ہفتہ, جون 30, 2012

ہاتھ دھونے سے انسان کے قوت فیصلہ میں آسانی


جدید طبی اور نفسیاتی تحقیق کے مطابق ہاتھ دھونے سے صرف صحت پر ہی مثبت اثرات نہیں ہوتے بلکہ اخلاقی سطح پربھی اس کے اثرات دیکھے گئے ہیں۔ اسلام میں صفائی نصف ایمان اور دیگر مذاہب میں جسم کی صفائی پر اسی لئے زور دیا گیا ہے کہ ہاتھ دھونے سے قوت فیصلہ میں اضافہ ہوسکتا ہے اور انسان خود کو زیادہ پراعتماد محسوس کرتا ہے۔ 

برطانوی سائنس دانوں نے کہا کہ کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اگر ہاتھ دھو لئے جائیں تو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ سائنس دانوں نے جرائم سے متعلق فیصلے کرنے والی جیوری کی سفارش کی ہے کہ وہ اس عمل سے استفادہ کرسکتے ہیں جبکہ ووٹر ووٹ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھولیں تو درست فرد کے انتخاب میں آسانی محسوس کریں گے۔ 

ایک تجربے کے دوران ۲۲ افراد کے ہاتھ دھلا کر اور ۲۲ افراد کے بغیر ہاتھ دھوئے ان کو منشیات کی سمگلنگ پر مشتمل ایک فلم دکھائی گئی۔ فلم دیکھنے کے بعد تمام افراد نے اس فلم کو برا قرار دیا اور سمگلروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر زور دیا مگر ہاتھ دھونے والے افراد نے منشیات سمگل کرنے والی وجوہات کو بھی سامنے لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ 
یہ تحقیق یونیورسٹی آف پلی ماوتھ کی طبی اور نفسیاتی ماہر ڈاکٹر سیمونی سچنل نے مرتب کی۔ جس کو ۱۰۰ سے زائد مختلف تجربوں کے بعد سامنے لایا گیا تھا۔ اس تحقیق کے نتائج کو لان کیسئر یونیورسٹی کے سائیکالوجسٹ پروفیسر کیری کوپر نے ”خوفناک“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”واقعی صفائی ہمیں بہت سے غلط فیصلوں سے بچا سکتی ہے‘‘۔

معمولات میں تبدیلی، صحت مند زندگی

ڈاکٹر خالد کاظمی

بہت کم لوگ ایسے ہیں، جو اعصاب شکن مصروفیات کے بعد بھی تروتازہ دکھائی دیتے ہیں۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثریت دفتروں میں زیادہ وقت کرسی پر بیٹھ کر ہی گزارتی ہے۔ ماحول اگر آئیڈیل نہ ہو تو انسان یکسانیت کا شکار ہوجاتا ہے اور طبیعت پر پژمردگی چھا جاتی ہے۔
 
اگر آپ خود پر تھوڑی سی توجّہ دیں تو دفتری کام کاج کے باوجود تروتازہ اور ہشّاش بشّاش رہا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ناشتا بھرپور کیجیے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جلدی بھوک نہیں لگے گی، دوسرے، آپ چاکلیٹ، چھولے، سنیکس و دیگر غیرضروری چیزوں سے پرہیز کریں۔

ایک اچھے ناشتے سے مراد۔ اناج، دلیہ، دودھ، انڈا وغیرہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے ڈاکٹر نے مخصوص چیزوں پر پابندی نہیں لگا رکھی تو آپ اپنی پسند کے مطابق کھانے پینے کی ہر شے استعمال کرسکتے ہیں۔ توانائی حاصل کرنے کے لیے ”دہی“ بھی ایک عمدہ غذا ہے۔جسمانی توانائی کے حصول کے بعد اعصابی توانائی کا حصول باقی رہ جاتا ہے۔ آپ طالب علم ہیں یا ملازمت پیشہ، خاتونِ خانہ ہیں۔ دفتر میں کام کرتے ہیں، دکان دار ہیں یا کسی اور پیشے سے منسلک، آپ جو بھی کام کریں گے، اس میں توانائی تو بہرحال خرچ ہوگی۔ اگر ذہنی کام یا مصروفیات کچھ زیادہ ہیں تو تھکان یا اعصابی تناؤ کا ہونا لازمی امر ہے۔ ذیل میں ہم آپ کے لیے خوش و خرم رہنے کی کچھ ٹپس درج کررہے ہیں۔
 
دفتر میں ممکن ہو تو حرکت کرتے رہیں اور ہر پندرہ، بیس منٹ کے بعد اُٹھ کر پوزیشن تبدیل کرلیں۔ دوستوں اور ساتھیوں سے مختصراً بات چیت بھی کرتے رہیں۔ چپڑاسی سے پانی منگوانے کی بجائے خود پانی لا کر پییں۔ اس طرح خون کی گردش معمول پر رہے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مستقل ایک ہی انداز میں ہرگز بیٹھے نہ رہیں۔ گھنٹوں مسلسل ایک ہی انداز میں بیٹھے رہنے سے آپ زیادہ تھک سکتے ہیں اور آپ کتنے ہی توانا کیوں نہ ہوں، تھکاوٹ بہرحال محسوس کریں گے۔ اگر آپ دفتر میں چل پھر نہیں سکتے تو کھڑے ہوکر، ہاتھوں اور بازوؤں کو ورزش کے انداز میں پھیلا سکتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جسم پر چھایا ہوا جمود ٹوٹ جائے۔

دفاتر میں کام کرنے والے خواتین و حضرات کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک جگہ نظر جما کر کام کرنے سے آنکھوں میں تھکاوٹ اور جلن سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس طرح اعصاب بری طرح متاثر ہوتے ہیں، رفتہ رفتہ بینائی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔ آنکھوں کی قدرتی اور فطری چمک غائب ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے ایک پینسل یا پین لیں اور آنکھوں سے تقریباً آٹھ انچ کے فاصلے پر رکھ لیں۔ اس کو دیکھیں، پھر تقریباً پانچ سیکنڈ کے بعد پینسل سے نظریں ہٹا کر کسی دور کی چیز کو دیکھیں۔ یہ عمل کئی بار کریں۔ بار بار کے اس عمل سے آنکھوں کی ہلکی سی ورزش ہوگی اور کچھ ہی دنوں میں آنکھیں پہلے سے زیادہ روشن و چمک دار ہوجائیں گی اور تھکاوٹ بھی نہیں ہوگی۔

اکثر لوگ کرسی پر بیٹھے بیٹھے فربہ ہوجاتے ہیں، خاص طور سے خواتین۔ اکثریت کی رانیں بھدّی ہوجاتی ہیں۔ ان کو معمول پر لانے کے لیے ایک سہل سی ورزش کیجیے۔ کاغذ کا ایک ٹکڑا کرسی پر بیٹھے بیٹھے دونوں رانوں کے درمیان میں دبا لیں اور تقریباً ۲۰سیکنڈ کے بعد رانوں کو ڈھیلا چھوڑ دیں۔ یہ عمل بار بار کیجیے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ کی بھدی رانیں سڈول ہوجائیں گی۔ اس کے علاوہ کرسی پر تن کے سیدھے بیٹھیں اور جب بھی محسوس ہونے لگے کہ جُھک رہے ہیں تو پھر سے سیدھے بیٹھنے کی کوشش کریں۔ اس دوران گہری سانسیں لیتے رہیں۔ گہری سانس لینے سے توانائی ذخیرہ ہوتی ہے اور آپ چاق چوبند ہوجاتے ہیں۔

گھر ہو یا دفتر، پانی زیادہ پیئیں، پیاس نہ بھی ہو تو دن بھر میں کم از کم دس بارہ گلاس پانی پینا ضروری ہے۔ پانی جسم کی محض ضرورت ہی نہیں، یہ حسن و دل کشی اور تازگی بھی فراہم کرتا ہے اور گہرے سانس لینے کی عادت سے آکسیجن جسم کے باریک ترین خلیوں میں بہ آسانی پہنچ جاتی ہے جو آپ کو تروتازہ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

چائے خون کا بہاؤ بہتر بناتی ہے

چائے دل کی طرف خون کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے۔ جاپان کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ کالی چائے پینے سے خون کا بہاؤ دل کی جانب بہتر ہوجاتا ہے اور دل کے امراض کے خطرات کم ہوسکتے ہیں۔ اوساکا سٹی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کالی چائے کولیسٹرول کی سطح کو نارمل رکھنے، خون میں لوتھٹرے کم کرنے اور خون کی نالیوں کو تنگ ہونے سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

طبی ماہرین نے اس تحقیق کو مکمل کرنے کیلئے ۱۰صحت مند افراد کوچائے پلانے کے بعد ان کی خون کے بہاؤ کو نوٹ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خون کی گردش پہلے سے زیادہ بہتر ہوگئی ہے۔ جاپانی طبی ماہرین نے اس تجربے کو بنیاد بناکر جب مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کالی چائے نہ صرف دل کی شریانوں کوتنگ ہونے سے روکتی ہے بلکہ انہیں لچکدار اور بہتر بہاؤ کے قابل بھی بناتی ہے۔ اس مقصد کے طبی ماہرین نے الٹرا ساونڈ کی ایک خصوصی تکنیک کو استعمال کیا تھا، جس کو ”سی ایف وی آر“ کہا جاتا ہے۔ طبی ماہرین نے چائے کے ساتھ کیفین ملے دوسرے مشروبات پربھی تجربات کیے تھے مگر چائے کو سب سے مجرب پایا۔


اسی بارے میں مزید

سرطان کی روک تھام کے لیے پاکستانی چائے

گردے کے مریض اور گرمیوں میں پانی کا استعمال


گردے میں پتھری کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ گرمیوں میں زیادہ دیر تک دھوپ میں نہ رہیں۔ جسم سے پسینہ زیادہ خارج ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت گردہ فیل ہوسکتا ہے۔ گرمیوں میں گردوں کے امراض زیادہ شدید ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ہونے والی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ گردے کے مریضوں کو گرمیوں میں زیادہ پانی پینا چاہیے تاکہ جسم میں پانی کی کمی واقع نہ ہو۔ 

امریکن فاونڈیشن فاریورالوجیک ڈیزیز کے زیر اہتمام ہونے والی اس تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے جو لوگ فیلڈ میں کام کرتے ہیں، اگر وہ گرمیوں میں پانی کی مناسب مقدار نہیں لیتے تو ان کے گردے خراب ہونے کے امکانات میں ۶۵ فی صد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ منہ کے ذریعے پیا جانے والا پانی جسم میں جہاں پانی کی مقدار اور سطح کو نارمل رکھتا ہے وہاں گردوں کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ 

