ہفتہ, اگست 11, 2012

ہاکی اولمپکس: جرمنی اور ہالینڈ آج فائنل کھیلیں گے

لندن اولمپکس 2012ء کے مردوں کے ہاکی مقابلوں میں جرمنی اور ہالینڈ فائنل میں پہنچ گئے ہیں جہاں وہ آج ہفتہ کو میدان میں اتریں گے۔

جمعرات کو ہونے والے سیمی فائنلز میں جرمنی نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کو جب کہ ہالینڈ نے برطانیہ کو شکست دی۔

پہلے سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے کھیل کے ابتدائی مرحلے سے دباؤ برقرار رکھا اور دو ایک کی خاصی دیر تک برتری برقرار رکھی۔ تاہم اختتامی مرحلے میں جرمنی نے سنسنی خیز انداز میں تین گول کرکے فائنل کے لیے کوالی فائی کرلیا۔

دوسرے سیمی فائنل میں برطانیہ کو ہالینڈ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ہالینڈ نے شروع ہی سے کھیل پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور میچ کے اختتام پر نو، دو سے فتح حاصل کرتے ہوئے فائنل میں جگہ بنالی۔

ہاکی اولمپکس: جرمنی اور ہالینڈ فائنل میں

صنوبر کے 100 درختوں کا خاکستر ہونا باعث تشویش

پاکستان میں اگرچہ جنگلات عالمی سطح پر متعین کردہ کم از کم حد سے بہت تھوڑے رقبے پر واقع ہیں لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں دنیا کے دوسرے بڑے صنوبر کے جنگلات موجود ہیں۔

صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے جوکہ بعض اندازوں کے مطابق تین ہزار سال تک محیط ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں سطح سمندر سے دو سے تین ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں افزائش بھی اس کی انفرادیت ہے۔

پاکستان میں صنوبر کے جنگلات شمال مغرب اور جنوب مغرب میں پائے جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے علاقے رحیم آباد میں صنوبر کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس سے بہت سے درخت متاثر ہوئے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے کنزرویشن مینیجر محمد ظفر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقریباً ایک مربع کلومیٹر رقبے پر واقع صنوبر کے جنگل کو آتشزدگی سے نقصان پہنچا اور لگ بھگ 100 درخت جل گئے۔

’’ان درختوں کی افزائش بہت سست ہوتی ہے۔ ایک درخت کو میچور ہونے میں سو سال لگ جاتے ہیں۔ یہاں پر گلگت بلتستان میں جونی پر (صنوبر) کے جنگلات ٹکڑیوں میں پائے جاتے ہیں تو اس (آتشزدگی) سے اس پیچ کو نقصان پہنچا ہے‘‘۔

انھوں نے بتایا کہ رحیم آباد اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں مارخور کی استوری نسل کے جانوروں کا مسکن ہے اور صنوبر کے جنگلات کو پہنچنے والے نقصان سے یہ مارخور بھی بالواسطہ طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔

محمد ظفر نے بتایا کہ یہاں کی مقامی آبادی کی ایندھن کی ضروریات بھی جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی پر منحصر ہوتی ہیں جس سے قدرتی درختوں کے ذخائر پر ایک اضافی بوجھ پڑتا ہے۔

’’گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلات نے گو کہ جنگلات سے لکڑی کاٹنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن یہاں کے لوگوں کا انحصار اس پر ہے ... تو ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر یہاں لوگوں کی زرعی اراضی میں تیزی سے بڑھنے والے درخت لگانے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے تاکہ قدرتی جنگلات پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے‘‘۔

ان کے بقول رواں سال اب تک یہاں ڈیڑھ لاکھ تیزی سے بڑھنے والے پودے جن میں سفیدہ، کیکر اور بید شامل ہیں لگائے جاچکے ہیں۔

عالمی سطح پر کسی بھی ملک کے تقریباً 20 سے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے جب کہ پاکستان میں 4.8 چار فیصد رقبے پر ہی درختوں کے ذخائر ہیں۔

صنوبر کے 100 درختوں کا خاکستر ہونا باعث تشویش