ہیں کہ بغیر داڑھی منڈائے ندال کی عدالت کی کارروائی میں شرکت غیرقانونی ہے اور عدالت پانچ مختلف مرحلوں پر ندال کو توہین عدالت کا قصور وار ٹھہرا چکی ہے۔

سماعت کی معطلی کے دوران، عدالت حسن سے کہہ چکی ہے کہ وہ اپنا مطمعٴ نظر پیش کریں۔

بیس اگست کو پینل کےچناؤ سے قبل، استغاثے اور دفاعی وکلا کو بقیہ معاملات پر اپنا مدعا پیش کرنا تھا۔

کورٹ آف اپیل جب بھی التوا کے احکامات ختم کرے گی، گراس سماعت کی نئی تاریخوں کا باضابطہ اعلان کریں گے۔

اس سے قبل، عدالت نے وکیل صفائی کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حسن کے خلاف مبینہ تعصب برتنے پر گراس کو چاہیئے تھا کہ سب سے پہلے وہ اپنے آپ کو سماعتی کارروائی کے لیے نااہل قرار دیتے۔
 

ہفتہ, جولائی 28, 2012

ایران نے خلیج فارس میں جدید کشتیوں اور سب میرینز کی تعداد بڑھا دی

واشنگٹن (آن لائن) ایران نے کسی بھی امریکی حملے سے نمٹنے کے لئے خلیج فارس میں جدید کشتیوں اور سب میرینز کی تعداد بڑھا دی ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا اور مشرق وسطیٰ کے تجربہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے یہ فیصلہ امریکی بحریہ کی جانب سے کسی بھی حملے کی صورت میں تیزی کے ساتھ امریکی جنگی کشتیوں کو تباہ کرنے کی غرض سے کیا ہے۔

منگل, جولائی 24, 2012

اسرائیل:خودسوزی کرنے والے کی حالت تشویشناک

سنیچر کو ایک ہزار سے زائد افراد نے موشے سلمان کے لیے دعائیہ تقریب میں شرکت کی تھی
 اسرائیل کے شہر تل ابیب میں خودسوزی کرنے والے معذور شہری کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔ یہ معذور شہری ایک سابق فوجی ہے اور اس نے سابق فوجیوں کی بحالی کے ذمہ دار افسران سے تنازع کے بعد اتوار کو ایک بس سٹاپ پر خود کو آگ لگا لی تھی۔

اسرائیلی پولیس کے مطابق خودسوزی کا یہ واقعہ یہود کے علاقے میں پیش آیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ راہ گیروں نے متاثرہ شخص کو لگی آگ تو بجھائی لیکن اس وقت تک وہ اسّی فیصد جل چکا تھا۔

اس شخص نے ایک ہفتہ قبل خودسوزی کرنے والے ایک اور اسرائیلی شہری موشے سلمان کی آخری رسومات سے کچھ دیر قبل خود کو آگ لگائی۔ موشے سلمان نے عدم مساوات کے خلاف ایک ہفتہ قبل خودسوزی کرلی تھی اور وہ ہسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔


سنیچر کو ایک ہزار سے زائد افراد نے موشے سلمان کے لیے دعائیہ تقریب میں شرکت کی تھی۔ موشے سلمان کی خودسوزی سے اسرائیل میں بےچینی کی لہر دوڑ گئی تھی اور وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے اسے ’انسانی المیہ‘ قرار دیا تھا۔

اسرائیل میں گزشتہ موسمِ گرما کے بعد عدم مساوات اور معاشی مشکلات کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں جن میں ہزاروں افراد شریک ہوتے رہے ہیں۔

اسرائیل:خودسوزی کرنے والے کی حالت تشویشناک

دنیا کا تصور ۔۔۔ ’’آہیں، سسکیاں، بھوک، پریشانی، جنگیں، تباہی‘‘

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ دنیا میں سازشیں ہی سازشیں ہیں، ہر شخص اقتدار چاہتا ہے، ہر شخص شہنشاہ ہے، پُرہوس اور ڈاکو ہے، زندگی کس قدر غیرمحفوظ ہے۔ بازاروں، گلیوں اور سڑکوں پر موت گھومتی ہے، انسانی زندگی بے حقیقت ہے، کوئی اس کا احترام نہیں کرتا، کوئی قدر نہیں، کوئی اخلاق نہیں، کوئی کسی کا دوست نہیں۔

