دلچسپ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
دلچسپ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات, دسمبر 13, 2012

سکھ فوجی نے 180 سالہ برطانوی روایت توڑ دی

جتندر پال سنگھ بھلا نامی سکھ فوجی نے برطانیہ کی ایک پرانی روایت توڑ دی ہے۔ وہ بکنگھم پیلس کے باہر تعینات سکاٹس گارڈز میں شامل پہلے فوجی ہیں جو سر پر انگریزوں کی کالی فر والی ٹوپی کی بجائے پگڑی پہنتے ہیں۔ جتندرپال سنگھ بھلا پگڑی پہننے کی سرکاری اجازت حاصل کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ بکنگھم پیلس کے باہر تعینات سکاٹس گارڈز سن 1832 سے کالی فر والی ٹوپیاں پہنتے ہیں۔ روایت کے مطابق ایسی ٹوپی آدھا میٹر لمبی اور سات سو گرام وزنی ہونی چاہئے۔

سکھ فوجی نے برطانیہ کی ایک پرانی روایت توڑ دی

جتندرپال سنگھ

جمعہ, نومبر 30, 2012

کار 600 ڈالر کی، جرمانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ

شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ سچ ہے کہ امریکی شہر شکاگو میں ایک کار پر پارکنگ قواعد کی خلاف ورزی کے الزمات میں ایک لاکھ پانچ ہزار سات سو اکسٹھ ڈالر اور 80 سینٹ جرمانہ کیا گیا ہے اور عدم ادائیگی کی صورت میں سخت قانونی کارروائی کا نوٹس دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ جرمانے کا اعزاز حاصل کرنے والی کار کی مالیت اب تو شاید صفر ہو گی کیونکہ 2008 میں اس کے موجودہ مالک نے اسے صرف 600 ڈالر میں خریدا تھا۔

کرسچین پوسٹ اور سی بی این نیوز کی رپورٹس کے مطابق کار پر جب جرمانے کے ٹکٹ لگنے شروع ہوئے تو وہ شکاگو ایئرپورٹ کے اس حصے میں کھڑی تھی جو ہوائی اڈے کے کارکنوں کے لیے مختص ہے اور وہاں کسی عام شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ قواعد کے مطابق اس جگہ زیادہ سے زیادہ 30 دن تک گاڑی کھڑی کی جاسکتی ہے۔ جس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ عائد ہونے لگتا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کے مطابق مذکورہ کار کو آخری بار 17 نومبر 2009 کو پارکنگ لاٹ میں کھڑا کیے جانے کے بعد وہاں سے ہٹایا نہیں گیا۔ اس عرصے کے دوران کار پر 678 بار جرمانہ عائد کیا گیا، مگر کوئی اسے ہٹانے کے لیے نہیں آیا۔ کار کی مالکہ کا نام جینیفر فٹز گیرلڈ ہے۔ اس کی عمر 31 سال ہے اور وہ ایک بچے کی ماں ہے۔ جب کہ بچے کا باپ تین سال پہلے ان دونوں کو چھوڑ کر جا چکا ہے۔ جینیفر کا کہنا ہے کہ یہ کار اس کے بوائے فرینڈ پریویو نے 2008 میں 600 ڈالر کی خریدی تھی، لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ کار اس کے نام پر کیسے رجسٹر ہوئی۔ پریویو نے اسے کار کی رجسٹریشن کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔ جینیفر کے مطابق کار پریویو ہی کے استعمال میں رہی۔ وہ ایئرپورٹ پر ملازم تھا اور کام پر آنے جانے کے لیے یہی کار استعمال کرتا تھا۔ 2009 میں دونوں میں علیحدگی ہوگئی اور پریویو جاتے ہوئے کار اپنے ساتھ لے گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا، جینیفر کو کچھ معلوم نہیں۔ اسے اپنے نام کار کے رجسٹر ہونے کا پتا اس وقت چلا، جب اس کے ایڈریس پر جرمانے کے نوٹس آنے شروع ہوئے۔

جینیفر نے گاڑیوں کی رجسٹریشن کے دفتر میں جاکر انہیں بتایا کہ اس کا کار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے سابقہ بوائے فرینڈ پریویو کے نام پر ٹرانسفر کیا جائے۔ مگر دفتر نے انکار کردیا کیونکہ وہ مستند دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جینیفر نے جرمانے کی خط و کتابت سے چھٹکارہ پانے کے لیے متعلقہ دفتر سے رابطہ کرکے انہیں بتایا کہ وہ ایئرپورٹ کی پارکنگ سے کار باہر نہیں نکال سکتی کیونکہ اس حصے میں ایئرلائنز کے کارکنوں کے سوا کسی بھی شخص کا داخلہ ممنوع ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے پاس گاڑی کی چابی نہیں ہے۔ لیکن دفتر نے یہ کہتے ہوئے رعایت دینے سے انکار کر دیا کہ سرکاری دستاویزات میں کار کی مالکہ وہی ہے اور اسے وہاں سے ہٹانا اور جرمانے ادا کرنا اس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ جینیفر نے اس مشکل سے نکلنے کے لیے مختلف محکموں کے عہدے داروں اور وکیلوں سے رابطے شروع کیے، مگر لاحاصل۔ دن گذرتے رہے اور جرمانہ بڑھتا رہا۔

