سیاحت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سیاحت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, اپریل 10, 2016

کَلرکہار ... خوبصورت سیاحتی مقام

کلرکہار ضلع چکوال کا خوبصورت سیاحتی مقام ہے، اور چکوال سے تقریباً 26 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد، لاہور موٹر وے کے ساتھ واقع ہے۔ کلرکہار میں لوکاٹ، ناشپاتی اور انار کے بڑے بڑے باغات کے علاوہ دیگر کئی اقسام کے پھلوں کے درخت کثیر تعداد میں ہیں جن میں کیلے کے درخت پر قابل ذکر ہں۔ ان درختوں سے پھل توڑنے کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ سرکار اس کا ٹھیکہ دیتی ہے اور روپے کماتی ہے، اور ٹھیکیدار کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ان درختوں میں ’’مور‘‘ کھلے عام پھرتے یعنی آزادانہ پھرتے بہت مشہور ہیں۔ پہاڑ ہرے بھرے ہیں، درخت اور جھاڑیاں کثیر تعداد میں ہیں۔ 

کلرکہار میں تخت بابریبہت مشہور جگہ ہے، جو انار کے باغ میں‌ واقع ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کشمیر جاتے ہوئے یہاں ٹھراؤ کیا تھا۔ گرمیوں میں موسم کافی گرم اور سردیوں میں سرد ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار بھی ہے جہاں اکثر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کافی لوگ ہائیکنگ بھی کرتے ہیں۔

لوکاٹ اور انار کے باغات کے ساتھ ہی راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے۔ جھیل جانے کے لئے پہلے صرف ایک طرف راستہ تھا یعنی جہاں سے داخلہ وہیں سے واپسی، چھٹی کے روز گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب صورت حال کافی بہتر ہوگئی ہے، کیوں اب ایک طرف سے جاکر دوسری طرف سے واپسی ممکن ہے۔

چکوال سے کلرکہار اور خوشاب جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی علاقوں میں کافی خطرناک موڑ ہیں جس کے باعث کئی مہلک حادثات ہوچکے ہیں۔ پہلے سڑک کافی تنگ اور خراب حالت میں تھی لیکن اب مناسب حد تک چوڑا کرنے سمیت معیار بھی بہتر ہے۔ پہاڑ کاٹ کر کئی موڑ ختم اور کئی کافی چوڑے کر دیئے گئے ہیں۔ اسلام آباد لاہور موٹروے (ایم ٹو) کی تعمیر سے کلرکہار کی شہرت اور سیاحوں کی آمد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مقامی لوگوں کا روزگار بڑھا اور اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کے اقدامات کیے گئے ہیں، جھیل کے سامنے ریسٹورنٹ اور گیسٹ ہائوسز بنائے گئے، سٹالز اور بچوں کے جھولے بھی لگائے گئے ہیں، جھیل کا راستہ چوڑا کیا گیا اور کشتی رانی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔

کلرکہار سے مشرق کی جانب ایک سڑک چوآسیدن شاہ جانے کے لئے ہے، جس کے راستہ میں مشہور جگہ ’’کٹاس‘‘ ہے جس کے مشہور ہونے کی وجہ وہاں ہندوئوں کے پرانے زمانے کے مندروں کا ایک سلسلہ ہے، اور پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’’گنگا کی آنکھ‘‘ ہے۔ اس علاقہ میں کوئلہ کی بہت ساری کانیں بھی ہیں، اس حوالے سے ایک سرکاری سکول بھی یہاں قائم کیا گیا ہے۔

کلرکہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے سڑک پر سیمنٹ کے کئی کارخانے قائم کئے گئے ہیں، جن میں ’’لفارجے سیمنٹ‘‘ پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کی سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ ہے، اس کا پرانا نام ’’چکوال سیمنٹ فیکٹری‘‘ تھا جو مصر کی ایک کمپنی نے خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ ’’ڈی جی سیمنٹ‘‘ اور ’’بیسٹ وے سیمنٹ‘‘ کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں، ’’ڈی جی خان سیمنٹ‘‘ اور ’’بیسٹ وے سیمنٹ‘‘ کے کارخانے پرویز مشرف کے دور میں‌ قائم ہوئے۔