 کیا لوگوں کا مذہب دولت نہیں بن چکا ہے؟ ایمان ہی دولت، جگہ جگہ دولت کی پوجا ہوتی ہے اور زرپرستی میں ایمان مکمل ہوتا ہے۔ ایمان میں کھوٹ ہے یا دولت کے لئے سب کچھ، اخلاقیات تک بھول گئے ہیں، انسانوں کے نزدیک دولت سے بڑھ کوئی چیز نہیں رہی، دولت کے حصول کے لئے سب کچھ بھول بیٹھے ہیں، کوئی رشتہ، کوئی تہذیب نہیں، دولت ہی خدا ہے، زرپرستی، ہوس پرستی کے علاوہ کسی اور معبود کی پوجا نہیں کی جاتی۔

کیا دنیا تباہی کے نزدیک ہے؟ اگر نہیں تو زندگی کا وجود کیا ہے؟ ’’آہیں، سسکیاں، بھوک، پریشانی، جنگیں، تباہی۔‘‘ یہ سب جمع کردی جائیں تو آج کی دنیا کا تصور مکمل ہوجاتا ہے۔

جمعرات, جولائی 19, 2012

لمبے، گھنیرے بالوں والی روسی لڑکی چھا گئی جگ آکاش پر

ایلیزاویتاگولووانووا
چکاچوند سے بھرپور ایک بین الاقوامی سرگرمی یعنی ”حسینہ عالم-2012“ کے انتخاب کو پورا ایک سال پڑا ہے۔ اس سلسلے کا یہ باسٹھواں واقعہ 18 اگست کو چین کے شہر عوردوس میں ہوگا۔ اس مقابلے میں روس کی نمائندگی، قومی مقابلہ حسن ”مس رشیا-2012“ جیتنے والی 19 سالہ ایلیزاویتاگولووانووا کریں گی۔

طالبہ، مستعد اور بس حسین، یہی لیزا گولووانووا کے اوصاف ہیں، جو امتحانات میں مسلسل اعلٰی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، کئی ذہنی مقابلے جیت چکی ہیں اور مرکزی روس کے صوبہ سمولنسک کے شہر سفانوو کی ایک خوبصورت لڑکی ہیں۔ قد ان کا ہے ایک میٹراور اسّی سنٹی میٹر سے کچھ ہی کم، بدن انتہائی متناسب اور اپنے گھنیرے اور لمبے بالون کو وہ روس کی خاص چوٹی میں گوندھ لیتی ہیں۔ اس کے چاہنے والوں نے اسے اس کے ان بالوں کی وجہ سے ہی لمبے، گھنیرے بالوں والی روسی لڑکی کا نام دیا ہے۔ اس کے برعکس وہ خود اپنے خدوخال میں کوئی خاص بات نہیں دیکھتی ہیں، یقین کیجیے اکیسویں صدی کی حسین لڑکیوں میں انکسار بہت ہی نایاب صفت ہے۔

ایلیزاویتاگولووانووا قانون کی طالبہ ہیں۔ روس کی یہ حسین ترین لڑکی نہ تو کوئی اعلٰی مقام پانے کا خواب دیکھتی ہیں اور نہ ہی شعبہ قانون میں اپنا کیریر بنانے کا۔ ”میری خواہش ہے کہ میں ٹیلیویژن پر اپنی صلاحیت آزماؤں لیکن یہ کبھی نہیں کہہ سکوں گی کہ وہاں میرا کل سے انتظار ہونے لگے گا“۔

صاف ظاہر ہے کہ صحافیوں نے ان سے ذاتی سوال پوچھنے سے اجتناب نہیں کیا تاہم انہیں ایک بہت دلچسپ جواب سننے کو ملا، جو ایک طرح سے ان کے سوال کے جواب سے انکار تھا۔ انہوں نے کہا، ”میں اس وقت جو کر رہی ہوں ،اسی سے مجھے محبت ہے“۔ یہ کہتے ہوئے ایلیزاویتا مسکرا دیں۔ انہوں نے اضافہ یہ کیا کہ وہ بھی عام لڑکی کی طرح اپنے لیے اچھا بر تلاش کرنا چاہیں گی، ”مجھے جو شخص اچھا لگے گا اس میں صاف گوئی، کھلا پن اور وسیع القلبی کوٹ کوٹ کر بھری ہونی چاہیے“۔


