اسلامی آداب زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسلامی آداب زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل, اکتوبر 08, 2013

اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے



اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
مسلمان بھائیو اور بہنو یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات ہم تک بہت صحیح حالت میں پہنچی ہیں، قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین مبارک نہایت ذمہ داری سے بیان کئے گئے ہیں۔ اس لئے ہم پر دین کی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ وہ ایسے کہ چونکہ ہم تک دین بہت اچھی حالت میں پہنچا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے علماء سے رجوع کرنا بہت آسان ہے، دین سیکھنے کے لئے جتنے ذرائع اس وقت ہمیں میسر ہیں چند سال پہلے اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ٹیلی فون، انٹرنیٹ، ٹی وی، ریڈیو الغرض بے شمار ذرائع سے ہم دین کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور اس پر عمل کر سکتے ہیں اور اس پر کچھ زیادہ خرچ بھی نہیں ہوتا۔

کیبل کے لئے ہر مہیہ 3 سے 5 سو روپے تک اپنی رضا سے دے دیتے ہیں تو دین کا علم حاصل کرنے کے لئے اگر اس سے دو گنا بھی دینا پڑیں تو یہ ہمارے فائدہ کے لئے ہی ہے۔

قیامت کے روز ہمارے پاس یہ عذر نہیں ہوگا کہ قرآن، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور دین کی تعلیمات سے نا آشنا رہ گئے تھے۔ شاید اس وقت اس قسم کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اللہ کا دین سیکھیں اور اللہ کے احکامات پر عمل کریں۔ جب تک ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں یہ معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے سہولیات ہونے کے باوجود دین سیکھا نہ ہی کوشش کی۔ اللہ کے نزدیک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں، اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوگی، جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ لیکن ہم نے اس چند سال کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور روز و شب میں ایسے مصروف رہتے ہیں ابدی زندگی کا ہمیں احساس ہے نہ ہی اللہ سے ملاقات کی تیاری کی فکر ہے۔ ہم اپنے اصل راستے سے غافل ہو گئے ہیں۔ اللہ نے تو ہمیں دنیا میں اپنی عبادت کے لئے بھیجا ہے لیکن ہم کام کرتے ہوئے نماز بھی ادا نہیں کرتے۔ حالاں کہ رمضان میں ہم یہی کام چھوڑ کر نماز انتہائی آسانی سے ادا کر لیتے ہیں اور ہمیں کام کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، کبھی کام کا حرج نہیں ہوا لیکن رمضان گزرتے ہی ہم نماز کی ادائیگی جان بوجھ کر ترک کر دیتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیگر کاموں کو پورا پورا وقت دیتے ہیں اس نسبت ہم اپنی اخروی فلاح کے لئے بالکل وقت نہیں نکالتے اور غفلت کا شکار ہیں۔ شاید ہم جن کاموں کو آج زیادہ وقت دے رہے یہں انہی کی وجہ سے آخرت میں ہم سے سوال جواب ہوگا اور ہماری پکڑ ہوگی اور حساب کتاب میں زیادہ وقت لگے گا۔ اپنی مصروفیات کم کرنے کی کوشش کریں اور قرآن کی تلاوت کے لئے وقت نکالیں اور دین کی کتابوں میں وقت صرف کریں اور اللہ کی طرف گھر والوں کو بلائیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔

أَشْهَدُ أَنْ لّا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
اللہ معاف کرنے والا ہے، اللہ سے ڈریں اور اپنے گناہوں کی توبہ کریں اور اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں، نماز ادا کریں، حلال رزق کمانے کی کوشش کریں، حرام کمائی اور حرام کاموں سے بچیں، دوسروں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ قرآن میں اللہ نے واضح فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے روز ذرہ برابر نیکی اور ذرہ برابر بدی کا حساب ہوگا۔ اس سے اندازہ کریں وہ وقت کتنا سخت ہوگا اور ہم سے تو شاید زیادہ سختی سے حساب کتاب ہوگا کیوں کہ ہمارے پاس اللہ کی تعلیمات بہت صحیح حالت میں پہنچی ہیں اور دین کی تعلیمات سیکھنے اور جاننے کے لئے ہر قسم کے ذرائع بھی ہمیں بہت آسانی سے میسر ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم اللہ کی نافرمانی کریں گے تو یقیناً معاملہ آسان نہیں ہوگا۔