کڈنی فاونڈیشن آف کینیڈا نے تو یہاں تک تجویز کیا ہے کہ ہر ایک گھنٹے بعد ایک گلاس پانی پیا جانا چاہیے تاکہ گردوں کی صفائی کا کام متواتر جاری رہے۔ 

تحقیقی رپورٹ میں گردوں میں پتھر بننے کی متعدد وجوہات بھی درج کی گئی ہیں مگر ان میں سب سے زیادہ زور پانی نہ پینے کی خطرناک عادت پر دیا گیا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ پانی واحد شے ہے جس سے گردے صحت مند رہتے ہیں۔

وٹامن سی اور ذیابیطس

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ روز مرہ کی خوراک میں وٹامن سی کا بھر پور استعمال ذیابیطس لاحق ہونے کے خطرے کو روک دیتا ہے۔ اس تحقیق سے قبل پھلوں اورسبزیوں کے استعمال سے ذبابیطس میں کمی کے شواہد بھی مل چکے ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والی اس تحقیق میں ۲۱۸۳۱ صحت مند مرد اور خواتین جن کی عمریں ۴۰ سے ۷۰ سال کے درمیان تھیں، کا تجزیہ کرنے کے بعد دیکھا گیا کہ وٹامن سی کا استعمال کرنے اور پھلوں اور سبزیوں کو روزانہ کھانے والوں میں ذیابیطس کے مرض سے بہت ہی کم خطرات لاحق تھے۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پھل اور سبزیوں قدرتی طور پر وٹامن سی کا ذریعہ ہیں، جبکہ وٹامن سی پر مشتمل سپلیمنٹ بھی اس عمل میں مفید ثابت ہوتے ہیں مگر ان میں شامل دیگر مصنوعی اجزاء کی وجہ سے ان کی افادیت نسبتاً کم ہوتی ہے۔

سبزیوں اور پھلوں کا استعمال

ڈاکٹر احمد اختر قادری

انار کے دانے ہمیشہ اس کی جھلّی کے ساتھ کھانے چاہییں، جو دانوں پر لپٹی ہوتی ہے، یہ مقویِ معدہ یعنی معدے کو طاقت دینے والی ہے۔

کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو خوب دھو دیتا ہے اور بیماریوں کو جڑ سے ختم کردیتا ہے۔

سبزی، پھل اور اناج میں موجود غذائیت کا ”محافظ“ اس کا چھلکا ہوتا ہے لہٰذا جو چیز چھلکے کے ساتھ بہ آسانی کھائی جاسکتی ہے، اُس کا چھلکا نہیں اُتارنا چاہیے۔ جس پھل یا سبزی کا چھلکا بہت سخت ہو، اُس کی بھی صرف ہلکی سی تہ، وہ بھی آہستہ آہستہ اُتارنی چاہیے۔ چھلکا جس قدر موٹا اُتاریں گے، اتنے ہی وٹامنز اور قوّت بخش اجزاء ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

بیرونی ممالک میں رہنے والے اکثر، ٹِن پیک غذائیں استعمال کرتے ہیں، ان غذاؤں کا مسلسل استعمال مضرِ صحت ہے۔ پراسیس کردہ ٹِن پیک غذاؤں کو محفوظ کرنے کے لیے ”سوڈیم نائٹریٹ“ نامی کیمیکل ڈالا جاتا ہے۔ اس کا مسلسل استعمال جسم میں سرطان کی گانٹھ (Cencer Tumer) بناتا ہے۔

پھلوں کا استعمال؛
سیب، چیکو، آڑو، آلوچہ، املوک اور کھیرے کو چھیلے بغیر کھانا نہایت مفید ہے، کیوں کہ چھلکے میں بہترین غذائی ریشہ (فائبر) ہوتا ہے۔ غذائی ریشے، بلڈ شوگر، بلڈ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کم کرکے قبض کھولتے ہیں۔ یہ نہ صرف غذا سے زہریلے مادّوں کو خارج کرتے ہیں بلکہ بڑی آنت کے کینسر سے بھی بچاتے ہیں۔

سبزیوں کا استعمال؛
کدّو، شکرقند، چقندر، ٹماٹر، آلو وغیرہ چھلکے سمیت کھانے چاہیئیں، ان کا چھلکا کھانا مفید ہے۔ گودے والے پھل مثلاً پپیتا، امرود، سیب وغیرہ اور رس والے پھل مثلاً موسمی، سنگترہ وغیرہ ایک ساتھ نہیں کھانے چاہیئیں۔ پھلوں کے ساتھ چینی یا مٹھائی کا استعمال نقصان دہ ہے۔ مختلف پھلوں کی ٹکڑیاں کرکے چاٹ مسالا ڈالنے میں حرج نہیں، مگرچینی نہ ڈالی جائے۔ کھیرا، پپیتا اور تربوز کھانے کے بعد پانی نہ پیا جائے تو بہتر ہے۔

ابلی ہوئی سبزی کھانا بہت مفید ہے کہ یہ جلدی ہضم ہو جاتی ہے۔ سبزی کے ٹکڑے اُسی وقت کیے جائیں، جب پکانی ہو۔ پہلے سے کاٹ کر رکھ دینے سے اُس کے قوّت بخش اجزاء رفتہ رفتہ ضائع ہوجاتے ہیں۔ تازہ سبزیاں، وٹامنز، نمکیات اور معدنیات وغیرہ کے اہم عناصر سے لبریز ہوتی ہیں، مگر جتنی دیر تک رکھی رہیں گی، اتنے ہی وٹامنز اور مقوّی اجزاء ضائع ہوتے چلے جائیں گے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جس دن کھانا ہو، اسی دن تازہ سبزیاں خریدی جائیں۔ انہیں پکانے میں پانی کم سے کم ڈالنا چاہیے، کیوں کہ پانی سبزیوں کے حیات بخش اجزاء کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح آلو، شکرقند، گاجر، چقندر وغیرہ اُبالنے کے بعد بچا ہوا پانی ہرگز نہ پھینکا جائے۔ اسے استعمال کرلینا فائدہ مند ہے، کیونکہ اُس میں ترکاریوں کے مقوّی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ سبزیوں کو زیادہ سے زیادہ ۲۰منٹ میں اُبال لینا چاہیے۔ خاص طور پر سبز رنگ کی ترکاریاں تو دس منٹ کے اندر اندر چولہے سے اُتار لی جائیں تو صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ زیادہ دیر پکانے سے سبزیوں کے حیات بخش اجزاء ضائع ہوجاتے ہیں، بالخصوص وٹامن سی کے اجزا زیادہ دیر پکانے سے بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔

ترکاری یا کسی قسم کی غذا پکاتے وقت آگ درمیانی ہونی چاہیے۔ اس سے غذا اندر تک صحت بخش اور لذیذ بنتی ہے۔ چولہے سے اتارنے کے بعد ڈھکن کو بند رکھنا چاہیے۔ بھاپ کے اندر غذا پکنے کا عمل نہایت مفید ہے۔ لیموں کی بہترین قسم وہ ہے، جس کا رس رقیق اور چھلکا ایک دم پتلا ہو، عام طور پر اسے کاغذی لیموں کہتے ہیں۔ لیموں کو آم کی طرح گھولنے کے بعد، چوڑائی میں کاٹنا چاہیے۔ اس کے کم از کم چار اور اگر ذرا بڑا ہو تو آٹھ ٹکڑے کر لیجیے، اس طرح نچوڑنے میں آسانی رہے گی۔ لیموں کا ٹکڑا اس قدر نچوڑیں کہ سارا رس نچڑ جائے، ادھورا نچوڑ کر پھینک دینا وٹامنز کو ضائع کرنا ہے۔ کچی سبزیاں اور سلاد کھانا مفید ہے کہ یہ وٹامنز سے بھرپور، صحت بخش اور قبض کشا ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق اکثر سبزیاں پکانے سے ان کی غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ تازہ سبزی کا استعمال مفیدجب کہ باسی سبزیاں نقصان کرتی اور پیٹ میں گیس بھرتی ہیں، ہاں آلو، پیاز،لہسن وغیرہ تھوڑے دن رکھنے میں حرج نہیں۔

  • موسمی، سنگترہ، کینو وغیرہ کاموٹا چھلکا اتارنے کے بعد بچی ہوئی باریک جھلّی کھا لینا صحت کے لیے مفید ہے۔
  • اُبلے ہوئے یا بھاپ میں پکائے ہوئے کھانے اور سبزیاں زیادہ مفید اور زُود ہضم ہوتے ہیں۔
  • بیمار جانور کا گوشت فوڈ پوائزنگ اور بڑی آنت کے کینسر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
  • ہاف فرائی انڈا اچھی طرح فرائی کر کے کھانا چاہیے اور آملیٹ اس وقت تک پکانا چاہیے، جب تک خشک نہ ہوجائے۔ انڈہ اُبالنا ہو تو کم از کم سات منٹ تک اُبالا جائے، ورنہ مضرِ صحت ہوسکتا ہے۔
  • کالے چنوں کا استعمال صحت کے لیے مفید ہے۔ ابلے ہوئے ہوں یا بھنے ہوئے، ان کے چھلکے بھی کھا لینے چاہیئیں۔ ایک ہی وقت میں مچھلی اور دودھ کا استعمال نقصان دہ ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹیک ادویہ استعمال کرنے کے بعد دہی کھا لینا مفید ہے، اس طرح جو اہم بیکٹریا ختم ہوتے ہیں وہ دوبارہ بحال ہوجاتے ہیں۔
  • کھانے کے فوراً بعد چائے یا ٹھنڈی بوتل، نظامِ انہضام کو متاثر کرتی ہے، اس سے بدہضمی اور گیس کی شکایت ہو سکتی ہے۔ 
  • کھانا کھانے سے پہلے اور تقریباً دو گھنٹے کے بعد ایک دو گلاس پانی پی لینا نہایت مفید ہے۔ چاول کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے کھانسی ہوسکتی ہے۔
  • کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے پھل کھا لینا چاہیے، کھانے کے فوراً بعد پھل کھانا مضر صحت ہے۔ آج کل کھانے کے فوراً بعد پھل کھانے کا رواج ہے، جو بیماریوں کا سبب ہے۔ میٹھی ڈشز، مٹھائیاں اور میٹھے مشروبات کھانے سے کم از کم آدھے گھنٹے قبل یا درمیان میں استعمال کیے جائیں، کھانے کے بعد ان کا استعمال نقصان دہ ہے۔ جوانی ہی سے مٹھاس اور چکناہٹ والی چیزوں کا استعمال کم کر دینے سے بڑھاپے میں طاقت اور توانائی بحال رہتی ہے۔