لمبے، گھنیرے بالوں والی روسی لڑکی چھا گئی جگ آکاش پر

جمعرات, جولائی 12, 2012

ہالینڈ: ”میتسوبیشی موٹرس“ کا کارخانہ ایک یورو میں فروخت ہوگیا

جاپانی موٹر ساز کمپنی ”میتسوبیشی“ نے ہالینڈ میں واقع اپنا اسبملنگ پلانٹ ایک یورو میں فروخت کردیا ہے۔ ہالینڈ کی کمپنی ”وی ڈی ایل“ نے یہ پلانٹ خرید لیا، اب وہاں لائسنس کے مطابق بی ایم ڈبلیو گاڑیاں بنائی جائیں گی۔ کمپنی ”میتسوبیشی“ کا منصوبہ ہے کہ یورپی یونین میں اپنے کارخانے بند کرکے روس سمیت دوسرے ملکوں میں اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائے۔ ایک یورو میں پلانٹ کی فروخت کی شرط یہ تھی کہ ڈیڑھ سو مزدوروں میں سے ایک بھی مزدور کو نہ نکالا جائے۔ اس پلانٹ میں منی کاریں اور جیپیں اسمبل کی جاتی تھیں لیکن مالی بحران کے پیش نظر مغربی یورپ میں ایسی کاروں کی مانگ میں انتہائی کمی آ چکی ہے۔

ہالینڈ: "میتسوبیشی موٹرس" کا کارخانہ ایک یورو میں فروخت ہوگیا

بدھ, جولائی 11, 2012

روس: سیلاب نے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا

سات جولائی کو آنے والے سیلاب نے صوبہ کراسنودار کے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے، صوبائی گورنر الیکساندر تکاچوو کے اعلان نامہ میں کہا گیا۔ گورنر نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے صوبہ کراسنودار ایک سنگین ترین آزمائش سے گزر رہا ہے۔ ساتھ ہی گورنر نے یقین دہانی کرائی کہ سبھی متاثرین کو لازمی طور پر مدد دی جائے گی اور سردی آنے تک ان کے لیے نئے گھر تعمیر کردئے جائیں گے۔ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ معمول کی زندگی کو بحال کرسکیں، صوبائی گورنر نے کہا۔ انہوں نے متاثرین کی مدد و حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس وقت روس بھر سے متاثرین کے لیے امدادی اشیاء بھیجی جا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ سات جولائی کو آئے سیلاب کے نتیجے میں صوبہ کراسنودار میں ایک سو باہتر افراد ہلاک ہوگئے اور پانچ ہزار گھر منہدم ہوگئے۔

سیلاب نے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا

افغانستان کی تاریخ، قبروں کی زبانی

دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جہاں مسلسل کوئی نہ کوئی بیرونی طاقت حملے کرتی رہی ہو۔ افغانستان کی کہانی میں یہ ایک اہم عنصر رہا ہے۔

ان حملوں کے نتیجے میں افغانستان میں مختلف ممالک کے فوجی اور شہری ہلاک ہوئے اور ان کے لیے افغانستان کے شہر کابل میں ’قبرہ گورہ‘ نامی ایک مخصوص قبرستان موجود ہے۔

اس قبرستان میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے فوجی و شہری آرام کی نیند سو رہے ہیں۔ یہ قبرستان انیسوی صدی میں برطانیہ کی جانب سے کیے گئے حملوں کے دوران بنایا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اُس جنگ میں ہلاک ہوئے کم از کم ایک سو ساٹھ فوجی یہاں دفن ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں مختلف جنگوں اور بیرونی حملوں کے دوران جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس کے مقابلے یہ تعداد کچھ بھی نہیں۔

جب آپ اس قبرستان کے لکڑی کے پرانے دروازوں سے گزر کر اندر داخل ہوتے ہیں تو کابل کا شور و غل جیسے خاموش لگنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی نئی دنیا میں آگئے ہیں۔


یادگاریں

امریکی قیادت میں افغانستان پر سنہ دو ہزار ایک میں ہونے والے حملے کی ہلاکتوں کا ابھی یہاں ریکارڈ مکمل نہیں کیا گیا ہے تاہم نیٹو افواج کے مختلف ممالک سے آنے والے فوجیوں کے لیے یہاں بہت سی یادگاریں بنائی گئیں ہیں۔