کار پر جرمانے کا آخری ٹکٹ 30 اپریل 2012 کو لگا، جس کے بعد محکمے نے اسے لاوارث گاڑیوں کے شعبے میں منتقل کر کے جینیفر کو نوٹس بھیجا کہ وہ 105761 ڈالر اور 80 سینٹ دے کر اپنی گاڑی لے جائے، یا پھر عدالت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ جینیفر کا سابقہ بوائے فرینڈ پریویو پارکنگ لاٹ میں کار چھوڑنے کے بعد کہاں چلا گیا، اگر پتا چل بھی جائے تو بھی اس کہانی میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ ملکیت کی دستاویزات میں کہیں بھی اس کا نام نہیں، اور گاڑی کی تمام تر ذمہ داری جینیفر پر عائد ہوتی ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ شکاگو کا پارکنگ جرمانوں کا شعبہ جینیفر کے خلاف قانونی کارروائی کر رہا ہے جب کہ جینیفر نے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس کی سماعت مئی 2013 میں متوقع ہے۔ چھ سو ڈالر میں خریدی جانے والی گاڑی کے ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ جرمانے کا مستقبل کیا ہوگا؟ کسی کو معلوم نہیں۔
 

ہفتہ, نومبر 24, 2012

موٹر وے کے بیچوں بیچ رہائشی چینی جوڑا

بیجنگ… این جی ٹی… اپنے گھر سے محبت کسے نہیں ہوتی لیکن اس چینی میاں بیوی کے تو کیا ہی کہنے ہیں، جنہوں نے موٹر وے کی تعمیر کے لئے اپارٹمنٹ خالی کر دینے کا فیصلہ رد کر دیا۔ 

کہانی صرف یہیں تمام نہیں ہوئی بلکہ جب اس چینی جوڑے نے حکومت کی جانب سے مناسب رقم نہ ملنے پر اپنا اپارٹمنٹ چھوڑ دینے سے انکار کر دیا تو حکومت نے بھی بلڈنگ کے ارد گرد ہی موٹروے تعمیر کر دی۔ اب یہ عمر رسیدہ جوڑا سڑک کے بیچ رہائش اختیار کئے ہوئے ہے۔
 

لاوارث ٹائیگر بچوں کو نئی ماں مل گئی

روس میں ٹائیگر کے تین بچوں کو نئی ماں مل گئی ہے، مگر وہ شیرنی نہیں بلکہ جرمن نسل کی سفید شیفرڈ کتیا ہے، جس کا نام تالیم ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ بچے روس کے بحیرہ اسود کے ایک تفریحی قصبے سوچی کے چڑیا گھر میں 14 نومبر کو پیدا ہوئے تھے۔ پیدائش کے بعد نر بچوں کے نام اولیمپ اور دار جب کہ مادہ ٹائیگر کا نام تالی رکھا گیا۔ بچوں کی ماں نے، جس کا نام باگیریا ہے، جنم دینے کے بعد انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور وہ لاوارث ہوگئے۔ باگیریا اس سے پہلے بھی دو بچوں کو جنم دینے کے بعد انہیں چھوڑ چکی ہے۔ ماضی کے تجربے کے پیش نظر چڑیا گھر کی انتظامیہ بچوں کی پیدائش سے قبل ہی ان کی نئی ماں کا انتظام کر چکی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی شیرنی نے اپنے نوزائیدہ بچوں کو پرے دھکیلا، چڑیا گھر کی انتظامیہ نے انہیں نئی ماں کے حوالے کر دیا۔ بچوں کا باپ بھی اسی چڑیا گھر میں ہے، لیکن بچوں کی دیکھ بھال عموماً ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 

چڑیا گھر کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بچے اپنی ٹائیگر کی جبلت کا اظہار کرتے ہوئے غرانے اور پنچے مارنے سے باز نہیں رہتے، لیکن کتیا کےرویے میں ان کے لیے نرمی اور شفقت ہے۔ چڑیا گھر کی انتظامیہ کو توقع ہے کہ ٹائیگر کے بچے اپنی نئی ماں کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنیں گے۔

جمعہ, نومبر 23, 2012

چین: 90 دنوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت کی تعمیر کا منصوبہ

اس عمارت کا نقشہ تیار کرنے والے وہی انجینیئرز ہیں جنہوں نے دبئی میں ’برج الخلیفہ‘ پر بھی کام کیا تھا۔ برج الخلیفہ 828 میٹر کے ساتھ اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ چین کی ایک تعمیراتی کمپنی نے کہا ہے کہ اس کے پاس ایک ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کی مدد سے وہ دنیا کی سب سے بلند عمارت برسوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ صرف چند ہفتوں میں تعمیر کرسکتی ہے۔ بورڈ آف سسٹین ابیل بلڈنگ کارپوریشن نے اس ہفتے تعمیرات سے متعلق ایک جریدے ’کانسٹرکشن ویک‘ کو بتایا کہ اسے سوفی صد یقین ہے کہ وہ 220 منزلہ ایک عمارت، جس کا شمار دنیا کی سب سے بلند عمارت کے طور پر کیا جائے گا، صرف 90 دنوں میں کھڑی کرسکتی ہے۔ کمپنی چین کے جنوب وسطی شہر چانگشا میں 838 میٹربلند ایک دیو ہیکل عمارت تعمیر کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جس میں 31 ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش موجود ہوگی۔

دنیا کی اس سب سے بلند عمارت کو بنانے کے لیے پہلے سے تیار شدہ حصوں کو جوڑنے کی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن میں پانچ منزلیں تعمیر کرے گی۔ سسٹین ایبل بلڈنگ کارپوریشن نے کہا ہے کہ وہ حکومت سے منظوری ملنے کے بعد اس سال کے آخر میں عمارت کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو 90 دن کے اندر اپنی تکمیل کے بعد دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہونے کا اعزاز حاصل کرلے گی۔ کمپنی کے بیان کے مطابق 31 ہزار افراد کی گنجائش رکھنے والی اس عمارت میں ان کے لیے ہسپتال، سکول، شاپنگ سینٹر، دفاتر اور شہری زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہوں گی ۔

