غربت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
غربت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, اکتوبر 19, 2013

مظفر نگر فسادات: رنگ برنگے خیموں تلے امید دم توڑ رہی ہے

سہیل حلیم، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

تشدد میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے
بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی
 پانی پت کے تاریخی میدان جنگ سے صرف تقریباً تیس کلومیٹر دور مغربی اترپردیش کے کچھ دیہی علاقوں میں آپ کو جگہ جگہ رنگ برنگے خیموں کی بستیاں نظر آئیں گی۔

یہ خیمے رنگین ضرور ہیں لیکن ان کے نیچے بقا کی جنگ لڑنے والوں کی زندگی میں کوئی رنگ نہیں۔ ستمبر میں مظفر نگر کے دیہی علاقے جب مذہبی فسادات کی آگ میں جل رہے تھے تو یہ لوگ جان بچانے کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگے تھے اور ایک مہینے بعد بھی واپس لوٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

سلمیٰ اور ان کے شوہر بھی ہزاروں مسلمانوں کے اس ہجوم میں شامل ہیں جس نے کیرانا کے قریب ملک پور کے کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔

’سات ستمبر کی شام مندر سے اعلان کیا گیا کہ گاؤں کے مسلمانوں پر حملہ کرو لیکن کچھ جاٹوں نے ہم سے آ کر کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا، ہم آپ کی حفاظت کریں گے ۔۔۔ لیکن اگلے دن صبح مار کاٹ شروع ہوگئی۔ ہمارا گھر جلا دیا گیا، ہم جان بچانے کے لئے کھیتوں میں بھاگے ۔۔۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں میری چار مہینے کی بچی گھر میں ہی رہ گئی ۔۔۔ اسے زندہ جلا دیا گیا۔‘

مذہبی تشدد میں ایک طرف جاٹ تھے اور دوسری طرف مسلمان۔ اس علاقے میں جاٹوں کی اکثریت ہے اور مسلمان زیادہ تر ان کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ تشدد میں پچاس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی۔ پانچ عورتوں نے اجتماعی ریپ کے مقدمے قائم کرائے ہیں۔

جمیلہ خاتون (اصلی نام نہیں) کی بیٹی ان میں شامل نہیں ہے۔ جب جمیلہ اور ان کے شوہر بچوں کو لے کر بھاگ رہے تھے تو ان کی ایک بیٹی کو حملہ آوروں نے پکڑ لیا۔ اس بچی کی لاش برآمد نہیں کی جاسکی ہے۔

’ہم نے مڑ کر دیکھا تو انہوں نے ہماری بیٹی کو پکڑ رکھا تھا ۔۔۔ ہم واپس نہیں گئے کیونکہ وہ ہمیں بھی مار ڈالتے۔۔۔‘

فسادات کے دوران جنسی زیادتی کے بہت سے الزامات تو سامنے آئے ہیں لیکن سماجی کارکن شبنم ہاشمی کہتی ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کا کسی کو اندازہ نہیں کیونکہ دیہی علاقوں میں عورتیں بدنامی کے ڈر سے خاموش ہی رہ جاتی ہیں۔

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب
امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے
تشدد تو اب ختم ہوگیا ہے لیکن خوف کا ماحول نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اب ان عارضی کیمپوں میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگ ہیں۔ جس سے بھی بات کریں، زبان پر ایک ہی بات ہے۔

’ہم تو انہیں کی غلامی کرتے تھے، انہوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ہم کسی بھی حالت میں واپس نہیں جائیں گے ۔۔۔ حکومت ہم سے کہہ رہی ہے کہ تمہارے پکے گھر بنوا دیں گے ۔۔۔ لیکن ان لوگوں کا کیا بھروسہ جنہوں نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ ہم سڑک پر زندگی گزار لیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گا ہماری کوئی مدد کرے یا نہ کرے‘۔

گجرات میں 2002ء کے مذہبی فسادات کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ تمام ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ دو ارکان اسمبلی سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک رکن پارلیمان کو گرفتار کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے مرنے والوں کے لواحقین کے لئے سرکاری  نوکریوں اور تمام متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔

مقامی لوگ بھی مانتے ہیں کہ متاثرین کے لئے اب اپنے گھروں کو لوٹنا آسان نہیں ہوگا ’کیونکہ دیہی علاقوں میں دشمنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی ۔۔۔ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے لوگ کون تھے ۔۔۔ یہ غریب لوگ ہیں یہ حملہ آوروں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔‘

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور پلاسٹک کے ان رنگ برنگے خیموں کے نیچے امید دم توڑ رہی ہے۔ یہاں نئی زندگیوں کا آغاز بھی ہے اور تاریک مستقبل کا خوف بھی۔

ان لوگوں کے گھر تو قریب ہیں لیکن منزل بہت دور۔

پیر, نومبر 12, 2012

نمونیہ کے خلاف نیا ٹیکا۔۔۔ پاکستانی بچوں پر تجربہ شروع

ہر سال پاکستان میں کم سے کم ایک لاکھ 35 ہزار بچے نمونیہ کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ اس موضی مرض کا علاج اتنا مشکل نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے نہ ہونے کی وجہ سے اتنی جانیں ہر سال ضایع ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین بھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ کیسے اس مرض کی روک تھام کی جاسکے۔ لیکن اب بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک نئی دوا ایجاد ہوئی ہے جس پر ان کا بھروسہ زیادہ ہے۔

شاید اسی وجہ سے پاکستانی حکومت نے اس سے پہلے کہ بھارت یا خطے کا کوئی دوسرا ملک اس دوا کو اپنے ہاں استعمال کرے، پہلے خود استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پچھلے دنوں سندھ حکومت نے اسی فیصلے کہ مطابق سندھ کے تمام اضلاع میں اس نئی دوا کو متعارف کروایا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک یہ دوا جنوبی ایشیا کے کسی دوسرے شہر میں متعرف نہیں ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں صرف تقریباََ 20 ایسے ممالک ہیں جو اس دوا کو استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ سینے کے امراض کے ماہر ڈکٹر جاوید خان کا کہنا ہے کہ اس دوا کا استعمال پاکستان میں بر وقت ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سال اتنے سارے بچوں کی موت کے باوجود پاکستان میں اس مرض کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ جس طرح دوسری خطرناک بیماریوں کے بارے میں تشہیر کی جاتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کے بارے میں اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کی احتیاطی ویکسین کی ایجاد سے اس بیماری سے لڑنے میں بہت مدد ملے گی۔ اب تک بچوں کی ویکسین صرف پولیو وغیرہ تک محدود تھی لیکن نمونیہ کی اس دوا کے میسر ہونے سے بہت سے بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک ہی کیوں ایسی ادویات کے لئے تجربے گاہ بنتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نمونیہ کا تعلق گندگی سے ہے اور مغربی ممالک نے اس لعنت سے بڑی حد تک چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ پاکستان میں چونکہ حفظان صحت ابھی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لہذا یہیں ایسے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ اسی لیے ان بیماریوں کی ادویات بھی یہیں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

انہوں نے حکومتِ پاکستان کی تعریف کی کہ ویکسین کے حوالے سے اٹھایا جانے والا یہ قدم اس موضی مرض سے بچنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ بیماری بہت عام ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں غربت ، کثیر الاولادی، اور صفائی کا نہ ہونا بڑے مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ممالک میں اگر کسی کو نمونیہ ہوجائے تو دیہی علاقوں میں تو علاج بیس بیس میل تک نہیں ملتا۔

جمعہ, نومبر 09, 2012

روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے کشمیر پہنچ گئے

میانمار میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد حملوں کے بعد وہاں سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں پناہ لے لی ہے۔ جنوب مشرقی ایشا کے بودھ اکثریتی ملک میانمار میں مسلم کش آپریشن کے دوران پینتیس سالہ سید الاسلام بیوی اور آٹھ بچوں کو لے کر بنگلہ دیش سرحد کی طرف بھاگ نکلے۔ راستے میں بودھ نوجوانوں نے ان کا سامان لوٹ لیا اور ان پر خنجروں سے وار کیے۔ وہ کسی طرح جان بچا کر نکلے اور بنگلہ دیش ہوتے ہوئے بھارت کے کولکتہ شہر پہنچے۔ وہاں سے وہ سات دن کا سفر کرکے کشمیر کے جنوبی ضلع جموں پہنچے۔

جموں کے کئی علاقوں میں روہنگیا مسلمانوں نے جھگیوں میں پناہ لے لی ہے۔ سید الاسلام سو سے زائد روہنگیا مسلم خاندانوں کے ساتھ نروال قصبہ کے کرانی تلاب کے پاس رہتے ہیں۔ یہاں منشاد بیگم نے اپنی چار کنال زمین روہنگیا مسلمانوں کی رہائش کے لئے وقف کی ہے۔ زمین کے اس رقبہ میں یہ مہاجر خاندان بازار سے جمع کی گئی شیشے کی پیکنگ اور گتے سے بنائی گئی جھگیوں میں رہتے ہیں۔ اسی طرح کی عارضی مسجد اور ایک سکول بھی ہے۔