ان فوجیوں کے ساتھ یہاں چند کہانیاں بھی محفوظ ہیں۔ 9th کوئینز رائل لانسرز کے کوئی لوٹیننٹ جان ہیرسی تھے جنہیں دسمبر انیس سو انہتر میں دل میں گولی لگی۔ افغان گولیوں کی بوچھاڑ سے مٹے 67th فٹ ریجمنٹ کے درجنوں بےنام جوان بھی یہاں آپ کو ملیں گے۔

واضح رہے کہ برطانیہ نے سب سے پہلے سنہ 1839 میں کابل پر حملہ کیا۔اس حملے کا مقصد روس کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکنا تھا لیکن دھیرے دھیرے افغانستان میں برطانوی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج نے زور پکڑا اور دو برسوں کے اندر برطانوی فوجوں کو ملک سے باہر نکلنا پڑا۔ تاہم برطانوی فوج اُسی سال واپس کابل آئی اور بدلے میں بیشتر کابل کو تباہ کردیا۔

برطانیہ نے شاید اس جنگ سے یہ سبق سیکھا کہ افغانستان میں مداخلت کرنا تو آسان لیکن افغانستان پر قبضہ کرنا بے حد مہنگا سودا ہے۔

امریکی قیادت میں افغانستان پر سنہ دو ہزار ایک میں ہونے والے حملے کی ہلاکتوں کا ابھی یہاں ریکارڈ مکمل نہیں کیا گیا ہے تاہم نیٹو افواج کے مختلف ممالک سے آنے والے فوجیوں کے لیے یہاں بہت سی یادگاریں بنائی گئیں ہیں۔

یہ قبرستان صرف فوجیوں کے لیے نہیں ہے۔ یہاں صحافی، امدادی کارکن بلکہ ساٹھ کی دہائی کے چند سیاح بھی موجود ہیں۔

شاید اس کا افغان نام ’قبرہ گورہ‘ یعنی غیرملکیوں کا قبرستان ہی موضوں ہے۔

افغانستان کی تاریخ، قبروں کی زبانی

ایوا کی ہلاکت کی وجہ تاحال نامعلوم

سکاٹ لینڈ یارڈ نے تصدیق کر دی ہے کہ ارب پتی برطانوی خاتون ایوا روسنگ مغربی لندن میں اپنے مکان میں مردہ حالت میں پائی گئی ہیں۔

اڑتالیس سالہ امریکی شہری ایوا ٹیٹرا پیک ڈبوں کے کاروبار سے اربوں ڈالر کمانے والے خاندان کی رکن تھیں۔

پولیس حکام کو ایوا کی لاش کے پوسٹ مارٹم کے باوجود موت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے اور مزید تجزیے کیے جارہے ہیں۔

لندن پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق ایوا روسنگ کے موت کے حوالے سے ایک انچاس سالہ شخص کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم اب وہ پولیس کی تحویل میں نہیں اور اس کا علاج ہورہا ہے۔

پولیس کے مطابق انھوں نے پیر کے دن جب منشیات تلاش کرنے کے سلسلے میں ایوا روسنگ کے گھر پر چھاپا مارا تو انہیں ایوا کی لاش ملی اور مشکوک شخص بھی وہاں سے گرفتار ہوا۔

دو ہزار آٹھ میں ایوا روسنگ اور ان کے شوہر ہینز کرسٹن روسنگ کےگھر سے منشیات برآمد ہوئی تھیں جس کی وجہ سے انہیں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔

ایوا کو اس وقت بھی گرفتار کیا گیا تھا جب انھوں نے لندن میں معمولی مقدار میں ہیرئین اور کوکین امریکہ کے سفارت خانہ میں سمگل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بعد میں انہیں تنبیہ کر کے ان کے خلاف عائد مقدمہ ختم کردیا گیا۔

ایوا راؤزنگ کا شمار برطانیہ کے امیر ترین خواتین میں ہوتا ہے اور انہیں اپنے والد سے پانچ اعشاریہ چار ارب پونڈ کا کاروبار ورثے میں ملا تھا۔

ایوا کی ہلاکت کی وجہ تاحال نامعلوم

یہ ہے تھائی لینڈ کی وزیراعظم

بنکاک، یہ کسی سٹیج ڈرامے کا منظر نہیں بلکہ عقیدت و احترام کا اظہار ہے، تھائی لینڈ کے بادشاہ بھومی بول آدلیا دیج کی 84ویں سال گرہ کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب میں تھائی وزیراعظم ینک لک شنواترا، شہزادی مہا چکری اندھورن کے قدموں میں بیٹھ کر باتیں کررہی ہیں۔ (رائٹرز)