مستقبل کی اس سب سے بلند عمارت کا نقشہ برج خلیفہ تعمیر کرنے والے ماہرین نے بنایا ہے۔ دبئی میں واقعہ برج خلیفہ کا شمار اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ عمارت 828 میٹر بلند ہے جب کہ چانگشا میں بنائی جانے والی عمارت کی بلندی اس سے دس میٹر زیادہ ہوگی۔ اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوگا کہ اس کی تکمیل 90 دن کی ریکارڈ کم مدت میں ہوگی۔

چین: 90 دنوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ

اینٹ کا جواب پتھر سے

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

جمعرات, نومبر 22, 2012

اے ٹی ایم سے پونڈ کی برسات

مشین کی خرابی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کچھ ہی دیر میں برن سائیڈ اے ٹی ایم مشین کے باہر سیکڑوں افراد اس جادوئی مشین سے فری پونڈ نکالنے کے لیےلمبی قطار میں کھڑے نظر آئے


سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں ایک دلچسپ صورت حال اُس وقت پیدا ہوئی جب سٹون لا روڈ کے علاقے برن سائیڈ میں واقع ’بینک آف سکاٹ لینڈ‘ کی ایک اے ٹی ایم مشین نے ڈبیٹ کارڈ ڈالنے پر مطلوبہ رقم کے بجائے دگنی رقم نکالنی شروع کردی۔

مشین کی خرابی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کچھ ہی دیر میں برن سائیڈ اے ٹی ایم مشین کے باہر سیکڑوں افراد اس جادوئی مشین سے فری پونڈ نکالنے کے لیےلمبی قطار میں کھڑے نظر آئے۔ مشین کے اس طرح اضافی رقم نکالنے پر سکاٹ لینڈ بینک مشین بند کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس دوران بنک نے پولیس کو اطلاع کر دی اور ایک پولیس کانسٹبل کیش پوائنٹ کے باہر کھڑا کر دیا گیا۔

برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق بینک بالآخر ریموٹ کے ذریعے اس مشین کو بند کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ اس دوران بنک کو ایک بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ بنک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بنک ایسے لوگوں کی شناخت نہیں کر سکتا جنھوں نے اس خرابی کے دوران مشین سے پونڈ نکالے، کیونکہ وہ سب ہی بینک آف سکاٹ لینڈ کے کھاتہ دار نہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئٹر‘ پر گلاسکو اے ٹی ایم مشین کی خرابی کی خبر اور باہر لگی لوگوں کی لمبی قطار کی تصویر نے اس دلچسپ واقعہ کو منظر عام کر دیا۔ ٹوئٹر پر لورین نے لکھا ’برن سائیڈ پر واقع سکاٹ لینڈ بینک جو دگنی رقم نکال رہا ہے، وہاں اب پولیس کھڑی ہے اس لیے اب وہاں کوئی فری پونڈ نکالنے نہیں جا سکتا ہے‘۔

تاہم، بینک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مشین میں خرابی کا دورانیہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ لوگ بڑی تعداد میں مشین سے دگنی رقم نکال سکتے۔ بینک انتظامیہ نے مشین کی خرابی پر معذرت کی ہے۔

اے ٹی ایم مشین سے پونڈ کی برسات

پیر, نومبر 19, 2012

طلبا سکول جانے کے لیے دریا عبور کرتے ہیں

علم کے حصول کے لئے چین تک جانے کا حکم ہے لیکن انڈونیشیا میں بچوں کو سکول جانے کے لئے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ مغربی سماٹرا کے گاؤں لمبونگ بیوکک کے بچوں کو سکول جانے کے لئے ہر روز دریا عبور کرنا پڑتا ہے جس کا پاٹ 80 فٹ چوڑا اور بعض مقامات پر گہرائی تین فٹ کے لگ بھگ ہے۔ دریا کا بہاؤ بھی بہت تیز ہے۔ دریا کنارے پہنچتے ہی یہ اپنی پینٹوں کے پائنچے اوپر چڑھا لیتے ہیں جبکہ بعض کو تو اپنی قمیض تک اٹھانا پڑتی ہیں۔ دوسرے کنارے پہنچ کر بچے دوبارہ یونیفارم پہن کر سکول کا رخ کرتے ہیں۔ 

بچوں کا کہنا ہے برسات میں دریا کا بہاؤ اور تیز ہو جاتا ہے اور اس وقت اسے عبور کرنا جاں جوکھوں کا کام ہے۔ دریا اب تک بچوں کے دو ساتھیوں کو نگل چکا ہے۔ 

مقامی انتظامیہ کے مطابق بچوں کی مشکل کو دیکھتے ہوئے دریا پر پل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رقم مختص ہو چکی اور اگلے برس پل بن جائے گا۔

ریچھ 6 ماہ کی نیند کے لئے تیار

سردی شروع ہونے کے ساتھ ساتھ روسی علاقے یورال کے شہر ایکاترنبرگ کے چڑیا گھر میں ریچھوں کے لئے سونے کا وقت آگیا ہے- سرد آب و ہوا والے ممالک میں ریچھ سال میں چھہ مہینے جا گتے ہیں اور چھہ مہینے نیند کی حالت میں گزارتے ہیں۔ 