نوزائیدہ بچے کو دودھ پلانا

بچے کی ولادت کے پہلے ہفتے کے دوران ماؤں کو اپنا دودھ پلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر ان ماؤں کے لئے جن کا پہلا بچہ ہو۔ ایک ہفتہ تک ماں کو بچے کی پوزیشن گود میں لینے کے طریقے سے آشنائی حاصل کرنا پڑتی ہے تو دوسری جانب بچے کو دودھ پینے کی پریکٹس سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران اگر صبر وتحمل کے ساتھ کام لیا جائے تو بچہ دودھ پینا کامیابی سے سیکھ لیتا ہے۔ 

جریدے ”برٹش“ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چھاتی سے دودھ پلانے کی مختلف تکنیکس اور معلومات کے متعلق ماؤں کو قبل از وقت آگاہی حاصل کرنی چاہے۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پہلے ہفتے کسی بھی مصنوعی طریقے سے بچے کو دودھ پلانے کی کوشش بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

موٹی خواتین کے ہاں جنم لینے والے بچوں کی صحت

جدید طبی تحقیق کے مطابق موٹی خواتین کے ہاں جنم لینے والے بچے دبلی پتلی خواتین کے بچوں کی نسبت کم صحت مند ہوتے ہیں۔ موٹی خواتین کو دوران زچگی زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے پیدا ہونے والے بچوں میں ہونٹ اور تالو کے نقائص، دل اور سانس کی بیماریاں، ہڈیوں کے ڈھانچے میں نقائص، نشوونما کی شرح میں کمی اور سماعت و بصارت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ 

امریکن جنرل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ موٹاپا صحت کا بڑا دشمن ہے جو زچہ بچہ کیلئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ نیوکسیٹیل یونیورسٹی اور کتھیرینا سٹور ٹرڈ کے تعاون سے منعقد ہونے والی اس تحقیق میں زیادہ وزن والی ماؤں کو خبردار کیا ہے کہ ”نیچرل ٹیوب ڈیفیکٹ“ کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچوں میں دماغی معذوری اور ریڑھ کی ہڈی میں نقص سے جسمانی معذوری کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

بزرگوں کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے

جدید طبی اور نفسیاتی تحقیق کے مطابق چائلڈ کیئر سنٹر اور نرسری میں پرورش پانے والے بچوں کی نسبت گھروں میں دادا، دادی، نانا، نانی، یا کسی بزرگ کے زیر سایہ پرورش پانے بچے زیادہ ذہین اور مستعد ہوتے ہیں۔ ۳ سال سے کم عمر بچوں پر کی جانے والی تحقیق میں بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے متعلق مسائل اور جسمانی نشوونما کو دیکھا گیا تھا۔ 

ماہرین نے اس خیال سے اتفاق کیا ہے کہ گھر کے بزرگ زیادہ توجہ اور شفقت سے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ۴۸۰۰ بچوں پر یہ تحقیق انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن یونیورسٹی آف لندن میں شروع کی گئی تھی۔ اس تحقیق کے پہلے مرحلے میں ایک سے تین سال، دوسرے مرحلے میں تین سے ۱۳سال اور آخر میں ۱۴سے ۲۰ سال کے نوجوانوں کے رویوں کا تعلق بچپن میں پرورش سے جوڑ کر دیکھا گیا تھا۔

بچوں کے لئے دودھ سے تیار شدہ خوراک کا استعمال

بچوں کے لئے دودھ سے تیار شدہ خوراک کا استعمال نہایت ضروری ہے، اس لئے کہ سکول جانے سے پہلے اور سکول جانے کے دوران بچوں کو دن میں دو یا دو سے زائد مرتبہ دودھ سے تیار کی گئی خوراک کھلانے سے ان کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور وہ کھیل کود میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 

طبی ماہرین کے مطابق ۵ سال تک اس عمل کو جاری رکھنے سے ہڈیوں کی بنیادی تیاری مکمل ہوجاتی ہے۔ 

طبی ماہرین نے اس تحقیق کے دوران دیکھا کہ جو بچے دودھ سے تیار شدہ مصنوعات کا استعمال کم کرتے ہیں یا دودھ نہیں پیتے ان کی ہڈیوں کی نشوونما میں کمی رہ جاتی ہے۔ طبی ماہرنی نے اپنی تحقیق میں پروٹین، کیلشیم، فاسفورس اور وٹامن ڈی کی سطح کو بنیاد بنایا تھا۔

کھانا کھانے کے آداب

کھانا کھانے کے دوران لقمہ گر جائے تو کیا کریں؟


حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے، پس (کھانے کے دوران) لقمہ ہاتھ سے گر جائے تو اس پر جو چیز لگ جائے اس سے لقمہ کو صاف کرکے کھا لے اور اسے شیطان کے لئے نہ چھوڑے‘‘۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ نے اس سلسلے میں دو عجیب واقعے لکھے ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دن ہمارے احباب میں سے ایک صاحب ملاقات کے لئے تشریف لائے ہم نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا، کھانے کے دوران ایک ٹکڑا ان کے ہاتھ سے گرگیا اور زمین پر لڑکھڑانے لگا وہ صاحب اس کو پکڑنے لگے تو وہ جوں جوں اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے وہ لقمہ ان کے ہاتھ سے دور ہوتا جاتا، بالآخر انہوں نے پکڑ لیا اور کھا لیا۔ چند دن بعد ایک شخص کے اوپر جن کا سایہ ہوگیا اور وہ شخص جن کے سحر میں گرفتار ہوگیا جن اس شخص کی زبان سے باتیں کرنے لگا منجملہ دوسری باتوں کے اس نے ایک بات یہ کہی کہ میں فلاں فلاں آدمی کے پاس سے گزرا وہ کھانا کھا رہا تھا، مجھے وہ کھانا اچھا لگا لیکن اس شخص نے اس میں سے کچھ نہیں دیا میں نے اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا، اس شخص نے مجھ سے کشا کشی کی یہاں تک اس نے مجھ سے وہ کھانا لے لیا۔ 
دوسرے واقعے میں شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے گھر میں لوگ گاجر کھا رہے تھے اچانک ایک گاجر لڑکھڑانے لگی ایک شخص نے اس کو شتابی سے پکڑ کر کھا لیا گاجر کھاتے ہی اس کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا پھر اس پر جن آگیا وہ جن اس کی زبان سے بولا کہ وہ گاجر میں کھانا چاہتا تھا اور اس شخص نے مجھ سے وہ گاجر چھین کر خود کھالی۔

سورۃُ الملک عذاب قبر سے بچانے والی

قبروں سے آواز آرہی ہے: اے دنیا میں رہنے والو! تم نے ایسا گھر آباد کررکھا ہے جو بہت جلد تم سے چھن جائے گا اور اس گھر کو اجاڑ رکھا ہے جن میں تم تیزی سے منتقل ہونے والے ہو۔ تم نے ایسے گھر آباد کررکھے ہیں جن میں دوسرے رہیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے اور وہ گھر اجاڑ رکھے ہیں جن میں تمہیں دائمی زندگی گزارنی ہے۔ دنیا دوڑ دھوپ کرنے اور کھیتی کی پیداوار مہیا کرنے کا گھر ہے اور قبر عبرتوں کا مقام ہے یہ یا تو جنت کا کوئی باغ ہے یا جہنم کا کوئی خطرناک گڑھا!
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ایک صحابی نے لاعلمی میں ایک قبر پر خیمہ گاڑھ لیا۔ اندر سے سورہ ملک پڑھنے کی آواز آئی۔ صاحب قبر نے اول سے آخر تک اس سورہ کی تلاوت کی۔ آپ نے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر یہ واقعہ بیان کیا۔ فرمایا۔ یہ سورہ عذاب قبر کو روکنے والی اور اس سے نجات دینے والی ہے۔ 
(ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شخص سے کہا: کیا میں تمہیں ایک حدیث بطور تحفہ نہ سناؤں، تم اسے سن کر خوش ہوگے؟ وہ شخص بولا: ضرور سنائیے۔ فرمایا: سورہ ملک پڑھا کرو اسے تم بھی یاد کرلو اور اپنے بیوی بچوں کو بھی یاد کرادو اور اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے بچوں کو بھی یاد کرادو، کیونکہ یہ نجات دلانے والی اور جھگڑنے والی ہے۔ یہ قیامت والے دن اپنے پڑھنے والے کے لئے رب سے جھگڑے کرے گی۔ اگر وہ جہنم میں ہوگا تو رب سے درخواست کرے گی کہ آپ اسے جہنم کے عذاب سے بچا دیں۔ اللہ پاک اس کی وجہ سے عذاب قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ سورہ ملک میری امت کے ہر فرد کو یاد ہو (عبد بن حمید) 
یہ صحیح حدیث ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ۳۰ آیتوں والی سورہ ملک نے اپنے پڑھنے والے کی یہاں تک سفارش کی حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (ابن عبدلبر)

جمعہ, جون 29, 2012

پانی ضائع کرنے کے چند مواقع


پانی ضائع کرنے کے چند مواقع
------------------------------------------------------------
وضو سے پہلے مسواک کرتے وقت پانی کا نل :: ٹوٹی :: کھلی رکھنا
:: ہاتھ، منہ، بازو، پاؤں :: دھوتے وقت پانی ضرورت سے زیادہ بہانا۔
صابن سے ہاتھ اور منہ دھونے کے لئے صابن لگاتے وقت پانی کھُلا رکھنا۔
غسل کرتے وقت جب صابن لگایا جاتا ہے تو نَل کھُلا رکھنا۔
گھروں میں خواتین کے پانی ضائع کرنے کے مواقع
------------------------------------------------------------
برتن دھوتے وقت پانی کا اسراف کرنا۔
کپڑے دھوتے وقت پانی کا بلاوجہ اسراف کرنا۔
گھر کی صفائی کے وقت پانی بے تحاشہ استعمال کرنا۔
پانی احتیاط سے استعمال کرنے کی تدابیر:
------------------------------------------------------------
پانی لوٹے میں یا کسی اور برتن میں ڈال کر وضو کیا جائے تو پانی ضائع نہیں ہوتا۔
اگر نَل پر ہی وضو کرنا ہے تو نَل اُسی وقت کھولیں جب کسی عضو کو دھونا ہو اور جب دھل جائے تو نَل بند کر دیں۔
مسواک اور سر کا مسح کرتے وقت نَل بند رکھیں۔
وضو کرتے ہوئے اگر صابن لگانا ہے تو صابن لگاتے وقت نَل بند رکھیں۔
گھر کی صفائی ہمیشہ بالٹی میں پانی ڈال کر کریں نَل کے ساتھ پائپ لگا کر صفائی کرنے سے پانی بہت زیادہ ضائع جاتا ہے۔
برتنوں کو صابن لگاتے اور برتن مانجھتے وقت نَل بند رکھیں۔
اور یہی اصول کپڑے دھوتے وقت بھی اپنایا جائے تو پانی کے اسراف سے بچا جاسکتا ہے۔