جمعرات, اگست 01, 2013

نیلم وادی؛ سیاحوں کی نئی جنت

پاکستان سے ایسی کم ہی خبریں سننے کو ملتی ہیں، جن میں کامیابی یا خوشی کا عنصر پایا جاتا ہو۔ اس دوران ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحت کا شعبہ بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔

2005ء میں آنے والے زلزلے اور عسکریت پسندی کے خوف نے آزاد کشمیر میں سیاحت کے شعبہ کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ تاہم اب ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی شہری سیر و سیاحت کی غرض سے اس خطے کا رخ کررہے ہیں۔ اِن پاکستانی سیاحوں کے لیے جھیلیں، گلیشیئرز اور وادی نیلم سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں۔

غیر ملکی خاص طور پر مغربی ممالک کے سیاحوں نے گزشتہ کئی برسوں سے آزاد کشمیر انا چھوڑ دیا ہے۔ اس کی وجہ علاقہ میں عسکریت پسندوں کے تربیتی مراکز کی خبریں بنی تھیں۔ تاہم زلزلہ کے بعد چین کی جانب سے تعمیر کی جانے والی نئی سڑک اور بھارت کے ساتھ فائر بندی معاہدہ کے بعد سیاحوں کی آمد کا سلسلہ دوبارہ  شروع ہوا۔

آزاد کشمیر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ چھٹیاں منانے والے جنوبی پنجاب کے ایک وکیل محمد عامر نے بتایا ’’کچھ ڈر اور خوف تو ہے لیکن ہم خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں‘‘۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی طالبہ منزہ طارق کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ وہ بتاتی ہے، ’’جون کے مہینے میں غیر ملکی کوہ پیماؤں پر کیا جانے والا حملہ پاکستان کے دشمنوں نےکیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد کراچی سے ہمارے رشتہ داروں نے خیریت کے فون کئے لیکن ہم خود کو یہاں محفوظ محسوس کرتے ہیں‘‘۔

سیاحت کے فروغ کی مقامی وزارت سے تعلق رکھنے والی شہلا وقار نے بتایا کہ 2010ء میں گھومنے کے لیے وادی نیلم آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تھی جبکہ گزشتہ برس یہ بڑھ کر چھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے؛ ’’مظفرآباد سے ملانے والی اُس سڑک کی تعمیر کے بعد سیاحت کو مزید فروغ حاصل ہوا جو چینیوں نے تعمیر کی ہے۔ مظفرآباد سے وادی نیلم تک سڑک بہت ہی خوبصورت ہے‘‘۔ یہ علاقہ انتہائی پرسکون ہے اور یہاں دہشت گردی کا خطرہ بھی نہیں ہے۔

علاقہ کے ڈپٹی کمشنر محمد فرید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وادی نیلم میں رجسٹرڈ گیسٹ ہاؤسز کی تعداد 115 ہے جبکہ 2010ء میں یہاں ایک بھی گیسٹ ہاؤس موجود نہیں تھا۔

بالائی نیلم کی گریس وادی کا خوب صورت گائوں تائو بٹ
آزاد کشمیر کے وزیر سیاحت عبدالسلام بٹ نے بتایا کہ غیر ملکی کوہ پیماؤں کو قتل کرنے کے واقعہ نے پاکستان میں سیاحت کو شدید نقصان پہنچایا ہے لیکن اس کا کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ صرف مقامی سیاح ہی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ’’ہم نے تمام ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کو تاکید کی ہے کہ دس بجے تک مرکزی دروازوں کو بند کر دیا جائے‘‘۔

سیاحت کے فروغ سے ملک کے اس غریب ترین خطہ کی معیشت پر مثبت اثرات پڑ رہے ہیں۔ پہلے اس علاقہ کے لوگ گھر بار چھوڑ کر دور دراز کے علاقوں میں محنت مزدوری کے لئے جاتے تھے لیکن اب ایک بڑی تعداد کو اپنے آس پاس ہی روزگار ملنا شروع ہو گیا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔

جمعرات, نومبر 29, 2012

مری میں برف باری، ملکہ کوہسار نے سفید چادر اوڑھ لی

اسلام آباد: ملکہ کوہسار مری سمیت بالائی علاقوں میں موسم سرما کی پہلی برفباری نے سیاحوں کی توجہ حاصل کرلی جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی بارش نے سردی کی شدت میں اچانک اضافہ کردیا ہے۔

ملکہ کوہسار مری، ایبٹ آباد اور پتریاٹہ سمیت ملک کے دیگر بالائی علاقوں میں موسم سرما کی پہلی برفباری کے بعد سردی نے قدم جمالئے ہیں۔ جس کے بعد برفباری کا نظارہ کرنے کے لئے مختلف علاقوں سے سیاحوں کی بڑی تعداد مری پہنچنا شروع ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ دیر، سوات ، مالم جبہ، مینگورہ اور چترال میں بھی برفباری نے قدرتی نظاروں کو مزید دلکش بنا دیا ہے۔ لاہور اور پشاور سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے ہونے والی بارش نے جہاں سردی کی شدت میں اضافہ کردیا ہے وہیں خشک میوہ جات کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگیا۔

کوئٹہ پشین، زیارت، نوشکی اور قلعہ عبداللہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بارش نے جہاں شمال مغربی علاقوں کا موسم سرد کردیا ہے وہیں کراچی سمیت سندھ کے جنوبی علاقوں میں بھی درجہ حرارت کم ہوگیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق حالیہ برفباری اور بارش کی وجہ سے ملک میں سردی کی شدت میں اضافے کا امکان ہے تاہم میدانی علاقوں میں دھند کا سلسلہ تھم جائے گا۔

جمعرات, نومبر 22, 2012

بحیرہ جنوبی چین غیر معمولی دلچسپی کا مرکز

اس کا جغرافیائی محل وقوع، مچھلی اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر اسے بہت زیادہ پرکشش بنانے کی اہم ترین وجوہات ہیں۔ خاص طور سے اس کے ارد گرد واقع اُن دس ریاستوں کے لیے۔

 بحیرہ جنوبی چین، چین کے جنوب میں واقع ایک سمندر ہے۔ یہ بحر الکاہل کا حصہ اور سنگاپور سے لے کر آبنائے تائیوان تک 35 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پانچ ابحار ’اقیانوس، کاہل، ہند، منجمد جنوبی، منجمد شمالی‘ کے بعد بڑا آبی جسم ہے۔

اس کا جغرافیائی محل وقوع، مچھلی اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر اسے بہت زیادہ پرکشش بنانے کی اہم ترین وجوہات ہیں۔ خاص طور سے اس کے ارد گرد واقع اُن دس ریاستوں کے لیے یہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو اس کے کچھ حصوں کے دعوے دار ہیں۔ ان میں چین، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا، برونائی، ویتنام، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ اور کمپبوڈیا شامل ہیں۔

بحیرہ جنوبی چین میں سینکڑوں جزائر اور ساحلی سنگستان پائے جاتے ہیں۔ ویتنامی اسے مشرقی سمندر کہتے ہیں۔ جزائر کے سب سے زیادہ متنازعہ گروپوں میں ’پاراسل جزائر‘، جنہیں چین میں Xisha اور ویتنام میں ہوانگ سا کے طور پر جانا جاتا ہے، اسپراٹلی جزائر جنہیں چین میں نانشا کوانڈو، ویتنام میں ترونگ سا جبکہ فلپائن میں کاپولان یا کالایان کہا جاتا ہے۔ یہ سمندر باقی دنیا کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو مشرقی ایشیا سے ملاتا ہے۔ چین کی تیل کی قریب تمام برآمدات جنوبی چین کے سمندر سے پہنچتے ہیں جبکہ چین سے یورپ اور افریقہ جانے والی تمام برآمدات شمال کی سمت سے جاتی ہیں۔