سید الاسلام میانمار کی فوجی حکومت کے مظالم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’پیدائش پر ٹیکس لگتا ہے، کوئی مر جائے اور اس کے رشتہ داروں سے ہرجانہ وصول کیا جاتا ہے، کوئی نہ دے تو اس پر قتل کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جانور کا بچھڑا ہوجائے تو اس پر ہزاروں روپے کا ٹیکس لیا جاتا ہے۔‘ لیکن نروال کے اس عارضی رفیوجی کیمپ میں روہنگیا مسلمانوں کے نوزائدہ بچوں کا اندراج سرکاری طور پر ہوتا ہے۔ تاہم انہیں قبرستان کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس کے لیے فی الوقت ایک پہاڑی پر عارضی انتظام ہے۔

سیدالاسلام کے ایک پڑوسی عبداللہ کہتے ہیں میانمار کی فوجی حکومت روہنگیا مسلمانوں کی بستیوں پر باقاعدہ چڑھائی کرتی ہے۔ ’رات کے دوران بستی خالی کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور بستی میں آگ لگا دی جاتی ہے۔‘ ایک اور مہاجر ضیاء الدین کہتے ہیں: ’جوان لڑکیوں کو تھانے طلب کیا جاتا ہے۔ مردوں اور عمر رسیدہ عورتوں کو فوجی بارکوں میں بغیر اُجرت کے کام کروایا جاتا ہے۔‘ نروال کے کیمپ میں رہائش پذیر روہنگیا مسلمانوں کے رہنما زاہد حسین خان کہتے ہیں کہ جن مسلمانوں نے فوجی حکومت کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی تھی انہیں دہشت گردی کے الزام میں قید کرلیا گیا اور بیشتر کو قتل کیا گیا۔ زاہد حسین کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں شہریت نہیں دی جاتی، انہیں ایک شناختی کارڈ ملتا ہے جس پر انہیں ’مہمان‘ بتایا جاتا ہے۔ زاہد حسین نے بھارت میں باقاعدہ پناہ کے لیے حکومت ہند کے بعض نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’بھارت میں افغانستان، ایران یہاں تک کہ میانمار کے غیرمسلم شہری بھی رہتے ہیں۔ انہیں رفیوجیوں کے حقوق حاصل ہیں۔ ہم چاہتے ہیں میانمار میں جمہوریت کی بحالی تک ہمارے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جائے۔‘ 

واضح رہے میانمار میں کئی دہائیوں سے فوجی حکومت ہے اور وہاں کی مسلم اقلیتوں کے خلاف فوج نے آپریشن شروع کیا ہے۔

میانمار: روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے کشمیر پہنچ گئے

جمعہ, نومبر 02, 2012

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

رابعہ کی شادی اپنے برطانوی نژاد پاکستانی کزن سے ہوئی۔ پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بچھڑتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا شریکِ سفر پہلے ہی کسی اور لڑکی کی محبت میں گرفتارہے، جس نے شادی ماں باپ کے مجبور کرنے پر محض اُن کی خوشی کی خاطر کی ہے؟ اتنا ہی نہیں۔ سسرال میں اُس کی حیثیت ایک ملازمہ سے زیادہ نہیں؟ پردیس میں اِس حقیقت کا سامنا اُس نے بڑی ہمت سے کیا۔ مگر، اِس قربانی کا صلہ اسے طلاق کی صورت میں ملا۔ آج رابعہ برطانیہ کے علاقے شیفیلڈ میں تنہا دو بچوں کےکونسل کےگھر میں رہتی ہے۔ وہ غیر تعلیم یافتہ ہے اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات کی انجام دہی میں اسےکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رابعہ نے ’وی او اے‘ سے اپنی کہانی اِس طرح بیان کی: میری شادی سنہ 2004 میں آصف سےمیر پور میں ہوئی۔ شادی کے چار ماہ بعد وہ برطانیہ بریڈ فورڈ آئی۔ اُن کا سسرال ساس، سسر، تین نندوں؛ ایک دیورانی اُس کی تین بچیوں، نند کے شوہر اور ایک بچے پر مشتمل تھا۔ ایک اچھی بہو کا فرض نبھاتے ہوئے سسرال کے ہر کام میں حصہ لیا مگر کچھ ہی دنوں بعد تمام کاموں کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی اور گھر والوں کا سلوک بھی بدل سا گیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ آصف شادی کے بعد گھر میں خرچے کے پیسے نہیں دے رہا ہے۔ لہذا، اسے سب گھر والوں کے کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا ملے گا۔ کئی دفعہ کھانا نہیں بچتا تھا اور اکثر اسے بھوکا رہنا پڑتا۔ 2005ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی، مگر آصف نے باپ بننے کا بھی فرض پورا نہیں کیا۔ اپنی بچی کی ضرورتوں کے لیے بھی محتاج تھی۔ روز روز کی لڑائی اور پھر نوبت مار پیٹائی تک جا پہنچی۔ سسرال والوں نے بھی کبھی اُس کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ، کہا جاتا کے جتنی ذلت ہم تمہاری کرتے ہیں اگر ایک کتے کی بھی کریں تو وہ گھر سے چلا جائے۔