وضو اور پانی کا ضیاں

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
ترجمہ: وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
الفرقان: آیت: ۵۴

مگر افسوس کہ ہم آج اس پیاری نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اس کو ضائع کرتے رہتے ہیں اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے تو یقیناً ہم اس کا اسراف کرنا برداشت نہ کریں جس طرح‌ منرل واٹر کو ضائع نہیں کرتے، آخر ایسا کیوں ہے کہ جو چیز ہمیں بغیر محنت اور پیسہ خرچ کئے مل جائے ہم اس کی قدر نہیں کرتے؟؟؟؟

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے؛
ترجمہ: پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں۔ (التکاثر: ۸)

اس آیت کی تفسیر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس دو ہی تو چیزیں ہیں پانی اور کھجور۔ پھر ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ نعمتیں عنقریب تمہیں ملیں گی۔

جامع ترمذی: جلد دوم: باب: سورۃ تکاثر کی تفسیر

پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث موجود ہیں مثلاً
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ
(ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کررہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا ’’اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟‘‘ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)

مشکوۃ شریف: جلد اول: باب: وضو کی سنتوں کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔

سنن ابن ماجہ: جلد اول: باب: وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت

ان احادیث سے واضح ہوا کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے اور بےشک وضو دریا کے کنارے کیا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم وضو کرتے وقت بھی بہت زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں۔

جی میل سے یوفون پر مفت ایس ایم ایس

جی میل کے اکاؤنٹ سے یوفون کے کسی بھی نمبر پر مفت ایس ایم ایس جبکہ یوفون سے جی میل پر ایس ایم ایس کرنے کی قیمت 1 روپے ٹیکس کے علاوہ ہے۔

ہم سا جو شکستہ قلب ملا، اُسے دل سے لگا کر چُوم لیا

تعبیر ہو جس کی اچھی سی، کوئی ایسا خواب نہیں دیکھا
کوئی ٹہنی سبز نہیں پائی، کوئی شوخ گلاب نہیں دیکھا

ایسا ہے کہ تنہا پھرنے کا کچھ اتنا زیادہ شوق نہیں
تیرے بعد سو ان آنکھوں نے کبھی جشن ِ مہتاب نہیں دیکھا

ہم ہجر زدہ سودائی تھے، جلتے رہے اپنے شعلوں میں
اچھا ہے کہ توُ محفوظ رہا، تُو نے یہ عذاب نہیں دیکھا

بس اتنا ہوا ہم تشنہ دہن لوٹ آئے بھرے دریاؤں سے
کوئی اور فریب نہیں کھایا، کوئی اور سراب نہیں دیکھا

ہم سا جو شکستہ قلب ملا، اُسے دل سے لگا کر چُوم لیا
اس سے بہتر اس سے بڑھ کر کوئی کارِ ثواب نہیں دیکھا

ویکی پیڈیا میں سنگین غلطیاں موجود ہیں

دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ انسائیکلوپیڈیا ’’ویکی پیڈیا‘‘ میں پیش کردہ ساٹھ فی صد مضامین میں سنگین غلطیاں موجود ہیں۔ امریکی ماہرین ویکی پیڈیا کے مواد کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے ’’ویکی پیڈیا‘‘ کی حکمت عملی میں تبدیلی ضروری ہے۔

ویکی پیڈیا میں دو سو ستر زبانوں میں دو کروڑ مضامین موجود ہیں۔ چالیس کروڑ افراد ہر ماہ ویکی پیڈیا پڑھتے ہیں۔ تمام انٹرنیٹ صارفین کو مضامین میں تبدیلیاں لانے کا حق حاصل ہے اس لیے حقائق کو دانستہ توڑ مروڑ کر پیش کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار چار میں جارج بش جونئر کے بارے میں مضمون میں بش کی تصویر کی بجائے ہٹلر کی تصویر لگا دی گئی تھی۔


سادگی کے لئے ابوبکر اور عمر کے نام پیش کرتا ہوں، گاندھی



غیرمسلموں کے رہنما اپنے حکمرانوں کو حکومت کرنے کے لئے ابتدائی مسلم خلفائے راشدین کی پیروی کی ہدایت کرتے ہیں، تو کیا وجہ ہے موجودہ ہمارے مسلم حکمران اپنے اسلاف کے طرز حکمرانی کی پیروی نہیں کرتے؟ حالاں کہ آج اس بات کی شدت سے ضرورت ہے۔ کیا یہ بہت مشکل ہے؟؟ یا اُس دور کے حالات اور موجودہ حالات میں فرق ہے؟

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا

اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا

اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی



گلاں چُوں گل تے کوئی نائی

تُساں گل دی گل بنا چھوڑی

اَساں جتنی گل مکاندے رئے

تُساں اُتنی گل ودھا چھوڑی

اَساں نِت خلوص دی چھاں کیتی

تُساں جِھڑکاں نال وَنجا چھوڑی

اَساں لوکاں نال مُکاندے رئے

تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی

اٹلی بھی فٹ بال یورو 2012 کے فائنل میں

یورپی ملکوں کے درمیان فٹ بال کےیورو دو ہزار بارہ کے مقابلوں میں اٹلی کی ٹیم دوسرے سیمی فائنل مقابلے میں جرمنی کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے ہرا کر فائنل میں پہنچ گئی ہے۔

سپین کی ٹیم پرتگال کو پہلے سیمی فائنل میں ہرا کر پہلے ہی فائنل میں پہنچ چکی ہے۔

اٹلی اور جرمنی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا اور پہلے ہاف میں دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے گول پر زبردست حملے کیے۔ جرمنی کو کئی ایک موقعے ملے لیکن اٹلی کے گول کپیر بوفن اور اٹلی کے دفاعی کھلاڑی اندرے پرلو جرمنی کی ٹیم اور گول میں ہر مرتبہ حائل رہے۔ جرمنی کے فارورڈز کسی بھی موقعہ پر گیند کو اٹلی کے گول کپیر اور پرلو کی پہنچ سے دور کر کے گول تک نہ پہنچا پائے۔

اٹلی کی طرف سے ماریو بیلوٹلی نے دو گول کیے لیکن اٹلی کے دفاعی کھلاڑی اندرے پرلو نے زبردست کھیل پیش کیا اور جرمنی کے ہر حملے کو ناکام بنا دیا۔

بیلوٹلی نے پہلا گول ایک کارنر سے دیے گئے پاس پر سر مار کیا جب کے دوسرا گول انھوں نے ایک زبردست ہٹ لگا کر کیا جس کو روکنا کسی بھی گول کیپر کے لیے تقریباً ناممکن تھا۔

اٹلی کے ہاتھوں جرمنی کو کسی بڑے بین الاقوامی میچ میں آٹھویں مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سنہ دو ہزار چھ کے فٹ بال کے عالمی کپ میں بھی پرلو ہی کی مدد سے اضافی وقت میں اٹلی نے جرمنی پر گول کرکے دو صفر سے فتح حاصل کی تھی۔ سنہ دو ہزار چھ کے فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی بھی جرمنی ہی کررہا تھا۔ جرمنی کی نسبتاً ناتجربہ کار اور نئی ٹیم تھی جسے اب خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑے گا اور اس امید کے ساتھ کے شاید یہ ٹیم سنہ دو ہزار چودہ میں برازیل میں ہونے والی عالمی کپ میں کامیابی حاصل کرسکے۔

کرینہ کپور سیف سے شادی کے لئے مذہب تبدیل نہیں کریں گی

کرینہ کپور، رواں سال اکتوبر میں سیف علی خان سے شادی ضرور کریں گی لیکن اس شادی کے لئے انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ حالانکہ، پٹودی خاندان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 2 خواتین ایسی ہیں جنہوں نے پٹودی خاندان میں شادی کے لئے اپنا مذہب اور نام دونوں تبدیل کرلئے تھے۔
ان خواتین میں سرفہرست ہیں سیف علی خان کی والدہ شرمیلا ٹیگور جو نواب منصور علی خان پٹودی یعنی سیف علی خان کے والد سے شادی کرنے سے قبل بنگال کے ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، جبکہ دوسری خاتون سیف علی خان کی پہلی بیوی امریتا سنگھ ہیں جو شادی سے قبل سکھ مت کی پیروکار تھیں۔

لیکن، کرینہ کپور ایسا نہیں کریں گی۔ خود سیف علی خان کا مقامی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ وہ شادی کے لئے مذہب کی تبدیلی ضروری نہیں سمجھتے۔ اس لئے انہیں اس بات سےکوئی دلچسپی نہیں کہ کرینہ شادی سے پہلے اسلام قبول کرتی ہیں یا نہیں۔

سیف کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ کرینہ اپنا مذہب تبدیل کریں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ اسے’اسپیشل میریج ایکٹ‘ میں ترمیم کرنی چاہئیے جس کے تحت 2 مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں شادی کرنے سے پہلے اپنا مذہب تبدیل نا کرنا پڑے۔

 سیف کی والدہ شرمیلا نے 43 سال قبل اسلام قبول کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ بیگم رکھ لیا تھا جبکہ امریتا سنگھ بھی سکھ مت چھوڑ کر مسلمان ہوگئی تھیں۔

بیک ٹو سکول ۔۔۔۔ 97 سال کی عمر میں میٹرک پاس

ریاست اوہائیو کی بزرگ کولیسجونی نے 80 سال کی غیر حاضری کے بعد سکول پاس کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ کولیسجونی کی طرح بہت سے لوگ امریکہ میں عمر کے کسی بھی حصے میں تعلیم مکمل کرنے کا سوچتے ہیں اور عمر کو اس راہ میں آڑے نہیں آنے دیتے۔ 



روسی لوگ بہت کم سوتے ہیں

روس کے بہت کم لوگ دیر تک سو پاتے ہيں۔ ایک سروے کے مطابق صرف دو فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ ان کی نیند پوری ہوتی ہے۔ آٹھ فی صد کے مطابق ان کی نیند تین ماہ میں ایک بار سے زیادہ پوری نہیں ہوتی، اور پچیس فی صد کے لیے مہینے میں کئی مرتبہ صبح کو اٹھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ایک تہائی افراد کی نیند ہفتے میں چند بار پوری ہوتی ہے جبکہ اتنے ہی زيادہ افراد ہر رات بہت کم سوتے ہیں۔

