شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات, ستمبر 12, 2013

میری پسند

روشن چہرہ، بھیگی زلفیں
کس کو کس پر ترجیح دوں

اک قصیدہ دھوپ کا لکھوں
ایک غزل برسات کے نام

===+===+===
ہم سے کب منسوب ہے رونق تمہاری بزم کی
ہم نہ ہوں گے تب بھی ہوگی
صبح تیری، شام تیری، رات تیری

===+===+===
یوں بھی تو راز کُھل ہی جائے گا اک دن ہماری محبت کا
محفل میں جو ہم کو چھوڑ کر سب کو سلام کرتے ہو

===+===+===
تم بھی ہو بیتے وقت کی مانند ہو بہو
تم نے بھی صرف یاد آنا ہے، آنا تو نہیں

===+===+===
چلو عہد محبت کی کی ذرا تجدید کرتے ہیں
چلو تم چاند بن جائو ہم پھر سے عید کرتے ہیں

===+===+===
اب ذرا گردش حالات نے آ گھیرا ہے
تم بہر حال میرے ہو، بس تمہیں یہی یاد نہیں

===+===+===
خاموش سی یہ بستی اور گفتگو کی حسرت
ہم کس سے کریں بات؟ کوئی بولتا ہی نہیں

===+===+===
بات ٹھری جو عدل پر واعظ
پھر یہ منت یہ التجا کیا ہے؟
چاند سا جب کہا
تو کہنے لگے
چاند کہئے نا
چاند سا کیا ہے؟

===+===+===
اس نے بُھلا دیا تو شکوہ نہ کر اے دل
دل میں بسنے والوں کو بڑے اختیار ہوتے ہیں

===+===+===
ابھی تو چند لفظوں میں سمیٹا ہے تجھے میں نے
ابھی میری کتابوں میں تیری تفسیر باقی ہے

===+===+===
نہیں معلوم مجھے تجھ سے محبت ہے کہ چاہت
دن بہ دن تیری یاد میں ٹوٹتا بکھرتا جا رہا ہوں

===+===+===
غضب آیا ستم ٹوٹا قیامت ہوگئی برپا
فقط اتنا ہی پوچھا تھا کہاں مصروف رہتے ہو

===+===+===
نہ پرواہ اسے میری
نہ میر اس کو ضرورت میری
میں گلی کا ایک مجنوں
وہ پردے دار لوگ

===+===+===
تیرا خیال درست کہ وہ خوب صورت ہیں
میر
مجھے حُسن یار سے نہیں
اپنے یار سے محبت ہے

===+===+===
میری تکمیل میں حصہ ہے تمہارا بھی بہت
میں اگر تم سے نہ ملتا تو ادھورا رہتا

===+===+===
اک وہ کہ جنہیں یاد نہیں قصہ ماضی
اک ہم کہ ابھی پہلی ملاقات نہیں بھولے

===+===+===
نہ کمزور پڑا میرا تم سے تعلق
اور نہ کہیں اور ہوئے سلسلے مضبوط
یہ وقت کی سازش ہے
کبھی تم مصروف تو کبھی ہم مصروف

===+===+===
سامنے منزل تھی اور پیچھے اس کی آواز
رکتا تو سفر جاتا چلتا تو بچھڑ جاتا

===+===+===
تیری نگاہ ناز میں میرا وجود بے وجود
میری نگاہ شوق میں تیرے سوا کوئی نہیں

===+===+===
کاش میں پلٹ جائوں بچپن کی وادی میں
نہ کوئی ضرورت تھی نہ کوئی ضروری تھا

===+===+===
تیری آنکھوں کو دیکھنے والے
سنا ہے اور کوئی نشہ نہیں کرتے

===+===+===
تم یاد کرو یا بھول جائو تمہاری مرضی
تم یاد تھے، تم یاد ہو، تم رہو گے
یہ یاد رکھنا
===+===+===

اتوار, اپریل 07, 2013

منتخب اشعار

​زخم بھی کوئی نہیں پھر بھی درد کا احساس ہوتا ہے
شاید دل کا کوئی ٹکڑا آج بھی اس کے پاس ہے
……
دل معصوم پے تیرے قاتلانہ حملے
اپنے نینوں سے کہو ذرا تمیز سے
……

کم بخت مانتا ہی نہیں
​ ​دل اسے بھلانے کو
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاؤں پڑ جاتا ہے
……

اکیلے چلنے لگے ہو
کتنا سنبھل گئے ہو
……

اے سنگ دل سپہ سالار
آ کے دیکھ میرا بھی حوصلہ
تنہا کھڑا ہوں
تیری یادوں کے لشکر کے سامنے
……

