کالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل, فروری 26, 2013

مفاد پرست کلب

جاوید چوہدری

جاوید چوہدری

علامہ محمد اسد عالم اسلام کے عظیم مفکر اور دانشور تھے‘ یہ یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ آسٹریا میں 2جولائی 1900ء میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد یہودیوں کے ربی تھے‘ والد نے ان کا نام لیوپولڈ وائز رکھا‘ علامہ اسد نے بھی یہودیت کی تعلیم حاصل کی اور یہ بھی یہودی عالم بننا چاہتے تھے لیکن ان کے اندر ایک بے چینی‘ ایک بے قراری پائی جاتی تھی‘ یہ بے قراری انھیں چشمہ ہدایت کی طرف لے گئی اور یوں 1926ء میں لیو پولڈوائز نے اسلام قبول کرلیا اور یہ محمد اسد بن گئے‘ علامہ اسد نے عربی بدوئوں کے ساتھ رہنا شروع کردیا‘ بدوئوں سے عربی سیکھی‘ قرآن مجید کو اصلی عربی کے ساتھ پڑھا‘ صحیح بخاری کا مطالعہ کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ شاہ عبدالعزیز علامہ محمد اسد سے بہت متاثر تھے‘ انھوں نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا‘ علامہ صاحب شاہی خاندان کا فرد سمجھے جاتے تھے۔

سعودی شاہی خاندان نے علامہ صاحب کو پوری زندگی عزت بھی دی اور ان کی مالی امداد بھی کی‘ ان کی طبیعت سیلانی تھی‘ یہ 1932ء میں سعودی عرب سے نکل آئے اور اس کے بعد سیاح کی طرح پوری دنیا دیکھ ڈالی‘ یہ برصغیر پاک و ہند پہنچے‘ علامہ اقبال سے ملے‘ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت سے متاثر ہوئے اور کئی سال اکٹھے گزار دیے‘ یہ علامہ اقبال کی رحلت کے بعد قیام پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے‘ علامہ اسد کا خیال تھا پاکستان وہ اسلامی ملک ہو گا جس کا خواب مسلمان 14 سو سال سے دیکھ رہے ہیں‘ علامہ صاحب نے اس خواب کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیے‘ اخبار بھی نکالا‘ کتابیں بھی لکھیں‘ مضامین بھی تحریر کیے‘ جیل بھی بھگتی اور بے روزگاری اور غربت بھی دیکھی لیکن یہ مسلم لیگ کے کارکن بن کر کام کرتے رہے‘ پاکستان بنا تو علامہ اسد کراچی آ گئے‘ یہ اس وقت تک آسٹریا کے شہری تھے‘ یہ آسٹریا کے پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے‘ علامہ اسد نے اپنی آسٹرین شہریت ترک کی‘ پاکستان کی شہریت اختیار کی اور پاکستان کے پہلے شہری بن گئے‘ یہ حکومت پاکستان کی طرف سے پہلا پاسپورٹ پانے والے پاکستانی بھی تھے لیکن پاکستانیوں اور پاکستانی حکومت نے علامہ صاحب کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا‘ علامہ صاحب کو وزارت خارجہ میں اہم منصب دے کر یو این بھجوایا گیا تھا مگر وزارت خارجہ کے بابوئوں نے انھیں اس قدر تنگ کیا کہ علامہ صاحب نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا‘ یہ پاکستان چھوڑنے پر بھی مجبور ہوگئے مگر انھوں نے آخری سانس تک پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی‘ یہ 23 فروری 1992ء میں 92 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے‘ غرناطہ میں دفن ہوئے اور مرنے کے بعد بھی پاکستانی شہری رہے۔

علامہ محمد اسد 1952ء میں پاکستان سے نکلے‘ ان کی جرمن نژاد تیسری بیگم پولا حمیدہ اسد نے مرنے تک ان کا ساتھ دیا‘ یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں رہے‘ یہ اسلام کے بارے میں کتابیں لکھتے رہے‘ لیکچر دیتے رہے‘ تبلیغ کرتے رہے اور اسلام کے بارے میں مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرتے رہے‘ ان کی ایک کتاب ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ یہ ان کے قبول اسلام سے متعلق کتاب تھی‘ اس کتاب میں عربوں کے رہن سہن‘ رسوم و رواج‘ صحرائی زندگی کی خوبصورتیاں اور اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں‘ یہ کسی نو مسلم مغربی اسکالر کی اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی‘ یہ کتاب امریکی پبلشنگ ادارے سائن اینڈ شسٹر نے 1954ء میں شائع کی اور پوری دنیا میں پڑھی گئی‘ یہ آج بھی شائع ہوتی ہے‘ آج بھی پڑھی جاتی ہے اور لوگ آج بھی علامہ صاحب کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کے حوالے سے دو حقائق بہت دلچسپ ہیں‘ ایک‘ یہ کتاب اسلام سے متعلق تھی اور نو مسلم مغربی اسکالر نے لکھی تھی لیکن یہ سب سے پہلے امریکی پبلشر نے شائع کی‘ بعد ازاں برطانیہ کے ادارے میکس رائن ہارٹ نے اسے شائع کیا اور اس کے بعد اس کے ترجمے جرمن‘ ولندیزی‘ سویڈش‘ فرانسیسی‘ جاپانی اور کروشین زبانوں میں شائع ہوئے او ریورپ کے تمام پبلشنگ ہومز نے نہ صرف علامہ صاحب کو کتاب کا معاوضہ دیا بلکہ پوری زندگی انھیں اور ان کی اہلیہ کو اس کی رائلٹی بھی ملتی رہی۔

جرمنی نے تو علامہ صاحب کو تین سال اپنا مہمان بھی رکھا‘ انھیں جرمن زبان سکھائی‘ ان سے ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کا ترجمہ کرایا اور پھر یہ کتاب شائع کی‘ جرمنی نے اس پر فلم بھی بنائی جب کہ ان کے مقابلے میں پورے عالم اسلام میں یہ کتاب چھپی مگر کسی پبلشر نے انھیں معاوضہ دیا اور نہ ہی ان سے اشاعت کے لیے تحریری اجازت لی‘ علامہ صاحب کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے اپنی یاد داشتوں میں لبنان کے ایک پبلشر کا ذکر کیا جس نے نہ صرف اس کتاب کا بلا اجازت ترجمہ شائع کیا تھا بلکہ اس نے کتاب سے صحرائی حصے بھی ایڈٹ کردیے‘ علامہ صاحب نے جب اس سے اس ایڈیٹنگ کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا لبنان کے لوگوں نے کبھی صحرا نہیں دیکھا چنانچہ ان کے لیے یہ حصے فضول تھے‘ پولا حمیدہ نے اس پر ہنس کر کہا صحرا تو یورپ اور امریکا کے لوگوں نے بھی نہیں دیکھا لیکن انھوں نے کتاب کے اس پورشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا‘ دوسری حقیقت‘ علامہ صاحب نے 92 سال کی طویل زندگی پائی‘ صدی تک پھیلی اس زندگی میں انھیں مسلمان ہونے کے باوجود یورپ اور امریکا کے علم پرور طبقے پالتے رہے جب کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان انھیں اذیت دیتے رہے ‘ ہم نے مرنے کے بعد بھی اپنے پہلے شہری کو عزت نہیں دی‘ ہم نے ان کے نام سے کوئی ادارہ بنایا اور نہ ہی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا‘ ہم نے اپنی کوتاہ فہمی‘ نالائقی‘ سازشی فطرت اور کنوئیں کے مینڈکوں کی جعلی اکڑ کی وجہ سے دنیا کا بہت بڑا اسکالر کھو دیا‘ علامہ صاحب پاکستان کے پہلے شہری اور پہلے پاسپورٹ ہولڈر تھے لیکن ہم ان کی قبر پر پھول تک نہیں چڑھاتے‘ وہ غرناطہ کے گم نام قبرستان کی کسی گم نام قبر میں پڑے ہیں مگر یہ احسان فراموش قوم ان کا نام تک بھول چکی ہے‘ علامہ صاحب اپنے اس ’’انجام‘‘ سے واقف بھی تھے‘ ان کی اہلیہ نے اپنی خودنوشت میں ایک واقعہ لکھا‘ آپ کے یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔

علامہ اسد 1950ء کی گرمیوں میں بیروت میں تھے‘ ایک شام ڈاکٹر ذاکر حسین ملاقات کے لیے ان کے گھر آئے‘ ڈاکٹر صاحب بھارت کی معروف علمی اور سیاسی شخصیت تھے‘ یہ بعد ازاں بھارت کے صدر بھی بنے‘ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس ملاقات کے دوران علامہ اسد کو یاد دلایا ’’میں نے قیام پاکستان سے قبل آپ سے عرض کیا تھا اگر پاکستان میں ان اصولوں پر عمل کیا گیا جن کے بنیاد پر ملک بنایا جا رہا ہے تو میں آپ کے ساتھ پاکستان جائوں گا لیکن مجھے خطرہ ہے‘ یہ ملک چند لوگوں کے مالی مفادات کے لیے بنایا جا رہا ہے اور آپ کو یہ حقیقت چند برسوں میں معلوم ہو جائے گی‘‘ ڈاکٹر صاحب نے علامہ صاحب کو یہ بات یاد کروائی اور اس کے بعد ان سے پوچھا ’’کیا میری بات غلط تھی‘‘ علامہ صاحب اس پر خاموش رہے مگر تاریخ آج تک بول رہی ہے‘ہم مانیں یا نہ مانیں مگر اس ملک پر65 برسوں سے چند مفاد پرستوں کا قبضہ چلا آ رہا ہے‘ یہ مفاد پرست اپنے فائدے‘ اپنے اقتدار کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں خواہ انھیں اس کے لیے ملک تک کیوں نہ توڑنا پڑ جائے‘ یہ مفاد پرستوں کا ایک کلب ہے جو اس ملک میں ترقی کی ایک خاص حد چھونے والے ہر شخص کو اپنا ممبر بنا لیتا ہے اور یہ بھی مفاد کا ٹوکا لے کر ملک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے میں جت جاتا ہے‘ مفاد کے اس کلب کے ممبرکس قدر سنگ دل ہیں آپ اس کا اندازہ کوئٹہ اور کراچی کی صورتحال سے لگالیجیے‘ ان کی نظر میں کوئٹہ اور کراچی کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ہزارہ کمیونٹی کی ہزار لاشوں اور کراچی کے ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں کی اموات کی‘ اگر انھیں کوئی دلچسپی ہے تو وہ پانچ ارب روپے کا محل ہے‘ اپنی مرضی کی نگران حکومت ہے اور اگلے الیکشنز میں کامیابی ہے اور پیچھے رہ گئے۔