ہفتہ, جولائی 07, 2012

سیاسی قیدیوں کے بچے چُرانے پر قید کی سزا

یہ دونوں افسر فوجی حکومت کے دوران کئے گئے دیگر جرائم کے لئے پہلے ہی جیل میں ہیں۔
بیونس آئرس کی ایک عدالت نے جارج وائڈیلا کو پچاس سال اور رینالڈو، بِگنون کو پندرہ سال کی سزا سنائی ہے۔ اُن پر الزام تھا کہ انہوں نے سنہ انیس سو چھہتر سے انیس سو تراسی کے دوران بڑے منظم انداز سے، سیاسی قیدیوں کے چار سو بچے، اُن سے چھین کر الگ کردیئے۔

بچوں کی چوری کا الزام کل گیارہ لوگوں پر عائد کیا گیا ہے جن میں زیادہ تر سابق فوجی افسران یا پولیس افسر ہیں۔ وائڈیلا اور بگنون سمیت نو افراد کو چونتیس بچے چرانے کے لئے سزا دی گئی ہے جبکہ دو افراد کو مجرم نہیں پایا گیا ہے۔ وائڈیلا کو زیادہ سے زیادہ سزا سنائی گئی ہے کیونکہ ان کے خلاف بیس بچوں کو چرانے کی مجرمانہ سازش ثابت ہوئی۔

وائڈیلا کو دو ہزار دس میں اکتیس مخالفین کو پریشان کرکے مارنے کے الزام میں اور بگنون کو اپریل دو ہزار گیارہ میں سیاسی مخالفین کو پریشان کرکے انہیں مارنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اغوا کیے جانے والے ان بیشتر بچوں کا آج بھی کچھ پتہ نہیں کہ فوجی حکمرانوں نے انہیں کہاں غائب کیا۔ سو کے قریب بچے ایسے تھے جنہیں فوج اور پولیس کے اہلکاروں کی سرپرستی میں دیا گیا۔ صرف انہیں اپنے اصلی ماں باپ تک بالآخر پہنچایا جاسکا تاہم باقی اپنے خاندانوں سے نہ مل سکے۔

ارجنٹائن کے فوجی دور میں تین ہزار کے لگ بھگ سیاسی کارکن، لاپتہ ہوئے تھے اور اب عدالتیں، ایک ایک کرکے وہ مقدمات کھول رہی ہیں۔
 

جمعہ, جولائی 06, 2012

قفقاز میں طویل العمری کرم الٰہی ہے

دنیا میں ایسے لوگ معدودے چند ہیں جن کی زندگی میں تین صدیوں کے سال آتے ہوں۔ شمالی قفقاز کی ری پبلک داغستان کے باسی ماگومید لابازانوو ایسے کم لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وہ انیسویں صدی کے آواخر میں پیدا ہوئے تھے اور تھوڑا عرصہ پہلے ہی انہوں نے اپنی 122ویں سالگرہ منائی ہے اور اس موقع پر انہوں نے قفقاز کا روایتی تقریبی رقص بھی کیا۔

ان کی بستی کے ایک باسی کا کہنا ہے ہے وہ ایک سو بائیس برس کی عمر میں نہ صرف صحت مند ہیں بلکہ ان کی یادداشت بھی اچھی ہے۔ ماگومید لابازانوو نے بتایا کہ انہوں نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا، کبھی سگریٹ نہیں پی اور نہ ہی کبھی اپنی زوجہ سے بے وفائی کی۔ علاوہ ازیں کھانے میں ہمیشہ اعتدال برتا اور صرف وہی کھایا جو اپنے کھیت میں اپنے ہاتھوں سے اگایا۔ سبزیاں، پھل، ہرے پتے اور مکئی کے آٹے کی بنی روٹی۔ مگر اپنی طویل العمری کی اصل وجہ وہ محنت اور حرکت کو قرار دیتے ہیں۔ ماگومید لابازوو نے چھ برس کی عمر سے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ اپنے باپ کو مویشی چرانے میں مدد دیتے تھے۔ اب تک کی ان کی پوری زندگی زراعت سے وابستہ رہی ہے۔ ظاہر ہے 122 سال کی عمر میں اب ان کے جسم میں پہلے کی سی مستعدی تو نہیں رہی لیکن ان کی روح اب بھی جوان ہے۔ ساری عمر وہ دین اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلتے رہے ہیں۔ پنج گانہ نماز ہمیشہ ادا کی۔