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کام کی پریشانیاں ان کی نیند خراب کرتی ہیں۔ پچیس فی صد نے تسلیم کیا کہ وہ وقت پر نظر نہیں رکھ سکتے۔ کچھ لوگ گھر کی مصروفیات یا اپنے پسندیدہ مشغلات میں لگے رہتے ہیں اور چار فی صد افراد کو پیار کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ جبکہ کچھ لوگوں کو خراب صحت کے باعث نیند نہیں آسکتی۔

پچاس فی صد سے زیادہ روسیوں کو یقین ہے کہ نیند کی کمی سے ان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تیس فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ نیند پوری نہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ لیکن پچیس فی صد نے تسلیم کیا کہ نیند پوری نہ ہو تو ان کی کارکدگی خراب ہوجاتی ہے۔

بیشتر روسی ایام کار کے دوران نیند کی کمی پوری کرنے کے لیے ہفتے اور اتوار کو بہت زیادہ سوتے ہیں۔ پچیس فی صد افراد ہر روز ایک ہی وقت پر سو جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھارت کا صوبہ کیرالہ

تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر بھارتی صوبہ کیرالہ کا نقشہ مشہور و معروف سبزی کریلے جیسا ہے۔ اگرچہ کریلے کا ذائقہ کچھ کڑوا ہوتا ہے لیکن یہ صحت کے لیے انتہائی مفید چیز ہے۔ یہ انسانی جسم کی بہت ساری بیماریوں کے لیے ایک دوا کا کام بھی کرتی ہے۔ کریلہ کھانے والے کو پھنسیاں یا دانے بہت کم نکلتے ہیں۔ لیکن کیرالہ کے بارے جان کر آپ کو یقینآ خوشی ہوگی۔ بھارت کے صوبے کیرالہ کی زبان مالیالم ہے، رقبہ 38,863 مربع کلومیٹر اور آبادی 31,838,619 ہے۔


کیرالہ - تاریخ وتہذیب کے آئینہ میں
SAFI AKHTAR

کیرالہ میں مسجدوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ہر سڑک پر تھوڑی تھوڑی دور پر چھوٹی بڑی مساجد ملیں گی۔ یہاں جب آپ مسجد تلاش کریں گے تو اس کے لئے آپ کو زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں کرنی پڑے گی۔ راستوں پر مسجدیں جس اہتمام کے ساتھ آباد ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کسی خالص اسلامی حکومت نے منظم منصوبہ بندی کے تحت انہیں تعمیر کیا ہو، یہاں کی مساجد کا یہ امتیاز ہے کہ یہ صرف مسجد نہیں ہوتی بلکہ دینی تعلیم و تربیت کا گہوارہ بھی ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں مکاتب اور مدارس چل رہے ہیں۔ کالی کٹ سے کوچین کا فاصلہ کوئی تین سو کلو میٹر کے قریب ہے۔ اس راستے میں اہم ترین زیارت گاہیں ہیں جن میں حضرت حبیب بن مالک دینار کی مسجد و مزار اور حضرت شیخ زین العابدین مخدومی فنانی کی مسجد و مقبرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت مالک بن حبیب کی مسجد جس علاقہ میں واقع ہے، اس کا نام کدنگلور ہے۔ مذکورہ مقام کوچین سے کوئی پچاس کلو میٹر دور ہے جو تھریسور ضلع میں واقع ہے اور یہ مسجد ’چیرامن جامع مسجد‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مسجد ہندوستان کی پہلی مسجد ہے اور یہ اس مقام پر 6ھ یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تعمیر ہوئی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی مسجد ہولیکن اس کی تاریخ 6ھ ہے اس کا اب تک کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ ’کدنگلو‘ عہد رسالت میں ملیباری دارالسلطنت تھا، یہاں ایک غیر مسلم بادشاہ جس کا نام ’چیرامن پیرامل‘ تھا، جسے ’فرماض‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس بادشاہ نے عہد رسالت میں اپنے دارالسلطنت سے ہی ”معجزہ شق القمر“ کا ٹھیک اسی وقت مشاہدہ کیا تھا جب وہ رات کے کھانے کے بعد اپنی شریک حیات کے ساتھ اپنے محل کی چھت پر تفریح کررہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ سے متاثر ہوکر وہ مشرف بہ اسلام ہوا، وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر عرب سے آئے چند تجار/ سیاح کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضری کی نیت سے چل پڑا اور حضور پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دیدار سے مشرف ہوا، وہی چیرا من بعد کو تاج الدین کے نام سے معروف ہوا۔ جب واپس آنے لگا تو اس کی گزارش پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کرام کو ان کی رفاقت میں بھیج دیا تاکہ وہ مالا بار میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرسکیں۔ یہ قافلہ واپس چلا تو کسی قریبی ”ظفار“ نامی بندرگاہ تک پہنچ کر وہ بادشاہ بیمار ہوگیا، وہیں سے انہوں نے اپنے اہلکاروں کو نصیحت آمیز خطوط بھیجے جس میں یہ حکم کر رکھا تھا کہ انہوں نے مالا بار میں تبلیغ اسلام کے جس کام کا قصد کر رکھا ہے اس کو ترک نہ کریں۔ اگر میں انتقال کر جاﺅں تو میرے انتقال کی خبر لوگوں کو دینے سے پہلے آنے والی نورانی جماعت کے ساتھ اچھا برتاﺅ کریں، انہیں یہ بھی نصیحت کی کہ ان حضرات کا شاہانہ عزت و شوکت کے ساتھ استقبال کیا جائے پھر وہیں وہ آسودہ خاک ہوگئے، شاید اسی نصیحت کا یہ اثر ہے کہ آج بھی مالا بار کا خطہ ان برکات سے عطر بیز ہے۔
کسی شہر کی تہذیب و ثقافت کا اندازہ کرنا ہو تو وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ بازاروں کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ وہاں کی مستورات کس طرح شاپنگ کررہی ہوتی ہیں۔ مگر کیرالہ میں مغربی تہذیب کے بالمقابل ایک شرافت نظر آئے گی، یہ عفت مآب خواتین عموماً گھروں میں ہوتی ہیں اور باعزت اور حیادار ہیں۔ اسلام نے جس طرح مستورات کو شرم و حیا اور گھریلو ماحول میں زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے، الحمدللہ ان کا عقل و شعور اور فکر و نظر بھی ان برائیوں سے عموماً گریز کا ہے اور مغربی تہذیب کے برخلاف اپنے والدین اور خاوندوں کے حسب حکم وہ گھروں میں ہوتی ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت ہے، ملازمت اگر اپنی ریاست میں مل گئی تو یہاں رکے، ورنہ کوئی خاندان ایسا نہیں جن کا کوئی فرد خلیجی ملکوں میں نہ ہو، نتیجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے مکانات یوں ہی خالی پڑے رہ جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت اطمینان بخش ہے، عرب ملکوں میں جانے کا رجحان عام ہے، لوگ ترک وطن تو نہیں کرتے مگر بیرون ممالک میں رہتے اور مکان سازی یہاں کرتے ہیں۔ یہاں مختلف مذاہب کے حاملین بشمول ہندو مذہب کے ماننے والے بھی مسلمانوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اعتدال فطرت اور سلامت ذوق کے عادی ہیں، دعوت و تحریک زندگی کے اجتماعی اور انفرادی عمل میں نمایاں ہے۔ توازن فکر کے نتیجے میں جماعت دعوت و تبلیغ ہو کہ جماعت اسلامی یا جمعیت اہلحدیث، پوری زندگی ”خیرالامور اوسطہا“ کی عملی تعبیر اور تفسیر ہے۔ ریاست کے ادبی و ثقافتی شہر ملاپورم کے Perntalmanna میں جو کہ اوٹی روڈ پر واقع ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اسپیشل سنٹر ہے، جسے اے ایم یو ملاپورم سنٹر کہتے ہیں۔
یوروپی نو آبادیاتی نظام کے خلاف کیرالہ کے مسلمانوں کی داستان شجاعت کی ابتدا 1500ء میں پرتگالیوں کے خلاف جنگ سے ہوتی ہے۔ مسلم رہنماﺅں نے کیرالہ میں پرتگالیوں کے ذریعہ نو آبادی قائم کرنے کی کوششوں کی حتی المقدور مخالفت کی، حالانکہ پرتگالی کیرالہ کے چند محدود علاقوں کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مالا بار میں ان کے توسیع پسندانہ منصوبے مسلمانوں کی کوششوں کے سبب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ گوا پر قبضے کے باوجود 18ویں صدی کے اختتام تک مالا بار ایک آزاد علاقہ رہا جہاں علاقائی تہذیب اور زبان و ادب کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل تھے۔ نو آبادیاتی نظام کے تسلط کے باوجود مالا بار نے اپنی شناخت بڑی حد تک قائم رکھی اور یہاں ذیلی قومیت کا وہ نظریہ بھی جڑ پکڑ چکا تھا جس نے بعد میں ہندوستانی قومیت کا ایک حصہ بن کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔
بہرحال گھنیرے ناریل کے درختوں، پہاڑوں، گھاٹیوں اور کوہستانوں کے شہر منجیری کے لئے ہمارا یہ سفر تھا۔ 10 دسمبر کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے الگ الگ مساجد میں لوگ جا رہے تھے، ہم بھی ایک مسجد میں گئے، اکثر مساجد کی تعمیر یہاں روایتی انداز پر ہوئی ہے۔ منجیری کا موسم نسبتاً پرسکون اور مناظر پرکشش ہیں۔ موسم سرما میں بھی درجہ حرارت 20-24 سے زائد نہیں ہوتا۔ ملاپورم اور کالی کٹ میں ایک گھنٹہ کی دوری ہے۔ یہ سارے مراکز سیاحتی انداز کے ہیں۔ یہ خطہ رہائش کے لئے بے حد موزوں ہے۔ یہاں کوئی مسلکی ٹکراﺅ اور مکاتب فکر کی آویزش نہیں ہے۔ اسلام نے ہر طرح کی جاہلانہ نخوت کو مٹایا اور تمام انسانوں کے لئے حقیقی مساوات کے ایسے اصول ذکر کئے ہیں جن کی بلندی تک تہذیب و تمدن کے دعوﺅں کے باوجود آج تک دنیا نہیں پہنچ سکی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانیت کی حیثیت ایک کشادہ باغیچہ کی ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول پروان چڑھتے ہیں اور سب مل کر باغیچے کی رونق کو بڑھاتے ہیں۔ کسی کا سفید ہونا یا سیاہ ہونا، آب و ہوا اور اس ماحول کا رہین منت ہے جس میں وہ جنم لیتا ہے، کیرالہ کے لوگ سانولے ضرور ہوتے ہیں مگر بنی نوع انسان کی وحدت نسل، زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ خدا نے آب و ہوا کے فرق اور رنگ کے امتیاز کو اپنی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اس لئے یہ چیز نہ تو کسی کی برتری کا ذریعہ بن سکتی ہے اور نہ پستی کا۔ اسلام نے ہر فرد کو اس کے اپنے عمل کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان باتوں کی شروع سے بنیاد ہی ختم کردی ہے جو غیراختیاری طور پر انسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر حسن و جمال یا چہرہ بشرہ کا رنگ اور کسی مخصوص خاندان میں پیدا ہونے کی بنیاد پر کسی انسان کو اسلامی تعلیمات کی رو سے کوئی برتری حاصل نہیں ہوتی، بلکہ خود اس کا اپنا کردار اسے خوبیوں کا مجموعہ یا خرابیوں کا پتلا بناتا ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت گورے اور کالے کے امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کے لئے عام ہے، وہ لوگ جو آباء و اجداد پر فخر کرتے ہیں یا تو اس سے باز آجائیں ورنہ وہ خدا کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت ہوں گے۔