برلن میں قائم انٹر نیشنل سکیورٹی امور کے ایک ماہر ’گیرہارڈ وِل‘ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’سٹریٹیجک اور ملٹری اعتبار سے جنوبی چین کے سمندر کی ایک اہم پوزیشن ہے جو نہ صرف جنوبی مشرقی ایشیا بلکہ اس کے آس پاس کے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

مچھلیوں کی کثرت
بحیرہ جنوبی چین میں بہت بڑی تعداد میں مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے مطابق جنوبی چین کے سمندر سے دنیا بھر میں مچھلیوں کے سالانہ حصول کا 10 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ مچھلیوں کا بہت زیادہ شکار اب اس سمندر سے مچھلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کا سبب بن رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ماہی گیروں کو اس پانی کی گہرائی میں جانے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں ان کا تصادم پانی کی حفاظت کرنی والی فورسز سے ہو تا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ سالوں میں بحیرہ جنوبی چین کے پانی سے مچھلیاں نکالنے والے ماہی گیروں کی گرفتاریاں اور ان کی کشتیوں کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مختلف ملکوں کی سکیورٹی فورسز ایک دوسرے کے ماہی گیروں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ مچھلی نہ صرف انسانوں کے لیے پروٹین کے حصول کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ یہ ماہی گیری اقتصادی شعبے کی ایک اہم شاخ بن چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2010ء میں ویتنام کی مجموعی قومی پیداوار کا 7 فیصد ماہی گیری کے ذریعے حاصل ہوا۔ فلپائن کے قریب ڈیڑھ ملین باشندے ماہی گیری کے ذریعے اپنا روزگار کماتے ہیں۔

بحیرہ جنوبی چین غیر معمولی دلچسپی کا مرکز

منگل, اکتوبر 23, 2012

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

مہم جُو نوجوانوں کے ایک گروپ نے سائیکل پر سفر کرتے ہوئے جرمنی سے بھارت جانے کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران اہم بات یہ تھی کہ یہ گروپ جہاں بھی گیا، اسے بغیر کسی مشکل کے انٹرنیٹ کی سہولت حاصل رہی۔

برلن سے نئی دہلی تک کا سفر اور وہ بھی سائیکل پر۔ تھوماس جیکل اپنے دیگر تین ساتھوں کے ساتھ برلن سے نئی دہلی تک کا 8 ہزار سات سو کلومیٹر طویل سفر کرنے کے لیے نکلے۔ دیگر اشیاء کے علاوہ زاد راہ کے طور پر ان کے پاس لیپ ٹاپ یو ایس بی سٹکس اور سمارٹ فونز تھے۔ ان تینوں نے اس دوران راتیں خیموں میں بسر کیں اور دن میں سفر کے دوران وقفہ کرنے کے لیے کسی ایسے کیفے یا ہوٹل کا انتخاب کیا، جہاں انٹرنیٹ کی سہولت یعنی ہاٹ سپاٹ موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں یہ سہولت ایسے علاقوں میں بھی میسر آئی، جن کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ باہر کی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ رات کو یہ لوگ سفر کی داستان اور ای میلز لکھتے تھے اور دن میں اسے اپ لوڈ کرتے رہے۔ 26 سالہ تھوماس کہتے ہیں، ’میں بھوک اور پیاس تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن انٹرنیٹ مجھے ہر حال میں چاہیے‘۔

ان کا یہ سفر چھ ماہ پر محیط تھا۔ مہم جو نوجوانوں کا یہ گروپ چیک ریپبلک، آسٹریا، سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، ترکی، ایران اور پھر پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت پہنچا۔ اس دوران انہوں نے آسانی یا مشکل سے کسی نہ کسی طرح انٹرنیٹ سہولت کو تلاش کر ہی لیا۔ جیکل بتاتے ہیں، ’ایران میں، میں نے موبائل کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ بغیر عنوان والی ایک ای میل کو بھیجنے کے لیے تقریباً ایک گھنٹہ لگا‘۔ 27 سالہ ایرک فیئرمان بتاتے ہیں، ’راستے میں جہاں بھی انٹرنیٹ کنکشن موجود تھا، ہم نے وہاں وقفہ کیا۔ لیپ ٹاپ چارج کیے اور انٹرنیٹ کا پاس ورڈ پتا چلانے میں بھی کوئی خاص مشکل پیش نہ آئی‘۔ ان نوجوانوں کے مطابق انٹرنیٹ سے رابطہ ہونے کی صورت میں انہوں نے صرف اہم چیزوں پر ہی توجہ دی اور سکائپ اور فیس بک پر اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس ٹیم نے اپنے سفر کے دوران یہ ثابت کیا کہ انسان اگر چاہے تو وہ سنسان اور ویران مقامات سے بھی رابطے میں رہ سکتا ہے۔