آیئے اللہ سے دعا کرتے ہیں؛
اے اللہ ہماری مدد فرما کہ ہم نیک بنیں اور تیری رضا کے کام کریں، اے اللہ ہم شیطان مردود سے تیری پناہ مانگتے ہیں اور ہر برائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں، اے اللہ ہماری مدد فرما ہم پر رحم فرما، اے اللہ ہم پر رحم فرما، اے اللہ ہم پر رحم فرما. اے اللہ قیامت کے دن ہم پر سختی نہ کرنا ہم کمزور ہیں، ہمیں بخش دے اور ہماری لغزشیں معاف فرما، ہمارے کبیرہ اور صغیرہ گناہ معاف فرما۔ آمین ثم آمین۔

ہفتہ, دسمبر 22, 2012

لڑکیوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے

ایک طرف سستے کیمرہ فونز کی دستیابی اور اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے نوجوانوں میں کسی گمبھیر صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے عدم آگہی، نتیجتاً ایسے مسائل کا سامنا جن کا خاص طور پر وہ لڑکیاں تصور بھی نہیں کرسکتیں، جو اپنے دوستوں کو نجی لمحات کی وڈیوز یا تصاویر بنانے کی با آسانی اجازت دے دیتی ہیں۔

ہم نے ماضی میں بھی اس حوالے سے ایک تحریر پیش کی تھی، جس میں لڑکیوں سے التجا کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی فرد کو، چاہے وہ اُن کا دوست، کزن، رشتہ دار اور خاندان ہی کا فرد کیوں نہ ہو، اپنی تصاویر لینے یا وڈیو بنانے کی اجازت نہ دیں۔ کسی کو بھی نہیں، حتیٰ کہ اپنے منگیتر اور شوہر کو بھی۔ اسی طرح کا معاملہ ایم ایم ایس کا بھی ہے، اپنی نجی تصاویر اور وڈیوز کبھی کسی کو نہ بھیجیں۔

اس پر سختی سے عمل نہ کرنے یا لاپرواہی بہت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ وجہ: یہ جان لیں‌ کہ موبائل فون یا میموری کارڈ سے ڈیلیٹ کی گئی وڈیوز اور تصاویر نکالی جا سکتی ہیں اور کسی غلط ہاتھ میں بھی جا سکتی ہیں۔ یہ بات اپنے پلّو سے باندھ لیں کہ کسی بھی شخص کو اپنے نجی لمحات ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دینی۔ اور اس پر سختی سے کاربند رہیں، چاہے اس کا آپ کے رشتہ و تعلقات پر اثر کیوں نہ پڑے۔

ہمیں اپنے اہل خانہ اور دوستوں، خصوصاً گاؤں دیہات میں رہنے والے افراد میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ شاید اس موضوع پر براہ راست گفتگو کرنا موزوں نہ لگے، یا پھر اس قدر آسان نہ ہو، لیکن اس کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایسے مضامین کے لنکس اُن کو ای میل کریں جن میں نجی وڈیوز کی تباہ کاریوں کی وضاحت کی گئی ہو اور یوں وہ خود اُن کے نتائج پڑھیں۔

اے آر وائی نیوز نے حال ہی میں اس حوالے سے ایک پروگرام کیا تھا، جس میں اک ایسی لڑکی کو مدعو کیا گیا تھا، جس کی وڈیو بنا کر دوست نے بلیک میل کیا تھا اور یوں لڑکی کو اس کے تمام شیطانی احکامات ماننا پڑے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا شخص بھی پروگرام میں آیا جس کی لڑکی نے انہی وجوہات کی بناء پر خود کشی کر لی تھی۔

اس وڈیو کو خود دیکھئے اور اسے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ شیئر کیجیے
ویڈیو دیکھنے کے لئے کلک کریں

جمعرات, نومبر 15, 2012

ہیمبرگ میں مسلم تقریبات پر تعطیل

جرمن شہر ہیمبرگ کے میئر اولاف شتولتس نے مسلم برادری کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس کے تحت کچھ مسلم تقریبات تعطیل قرار دی جائیں گی، جرمن اخبار ”ویلٹ“ نے لکھا۔ مسلم تقریبات کے موقع پر ہیمبرگ میں رہنے والے مسلمانوں کو تین روزہ چھٹی دی جائے گی۔ یہی روایت کچھ عیسائی تقریبات کے لئے موجود ہے۔