باپ کا نہ ہونا بچوں میں شدید قسم کا احساس محرومی

کراچی (جنگ نیوز) شوہر کے بغیر بچوں کی پرورش آسان نہیں۔ باپ کے بغیر بچوں کو معاشرے میں بہت سی دشواریوں، پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکول، کالج، گھر اور تقاریب میں باپ کا نہ ہونا بچوں میں شدید قسم کا احساس محرومی پیدا کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جیو ٹی وی کے مارننگ شو ”اٹھو جاگو پاکستان“ کے شرکاء نے میزبان شائستہ واحدی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں اس اہم اور حساس موضوع پر بات ہوئی کہ ”والدین میں سے کسی ایک کی موت سے بچوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور ایسے بچوں کے لئے کیا کرنا چاہئے“؟ اٹھو جاگو پاکستان میں ان حادثات سے گزرنے والے خاندان اپنے بچوں کے ہمراہ شریک ہوئے اور اپنے تاثرات ناظرین سے شیئر کئے۔ ایک بچے کا کہنا تھا کہ ابو کی باتیں بہت یاد آتی ہیں، خاص طور پر انعام ملے تو پپا یاد آتے ہیں۔ دوسرے بھائی نے بتایا کہ عید کے موقع پر اپنے والد بہت یاد آتے ہیں۔ کپڑوں کا نہ ہونا مسئلہ نہیں، والد کا نہ ہونا رُلاتا ہے۔ پروگرام میں ایک خاتون فرزانہ بھی موجود تھیں۔ فرزانہ کے میاں کاانتقال ہوگیا ہے اور وہ اب اپنے6 بچوں کی کفالت تنہا کررہی ہیں۔ فرزانہ نے شوہر کے بغیر زندگی کے بارے میں کہا کہ گھریلو مشکلات بہت آتی ہیں۔

ان پڑھ ھو

سنو ہمدم !
؛
بہت ی ڈگریاں لے کر
ہنر پر دسترس پا کر
نصابِ چاھتِ دل کے
چمکتے لفظ
آنکھوں سے
اگر پڑھنے سے قاصر ھو
تو
۔۔
ان پڑھ ھو

تین خواہشیں

کسی بھی شخص کی یہ تین خواہشیں ہوسکتی ہیں

1۔ کاش اتنا خوب صورت ہوتا جتنا اپنی ماں کو نظر آتا ہے

2۔ کاش اتنا امیر ہوتا جتنا اس کے بچے سمجھتے ہیں

3۔ کاش اتنے افیئرز ہوتے جتنے بیوی سمجھتی ہے

صبر کی صورتیں

صبر کی دو صورتیں ہیں

1۔ جو ناپسند ہو وہ برداشت کرنا

اور

2۔ جو پسند ہو اس کا انتظار کرنا

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

زرداری برداشت کرو

اور

بجلی کا انتظار کرو

Sea

sea is common for all
some take pearls
some take fish

&

some come out with just wet legs

thus
world is common to all, but we get
what we try

زندگی

زندگی برف کی مانند ہے، اسے اللہ کے حکم کے مطابق گزارو

ورنہ

یہ پگھل تو رہی ہے، ختم بھی ہوجائے گی۔

ایک قبرستان کے باہر لکھا تھا؛
’’کبھی ہم ایسے تھے جیسے آج تم ہو

اور

کل تم ایسے ہوجاؤ گے جیسے آج ہم ہیں۔

میڈیکل غزل

چلو آﺅ اب موسم کا مزہ چکھیں

تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں

تم سے ملنے کی اب کیا جستجو کریں

طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں

ہماری چاہت کا کچھ تو خیال کریں

سیرپ کو اچھی طرح ہلا کر استعمال کریں

دل میرا ٹوٹ گیا اُٹھی جب اُس کی ڈولی

وہ ہنس کے بولی کھا لینا ڈسپرین کی گولی

سدا یہ دل تیرا آرزو مند رہے گا

جمعہ کے روز کلینک بند رہے گا

بیوی

بیوی آتی ہے ہیر کی طرح
میٹھی ہوتی ہے کھیر کی طرح
نمکین ہوتی ہے پنیر کی طرح

چند ماہ بعد

چبھتی ہے تیر کی طرح
کر دیتی ہے فقیر کی طرح

اور

نظر رکھتی ہے شبیر کی طرح

Our Body Parts Remind Us How To Live

we have 2 eyes
and
one tongue, which means
we need to look twice and talk once.

we have 2 ears and one mouth,
so we need to listen more
than we talk.

we have 2 hands
and one stomach
so we need to work twice as much as we eat.

we have 2 major brain parts, left and right and one heart,
so we need to think twice but trust only once.

اللہ تبارک و تعالٰی کے محبوب کون ہیں؟؟؟


1۔ اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ آل عمران، آیت نمبر 146

2۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ المُمتحنَہ، آیت نمبر 8

3۔ بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران، آیت نمبر 159

4۔ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ البقرہ، آیت نمبر 222

جمعرات, جون 28, 2012

کلرکہار، اسلام آباد کے قریب خوب صورت سیاحتی مقام

جھیل کا بوٹنگ پوائنٹ
کلرکہار ضلع چکوال کی تحصیل اور خوب صورت سیاحتی مقام ہے جو چکوال شہر سے جنوب مغرب کی جانب تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد، لاہور موٹر وے کے ساتھ سرگودھا خوشاب سڑک پر واقع ہے۔ کلرکہار سطح سمندر سے 3 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، کلرکہار میں کیڈٹ کالج، فضائیہ انٹر کالج اور فوج فائونڈیشن ہسپتال بھی قائم کیا گیا ہے۔ کلرکہار کی مقبولیت کی بنیادی وجہ  وہاں موجود باغات میں آزاد پھرتے مور اور بڑے رقبہ پر جھیل، لوکاٹ، ناشپاتی اور انار کے باغات ہیں۔ ان باغات میں کیلے کے درخت بھی موجود ہیں۔ درختوں سے پھل توڑنے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ سرکار باغات کا ٹھیکہ دیتی ہے اور ٹھیکہ دار کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کلرکہار میں گلاب کے باغ بھی ہیں جن سے عرق نکال کر فروخت کیا جاتا ہے۔ عرق گلاب کی بوتلیں چوک میں واقع دکانوں پر فروخت کے لئے موجود ہیں۔ درختوں میں ”مور“ کھلے عام آزاد پھرتے بہت مشہور ہیں۔ مزار کی پہاڑی سے مشرق کی جانب پہاڑی تک ایک لفٹ بھی لگائی گئی ہے جس سے وادی اور جھیل کا خوب صورت نظارہ ملتا ہے۔ 

تخت بابری اور جھیل کا راستہ
کلرکہار میں تخت بابری بہت مشہور جگہ ہے جو انار کے باغ میں واقع ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کشمیر جاتے ہوئے یہاں ٹھرائو کیا اور اپنی فوج سے خطاب کیا تھا۔

گرمیوں میں موسم کافی گرم اور سردیوں میں سرد ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار بھی ہے جہاں اکثر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ جس پہاڑی پر مزار واقع ہے اس کے دامن میں پانی کا چشمہ ہے جہاں سے ہر وقت پانی نکلتا رہتا ہے۔ یہ پانی ایک نالے کے ذریعے جھیل تک پہنچایا جاتا ہے، نالے کے اوپر پانی کے راستے میں حمام بنائے گئے ہیں جہاں عام لوگوں کو غسل کرنے کی اجازت ہے۔

آزاد گھومتا 'مور'
لوکاٹ اور انار کے باغات کے ساتھ ہی راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے۔ جھیل جانے کے لئے پہلے صرف ایک راستہ تھا، جہاں سے داخلہ تھا وہیں سے واپسی بھی ہوتی تھی جس کے باعث چھٹی کے روز خاص طور پر گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کے ہجوم کی وجہ سے سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ٹریفک جام ہوجاتی تھی لیکن اب سڑک جھیل کے گرد مکمل اور مناسب چوڑی کردی گئی ہے، ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے موٹر وے انٹر چینج کے قریب مرکزی سڑک پر پہنچا جا سکتا ہے۔ جھیل پر سہولتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کا موٹل اور ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاﺅسز اور ایک چھوٹا پارک بھی بنایا گیا ہے۔ بچوں کی دلچسپی کے لئے جھولے اور دیگر چیزیں بھی موجود ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء، گفٹ شاپس اور دستکاریوں کے مختلف سٹال بھی لگائے گئے ہیں۔ جھیل مین بوٹنگ سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، جھیل کی سیر اور بوٹنگ کے دوران سب سے خوب صورت نظارہ وہ ہوتا ہے جب آپ کی کشتی کے قریب کئی مرغابیاں تیرتی اور غوطہ خوری کرتی نظر آئیں گی۔

