علم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
علم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات, دسمبر 13, 2012

زبان خامہ کی چند عام خامیاں

طالب الہاشمی

قائمقام؟
کچھ عرصہ سے ہمارے بعض صحافی دوست اپنی تحریروں میں ’’قائم مقام‘‘ کی جگہ ’’قائمقام‘‘ لکھ رہے ہیں۔ ایک ’’م‘‘ کو حذف کر دینا بِلا جواز ہے۔ ’’قائم مقام‘‘ ہی صحیح لفظ ہے۔ 

ناراضگی، حیرانگی، محتاجگی، درستگی وغیرہ؟
ناراضی، حیرانی، محتاجی اور درستی کی جگہ ناراضگی، حیرانگی، محتاجگی اور درستگی لکھنا اور بولنا فصاحت اور قاعدے کے خلاف ہے۔ فارسی قاعدہ یہ ہے کہ اگر اسمِ صفت کا آخری حرف ہ (ہا) نہ ہو تو حاصل مصدر بنانے کے لئے اس کے آخر میں ی (یا) لگاتے ہیں چنانچہ ناراض، حیران، محتاج، درست وغیرہ جتنے اسمائے صفات ’’ہ‘‘ پر ختم نہیں ہوتے ان کے حاصل مصدر ناراضی، حیرانی، محتاجی، درستی بنتے ہیں۔ صرف دو لفظ ’’ادا‘‘ اور ’’کرخت‘‘ اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کے حاصل مصدر کرختی اور ادائیگی کے بجائے کرختگی اور ادائیگی بنائے گئے ہیں ورنہ اصولاً جب کسی اِسم صفت کا آخری حرف ہ ہو تو ’’ہ‘‘ کی جگہ ’’گی‘‘ لگا کر اس کا حاصل مصدر بنایا جاتا ہے مثلاً عمدہ، شستہ، مردانہ، کمینہ، نمایندہ، فرزانہ، درندہ، زندہ، فریفتہ، وارفتہ، سنجیدہ کے حال مصدر عمدگی، شستگی، مردانگی، کمینگی، نمایندگی، فرزانگی، درندگی، زندگی، فریفتگی، وارفتگی، سنجیدگی ہوں گے۔ 

خوامخواہ؟
 صحیح لفظ ’’خواہ مخواہ‘‘ جس کا مطلب ہے ’’چاہو یا نہ چاہو‘‘ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی شخص کسی دوسرے کے معاملے میں بِلاجواز یا زبردستی دخل دے۔ معلوم نہیں بعض اہلِ قلم اپنی تحریروں میں ’’خواہ‘‘ کے بعد ’’ہ‘‘ کو کیوں خذف کر دیتے ہیں۔

زبان خامہ کی چند عام خامیاں

پیر, نومبر 19, 2012

سندھ مدرستہ الاسلام کے لئے یونیورسٹی کا درجہ

بانی پاکستان کی ابتدائی درسگاہ سندھ مدرستہ الاسلام کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد پہلے تعلیمی سال میں داخلے کے لئے ہونے والے انٹری ٹیسٹ میں طلبا و طالبات کا انتہائی جوش و خروش رہا۔

سندھ مدرستہ الاسلام کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لئے سندھ اسمبلی نے 22 دسمبر 2011ء کو بل منظوری کیا اور 16 فروری 2012ء کو گورنر سندھ نے بل پر دستخط کئے۔ یونیورسٹی میں باقاعدہ تدریس کے لئے 5 فیکلٹیز میں داخلوں کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے لئے یونیورسٹی میں انٹری ٹیسٹ ہوئے۔ 

یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے قیام سے قائد اعظم کے خواب کی تکمیل ہوئی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1943ء میں سندھ مدرسہ کو سکول سے کالج بنانے کا افتتاح کیا تھا اور وہ اس مدرسے کو یونیورسٹی کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ داخلے کے خواہش مند امیدوار قائد کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ 

یونیورسٹی کے مطابق پانچ شعبوں میں 150 طلبا و طالبات کو داخلہ دیئا جائے گا اور میرٹ پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔

سندھ مدرسۃ الاسلام یکم ستمبر 1885ء کو قائم ہوا اس کے بانی حسن علی آفندی تھے جو ترک نژاد اور کراچی میں آباد تھے۔ سندھ مدرستہ الاسلام کا شمار جنوبی ایشیا کے قدیم ترین جدید مسلم تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ ادارے کا مقصد سندھ کے لوگوں کو جدید تعلیم سے بہرہ ور کرنا تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی سندھ مدرسۃ الاسلام میں ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔

پولیس نے سکول میں تھانہ بنا لیا

شکار پور میں پولیس نے گورنمنٹ پرائمری سکول میں تھانہ بنا لیا، بچے تعلیم سے محروم، پولیس کے ڈرسے لوگ بات کرتے ہوئے ڈرنے لگے۔

پاکستانی پولیس کے انداز ہی نرالے ہیں جان ومال کے یہ محافظ جو کہہ دیں وہی قانون کہلاتا ہے۔ یہی نہیں قانون کے رکھوالے جسے چاہیں اپنی ملکیت قرار دے دیں۔ چاہے وہ کوئی سرکاری دفتر ہو یا بچوں کا سکول پولیس والے جہاں براجمان ہوجائیں وہاں سے انہیں نکالنا پھرکسی کے بس میں نہیں رہتا۔ 

ایسا ہی ہوا شکار پورکے نواحی گاؤں جہاں گورنمنٹ پرائمری سکول کی عمارت میں پولیس نے گزشتہ ایک سال سے تھانہ قائم کر رکھا ہے جس کے بعد گاؤں کا واحد سکول بند ہوگیا۔ تدریسی عمل ٹھپ ہوا تو سکول میں تعینات تین اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے لگے۔ اہل علاقہ نے مقامی وڈیروں کے ڈر سے موقف دینے سے انکار کر دیا جبکہ پولیس اور محکمہ تعلیم کےافسران بھی موقف دینے سے انکار کررہے ہیں۔

طلبا سکول جانے کے لیے دریا عبور کرتے ہیں

علم کے حصول کے لئے چین تک جانے کا حکم ہے لیکن انڈونیشیا میں بچوں کو سکول جانے کے لئے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ مغربی سماٹرا کے گاؤں لمبونگ بیوکک کے بچوں کو سکول جانے کے لئے ہر روز دریا عبور کرنا پڑتا ہے جس کا پاٹ 80 فٹ چوڑا اور بعض مقامات پر گہرائی تین فٹ کے لگ بھگ ہے۔ دریا کا بہاؤ بھی بہت تیز ہے۔ دریا کنارے پہنچتے ہی یہ اپنی پینٹوں کے پائنچے اوپر چڑھا لیتے ہیں جبکہ بعض کو تو اپنی قمیض تک اٹھانا پڑتی ہیں۔ دوسرے کنارے پہنچ کر بچے دوبارہ یونیفارم پہن کر سکول کا رخ کرتے ہیں۔ 

بچوں کا کہنا ہے برسات میں دریا کا بہاؤ اور تیز ہو جاتا ہے اور اس وقت اسے عبور کرنا جاں جوکھوں کا کام ہے۔ دریا اب تک بچوں کے دو ساتھیوں کو نگل چکا ہے۔ 

مقامی انتظامیہ کے مطابق بچوں کی مشکل کو دیکھتے ہوئے دریا پر پل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رقم مختص ہو چکی اور اگلے برس پل بن جائے گا۔

بدھ, اکتوبر 31, 2012

بہلول کی باتیں

کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: ”تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟“

لوگوں نے کہا: ”حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟“

شیخ نے جواب دیا: ”ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔“

مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: ”تم کون ہو؟“

”میں ہوں جنید بغدادی۔“

”تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟“

”جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔“

”اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟“

”کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔“

پھر دوبارہ کہا: ”جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔“

یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: ”تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔“

یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: ”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔“

”ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔“

بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: ”کون ہو تم؟“

”میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔“

بہلول نے کہا: ”خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟“

شیخ نے جواب دیا: ”جی ہاں جانتا تو ہوں۔“

”تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟“

”میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہوجائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔“ اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔

بہلول نے کہا: ”کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمہیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔“ پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: ”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟“

”بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔“ اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: ”تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہوگا؟“

شیخ نے کہا: ”جی ہاں! معلوم ہے۔“

”اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟“

”جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔

بہلول نے کہا: ”معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔“

یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: ”اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔“

کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: ”میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہوجائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔“

شیخ جنید نے بےساختہ کہا: ”جزاک اللہ خیرأً۔“ (اللہ تمہارا بھلا کرے)

پھر بہلول نے بتایا: ”گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہوگی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔“

