جاسوسی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جاسوسی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, دسمبر 09, 2012

شکیل آفریدی نے سی آئی اے حکام سے 4 ملاقاتیں کیں

شکیل آفریدی کو مخبری کے دس ہزار ڈالر ملے، رابطے کے لئے سپیشل ڈیوائس تیار ہوئی۔ ہیپاٹائٹس ٹیسٹ کے بہانے اسامہ کے بچوں کے سیمپل امریکا بھجوائے گئے۔ اہلیہ کی وائس میچنگ بھی کی گئی۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ دنیا نیوز نے حاصل کر لی۔

ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی آخری وقت تک اس بات سے لاعلم تھے کہ ایبٹ آباد کمپاونڈ میں جن افراد کی ڈی این اے سیمپلنگ انہیں کرنی ہے وہ کوئی اور نہیں اسامہ کے بچے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سی آئی اے کے لوگوں کے ساتھ پہلی ملاقات پشاورمیں ایک بین الاقوامی این جی او کے دفتر میں ہوئی تین سے چار ملاقاتوں میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایبٹ آباد کے اس علاقے میں جہاں اسامہ کا کمپاونڈ موجود تھا ہیپاٹائٹس کے خلاف مہم چلانے کی حامی بھر لی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اس علاقے میں تین بار ہیپاٹائٹس کے خلاف کمپئین چلائی مگر اسامہ بن لادن کے بچوں کو قطرے پلا سکے نہ اس کی آڑ میں سمپلنگ ہو سکی جس کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایک لیڈی ہیلتھ وزیٹر کو تیس ہزار روپے انعام کا لالچ دیا اور کہا کہ اگر اس کمپاونڈ میں رہنے والے بچوں کی سمپلنگ نہ ہو سکی تو ہمارا پروگرام بند ہو جائے گا۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹر نے اسامہ کے ساتھ رہائش پذیر خالد الکویتی کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور اس کے ذریعے ڈی این اے سمپل حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ خالد الکویتی نے اس شرط پر کہ وہ گھر میں داخل نہیں ہو گی۔ بچوں کو باہر بلا کر ویکسین پلانے کی اجازت دے دی اور لیڈی ہیلتھ وزیٹر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ یہ سمپل کنفرمیشن کے لئے امریکہ بجھوائے گئے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شکیل آفریدی کے پاس سی آئی اے کی دی ہوئی ایک ڈیوائیس تھی جس پر اسلام آباد سے سی آئی اے کی ایک خاتون اہلکار ان کے ساتھ رابطہ کرتی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شکیل آفریدی کو اسلام آباد بلایا جاتا تھا۔ اس دوران ایک بڑی گاڑی میں سی آئی اے کی ایک لیڈی ایجنٹ لیٹ کر سفر کرتی تھی تاکہ گاڑی بظاہر خالی محسوس ہو۔ ایجنسیوں کے پیچھا کرنے کا خدشہ دور ہونے پر شکیل آفریدی کو اس گاڑی میں سوار کرایا جاتا اور وہ بھی اس گاڑی میں لیٹ کر سفر کرتے جنہیں ہدایات دینے کے بعد گاڑی سے اتار دیا جاتا۔ اسامہ کے کمپاونڈ کی مکمل معلومات بھی سی آئی اے کو ڈاکٹر شکیل کو دی گئی ڈیوائیس کے ذریعے حاصل ہوئیں، اسامہ کی اہلیہ خیریہ کی وائس میچنگ بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی ایک اسسٹنٹ ڈاکٹر آمنہ کے ذریعے کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ڈی این اے کی کنفرمیشن پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ہدایت ملی کہ وہ تین روز میں اپنا پراجیکٹ وائینڈ اپ کر دیں۔ اپنی جائیداد کا انتظام کریں اور امریکہ شفٹ ہو جائیں۔ آپریشن کے دن تک سی آئی اے ڈاکٹر شکیل کو پاکستان چھوڑنے کا کہتی رہی انہیں بگرام کے راستے افغانستان لے جانے کی پیش کش بھی کی گئی لیکن وہ لیت لعل سے کام لیتے رہے اور آپریشن کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈآکٹر شکیل آفریدی کو سی آئی سے اس کام کے عوض دس ہزار ڈالر دئیے گئے۔