جھیل کے ساتھ جھولے اور پارکنگ
چکوال سے کلرکہار اور خوشاب جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی علاقوں میں کئی موڑ کافی خطرناک ہیں جس کے باعث کئی مہلک حادثات ہو چکے ہیں۔ پہلے سڑک کافی تنگ اور خراب تھی لیکن اب چوڑی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑ کاٹ کر کئی موڑ ختم اور کئی کافی چوڑے کئے گئے ہیں۔ موٹر وے بننے سے کلرکہار کی شہرت اور سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ دور دراز سے لوگ ایک روز کی تفریح کے لئے بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا روزگار بڑھا ہے اور اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

کلرکہار سے مشرق کی جانب ایک سڑک چوآسیدن شاہ جانے کے لئے ہے جس کے راستہ میں مشہور جگہ ”کٹاس“ ہے جس کے مشہور ہونے کی وجہ وہاں ہندوﺅں کے پرانے مندروں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان مندروں کے ساتھ پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے ”گنگا کی آنکھ“ کہا جاتا ہے۔ کلرکہار چوآسیدن شاہ روڈ کے ارد گرد علاقہ میں کوئلہ کی بہت ساری کانیں بھی ہیں، اسی سے متعلق ایک سرکاری سکول بھی یہاں قائم کیا گیا ہے۔

چکوال سرگودھا خوشاب روڈ
کلرکہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے سڑک پر سیمنٹ کے کئی کارخانے قائم کئے گئے ہیں، جن میں ”لفارجے سیمنٹ“ پیداوار کے لحاظ سے ایشیاء کا سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ ہے، اس کا پرانا نام ”چکوال سیمنٹ فیکٹری“ تھا جو مصر کی ایک کمپنی نے خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ ”ڈی جی سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ”ڈی جی خان سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوئے۔

++++++++++

چوآسیدن شاہ کے قریب "کٹاس راج" میں 'گنگا کی آنکھ' اور مندر

کلرکہار میں لفٹ

تخت بابری اصلی حالت میں

احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے

احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے
دنیا تو فقط اہلِ تجارت کی جگہ ہے

فرعونوں کی بستی ہے یہاں دب کے نہ رہنا
نخوت کی تکبّر کی رعونت کی جگہ ہے

ظاہر ہے یہاں تم بھی کبھی خوش نہ رہو گے
اک درد کا مسکن ہے اذیّت کی جگہ ہے

آسانی سے ملتی نہیں جینے کی اجازت
پھر سوچ لو دنیا بڑی ہمّت کی جگہ ہے

اے دل تجھے اک بوسہ بھی مشکل سے ملے گا
یہ حسن کا بازار ہے دولت کی جگہ ہے

یہ سوچ کے خاموشی سے ہر ظلم سہا ہے
اپنوں سے نہ غیروں سے شکایت کی جگہ ہے

خود اپنی ہی مخلوق کو برباد کرو گے
افسوس کی یہ بات ہے حیرت کی جگہ ہے

دل میرا کسی حال میں خوش رہ نہیں سکتا
جلوت کا مکاں ہے نہ یہ خلوت کی جگہ ہے

راحت کا یہاں کوئی تصور نہیں ملتا
معلوم ہے سب کو یہ مصیبت کی جگہ ہے

انجام کا سوچو گے تو بے چین پھرو گے
آرام سے سو جاؤ یہ غفلت کی جگہ ہے

پاگل ہو جو کرتے ہو یہاں عشق کی تلقین
دنیا تو ہر اک شخص سے نفرت کی جگہ ہے

جاتے ہوئے کہتے ہیں ہر اک بار پرندے
کچھ شرم کرو یہ بھی سکونت کی جگہ ہے

بس شرط ہے یہ دل میں محبت ہو کسی کی
صحرا ہی نہیں شہر بھی وحشت کی جگہ ہے

جانے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں اب
دیکھو یہ زمیں کیسی قیامت کی جگہ ہے

آئے ہو تو جاؤ گے یہاں بچ نہ سکو گے
یہ موت کی منزل ہے ہلاکت کی جگہ ہے

اے اہل جنوں آؤ یہاں کچھ نہیں رکھا
ناداں ہیں یہ سب لوگ حماقت کی جگہ ہے

کس بات پہ غمگین ہوں کس بات پہ میں خوش
ذلت کی جگہ ہے نہ یہ عزت کی جگہ ہے

صحرا کی طرف اس لئے جاتا ہے مرا دل
دنیا میں یہ دنیا سے بغاوت کی جگہ ہے
احمد فواد

تین اہم عہدوں کی ہم نام شخصیات

پاکستان کے تین اعلٰی ترین عہدوں پر فائز شخصیات ’ہم نام‘ ہیں جبکہ اس سے قبل صدر کے عہدے پر فائز شخص بھی انہی کا ہم نام تھا۔

حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کا نام اشفاق ’پرویز‘ کیانی ہے۔

وزیراعظم کا نام راجہ ’پرویز‘ اشرف ہے ۔

جس شخصیت کو ملک کے پہلے نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا ہے اس کا نام چوہدری ’پرویز‘ الہٰی ہے، جبکہ اس سے قبل ملک کے اعلٰی ترین صدارتی عہدے پر جنرل (ر) ’پرویز‘ مشرف فائز تھے۔


بدھ, جون 27, 2012

چین: خواتین کو نازیبا لباس سے گریز کی ہدایت

شنگھائی (اے ایف پی) چین کے صنعتی شہر سنگھائی کے سب وے آپریٹر نے خواتین سے کہا ہے کہ وہ باوقار لباس پہنیں تاکہ کوئی مرد انہیں ہراساں نہ کرے اور وہ لوگوں کی بدنظر سے محفوظ رہیں۔ آپریٹر نے اپنے بلاگ پر کم لباس والی ایک خاتون کی تصویر لگائی ہے اور خواتین سے کہاہے کہ خود اپنا احترام کرتے ہوئے نازیبا لباس پہننے سے گریز کریں۔

پینٹ کے ڈبوں میں موجود ٹوکن کا مالک کون؟؟؟


Look At this Photo......


اللہ کی چاہت

اے اِبن آدم
ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے
پس اگر تُو نے
اپنے آپ کو سپرد کردیا اُس کے
جو میری چاہت ہے
تو میں بخش دوں گا تجھ کو وہ بھی جو تیری چاہت ہے
اور اگر تو نے نافرمانی کی اُس کی
جو میری چاہت ہے
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں
جو تیری چاہت ہے
پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے

امیر ہونے کا ایک کامیاب نسخہ

بھائی جان میں نے تین کروڑ بیس لاکھ روپے کی دوکان خرید لی ہے۔

جمعہ 26 جنوری کو جب شرجیل نے لاہور سے فون کیا تو اتنا جوش وخروش میں تھا کہ میرا حال احوال دریافت کرنا بھی بھول گیا۔ پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں؟
”کراچی میں‘‘ میں نے جواب دیا دو دن بعد لاہور پہنچوں گا۔

بولا ”لاہور پہنچتے ہی مجھے فون کیجئے گا‘‘ میں نے حامی بھر لی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کامیانی پر مجھے اطمینان قلب محسوس ہوا۔ دس سال قبل شرجیل نے ’’ایم ایس سی‘‘ کرلی تو خاندانی حالات کے باعث جاب یا بزنس اس کی شدید ضرورت تھی۔ شرجیل ایک روز کہنے لگا بھائی جان کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل بتائیں کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاؤں۔ میں نے توقف اور غوروخوض کے بعد کہا تین دن بعد میں اسلام آباد جارہا ہوں میرے ساتھ چلنا۔

اور پھر ہم بزرگ دوست ’’قاضی صاحب‘‘ کے پاس گئے۔ قاضی صاحب حکیم اور روحانی دانشور ہیں۔ قاضی صاحب کو مسئلہ بتایا تو بڑے اطمینان سے مسئلہ سنتے رہے۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی تو بولے شرجیل صاحب آپ حوصلہ مند دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دو کام کریں کوئی چھوٹا موٹا دھندا کرلیں اور دوسرا یہ کہ جو بھی کریں اس میں اللہ تعالٰی کو اپنے ساتھ بزنس پاٹنر بنالیں۔ شرجیل نے میری طرف اور میں نے شرجیل کی طرف دیدے پھاڑ کر دیکھا۔ قاضی صاحب نے سلسہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ”یہ کام مردوں کا ہے، صرف عزم با لجزم رکھنے والا مرد ہی کرسکتا ہے اگر کاروبار کے نیٹ پرافٹ میں پانچ فیصد اللہ تعالٰی کا شیئر رکھ کر اللہ تعالی کے بندوں کو دے دیا کریں اور کبھی بھی اس میں ہیرا پھیری نہ کریں تو لازماً آپ کا کاروبار دن رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا۔

واپسی پر لگتا تھا شرجیل اس پر عمل نہیں کرے گا لیکن اس نے کمال حیرت سے عمل کر دکھایا۔

مجھے یاد ہے یہ 1997 کا سال تھا ،اس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ تھا، اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، اُسی ایک ہزار روپے سے اس نے بچوں کے پانچ سوٹ خریدے اور انارکلی بازار میں ایک شیئرنگ سٹال پر رکھ دیے۔

دو دن میں تین سو روپے پرافٹ ہواتھا تین سو روپے میں سے اس نے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کی راہ میں دے دیئے تھے۔ پھر اور سوٹ خریدتا اور اصل منافع میں سے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کے نام کا شیئر مخلوق پر خرچ کرتارہا۔ یہ پانچ پرسنٹ بڑھتے بڑھتے چھ ماہ بعد 75 روپے روزانہ کے حساب سے نکلنے لگے یعنی روزانہ کی آمدنی تقریبا سات سو روپے ہوگئی ایک سال بعد ڈیڑھ سو روپے، تین سال بعد روزانہ پانچ پرسنٹ کے حساب سے تین سو روپے نکلنے لگے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تین سال بعد اسے روزانہ چھ ہزار بچنا شروع ہوگئے تھے۔ اب سٹال چھوڑ کر اس نے دکان لے لی تھی۔ جب فون آیا تو میرا پہلا سوال یہی تھا کہ اب روزانہ پانچ پرسنٹ کتنا نکل رہا ہے؟

اس نے بتایا کہ روزانہ ایک ہزار نکل آتا ہے جو خلق خدا پر خرچ کردیتا ہے۔ گویا اب آمدنی روزانہ بیس ہزار روپے ہے۔ یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ ”بزنس‘‘ میں اس نے آج تک بےایمانی نہیں کی۔