عوام تو یہ ماضی میں بھی ان کی ترجیح نہیں تھے‘ یہ آج بھی ترجیح نہیں ہیں اور یہ کل بھی ترجیح نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اس ملک کی بنیاد سے لے کر آج کے جمہوری دور تک کبھی ترجیح نہیں رہے‘ یہ محض ووٹر ہیں یا لاشیں ہیں‘ مفاد پرست کلب کے ممبر انتخابی نشانوں پر ان سے انگوٹھا لگواتے ہیں‘ اپنا اقتدار پکا کرتے ہیں‘ پانچ پانچ سال کی باری لگاتے ہیں‘ قوم مایوس ہو جاتی ہے تو خفیہ ادارے شہروں میں نعشوں کی کھیتیاں اگا دیتے ہیں‘ یہ کھیتیاں بو دیتی ہیں تو فوج اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے‘ سیاسی جماعتیں فوج کو بھگانے کے لیے اپنے ووٹروں کو لاشوں میں تبدیل کرنے لگتی ہیں‘ یہ لاشیں عالمی ضمیر کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو فوجی آمروں کے سپورٹر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ملک پر مفاد پرست کلب کے سویلین چہرے قابض ہوجاتے ہیں‘ یہ لوگ بندر بانٹ کے ذریعے پانچ سال پورے کرنے میں جت جاتے ہیں اور اس دوران ملک خواہ قبرستان بن جائے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی‘ یہ صرف اور صرف اپنے اقتدار تک محدود رہتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کوئٹہ کی سڑکوں پر پڑی لاشیں دیکھ لیں یا پھر کراچی کی تڑتڑ کی آوازیں اور گرتی ہوئی لاشوں کی چیخیں سن لیں‘ بلوچستان میں سال بھر سے کوئی حکومت موجود نہیں‘ کراچی میںریاست ناکام ہے‘ وہاں آئی جی پولیس بھی رینجرز کی سکیورٹی کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا مگر ہمارا مفاد پرست کلب جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی قرار داد پاس کررہا ہے اور نگران وزیراعظم کے نام پر لڑ رہا ہے‘ آپ صورتحال پر تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا‘ ہم اٹھارہ کروڑ لوگ مفاد پرست کلب کے ممبروں کی آسودگی کے لیے انسانی کھاد ہیں‘ ہم پیدا ہی ان لوگوں کے انتخابی نشانوں پر انگوٹھا لگانے کے لیے ہوتے ہیں یا پھر فوجی آمروں کی خواہش اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جنم لیتے ہیں‘ ہم انگوٹھا لگا دیں تو یہ پانچ ارب کے بم پروف محل سے ہم پر حکمرانی کرتے ہیں نہ لگائیں تو یہ پانچ سال کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ کوئی بندوق علی خان اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔

ہم پاکستانیوں کا پاکستان کب بنے گا‘ ہم کب آزاد ہوں گے۔

مفاد پرست کلب

جمعـہ 22 فروری 2013

جمعرات, نومبر 15, 2012

کچی مٹی کے لازوال نقوش

مسرت جبیں

 mussarat.jabeen@janggroup.com.pk

اتنا تو مجھے پتہ تھا کہ چھوٹی عمر کے ناخوشگوار تجربے انسان کی ساری عمر اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بعد میں چاہے اسے زندگی سے کتنا کچھ ہی کیوں نہ مل جائے۔ ابتدائی سالوں کے وہ نقوش اسے رہ رہ کر ناخوش کرتے رہتے ہیں۔ میری اپنی بڑی بہن جو ایک بے حد خوبصورت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہیں اور زندگی نے انہیں ہمیشہ مجھ سے بڑھ کر نوازا ہے۔ ان کے دل کے اندر ایک عجیب سی افسردگی ہمیشہ رہتی ہے۔ خود انہیں بھی احساس ہے لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی اسے خود سے نوچ کر پھینک نہیں سکتیں۔ محض اس لئے کہ بہت بچپن میں یعنی صرف دوسال کی عمر میں ماں باپ سے جدا کر کے خالہ کی گود میں ڈال دیا گیا تھا۔ بہن کی ناخوشگوار ازدواجی زندگی کے مختصر تجربے اور پھر کبھی شادی نہ کرنے کے فیصلے کو اپنے طور پر قابل قبول بنانے کے لئے بہن اور بہنوئی نے اپنی دوسری بیٹی یعنی میری پیدائش پر، اپنی پہلی بیٹی اور اس وقت تین بھائیوں کی بہن کو خالہ کی محبت بھری گود کے سپرد کر دیا۔ بظاہر تو یہ فیصلہ اس بچی کے لئے جو خالہ سے یوں بھی بے حد مانوس تھی ناقابل قبول نہیں تھا، لیکن بڑھتی عمر اور یہ احساس کہ بھرے پرے کنبے کے بجائے محض خالہ اور نانی کی موجودگی چاہے وہ کتنے نخرے اٹھانے والی کیوں نہ ہوں۔ باپ ، ماں اور بھائی بہنوں کی موجودگی کا بدل کبھی نہ بن سکی۔ خاص طورپر جبکہ یہ حقیقت اس بچی سے بھی نہ چھپائی گئی کہ درحقیقت اس کا اپنا گھر کون سا ہے۔

ہمارے ہاں بڑے فیصلے کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہی کہ بچوں کے کچے اور معصوم ذہنوں پر ایسے فیصلوں کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پانچ چھ سال تک کے بچے کو کسی بھی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کا ذہن اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ اس چھوٹی عمر کے تجربات اور احساسات کو باقی زندگی کے لئے ذخیرہ کر سکے۔ اچھے یا برے، یہ تو ضمنی بات ہے لیکن خود میرے اپنے ذہن میں ایسے نقش یا یوں کہیئے کہ فلم کی ریل کی طرح عکس موجود ہیں جن کا سلسلہ میری پونے دو سال کی عمر سے جڑتا ہے۔ بھلا کون یقین کر سکتا ہے کہ اتنا چھوٹا بچہ، اپنے گرد و پیش میں ہونے والے واقعات اور مقامات کو اپنے ذہن میں اس طرح نقش کر لیتا ہے لیکن ایسا ہوتا ہے اور اب ایک بیس سالہ تحقیق نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔
یہ تحقیق پینسلوینا یونیورسٹی کے شعبہ نیورو سائنس کی سربراہ مارتھا فرح نے یہ جاننے کے لئے کیا ہے کہ چھوٹی عمر یعنی چار سال تک کے بچے کی روزمرہ مصروفیات اور تجربات، بڑوں کے رویّے اور ماحول اس کے ذہن پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں اور وہ آگے زندگی میں ان سے کتنی رہنمائی لے سکتا ہے۔ بیس سال پر محیط اس ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ چار سال کی عمر تک بچے کو جو ماحول مہیا کیا جاتا ہے یعنی جیسے اور جتنے لوگ اس کے آس پاس رہتے ہیں، جیسے کھلونے یا کتابیں اسے دی جاتی ہیں، موسیقی کے کتنے آلات۔ اصلی یا کھلونوں کی صورت میں اس کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ رنگوں اور خوشبوﺅں سے اس کا جتنا تعارف ہوتا ہے یہ سب چیزیں مل جل کر اس کے ذہن کی نشو ونما کرتے ہیں لیکن ان سب سے بڑھ کر محبت کی وہ گرمی جو اسے اس عمر میں حاصل ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، ان سب کا اثر زندگی بھر اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔

چونسٹھ بچوں کے دماغوں کا اسکین (SCAN) پہلے چار سال کی عمر میں کیا گیا، پھر آٹھ سال کی عمر میں اور آخری اسکین سترہ اور انیس سال کی عمروں میں اور اس سارے عرصے میں سائنسدان ان بچوں کے گھروں کے ماحول، ان کی زندگی میں موجود افراد اور باقی ہر طرح کے تجربات سے باخبر رہے لیکن نتیجے نے یہ ثابت کیا کہ جو ماحول، حالات، رویّے اور دوسرے عوامل ایک بچے کو چار سال کی عمر تک پیش آتے ہیں وہی اس کی باقی زندگی اور ذہنی نشو و نما کے لئے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ دماغی نشو ونما میں اس کے بعد کوئی واضح فرق محسوس نہیں کیا گیا۔ بچے بڑے ہوتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں یا نہیں کر سکتے، زندگی کے بہت سے دوسرے تجربات سے گزرتے ہیں۔ جو مختلف لوگوں اور مختلف حالات کے تحت بے حد متفرق ہو سکتے ہیں لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چار سال کی عمر تک پیش آنے والے واقعات، اس عرصے تک گزاری گئی زندگی، ماں باپ اور دوسرے گھر والوں کے رویّے، محبت اور توجہ یا ان دونوں کی عدم موجودگی اور پورا ماحول مل کر ایک انسان کے رویوں، اس کے فیصلوں اور زندگی گزارنے کے طریقوں کا تعین کرتے ہیں۔
ماں باپ زندگی بھر تو کسی کے ساتھ نہیں رہتے لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے صحیح فیصلے کر سکیں، اپنی زندگی کی راہیں مثبت خطوط پر استوار کریں اور سب سے بڑھ کر ایک مطمئن اور خوشگوار زندگی گزار سکیں تو اس وقت کا انتظار نہ کیجئے کہ بچہ ذرا بڑا ہو جائے تو اسے اچھے، برے اور مثبت چیزوں کی پہچان کرائیں۔ یہ سارے کام آپ کو چار سال کی عمرتک کر لینے چاہئیں کیونکہ اس وقت تک کمہار کی کچی مٹی کی طرح ذہن کی سطح پر پڑنے والے نقش بھی پکّے ہو جاتے ہیں پھرآپ لاکھ کوشش کریں پختہ مٹی کو نئے سرے سے گوندھ کر نئے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے، اس لئے شروع سے ہی احتیاط لازم ہے۔