اس سفر کا ایک مقصد بھارت میں بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے ان کے ’’ٹائلٹ پروجیکٹ‘‘ کے لیے چندہ جمع کرنا بھی تھا۔ اس دوران ان کے پاس ساڑھے گیارہ ہزار یورو اکھٹے ہوئے۔ اس رقم سے یہ نوجوان ممبئی کے قریب 25 حاجت خانے بنوائیں گے۔ ممبئی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اس ٹیم کے چار ارکان نے سائیکل پر بھارت کا سفر طے کیا جبکہ ان کے بقیہ ساتھی اپنے اس منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے بھارت پہنچے۔

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

بدھ, ستمبر 26, 2012

برمنگھم سے کشمیر تک بس سروس

پاکستانی کشمیر کی حکومت کے ایک اعلان کے مطابق 4000 میل لمبی سڑک کے ذریعے اب برمنگھم سے کشمیر ’میر پور‘ تک کا سفر خصوصی بس سروس کے ذریعے ممکن ہوگا۔

اس خصوصی بس کا آغازجلد ہی متوقع ہے، یہ اہم بات ہے کہ بس کا کرایہ صرف 130 پاؤنڈ ہوگا، جبکہ برمنگھم سے کشمیر تک کا یہ سفر 7 ملکوں پر محیط ہوگا، اور مسافروں کو 12 روزہ سفر کے بعد یہ ان کی منزل مقصود تک پہنچائے گا۔ اس خصوصی بس کے کو ئٹہ، افغان بارڈر ایجنسی ا یران کے شہر تہران میں سٹاپ ہیں۔

کشمیر کے وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کوکب کا کہنا ہے، اس لمبے سفر کے دوران بس انتظامیہ کی جانب سے کیمپنگ، ریسٹورنٹ اور خوبصورت مناظر کی تصویر کشی کی سہولت بھی مسافروں کو فراہم کی جائے گی۔ جس سے یہ ایک دلچسپ اور یادگار سفر ثابت ہوگا۔

سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے کچھ مقامات اس ضمن میں حساس ہیں جبکہ مجموعی طور پر سفر کے لیے حالات ساز گار ہیں۔

لندن کے مقامی جریدے میں چھپنے والی خبر کے مطابق برمنگھم پارلیمنٹ کے ممبر خالد محمود نے کہا، ’یہ راستہ میر پور اور برمنگھم کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا ذریعے ثابت ہو گا‘۔ ان کے خیال میں یہ بس سروس جلد ہی مقبول ہوجائے گی کیونکہ برطانیہ سے پاکستان تک ہوائی سفر پر اوسطاً 600 پاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی دنیا میں یہ اقدام انقلابی تصور کیا جارہا ہے۔

برمنگھم سے کشمیر تک بس سروس

پیر, ستمبر 24, 2012

دنیا کا مہمان نواز ترین ملک

کریملن سے دو قدم دور، روس کی گورنمنٹ لائیبریری کے مشرقی ادب کے مرکز میں روس کے معروف فوٹو گرافر ایوان دیمینتی ایوسکی اور صحافی سرگئی بائیکو، جنہوں نے پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کا ایک غیر معمولی دورہ کیا تھا، کے کام پہ مبنی نمائش کا افتتاح ہوا ہے۔ آرام کو بھلا کر اور اپنے کنبے کے افراد کو ماسکو چھوڑ کر وہ مہم جوئی اور تصویریں کھینچنے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے، ایسی تصویریں جو روح پہ چھا جائیں۔