مزید برآں مذکورہ سمجھوتے کے مطابق سکولوں میں اسلامی مذہب کے بارے میں تعلیم دینے کی اجازت دی گئی۔ اپنی طرف سے مسلمانوں کو خواتین اور حضرات کے درمیان مساوی حقوق سمیت اہم ترین انسانی حقوق کی حمایت کرنی ہوگی۔

ہیمبرگ کی پارلیمنٹ کو اس سمجھوتے کو منظوری کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ہیمبرگ کی اٹھارہ لاکھ باشندوں میں سے ایک لاکھ اسی ہزار مسلمان ہیں۔

جرمن شہر ہیمبرگ میں مسلم تقریبات تعطیل قرار دی گئیں

ہفتہ, نومبر 03, 2012

اقبال، قائد اعظم اور غازی علم دین

حامد میر
hamid.mir@janggroup.com.pk
 
 بہت سے نوجوان پوچھتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے برطانیہ اور جرمنی کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی پھر اُن کے دل میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ ایک طالب علم نے ای میل کے ذریعہ پوچھا ہے کہ کچھ دانشوروں کے خیال میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک سیکولر پاکستان کے حامی تھے اگر پاکستان کو سیکولر بنانا تھا تو پھر ہندوستان تقسیم کیوں کیا گیا کیونکہ انڈین نیشنل کانگریس بھی تو سیکولر جماعت تھی؟ یہ دُرست ہے کہ اقبال اور قائد اعظم نے یورپ میں تعلیم حاصل کی، دونوں ابتداء میں متحدہ ہندوستان کے حامی تھے لیکن یہ دونوں انڈین نیشنل کانگریس سے مایوس ہو گئے تھے۔ پاکستان کیوں بنایا گیا اور کیسے بنایا گیا؟ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ بہت کم محققین نے 31 اکتوبر 1929ء کو پیش آنے والے ایک اہم واقعے پر توجہ دی ہے جس نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی شخصیت اور نظریات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ واقعہ تھا غازی علم دین کی پھانسی۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ علامہ اقبال نے غازی علم دین کی شہادت کے تقریباً ایک سال کے بعد 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد کے ذریعہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کا خیال کیوں پیش کیا؟
غازی علم دین 4 دسمبر 1908ء کو کوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا خاندان فرنیچر سازی سے منسلک تھا۔ اُن کے والد طالع مند لاہور کے علاوہ کوہاٹ میں بھی فرنیچر سازی کرتے رہے۔ غازی علم دین اپنے والد کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ وہ بالکل غیرسیاسی اور سادہ سے نوجوان تھے۔ 1927ء میں لاہور کے ایک ہندو پبلشر راج پال نے قرآن پاک کے خلاف ایک کتاب ستیارتھ پرکاش شائع کی۔ مسلمانوں نے اس کتاب کی اشاعت پر بہت احتجاج کیا لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی بلکہ کچھ عرصے کے بعد راج پال نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ایک کتاب شائع کر دی جس میں امہات المومنین کے بارے میں نازیبا باتیں لکھی گئی تھیں۔ مسلمانوں نے راج پال کے خلاف قانونی کارروائی کی بہت کوششیں کیں لیکن برطانوی سرکار یہ کہہ کر معاملہ ٹالتی رہی کہ قانون میں گستاخ رسول کے خلاف کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ 24 ستمبر 1927ء کو یکی دروازہ لاہور کے ایک کشمیری نوجوان خدا بخش نے گستاخ رسول پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن راج پال بچ نکلا۔ 19 اکتوبر 1927ء کو غزنی کا ایک نوجوان عبدالعزیز لاہور آیا اور اُس نے راج پال پر حملہ کیا لیکن ہندو پبلشر پھر بچ گیا۔ اُسے پولیس کا ایک حفاظتی دستہ مہیا کر دیا گیا اور اب وہ سرکاری سرپرستی میں اپنا مذموم کاروبار کرنے لگا۔ اس نے اپنی کتابوں کی قیمتیں کم کر دیں کیونکہ کئی سرمایہ دار ہندو اُس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے تھے۔ غازی علم دین کو راج پال کی گستاخیوں کا علم ہوا تو انہوں نے خاموشی سے اُسے جہنم واصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 6 اپریل 1929ء کو غازی علم دین نے راج پال کو ہسپتال روڈ لاہور پر واقع اُس کی دکان میں گھس کر خنجر سے قتل کر دیا۔ غازی علم دین نے فوراً اقرار جرم کر لیا اور اپنے خاندان سے کہا کہ اُن کے مقدمے کی پیروی نہ کی جائے کیونکہ وہ شہادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور کے ایک نامور وکیل فرخ حسین نے رضاکارانہ طور پر غازی علم دین کی وکالت شروع کر دی لیکن سیشن کورٹ نے 22 مئی 1929ء کو غازی علم دین کے لئے سزائے موت سنا دی۔ یہ وہ موقع تھا جب قائد اعظم نے غازی علم دین کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالت میں مو¿قف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرنا اور عوام میں نفرت پھیلانا زیر دفعہ 135 الف جرم ہے لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی اُس نے غازی علم دین کو اشتعال دلایا لہٰذا غازی علم دین کے خلاف زیردفعہ 302 قتل عمد کی بجائے زیر دفعہ 308 قتل بوجہ اشتعال کارروائی کی جائے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شادی لال نے اپیل مسترد کر دی اور غازی علم دین کو پھانسی کے لئے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1929ء کو غازی علم دین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور لاش اُن کے خاندان کے حوالے نہیں کی گئی۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علی خان نے بہت اہم کردار ادا کیا اور غازی علم دین کے جسد خاکی کو لاہور لانے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی۔ آخرکار غازی علم دین کا جسد خاکی بذریعہ ٹرین لاہور لایا گیا۔ مستند روایات کے مطابق غازی علم دین کے جنازے میں چھ لاکھ سے زائد مسلمان شریک تھے۔ بھاٹی چوک لاہور سے لے کر سمن آباد تک لوگ ہی لوگ تھے۔ غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبال اور سیّد دیدار علی شاہ جیسے بزرگوں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی علم دین کو لحد میں اُتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔ یہی وہ موقع تھا جب اقبال کے منہ سے بھی نکلا کہ ہم تو دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔
 