مانا کہ حالات اور ماحول آپ کے اختیار میں نہیں یعنی وہ ماحول جو روپے پیسے اور چیزوں سے عبارت ہے لیکن میٹھے بول، بچوں کی بات توجہ سے سننے کی عادت اور لمس کی گرمی تو آپ کے اختیار میں ہے۔ یقین جانیں یہ سب کسی بھی ٹانک یا بیرونی محرک سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ میرے ماں باپ مجھے چاہتے ہیں، میری ذات کو گھر میں اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ اعتماد زندگی بھر انسان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
جنگ

بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی

حامد میر

hamid.mir@janggroup.com.pk

پاکستانی میڈیا کو کئی دنوں سے شٹ اَپ کال دی جا رہی تھی۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنے والوں کا فرمانا تھا کہ جب کوئی فوج حالت جنگ میں ہو تو اس فوج پر تنقید نہیں کی جاتی بلکہ اس فوج کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنے والوں کو بہت سمجھایا گیا کہ میڈیا نے فوج پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ماضی میں آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں کے کردار پر بحث کی جا رہی ہے لیکن ڈانٹ ڈپٹ میں شدت آتی گئی اور میڈیا پر بلا جواز تنقید میں میڈیا کے کچھ لوگ بھی اپنے مخصوص منافقانہ انداز میں شامل ہو گئے۔ اس دوران کچھ ٹی وی چینلز کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا اور کچھ اینکرز کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں لگام دی جائے یا اسکرین سے ہٹا دیا جائے۔ یہ مطالبہ صاف بتا رہا تھا کہ اپنے آپ کو ریاست سے زیادہ طاقت ور سمجھنے والے کچھ عناصر بدستور اپنے سابقہ باس جنرل پرویز مشرف کے انداز میں سوچتے ہیں وہ نظریہ ضرورت کے تحت اپنی ماضی کی غلطیوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ماضی کی ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اس سے پہلے کہ کم از کم چار ٹی وی اینکرز کا دماغ درست کرنے کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کیا جاتا امریکی میڈیا میں دنیا کی طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا سکینڈل بے نقاب ہوگیا۔

60 سالہ ڈیوڈ پیٹریاس دو بچوں کی ماں 40 سالہ پاﺅلا بروڈ ویل کے ساتھ خفیہ طور پر عشق فرما رہے تھے۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے اس عشق کا بھانڈا ایف بی آئی نے پھوڑا جو سی آئی ے کے سربراہ کی ای میلز کی نگرانی کر رہی تھی۔ جیسے ہی یہ معاملہ میڈیا میں آیا تو ڈیوڈ پیٹریاس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے سی آئی اے سے استعفیٰ دے دیا۔ اب امریکی میڈیا اس اسکینڈل کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے پاﺅلا اور پیٹریاس کے پیچھے بھاگ رہا ہے لیکن کسی نے امریکی میڈیا کو قومی مفادات کی آڑ لے کر اس معاملے کی رپورٹنگ سے نہیں روکا۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے نہ تو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت کی نہ، سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کیں نہ کوئی رشوت لی۔ صرف ایک خاتون کے ساتھ عشق کیا جس کی وجہ سے کچھ خفیہ اطلاعات مذکورہ خاتون تک پہنچنے کا خدشہ تھا لہٰذا سی آئی اے کے سربراہ نے اخلاقی بنیادوں پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اب ذرا پاکستان کی طرف آیئے۔ ہمارے ہاں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔ جی ایچ کیو پر حملہ، ایبٹ آباد آپریشن، مہران بیس کراچی پر حملہ، سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ اور پھر کامرہ ایئر بیس پر حملہ ہوا۔ کسی خفیہ ادارے کے سربراہ نے استعفیٰ نہیں دیا اور جب میڈیا نے ان اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے تو انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔ پیٹریاس پاکستان میں ہوتے تو صاف بچ جاتے۔

واقفان حال جانتے ہیں کہ جس قسم کے اسکینڈل کی وجہ سے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے استعفیٰ دیا اس قسم کے اسکینڈل ہمارے لئے نئے نہیں ہیں۔ جنرل یحییٰ خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوج کے کئی جرنیل اپنی رنگین مزاجی کے لئے مشہور تھے لیکن ہمارے میڈیا نے کبھی ان رنگین داستانوں کی تفصیل میں جانے کی جرا ¿ت نہ کی۔پاکستانی میڈیا کے لئے سیاستدانوں اور بیورو کریٹ کے خلاف سچ بولنا ہمیشہ آسان رہا ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہوتی۔ جب بھی کوئی صحافی جرنیلوں کی غیر آئینی یا غیر اخلاقی سرگرمیوں کے بارے میں زبان کھولتا ہے تو اسے دھمکیوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کون نہیں جانتا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک ٹی وی اداکارہ کی رسائی ایوان صدر کے کون کون سے کونے تک پہنچ چکی تھی؟ با خبر صحافی تو ایک صنعت کار خاتون کی پہنچ سے بھی واقف تھے جس نے ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو شادی کا جھانسہ دے کر کئی راز اگلوائے اور پھر یہ سب کچھ مشرف صاحب کو بتا کر ان کے قریب ہو گئی۔

مشرف دور حکومت میں ق لیگ کی کچھ خواتین ارکان اسمبلی کی سرگرمیوں نے چودھری شجاعت حسین کو زچ کر دیا تھا اور مشرف سے ان کے اختلافات کی یہ ایک بنیادی وجہ تھی۔ مشرف دور میں کیا کچھ ہوتا رہا؟ مزید تفصیلات کے لئے برطانیہ کی خاتون صحافی کیر ی شوفیلڈ کی کتاب ”ان سائیڈ پاکستان آرمی“ پڑھئے۔ یہ کتاب کسی بھارتی یا یہودی ایجنٹ کا پراپیگنڈہ نہیں بلکہ کیری شوفیلڈ کو یہ کتاب لکھنے کے لئے جی ایچ کیو نے پورا تعاون فراہم کیا اور انہوں نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں کئی بریفنگز بھی لیں۔ برطانوی صحافی نے لکھا ہے کہ پاکستان آرمی کے ایک افسر میجر جنرل فیصل علوی کو اگست 2005 میں ایک خاتون کے ساتھ مبینہ تعلقات کی وجہ سے جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا۔ بعد ازاں فیصل علوی نے الزام کو جھٹلاتے ہوئے اپنے کچھ سینئرز کے بارے میں ناشائستہ گفتگو کی۔ کچھ عرصے کے بعد میجر جنرل فیصل علوی کو پراسرار انداز میں قتل کر دیا گیا۔ قتل کے الزام میں ایک ریٹائرڈ میجر کو گرفتار کیا گیا جو بعد میں رہا ہو گیا۔ اس کتاب میں قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے مختلف آپریشنز کا بھی ذکر ہے جن میں ہمارے کئی افسروں اور جوانوں نے جرا ¿ت و بہادری کا مظاہرہ کیا لیکن میجر جنرل فیصل علوی کے بارے میں تفصیلات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ افسر انصاف مانگتا مانگتا قتل ہو گیا۔ میڈیا سیاستدانوں اور کرکٹروں کے خلاف برطانیہ اور امریکہ میں شائع ہونے والی کتابوں کے اقتباسات تو شائع کرتا ہے لیکن کیری شوفیلڈ کی کتاب میں فیصل علوی کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اسے نظر انداز کرتا ہے کیونکہ جان سب کو پیاری ہے۔

یہ سب لکھنے کا مقصد یہ قطعاً نہیں کہ میڈیا اس خاتون کی تلاش شروع کر دے جو میجر جنرل فیصل علوی کا کیریئر تباہ کرنے کا باعث بنی۔ مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ڈیوڈ پیٹریاس ایک خاتون سے ناجائز تعلقات کے الزام میں سی آئی اے سے استعفیٰ دے سکتا ہے تو جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی؟ دونوںکے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ فوج کو بحیثیت ادارہ ان دونوں کے جرائم کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ 10 اکتوبر 2006ءکو جیو ٹی وی پر کیپٹل ٹاک میں اسد درانی سے ان کے سیاسی کردار پر میں نے کچھ سخت سوالات کئے تو 21 اکتوبر کو پمرا کے ڈائریکٹر جنرل رانا الطاف مجید نے مجھے ایک شوکاز نوٹس دیا تھا جس میں مجھ پر فوج کے خلاف سازش کا الزام لگایا گیا۔