ماہرین حیوانات کے مطابق شہر ایکاترنبرگ کے چڑیا گھر میں رہنے والے مختلف انواع کے ریچھوں نے سو جانے سے پہلے اپنے بدن میں کافی زیادہ چربی اکٹھی کر لی ہے۔ اس وقت یہ ریچھ نسبتاً کم کھانا کھا رہے ہیں، وہ گوشت، مچھلی اور ترکاریوں کی بجائے دلیہ اور روٹی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ایکاترنبرگ کے چڑیا گھر کے کارکنوں نے صحافیوں کو بتایا کہ زیادہ تر ریچھ دراصل نیم خوابی کی حالت میں پڑ چکے ہیں اور وہ اپنی ماندوں سے نکلنا پسند نہیں کرتے۔

ایکاترنبرگ چڑیا گھر میں ریچھ سرمائی نیند کے لئے تیار

بدھ, نومبر 14, 2012

بھارت کے لئے تمغے جیتنے والی خاتون مرد نکلا

بھارتی فلموں ميں تو ہيرؤئن مرد بن کر کرکٹ ٹيم ميں شامل ہو جاتی ہے اور چوکے چھکے بھی لگا ديتی ہے ليکن گنگا کے ديس ميں سچ مچ يہ بنگالی جادو چل جاتا ہے آج ثابت ہو ہی گيا۔  

نئی دہلی : ایشین گولڈ میڈلسٹ بھارتی خاتون ایتھلیٹ مرد نکلا۔ میڈیکل ٹیسٹ نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ ساتھی کھلاڑی سے زيادتی کے الزام پر ملزم کو گرفتار کيا گيا تھا۔

کلکتہ سے تعلق رکھنے والی ايشين گولڈ ميڈليسٹ اتھيليٹ پنکی پرامانک ليکن ٹہريے يہ پنکی نہيں بلکہ پنکا ہے جی ہاں ميڈيکل رپورٹ سے اس کے مرد ہونے کا ثبوت مل گيا۔ عورت بن کر سب کو دھوکا دينے والے ايتھيليٹ نے ميلبورن کامن ويلتھ گيمز میں چاندی، انڈور ايشين گيمز دو ہزار پانچ ميں سونے، ايشين گيمز دو ہزار چھ ميں سونے، جب کہ جنوبی ايشين گیمز دو ہزار چھ میں تين سونے کے تمغے حاصل کیے۔

دو ہزار سات میں کھیلوں سے ریٹائرمنٹ بھی لے لی تھی ليکن ڈھول کا پول کھل ہی جاتا ہے۔ چودہ جون دو ہزار بارہ کو چھبیس سالہ پنکی پر بتیس سالہ خاتون نے جنسی زیادتی کا الزام لگایا جس پر اسے گرفتار کر کے چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ تیرہ جولائی کو پنکی کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ليکن انکوائری چلتی رہی اور آخرکار ميڈيکل رپورٹ سے اس کا مرد ہونا ثابت ہوگيا۔ پنکی عورت کی حيثيت سے ملنے والے تمام ايوارڈ سے ممکنہ طور پر محروم ہوجائے گی ليکن ابھی تک اس بارے ميں کوئی فيصلہ نہيں ہوا۔ بنگال کی اس جادوگرنی بلکہ جادوگر نے بہت دن تک عوام اور خواص کو بے وقوف بنائے رکھا ليکن بکرے کی ماں کب تک خير منائے گی۔ 

پیر, نومبر 12, 2012

چائے، روسیوں کا پسندیدہ مشروب

سائبریا کے شہر کراسنویارسک میں چائے پینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔ یہاں ایک ہزار افراد کو بیک وقت ایک ہی میز پر بٹھا کر چائے پلائی گئی ہے۔ اس قسم کا پچھلا ریکارڈ برطانیہ میں قائم کیا گیا تھا جہاں چار سو افراد نے ساتھ مل کر چائے پی تھی۔

روس کا سفر کرنے والے غیرملکی لوگ جانتے ہیں کہ روسیوں کو چائے پینے کا انتہائی شوق ہے۔ تاہم چائے روس کے لیے ایک غیرملکی مشروب ہے۔ روس میں ایک عرصے تک خیال کیا جاتا تھا کہ اٹھارہویں صدی میں بادشاہ پیٹر اول یورپ کے سفر سے چائے لے کر آئے تھے۔ لیکن درحقیقت روس میں چائے سولہویں صدی میں چینی تاجروں کے توسط سے پہنچی تھی۔ یہ مشروب روسی لوگوں کو بہت پسند آیا تھا اور اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ گئی تھی۔

چین سے روس میں چائے کی برآمد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چائے کے عوض روس چین کو کپڑے، چمڑا، سمور اور دھاتیں فراہم کرتا تھا۔ چائے کی فروخت کرنے والے تاجروں کو روس اور چین کے درمیان گیارہ ہزار کلومیٹر کا راستہ طۓ کرنے میں چھہ ماہ لگتے تھے۔ شروع میں چائے بہت مہنگی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں کمی ہونے لگی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں روس کو کالی اور سبز چائے فراہم کی جاتی تھی لیکن سبز چائے روسیوں کو اچھی نہيں لگی تھی اس لیے چین سے سبز چائے کی برآمد بند کر دی گئی تھی۔

انیسویں صدی کے شروع تک چائے بڑے شہروں میں بہت مقبول ہو چکی تھی۔ ساٹھ فی صد چائے کے شوقین دارالحکومت میں رہتے تھے۔ بعد میں چائے پینے کی روایت ملک بھر میں پھیل گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق جن علاقوں میں چائے کا استعمال بڑھ جاتا تھا وہاں شراب کے استعمال میں کمی ریکارڈ کی جاتی تھی۔