نمائش دیکھنے کی خاطر آنے والوں کا استقبال، روس میں پاکستان کے سفیر محمد خالد خٹک نے کیا جنہوں نے گلگت بلتستان کے اپنے ذاتی سفر کی یادیں سنائیں، جہاں کے نظاروں نے فوٹو گرافر ایوان دیمنتی ایوسکی کو اپنی جانب کھینچا تھا۔ سفیر محترم نے کہا کہ انہیں یہ جگہ خود تو پسند ہے ہی لیکن باقی سب کو بھی وہ وہاں جانے کا مشورہ دیتے ہیں، ”فوٹو کھینچنے والے اس سے پہلے نیپال، بھارت اور بھوٹان کے دشوار گذار سفر کئی بار کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ سفر مشکل حالات میں کندھوں پر رک سیک رکھ کر اور راتیں خیموں میں بسر کرتے ہوئے کیے ہیں۔۔ ایوان دیمنتی ایوسکی پاکستان کے مقامی لوگوں، مقامی تہواروں اور کھیلوں سے وابستہ واقعات اور خاص طور پر ہمالیہ کی تصویریں بنانے کی خاطر پاکستان گئے تھے۔ ان عظیم پہاڑوں سے انہیں پیار ہوگیا اور انہوں نے بہتر تصویر کشی کی خاطر خطرات مول لینا قبول کرلیا۔ پاکستان میں ان کا خیمہ پھسلتی برف کی زد میں آگیا..........
یہ دلچسپ مکمل تحریر پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں

دنیا کا مہمان نواز ترین ملک

کاغان کے پہاڑوں پر سرما کی پہلی برفباری

ملک کے شمالی علاقوں کاغان، ناران، شوگراں، بابو سر ٹاپ میں موسم سرما کی پہلی برفباری سے موسم شدید سرد ہوگیا ہے۔ سیکڑوں سیاح موسلا دھار بارش کے باعث رابطہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے مختلف مقامات پر پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ملک کے سب سے خوب صورت سیاحتی اور صحت افزاء مقامات وادی کاغان اور ناران اور دیگر علاقوں میں موسلا دھار بارش ہوئی، بارش کے ساتھ برفباری بھی ہوئی جس کی وجہ سے علاقے میں سردی کا آغاز ہوگیا۔

جمعرات, جون 28, 2012

کلرکہار، اسلام آباد کے قریب خوب صورت سیاحتی مقام

جھیل کا بوٹنگ پوائنٹ
کلرکہار ضلع چکوال کی تحصیل اور خوب صورت سیاحتی مقام ہے جو چکوال شہر سے جنوب مغرب کی جانب تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد، لاہور موٹر وے کے ساتھ سرگودھا خوشاب سڑک پر واقع ہے۔ کلرکہار سطح سمندر سے 3 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، کلرکہار میں کیڈٹ کالج، فضائیہ انٹر کالج اور فوج فائونڈیشن ہسپتال بھی قائم کیا گیا ہے۔ کلرکہار کی مقبولیت کی بنیادی وجہ  وہاں موجود باغات میں آزاد پھرتے مور اور بڑے رقبہ پر جھیل، لوکاٹ، ناشپاتی اور انار کے باغات ہیں۔ ان باغات میں کیلے کے درخت بھی موجود ہیں۔ درختوں سے پھل توڑنے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ سرکار باغات کا ٹھیکہ دیتی ہے اور ٹھیکہ دار کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کلرکہار میں گلاب کے باغ بھی ہیں جن سے عرق نکال کر فروخت کیا جاتا ہے۔ عرق گلاب کی بوتلیں چوک میں واقع دکانوں پر فروخت کے لئے موجود ہیں۔ درختوں میں ”مور“ کھلے عام آزاد پھرتے بہت مشہور ہیں۔ مزار کی پہاڑی سے مشرق کی جانب پہاڑی تک ایک لفٹ بھی لگائی گئی ہے جس سے وادی اور جھیل کا خوب صورت نظارہ ملتا ہے۔ 