یہ وہی رانا الطاف مجید تھا جس نے 2007ء میں وکلاءتحریک کو اہمیت دینے والے ٹی وی چینلز کی مقبولیت کم کرنے کے لئے پاکستان میں بھارتی ٹی وی چینلز کھلوا دیئے تھے لیکن موصو ف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اسد درانی اور اسلم بیگ کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ دونوں صاحبان فوج کی آڑ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ دو ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف ہے اور فیصلے میں نواز شریف، الطاف حسین، جاوید ہاشمی اور عابدہ حسین سمیت کئی سیاستدانوں اور کچھ صحافیوں کا بھی ذکر ہے۔ حکومت شفاف تحقیقات کرے گی تو صرف کچھ سیاستدان نہیں بلکہ وہ صحافی بھی بے نقاب ہوں گے جو قومی مفادات کے نام پر خاموشی سے بھاری رقوم ہضم کرتے رہے اور ہم نے جب بھی اصغر خان کیس کا ذکر کیا تو ان بزرگوں نے ہماری ڈانٹ ڈپٹ کی۔ مجھے یقین ہے کہ تحقیقات شروع ہوئیں تو معاملہ صرف 1990ء کے الیکشن تک محدود نہ رہے گا۔ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی 1993، 1997، 2002 اور 2008 کے الیکشن میں کس نے پیسے دیئے اور کس نے لئے سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ سچ سامنے آئے گا تو فوج، سیاستدان اور صحافی بدنام نہیں ہوں گے بلکہ کچھ کالی بھیڑیں بے نقاب ہوں گی آج پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو سب کے بارے میں سچ بولا جائے سچ سے پاکستان کمزور نہیں مضبوط ہوگا۔

جنگ

ہفتہ, نومبر 03, 2012

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

ڈاکٹر صفدر محمود
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
 
خیال آیا کہ عید ابھی کل ہی گزری ہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود لوگ تین دن تک عید مناتے رہے ہیں اس لئے عید کے تناظر میں کوئی ہنستی مسکراتی تحریر لکھنی چاہئے۔ دل نے کہا جہاں ہر روز نا اہلی، کرپشن اور بے حسی کے زخم کھلتے ہوں وہاں ہنستے مسکراتے الفاظ تخلیق کرنا نہایت کٹھن کام ہوتا ہے۔ زخم کھا کر مسکرانا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ ہم تو کرپشن اور نا اہلی کا ماتم کرتے رہیں گے اور بے حسی پر آنسو بہاتے رہیں گے کوئی ہماری فریاد سنے یا نہ سنے، سچی بات یہ ہے کہ ہم مسکرانا بھی چاہیں تو ایسی خبریں مسکرانے نہیں دیتیں۔
عید کے دن کے اخبارات میرے سامنے رکھے تھے اور میں دو خبریں پڑھ کر اداسی کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ ہاں یاد رکھیئے کہ یہ دو خبریں تو دیگ کے محض دو دانے ہیں ورنہ کوئی دن نہیں گزرتا کہ اربوں کی کرپشن اور نا اہلی کی داستانیں پڑھنے اور سننے کو نہ ملتی ہوں۔ کرپشن کے پہاڑوں کے سامنے یہ خبر تو محض رائی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اسے پڑھ کر مغموم ہو گیا اور حکومتی نا اہلی کا دل ہی دل میں ماتم کرنے لگا۔ پھر سوچنے لگا کہ جہاں قومی وسائل کو اس بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہو، وہاں معاشی امراض کا علاج ناممکن ہے۔ اصل مسئلہ وسائل کی قلت نہیں بلکہ وسائل کا زیاں ہے۔ میں آپ سے کوئی خفیہ بات شیئر نہیں کر رہا، چھپی ہوئی خبروں کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔
ہماری نوجوان نسل کو علم نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کو بدحالی کا شکار ہی دیکھا ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دہائی دو دہائیاں قبل ہمارا ریلوے کا نظام ہر لحاظ سے نہایت معیاری ہوا کرتا تھا۔ دولت مند طبقے تو ہوائی سفر اور ذاتی کاروں کی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے تھے لیکن عوام کے لئے ریلوے کا سفر آرام دہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اسے ہماری نااہلی اور بدنیتی کی نظر لگ گئی جبکہ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک اپنے ریلوے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ موجودہ ریلوے کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص ریلوے کے ہاتھوں پریشان ہے۔ چنانچہ حکومت نے چین سے 75 ڈیزل انجن درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے منصوبوں کی مانند کرپشن کی نذر ہو گیا۔ مجھے اس ناکامی میں کرپشن سے زیادہ نا اہلی کا پہلو نظر آتا ہے۔ ہماری حکومت نے 2009 میں چین کی حکومت سے 75 انجن خریدنے کا معاہدہ کیا اور اس مقصد کے لئے ایک چینی بینک سے ایک سو ملین یعنی دس کروڑ ڈالر کا قرضہ منظور کروایا۔ معاہدے کے مطابق حکومت پاکستان نے پندرہ ملین ڈالر بینک میں جمع کروا دیئے۔ رینٹل پاور ہاﺅسز کی مانند یہاں بھی کرشن ہوئی۔ اصولی طور پر انجنوں کی خریداری کے لئے عالمی سطح پر ٹینڈر ہونے چاہئیں تھے لیکن یہاں قانونی تقاضوں سے انحراف کیا گیا۔ بدعنوانی کے سبب خریداری نہ ہو سکی اور پاکستان قرضہ استعمال نہ کر سکا۔ معاہدے کے مطابق قرضہ استعمال نہ کرنے کی پاداش میں چینی بینک گزشتہ دو سال سے ہر روز پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ کرتا رہا ہے۔ اس طرح وہ پندرہ ملین ڈالر جو پاکستان نے جمع کروائے تھے وہ جرمانے کی مد میں ادا ہو گئے ہیں اور انجن بھی نہ منگوائے جا سکے۔ تین سال تک انجن نہ منگوانے پر حکومت چین بھی ناخوش ہے اور چینی بینک بھی ناراض۔ اب اگر عالمی سطح پر ٹینڈر دیئے جاتے ہیں تو حکومت چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور جو انجن 2009 میں چودہ لاکھ ڈالر کا مل رہا تھا اب کم سے کم 20 لاکھ ڈالر میں ملے گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ مقصد کرپشن اور نااہلی کی دیگ میں سے فقط نمونے کا ایک دانہ دکھانا تھا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس طرح کے حالات میں انسان کس طرح خوش رہ سکتا ہے اور کیونکر مسکرا سکتا ہے۔
دوسری خبر ہماری قومی بے حسی، ناشکری اور سرد مہری کی داستان تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک موثر اور متحرک ادارہ ہے جس کا دائرہ کار عالمی سطح پر تعلیم، ثقافت اور سائنس کے شعبوں پر محیط ہے۔ کوئی 193 ممالک اس کے رکن ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا تین سال منتخب رکن رہا ہوں اور یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا منتخب وائس چیئرمین رہا ہوں۔ درجن بھر اراکین پر مشتمل ایگزیکٹو بو رڈ یونیسکو کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی نگرانی کرتا ہے، منصوبوں اور حکمت عملی کی منظوری دیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں 1998 کے دوران یونیسکو کی ایک میٹنگ کے سلسلے میں پیرس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک روز دعوت نامہ ملا آج شام ہال میں ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دینے والے ماہرین کو انعامات دیئے جائیں گے۔ میں اس تقریب میں اس تاثر کے ساتھ شریک ہوا کہ 193 ممالک میں پاکستان کہاں کسی انعام کا حق دار ٹھہرے گا جبکہ ان ممالک میں فرانس برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، چین جیسے ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے حد خوشی بھی جب ایک پاکستانی سائنس دان کو انعام لینے کے لئے پکارا گیا۔ وہ انعام لے کر لوٹا تو میں نے اسے سینے سے لگا لیا، مبارک باد دی اور کہا کہ میں تمہارا ممنون ہوں تم نے عالمی سطح پر میرے ملک کا نام روشن کیا۔ اس سائنس دان کا نام تھا ڈاکٹر ریاض الدین اور وہ لاہور میں ایک سائنسی ادارے کا سربراہ تھا۔ وطن واپس لوٹا تو میں گورنر پنجاب کو ساتھ لے کر ڈاکٹر ریاض الدین کے ادارے میں پہنچا اور اس کی عزت افزائی کی۔
ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ادارہ جینز اور ڈی این اے کے حوالے سے ریسرچ کر رہا تھا اور ان کی تحقیق سے نہ صرف مجرموں کو پکڑا جا سکتا تھا بلکہ اس سے زرعی پیداوار میں بھی خاصا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ادارہ براہ راست وفاقی حکومت وزارت تعلیم کا حصہ تھا۔ وزارت تعلیم کا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر ریاض الدین کو سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک سے نہایت پُر کشش آفرز آ رہی تھیں لیکن وہ وطن کی خدمت پر مصر تھا۔ 27 اکتوبر کے دی نیوز میں ایک خبر پڑھ کر میں پریشان ہو گیا۔ میں 1999 کے بعد ڈاکٹر ریاض سے کبھی نہیں ملا۔
خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر ریاض الدین نے ہیپاٹائٹس کے مرض کے لئے ایک دوا ایجاد کی جس کی قیمت 70 روپے ہے جبکہ ہمارے ملک میں اس مرض کے لئے دستیاب دواﺅں کی قیمت 900 روپے ہے۔ میری اطلاع کے مطابق تجارت کے نام پر خون چوسنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈاکٹر ریاض کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس خبر کے مطابق یہ انجکشن ہمارے دو سائنس دانوں کی ریسرچ کا پھل تھا۔ چنانچہ انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور وزارت سائنس نے ان کے خلاف فنڈز میں بے ضابطگی پر انکوائری ایف آئی اے کے حوالے کر دی۔ مجھے دوران ملازمت بہت سے سائنس دانوں سے پالا پڑا ہے۔ مان لیا کہ انہیں حکومتی ضابطوں کا کلرکوں کی مانند علم نہیں ہوتا اور وہ بعض اوقات ضابطوں کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں لیکن اسے بے ایمانی نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ بھلا کرے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا کہ جس نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کو مجرموں کے خلاف اقدام کرنے کے لئے خط لکھا۔ ایف آئی اے کی انکوائری نے ان سائنس دانوں کو کلین چٹ دے دی لیکن اس دوران ملک میں ہیپاٹائٹس کے لئے جو سستے انجکشن بنائے گئے تھے ان کی معیاد گزر گئی اور ایک لاکھ ٹیکے بے کار ہو گئے۔ خبر کے مطابق بیرون ملک سے مہنگے ٹیکے منگوا کر قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ہم نے ان سائنس دانوں کی یوں قدر و منزلت کی کہ ان کی تنخواہیں دو سال بند کئے رکھیں اور ان کے نام مجرموں کی مانند ای سی ایل پر ڈال دیئے۔ یہی ڈاکٹر ریاض سنگا پور یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں چلا گیا ہوتا تو بے پناہ تحقیقی کام کرتا، کروڑوں کماتا اور عزت پاتا۔ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تحقیق کے لئے ماحول، وسائل اور سامان موجود ہے اور نہ ہم اپنے سائنس دانوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے بہترین دماغ امریکہ برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں جا رہے ہیں اور ہم خالی ہاتھ سائنسی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا جہان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں سائنسی تحقیق پر بے پناہ خرچ کرتی ہیں اور سائنسی ایجادات سے بے حساب کماتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی یہ شعور ہی پیدا نہیں ہوا اور ہم غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں رہی حکومت تو حکومت کے پاس سائنسی ریسرچ کے لئے نہ وسائل ہیں نہ ویژن اور نہ اہلیت.... سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیسے ترقی کریں گے اور کیسے آگے بڑھیں گے؟ جو قوم علم کی قدر و منزلت سے آشنا نہیں وہ علم کی روشنی سے کیسے منور ہو گی؟