بیسویں صدی کے اوائل میں روس چائے کے استعمال کے حوالے سے دنیا میں پہلے مقام پر تھا۔ روس میں چائے کے ہزاروں ہوٹل اور چائے کی فروخت کرنے والی متعدد دوکانیں موجود تھیں۔ تاہم روس کی سرزمین پر چائے اگانے کی کوششیں ناکام رہی تھیں اس لیے چین سے چائے کی درآمد جاری رہی۔

روس میں چائے پینے کی کچھ روایات وجود میں آئی تھیں۔ کچھ لوگوں میں لیمون، جڑی بوٹیوں یا شہد کے ساتھ چائے پینے کا شوق پیدا ہوا۔ چائے کے لیے خصوصی برتن بنانے والی صنعت قائم ہو گئی۔ چائے بنانے کے لیے استعمال کئے جانے والا برتن سماوار اس قدر مشہور و معروف ہو گیا تھا کہ سماوار روس کا ایک قومی نشان سمجھا جانے لگا۔ سماوار لوہے سے بنا برتن ہوتا ہے جس کے اندر خلا ہوتا ہے۔ اس خلا میں ایندھن رکھ کر پانی ابالا جاتا ہے۔ سماوار مختلف سائز اور اشکال کے ہوتے ہیں، ان کو مختلف طریقوں سے سجایا جاتا ہے۔ تاہم اب روسی لوگ سماوار کے ذریعے چائے بنانے کی عادت فراموش کر چکے ہیں۔

1917 میں پیش آئے اشتراکی انقلاب کے بعد ملک کے نئے حکام نے چین سے چائے کی درآمد پر روس کے انحصار کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یوں سوویت یونین میں چائے کی صنعت کو ترقی دی جانے لگی تھی۔ بیس اور تیس کے عشرے میں سوویت یونین میں اپنی چائے اگائی گئی۔ چائے کے بڑے بڑے کھیت بنائے گئے۔ چائے کی صنعت میں اولین مقام جارجیا اور آذربائجان کو حاصل تھا۔ یوں سوویت یونین چین سے درآمد کردہ چائے پر انحصار کو کم کرنے کے علاوہ اپنی چائے مختلف ممالک میں برآمد کرنے لگا۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد چائے کے کھیت نئے خودمختار ممالک میں رہ گئے اس لیے روس کو چائے کی درآمد دوبارہ شروع کرنی پڑی۔ آج روس چین، ہندوستان، سری لنکا اور کینیا سے چائے خریدتا ہے۔ روس میں بیاسی فی صد لوگ ہر روز کالی چائے پیتے ہیں اور دو اعشاریہ دو فی صد افراد سبز چائے۔ روس میں چائے کا فی کس روزانہ استعمال آدھا لیٹر ہے۔

مختصر یہ کہ روس میں چائے اگرچہ نہیں اگائی جاتی لیکن ملک میں چائے پینے کی صدیوں پرانی روایت موجود ہے۔

چائے، روسیوں کا پسندیدہ مشروب

روسیوں کے غیرمعمولی مشاغل

دنیا بھر میں بہت زیادہ لوگ بیجیز، ڈاک ٹکٹ، کیلنڈرز، چھوٹے مجسمے وغیرہ جمع کرتے ہیں، ایسا مشغلہ ایک معمول بن چکا ہے۔ تاہم روس میں کئی لوگوں کے مشاغل غیرمعمولی ہیں۔ پاویل نام کے ایک شخص کے گھر کے احاطے میں ایک چھوٹی ریلوے لائن نصب ہے۔ پاویل کے پاس 1912 کی طرز پر بنایا گیا ایک ریلوے انجن ہے جو لکڑی جلائے جانے سے چلتا ہے۔ لکڑیاں ایک چھوٹے سے چولہے میں رکھی جاتی ہیں اور انجن کی رفتار چار کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔ پاویل نے ایک پرانی تصویر کو دیکھتے ہوئے یہ ریلوے انجن خود بنایا ہے، اس کام میں انہیں ڈیڑھ سال لگے۔ اب پاویل کا منصوبہ ہے کہ چند ریلوے ڈبے بنائیں جو اصل ڈبوں کی نقل ہوں۔

روس میں کئی لوگوں کو سوکھی ہوئی پتیوں اور پھولوں سے تصاویر بنانے کا شوق ہے۔ چھہ سو سال پرانا یہ فن جاپان سے روس آیا ہے۔ شروع میں ایسی تصویر بنانا بہت دشوار کام ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ قدرتی مناظر حتی کہ دوسروں کے پورٹریٹ بنانا سیکھ لیتے ہیں۔

ایک اور غیرمعمولی مشغلہ باٹ جمع کرنے کا ہے جو عام طور پر ویٹ لفٹر کھلاڑی اٹھاتے ہیں۔ باٹ اٹھارہویں صدی میں وجود میں آئے تھے جب فوجیوں نے توپوں کے اندر گولے رکھنے کے کام کو آسان بنانے کے لیے گولوں پر دستے لگانا شروع کر دیئے تھے۔ سرگئی نام کے شخص کے مجموعے میں مختلف سائز کے پچاس باٹ ہیں۔ سرگئی کا خیال ہے کہ ستر کلوگرام وزنی باٹ جو انہوں نے خود بنایا تھا، اس مجموعے کی زینت ہے۔ سرگئی نے بہت زیادہ ٹریننگ لی تھی تاکہ ایک ہاتھ سے یہ باٹ اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔

کچھ روسی لوگ کشیدہ کاری اور ورزش کرنے کے مشاغل کو بھی غیرمعمولی مشغلے میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ستر سالہ ایِگور گولدمن لیٹے ہوئے ایک سو کلوگروم وزنی لوہے کے بار کو بارہ مرتبہ اٹھا کر گینس بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کئے گئے ہیں۔ یہ ریکارڈ قائم کر کے انہیں ”لوہے کا دادا“ کا نام دیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک نوجوان کمانڈو یہ ریکارڈ توڑنے میں ناکام رہا، وہ صرف تین بار لوہے کا بار اٹھا پایا۔

کچھ مشاغل کی بنیاد پر فلاحی سرگرمیاں کی جاتی ہیں۔ شمال مغربی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں لباس بنانے والی خواتین نے چھہ سو بیس میٹر لمبا گلوبند بنا کر اسے ٹکڑوں میں بانٹا ور بچوں میں تقسیم کر دیا۔

روسیوں کے غیرمعمولی مشاغل

ہفتہ, نومبر 10, 2012

ڈرائیورکی نیند ختم کرنے والی ڈیوائس

چلتی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اگر آپ کی آنکھ لگ جائے اور ایسے میں گردن دائیں بائیں لڑھکنے لگے تو یہ کسی حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہے لیکن اب ایک ایسا آلہ بنا یا گیا ہے جو ڈرائیور کو سونے نہیں دے گا۔

سفر کے دوران نیند بہت خطرناک ہو سکتی ہے، کسی بھی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لئے امریکی سائنس دانوں نے ایک ایسی انوکھی ڈیوائس تیار کی ہے جس کی مدد سے دورانِ سفر اگر آپ کو نیند آئے تو یہ ڈیواس آپ کو ایک تیز سگنل بھیجے گی جس سے آپ کی نیند ختم ہو جائے گی۔ بس جب بھی آپ کو نیند آنے لگے تو اسے آن کر لیں اور بے فکر ہو جائیں۔ اس کا وزن بھی بہت ہلکا ہے یعنی صرف 16 گرام اور اسے استعمال کرنا بھی بہت آسان ہے۔ اس ڈیوائس کو پہننے والا شخص اپنے آپ کو انتہائی آرام دہ محسوس کرتا ہے۔

اورِن بُرگ کی شالیں

سائبریا میں واقع روسی شہر اورِن بُرْگ میں بنائی جانے والی شالیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ تمام ہی روسی خواتین کو یہ شالیں اوڑھنے کا بے حد شوق ہے۔ دیگر ممالک میں لوگ ایسی شالوں سے کوئی دو سو سال پہلے شناسا ہوئے تھے۔ 

ہوا یہ کہ روسی یوُرال کے علاقے کے کچھ باشندوں نے ملکۂ روس کو ایک شال تحفے میں دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ شال بہت بڑی تھی، اس کا طول اور عرض ڈھائی ڈھائی میٹر تھا۔ لیکن یہ شال انگوٹھی کے حلقے میں سے گزاری جا سکتی تھی کیونکہ کپڑا بہت مہین تھا۔ ملکہ یہ شال دیکھ کر بہت حیران ہوئی تھیں۔ جب انہوں نے یہ ہلکی شال اوڑھی تو حاضرین دربار شال کے حسن سے انتہائی متاثر ہوئے تھے۔

یوں یورال کی دستکار خواتین کی بے مثال مہارت کی خبر روس بھر میں پھیل گئی۔ اور جب کاروباری افراد نے ایک صنعتی نمائش میں یہ شالیں پیش کیں تو وہ دوسرے ملکوں میں بھی مشہور ہو گئیں۔ غیرملکیوں کو بھی اورن برگ کی شالیں بہت پسند آئیں۔ ان شالوں کو لندن اور پیرس میں تمغے د‏یئے گئے۔

ایسی شال بننے کے لیے ایک خاص نسل کی بکریوں کی اون ضروری ہوتی ہے۔ اس اون سے بنے کپڑے کو پھاڑنا مشکل ہوتا ہے، پھر بھی کپڑا نرم بھی ہوتا ہے اس لیے اس اون کو بہترین مانا جاتا ہے۔ اس سے صحت کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ یورال کے علاقے کے باشندے پرانے وقتوں سے زکام، نمونیا اور پشت میں درد کے علاج کے لیے یہ شالیں استعمال کرتے چلے آئے تھے۔

ایسی شالیں بننا آسان کام نہیں۔ اس میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ یہ سارا کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اون سے سخت حصے نکالے جاتے ہیں، پھر ایک خاص کنگھی کے ذریعے اون کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد بنائی کا کام شروع ہوتا ہے۔ ہر دستکار عورت یہ کام اپنے طریقے سے کرتی ہے۔ شالوں پر مختلف قسم کے نمونے بنائے جاتے ہیں جن میں ایک جیسے دو نمونے نہیں ہوتے۔

پھر شال کو احتیاط سے دھویا جاتا ہے، اس سے پانی نرمی سے نکالا جاتا ہے۔ پھر اسے ایک فریم پر تان دیتے ہیں۔ ایک شال بننے میں ڈیڑھ دو ماہ لگتے ہیں۔

بہر حال آج روس میں بہت کم عورتیں اورن برگ کی شالیں پہنتی ہیں۔ اب ان شالوں کو فرسودہ لباس سمجھا جاتا ہے جو آج کے فیشن کے مطابق نہیں رہا۔ لیکن ان شالوں کو آج بھی دستکاری کے شاہ کار سمجھا جاتا ہے۔ غیرممالک میں اورن برگ کی شالوں کی بہت مانگ برقرار ہے اور روس سے ایسی بہت زیادہ شالیں برآمد کی جاتی ہیں۔