طویل العمری کے حوالے سے روس کا علاقہ قفقاز دنیا میں اولیں مقام پر آتا ہے۔ صرف داغستان میں ہی پورے مغربی یورپ میں موجود ایک سوسال سے زائد عمر کے لوگوں کی نسبت ڈیڑھ گنا لوگ ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پہاڑوں پہ بسنے والے کچھ لوگوں نے ڈیڑھ صدی کی عمر بھی پائی، روس کی سائینس اکادمی کے قفقاز سے متعلق تحقیق کے حصے کے سربراہ انور کسری ایو بتاتے ہیں، ”قفقاز کے پہاڑی علاقے میں طویل العمر شخص کا بے حد احترام کیا جاتا ہے۔ معمر شخص انتہائی قابل تعظیم ہوجاتا ہے۔ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑا جاتا۔ وہ ہمیشہ کنبے کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ کسی گھر میں طویل العمر شخص کی موجودگی کو اللہ کا خاص کرم سمجھا جاتا ہے“۔

قفقاز میں کہا جاتا ہے کہ انسان کو بوڑھا ہونے سے خائف نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے اور با تعظیم عمر کا منتظر رہنا چاہیے۔ یہ اہم نہیں ہے کہ آدمی نے کتنی عمر پائی بلکہ یہ اہم ہے کہ جو عمر اللہ تعالٰی نے اسے دی وہ اس نے کیسے گذاری۔ ”قفقاز میں اسلام قدیم وقتوں سے موجود ہے۔ تمام معاشرتی اور سیاسی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق مرتب ہے۔ پہاڑ کے لوگوں کا یہ سلسلہ بہت متحد اور منظم ہے۔ بذات خود طویل العمری کو بھی کرم الٰہی خیال کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس جہان میں بہت دیر تک اپنے کنبے اور خاندان کے ساتھ رہ سکے اور اپنے بچوں کی تربیت کرسکے اور انہیں پیار دے سکے“۔ انور کسری ایو نے بتایا۔
اپنی عمر کی انفرادیت کے باوجود نہ تو خود ماگومید لابازانوو نے اور نہ ہی ان کے اہل خانہ نے گنس بک آف ورلڈ ریکارڈز سے رجوع کیا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جس کو چاہیے ہوگا وہ خود ہی ان کی عمر کے بارے میں جان لے گا۔

قفقاز میں طویل العمری کرم الٰہی ہے

پاپوا نیو گنی: آدم خوروں نے ووٹنگ کو ناکام بنایا

پاپوا نیو گنی میں آدم خوروں کے ایک گروپ نے سات افراد کو ہلاک کرکے انہیں کھا لیا۔ یوں مقامی لوگوں میں دہشت پھیل گئی ہے حتی کہ بہت زیادہ لوگ ووٹنگ میں حصہ لینے کی ہمت نہیں کرسکے۔ ”صدائے روس“ کی روسی ویب سائٹ نے برطانوی اخبار ”ڈیلی ٹیلی گراف“ کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ آدم خوروں کا کہنا ہے کہ وہ ان جادوگروں کو ختم کرنا چاہتے تھے جو بیمار لوگوں سے رقوم اینٹھتے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق قتل میں بارہ آدم خوروں کا ہاتھ ہے۔ روسی خبر رساں ایجنسی انٹرفیکس کے مطابق زیادہ تر مشتبہ ملزموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ آدم خوروں کا دعوٰی ہے کہ وہ کچھ پراسرار صفات کے مالک ہیں جن کے ذریعے وہ کالا جادو کرنے والے جادوگروں کا پتہ لگا سکتے ہیں۔

پاپوا نیو گنی: آدم خوروں نے ووٹنگ کو ناکام بنایا

جمعرات, جولائی 05, 2012

’حکومت نے پاکستان بھیجا، خود نہیں گیا تھا‘، بھارتی جاسوس کا اعتراف

تیس برس کے بعد پاکستانی جیل سے حال ہی میں رہا ہونے والے بھارتی جاسوس سرجیت سنگھ بھارت واپس آئے ہیں جن سے بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے نے ریاست پنجاب کے ایک گاؤں فڈّا میں ان کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی اور ان کی کہانی سنی۔