رابعہ نے آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے کہا، میری زندگی دن بدں دشوار ہوتی جا رہی تھی۔ سنہ 2009 میں جب دوسری بار آٹھ ماہ کی حاملہ تھی تو اپنی نند کو ویکیوم کرنے کے لیے کہنے پر ایسی سزا دی گئی کہ پانچ دن اور رات اسے ایک ہی جگہ پر بٹھا کر رکھا گیا، ساس نے طنزیہ کہا آج سےسب گھر والے اس کی خدمت کریں گے۔ اس دوران کھانا اس طرح لا کر دیا جاتا جیسے کسی جانور کے آگے رکھا جاتا ہے، مگرایک ایسی بات بھی ہوئی کہ جو میں بتانا نہیں چاہتی، جس نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ صبح جب سب سو رہے تھےتو میں نے گھر چھوڑ دیا اور اپنی بچی کے سکول جا پہنچی۔ سکول والوں نے میری روداد سننے کے بعد مجھے فلاحی ادارے کے سپرد کردیا۔ سسرال سے میری کوئی خبر نہیں لی گئی۔ میں نے بریڈ فورڈ سے کہیں اور منتقل کرنے کی درخواست ادارے کو دی جس پر مجھے شیفیلڈ کے رفیوجی کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ یہں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس بات کی اطلاع آصف کو دی گئی مگر اس نے سنگدلی کی انتہا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔

دو سال کچھ ہمسائیوں کی مدد سے اپنی زندگی کی جنگ لڑی۔ تاہم، اکیلے پن سے گھبرا کر ایک دن آصف کو فون کیا۔ آصف بھی مجھ سے ملاقات کے لیےتیار ہوگیا، جبکہ اس کے دل میں اس ملاقات کے پیچھے کوئی اور ہی مقصد تھا، نا کہ میری اور میرے بچوں کی محبت۔ اُس نے شیفیلڈ کے معزز افراد کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ وہ میرا اور اپنے بچوں کا خیال رکھے گا۔ اس وعدے کے ساتھ وہ ہمیں گھر واپس لے آیا۔ رابعہ نے بتایا کہ اس نے یہ فیصلہ پاکستان میں اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک اس سے ناراض ہیں۔ تاہم، ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ آصف کچھ عرصہ ہی اپنی بات نبھا سکا اور پھر اپنی پرانی روش پر آگیا۔ ایک دن اچانک آصف نے بتایا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جو ماں بنے والی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تا کہ سوسائٹی میں بچے کو اپنا نام دے سکے۔ مجھے ایک بار پھر نئی آزمائش کا سامنا تھا۔ اس کی نظر میری چوڑیوں پر تھی میں نے اسے وہ چوڑیاں اتار کردیں تو وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ شادی کے کچھ عرصے تک آصف حسب وعدہ بچوں سے ملنے آتا اور ان کے لیے کچھ رقم بھی دینے لگا۔ ایک دن آصف نے کہا کہ وہ ایک اچھی گاڑی خریدنا چاہتا ہے اور اس کے پاس تھوڑے ہی پیسے کم ہیں۔ کیا میں اس کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے اس بار بھی اندازا نہیں ہوا کہ اب اس کی نظر میرے ان پیسوں پر ہے جو میں نے پچھلے دو سالوں میں اکیلے رہتے ہوئے بچائے تھے۔ اس دفعہ میں ایک مرتبہ پھر اس کے لہجے سے دھوکا کھا گئی، اور اپنی آخری جمع پو نجی بھی اس کے حوالے کر بیٹھی۔ مگر اس کی گاڑی میں بیٹھنا ہمارا مقدر نہیں تھا۔ اگلے ہی دن آصف سے جھگڑا ہوا کہ وہ وعدے کے مطابق ہمیں زیادہ وقت نہیں دیتا، جس پر وہ مشتعل ہوگیا۔ پہلے اُس نے مجھے دھکا دیا پھرمارا پیٹا۔ اُسی غصے میں اس نے مجھے تیں طلاقیں دیں۔ اور ہمیشہ کے لیے رشتہ ختم کردیا۔ مجھے اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی ٹھکانہ۔ ایک طرح سے میں سڑک پر آگئی تھی۔