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا

 (نوٹ) (منگل والے کالم میں میں نے لکھا تھا ”دل کو پوری طرح فتح کر لینا گویا دنیا کو فتح کرنے کے مترادف ہے۔“ کمپوزنگ کی غلطیاں معمول کی بات ہے لیکن اس فقرے کو ”دل کو پوری طرح فتح نہیں“ لکھ کر بے معنی بنا دیا گیا۔ قا رئین نوٹ کر لیں)

روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

اقبال، قائد اعظم اور غازی علم دین

حامد میر
hamid.mir@janggroup.com.pk
 
 بہت سے نوجوان پوچھتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے برطانیہ اور جرمنی کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی پھر اُن کے دل میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ ایک طالب علم نے ای میل کے ذریعہ پوچھا ہے کہ کچھ دانشوروں کے خیال میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک سیکولر پاکستان کے حامی تھے اگر پاکستان کو سیکولر بنانا تھا تو پھر ہندوستان تقسیم کیوں کیا گیا کیونکہ انڈین نیشنل کانگریس بھی تو سیکولر جماعت تھی؟ یہ دُرست ہے کہ اقبال اور قائد اعظم نے یورپ میں تعلیم حاصل کی، دونوں ابتداء میں متحدہ ہندوستان کے حامی تھے لیکن یہ دونوں انڈین نیشنل کانگریس سے مایوس ہو گئے تھے۔ پاکستان کیوں بنایا گیا اور کیسے بنایا گیا؟ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ بہت کم محققین نے 31 اکتوبر 1929ء کو پیش آنے والے ایک اہم واقعے پر توجہ دی ہے جس نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی شخصیت اور نظریات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ واقعہ تھا غازی علم دین کی پھانسی۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ علامہ اقبال نے غازی علم دین کی شہادت کے تقریباً ایک سال کے بعد 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد کے ذریعہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کا خیال کیوں پیش کیا؟
غازی علم دین 4 دسمبر 1908ء کو کوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا خاندان فرنیچر سازی سے منسلک تھا۔ اُن کے والد طالع مند لاہور کے علاوہ کوہاٹ میں بھی فرنیچر سازی کرتے رہے۔ غازی علم دین اپنے والد کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ وہ بالکل غیرسیاسی اور سادہ سے نوجوان تھے۔ 1927ء میں لاہور کے ایک ہندو پبلشر راج پال نے قرآن پاک کے خلاف ایک کتاب ستیارتھ پرکاش شائع کی۔ مسلمانوں نے اس کتاب کی اشاعت پر بہت احتجاج کیا لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی بلکہ کچھ عرصے کے بعد راج پال نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ایک کتاب شائع کر دی جس میں امہات المومنین کے بارے میں نازیبا باتیں لکھی گئی تھیں۔ مسلمانوں نے راج پال کے خلاف قانونی کارروائی کی بہت کوششیں کیں لیکن برطانوی سرکار یہ کہہ کر معاملہ ٹالتی رہی کہ قانون میں گستاخ رسول کے خلاف کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ 24 ستمبر 1927ء کو یکی دروازہ لاہور کے ایک کشمیری نوجوان خدا بخش نے گستاخ رسول پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن راج پال بچ نکلا۔ 19 اکتوبر 1927ء کو غزنی کا ایک نوجوان عبدالعزیز لاہور آیا اور اُس نے راج پال پر حملہ کیا لیکن ہندو پبلشر پھر بچ گیا۔ اُسے پولیس کا ایک حفاظتی دستہ مہیا کر دیا گیا اور اب وہ سرکاری سرپرستی میں اپنا مذموم کاروبار کرنے لگا۔ اس نے اپنی کتابوں کی قیمتیں کم کر دیں کیونکہ کئی سرمایہ دار ہندو اُس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے تھے۔ غازی علم دین کو راج پال کی گستاخیوں کا علم ہوا تو انہوں نے خاموشی سے اُسے جہنم واصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 6 اپریل 1929ء کو غازی علم دین نے راج پال کو ہسپتال روڈ لاہور پر واقع اُس کی دکان میں گھس کر خنجر سے قتل کر دیا۔ غازی علم دین نے فوراً اقرار جرم کر لیا اور اپنے خاندان سے کہا کہ اُن کے مقدمے کی پیروی نہ کی جائے کیونکہ وہ شہادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور کے ایک نامور وکیل فرخ حسین نے رضاکارانہ طور پر غازی علم دین کی وکالت شروع کر دی لیکن سیشن کورٹ نے 22 مئی 1929ء کو غازی علم دین کے لئے سزائے موت سنا دی۔ یہ وہ موقع تھا جب قائد اعظم نے غازی علم دین کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالت میں مو¿قف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرنا اور عوام میں نفرت پھیلانا زیر دفعہ 135 الف جرم ہے لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی اُس نے غازی علم دین کو اشتعال دلایا لہٰذا غازی علم دین کے خلاف زیردفعہ 302 قتل عمد کی بجائے زیر دفعہ 308 قتل بوجہ اشتعال کارروائی کی جائے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شادی لال نے اپیل مسترد کر دی اور غازی علم دین کو پھانسی کے لئے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1929ء کو غازی علم دین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور لاش اُن کے خاندان کے حوالے نہیں کی گئی۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علی خان نے بہت اہم کردار ادا کیا اور غازی علم دین کے جسد خاکی کو لاہور لانے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی۔ آخرکار غازی علم دین کا جسد خاکی بذریعہ ٹرین لاہور لایا گیا۔ مستند روایات کے مطابق غازی علم دین کے جنازے میں چھ لاکھ سے زائد مسلمان شریک تھے۔ بھاٹی چوک لاہور سے لے کر سمن آباد تک لوگ ہی لوگ تھے۔ غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبال اور سیّد دیدار علی شاہ جیسے بزرگوں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی علم دین کو لحد میں اُتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔ یہی وہ موقع تھا جب اقبال کے منہ سے بھی نکلا کہ ہم تو دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔
 
غازی علم دین کی پھانسی اور پھر اُن کے عظیم الشان جنازے نے برصغیر کے مسلمانوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ہندو اخبار ”پرتاپ“ نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کو غازی علم دین کی حمایت کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1933ء میں آریہ سماج نامی تنظیم کے سیکرٹری نتھو رام نے بھی اسلام کے بارے میں ایک گستاخانہ کتاب کراچی سے شائع کر دی۔ اس مرتبہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کی بے چینی روکنے کیلئے نتھو رام کی کتاب ضبط کر لی اور اسے ایک سال قید کی سزا دی۔ نتھو رام نے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور رہا ہو گیا۔ ہزارہ کا ایک نوجوان عبدالقیوم کراچی میں وکٹوریہ گاڑی چلایا کرتا تھا۔ اس نے 1934ء میں نتھو رام کا پیچھا شروع کیا۔ ایک دن نتھو رام اپنی ضمانت کنفرم کرانے عدالت میں آیا تو عبدالقیوم نے بھری عدالت میں اُس پر خنجر کے وار کئے اور اُسے قتل کر دیا۔ عبدالقیوم گرفتار ہو گیا اور اُس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے رسول کی شان میں گستاخی کرنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ عبدالقیوم کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی۔ کراچی کے مسلمانوں کا ایک وفد لاہور آیا اور علامہ اقبال سے درخواست کی کہ عبدالقیوم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرایا جائے۔ علامہ اقبال نے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ اگر عبدالقیوم خود کہتا ہے کہ اُس نے شہادت خریدی ہے تو میں اُس کے اجر و ثواب کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنوں؟ اسی تناظر میں علامہ اقبال نے یہ اشعار بھی کہے

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے؟ فقط عالم معنی کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔ کیا قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر میں عشق رسول سب سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں؟ علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں کو کانگریس کے حامی مسلمان علماءکی مخالفت اور فتووں کا سامنا تھا لیکن حرمت رسول کےلئے جو کردار غازی علم دین شہید سے لے کر علامہ اقبال نے ادا کیا وہ کئی علماء کے حصے میں نہ آیا۔ آج جو لوگ اقبال اور قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بتائیں کہ کیا اُن کے سیکولرازم میں غازی علم دین کی حمایت کی گنجائش موجود ہے؟ پاکستان اسی لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو تحفظ حاصل ہو اور اسی لئے پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ بھی کیا اور توہین رسالت کا قانون بھی منظور کیا۔ یہ بھی طے ہے توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال قطعاً نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں سیرت رسول کی پیروی کرنی چاہئے۔ اقبال نے کہا تھا

