روزہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
روزہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ, اگست 15, 2012

قبل از وقت پیدائش کا روزے سے کوئی تعلق نہیں

ایک نئی طبی تحقیق کے مطابق قبل از وقت پیدائش کا روزے سے کوئی تعلق نہیں البتہ روزہ دار حاملہ خواتین کے بچوں کا وزن کچھ کم ہوسکتا ہے۔

لبنانی محققین کی اس تحقیق کی رپورٹ ایک بین الاقوامی طبی جریدے BJOG میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کے لیے لبنانی دارالحکومت بیروت کی چار سو حاملہ خواتین منتخب کی گئیں تھیں۔ ان میں سے نصف نے رمضان میں روزہ رکھا تھا اور بقیہ نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ دونوں گروپس میں 37 ہفتے سے قبل کے بچے کی پیدائش پر روزہ رکھنے یا نا رکھنے سے فرق نہیں پڑا۔

تحقیقی ٹیم کے نگراں پروفیسر انور ناصر کے بقول نتائج نے ایک مرتبہ پھر یہ واضح کردیا ہے کہ روزہ رکھنے سے قبل از وقت بچے کی پیدائش کا کوئی تعلق نہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ روزہ رکھنے والی خواتین کے بچوں کا وزن خاصا کم ہوتا ہے، کیونکہ روزہ رکھنے والی ماؤں کے جسم میں کیلوریز کم پہنچتی ہیں اور ان کا وزن عام دنوں کے مقابلے میں کم بڑھتا ہے۔ اس کا براہ راست اثر بچے پر پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق حاملہ خواتین کے پاس روزہ قضاء رکھنے کی سہولت موجود ہے۔ ناصر کے بقول اس کے باوجود روزہ رکھنے کی خواہشمند حاملہ خواتین ان سے پوچھتی ہیں کہ آیا وہ روزہ رکھ سکتی ہیں؟

روزے کے انسانی صحت پر پڑنے والے مختلف اثرات پر ماضی میں تحقیق ہوچکی ہے مگر حاملہ خواتین پر اس کے اثرات سے متعلق یہ کسی انگریزے جریدے میں چھپنے والی پہلی تحقیقی رپورٹ ہے۔ تحقیق کے مطابق اوسط بنیادوں پر روزہ دار حاملہ خواتین کے بچوں کا وزن تین کلو گرام جبکہ روزہ قضاء کرنے والی خواتین کے بچوں کا وزن تین اعشاریہ دو کلو گرام تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ روزہ رکھنے والی حاملہ خواتین کا وزن کم بڑھتا ہے۔ عمومی طور پر حاملہ خواتین کا وزن دو کلو تین سو گرام تک بڑھتا ہے جبکہ روزہ رکھنے والی حاملہ خواتین کا وزن ایک کلو چھ سو گرام تک بڑھا۔

قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی صحت پر مستقبل میں کیا اثرات پڑتے ہیں اس بارے میں کوئی ٹھوس بات نہیں کہی جاسکتی تاہم پروفیسر ناصر کے بقول یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے بچوں کو بڑے ہوکر عارضہ قلب ہوسکتا ہے۔ پروفیسر ناصر کے بقول حاملہ خواتین اور رمضان کے پہلو پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف موسم اور روزے کا دورانیہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ طبی سائنس کی اصطلاح میں حمل کے 37 ویں ہفتے سے قبل ہونے والی پیدائش کو بچے کی ’پری میچیور برتھ‘ یا قبل از وقت پیدائش کہا جاتا ہے۔

قبل از وقت پیدائش کا روزے سے کوئی تعلق نہیں

بدھ, اگست 08, 2012

سنکیانگ میں روزے پر پابندی

چین کے شہر کاشغر کی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ایغور مسلمان
چین کے نیم خود مختار مغربی صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں نے شکوہ کیا ہے کہ چینی حکومت نے ان پر رمضان کے مہینے میں بے جا پابندیاں عائد کردی ہیں اور انہیں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کی اجازت نہیں دی جارہی۔