پھر سونے کے متعلق بتایا: ”اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔“

بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

بہلول کی باتیں

پیر, ستمبر 24, 2012

پاکستان کی پہلی نابینا پی ایچ ڈی: فرزانہ سلیمان پونا والا

بینائی سے محروم ہونے کےباوجود، ڈاکٹر فرزانہ سلیمان پونا والا فلسفے اور اسلامک سٹڈیز میں ڈبل ایم اے اور پی ایچ ڈی ہیں۔ اُنھیں گذشتہ سال ’تمغہ حسن کارکردگی‘ مل چکا ہے۔ وہ پچھلے بیس برسوں سےکراچی کے ’پی اِی سی ایچ ایس کالج‘ میں اسلامک سٹڈیز کی لیکچرر ہیں۔ وہ ایک باہمت اور رول ماڈل خاتون ہیں، جِنھیں قابلِ قدر خداداد صلاحیتوں کے باعث معاشرے میں ایک تعظیم و احترام کا درجہ حاصل ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کہ وہ پیدائشی طور پر نابینا نہیں تھیں، بلکہ جب وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں، اُنھیں ٹائفائڈ ہوا اور حادثاتی طور پرنظر جاتی رہی۔

فرزانہ پونا والا

اُنھوں نے کہا کہ شروع میں اُن کویہ مسئلہ درپیش تھا کہ اُن کے لیے کون اتنا وقت نکالے گا، وہ تعلیم کیسے جاری رکھ سکیں گی اور اُنھیں کون پڑھ کر سنائے گا؟ لیکن، اُنھوں نے اپنےگھر والوں سے لے کر دوست، احباب، طالب علموں اور اساتذہ سب کا شکریہ ادا کیا، جنھوں نے، اُن کے بقول، میرے لیے آسانیاں پیدا کیں، جس کے باعث یہ ممکن ہوا کہ میں تعلیم اور پھر ملازمت جاری رکھ سکوں۔ 

ڈاکٹر فرزانہ نےبتایا کہ وہ کراچی کے ناظم آباد علاقے میں رہتی تھیں اور اُن کی معلمہ تدریس کی غرض سے لانڈھی سے آیا کرتی تھیں۔

پاکستان کی پہلی نابینا پی ایچ ڈی: فرزانہ سلیمان پونا والا

اتوار, اگست 26, 2012

میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‫میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں- اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے- انھیں سمجھنے کے لیے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے-

وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسب توفیق یا حسب تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں- اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا، اس میں بھی وہ چو خانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا-

وہ اس طرح سے تھا ’’اس مرتبہ دوحا قطر سے کوئی صاحب آئے تھے انھوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دیے ہیں- میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر ان پیسوں کو 100، 50 کے نوٹوں میں تبدیل کروایا، جنھیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چو خانوں والے کپڑے میں ہیں-
عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے“-

مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں ’’دس دنیا ستر آخرت‘‘

آخر دینے سے کچھ فائدہ ہی ہوتا ہے نا! شاید وہ یہ ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ یہ بات جو لکھی ہوئے ہے واقعی درست ہے یا ایسے ہی چلتی چلی آ رہی ہے-

میں نے دیکھا کہ اس کپڑے میں سے کچھ لوگوں نے روپے لیے، ایک نے پچاس کا نوٹ لیا- ایک اور شخص نے سو کا نوٹ لیا- کچھ ڈالنے والوں نے اپنی طرف سے بھی اس کپڑے میں نوٹ ڈالے-

اگلے دن میں مولوی صاحب سے ملا اور ان سے کہا گزشتہ روز آپ کا عجیب و غریب تجربہ تھا- ہم نے تو آج تک ایسا دیکھا نہ سنا-

تو وہ کہنے لگے کہ جناب جب میں نے آخر میں اس رومال یا کپڑے کو کھول کر دیکھا اور گنا تو پونے چھہ ہزار روپے تھے-

اب یہ بات میرے جیسے ’’پڑھے لکھے آدمی‘‘ کے ذہن میں یا ’’دانش مند‘‘ آدمی کے ذہن میں نہیں آئی-

ایک ان پڑھ کبھی کبھی ایسے ماحول یا تجربے سے گزرتا ہے اور پھر ایک ایسا نتیجہ اخذ کرتا ہے جو مجھ کتاب والے کو بھی نہیں ملا-

(از اشفاق احمد زاویہ 2 ان پڑہ سقراط صفحہ 237)