قاضی صاحب نے بتایا تھا کہ جس کاروبار میں اللہ تعالٰی کو پارٹنر بنالیا جائے یعنی اللہ تعالٰی کی مخلوق کا حصہ رکھ لیا جائے وہ ہمشہ پھلتا پھولتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کہ اندر تکبر نہ ہو ”عاجزی ہو‘‘۔ انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ کاروبار اتنا چل نکلتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب بندہ سوچتا ہے، میرا کافی روپیہ لوگوں میں مفت میں تقسیم ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ دولت مند بننے کا یہ نسخہ انہیں بزرگوں سے منتقل ہوا ہے اور کبھی بھی یہ نسخہ ناکام نہیں ہوا۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ
ہماری زبان میں اصطلاح ہے ”دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا‘‘۔ آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین افراد کا کیا وطیرہ ہے۔

51 سالہ ٹی وی میزبان ”اوہراہ دنفرے‘‘ ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی مالک ہے وہ سالانہ ایک لاکھ ڈالر بے سہارا بچوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتی ہے۔۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اٹلی کے سابق وزیراعظم ’’سلویا برلسکونی‘‘ اپنے ملک کے سب سے امیر اور دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ مشہور زمانہ فٹبال کلب ”اے سی میلان‘‘ انہی کی ملکیت ہے۔ وہ دس ارب ڈالر کے مالک ہیں، سالانہ تقریبا پانچ کروڑ ڈالر غریب ملکوں کو بھیجتے ہیں۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کمپیوٹر پرسنیلٹی ”بل گیٹس‘‘ اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ہیں ان کی دولت کا اندازہ 96 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، وہ اپنی آرگنائزیشن ’’بل اینڈ اگیٹس فاونڈیشن‘‘ کے پلیٹ فارم سے سالانہ 27 کروڑ ڈالر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔۔۔۔ دولت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ مشہورومعروف یہودی ”جارج ساروز‘‘ دس ارب ڈالر سے زائد کے مالک ہیں ہر سال دس کروڑ ڈالر انسانی فلاحی اداروں کو دیتے ہیں۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔

اور جہاں تذکرہ دولت وثروت کا ہوتو اس وقت مکمل نہیں ہوتا جب تک یہودی قوم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔

قارئین کرام کےلئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ صرف ایک کروڑ یہودی دنیا کی 60 پرسنٹ دولت کے مالک ہیں جب کہ چھ ارب انسان 40 پرسنٹ دولت پر تصرف رکھتے ہیں۔ نیز انٹرنیشنل پرنٹ اور میڈیا کے اہم ترین 90 پرسینٹ ادارے ان کے ہیں مثلاً آئی ایم ایف، نیویارک ٹائمز، فنانشل ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ریڈرزڈائجسٹ، سی این این، فاکس ٹی وی، وال سڑیٹ جرنل، اے ایف پی، اے پی، سٹار ٹی وی کے چاروں سٹیشن سب یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ شائد ہم میں سے چند ایک نے ہی اس بات پر غور کیا ہوکہ یہودیوں کی دن دوگنی رات چوگنی دولت بڑھنے کا راز کیا ہے؟

عقدہ یہ کھلا کہ ہزاروں سال سے یہ قوم اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ ہر یہودی اپنی آمدنی کا 20 پرسنٹ لازمی طور پر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے۔

پاکستان میں ایک مثال منشی محمد کی بھی ہے۔
آپ بہت غریب تھے، بڑی مشکل سے گزربسر ہوتی تھی ایک دن آپ نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی آمدنی کا 4 پرسینٹ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کروں گا۔

آپ بازار میں کھڑے ہوکر کپڑا بیچنے لگے اور باقاعدگی سے اپنے منافع کا 4 پرسینٹ اللہ کے بندوں پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے ایک پاور لوم لگالی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے فیکٹری کے مالک بن گئے۔ آپ نے اپنے منافع کے 4 پرسنٹ کو مستحق مریضوں پر خرچ کرنا شروع کردیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ منشی محمد نے چار کروڑ روپے کی لاگت سے منشی محمد ہسپتال لاہور بنا کرحکومت کے حوالے کردیا، اس ہسپتال کا افتتاح جرنل محمد ضیاء الحق نے کیا تھا۔

کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ اسلام کے زمانے میں دو بھائی تھے جنہیں ایک وقت کا کھانا میسرآتا تھا تو دوسرے وقت فاقہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن انہوں نے حضرت موسٰی علیہ اسلام کی خدمت میں عرض کیا، ’’آپ جب کوہ طور پر تشریف لے جائیں تو اللہ تعالٰی سے عرض کریں کہ ہماری قسمت میں جو رزق ہے وہ ایک ہی مرتبہ عطا کردیا جائے تاکہ ہم پیٹ بھر کر کھالیں‘‘ چنانچہ بارگاہ الہیٰ میں دعا قبول ہوئی اور دوسرے دن انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعے تمام رزق دونوں بھائیوں کو پہنچا دیا گیا۔

انہوں نے پیٹ بھر کر تو کھایا لیکن رزق خراب ہونے کے ڈر سےانہوں نےتمام رزق اللہ تعالٰی کے نام پر مخلوق خدا میں تقسیم کردیا۔ اگلے دن پھر ملائکہ کے ذریعے انہیں رزق مہیا کردیا گیا جو کہ شام کو پھر مخلوق خدا میں تقسیم کردیا گیا اور روزانہ ہی خیرات ہونے لگی۔

حضرت موسٰی علیہ اسلام نے باگاہ خداوندی میں عرض کیا۔۔۔۔ یا باری تعالٰی ان دونوں بھائیوں کی قسمت میں تو تھوڑاسا رزق تھا۔ پھر یہ روزانہ انہیں بہت سا رزق کیسے ملنے لگ گیا؟

ندا آئی اے موسٰی جو شخص میرے نام پر رزق تقسیم کررہا ہے اسے میں وعدے کے مطابق دس گنا رزق عطا کرتا ہوں۔ یہ روزانہ میرے نام پر خیرات کرتے ہیں اور میں روزانہ انہیں عطا کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’جو شخص میرے نام پر ایک درہم خرات کرتا ہے اس میں دس درہم عطا کرتا ہوں۔ جو ایک بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، اسے دس کا کھانا ملتا ہے۔ اپنے رزق کو بڑھاؤ گھٹاو نہیں‘‘۔

یہ شنید نہیں۔۔۔ دید ہے کہ اصل منافع میں سے پانچ فیصد ہمیشہ اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے والا بہت جلد دولت مند بن جاتا ہے۔

China Mobile Secret Codes

If you have any China Mobile or any other Korean Make Mobile and language is set to China or other than English. You can use the following trick to bring it to English.

*#0000# this will bring your China mobiles to default language English- Enjoy.

China Mobile Secret Codes;
*#06# - Displays your IMEI. No need to tap Call.
*#33# - Bar All Outgoing Calls Deactivated.
*#67# - CallForward When bussy Deactivated.
*#61# - Call Forward When not reply Deactivated.
*#30# - call Id presentation Provided.
*#147# - Factory Mode.
*#258# - Engineer's Mode.Default user code : 1122, 3344, 1234, 5678
Engineer mode : *#110*01#
Factory mode : *#987#
Enable COM port : *#110*01# -> Device -> Set UART -> PS Config -> UART1/115200
Restore factory settings : *#987*99#
LCD contrast : *#369#
Software version : *#800#
Software version : *#900#
Set default language : *#0000# Send
Set English language : *#0044# Send
Set English language (new firmware) : *#001# Send
Default user code : 1122, 3344, 1234, 5678
apply at own risk

دل کی بند شریانیں کھولنے کا گھریلو علاج

دل کی شریانیں بند ہوجائیں تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ بائی پاس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں ایک ایسا نسخہ جو دل کی بند شریانوں کو جادو کی طرح کھول دے گا اور دل کے ڈاکٹروں کو بھی حیران کردے گا۔
ایک کپ لیموں کا رس، ایک کپ ادرک کا رس، ایک کپ لہسن کا رس اور ایک کپ سیب کا سرکہ لے لیں۔ ان سب کو ایک برتن میں ڈال کی دھیمی آنچ پر آدھے گھنٹے تک پکنے دیں۔ جب یہ محلول تین کپ رہ جائے تو اتار کر ٹھنڈا کرلیں اور اس میں تین پیالی شہد ملا لیں۔ خوب مکس کر کے بوتل میں رکھ لیں اور روزانہ نہار میں تین کھانے کے چمچ یہ محلول پئیں۔ چند دنوں میں دل کی بند شریانیں کھل جائیں گی آزمائش شرط ہے۔

Stray dog completes 1700 km China race

A stray dog has completed a 1700km journey across China after joining a cycle race from Sichuan province to Tibet.
The dog, nicknamed "Xiaosa", joined the cyclists after one of them gave him food.
He ran with them for 24 days, covering up to 60km a day, and climbing 12 mountains.
Cyclist Xiao Yong started a blog about Xiaosa's adventures, which had attracted around 40,000 fans by the end of the race.
Yong now hopes to adopt Xiaosa.

To see video click on the link below.

Stray dog completes 1700km China race

ایک مرتبہ درود پڑھنے پر اللہ کی دس رحمتیں

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے
  • جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالٰی اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

شبِ برأت کے فضائل و اعمال

(١) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلی آپ جنت البقیع میں تھے، آپ کا سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا، آپ نے مجھے فرمایا، اے عائشہ کیا تمہیں ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے گمان ہوا شاید آپ دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’اللہ تعالٰی پندرہویں شعبان کی رات آسمانِ دنیا پر (اپنی شایانِ شان) نزول فرماتا ہے اور بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے‘‘۔
(ترمذی جلد اول صفحہ٢٧٥، ابن ماجہ صفحہ ٩٩) 
امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس باب میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی روایت ہے۔
(٢) مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، نصف شعبان کی رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالٰی اسی رات غروب آفتاب تا طلوع فجر آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ رہتا ہے اور فرماتا ہے ’’کوئی ہے مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں، کوئی رزق طلب کرے تو اس کو رزق دوں، کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہے تو اس کو عافیت دوں‘‘۔
(ابن ماجہ شریف صفحہ نمبر٩٩)

(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! اللہ تعالٰی شعبان کی پندرہویں شب ظہور فرماتا ہے اور مشرک و چغل خور کے علاوہ سب کی بخشش فرمادیتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ صفحہ ٩٩)

شعبان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روزے رکھنا



ام المؤمنین سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں میں شعبان کے روزے زیادہ پسند تھے، پھر اسے رمضان سے ملادیا کرتے۔ 
 (جامع الترمذی جلد اول، صفحہ ٢٧٥، سنن ابو داؤد ، جلد اول صفحہ ٣٣٧، سنن ابن ماجہ صفحہ١١٩)

دنیا اور عورت آزمائش