دین پر یقین کامل

عبدالعزیز عرفی
مسلمین اور مومنین کی طرح موقنین بھی قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے۔ یہ اپنے معنیٰ و مفہوم کے اعتبار سے اول الذکر اصطلاحوں کی اساس ہے، ختمی مرتبت علیہ الصلوٰة والسلام کا مقام نبوت اسی سے عبارت ہے۔صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی کا پیکر بنے اور رضائے الٰہی سے فیض یاب ہوتے چلے گئے۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ اصطلاح عامة الناس میں معروف نہ ہوئی۔ ”موقنین“ سے مراد اہل ایمان کا وہ گروہ ہے، جو ایمان کی دولت کے ساتھ ساتھ یقینِ کامل کی دولت سے بھی مالامال ہو۔

عصر حاضر کا ذہنی و فکری انتشار و افتراق جس طور پر امتِ مسلمہ پر محیط ہوا ہے،اس میں ہر سو تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے۔اسی لیے آج فرزندان اسلام ایک دوسرے کے خلاف صف آراء نظر آتے ہیں۔ خلافِ شریعت باتیں شریعت سے تعبیر کی جارہی ہیں۔ شریعتِ مطہرہ کے جو علم بردار ہیں،وہ مہر بہ لب ہیں، یا ان کی آواز صدا بہ صحرا نظر آتی ہے۔ اتحاد بین المسلمین کی باتیں تو عام ہیں، لیکن قصہٴ پارینہ سے زیادہ نہیں۔ انہی حالات سے دشمنان دین ہمارے گرد اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط کیے جارہے ہیں۔

آج الحمدللہ، مساجد نمازیوں سے پُر ہیں۔ علمی سطح پر جو کام صاحبان علم اور اہل دانش نے کیے ہیں، وہ قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے حتی المقدور اسلاف کی علمی کاوشوں کو فروغ دیا ہے اور دین اسلام کے متعدد اہم گوشوں کو بہتر انداز فکر سے نوازا ہے۔ علاوہ ازیں سیاسی پلیٹ فارم پر بھی علماء و مشائخ متحرک ہوئے ہیں اور گراں قدر خدمات بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ انہی کی کاوشوں سے اسلامی نظام حیات کا احیاء منزل مقصود بنا۔ سود کی لعنت سے نجات کا احساس ایوان اقتدار میں جگہ پاگیا۔ اسلامی نظام عدل و انصاف،مساوات اور انسانیت کی تعظیم و تکریم کے بے مثال نشاں اقوام عالم میں شعور و آگہی کا ذریعہ بنے۔

یقینِ کامل کی دولت اللہ تعالٰی کا ایک عظیم انعام ہے۔ اللہ کے وہی بندے راہ راست پانے والے اور ہدایت یافتہ ہیں جو ایمان کے ساتھ ساتھ یقین کامل کی دولت سے بھی مالا مال ہیں۔ اس حوالے سے احکام الٰہی کو سمجھنے کے لیے سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ ہم مسلمین بھی ہیں مومنین بھی، لیکن اپنی تمام تمناؤں اور آرزوؤں کے باوجود اس قوت متحرکہ سے محروم ہیں جو صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حبیب ربانی علیہ الصلوٰة و السلام کی تعلیمات سے عطا ہوئی تھی۔ اور وہ ہے دین پریقین کامل۔

خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ یہ آیات قرآنی کی تفہیم کا واحد ذریعہ ہیں۔ انہی سے ہم نے سلسلہٴ نبوت کی غایت اور دین حنیف کی فضیلت کو پایا ہے۔ یہی دین اسلام کی اساس ہے۔ اس ضمن میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کیے گئے اولین فرمان الٰہی میں یہ ارشاد باری تعالٰی بھی دعوت فکر دیتا ہے۔اور ہم نے اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کی تمام ملکوت (عجائبات خلق) دکھائیں اور یہ اس لیے کہ وہ موقنین میں ہوجائیں۔

اس آیت مبارکہ میں اولاً ”ملکوت“ کی اصطلاح استعمال ہوئی۔ مترجمین نے اسے حکومت اور اقتدار سے بھی تعبیر کیا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی مخلوقات اور عجائبات خلق کے معنیٰ و مفہوم میں بھی بیان کیا ہے۔ یہ تفصیلات تفاسیر میں موجود ہیں۔ دراصل! بارگاہ ربوبیت سے مقام ابوالانبیاء تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے مقدر ہو ہی چکا تھا۔ ضروری تھا کہ وہ موحد کامل ہوں، تاکہ وہ اس مرتبے کو پاجائیں جو موقنین کی اصطلاح سے انہی کے لیے بیان ہوا ہے۔ اس طرح مشاہدے سے دعوت حق عام کرنے کے لیے جو دلائل بندگان الٰہی کو حاصل ہوئے انہیں مفسرین نے ”دلائل فی النظر“ قرار دیا ہے۔ (ابن کثیر)۔ اسے یقینِ کامل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم نہ آتشِ نمرود کے سامنے لرزاں نظر آئے نہ وہ ”ذبح عظیم“ کے وقت ہراساں ہوئے۔ ان کی پوری زندگی کا مطالعہ کر جائیں۔ انہوں نے ہر مقام پر ذوالجلال والا اکرام کو ہی موجود پایا۔ وہ شاہد بھی ہوئے اور مشہود بھی، یہی مفہوم ”موقنین“ کی قرآنی اصطلاح میں مضمر ہے۔ یہی درحقیقت ایمان اور یقین کامل کا وہ جذبہ ہے،جو اللہ تعالٰی کو مطلوب ہے، یہی بندگی کی اساس اور دین کا بنیادی تقاضا ہے۔

