عدالت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عدالت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل, فروری 12, 2013

’سوال آپ نہیں بلکہ عدالت کرے گی‘

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لیے اپنی درخواست کی پیروی کے لیے ان چند افراد میں شامل تھے جو عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ کمرۂ عدالت نمبر ایک میں طاہرالقادری اپنے حماتیوں کے ہمراہ داخل ہوئے اور زیادہ تر نشتوں پر اُن کے حامیوں کا ہی قبضہ تھا جبکہ وکلاء اور اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آنے والے افراد کے پاس کھڑے رہنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے نو بجے عدالت میں پہنچنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کو پانچ گھنٹے کے بعد یعنی دوپہر ڈھائی بجے کے قریب روسٹم پر آنے کو کہا گیا۔ کمرۂ عدالت میں موجود افراد یہ چہ مگوئیاں بھی کر رہے تھے کہ احتجاجی دھرنے کے دوران حکومت کو پانچ منٹ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم دینے والے طاہرالقادری کمرۂ عدالت میں بےبس دکھائی دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پیر کو ’ریگولر مقدمات‘ کی سماعت کرنے کے بعد سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل طاہرالقادری کو دلائل دینے کو کہا۔ سپریم کورٹ نے جب طاہرالقادری کو روسٹم پر آنے کو کہا تو ان کے ہمراہ آئے ہوئے اُن کے حمایتی بھی روسٹم پر ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور باقی افراد کو اپنی سیٹوں پر بیٹھنے کا حکم دیا۔

طاہرالقادری نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل شروع ہی کیے تھے کہ تین رکنی بینچ نے ان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ درخواست گزار بجائے اس کہ وہ اپنی درخواست کے متعلق کچھ دلائل دیتے انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے سے متعلق صفائی دینی شروع کردی اور انہوں نے سماعت کرنے والے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’مائی لارڈز میرا سوال ہے‘ جس پر بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ سوال آپ نہیں بلکہ عدالت آپ سے کرے گی اور عدالت کو مطمئین کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ منہاج القرآن کے سربراہ نے عدالت سے دو منٹ میں اپنی بات مکمل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور کہا کہ وہ تحریری شکل میں جواب دیں۔

جمعرات, نومبر 29, 2012

کالا باغ ڈیم کے تعمیر کی سفارشات پر عمل کیا جائے، عدالت

کالاباغ ڈیم منصوبے کا مجوزہ مقام - فائل فوٹو
اسلام آباد — پاکستان کی ایک اعلیٰ عدالت نے حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات پر عمل کرے۔

جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کالا باغ ڈیم تعمیر نہ کیے جانے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کی شق 154 کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کی پابند ہے۔ جوڈیشل ایکٹویزم کونسل نامی ایک گروپ کی طرف سے دائر کی گئی ان درخواستوں پر فیصلے کے بعد کونسل کے چیئرمین محمد اظہر صدیق نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 2004ء میں اس ڈیم کی تعمیر کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا کہا تھا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر صدیق نے کہا کہ اگر وفاق یا صوبائی حکومت کو کوئی اعتراض ہے تو ’’وہ آئین کے سب آرٹیکل سات کے تحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کو لے کر جائے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان سفارشات کو رد کر دے۔‘‘

1978ء میں میانوالی کے قریب واقع کالاباغ کے مقام پر اس منصوبے پر تعمیر کا آغاز ہوا تھا لیکن 1984ء میں اسے روک دیا گیا۔ تب سے لے کر آج تک ملک کو درپیش توانائی کے شدید بحران کے باوجود سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ ایک تنازع کی صورت میں زندہ ہے۔ منصوبے کے مطابق کالا باغ ڈیم کے پانی کا ذخیرہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ہو گا جب کہ بجلی کی پیداوار کی تنصیبات صوبہ پنجاب کی حدود میں ہوں گی۔ اس صورتحال میں دونوں صوبوں کے درمیان ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی آمدن میں حصے کا جھگڑا بھی موجود ہے۔ اس منصوبے کے حق میں پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں برسراقتدارعوامی نیشنل پارٹی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہے جب کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں نے بھی اس منصوبے کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔

حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا موقف رہا ہے کہ کئی سال پرانے اس منصوبے پر صوبوں میں اختلافات کے باعث آج تک کام شروع نہیں ہوسکا ہے اور اُن کے بقول کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا موجودہ حالات میں مطالبہ کرنا صوبوں میں اس معاملے پر منافرت کا باعث بن سکتا ہے۔

جمعہ, نومبر 16, 2012

صارف عدالت کے نوٹس پر کمپنی نے نیا یو پی ایس دے دیا

راولپنڈی کی خصوصی صارف عدالت کی جانب سے لیگل نوٹس کے اجراء پر ملٹی چوائس کمپنی نے صارف کو یو پی ایس واپس کر دیا۔ ڈسٹرکٹ کنزیومر کونسل کے فوکل پرسن ادریس رندھاوا نے شہریوں کو خبردار کیا کہ وارنٹی والی اشیاء کی مرمت کے لیے ادائیگی نہ کریں یہ کمپنیوں کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے پاس سے چیزیں ٹھیک کر کے دیں۔ 

صارف محمد اظہر نے پنجاب کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کے تحت ایک لیگل نوٹس جاری کیا تھا جس میں مﺅقف اختیار کیا گیا کہ اس نے کمپنی سے ایک عدد یو پی ایس خریدا جس کی ایک سال کی وارنٹی دی گئی اور وہ وارنٹی میں تین بار خراب ہو چکا ہے۔ صارف نے جب بھی کمپنی سے رابطہ کیا تو ہر وقت رپیئرنگ چارجز وصول کرتے ہیں۔ حالانکہ وارنٹی میں تمام اخراجات کمپنی کے ذمہ ہوتے ہیں۔ کمپنی نے آج صارف کو نیا یو پی ایس فراہم کر دیا اور تسلیم کیا کہ آئندہ کسی صارف سے دوران وارنٹی، چارجز وصول نہیں کیے جائیں گئے۔ کنزیومر کونسل کی طرف سے انہیں آگاہ کیا گیا کہ اگر دوبارہ ایسی شکایت آئی تو نوٹس کے کیس کورٹ میں فائل ہو جائے گا جس کی تمام ذمہ داری کمپنی پر عائد ہوگی۔


جمعہ, نومبر 02, 2012

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

بھارت کی ریاست راجستھان کے بارمیڑ ضلعے کی ایک عدالت نے تین لڑکوں کو اپنے والد کا خیال نہ رکھنے پر دو دو ماہ کی سزا سنائی ہے۔ اس عمر رسیدہ شخص کے بیٹوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے والد کا خیال نہیں رکھا اور انہیں بے سہارا چھوڑ دیا۔ بارمیڑ کے گودھاملانی کے ذیلی ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جمعرات کو یہ فیصلہ سنایا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ ان تینوں بیٹوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے۔ ستر سالہ سونا رام وشنوعی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایس ڈی یم نے یہ پایا کہ ان کے بچوں نے ان کا خیال نہیں رکھا اور انھیں بے سہارا چھوڑ دیا اور اسی لیے انہیں یہ سزا سنائی گئی۔ شکایت کے مطابق وشنوئی کے چھ بیٹے ہیں جن میں سے تین نے عدالت کے حکم کے باوجود ان کی مدد کرنے سے منع کردیا۔ شکایت نامے کے مطابق چھ میں سے تین بیٹوں نے عدالت کے سامنے اپنے والد کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا لیکن دوسرے تین بیٹوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ایک لاپرواہ والد رہے ہیں اور انہوں کبھی اپنی اولاد کی پروا نہیں کی۔