ٹوٹے سپنے بکھرے ارمان کیا ہوا حاصل
اے دل تو نے عشق کرکے اچھا نہیں کیا
……

​تو ڈھونڈ فلک پر باغ ارم اپنا تو عقیدہ ہے
جس خاک پے مخلص دوست ملیں وہ خاک بھی جنت ہوتی ہے
……

اتوار, مارچ 03, 2013

مجھے تلاش ہے اس کی جو میرے جیسا ہو

  نہ وہ فرشتہ ہو نہ فرشتوں جیسا ہو
مجھے تلاش ہے اس کی جو میرے جیسا ہو

میرے خلوص کو پہچانتا ہو بس کافی ہے
وہ کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو کیسا بھی ہو

میری محبت کو پہچان سکے وہ ایسا ہو
میری خاطر مرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو

اگر کھبی روٹھ جاؤں میں اس سے تو
مسکرا کے منائے وہ ایسا ہو

جو بات کرے وہ نبھا بھی سکے
ارادوں میں وہ اپنی چٹانوں جیسا ہو

دکھوں میں ہنسنے کا ہنر جانتا ہو
اک ایسا ہمسفر جو سمندر کی طرح گہرا ہو

اس کے پیار کی ٹھنڈک ہو میرے لیے ایسی
کہ وہ تو بالکل آسمان کے چاند جیسا ہو

تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی

گلاں چُوں گل تے کوئی نائی


تُساں گل دی گل بنا چھوڑی


اَساں جتنی گل مکاندے رئے


تُساں اُتنی گل ودھا چھوڑی


اَساں نِت خلوص دی چھاں کیتی


تُساں جِھڑکاں نال وَنجا چھوڑی


اَساں لوکاں نال مُکاندے رئے


تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی

محبت روگ ہے جاناں


محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں
بڑے بوڑھے بتاتے تھے
کئی قصے سناتے تھے
مگر ہم مانتے کب تھے
یہ سب کچھ جانتے کب تھے
بہت پختہ ارادے کس طرح ٹوٹ جاتے ہیں
ہمیں ادراک ہی کب تھا
ہمیں کامل بھروسہ تھا
ہمارے ساتھ کسی صورت بھی ایسا ہو نہیں سکتا
یہ دل کبھی قابو سے بے قابو ہو نہیں سکتا
مگر
پھر یوں ہوا جاناں
نہ جانے کیوں ہوا جاناں
جگر کا خوں ہوا جاناں
ترے ابرو کی اک جنبش پر
ترے قدموں کی آہٹ پر
گلابی مسکراہٹ پر
ترے سر کے اشارے پر
صدائے دلربانہ پر
چہرۂ مصومانہ پر
نگاۂ قاتلانہ پر
ادائے کافرانہ پر
گھائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بے باک پھرتے تھے
مائل ہوگئے ہم بھی
سخاوت کرنے آئے تھے
اور
سائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بوڑھوں کے ان باتوں کے
قائل ہوگئے ہم بھی
کہ
محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں...!!

وہ کہتا ہے، بتا تیرا درد کیسے سمجھوں؟

وہ کہتا ہے، بتا تیرا درد کیسے سمجھوں؟
میں نے کہا، عشق کر اور کر کے ہار جا!
+==========+


اب کے بار نئے سال میں عجب سی خواہش جاگی ہے
کہ کوئی ٹوٹ کے چاہے اور ہم بے وفا نکلیں
+==========+



یہ واجبات عشق مجھ ہی پے قرض کیوں
وہ بھی ادا کرے محبت اسے بھی تھی

+==========+


اس نے کہا نہ ہونے سے کچھ بھی نہیں بدلا
بس پہلے جہاں دل ہوتا تھا اب وہاں درد ہوتا ہے
+==========+

دل معصوم پہ تیرے قاتلانہ حملے


زخم بھی کوئی نہیں پھر بھی درد کا احساس ہوتا ہے
شاید دل کا کوئی ٹکڑا آج بھی اس کے پاس ہے
……

دل معصوم پہ تیرے قاتلانہ حملے
اپنے نینوں سے کہو ذرا تمیز سے
……

کم بخت مانتا ہی نہیںدل اسے بھلانے کو
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاؤں پڑ جاتا ہے
……