تخت بابری اور جھیل کا راستہ
کلرکہار میں تخت بابری بہت مشہور جگہ ہے جو انار کے باغ میں واقع ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کشمیر جاتے ہوئے یہاں ٹھرائو کیا اور اپنی فوج سے خطاب کیا تھا۔

گرمیوں میں موسم کافی گرم اور سردیوں میں سرد ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار بھی ہے جہاں اکثر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ جس پہاڑی پر مزار واقع ہے اس کے دامن میں پانی کا چشمہ ہے جہاں سے ہر وقت پانی نکلتا رہتا ہے۔ یہ پانی ایک نالے کے ذریعے جھیل تک پہنچایا جاتا ہے، نالے کے اوپر پانی کے راستے میں حمام بنائے گئے ہیں جہاں عام لوگوں کو غسل کرنے کی اجازت ہے۔

آزاد گھومتا 'مور'
لوکاٹ اور انار کے باغات کے ساتھ ہی راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے۔ جھیل جانے کے لئے پہلے صرف ایک راستہ تھا، جہاں سے داخلہ تھا وہیں سے واپسی بھی ہوتی تھی جس کے باعث چھٹی کے روز خاص طور پر گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کے ہجوم کی وجہ سے سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ٹریفک جام ہوجاتی تھی لیکن اب سڑک جھیل کے گرد مکمل اور مناسب چوڑی کردی گئی ہے، ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے موٹر وے انٹر چینج کے قریب مرکزی سڑک پر پہنچا جا سکتا ہے۔ جھیل پر سہولتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کا موٹل اور ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاﺅسز اور ایک چھوٹا پارک بھی بنایا گیا ہے۔ بچوں کی دلچسپی کے لئے جھولے اور دیگر چیزیں بھی موجود ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء، گفٹ شاپس اور دستکاریوں کے مختلف سٹال بھی لگائے گئے ہیں۔ جھیل مین بوٹنگ سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، جھیل کی سیر اور بوٹنگ کے دوران سب سے خوب صورت نظارہ وہ ہوتا ہے جب آپ کی کشتی کے قریب کئی مرغابیاں تیرتی اور غوطہ خوری کرتی نظر آئیں گی۔

جھیل کے ساتھ جھولے اور پارکنگ
چکوال سے کلرکہار اور خوشاب جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی علاقوں میں کئی موڑ کافی خطرناک ہیں جس کے باعث کئی مہلک حادثات ہو چکے ہیں۔ پہلے سڑک کافی تنگ اور خراب تھی لیکن اب چوڑی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑ کاٹ کر کئی موڑ ختم اور کئی کافی چوڑے کئے گئے ہیں۔ موٹر وے بننے سے کلرکہار کی شہرت اور سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ دور دراز سے لوگ ایک روز کی تفریح کے لئے بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا روزگار بڑھا ہے اور اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

کلرکہار سے مشرق کی جانب ایک سڑک چوآسیدن شاہ جانے کے لئے ہے جس کے راستہ میں مشہور جگہ ”کٹاس“ ہے جس کے مشہور ہونے کی وجہ وہاں ہندوﺅں کے پرانے مندروں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان مندروں کے ساتھ پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے ”گنگا کی آنکھ“ کہا جاتا ہے۔ کلرکہار چوآسیدن شاہ روڈ کے ارد گرد علاقہ میں کوئلہ کی بہت ساری کانیں بھی ہیں، اسی سے متعلق ایک سرکاری سکول بھی یہاں قائم کیا گیا ہے۔

چکوال سرگودھا خوشاب روڈ
کلرکہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے سڑک پر سیمنٹ کے کئی کارخانے قائم کئے گئے ہیں، جن میں ”لفارجے سیمنٹ“ پیداوار کے لحاظ سے ایشیاء کا سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ ہے، اس کا پرانا نام ”چکوال سیمنٹ فیکٹری“ تھا جو مصر کی ایک کمپنی نے خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ ”ڈی جی سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ”ڈی جی خان سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوئے۔

++++++++++

چوآسیدن شاہ کے قریب "کٹاس راج" میں 'گنگا کی آنکھ' اور مندر

کلرکہار میں لفٹ

تخت بابری اصلی حالت میں