شکیل آفریدی نے سی آئی اے حکام سے 4 ملاقاتیں کیں: ایبٹ آباد کمیشن

اتوار, نومبر 25, 2012

سعودی خواتین کی ’جاسوسی‘ پر ہنگامہ

سعودی عرب میں ملک سے باہر مقیم سعودی خواتین کی نقل و حرکت کے بارے میں ان کے گھر کے مردوں کو ایس ایم ایس کے ذریعہ از خود اطلاع ملنے کے معاملے پر ٹوئٹر پر زبردست بحث جاری ہے۔ بیرون ملک سفر کرنے والی سعودی خواتین کی نقل و حمل کے بارے میں اطلاع ان کے گھر کے مردوں کو ایک ایس ایم ایس کی شکل میں ملے گی۔ اس بات کے سامنے آنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سعودی حکومت کڑی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اس سروس کی طرف لوگوں کی توجہ اس وقت گئی جب اپنی بیوی کے ساتھ سفر پر جانے والے ایک شخص کو ریاض سے روانہ ہوتے ہی فون پر پیغام موصول ہوا کہ ان کی اہلیہ ریاض کے ہوائی اڈے سے روانہ ہو گئی ہیں۔ اس سے پہلے ایس ایم ایس کی یہ سہولت سعودی عرب کے ان مرد شہریوں کو دی جاتی تھی جو اس کا مطالبہ کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کو ان کی بیویوں یا خاندان کی دیگر خواتین کے ملک سے باہر جانے پر پیغامات ملتے تھے۔ لیکن فی الحال یہ پیغام ان لوگوں کو بھی موصول ہو رہے ہیں جنہوں نے اس کی درخواست نہیں دی ہے۔ ٹوئٹر کے پر بعض صارفین نے سعودی حکومت کے اس اقدام کا مذاق اڑایا ہے اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ برس الیکٹرونک پاسپورٹ کی سہولت کا اجراء کیا تھا اور یہ ایس ایم ایس الرٹ اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ای پاسپورٹ شہریوں کو سفر سے متعلق تیاری کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے انہیں بار بار پاسپورٹ کے دفتر نہیں جانا پڑتا ہے۔

سعودی خواتین کی ’جاسوسی‘ پر ہنگامہ

جمعہ, نومبر 09, 2012

امریکی ڈرون پر ایران کی فائرنگ

امریکہ کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ خلیج پر پرواز کرنے والے ڈرون پر ایرانی جیٹ فائٹرز سے فائرنگ کی ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان جارج لٹل نے کہا کہ فائرنگ سے ڈرون کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی جیٹ فائٹرز نے بین الاقوامی فضائی حدود میں ڈرون پر فائرنگ کی۔ وزارت دفاع کا مزید کہنا ہے کہ یہ واقعہ یکم نومبر کو پیش آیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ امریکی صدر کو اس واقعے کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال ایران نے ایرانی فضائی حدود میں پرواز کرنے والا ڈرون مار گرایا تھا اور امریکہ کو واپس کرنے سے انکار کیا تھا۔ تاہم امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈرون فنی خرابی کے باعث گرا تھا۔ 

جارج لٹل کا کہنا ہے کہ یکم نومبر کے واقعے کے بعد امریکہ ڈرون کے ذریعے خلیج کی نگرانی کے لیے پروازیں جاری رکھے گا۔ ’امریکہ نے ایران کو مطلع کر دیا ہے کہ امریکہ خلیج میں بین الاقوامی فضائی حدود میں نگرانی کے لیے پروازیں جاری رکھے گا۔‘ وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ ڈرون ایران کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق ’ایران کے دو ایس یو 25 لڑاکا طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا۔ یہ فائر ڈرون کو نہیں لگے اور ڈرون کو واپس اڈے پر بلا لیا گیا۔‘ جارج لٹل نے مزید کہا ’ہمارے پاس اپنے فوجی اثاثے اور سکیورٹی فورسز کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت سی آپشنز ہیں جن میں سفارتی بھی ہیں اور فوجی بھی۔ جو بھی ضروری ہوگا وہ ہم کریں گے۔‘ امریکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ پالیسی کے تحت عام طور پر نگرانی کے مشن کی معلومات منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں لیکن اس بار وہ یہ معلومات عام کریں گے کیونکہ میڈیا کے کئی سوالات ہیں۔

