افغانستان کے ایک اعلیٰ جج کی خفیہ ریکارڈنگ سامنے آئی ہے جس میں انہیں طلاق کے مقدمے میں مدد مانگنے والی ایک عورت سے رقم اور شادی کا مطالبہ کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔ صوتی ریکارڈنگ میں جج ظہورالدین کو سنا جا سکتا ہے کہ وہ 20 سالہ خاتون دیوا سے نہ صرف دو ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم بلکہ ان کا رشتہ بھی مانگ رہے ہیں۔ ریکارڈنگ سامنے آنے کے بعد جج نے ان الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ شادی کی تجویز محض ایک مذاق تھا۔
دیوا نے افغانستان کے شہر جلال آباد میں ہونے والی یہ گفتگو خفیہ طور پر ریکارڈ کی اور بی بی سی کو حاصل ہونے والی اس ریکارڈنگ میں ظہورالدین دیوا سے ایک لاکھ بیس ہزار افغانی یا دو ہزار امریکی ڈالر نقد رقم کا مطالبہ کرنے کے بعد ان سے بار بار شادی کا مطالبہ دہراتے ہیں۔
دیوا کا کہنا ہے کہ جب وہ مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت پہنچیں تو ظہورالدین نے مقدمے میں مدد دینے کے لیے ان کے گھر آنے کی پیش کش کی اور گھر آنے کے بعد جج نے رقم کا مطالبہ کیا۔ دیوا کے مطابق ’جب بات رشوت دینے پر آئی تو میں نے اپنا ریکارڈر آن کر لیا اور ان کی آواز ریکارڈ کرنا شروع کر دی‘۔ دیوا ایک مقامی ریڈیو سٹیشن سے منسلک صحافی ہیں اور انہوں نے ریکارڈنگ کا سامان اپنے لباس میں چھپا رکھا تھا۔ بی بی سی کو حاصل شدہ ریکارڈنگ میں پینسٹھ سالہ جج کو اپنے لیے بیس ہزار جبکہ مقدمے کا فیصلہ کرنے والے جج کے لیے ایک لاکھ افغانی کا مطالبہ کرتے اور دیوا کی جانب سے اتنی رقم کی ادائیگی سے معذوری ظاہر کرنے پر ان سے شادی کا مطالبہ کرتے سنا جا سکتا ہے۔ ظہورالدین کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ ’میں تمہارے لیے بیس لاکھ دوں گا اور تمہیں سر سے پیر تک سونے سے لاد دوں گا‘۔
جب بی بی سی نے مذکورہ جج سے رابطہ کیا اور انہیں ثبوت دکھائے تو ان کا دعویٰ تھا کہ صحافی خاتون نے ریکارڈنگ میں تحریف کی ہے اور یہ سب ان کی ’ترقی روکنے کے لیے مخالفین کی سازش ہے‘۔ شادی کے مطالبے کے حوالے سے ظہورالدین نے کہا کہ وہ سب مذاق تھا لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس پندرہ منٹ کی ریکارڈنگ میں انہوں نے شادی کا مطالبہ پندرہ مرتبہ دہرایا تھا۔ انہوں نےگفتگو کے دوران یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر دیوا کے شوہر کو دھمکا کر شہر سے باہر بھجوا سکتے ہیں۔ دیوا کے اہلخانہ نے یہ صوتی ٹیپ کابل میں سپریم کورٹ کے حوالے کی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے عدالتی نظام میں پائی جانے والی بدعنوانی کو نمایاں کرتا ہے۔ افغانستان کی بدعنوانی کے نگران ادارے کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’رقم نہیں دے سکتیں تو مجھ سے شادی کرنا ہوگی‘
دیوا نے افغانستان کے شہر جلال آباد میں ہونے والی یہ گفتگو خفیہ طور پر ریکارڈ کی اور بی بی سی کو حاصل ہونے والی اس ریکارڈنگ میں ظہورالدین دیوا سے ایک لاکھ بیس ہزار افغانی یا دو ہزار امریکی ڈالر نقد رقم کا مطالبہ کرنے کے بعد ان سے بار بار شادی کا مطالبہ دہراتے ہیں۔
دیوا کا کہنا ہے کہ جب وہ مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت پہنچیں تو ظہورالدین نے مقدمے میں مدد دینے کے لیے ان کے گھر آنے کی پیش کش کی اور گھر آنے کے بعد جج نے رقم کا مطالبہ کیا۔ دیوا کے مطابق ’جب بات رشوت دینے پر آئی تو میں نے اپنا ریکارڈر آن کر لیا اور ان کی آواز ریکارڈ کرنا شروع کر دی‘۔ دیوا ایک مقامی ریڈیو سٹیشن سے منسلک صحافی ہیں اور انہوں نے ریکارڈنگ کا سامان اپنے لباس میں چھپا رکھا تھا۔ بی بی سی کو حاصل شدہ ریکارڈنگ میں پینسٹھ سالہ جج کو اپنے لیے بیس ہزار جبکہ مقدمے کا فیصلہ کرنے والے جج کے لیے ایک لاکھ افغانی کا مطالبہ کرتے اور دیوا کی جانب سے اتنی رقم کی ادائیگی سے معذوری ظاہر کرنے پر ان سے شادی کا مطالبہ کرتے سنا جا سکتا ہے۔ ظہورالدین کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ ’میں تمہارے لیے بیس لاکھ دوں گا اور تمہیں سر سے پیر تک سونے سے لاد دوں گا‘۔
جب بی بی سی نے مذکورہ جج سے رابطہ کیا اور انہیں ثبوت دکھائے تو ان کا دعویٰ تھا کہ صحافی خاتون نے ریکارڈنگ میں تحریف کی ہے اور یہ سب ان کی ’ترقی روکنے کے لیے مخالفین کی سازش ہے‘۔ شادی کے مطالبے کے حوالے سے ظہورالدین نے کہا کہ وہ سب مذاق تھا لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس پندرہ منٹ کی ریکارڈنگ میں انہوں نے شادی کا مطالبہ پندرہ مرتبہ دہرایا تھا۔ انہوں نےگفتگو کے دوران یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر دیوا کے شوہر کو دھمکا کر شہر سے باہر بھجوا سکتے ہیں۔ دیوا کے اہلخانہ نے یہ صوتی ٹیپ کابل میں سپریم کورٹ کے حوالے کی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے عدالتی نظام میں پائی جانے والی بدعنوانی کو نمایاں کرتا ہے۔ افغانستان کی بدعنوانی کے نگران ادارے کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’رقم نہیں دے سکتیں تو مجھ سے شادی کرنا ہوگی‘