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اِسم محمد سے اُجالا کر دے


روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

امریکی طوفان سینڈی ہارپ کی کارستانی

نصرت مرزا

راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے روزنامہ ”جنگ“ میں دو مرتبہ ہارپ ٹیکنالوجی کی تباہ کاریوں کے بارے میں لکھا، پہلی مرتبہ 28 اگست 2010ء کو جب پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا اور دوسری مرتبہ جب جاپان میں 11 مارچ کو تباہی پھیلی تو 23 مارچ 2011ء کو ”جنگ“ میں کالم چھپا۔ اس سونامی نے جاپان کے ایٹمی ری ایکٹر کو بھی متاثر کیا۔ دونوں مرتبہ ہم نے لکھا تھا کہ ہارپ کی ٹیکنالوجی امریکہ نے حاصل کرلی ہے اور وہ دنیا بھر میں زلزلہ، سیلاب، طوفان اور سونامی لاسکتا ہے۔ ہم نے ان دونوں مضامین میں ساری تفصیلات لکھ دی تھیں کہ ہارپ کی مشین الاسکا میں واقع ہے اور وہاں 180 مائیکرویو انٹیناز کے ذریعے 3 گیگا واٹ کی انرجی حاصل کرکے اس کو Innosphere کے نظام میں ڈال کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ہم نے برملا لکھا تھا کہ پاکستان کا 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب ہارپ کی کارستانی ہے اور جاپان کا سونامی اس کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ ہم نے ہیٹی، ایران، چین اور روس کے نقصانات کا ان مضامین میں احاطہ نہیں کیا تھا مگر وہ بھی ہارپ کے مرہون منت تھے۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ قدرت کے نظام کو چھیڑ دیا گیا ہے۔ اب نہ جانے نقصانات کہاں پر جاکر رکیں گے اور کیا خود امریکہ اس کی زد میں آجائے گا، سو اب امریکہ کو اس کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔

سینڈی نامی طوفان امریکہ کے مشرقی ساحلوں سے ٹکڑنے سے 6 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ نیویارک سُونا ہوگیا اور اس کی تمام ٹرینوں کی آمدورفت رک گئی ہے۔ واشنگٹن کا شہر بند کردیا گیا، دکانیں اور ڈیڑھ لاکھ گھروں کو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی، ورجینیا اور نیوجرسی میں پانی داخل ہوگیا، ایٹمی ری ایکٹر، آئل ریفائنری بند کردی گئی، خوراک کے حصول کے لئے متاثرین کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ طوفان کے باعث پہلی بار اقوام متحدہ کے دفاتر، سٹاک مارکیٹس بند کرنا پڑی ہیں۔
اس کے نقصانات کا تخمینہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور نقصانات میں مزید اضافے کا اندیشہ بدستور موجود ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ اس طوفان کو معمولی نہ سمجھا جائے، دس ہزار کے قریب پروازیں معطل کی جاچکی ہیں، 9 ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، ساحلی علاقوں سے لاکھوں افراد کو نکال تو لیا ہے۔ اوباما اور رومنی کی انتخابی مہم معطل ہوگئی ہے اور وقت مقررہ پر امریکی صدارتی انتخابات کا انعقاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ عذاب الٰہی ہے اور اللہ کے نظام کو چھیڑنے کا نتیجہ ہے یا پھر ہارپ کی کارستانی ہے۔ امریکہ میں کئی ویب سائٹس اس کو ہارپ کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔ ان کا 28 ہارپ Sensors جو پورے امریکہ میں لگے ہیں وہ تاریخ کے مضبوط ترین اور تباہ کن ہارپ کے حملہ کی اطلاع دے رہے ہیں اور 1-10 کے اسکیل میں کانٹا 10 پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے آگے پیمائش کی اُن کے پاس گنجائش نہیں ہے۔ وہاں اس قدر سفید بادل اور لہریں ہیں جو قدرتی نظر نہیں آتی اور کئی سائنسدان اور کالم نگار جن میں ایک الیکس تھوس شامل ہے وہ کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ پر ہارپ سے حملہ ہوگیا ہے۔ ممکن ہے یہ حملہ کسی اور جگہ کرنا ہو اور غلطی سے امریکہ کا رُخ کر گیا ہے مگر یہ طوفان قدرتی نہیں، مصنوعی ہے اس پر سب کو اتفاق ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہارپ کا حملہ اس لئے کیا گیا تاکہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اور یہ کہ صدر بارک اوباما کو مزید حکمرانی کا موقع مل جائے کیونکہ اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوسکتے مگر کئی تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان نقصانات کا نزلہ اوباما پر ہی پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ جیسا کہ امریکی سیاسی پنڈت کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگ جائے اور دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے لے۔ امریکہ کے سیاسی پنڈت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکی انتظامیہ کا دعویٰ درست نہیں ہے کہ تباہ کاری مشرقی ساحل پر بھی ہوگی۔ اُن کا کہنا ہے کہ تباہی زیادہ آبادی کے علاقوں تک پھیلے گی۔ اب سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ امریکہ اپنے ہی ملک کے لوگوں پر ہی حملہ آور ہوگیا ہے۔

9/11 کے واقعے کے بعد 29 اکتوبر 2012ء کو امریکہ دوبارہ اپنے عوام کو تکلیف اور اذیت میں مبتلا کرکے عالمی جنگ چھڑوانے کا ارادہ رکھتا ہے یا پھر اُس کا کوئی اور منصوبہ ہے، آنے والے چند دن اس بات کو واضح کردیں گے۔ مگر دنیا کے لئے کوئی اچھی خبر منتظر نہیں ہے۔ اس طوفان کے بعد امریکہ کا کیا رویہ ہوگا وہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔

روزنامہ جنگ، جمعہ 16 ذوالحجہ 1433ھ 2 نومبر 2012ء

جمعرات, ستمبر 27, 2012

چیف جسٹس کے خلاف ایک اور ”دھماکے“ کی تیاری

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ایک اور حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ تیاری کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نوّے فیصد کام ہوچکا اور جیسے ہی دس فیصد کمی پوری ہوتی ہے، ”دھماکا“ کردیا جائے گا۔ یہ نہیں بتایا جا رہا کہ ”دھماکا“ ہے کیا مگر چیف جسٹس مخالف لابی پُر امید ہے کہ ایک ہفتہ تک کام مکمل ہوجائے گا۔ ایک صاحب کا فرمانا ہے کہ حملہ اس مرتبہ مکمل اور ناقابل شکست ہوگا اور ثبوت بھی پکے ہوں گے۔ نجانے افتخار چوہدری کے مخالف اب کیا کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر ابھی تک ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواریوں نے کیا کچھ نہیں کیا، کون کون سے ”دھماکے“ نہیں کروائے مگر ہر ”دھماکے“ کے بعد اللہ تعالیٰ نے افتخار محمد چوہدری صاحب کو مزید عزّت دی۔ جو جو بھی چیف جسٹس کو جانتا ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ کرپشن سے ہمیشہ پاک رہے۔ کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالتوں کا جج ہونے اور بلوچستان ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس ہونے کے باوجود کسی شخص کے پاس پاکستان بھر میں رہنے کے لئے اپنا گھر نہ ہو۔ موجودہ حکومت نے حکومتی پالیسی کے تحت چیف جسٹس کو تین کروڑ کا پلاٹ دینے کی کوشش کی مگر اُنہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ موجودہ سپریم کورٹ کے کئی اور جج صاحبان نے بھی یہ پلاٹ لینے سے انکار کردیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کو ایک سال اور چند ماہ رہ گئے مگر افتخار محمد چوہدری صاحب کو ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ اپنا گھر بنا بھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ اعلیٰ حکومتی شخصیت کے ایک قریبی سینیٹر نے بار بار الزام لگایا کہ چیف جسٹس نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرضہ لیا۔ جب ہمارے رپورٹر احمد نورانی نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ مگر ایسے کئی جھوٹ کچھ ٹی وی چینلز پر بار بار پیش کئے گئے تاکہ چیف جسٹس کو بدنام کیا جاسکے۔ ان تمام جھوٹوں کا پول ان شاءاللہ احمد نورانی بہت جلد عوام کے سامنے کھول کر رکھ دینگے۔