امریکی وزارت دفاع کے مطابق ایران کے دو جنگی طیارے ایس یو 25 فروگ فٹ نے یکم نومبر کو آٹھ بج کر پچاس منٹ پر (جی ایم ٹی) امریکلی ڈرون طیارے پر فائرنگ کی۔ امریکی ڈرون معمول کی نگرانی کی پرواز پر ایران کے ساحل سے سولہ ناٹاکل میل دور تھا۔ جارج لٹل نے بتایا کہ بین الاقوامی فضائی حدود بارہ ناٹیکل میل کے بعد سے شروع ہوتی ہے اور ڈرون ایرانی حدود میں کسی وقت بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ ’اس سے پہلے کبھی بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جہاں ایرانی جنگی طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا ہو۔‘ جارج لٹل نے کہا کہ ہمارے خیال میں ایرانی جیٹ طیاروں نے دو بار فائر کیا۔ ’پہلی بار فائر کرنے کے بعد یہ طیارے گھوم کر واپس آئے اور فائر کیا۔ اس کے بعد بھی ایرانی جیٹ طیاروں نے ڈرون کا پیچھا کیا لیکن فائر نہیں کیا۔‘ دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ نے ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ نئی پابندیوں میں ایران کے وزیر مواصلات اور وزارت ثقافت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وزیر مواصلات پر پابندیاں اس لیے عائد کی گئی ہیں کہ انہوں نے انٹرنیشنل سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز کی نشریات کو جیم کرنے اور انٹرنیٹ کی رسائی محدود کرنے کا حکم دیا ہے۔

امریکی ڈرون پر ایرانی جیٹ طیاروں کی فائرنگ

ٹیپو سلطان کی جاسوس پڑپوتی

دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے والی ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نور عنایت خان کے مجسمے کی نقاب کشائی لندن کے معروف گورڈن سکوائر میں ہونے والی ہے۔ میسور کے سابق حکمراں ٹیپو سلطان کی پڑ پوتی نور عنایت خان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ انہوں نے زبردست بہادری اور جرات مندی کا ثبوت دیا جس پر ان کی سوانح نگار شربانی باسو نے انہیں ’جاسوس شہزادی‘ کا خطاب دیا ہے۔ نور عنایت روس میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی تربیت برطانیہ اور فرانس میں ہوئی۔ ان کا تعلق بھارت کے بہت ہی مشہور شاہی خاندان سے تھا۔ نور خان کو فرنچ زبان میں بھی عبور تھا اور سنہ 1942 میں انہیں برطانیہ کے ’سپیشل آپریشنز ایگزیکیٹیو‘ ( ایس او ای) نے پیرس میں کام کرنے کے لیے بطور ریڈیو آپریٹر بھرتی کیا تھا۔

برطانوی آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وائر لیس آپریٹ کرنے والے پہلی خاتون تھیں اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں نے فرانس کے جس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا وہاں انہیں کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ نور خان کو لکھنے کا بھی شوق تھا اور انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔ انہیں موسیقی میں بھی دلچسپی تھی لیکن میدان جنگ میں وہ ایک شیرنی تھیں۔ جاسوس کی حیثیت سے وہ تین ماہ تک تو قید سے بچتی رہیں لیکن پھر وہ قید ہوئیں اور ان پر تشدد کیاگیا ۔ 1944 میں جرمن فوجیوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ آخری لمحات میں جب جرمن فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو شہزادی نور خان نے’ آزادی‘ کا نعرہ لگایا تھا۔

ان کی سوانخ نگار شربینا باسو کا کہنا ہے کہ آزادی ان کے لیے بہت اہم تھی جس سے انہیں زندگي بھر لگاؤ رہا۔ اسی بہادری کے سبب انہیں ’جارج کراس‘ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ فرانس میں انہیں ’ کروسکس ڈی گوئرا‘ کا اعزاز بخشا گیا۔ بعد میں ان کی برسی کے یاد میں بھی دو یادگاریں قائم کی گئیں اور ایک سالانہ تقریب کا اہتمام بھی کیا گيا۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں اس طرح کی شجاعت کا مظاہرہ اس لیے نہیں کیا کہ انہیں برطانیہ سے بہت پیار تھا بلکہ اس لیے کہ انہیں فسطائیت اور آمریت سے سخت نفرت تھی۔ ان کے والد ایک موسیقی کار اور صوفی موسیقی کے استاد تھے۔ نور خان کو زندگی کے بہترین آداب سکھائے گئے۔ سبرینا باسو کہتی ہیں کہ ’ وہ کسی ملک پر دوسرے کا قبضہ برداشت نہیں کر پاتی تھیں اور یہ ایک ایسا خیال تھا جو انہیں خاندانی طور پر ورثے میں ملا تھا۔

ان کے پڑدادا ٹیپو سلطان، جو اس وقت کی بھارتی ریاست میسور کے حکمراں تھے، انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور ان کے ساتھ لڑتے ہوئے سنہ 1799 میں جنگ میں مارے گئے۔ نور خان یکم جنوری 1914میں روس میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھارتی اور ماں امریکی نژاد تھیں۔ ان کی دوشیزگی کا وقت لندن میں گزرا تھا۔ لیکن بچپن میں ان کا خاندان چونکہ فرانس منتقل ہوگیا تھا اس لیے بچپن وہیں گزرا جہاں انہوں دوران تعلیم فرینچ زبان سیکھی۔ انہوں نے طب اور موسیقی دونوں کی تعلیم لی تھی۔ 1939 میں بچوں کے لیے کہانیوں پر مبنی ان کی ایک کتاب ’ ٹوئنٹی چٹکا ٹیلز‘ شائع ہوئی تھی۔ جب سنہ انتالیس میں عالمی جنگ شروع ہوئی تو نور عنایت خان نے فرینچ ریڈ کراس کے ساتھ بطور نرس تربیت پائی۔ نومبر سنہ چالیس میں جرمن فوجیوں کے سامنے حکومت کے ہتھیار ڈالنے سے پہلے ہی وہ ملک چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہوکر اپنی ماں اور بہن کے ساتھ لندن پہنچ گئیں۔ برطانیہ آنے کے فوراً بعد انہوں نے ’وومنز آکزیلری ایئر فورس‘ میں وائر لیس آپریٹر کے طور پر شمولیت اختیار کر لی۔ تبھی ان پر ایس او ای کی نظر پڑی۔ اس وقت وہ نورا بیکر کے نام سے معروف ہوئی اور انہوں نے سنہ 1942 میں برطانوی خفیہ سروس جوائن کیا۔ اسی خفیہ سروس کے تحت بعد میں انہیں فرانس میں تعینات کیا گیا لیکن ایک رپورٹ کے بعد انہیں واپس بھیجنے کو بھی کہا گیا۔ اس بات کا شک ہوا کہ شاید نیٹ ورک میں جرمن نے دراندازی کر لی ہے اور انہیں جرمن گرفتار کرسکتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود برطانیہ واپس نہیں آئیں۔

محترمہ باسو نے ان کی زندگی پر آٹھ برس ریسرچ کے بعد کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ نور خان بچوں کی کہانیوں کی نفیس لکھاری اور موسیقی کار تھیں لیکن ان میں تبدیلی آئی۔ وہ میدان جنگ میں ایک شیرنی کی طرح تھیں‘۔ ان کی ٹیم کے بہت سے لوگ جرمنوں کے ہاتوں قید ہوتے رہے لیکن نور عنایت خان جب تک ممکن ہوا ان کے ریڈیو پیغامات کو درمیان میں سن سن کر برطانیہ کو بھیجتی رہیں۔ ان کے کمانڈر انہیں انگلینڈ واپس جانے پو زور دیتے رہے لیکن وہ تن تنہا بھیس اور مقامات بدل بدل کر جاسوسوں کی ایک خفیہ مہم تین ماہ تک چلاتی رہیں۔ کہتے ہیں جرمن فوجیوں نے انہیں دس ماہ تک قید کر کے تشدد کیا لیکن انہوں نے جرمن فوج کو کوئی معلومات فراہم نہیں۔بالآحر انہیں سنہ چوالیس میں تیرہ ستمبر کو قتل کر دیا گیا۔