اکیلے چلنے لگے ہو
کتنا سنبھل گئے ہو
……

اے سنگ دل سپہ سالار
آ کے دیکھ میرا بھی حوصلہ
تنہا کھڑا ہوں
تیری یادوں کے لشکر کے سامنے
……

ٹوٹے سپنے بکھرے ارمان کیا ہوا حاصل
اے دل تو نے عشق کرکے اچھا نہیں کیا
……

تو ڈھونڈ فلک پر باغ ارم
اپنا تو عقیدہ ہے
جس خاک پے مخلص دوست ملیں
وہ خاک بھی جنت ہوتی ہے
……

بدھ, دسمبر 26, 2012

لوگ بھلا ہی دیں گے: پروین شاکر کی یاد میں

مر گئے بھی تو کہإں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

شاعرہ کا یہ گلہ تو بجا نہیں کہ لوگ انہیں بھلا دیں گے۔ البتہ، مصرہ ثانی، خوشبو جیسے لہجے کی شاعرہ کے امر ہونے کا ایک زمانہ  گواہ ہے۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں  پروین شاکر کی جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 18 برس گزرنے کے باوجود لوگ بھولے نہیں، ان کے لفظ ہمیشہ ان کے ہونے کے گواہ رہیں گے۔

24 نومبر، پیر کی سرد رات اور رم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدائے اذان بلند کی، کراچی کے ایک ہسپتال میں  ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النسا اور سید شاکر حسین  زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا جسے آج دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔

بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

جدید  اردو شاعری کے  اہم نام  پروین شاکر کے فنی مقام سے تو لوگ آگاہ ہیں ہی، آج  ہم ان کی ذاتی زندگی کے چند اوراق پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان کی بڑی بہن نسرین بانو اور پروین نے اپنا بچپن ایک ساتھ ہنستے کھیلتے گزارا۔ دونوں اکٹھے سکول جایا کرتیں۔ پروین جب تیسری کلاس میں تھیں تو انہیں ڈبل پرموشن دیا گیا  یوں دونوں بہنیں ایک ہی کلاس میں آ گئیں۔

ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں، واپسی پر  اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا، وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں  جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زور زور سے ہارن بجا رہی تھیں، شاپ سے سیلز مین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں انہیں جوتا چاہیے، اصل میں وہ  کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو  بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔

ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ صرف 24 برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ ’’خوشبو‘‘ شائع ہوا۔

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر  جاؤں  تو  مجھ کو   نہ سمیٹے  کوئی

انگلش لٹریچر اور لنگئٹکس میں ماسٹرز کے بعد پروین شاکر کچھ عرصہ انگلش کی لیکچرر رہیں پھر  سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم میں اسسٹنٹ کمشنر  کے طور پر تعینات ہوئیں۔

رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں
ان کو تھاموں
زینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروں
یا اپنے کمرے میں ٹھہروں
چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے

سنہ 1976 میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا اور1987ء میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔

کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
۔۔۔۔
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
۔۔۔۔۔
کون چاہے گا تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
۔۔۔
پروین اسلام آباد میں سی۔بی۔آر کی سیکنڈ سیکریٹری مقرر ہوئیں، اس کے بعد کسٹم میں ہی انسپیکشن اور ٹریننگ کی ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئیں۔

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
۔۔۔
26 دسمبر پیر ہی کے روز آفس جاتے ہوئےاسلام آباد میں ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کومل لہجے والی ہی شاعرہ صرف 42 برس کی عمر میں  اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ انہیں اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اُن کے کتبے پر یہ شعر درج ہیں:

مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
۔۔۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

جمعرات, دسمبر 13, 2012

کبھی یاد آئے تو پوچھنا

کبھی یاد آئے تو پوچھنا

ذرا اپنی خلوتِ شام سے

کیسے عشق تھا تیری ذات سے

کیسے پیار تھا تیرے نام سے

ذرا یاد کر کہ وہ کون تھا؟

جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا

وہ جو جی اٹھا تیرے نام سے

وہ جو مرمٹا تیرے نام سے

ہمیں بے رخی کا نہیں گلہ

کہ یہی وفائوں کا ہے صلہ

مگر ایسا جرم تھا کون سا؟

گئے ہم دعا و سلام سے

نہ کبھی وصال کی چاہ کی

نہ کبھی فراق میں آہ کی

کہ میرا طریقہ بندگی ہے جدا

طریقہ عام سے

پیر, دسمبر 10, 2012

ذرا تم رات ہونے دو

ذرا تم رات ہونے دو

میں تتلیوں کو سُلا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو
میں جگنوؤں کو جگا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو

میری نمناک آنکھوں کو
نہ دیکھو تم حقارت سے
میں تم کو بھی رُلا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو

کہاں آغاز ہوتا ہے
کہاں انجام ہوتا ہے
ہُنر سارے سکھا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو

جو تم نے مجھ سے پوچھا ہے
کہاں ہو گی تمھاری رات
جہاں ہو گی بتا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو

اتوار, نومبر 25, 2012

لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے۔

اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا 24 نومبر کو اٹھاون واں جنم دن منایا گیا۔

پروین شاکر 24 نومبر 1954ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ منفرد لہجے کے باعث بہت کم عرصہ میں انہیں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہو پاتی ہے۔

انگریزی ادب میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور سی ایس ایس کرنے کے بعد کسٹمز اسلام آباد میں خدمات انجام دیں۔ پروین شاکر نے 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دسمبر 1994ء میں ٹریفک کے ایک حادثہ میں اسلام آباد میں 42 سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ خوشبو، صد برگ، خودکلامی، انکار اور ماہ تمام ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔

  لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے، پروین شاکر کی 58 ویں سالگرہ منائی گئی

پیر, نومبر 12, 2012

احمد فراز کی آخری غزل یا احمد فراز پر آخری تہمت

اگر شاعر نئی نئی باتیں سوچنے پر قادر ہیں تو زمانے والے ان پر ستم کرنے کے نئے نئے انداز بھی ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سے استفادہ کرتے ہوئے جس استاد شاعر کے نام کے ساتھ اپنے شعر نما جملوں کی تہمت سب سے زیادہ باندھی گئی ہے ان میں احمد فراز سر فہرست ہیں۔

جانِ فراز پر مداحوں کے بے پناہ ستم تو نظروں سے گزرتے ہی ہیں مگر آج یہ غزل نظر سے گزری۔

ملاحظہ فرمائیے۔

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کوئی ازل سے کہ دے رُک جاؤ دو گھڑی
سنا ہے کہ آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے رُوٹھ ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر نا آ جائے پھر سانس نبضوں میں
اتنے حسیں ہا تھوں سے میٹ سجا رہا ہے کوئی

اب بہت ہی بعید ہے کہ یہ غزل موجودہ حالت میں احمد فراز کی ہو۔ اس میں تو عام سی غلطیاں نمایاں ہیں۔ مگر شومئی قسمت ان کے نام پر اتنی مشہور ہو گئی کہ اگر اب وہ خود بھی کہیں کہ یہ غزل میں نے نہیں لکھی تو کوئی نہیں مانے گا۔
یہ غزل بے وزن ہے۔

فراز کے معیار سے کافی زیادہ نشیب میں ہے۔

اگر یہ غزل فراز صاحب کی ہے بھی تو پھر کمپوز کرنے میں کافی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔

اگر اس غزل کو موزوں کرنے کی کوشش کی جائے تو کچھ یوں بنے گی

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کہو یہ موت سے رُک جائے دو گھڑی کے لیے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

کچھ ایسے ناز سے بیٹھے ہیں میری لاش کے پاس
کہ جیسے رُوٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر آ ہی نہ جائے یہ سانس نبضوں میں
حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی

چنانچہ اس پر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں
ہمارے ادبی صفحات، انجمنیں، ویب سائٹس اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھتے کہ جس چیز کو احمد فراز کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے وہ ان کے معیار کی ہے بھی کہ نہیں۔ کیا کسی ایٹمی سائنسدان کا تعارف آپ یوں کروانا چاہیں گے کہ یہ غلیل بھی اسی نے ایجاد کی تھی؟
کیا یوں اس ایٹمی سائنسدان کا رتبہ بلند ہوگا؟
اگر نہیں تو پھر غیر معیاری کلام یا کتابت کی خامیوں سے بھرپور کلام کو ایک بلند پایہ شاعر سے منسوب کر کے ادب کی خدمت کی جا رہی ہے یا بے ادبی

نوٹ : اگر آپ کو اس غزل کا ریفرنس پتہ ہو تو ضرور راہنمائی کیجیے۔ شکریہ

جمعرات, نومبر 08, 2012

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے ہمائل ہے اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