موقنین کی اصطلاح سورة الانعام کے علاوہ سورة الشعراء، سورةالدّخان اور سورة الذّاریات میں بھی بیان ہوئی ہے۔ لیکن اس کی تعبیر بعنوان ”یوقنون“ (یعنی وہ کامل یقین رکھتے ہیں) دیگر سورتوں میں بھی بیان کی گئی ہے، یہ سورتیں بہ اعتبار ترتیب اس طرح ہیں۔ سورة البقرہ، سورة الانعام، سورة الرعد، سورة النحل، سورة الروم، سورہٴ لقمان، سورة الجاثیہ، سورہٴ قٓ، ان سورتوں میں سورة البقرہ کے علاوہ سب ہی مکی سورتیں ہیں۔ علاوہ ازیں اس مفہوم کی مزید وضاحت سورة الحدید، سورة الحاقہ اور سورة التکاثر میں بعنوان ”حق الیقین“ اور ”عین الیقین“ بیان ہوئی ہے۔ سورة الحجر، میں تو یقین موت کے مترادف بیان ہوا ہے جو ”موقنین“ کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا نظر آتا ہے یہ سورة بھی مکی ہے۔

اللہ تعالٰی نے جس طرح ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین میں جاری احکام الٰہی کا عملی مشاہدہ کرایا، کچھ اس طرح کا کرم ختمی مرتبت نبی محتشم علیہ الصلوٰة و السلام پربھی ہوا۔

معلوم ہوتا ہے جیسے پوری کائنات نقوش مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مزین ہے۔ ارشاد ربانی ہے: پاک ہے وہ ذات جو رات ہی رات اپنے بندے (محبوب و مقرب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی، جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک، وہی خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔

اس آیت قرآنی میں معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے زمین میں اللہ کی نشانیاں دکھانے کا بیان ہے۔ تفصیلات احادیث نبوی میں ملتی ہیں۔ معراج کی صبح حبیب ربانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین قریش کے درمیان وہ سب کچھ بیان کردیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشاہدے میں آیا تھا۔ ان کی ہر تکذیب و تمسخر کے مقابل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پُر اعتماد ہی رہے۔ معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا حصہ جو آسمانوں کی نشانیوں کے مشاہدے سے متعلق ہے، اس کی تفصیلات بھی احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود ہیں۔

معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جملہ باتیں احکام الٰہی کی عملی تفسیر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جد اعلٰی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح مرتبہٴ یقین کے اسی درجہٴ اعلٰی پر بصیرت افروز ہوئے جو قرآنی اصطلاح موقنین کا حقیقی اور معنوی مفہوم ہے۔

صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین نے صحبت مصطفیٰ علیہ الصلوٰة والسلام سے وہ بصیرت پائی کہ ان کا تذکرہ قرآن حکیم میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ (ترجمہ): اور جو مہاجرین اور انصار سابقون اور اولون میں ہیں اور وہ بھی جو ان کی پیروی کرتے ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے جنت میں ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی،جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔“

یہ فرمان الٰہی اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ جو مقام ایقان راہ حق میں مہاجرین اور انصار رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کو عطا ہوا تھا وہی ان کی پیروی کرنے والوں کا بھی مقدر بنا۔ سلسلہ اتباع تو سرور دین علیہ الصلوٰة والسلام سے جاری ہوا۔ لہٰذا اس کے نشان بعد کے ادوار میں علمائے عاملین اور مشائخین کاملین میں بھی رونما ہوتے رہے۔

درحقیقت امت مسلمہ ایقان کی اس نعمت غیرمترقبہ کی امین ہے جو حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو بارگاہ ربوبیت سے آسمانوں اور زمین میں جاری احکام الٰہی کی عملی ہیئت کے مشاہدات کے بعد عطا ہوا تھا۔ یہی ایقان اور یقین کامل ایمان کی اساس بنا۔

عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین کو عملی رنگ دینے کے لیے ضروری ہے کہ طبقات، ذیلی طبقات اور مسالک کشادہ قلبی سے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں۔ تاہم امت مسلمہ کے حقیقی مفہوم کو پانے کے لیے اور سطور بالا میں مذکور ذہنی اور فکری انتشار و افتراق سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس قوت متحرکہ کا احیاء ناگزیر ہے جو صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کو راہ ایقان سے حاصل ہوئی تھی۔
راہ ایقان یعنی ایمان اور یقین کامل آیات قرآنی اور سیرت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں زندہ و تابندہ ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآنی اصطلاح ”موقنین“ کے حقیقی مفہوم کو عام کریں۔ خود بھی فیض یاب ہوں اوردیگر اہل ایمان کو بھی یقین کامل کی اتباع اور اس پر چلنے کی دعوت دیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