بھارتی شہزادی نور کی شجاعت مندی پر اعزاز

جمعہ, اگست 24, 2012

امریکہ میں مسلمانوں کی خفیہ نگرانی، کوئی مفید اطلاع نہ مل سکی

نیو یارک پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا ہے کہ شہر کی مسلمان آبادی کی جاسوسی سے کسی ایک بھی مجرمانہ کارروائی کا سراغ نہیں ملا ہے۔ بعض مسلمان جنہیں اس خفیہ نگرانی کا نشانہ بنایا گیا تھا محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان کے خلاف شکوک و شبہات بے بنیاد تھے۔

نیو یارک شہر کے محکمۂ پولیس کا خفیہ Demographics Unit کم از کم چھہ برسوں سے مسلمانوں کی خفیہ نگرانی کرتا رہا ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں آج تک کوئی ایک بھی مفید اطلاع نہیں ملی نہ ہی دہشت گردی کی چھان بین کی کوئی کارروائی شروع کی جا سکی۔ یہ بیان شہری حقوق کے ایک مقدمے کے سلسلے میں جو کئی عشروں سے چل رہا ہے، نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ چیف اور انٹیلی جنس ڈویژن کے کمانڈنگ افسر، Thomas Galati نے حال ہی میں ایک گواہی کے دوران دیا۔

نیو یارک شہر میں مسلمانوں کےگروپ ایک عرصے سے خفیہ نگرانی کے سوال پر نیو یارک کے پولیس کمشنر Ray Kelly کے استعفے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن پولیس کمشنر کو شہر کے میئر Michael Bloomberg کی حمایت حاصل ہے، اور انھوں نے شہر کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے، خفیہ نگرانی کا دفاع کیا ہے اور اسے ضروری قرار دیا ہے۔

ان کے الفاظ ہیں: ’ہمیں شہری آزادیوں کا پورا احساس ہے اور ہم ان کی اہمیت سے واقف ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پولیس ڈپارٹمنٹ اور شہری آزادیوں کے دفاع میں سرگرم نام نہاد گروپوں کے درمیان ہمیشہ کشیدگی باقی رہے گی‘۔


موسیٰ احمد فلسطینی ہیں اور نیو یارک میں آباد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی کافی شاپ اس لیے بند کرنا پڑی کیوں کہ گاہکوں نے پولیس کی نگرانی سے خوفزدہ ہوکر، آنا جانا بند کردیا۔ نزدیک ہی ان کی ایک باربر شاپ ہے۔ وہ کہتے ہیں:’کبھی کبھی پانچ پولیس والے میری دکان کے باہر، اور دس اندر ہوتے۔ میں نے پولیس والے سے پوچھا، تمہیں کیا ملا؟ اس نے جواب دیا، یہ تو عام سی کارروائی ہے۔ میں نے کہا، عام سی کارروائی کا کیا مطلب ہے۔ یہاں لوگ بال کٹوانے آتے ہیں۔ پولیس والا دکان کی نیچے کی منزل میں گیا۔ اس نے ہر تھیلا، اور ہر دراز چیک کی‘۔

Council on American-Islamic Relations کی نیو یارک شاخ کے Cyrus McGoldrick کہتے ہیں کہ Galati کی گواہی سے ان مسلمانوں کی تنبیہ کی تصدیق ہوگئی ہے جنہیں خفیہ نگرانی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی ہے کہ سیکورٹی کے لیے آزادی کو قربان کرنا خطرناک ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:’آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس کارروائی کا مقصد ہمیں محفوظ رکھنا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ سارا کھیل کنٹرول حاصل کرنے، اور انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے ہے، چاہے اس کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ اس کا مقصد ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے کی بربادی کی سوا اور کچھ نہیں‘۔

وائس آف امریکہ نے نیو یارک کے محکمۂ پولیس سے اسسٹنٹ چیف Galati کی گواہی پر تبصرے کی درخواست کی لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔

Cyrus McGoldrick کہتے ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیئے کہ وہ انسانی طرزِ عمل میں جرائم کو تلاش کریں، بجائے اس کے کہ ان امریکی شہریوں پر نسل یا مذہب کا ٹھپہ لگائیں جو مسلمان ہیں۔

مسلمانوں کی خفیہ نگرانی، کوئی مفید اطلاع نہ مل سکی