ایک بار پھر مجھے سٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ سنہ 2012 میں دوبارہ شیفیلڈ واپس آگئی۔ یہاں سٹی کونسل کی جانب سے گھر دیا گیا ہے اور ماہانہ اخراجات کے لیے رقم بھی دی جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ برطانیہ میں عورتوں کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ روشنی نام کی ایسی ہی ایک تنظیم نے اس کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ وہ اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی، کونسل کے ذریعے سامان کا تقاضا آصف سے کیا تو تنگ کرنے کی غرض سے ٹی وی کا ریموٹ، کمپیوٹر کا چارجر، حتٰی کہ بچے کی گاڑی کے ریموٹ جیسی چیزیں بھی واپس نہیں کیں اور کہا کہ میں تمھیں اتنی ذہنی اذیت دوں گا کہ تم اپنا دماغی توازن کھو دو گی۔ تب میں آسانی سے اپنے بچے حاصل کرلوں گا۔ وہ تحریری طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں اور چاہتا ہے کہ طلاق میری طرف سے دائر کی جائے۔ میرے دونوں بچے، ماہین 7 سال اور بیٹا حسن 3 سال اپنے باپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ طلاق کا کیا مطلب ہے اور ضد کرتے ہیں کے انھیں واپس اپنے گھر جانا ہے۔ مجھے قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس کا سفر، سکول، بینک، شاپنگ، بلوں کی ادائیگی غرض باہر کی دنیا کا سامنا کرنا میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ فون پر بات کرنا ہو توکسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں آج کل انگریزی سیکھ رہی ہوں جس میں میری بیٹی میری کافی مدد کررہی ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں، تاکہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکرمیں بھی برطانوی معاشرے کے ساتھ چل سکوں۔ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل میری اولین ترجیح ہے۔ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر اور بیٹے کو وکیل بنانا چاہتی ہوں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب مغرب میں بسنے والی ایشیائی اور بالخصوص پاکستانی گھرانے اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان سے داماد ا ور بہو لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اِس کی وجوہات کئی ہیں جن میں اپنے خاندان، ذات اور برادری سے لڑکی یا لڑکا لانا، تاکہ خاندان سے رشتہ جڑا رہے، کبھی کبھی مفت کی ملازمہ کا حصول یا پھر اپنےکسی سگے رشتہ دار کو باہر بلا کر سیٹ کرنا شامل ہے۔ اکثر اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھی ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔ اپنے اس فیصلے سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ تو زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، کسی بے گناہ کی زندگی بھی برباد کردیتے ہیں۔ برطانیہ کے بہت سےپاکستانی گھروں میں بچوں کو جبرٍاًٍ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

رابعہ کی اِس کہانی میں قصور وار کون ہے؟

آپ خود ہی فیصلہ کریں۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

جمعرات, ستمبر 27, 2012

پاکستان کے 5 کروڑ 87 لاکھ افراد غربت کا شکار

پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آربا ہے، جب کہ پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی اِس بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ 18 کروڑ آبادی والے ملک کی 33 فیصد آبادی ایسی ہے، جس کے5 کروڑ 87 لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم تھنک ٹینک، ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ نے پاکستان میں بڑھنےوالی غربت پر تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جِس کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت اور مفلسی کا شکار ہے۔

صوبائی لحاظ سے غربت کی یہ شرح صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 52 فیصد، صوبہ سندھ میں 33 فیصد، صوبہ خیبر پختونخوا میں 32 اور پنجاب میں سب سے کم، یعنی صرف 19 فیصد ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہےجس کی وجہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، وسائل میں کمی، بےروزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری آبادی میں بھی غربت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق غربت میں ہونے والا مزید اضافہ جہاں ملک کے لئے تشویش کا باعث ہے وہیں غربت کا شکار افراد بھی کئی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں۔ پاکستان سے غربت کا خاتمہ حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان کے 5 کروڑ 87 لاکھ افراد غربت کا شکار