عدالت میں ان بیٹوں کو حاضر کرنے کے لیے عدالت کو کافی مشقت کرنی پڑی کیونکہ ان کے بیٹے عدالت سے جاری سمن وصول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ عدالت نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ ضعیف سونارام وشنوئی یہاں وہاں بھٹک رہے ہیں اس لیے ان کے بیٹوں کو چاہیے کہ وہ ان کی فکر کریں لیکن ان کے بیٹوں نے ان کی کوئی خبر نہیں لی۔ شروع میں عدالت نے ان کے بیٹوں کو اپنے والد کی دیکھ بھال کی جانب راغب کرنے اور احساس دلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔ اس کے بعد ایس ڈی ایم شنکر لال نے بوڑھے اور معمر شہری کی نگرانی اور دیکھ بھال کے قانون کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ‎سزا سنائی۔

اس قانون کے مطابق اگر کسی شخص کو اس جرم کا مرتکب پایا گیا کہ وہ اپنے والدین کا خیال نہیں رکھ رہا ہے تو اسے تین ماہ کی قید ہو سکتی ہے اور پانچ ہزار تک جرمانہ۔ ریاست نے دو سال قبل اس قانون کو منظوری دی تھی۔

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

جمعرات, نومبر 01, 2012

گوگل ہتکِ عزت کا مقدمہ ہار گیا

آسٹریلیا میں گوگل کے خلاف ہتکِ عزت کے ایک مقدمے میں جیوری نے ایک شکایت کے بعد اسے ہرجانے کا موجب قرار دیا ہے۔ شکایت میں کہا گیا تھا کہ اس کے سرچ کے نتائج میں ایک مقامی شخص کو جرائم کی دنیا سے وابستہ دکھایا گیا ہے۔ ملوراڈ ٹرکلجا نامی شخص نے الزام لگایا تھا کہ امریکی کمپنی کی وجہ سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔ باسٹھ سالہ شخص کا کہنا تھا کہ جب سرچ انجن کو اسے ہٹانے کے لیے کہا گیا تو اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے پہلے وہ یاہو کے خلاف بھی مقدمہ جیت چکے ہیں۔ گوگل نے ابھی اس فیصلے پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے۔ اگلے دو ہفتوں میں جج یہ طے کریں گے کہ ہرجانہ کتنا ہونا چاہیے۔

ملوراڈ ٹرکلجا 1970 کے اوئل میں یوگوسلاویہ چھوڑ کر آسٹریلیا آ بسے تھے۔ اس کے بعد وہ تارکینِ وطن کی برادری کے اہم رکن بن گئے اور 1990 کے دہائی میں یوگوسلاو موضوعات پر ’مکی فولکفیسٹ‘ نامی ٹی وی شو بھی چلاتے رہے۔ سنہ 2004 میں ایک ریستوران میں بالاکلاوا (ایک خاص قسم کا کنٹوپ) پہنے ایک شخص نے ان کی کمر پر گولی مار دی تھی۔ یہ کیس کبھی بھی حل نہیں ہوا لیکن بعد میں ہیرالڈ سن اخبار نے اس کی یہ خبر لگائی کہ پولیس کے مطابق میلبورن زیرِ زمین مافیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں جب بھی ملوراڈ ٹرکلجا کا نام گوگل تصاویر میں ڈالا جاتا تو کئی افراد کی تصاویر ان کے نام کے ساتھ آ جاتیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ مبینہ طور پر قاتل ہیں اور ایک منشیات فروش بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں سے کئی ایک تصاویر کے نیچے ’میلبورن کرائم‘ بھی لکھا آتا ہے جس میں سے ایک ٹرکلجا کی بھی ہے، جس کے متعلق وہ الزام لگاتے ہیں کہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ بھی جرائم پیشہ ہیں۔.

گوگل کو جرمنی کے سابق صدر کی اہلیہ بیٹینا وولف کی جانب سے بھی شکایت کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی ان کا نام لکھ کر سرچ کیا جاتا ہے تو ’وحشیا‘ اور ’بازارِ حسن‘.جیسی مجوزہ سرچ کے نتائج آتے ہیں۔