مرا نہیں تو کسی اور کا بنے تو سہی

مرا نہیں تو کسی اور کا بنے تو سہی
کسی بھی طور سے وہ شخص خوش رہے تو سہی

پھر اس کے بعد بچھڑنے ہی کون دے گا اسے
کہیں دکھائی تو دے وہ کبھی ملے ہی سہی

کہاں کا زعم ترے سامنے انا کیسی
وقار سے ہی جھکے ہم مگر جھکے تو سہی

جو چپ رہا تو بسا لے گا نفرتیں دل میں
برا بھلا ہی کہے وہ مگر کہے تو سہی

کوئی تو ربط ہو اپنا پرانی قدروں سے
کسی کتاب کا نسخہ کہیں ملے تو سہی

دعائے خیر نہ مانگے کوئی کسی کے لیے
کسی کو دیکھ کے لیکن کوئی جلے تو سہی

جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر
سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی

بدھ, اکتوبر 24, 2012

ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں

ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں


حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں


ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لبِ گویا نہ تو نہ میں


نوحے فصیلِ ضبط سے اونچے نہ ہو سکے
کھل کر دیارِ سنگ میں رویا نہ تو نہ میں


جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی
برگشتہ آسمان سے گویا نہ تو نہ میں

خالد احمد

جمعرات, اگست 30, 2012

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں

ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں

اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں

ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
                                       احمد فراز

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے

میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے
                                      احمد فراز

پیر, اگست 27, 2012

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں

تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں

چاہتوں کی صورت ہوتی ہیں

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں


دل کے زخم مٹانے کو


آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں

نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی

نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں

چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں

تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی

رداؤں جیسی ہوتی ہیں

بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں


کبھی بلا سکیں، کبھی چھپا سکیں

بیٹیاں اَن کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی جھکا سکیں، کبھی مٹا سکیں

بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی ہنسا سکیں، کبھی رُلا سکیں

کبھی سنوار سکیں، کبھی اجاڑ سکیں


بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں

حد سے مہرباں، بیان سے اچھی

بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں

پھول جب شاخ سے کٹتا ہے بکھر جاتا ہے

پتیاں سوکھتی ہیں ٹوٹ کے اُڑ جاتی ہیں

بیٹیاں پھول ہیں


ماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں

ماں کی آنکھوں کی چمک بنتی ہیں

باپ کے دل کا سکوں ہوتی ہیں

گھر کو جنت بنا دیتی ہیں

ہر قدم پیار بچھا دیتی ہیں

جب بچھڑنے کی گھڑی آتی ہے

غم کے رنگوں میں خوشی آتی ہے

ایک گھر میں تو اُترتی ہے اداسی لیکن

دوسرے گھر کے سنورنے کا یقیں ہوتا ہے


بیٹیاں پھول ہیں

ایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر

سوکھتی ہیں نہ کبھی ٹوٹتی ہیں

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

اور پھول کے مقدر میں
بالآخر بکھرنا ہے
انہیں تو بس مہکنا ہے
سجا دو سیج پر چاہے
چڑھا دو یا مزاروں پر
سہرے میں انہیں گوندھو
لگا دو یا کہ مدفن پر
انہیں خوشبو پھیلانی ہے
بھلا پھولوں کی مرضی کون پوچھتا ہے
بتاﺅ تم کو بالوں میں سجائیں یا کہ مرقد پے
آبیاری ہو کہیں یا قطع و برید ہو
پھولوں کے اختیار میں بس مہکتے رہنا ہے
اجنبی جذبات کو اپنی زباں میں کہنا ہے
جس رنگ میں چاہے باغباں
گلدستے میں سج جانا ہے
جس کیاری میں چاہے
وہیں پے ان کو اگنا ہے، وہیں پھل پھول دینے ہیں
وہیں مرجھانا ہے ان کو

پرندوں اور پودوں میں
یہی اک فرق ہے ازلی
کبھی جو بے سبب یہ مہرباں برساتیں روٹھ جائیں تو
یا بد قسمت گھٹائیں راستے بھول جائیں تو
کبھی جب پانیوں کی کوکھ بانج ہو جانے کا خدشہ ہو

پرندے ہجرتیں کرکے، نئی آب و زمیں کھوجیں
ٹھکانے، آشیانے، چمن و گلشن سب نیا ڈھونڈیں
مگر پھولوں کو پودوں کو، مگر بیلوں کو بانہوں کو
وہیں پانی کے مدفن پر، وہیں اشجار کے ساکت بدن پہ خاک ہونا ہے
انہی گجروں میں سجنا ہے
انہیں راہوں میں رلنا ہے
گلدان آباد کرنے ہیں
یہی پھولوں کی قسمت ہے، یہی ان کا مقدر ہے

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں