بدھ, جولائی 11, 2012

افغانستان کی تاریخ، قبروں کی زبانی

دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جہاں مسلسل کوئی نہ کوئی بیرونی طاقت حملے کرتی رہی ہو۔ افغانستان کی کہانی میں یہ ایک اہم عنصر رہا ہے۔

ان حملوں کے نتیجے میں افغانستان میں مختلف ممالک کے فوجی اور شہری ہلاک ہوئے اور ان کے لیے افغانستان کے شہر کابل میں ’قبرہ گورہ‘ نامی ایک مخصوص قبرستان موجود ہے۔

اس قبرستان میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے فوجی و شہری آرام کی نیند سو رہے ہیں۔ یہ قبرستان انیسوی صدی میں برطانیہ کی جانب سے کیے گئے حملوں کے دوران بنایا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اُس جنگ میں ہلاک ہوئے کم از کم ایک سو ساٹھ فوجی یہاں دفن ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں مختلف جنگوں اور بیرونی حملوں کے دوران جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس کے مقابلے یہ تعداد کچھ بھی نہیں۔

جب آپ اس قبرستان کے لکڑی کے پرانے دروازوں سے گزر کر اندر داخل ہوتے ہیں تو کابل کا شور و غل جیسے خاموش لگنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی نئی دنیا میں آگئے ہیں۔


یادگاریں

امریکی قیادت میں افغانستان پر سنہ دو ہزار ایک میں ہونے والے حملے کی ہلاکتوں کا ابھی یہاں ریکارڈ مکمل نہیں کیا گیا ہے تاہم نیٹو افواج کے مختلف ممالک سے آنے والے فوجیوں کے لیے یہاں بہت سی یادگاریں بنائی گئیں ہیں۔

ان فوجیوں کے ساتھ یہاں چند کہانیاں بھی محفوظ ہیں۔ 9th کوئینز رائل لانسرز کے کوئی لوٹیننٹ جان ہیرسی تھے جنہیں دسمبر انیس سو انہتر میں دل میں گولی لگی۔ افغان گولیوں کی بوچھاڑ سے مٹے 67th فٹ ریجمنٹ کے درجنوں بےنام جوان بھی یہاں آپ کو ملیں گے۔

واضح رہے کہ برطانیہ نے سب سے پہلے سنہ 1839 میں کابل پر حملہ کیا۔اس حملے کا مقصد روس کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکنا تھا لیکن دھیرے دھیرے افغانستان میں برطانوی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج نے زور پکڑا اور دو برسوں کے اندر برطانوی فوجوں کو ملک سے باہر نکلنا پڑا۔ تاہم برطانوی فوج اُسی سال واپس کابل آئی اور بدلے میں بیشتر کابل کو تباہ کردیا۔

برطانیہ نے شاید اس جنگ سے یہ سبق سیکھا کہ افغانستان میں مداخلت کرنا تو آسان لیکن افغانستان پر قبضہ کرنا بے حد مہنگا سودا ہے۔

امریکی قیادت میں افغانستان پر سنہ دو ہزار ایک میں ہونے والے حملے کی ہلاکتوں کا ابھی یہاں ریکارڈ مکمل نہیں کیا گیا ہے تاہم نیٹو افواج کے مختلف ممالک سے آنے والے فوجیوں کے لیے یہاں بہت سی یادگاریں بنائی گئیں ہیں۔

یہ قبرستان صرف فوجیوں کے لیے نہیں ہے۔ یہاں صحافی، امدادی کارکن بلکہ ساٹھ کی دہائی کے چند سیاح بھی موجود ہیں۔

شاید اس کا افغان نام ’قبرہ گورہ‘ یعنی غیرملکیوں کا قبرستان ہی موضوں ہے۔

افغانستان کی تاریخ، قبروں کی زبانی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