واضح رہے کہ صوبے کے کئی سرکاری دفاتر اور سکولوں کی ویب سائٹوں پر گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے ایک سرکاری بیان میں حکمران جماعت ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے ارکان، سرکاری ملازمین، طلبہ اور اساتذہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ رمضان میں روزے رکھنے اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں شرکت سے اجتناب برتیں۔

چینی حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ پابندی عوام کی صحت کو درپیش خطرات کے پیشِ نظر عائد کی گئی ہے۔ حکام کے بقول وہ علاقے کے رہائشیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں کہ وہ ”اپنی ملازمتوں اور تعلیم کی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کرنے کی غرض سے مناسب خوراک استعمال کریں“۔
واضح رہے کہ چین کے اس دور دراز صوبے میں مسلمانوں سمیت کئی نسلی اقلیتیں موجود ہیں اور ایغور نسل کے مسلمان صوبے کی آبادی کا لگ بھگ 45 فی صد ہیں۔

سنکیانگ کی ایک مسجد میں قرآن کی تعلیم
 جلاوطن ایغور باشندوں کی تنظیم ’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے ترجمان دلشاد رسیت نے چند روز قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ سنکیانگ کی مقامی حکومت نے رمضان کے دوران علاقے میں سیکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے کی غرض سے کئی نئے منصوبے شروع کیے ہیں۔

دلشاد رسیت کے مطابق ان منصوبوں کے تحت سیکیورٹی اہلکاروں کو مساجد کی نگرانی کے علاوہ سرکاری سطح پر تقسیم کیے جانے والے مذہبی لٹریچر، نجی طور پر شائع ہونے والے کتب و رسائل کی ضبطی کے لیے گھروں کی تلاشی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے خطے کی مساجد میں نمازیوں کی ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے عہدیداران کے ساتھ ”فکری نشستوں“ کی منظوری بھی دی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں

ہفتہ, جولائی 14, 2012

روزہ کے واجبی آداب

1) نماز با جماعت: 
واجبی آداب یہ ہیں کہ روزہ دار تمام ان قولی و فعلی عبادات کو بجا لائے جنہیں اس کے اوپر اللہ تعالٰی نے واجب قرار دیا ہے، ان میں سب سے اہم فرض نمازیں ہیں جو شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے زیادہ تاکیدی رُکن ہے، لہذا ضروری ہے کہ روزہ دار اس پر محافظت اور ارکان و واجبات و شرطوں کے ساتھ اس کی ادائیگی کا اہتمام کرے۔ وقت کی پابندی کے ساتھ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھے کیونکہ باجماعت نماز یہ اس تقوی کا ایک حصہ ہے جس کے لئے روزہ مشروع اور فرض کیا گیا ہے، برخلاف اس کے نماز کو ضائع کرنا تقوٰی کے منافی اور عذاب الٰہی کا سبب ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ’’پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا‘‘۔ (سورۃ مریم : ٥٩)

ان پر واجب ہونے کے باوجود بعض روزہ دار باجماعت نماز کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالٰی نے اس کا حکم دیا ہے: ”وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ۔۔۔۔۔۔“  ’’جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو، پھر یہ سجدہ کرچکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں ..........‘‘ (النساء : ١٠٢)

ذرا سوچیں کہ جب اللہ تعالٰی نے حالتِ حرب و خوب میں (جنگ کی حالت میں) باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو امن و اطمینان کے حالت میں تو بدرجہ أولی اس کا حکم ہوگا، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلّم، مسجد تک لانے کے لئے کوئی میرا مدد گار نہیں ہے اس لئے آپ مجھے گھرمیں نماز پڑھنے کی رخصت دے دیجئے (آپ صلی اللہ علیہ سلّم نے اولاً تو رخصت دے دی) لیکن جب وہ جانے لگے تو آپ نے انہیں واپس بلایا اور سوال کیا: ھل تسمع النداء، ”کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟“ انہوں نے جوا ب دیا ہاں، اذان کی آواز سنتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”فأجب“ ”تب تو اس کا جواب دو (یعنی مسجد میں حاضری دو)“۔ (صحیح مسلم : ٦٥٤)