گوگل ہتکِ عزت کا مقدمہ ہار گیا

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہفتہ وار تبدیلی روک دی گئی

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہفتہ وار اضافہ اور گیس کی قیمتوں کو پٹرول سے منسلک کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ سی این جی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ سی این جی کی قیمت پٹرول سے الگ کردی جائے تو گیس 25 روپے فی کلو سستی ہوجائے گی۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ عوام سے وصول کی گئی اضافی رقم واپس دینے کا فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اوگرا کمپنیوں کے کہنے پر بغیر جانچ پڑتال کے قیمتیں بڑھا دیتی ہے۔ اگر عدالت کو مطمئن نہ کیا گیا تو سخت فیصلہ دیا جائے گا۔ 

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ استحصال کر کے عوام کی جیب سے پیسے نکلوانے کا کسی کو اختیار نہیں۔ حکومت اوگرا کو نہیں کہہ سکتی کہ گیس کی قیمتیں بڑھائی جائیں۔ 

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جس ایم او یو پر دستخط ہوئے اس میں سیٹھ ہے، حکومت ہے اور وزارت پٹرولیم ہے، اس مفاہمتی یاداشت میں نہ اوگرا ہے اور نہ صارف۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ اوگرا نے عوام کی جیب سے اضافی رقم نکال کر سیٹھ کو دے دی۔ یہ رقم واپس ہونی چاہئے، اوگرا یا حکومت نے کبھی بھی سوئی نادرن اور سادرن سے نرخوں کے متعلق سوال نہیں کیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایک کاغذی کارروائی کے ذریعے قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔ اب تک اوگرا جو کرتا رہا وہ عوام کے مفاد میں نہیں کیا۔ قانون کہتا ہے کہ اوگرا نے عوام کے مفاد کا خیال بھی رکھنا ہے، اوگرا حکام نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ابتک صارفین کو 32 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یو ایف جی کے تحت آپ نے کیا فائدہ پہنچایا اور کیا نقصان، ہمارے علم میں ہے۔ اوگرا نے غریب کی جیب پر نقب لگائی، پٹرول کی قیمت کے ساتھ گیس کی قیمت بڑھانا ہمیں ہضم نہیں ہورہا۔ آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر غیاث پراچہ نے فاضل عدالت کو بتایا کہ یکم جنوری 2012 سے گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ پٹرول کی قیمت سے منسلک نہ کیا جائے تو سی این جی 25 روپے فی کلو سستی ہوسکتی ہے۔ اوگرا اور وزارت پٹرولیم کہتی ہے کہ صارف کی نہیں بلکہ اپنے منافع کی بات کرو۔ عدالت نے غیاث پراچہ کو اپنا بیان تحریری شکل میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ بنچ نے سوئی نادرن اور سدرن کے ایم ڈی صاحبان کو کل کے لئے نوٹس جاری کردئیے ہیں۔
 

پیر, اکتوبر 22, 2012

یمن: خاتون کو عزت بچانے پر سزائے موت

 یمن کی ایک عدالت نے خاتون شہری رجا حکیمی کو سزائے موت سنائی دی، رجا پر الزام تھا کہ اس نے مبینہ طور پراپنی عصمت دری کی نیت سے گھر میں داخل ہونے والے ایک شخص کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا, رجا حکیمی کو جنوبی صوبے ایب کی ضلعی عدالت نے پہلے دو سال قید کی سزا سنائی جس کے خلاف اپیل کرنے کے نتیجے میں سزا کو بڑھا کر سزائے موت کر دیا گیا، خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔

اتوار, اکتوبر 07, 2012

پاپائے روم کے سابق خانساماں کو 18 ماہ قید کی سزا

ویٹیکن عدالت نے پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم کے سابق خانساماں پاؤلو گابریئلے کو اٹھارہ ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔ مثالی خادم کا درجہ رکھتے والے گابریئلے پر ویٹیکن کی اہم دستاویزات افشا کرنے کا الزام تھا۔

ویٹیکن عدالت کے تین ججوں پر مشتمل پینل کے مطابق پاؤلو گابریئلے پوپ کی ذاتی دستاویزات کی چوری اور انہیں صحافیوں تک پہنچانے جیسے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اٹھارہ ماہ قید کی سزا کے ساتھ ساتھ مقدمے پر اٹھنے والے اخراجات بھی ادا کرنا ہوں گے۔

وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ گابریئلے کو تین برس قید کی سزا سنائی جائے جبکہ وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ ان کے اس اقدام کو ’سنگین چوری‘ کے بجائے ’خیانت‘ قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کیا جائے۔

گابریئلے کا ہفتے کے روز کہنا تھا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ کیتھولک چرچ کی محبت میں کیا ہے، ’’جو چیز میں سب سے زیادہ محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے جوعمل کیا وہ مسیح اور زمین پر اس کے نمائندوں کی محبت میں کیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں چور ہوں‘‘۔

اس فیصلے کے فوری بعد ویٹیکن کے ترجمان فریڈریکو لومبارڈی کا کہنا تھا کہ ’کافی امکان‘ ہیں کہ پوپ گابریئلے کو معاف کردیں گے۔

چھیالیس سالہ گابریئلے نے اس وقت ویٹیکن کی چھوٹی سی کمیونٹی کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جب انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے ویٹیکن کی اہم دستاویزات افشا کردیں۔ ان کے اس عمل کے باعث لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ انہوں نے ایسا کرکے اپنی آزادی کو خطرے میں کیوں ڈالا؟

گابریئلے کی جانب سے افشا کی گئی معلومات میں ویٹیکن کے ٹیکسوں کے مسائل سے متعلق امور، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اور باغیوں کے ساتھ چرچ کے مذاکرات جیسے مبینہ راز شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات ابھی طے نہیں ہے کہ پاؤلو گابریئلے نے یہ قدم چرچ کی محبت میں اٹھایا یا پھر وہ ایک بڑی سازش کا حصہ بنے، جس کا مقصد ویٹیکن کی طاقتور شخصیات کو ان کے عہدوں سے ہٹوانا تھا۔

تین بچوں کے والد پاؤلو گابریئلے ایک انتہائی ایماندار اور کم گو شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جن کو پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم کے نجی کمروں تک رسائی حاصل تھی اور جو پوپ کے صبح سو کر اٹھنے سے رات کو خوابیدہ ہونے تک کے معاملات سے واقف تھے۔ ’پاؤلیٹو‘ کے نام سے مشہور، گابریئلے سن 2006 سے پوپ بینیڈکٹ کے ساتھ تھے اور انہیں پوپ کے دوروں کے موقع پر پوپ کے ہمراہ دیکھا جاتا تھا۔

پاپائے روم کے سابق خانساماں کو 18 ماہ قید کی سزا

اتوار, ستمبر 23, 2012

یورپ میں آزادی اظہار کا دوہرا معیار

فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔

20 مسلمان ملکوں میں فرانس کے سفارت خانے، قونصلیٹ اور انٹرنیشنل سکول جمعے کے روز بند کردئیے گئے۔ اس ہفتے کے شروع میں فرانس کے ایک مزاحیہ رسالے میں پیغمبرِ اسلام کو کارٹونوں کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ ان کارٹونوں کے خلاف جو ردعمل ہوا ہے اس کے جواب میں فرانس کی حکومت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فرانس میں اظہارِ رائے کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ آزادیٔ تقریر کے معاملے میں، فرانس اور بعض دوسرے یورپی ملکوں نے، دوہرے معیار اپنائے ہوئے ہیں۔

فرانس کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کارٹونوں سے جن لوگوں کے جذبات مجروح ہوئےہیں، وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جا سکتے ہیں۔

اطلاع کے مطابق، کم از کم ایک مسلمان گروپ نے پیرس میں پراسیکیوٹرز کے پاس پہلے ہی فوجداری شکایت درج کرا دی ہے۔ سرکاری وکیلوں کو ابھی یہ طے کرنا ہے کہ کوئی قانونی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔

اس سے قبل جب مذہبی گروپوں کی دل آزاری کرنے کے الزام میں ہفتے وار رسالے Charlie Hebdo کے خلاف مقدمے دائر کیے گئے ہیں، تو ان کا فیصلہ رسالے کے حق میں ہوا ہے۔ چار سال قبل، جب اس رسالے نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں وہ کارٹون شائع کیے جو اس سے پہلے ڈنمارک کے ایک رسالے میں شائع ہوچکے تھے، تو اس نے وہ مقدمہ جیت لیا تھا جو اس کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔ 2008 میں جب اس رسالے نے پوپ کا کارٹون شائع کیا، تو اس کے خلاف شکایت درج کرائی گئی تھی لیکن وہ بھی ناکام رہی تھی۔

فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر ان کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔ فرانس میں مذہبی وجوہ، کافی نہیں ہوتیں۔


وہ کہتے ہیں کہ مذہب پر تنقید کرنا مقبول قومی مشغلہ ہے۔ انگریزی بولنے والے ملکوں میں لوگوں کا خیال ہے کہ فرانس کیتھولک ملک ہے۔ لیکن یہ مفروضہ غلط ہے۔ یہاں بیشتر لوگ سیکولر، لا دین یا دہریے ہیں۔ وہ مذہبی شعائر پر عمل نہیں کرتے۔ اور روایتی طور پر، فرانس میں بائیں بازو کی تحریک نے اپنی بنیاد کیتھولک چرچ کی مخالفت پر رکھی تھی۔ لہٰذا، فرانس میں مذہب کی مخالفت کی روایت بڑی طویل ہے اور یہ مخالفت دوسرے مذاہب تک پھیلی ہوئی ہے۔

Matt Rojansky امریکہ میں قائم ریسرچ تنظیم Carnegie Endowment for International Peace سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں فرانس  کے علاوہ اور بھی ملک ہیں  جہاں  تقریر کی آزادی پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس طرح منافقت اور دو عملی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، الجزائر اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے مسلمان اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ یورپ کے بعض ملکوں میں سر پر حجاب لینا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ یورپ میں آزادیٔ تقریر پر بعض پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ لیکن پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان ملکوں  میں، دوسرے لوگ، ان کے خیال میں، سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں، وہ کارٹون شائع کرسکتے ہیں اور جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ قوم پرست سیاستداں بہت سے باتیں کہتے ہیں، اور ان چیزوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا، مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ یہ سرا سر منافقت ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک یورپ اس تضاد کو دور نہ کرے، مسلمانوں کا استدلال صحیح ہے۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لئے براہ کرم نیچے لنک پر کلک کریں

یورپ میں آزادی اظہار کا دوہرا معیار ہے

جمعہ, ستمبر 07, 2012

برما: آئینی عدالت کا پارلیمنٹ سے ٹکراؤ، تمام جج فارغ

برما کی پارلیمنٹ نے آئینی عدالت کی طرف سے سیاسی اصلاحات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزام میں تمام نو ججوں کا مواخذہ کرکے ان کے عہدوں سے برخاست کردیا ہے۔

برما میں جمہوریت کی بحالی کے بعد پارلیمنٹ اور عدلیہ میں سیاسی اصلاحات پر اختلافات پائے جاتے تھے اور اعلیٰ عدلیہ پر الزام لگایا جارہا تھا کہ وہ سیاسی اصلاحات کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہے۔

برما کی اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمنٹ میں اس وقت ٹھن گئی تھی جب عدالت نے رواں برس مارچ میں یہ حکم دیا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے پاس حکومتی وزراء کو طلب کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔

برما کی عالمی شہرت یافتہ جمہوریت حامی رہنما آنگ سان سو چی کی جماعت نے بھی ججوں کے مواخدے کی حمایت کی ہے۔

بینکاک میں بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کا کامیاب مواخذہ کرکے آئین کے آرٹیکل تین سو چوبیس کو براہ راست چیلنج کردیا ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کسی آئینی معاملے پر ججوں کا حکم حتمی ہوگا اور اسے پارلیمنٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

برما کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ صدر تھان شین نے ججوں کے استعفے منظور کرلیے ہیں۔

پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے دو تہائی اراکین نے ججوں کے مواخذے کی حمایت کی۔ پارلیمنٹ کا ایوان بالا ایک ماہ پہلے ہی ججوں کے مواخذے کو منظور کرچکا تھا۔

برما: آئینی عدالت کا پارلیمنٹ سے ٹکراؤ، تمام جج فارغ