یہ دسمبر سنہ انیس سو اکیاسی کی بات ہے جب سرجیت سنگھ اپنی بیوی سے یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ جلد ہی واپس آجائیں گے لیکن دوبارہ ملاقات کرنے میں انہیں تیس برس چھ مہینے لگے جب سرجیت سنگھ کی کالی داڑھی پوری طرح سفید ہوچکی تھی۔

ایک طرف سرجیت جاسوسی کے جرم میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید کر دیےگئے تو دوسری جانب ان کے اہل خانہ نے یہ سمجھ کر امید چھوڑ دی کہ شاید وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ قید تنہائي میں رہے۔ ان کی ملاقات کے لیے نہ تو کوئي آيا اور نہ ہی کوئي خط ان تک پہنچا۔ انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور موت کے انتظار میں ہی وقت گزار لیکن اس کے باوجود ان کا یقین اور اعتماد ان کے ساتھ رہا۔

وہ کہتے ہیں ’بس یہ سب اوپر والے کا احسان و کرم ہے جس نے ان طویل برسوں کے دوران ہماری مدد کی۔‘ اس قید کے دوران ہی سرجیت سنگھ کے بڑے بیٹے، ان کے چار بھائیوں، ایک بہن اور والد کا انتقال ہوگيا۔

تہّتر برس کی عمر میں سرجیت سنگھ جب واہگہ بارڈر سے بھارت واپس پہنچے تو خاندان میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اپنے ملک واپس پہنچتے ہی ان کے اس انکشاف نے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ وہ پاکستان بھارت کے لیے جاسوسی کرنے گئے تھے۔

دوسری جانب بھارت سمیت پاکستان سے آنے والا ہر قیدی سرجیت سنگھ کے جاسوس ہونے کا ہمیشہ سے انکار کرتا رہا ہے۔

سرجیت سنگھ بھارت کے اس انکار سے بہت نالاں ہیں کہ انہوں نے ملک کے لیے اتنی بڑی قربانی دی لیکن اس کا کوئی صلہ نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں ’بھارتی حکومت نے مجھے پاکستان بھیجا تھا اور میں وہاں خود نہیں گیا تھا۔‘

سرجیت نے ایسی باتوں کو پوری طرح سے ردّ کیا کہ وہ اہمیت جتانے کے لیے یا اپنے آپ کو بڑا دکھانے کے لیے جاسوسی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

سرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں فوج نے ان کے اہل خانہ کو ڈیڑھ سو روپے ماہانہ کے حساب سے پینشن مہیا کی۔ ’اگر میں نے ان کے لیے کام نہیں کیا تو پھر انہوں نے میرے گھر والوں کو یہ رقم کیوں ادا کی۔‘

سرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت کا سلوک ان کے ساتھ غیر منصفانہ ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے لڑائی لڑیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ اگر حکومت ان کے دعوے کو مسترد کرتی رہیگي تو پھر وہ کیا کریں گے، ان کا کہنا تھا ’میرے پاس دستاویزی ثبوت ہیں اور پھر میں اپنے حقوق کے لیے سپریم کورٹ کا سہارا لوں گا۔‘

مسٹر سنگھ نے وہ ثبوت دکھانے سے منع کیا اور یہ واضح نہیں کہ آخر وہ ثبوت کیا ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوانی میں انہوں نے بی ایس ایف ( بارڈر سکیورٹی فورسز) میں کام کیا تھا پھر سنہ انیس سو انہتر میں اسے چھوڑ کر وہ کسان بن گئے۔ ان کے مطابق ستّر کے عشرے میں فوج نے ان سے جاسوس بننے کی پیش کش کی اور اس کے لیے انہیں دوبارہ بھرتی کیا۔

وہ کہتے ہیں ’میں نے پاکستان کا پچاسی بار دورہ کیا۔ میں پاکستان جاتا تھا اور وہاں سے فوج کے لیے دستاویز لے کر آتا تھا۔ میں ہمیشہ دوسرے روز واپس آجاتا اور اس میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔‘

لیکن وہ کہتے ہیں کہ آخری دورے پر سب کچھ گڑ بڑ ہوگیا۔ ’میں سرحد پار کر کے ایک پاکستانی ایجنٹ کو بھرتی کرنے گيا تھا۔ جب میں اس کے ساتھ واپس آيا تو سرحد پر تعینات ایک بھارتی افسر نے اس کی بےعزتی کردی۔ افسر نے اس ایجنٹ کو ایک تھّپڑ مارا اور اسے اندر نہیں آنے دیا۔ وہ ایجنٹ بہت پریشان تھا تو میں اسے دوبارہ ساتھ پاکستان لے کر گيا۔ لاہور میں اس نے پاکستانی حکام کو میری شناخت بتا دی۔‘

بس اس کے بعد سرجیت سنگھ کو گرفتار کرکے لاہور میں فوج کی ایک سیل میں تفتیش کے لیے لے جایا گيا۔ سنہ انیس سو پچاسی میں ایک فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائي۔ سنہ نواسی میں پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے ان کی رحم کی اپیل منظور کی اور ان کی موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔

وہ کہتے ہیں ’شروع میں تو مجھے گھر واپسی کی کوئي امید نہیں تھی۔ جب میں موت کی سزا کاٹ رہا تھا تو مجھے لگا کہ بس اب سب ختم ہے۔ لیکن جب اسے عمر قید میں بدلا گیا تو میری امید جاگي۔‘
ہربنس کور

سرجیت سنگھ کی اہلیہ ہربنس کور کا کہنا ہے کہ جب شروع میں ان کے شوہر واپس نہیں آئے تو وہ انہیں لگا کہ سرجیت کو کام کرانے کے لیے پکڑ رکھا گيا ہوگا۔ لیکن جب دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوئے بات سمجھ سے باہر ہوگئی۔ ’میں یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ۔‘

سرجیت کی بیٹی پرمندر کور اس وقت بارہ یا تیرہ برس کی تھیں۔ باپ کی گمشدگی کے بعد ہی انہیں سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ پیسوں کی کمی تھی۔

وہ کہتی ہیں۔ ’ کچھ وقت کے بعد ہمیں لگا کہ وہ مر چکے ہوں گے۔ ہمیں وہ بہت یاد آتے۔ ہمیں اکثر یہ خیال آتا کہ اگر پاپا زندہ ہوتے تو ہم اچھا کھانا کھاتے، اچھے کپڑے پہنتے اور سماج میں ہمارا مقام بھی بہتر ہوتا۔‘

جب ساری امیدیں ٹوٹ چکی تھیں تو اچانک ان کی گمشدگي کے پچیس برس بعد دو ہزار چار میں ان کے آبائي مکان کے پتے پر ایک خط موصول ہوا جو سرجیت سنگھ نے اپنے بڑے بیٹے کلوندر سنگھ برار کےنام لکھا تھا۔

اس خط کے بعد ہی انہیں یہ پتہ چلا کہ جس شخص کو مردہ سمجھ کر تمام امیدیں چھوڑ دی گئي تھیں وہ زندہ ہے۔ ہربنس کور کہتی ہیں کہ ’خط پانے کے بعد میری امید بڑھی کہ میں اپنے شوہر کو دوبارہ دیکھ سکوں گي۔‘

بھارتی حکومت کے روّیے اور سرجیت سنگھ کی ناراضگي کے اظہار کے بعد کئی لوگ ان کی مدد کو بھی سامنے آئے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ان کے کھیتوں تک سڑک تعمیر کرے گي، ایک ٹیوب ویل بنائےگي اور اور انہیں بجلی کا کنیکشن دیا جائیگا۔ پنجاب میں محکمہ آب پاشی کے وزیر جنمیجا سنگھ نے ان سے جاکر ملاقات کی ہے اور انہیں ایک لاکھ روپے دیے ہیں۔ کچھ مقامی لوگوں نے بھی پیسے جمع کر کے انہیں پچیس ہزار روپے دیے ہیں۔ 

سرجیت سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان کی کوٹ لکھپت جیل میں اور بھی کئی بھارتی قیدی ہیں جن پر جاسوسی کا الزام ہے۔ ان میں دو سربجیت اور کرپال سنگھ موت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے ان قیدیوں کی رہائی کے لیے کوئي خاطر خواہ کوشش نہیں کی ہے۔ ’حکومت کو کو ئي پرواہ نہیں ہے۔ وہ ان بھارتی قیدیوں کی رہائی کے لیے کچھ بھی کرنے سے منع کرتی ہے۔‘

بھارتی حکومت ایسے معاملات پر اکثر خاموش رہتی ہے اور وہ کوئي موقف اختیار نہیں کرتی۔

’حکومت نے پاکستان بھیجا، خود نہیں گیا تھا‘