اسی طرح باجماعت نماز کی بڑی فضیلت بھی بیان کی گئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے ”باجماعت نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ ثواب رکھتا“۔ (صحیح بخاری : ٦٤٥، مسلم : ٦٥٠)

اسی طرح باجماعت نماز چھوڑنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منافقین کی صف میں شامل فرمایا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ”اقامت کا حکم دوں اور جماعت چھوڑنے والوں کو ان کے گھروں سمیت جلا دوں“۔ (بخاری : ٦٥٧، مسلم : ٦٥١)

2) جھوٹ سے پرہیز:
روزے کے واجبی آداب میں یہ بھی داخل ہے کہ روزہ دار ایسے تمام اقوال وافعال سے پرہیز کرے جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا، چنانچہ جھوٹ سے پرہیز کرے (واقع کے خلاف خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں) اور سب سے بڑی جھوٹ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنا ہے جیسے کسی حرام کام کی حلّت اور حلال کام کی حُرمت کی نسبت اور اس کے رسول کی طرف کرنا، ارشاد باری تعالٰی ہے: ”وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ“ ”کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالٰی پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے“ (النحل : ١١٦)

3) غیبت سے پرہیز:
روزہ دار کو غیبت سے بھی پرہیز کرنا چاہئے، اپنے بھائی کی ناپسندیدہ بات عیب کو اس کے پیٹھ پیچھے بیان کرنا غیبت ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کاارشاد ہے: ”تو اپنے بھائی کا عیب بیان کررہا ہے اگر اس میں پایا جارہا ہے تو یہی تو غیبت ہے اور اگر اس کا عیب جو بیان کررہا ہے وہ اس میں نہیں ہے تو، تو نے اس پر بہتان باندھا ہے“۔ (الترمذی : ١٥٧٨)

4) چُغل خوری سے پرہیز:
روزہ دار کو چاہئے کہ چغل خوری سے پرہیز کرے۔ چغل خور ی یہ ہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے شخص تک فساد و اختلاف کی غرض سے پہنچائی جائے۔ چغل خوری گناہ کبیرہ ہے، اس سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: ”لا یدخل الجنة نمام“ ”چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا“ (بخاری : ٦٠٥٦، مسلم : ١٠٥)

5) دھوکہ دہی سے پرہیز:
روزہ دار کو چاہئے کہ خرید و فروخت، پیشہ مزدوری اور رہن وغیرہ جیسے معاملات میں دھوکہ دہی سے بچتا رہے اور ہر مشورہ اور نصیحت طلبی کے وقت بھی دھوکہ دہی سے پرہیز کرے، کیونکہ دھوکہ دینا کبیرہ گناہ ہے، دھوکہ دینے والے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے براء ت کا اظہار کیا ہے چنانچہ آپ نے فرمایا: ”من غشنا فلیس منا“ ”جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں“ حدیث ان الفاظ میں بھی مروی ہے کہ ’’من غش فلیس منی‘‘ ”جس نے دھوکہ دیا وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے“۔ (صحیح مسلم : ١٠٢)

6) گانا بجانا:
روزہ دار کو چاہئے کہ گانے بجانے کے آلات سے پرہیز کرے، لہو ولعب کے تمام آلات خواہ وہ سارنگی ہو، رباب ہو، دو تارو ستار ہو، یا بانسری و کمان، سب کے سب حرام ہیں اور اگر اس کے ساتھ سُریلی آواز میں گیت اور جذبات کو ابھارنے والے گانے ہوں تو ان کی حرمت و قباحت اور بڑھ جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ‘‘ ”اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے“۔ (لقمان : ٦)