منگل, اکتوبر 23, 2012

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

مہم جُو نوجوانوں کے ایک گروپ نے سائیکل پر سفر کرتے ہوئے جرمنی سے بھارت جانے کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران اہم بات یہ تھی کہ یہ گروپ جہاں بھی گیا، اسے بغیر کسی مشکل کے انٹرنیٹ کی سہولت حاصل رہی۔

برلن سے نئی دہلی تک کا سفر اور وہ بھی سائیکل پر۔ تھوماس جیکل اپنے دیگر تین ساتھوں کے ساتھ برلن سے نئی دہلی تک کا 8 ہزار سات سو کلومیٹر طویل سفر کرنے کے لیے نکلے۔ دیگر اشیاء کے علاوہ زاد راہ کے طور پر ان کے پاس لیپ ٹاپ یو ایس بی سٹکس اور سمارٹ فونز تھے۔ ان تینوں نے اس دوران راتیں خیموں میں بسر کیں اور دن میں سفر کے دوران وقفہ کرنے کے لیے کسی ایسے کیفے یا ہوٹل کا انتخاب کیا، جہاں انٹرنیٹ کی سہولت یعنی ہاٹ سپاٹ موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں یہ سہولت ایسے علاقوں میں بھی میسر آئی، جن کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ باہر کی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ رات کو یہ لوگ سفر کی داستان اور ای میلز لکھتے تھے اور دن میں اسے اپ لوڈ کرتے رہے۔ 26 سالہ تھوماس کہتے ہیں، ’میں بھوک اور پیاس تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن انٹرنیٹ مجھے ہر حال میں چاہیے‘۔

ان کا یہ سفر چھ ماہ پر محیط تھا۔ مہم جو نوجوانوں کا یہ گروپ چیک ریپبلک، آسٹریا، سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، ترکی، ایران اور پھر پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت پہنچا۔ اس دوران انہوں نے آسانی یا مشکل سے کسی نہ کسی طرح انٹرنیٹ سہولت کو تلاش کر ہی لیا۔ جیکل بتاتے ہیں، ’ایران میں، میں نے موبائل کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ بغیر عنوان والی ایک ای میل کو بھیجنے کے لیے تقریباً ایک گھنٹہ لگا‘۔ 27 سالہ ایرک فیئرمان بتاتے ہیں، ’راستے میں جہاں بھی انٹرنیٹ کنکشن موجود تھا، ہم نے وہاں وقفہ کیا۔ لیپ ٹاپ چارج کیے اور انٹرنیٹ کا پاس ورڈ پتا چلانے میں بھی کوئی خاص مشکل پیش نہ آئی‘۔ ان نوجوانوں کے مطابق انٹرنیٹ سے رابطہ ہونے کی صورت میں انہوں نے صرف اہم چیزوں پر ہی توجہ دی اور سکائپ اور فیس بک پر اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس ٹیم نے اپنے سفر کے دوران یہ ثابت کیا کہ انسان اگر چاہے تو وہ سنسان اور ویران مقامات سے بھی رابطے میں رہ سکتا ہے۔

اس سفر کا ایک مقصد بھارت میں بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے ان کے ’’ٹائلٹ پروجیکٹ‘‘ کے لیے چندہ جمع کرنا بھی تھا۔ اس دوران ان کے پاس ساڑھے گیارہ ہزار یورو اکھٹے ہوئے۔ اس رقم سے یہ نوجوان ممبئی کے قریب 25 حاجت خانے بنوائیں گے۔ ممبئی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اس ٹیم کے چار ارکان نے سائیکل پر بھارت کا سفر طے کیا جبکہ ان کے بقیہ ساتھی اپنے اس منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے بھارت پہنچے۔

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

جمعرات, اکتوبر 18, 2012

آسٹریلوی وزیراعظم گر پڑیں

آسٹریلوی وزیراعظم جولیا گیلارڈ بھارتی رہنما مہاتما گاندھی کی یادگار کے دورے کے دوران گر گئیں، انہیں چوٹ نہیں آئی۔

آسٹریلوی وزیراعظم بھارت کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ انہوں نے دلی میں مہاتما گاندھی کی یادگار کا دورہ کیا وہ جیسے ہی پتھریلے فرش سے گھاس پر آئیں تو اپنا وزن برقرار نہ رکھ سکیں اور اوندھے منہ جا گریں۔ ان کے ہمراہ آنے والے اہلکاروں نے انہیں اٹھایا۔ ان کے کپڑے جھاڑے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں چوٹ نہیں آئی۔
 

جمعرات, ستمبر 27, 2012

180 کلومیٹر لمبا ٹریفک جام

اگلی بار اگر آپ ٹریفک جام کی شکایت کریں تو ایک بار برازیل کے سب سے بڑے شہر ساؤ پالو کے ڈرائیوروں کو ضرور یاد کریں۔ کیونکہ یہ ایک ایسا شہر ہے جس میں سب سے خراب ٹریفک جام ہوتا ہے۔ اور اگر جمعہ کی شام ہو تو بس پھر گاڑي والوں کے لیے وہ سب سے خراب دن ثابت ہوتا ہے۔ برازیل میں ٹریفک حکام کا کہنا ہے ’جمعہ کے دن گاڑیوں کی شہر کے اندر اور باہر اتنی لمبی قطار لگ جاتی ہے کہ 180 کلومیٹر طویل گاڑیوں کا کارواں لگ جاتا ہے۔‘

اپنے دس ماہ کے بیٹے کے ساتھ کار چلا رہی فابیانا کرسٹو دھیرے دھیرے گاڑیوں سے بھری سڑکوں سے اپنی گاڑی نکالتے ہوئے کہتی ہیں ’یہ ایک سمندر ہے، کار کا سمندر۔ میں شہر کے جنوبی حصے میں رہتی تھی اور شہر کے دوسرے سرے پر کام کرتی تھی۔ جب میری شادی ہوئی تو میں نے آفس کے قریب شہر کے شمالی حصے میں رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ٹریفک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا آپ کی زندگی کو جہنم بنا سکتا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد انہیں اپنے خاندانی کاروبار کو سنبھالنے کے لیے واپس جنوبی حصے میں جانا پڑا اور اب انہیں کام پر جانے کے لیے روز شہر سے گزرنا پڑتا ہے۔ فابیانا کو صرف ایک طرف کا راستہ طے کرنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔

ٹریفک جام ایک ایسا مسئلہ ہے جو ساؤ پالو ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے۔ اس شہر میں ہر گاڑی چلانے والے کی یہی کہانی ہے اور یہاں مقامی ریڈیو ٹریفک کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ایک ریڈیو سٹیشن ’سل امریکہ ٹریفک ریڈیو‘ خاص طور پر ساتوں دن چوبیس گھنٹے لوگوں کو ٹریفک اور متبادل کے طور پر نئے راستے اپنانے کے بارے میں معلومات دینے کا کام کرتا ہے۔ اس ریڈیو سٹیشن کو سننے والوں کی تعداد بھی بہت ہے کیونکہ یہ ریڈیو سٹیشن ان کے لیے رپورٹر کا کام کرتا ہے۔ اگر مصروف وقت ہو تو اس سٹیشن میں کام کرنے والے رپورٹر ہی جام میں پھنس جاتے ہیں اور سٹیشن کے پاس ہیلی کاپٹر کی بھی سہولت ہوتی ہے۔

اس ریڈیو سٹیشن میں کام کرنے والوں میں سے ایک وکٹوریہ ربیرو ہیں جن کا کام ہے شہر میں گھوم کر ٹریفک کا جائزہ لینا۔ ’میں اس سٹیشن کے شروع ہونے سے ہی اس میں کام کر رہی ہوں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ ٹریفک کی صورتحال بدتر ہوئی ہے کیونکہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘

گزشتہ ایک دہائی میں برازیل میں گاڑیوں کی صنعت نے ریکارڈ پیداوار کی ہے۔ اس کی وجہ معاشی ترقی کی شرح کی وجہ سے وہاں لاکھوں لوگوں کی تنخواہ میں اضافہ ہے۔

ساؤ پالو میں 180 کلومیٹر لمبا ٹریفک جام

بدھ, ستمبر 26, 2012

A Math puzzle!

1. Grab a calculator. (you won't be able to do this one in your head)

2. Key in the first three digits of your phone number (NOT the area code like 0300 or 0333)

3. Multiply by 80
 

4. Add 1
 

5. Multiply by 250
 

6. Add the last 4 digits of your phone number

7. Add the last 4 digits of your phone number again.
 

8. Subtract 250
9. Divide number by 2
Do you recognize the answer????

پیر, ستمبر 24, 2012

دنیا کا مہمان نواز ترین ملک

کریملن سے دو قدم دور، روس کی گورنمنٹ لائیبریری کے مشرقی ادب کے مرکز میں روس کے معروف فوٹو گرافر ایوان دیمینتی ایوسکی اور صحافی سرگئی بائیکو، جنہوں نے پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کا ایک غیر معمولی دورہ کیا تھا، کے کام پہ مبنی نمائش کا افتتاح ہوا ہے۔ آرام کو بھلا کر اور اپنے کنبے کے افراد کو ماسکو چھوڑ کر وہ مہم جوئی اور تصویریں کھینچنے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے، ایسی تصویریں جو روح پہ چھا جائیں۔

نمائش دیکھنے کی خاطر آنے والوں کا استقبال، روس میں پاکستان کے سفیر محمد خالد خٹک نے کیا جنہوں نے گلگت بلتستان کے اپنے ذاتی سفر کی یادیں سنائیں، جہاں کے نظاروں نے فوٹو گرافر ایوان دیمنتی ایوسکی کو اپنی جانب کھینچا تھا۔ سفیر محترم نے کہا کہ انہیں یہ جگہ خود تو پسند ہے ہی لیکن باقی سب کو بھی وہ وہاں جانے کا مشورہ دیتے ہیں، ”فوٹو کھینچنے والے اس سے پہلے نیپال، بھارت اور بھوٹان کے دشوار گذار سفر کئی بار کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ سفر مشکل حالات میں کندھوں پر رک سیک رکھ کر اور راتیں خیموں میں بسر کرتے ہوئے کیے ہیں۔۔ ایوان دیمنتی ایوسکی پاکستان کے مقامی لوگوں، مقامی تہواروں اور کھیلوں سے وابستہ واقعات اور خاص طور پر ہمالیہ کی تصویریں بنانے کی خاطر پاکستان گئے تھے۔ ان عظیم پہاڑوں سے انہیں پیار ہوگیا اور انہوں نے بہتر تصویر کشی کی خاطر خطرات مول لینا قبول کرلیا۔ پاکستان میں ان کا خیمہ پھسلتی برف کی زد میں آگیا..........
یہ دلچسپ مکمل تحریر پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں

دنیا کا مہمان نواز ترین ملک