غازی علم دین کی پھانسی اور پھر اُن کے عظیم الشان جنازے نے برصغیر کے مسلمانوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ہندو اخبار ”پرتاپ“ نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کو غازی علم دین کی حمایت کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1933ء میں آریہ سماج نامی تنظیم کے سیکرٹری نتھو رام نے بھی اسلام کے بارے میں ایک گستاخانہ کتاب کراچی سے شائع کر دی۔ اس مرتبہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کی بے چینی روکنے کیلئے نتھو رام کی کتاب ضبط کر لی اور اسے ایک سال قید کی سزا دی۔ نتھو رام نے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور رہا ہو گیا۔ ہزارہ کا ایک نوجوان عبدالقیوم کراچی میں وکٹوریہ گاڑی چلایا کرتا تھا۔ اس نے 1934ء میں نتھو رام کا پیچھا شروع کیا۔ ایک دن نتھو رام اپنی ضمانت کنفرم کرانے عدالت میں آیا تو عبدالقیوم نے بھری عدالت میں اُس پر خنجر کے وار کئے اور اُسے قتل کر دیا۔ عبدالقیوم گرفتار ہو گیا اور اُس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے رسول کی شان میں گستاخی کرنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ عبدالقیوم کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی۔ کراچی کے مسلمانوں کا ایک وفد لاہور آیا اور علامہ اقبال سے درخواست کی کہ عبدالقیوم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرایا جائے۔ علامہ اقبال نے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ اگر عبدالقیوم خود کہتا ہے کہ اُس نے شہادت خریدی ہے تو میں اُس کے اجر و ثواب کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنوں؟ اسی تناظر میں علامہ اقبال نے یہ اشعار بھی کہے

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے؟ فقط عالم معنی کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔ کیا قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر میں عشق رسول سب سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں؟ علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں کو کانگریس کے حامی مسلمان علماءکی مخالفت اور فتووں کا سامنا تھا لیکن حرمت رسول کےلئے جو کردار غازی علم دین شہید سے لے کر علامہ اقبال نے ادا کیا وہ کئی علماء کے حصے میں نہ آیا۔ آج جو لوگ اقبال اور قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بتائیں کہ کیا اُن کے سیکولرازم میں غازی علم دین کی حمایت کی گنجائش موجود ہے؟ پاکستان اسی لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو تحفظ حاصل ہو اور اسی لئے پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ بھی کیا اور توہین رسالت کا قانون بھی منظور کیا۔ یہ بھی طے ہے توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال قطعاً نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں سیرت رسول کی پیروی کرنی چاہئے۔ اقبال نے کہا تھا

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اِسم محمد سے اُجالا کر دے


روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

جمعہ, نومبر 02, 2012

فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے

بالی ووڈ ایکٹر عامر خان کے بارے میں ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ جو کام بھی کرتے ہیں لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔ فلمی دنیا کے مسٹر پرفیکٹ ان دنوں حج کے ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔۔۔ ابھی وہ وہاں پہنچے بھی نہیں تھے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ان کے تذکرے زور شور سے شروع ہوگئے۔۔۔

یہاں تک کہ ممبئی ائیر پورٹ پر وہ اپنی والدہ کو لے کر کس طرح جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز کی کش نشست پر کس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اس تک کی تصویریں انٹرنیٹ پر ساتھ ساتھ اپ لوڈ ہوتی اور دنیا بھر میں دیکھی جاتی رہیں۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پوسٹ ہونے والی ان کی تصویروں سے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ انہوں نے مدینہ پہنچ کر پاکستانی کھلاڑی شاہد آفریدی اور ایک دینی مفکر مولانا طارق جمیل سے بھی ملاقات کی ۔

مسٹر پرفیکٹ۔۔ فلمی دنیا میں تو پرفیکٹ ہیں ہی ۔۔ حج کے دوران اپنی ماں کے روبرو بھی انہوں نے خود کو ”پرفیکٹ بیٹا“ ثابت کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔۔۔۔ حج کی ادائیگی کے دوران انہوں نے اپنی والدہ کی خوب لگن اور محنت کے ساتھ ایسی خدمت کی کہ دیکھنے والے بھی کہہ اٹھے۔۔ ”بیٹا ہو تو عامر خان جیسا“۔

اس حوالے سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی صحافی شاہد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حج کے تمام مناسک کی ادائیگی کے دوران عامر خان ناصرف اپنی والدہ کی وہیل چیئرخود چلاتے رہے بلکہ انہوں نے مناسک کی ادائیگی میں والدہ کی سہولت اور آرام کا ہر طریقے سے خیال رکھا۔

حد تو یہ کہ عرفات سے منٰی کے دوران شدید ٹریفک جام ہونے کے سبب انہوں نے باقی تمام حاجیوں کی طرح سات کلومیٹر کا طویل سفر پیدل اور اپنی والدہ کی وہیل چیئر دھکیلتے ہوئے طے کیا۔

الخالد ٹورز کے نگراں یوسف خیرادہ کے مطابق تمام مناسک حج کی ادائیگی کے دوران عامر خان پرجوش اور خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔ وہ اپنی والدہ کی خدمت پر پوری طرح مطمئن تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ کے لئے مزدلفہ میں جمرات کے لئے خود کنکریاں جمع کیں۔ اپنے ہونہار بیٹے کی خدمات سے عامرخان کی والدہ بھی خوش تھیں۔

عامر خان نے حج انتظامات کے لئے سعودی حکومت کے اقدامات کو سراہا۔

عامر خان۔۔۔ فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے

بدھ, اکتوبر 31, 2012

بہلول کی باتیں

کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: ”تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟“

لوگوں نے کہا: ”حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟“

شیخ نے جواب دیا: ”ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔“

مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: ”تم کون ہو؟“

”میں ہوں جنید بغدادی۔“

”تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟“

”جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔“

”اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟“

”کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔“

پھر دوبارہ کہا: ”جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔“

یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: ”تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔“

یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: ”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔“

”ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔“

بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: ”کون ہو تم؟“

”میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔“

بہلول نے کہا: ”خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟“

شیخ نے جواب دیا: ”جی ہاں جانتا تو ہوں۔“

”تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟“

”میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہوجائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔“ اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔

بہلول نے کہا: ”کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمہیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔“ پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: ”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟“

”بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔“ اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: ”تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہوگا؟“