جمعہ, ستمبر 07, 2012

روٹی چوری کرنے کی سزا؛ بدترین تشدد، منہ کالا کردیا

بلوچستان کے ضلع نصيرآباد ميں انسانيت کی تذليل کا دل سوز واقعہ سامنے آیا ہے۔ درگئی میں محض روٹی چوری کرنے پر ایک شخص کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اوراس کا منہ کالا کرکے گھمایا گیا۔

روٹی چوری کرنے کے شبہے میں ديہاتيوں نے حیردین نامی شخص کو پکڑ کر اس کي مونچھيں، داڑھی اور سر کے آدھے بال کاٹ ديئے۔ لوگوں نے اسی پر بس نہیں کیا اور اسے گدھے پر بٹھا کر گاؤں کا چکر لگوایا۔ پولیس نے تاحال واقعہ کا کوئي مقدمہ درج نہيں کیا ہے۔

سماء

پیر, جولائی 02, 2012

پاکستان سے غربت کا خاتمہ، یورپی نوجوان بھی میدان میں

ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے سرکاری طور پر ترقی پذیر ملکوں میں غربت کے خاتمے کے لئے تعاون کی خبریں تو ملتی رہتی ہیں۔ ان فلاحی منصوبوں میں تعاون کا سلسلہ اب غیر سرکاری سطح پر بھی فروغ پا رہا ہے۔

اس کی تازہ مثال یورپ سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ہیں جو آج کل پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے رومان لینز اور ہالینڈ کے ڈیوڈ اِکِنک کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس شوق کو سماجی بھلائی کے کاموں کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے سات بر اعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کوہ پیمائی کے دوران ملنے والی شہرت اور وسائل کو وہ فلاحی منصوبوں کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رومان اور ڈیوڈ پاکستان میں چھوٹے قرضوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے جدو جہد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اُخوّت کی دعوت پر پاکستان پہنچے ہیں۔ ان کے آٹھ روزہ دورے کا مقصد اُخوّت کی سرگرمیوں اور اس کے فلاحی منصوبوں کے لیے معاونت کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔

لاہور میں اپنے قیام کے دوران ان یورپی نوجوانوں نے اُخوّت سے بلا سود قرضہ حاصل کرنے والوں، اُخوّت کو عطیات دینے والوں اور اُخوّت کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں سے ملاقاتیں کیں۔ لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں انھوں نے اُخوّت کے لیے دو لاکھ روپے کے پہلے عطیے کا بھی اعلان کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان یورپی نوجوانوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم "نو ماونٹین از ٹو ہائی" بھی بنا رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی کی طرح دنیا میں انسانی بھلا ئی کا کوئی بھی منصوبہ ناممکن نہیں ہے۔ ہر آدمی محنت اور کوشش سے اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئےجرمن نوجوان رومان نے بتایا کہ وہ اور ان کا دوست ڈیوڈ آج کل سٹوڈنٹ ویزے پر امریکا میں مقیم ہیں اور ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں، انہیں اُخوّت کے بارے میں بوسٹن میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان کے ذریعے پتہ چلا تھا۔ ان کے مطابق وہ ترقی پذیر ملکوں میں عوامی بھلائی کے منصوبوں میں معاونت کے خواہاں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں مغربی ملکوں میں اُخوّت کے لیے عطیات اکٹھے کریں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چھوٹے قرضوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کا اُخوّت کا ماڈل اس وقت امریکا اور برطانیہ کے کئی تعلیمی اداروں میں کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔

ڈیوڈ نامی نوجوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بعض عالمی ذرائع ابلاغ میں پائے جانے والے تاثر کے برعکس انہیں پاکستان کے لوگ محنتی اور مہمان نواز لگے ہیں۔

اخوت کے ڈائریکٹر ہمایوں احسان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یورپی نوجوانوں کا اُخوّت کے ماڈل کو سمجھنے کے لیے پاکستان آنا ان کے لیے خوشی کا باعث ہے اور اس سے اُخوّت کو اپنے کامیاب ماڈل کو دنیا کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہمایوں احسان کے بقول اس طرح کے رابطے مشرق اور مغرب کے لوگوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے اور ان کے مابین فاصلے کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