مگر یہاں سمجھنے کی یہ بات ہے کہ آخرکار افتخار محمد چوہدری سے ایسا کیا قصور سرزد ہوگیا کہ ہر طاقت ور اُن کا دشمن بن گیا۔ یہ تو وہ شخص ہے جس نے اس ملک کو آزاد عدلیہ دینے کا خواب شرمندہ¿ تعبیر کیا، جو تن تنہا کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف لڑ رہا ہے، جو 18-18 گھنٹے کام کرتا ہے تاکہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور لوگوں کو انصاف ملے، جس کو خریدا نہیں جا سکا اور جھکایا نہیں جا سکا، جو عوام کے لئے آخری امّید کی کرن بن کر ابھرا ہے، جس نے گم شدہ افراد کا معاملہ اٹھایا اور ملٹری سٹیبلشمنٹ تک سے ٹکر لے لی، جس کی کاوشوں سے اس قوم کا کئی سو ارب روپیہ لٹیروں کی جیبوں سے نکالا گیا یا لٹنے سے بچایا گیا۔ ایسے شخص کو سراہنے اور اس کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے مستقبل کو سنوارنے کی بجائے اس کے خلاف سازشوں پر سازشیں کی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس کا یہی جرم ہے کہ انہوں نے ”بڑے بڑوں“ سے ایکا کرنے کی بجائے عوامی فلاح اور ملکی مفاد میں ہر ”بڑے“ سے ٹکر لینے کی ٹھان لی۔
مگر اللہ نے اس شخص کو اگر ہر شر سے محفوظ رکھا تو آزمائشیں بھی خوب دیں۔ چیف جسٹس کی آزمائشوں کا حال سنیئے کہ ان کے بیٹے کو کرپشن کے جال میں پھنسایا گیا۔ پھنسانے والوں نے کوئی ایف آئی آر کٹوائی اور نہ حکومت نے کارروائی کی۔ سارا زور میڈیا ٹرائل پر تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کے خلاف نہ صرف سوموٹو نوٹس لیا بلکہ اسے اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ملک ریاض کے ارسلان کے خلاف الزامات مئی 2012ءمیں سامنے آئے مگر آج تک ارسلان افتخار کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے باپ کے گھر جا سکے۔ گزشتہ ماہ عید الفطر کے موقع پر بھی باپ بیٹا نہیں ملے۔ چیف جسٹس نے عید کوئٹہ میں منائی جبکہ ارسلان افتخار نے اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ یہ تہوار لاہور میں منایا۔ اگر بیٹے پر کرپشن کے الزامات ہوں یا وہ کرپٹ ثابت بھی ہوجائے تو کیا اس سے باپ بیٹے کا رشتہ توڑا جا سکتا ہے مگر ہم نے چیف جسٹس کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔
افتخار محمد چوہدری یقیناً کوئی فرشتہ نہیں مگر ان کے طاقت ور مخالف ان کے خلاف ابھی تک کوئی کیس بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مشرف نے سارا جہاں چھان مارا مگر پیٹرول کی پرچیوں سے آگے اسے کچھ نہ ملا۔ آج کے طاقت ور کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے بیٹے نے پیسہ کہاں سے کمایا۔ ان کی فیملی نے عام ٹکٹ لے کر پی آئی اے میں فرسٹ کلاس میں کیسے سفر کیا اور نجانے کیا کیا۔ بھئی بیٹے نے اگر غلط کیا تو اُسے پکڑو۔ اگر چیف جسٹس نے قانون کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف بھی ریفرنس لاؤ مگر یہ کیا کہ بس میڈیا کے ذریعے ”دھماکے“ پر ”دھماکا“ کئے جانا ہے، صرف اس لئے کہ افتخار محمد چوہدری کسی طاقت ور کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں اور یہی چیف جسٹس کا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ یہاں اپنے قارئین کے ساتھ ایک خبر بھی شیئر کرتا چلوں۔ ذرائع کے مطابق ارسلان کیس میں آئی ایس آئی کا نام آنے پر آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے ان خبروں کا سختی سے نوٹس لیا اور یہ احکامات دیئے کہ پاکستان کے اس پرائم انٹیلی جینس ادارے کو کسی بھی شخص کے مفاد کے لئے استعمال کرنے والے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہی ذرائع کے مطابق جنرل کیانی نے اپنے بھائیوں کے بھی کان کھینچے ہیں جو ان کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے تھے اور ان کو تنبیہ کی کہ وہ اپنے کاروباری معاملات میں صاف شفّاف رہیں۔ آئی ایس آئی کو تو کسی غیر قانونی کام سے باز رہنے کا سختی سے کہہ دیا گیا ہے مگر کوئی ہے جو اُن انٹیلی جینس اداروں کو دیکھے جو ججوں، صحافیوں اور دوسرے اہم لوگوں کے فون ریکارڈ کرکے پرائیویٹ طاقت ور افراد کو پہنچاتے ہیں۔

روزنامہ جنگ راولپنڈی

پیر, اگست 27, 2012

دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے...

قصہ مختصر…عظيم سرور

رمضان کا مبارک مہينہ اس سال بہت سي حسين ياديں چھوڑ کر رخصت ہو گيا۔ ان يادوں ميں بہت اچھے ٹي وي پروگراموں کي ياديں بھي ہيں جو جيو ٹي وي پر پيش کيے گئے۔ ان پروگراموں ميں ايک سادہ سا پروگرام وہ تھا جس نے ميرے دل اور ذہن ميں بہت سے چراغ روشن کرديئے۔ يہ پروگرام اسم محمد کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔ اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے مجھے ہر بار احساس ہوا کہ اس ميں قرآن پاک ميں اللہ تعالٰي کے فرمان ”ورفعنا لک ذکرک“ کي تفاسير پرنور رنگوں کي صورت ميں پيش ہورہي ہيں۔ ہر روز پروگرام ميں تين شرکاء اسم محمد کے ايک پہلو کو ذہن ميں رکھ کے خطّاطي کرتے اور خطوں اور رنگوں کے ذريعے اسم محمد کي رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں کو اجاگر کرتے۔

جيو ٹي وي پر يہ پروگرام ڈاکٹر محمد طاہر مصطفٰي پيش کررہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر نے اسماء النبي پر مقالہ لکھا اور لاہور کي ٹيکنالوجي يونيورسٹي کے اسلامي علوم کے شعبے سے ڈاکٹر کي ڈگري حاصل کي۔ ٹيلي وژن پر يہ پروگرام کرنے کا خيال ان کو اس طرح آيا کہ مغربي دنيا ميں شرپسند اور شيطان صفت لوگ پيغمبر اسلام کي بے ادبي کرتے ہوئے آئے روز اخباروں اور کتابوں ميں خاکے بناتے رہتے ہيں۔ ہم ان خاکوں پر احتجاج تو کرتے ہيں ليکن اس کا کوئي مثبت جواب نہيں ديتے۔ حال ہي ميں ايک شيطان صفت عورت نے انٹرنيٹ پر پيغمبر اسلام کي شخصيت پر خاکے بنانے کا مقابلہ کروايا ہے اور دنيا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اس خاص سائٹ پر اپنے يہ خاکے ارسال کريں۔ پہلے جو کام کسي ايک اخبار ميں کوئي ايک شخص کرتا تھا اب انٹرنيٹ پر وہ کام کئي افراد کررہے ہيں۔

اقبال نے کہا تھا، چراغ مصطفوي سے شرار بو لہبي ہميشہ جنگ جاري رکھے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں بھي لوگ ان کے اور ان کے پيغام کے دشمن تھے۔ ان کو کبھي جادوگر، کبھي مجنون، کبھي شاعر، کبھي ابتر کہہ کر پکارتے تھے۔ اللہ تعالٰي ان کي ہر ہر بار ترديد فرماتا تھا اور قرآن کي آيات ميں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات اور نام کي سربلندي کا حکم ديتا تھا۔ اللہ تعالٰي نے نبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرنے کا جو وعدہ فرمايا ہے وہ قيامت تک جاري رہے گا، اس عرصے ميں شيطان بھي اپني کارروائياں جاري رکھے گا ليکن اللہ کے بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شيدائي بھي اسم محمد کا پرچم بلند کرتے رہيں گے۔ اسم محمد کے اجالے سے دنيا کو منوّر کرتے رہيں گے اور اسم محمد کي رحمتوں کے رنگوں سے زمين کو سجاتے رہيں گے۔ جيو ٹي وي کا يہ پروگرام بھي اس کا حصّہ تھا۔ ڈاکٹر طاہر مصطفٰي نے خيال پيش کيا کہ ہم پاکستان کے لوگوں کو دعوت ديں کہ وہ آئيں اور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي شخصيت کے مختلف پہلوؤں کو ان کے ”اسماء“ کے رنگوں سے سجي خطّاطي کے ذريعے اجاگر کريں۔ بہت پہلے پاکستان کے نامور مصوّر صادقين نے سورة الرحمن کي آيات کي خطّاطي کرکے مصوّري ميں ايک باب کا اضافہ کيا تھا۔ ڈاکٹر طاہر نے کہا کہ کيوں نہ ہم اسمائے محمد کي خطاطي کے شہہ پارے پيش کرکے مغرب کے شيطان صفت لوگوں کے شر اور فساد کا مثبت اور پر نور جواب ديں۔ ان کا يہ خيال منظور ہوا اور رمضان کے پورے ماہ ميں انہوں نے ہر روز تين مصوّروں کو بلا کر ان سے يہ نور پارے تخليق کروائے۔

اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے ميں نے ہر بار سوچا کہ اس ماہ رمضان کا يہ تحفہ جاري رہنا چاہئے، لوگ اپنے نور پارے ساري دنيا سے ارسال کريں گے تو پوري دنيا کو پيغام جائے گا کہ اسم محمد کا اصل رنگ و روپ کيا ہے۔ الفاظ اور اسماء کي تاثير ہوتي ہے، ان ميں طاقت ہوتي ہے اور ان کے ارتعاش ميں پيغام ہوتا ہے۔ پھر جب نام محمد کي قوّت اس خوبصورت انداز ميں ساري دنيا ميں پھيل جائے گي تو پھر رحمت کے اثرات مرتّب ہونے لگيں گے اور دنيا ميں سلامتي کي فضاء پيدا ہونا شروع ہو جائے گي۔ اس پروگرام ميں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرنے والے اپني عقيدتوں اور محبتوں کے رنگ بھي جگائيں گے اور پھر اقبال کا وہ پيغام عملي صورت اختيار کر جائے گا جس ميں انہوں نے کہا تھا:

قوّت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر ميں اسم محمد سے اجالا کردے

بدھ, جون 27, 2012

امیر ہونے کا ایک کامیاب نسخہ

بھائی جان میں نے تین کروڑ بیس لاکھ روپے کی دوکان خرید لی ہے۔

جمعہ 26 جنوری کو جب شرجیل نے لاہور سے فون کیا تو اتنا جوش وخروش میں تھا کہ میرا حال احوال دریافت کرنا بھی بھول گیا۔ پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں؟
”کراچی میں‘‘ میں نے جواب دیا دو دن بعد لاہور پہنچوں گا۔

بولا ”لاہور پہنچتے ہی مجھے فون کیجئے گا‘‘ میں نے حامی بھر لی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کامیانی پر مجھے اطمینان قلب محسوس ہوا۔ دس سال قبل شرجیل نے ’’ایم ایس سی‘‘ کرلی تو خاندانی حالات کے باعث جاب یا بزنس اس کی شدید ضرورت تھی۔ شرجیل ایک روز کہنے لگا بھائی جان کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل بتائیں کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاؤں۔ میں نے توقف اور غوروخوض کے بعد کہا تین دن بعد میں اسلام آباد جارہا ہوں میرے ساتھ چلنا۔

اور پھر ہم بزرگ دوست ’’قاضی صاحب‘‘ کے پاس گئے۔ قاضی صاحب حکیم اور روحانی دانشور ہیں۔ قاضی صاحب کو مسئلہ بتایا تو بڑے اطمینان سے مسئلہ سنتے رہے۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی تو بولے شرجیل صاحب آپ حوصلہ مند دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دو کام کریں کوئی چھوٹا موٹا دھندا کرلیں اور دوسرا یہ کہ جو بھی کریں اس میں اللہ تعالٰی کو اپنے ساتھ بزنس پاٹنر بنالیں۔ شرجیل نے میری طرف اور میں نے شرجیل کی طرف دیدے پھاڑ کر دیکھا۔ قاضی صاحب نے سلسہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ”یہ کام مردوں کا ہے، صرف عزم با لجزم رکھنے والا مرد ہی کرسکتا ہے اگر کاروبار کے نیٹ پرافٹ میں پانچ فیصد اللہ تعالٰی کا شیئر رکھ کر اللہ تعالی کے بندوں کو دے دیا کریں اور کبھی بھی اس میں ہیرا پھیری نہ کریں تو لازماً آپ کا کاروبار دن رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا۔

واپسی پر لگتا تھا شرجیل اس پر عمل نہیں کرے گا لیکن اس نے کمال حیرت سے عمل کر دکھایا۔

مجھے یاد ہے یہ 1997 کا سال تھا ،اس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ تھا، اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، اُسی ایک ہزار روپے سے اس نے بچوں کے پانچ سوٹ خریدے اور انارکلی بازار میں ایک شیئرنگ سٹال پر رکھ دیے۔

دو دن میں تین سو روپے پرافٹ ہواتھا تین سو روپے میں سے اس نے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کی راہ میں دے دیئے تھے۔ پھر اور سوٹ خریدتا اور اصل منافع میں سے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کے نام کا شیئر مخلوق پر خرچ کرتارہا۔ یہ پانچ پرسنٹ بڑھتے بڑھتے چھ ماہ بعد 75 روپے روزانہ کے حساب سے نکلنے لگے یعنی روزانہ کی آمدنی تقریبا سات سو روپے ہوگئی ایک سال بعد ڈیڑھ سو روپے، تین سال بعد روزانہ پانچ پرسنٹ کے حساب سے تین سو روپے نکلنے لگے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تین سال بعد اسے روزانہ چھ ہزار بچنا شروع ہوگئے تھے۔ اب سٹال چھوڑ کر اس نے دکان لے لی تھی۔ جب فون آیا تو میرا پہلا سوال یہی تھا کہ اب روزانہ پانچ پرسنٹ کتنا نکل رہا ہے؟

اس نے بتایا کہ روزانہ ایک ہزار نکل آتا ہے جو خلق خدا پر خرچ کردیتا ہے۔ گویا اب آمدنی روزانہ بیس ہزار روپے ہے۔ یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ ”بزنس‘‘ میں اس نے آج تک بےایمانی نہیں کی۔

قاضی صاحب نے بتایا تھا کہ جس کاروبار میں اللہ تعالٰی کو پارٹنر بنالیا جائے یعنی اللہ تعالٰی کی مخلوق کا حصہ رکھ لیا جائے وہ ہمشہ پھلتا پھولتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کہ اندر تکبر نہ ہو ”عاجزی ہو‘‘۔ انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ کاروبار اتنا چل نکلتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب بندہ سوچتا ہے، میرا کافی روپیہ لوگوں میں مفت میں تقسیم ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ دولت مند بننے کا یہ نسخہ انہیں بزرگوں سے منتقل ہوا ہے اور کبھی بھی یہ نسخہ ناکام نہیں ہوا۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ
ہماری زبان میں اصطلاح ہے ”دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا‘‘۔ آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین افراد کا کیا وطیرہ ہے۔

51 سالہ ٹی وی میزبان ”اوہراہ دنفرے‘‘ ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی مالک ہے وہ سالانہ ایک لاکھ ڈالر بے سہارا بچوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتی ہے۔۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اٹلی کے سابق وزیراعظم ’’سلویا برلسکونی‘‘ اپنے ملک کے سب سے امیر اور دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ مشہور زمانہ فٹبال کلب ”اے سی میلان‘‘ انہی کی ملکیت ہے۔ وہ دس ارب ڈالر کے مالک ہیں، سالانہ تقریبا پانچ کروڑ ڈالر غریب ملکوں کو بھیجتے ہیں۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کمپیوٹر پرسنیلٹی ”بل گیٹس‘‘ اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ہیں ان کی دولت کا اندازہ 96 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، وہ اپنی آرگنائزیشن ’’بل اینڈ اگیٹس فاونڈیشن‘‘ کے پلیٹ فارم سے سالانہ 27 کروڑ ڈالر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔۔۔۔ دولت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ مشہورومعروف یہودی ”جارج ساروز‘‘ دس ارب ڈالر سے زائد کے مالک ہیں ہر سال دس کروڑ ڈالر انسانی فلاحی اداروں کو دیتے ہیں۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔

اور جہاں تذکرہ دولت وثروت کا ہوتو اس وقت مکمل نہیں ہوتا جب تک یہودی قوم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔

قارئین کرام کےلئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ صرف ایک کروڑ یہودی دنیا کی 60 پرسنٹ دولت کے مالک ہیں جب کہ چھ ارب انسان 40 پرسنٹ دولت پر تصرف رکھتے ہیں۔ نیز انٹرنیشنل پرنٹ اور میڈیا کے اہم ترین 90 پرسینٹ ادارے ان کے ہیں مثلاً آئی ایم ایف، نیویارک ٹائمز، فنانشل ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ریڈرزڈائجسٹ، سی این این، فاکس ٹی وی، وال سڑیٹ جرنل، اے ایف پی، اے پی، سٹار ٹی وی کے چاروں سٹیشن سب یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ شائد ہم میں سے چند ایک نے ہی اس بات پر غور کیا ہوکہ یہودیوں کی دن دوگنی رات چوگنی دولت بڑھنے کا راز کیا ہے؟

عقدہ یہ کھلا کہ ہزاروں سال سے یہ قوم اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ ہر یہودی اپنی آمدنی کا 20 پرسنٹ لازمی طور پر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے۔

پاکستان میں ایک مثال منشی محمد کی بھی ہے۔
آپ بہت غریب تھے، بڑی مشکل سے گزربسر ہوتی تھی ایک دن آپ نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی آمدنی کا 4 پرسینٹ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کروں گا۔

آپ بازار میں کھڑے ہوکر کپڑا بیچنے لگے اور باقاعدگی سے اپنے منافع کا 4 پرسینٹ اللہ کے بندوں پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے ایک پاور لوم لگالی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے فیکٹری کے مالک بن گئے۔ آپ نے اپنے منافع کے 4 پرسنٹ کو مستحق مریضوں پر خرچ کرنا شروع کردیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ منشی محمد نے چار کروڑ روپے کی لاگت سے منشی محمد ہسپتال لاہور بنا کرحکومت کے حوالے کردیا، اس ہسپتال کا افتتاح جرنل محمد ضیاء الحق نے کیا تھا۔

کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ اسلام کے زمانے میں دو بھائی تھے جنہیں ایک وقت کا کھانا میسرآتا تھا تو دوسرے وقت فاقہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن انہوں نے حضرت موسٰی علیہ اسلام کی خدمت میں عرض کیا، ’’آپ جب کوہ طور پر تشریف لے جائیں تو اللہ تعالٰی سے عرض کریں کہ ہماری قسمت میں جو رزق ہے وہ ایک ہی مرتبہ عطا کردیا جائے تاکہ ہم پیٹ بھر کر کھالیں‘‘ چنانچہ بارگاہ الہیٰ میں دعا قبول ہوئی اور دوسرے دن انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعے تمام رزق دونوں بھائیوں کو پہنچا دیا گیا۔

انہوں نے پیٹ بھر کر تو کھایا لیکن رزق خراب ہونے کے ڈر سےانہوں نےتمام رزق اللہ تعالٰی کے نام پر مخلوق خدا میں تقسیم کردیا۔ اگلے دن پھر ملائکہ کے ذریعے انہیں رزق مہیا کردیا گیا جو کہ شام کو پھر مخلوق خدا میں تقسیم کردیا گیا اور روزانہ ہی خیرات ہونے لگی۔

حضرت موسٰی علیہ اسلام نے باگاہ خداوندی میں عرض کیا۔۔۔۔ یا باری تعالٰی ان دونوں بھائیوں کی قسمت میں تو تھوڑاسا رزق تھا۔ پھر یہ روزانہ انہیں بہت سا رزق کیسے ملنے لگ گیا؟

ندا آئی اے موسٰی جو شخص میرے نام پر رزق تقسیم کررہا ہے اسے میں وعدے کے مطابق دس گنا رزق عطا کرتا ہوں۔ یہ روزانہ میرے نام پر خیرات کرتے ہیں اور میں روزانہ انہیں عطا کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’جو شخص میرے نام پر ایک درہم خرات کرتا ہے اس میں دس درہم عطا کرتا ہوں۔ جو ایک بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، اسے دس کا کھانا ملتا ہے۔ اپنے رزق کو بڑھاؤ گھٹاو نہیں‘‘۔

یہ شنید نہیں۔۔۔ دید ہے کہ اصل منافع میں سے پانچ فیصد ہمیشہ اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے والا بہت جلد دولت مند بن جاتا ہے۔