شیخ نے کہا: ”جی ہاں! معلوم ہے۔“

”اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟“

”جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔

بہلول نے کہا: ”معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔“

یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: ”اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔“

کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: ”میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہوجائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔“

شیخ جنید نے بےساختہ کہا: ”جزاک اللہ خیرأً۔“ (اللہ تمہارا بھلا کرے)

پھر بہلول نے بتایا: ”گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہوگی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔“

پھر سونے کے متعلق بتایا: ”اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔“

بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

بہلول کی باتیں

جمعہ, ستمبر 07, 2012

امریکہ: فوجی کی داڑھی منڈوانے کا حکم

امریکہ میں ایک فوجی عدالت نے بری فوج کے ایک مسلمان میجر کو مقدمے میں حکم دیا ہے کہ وہ اپنی داڑھی منڈوا دیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ وہ اگر ایسا نہ کریں تو ان کی داڑھی زبردستی مونڈھ دی جائے کیونکہ یہ فوج کے ضابطوں کے خلاف ہے۔

میجر ندال حسن پر الزام ہے کہ انہوں نے 2009 میں امریکی ریاست ٹیکساس کے فوجی اڈے فورڈ ہڈ میں فائرنگ کرکے 13 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کردیا تھا۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ میجر ندال حسن کی داڑھی کی وجہ سے عینی شاہدین کو انہیں پہچانے میں دقت ہورہی ہے۔ ملزم میجر ندال حسن کے وکلاء کا موقف ہے کہ داڑھی ان کے مذہب، اسلام، کی عکاسی کرتی ہے اور چونکہ انہیں اپنی موت کا پہلے سے احساس ہے اور انہیں یقین ہے کہ داڑھی کے بغیر موت ایک گناہ ہوگا۔ ان کے مطابق زبردستی ان کی داڑھی منڈوانا ان کے حقوق کی پامالی ہوگي۔‘

جج نے اپنے حکم میں کہا کہ ملزم ندال حسن یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ انہوں نے داڑھی مذہبی عقیدے کی وجہ سے بڑھا رکھی ہے۔

امریکہ: فوجی کی داڑھی منڈوانے کا حکم

’ایم ٹی وی سے مکہ تک‘

کرسٹیان بیکر اس کتاب کی مصنف ہیں
اگر یہ کہا جائے کہ کرسٹیان بیکر مغرب میں اسلام کا ایک ایم ٹی وی ورژن پیش کررہی ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ایم ٹی وی یورپ میں مغربی انداز کی مقبول عام موسیقی کا ایک سلسلہ چلا رہی ہے۔ ان کی کتاب ’فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ‘ اگرچہ تین برس قبل شائع ہوئی تھی مگر برطانیہ کے کچھ مسلم حلقوں نے اس کتب کی تعارفی تقریب کا انعقاد گذشتہ روز برطانوی پارلیمان کے ایک کمیٹی روم میں کیا۔

اس تقریب میں ’فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ‘ کا تنقیدی جائزہ خود کرسٹیان بیکر نے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب میں انھوں نے اسلام کی وہ شکل پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعے مغرب میں اس مذہب کے بارے میں پھیلے ہوئے غلط تاثرات ختم ہوسکیں۔ ان کی کتاب میں مواد کتنا ٹھوس ہے یہ ایک الگ بات ہے مگر ان کا انداز بیاں بہت ہی جاذب ہے۔

کرسٹیان بیکر جن کا اصل وطن جرمنی ہے، انیس سو پچانوے میں مسلمان ہوئی تھیں جس کے بعد، بقول ان کے، انھیں آہستہ آہستہ ایم ٹی وی کے اینکر پرسن کی پوزیشن سے برطرف کردیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جرمنی میں انھیں کافی تعصب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب وہ اپنے لندن کا شہری ہونے پر فخر کرتی ہیں۔

کرسٹیان بیکر اپنے وقت میں نوجوان نسل کی مقبول اینکر پرسن تھیں جو مغربی موسیقی کی دلدادہ تھیں۔ ان کے بقول وہ شاید اندر سے ہمیشہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتی تھیں مگر اس کا احساس انھیں کافی عرصے کے بعد ہوا۔ ان کے مطابق، وہ دنیا میں روحانیت کی تلاش میں نکلیں اور اسلام کے تصوف سے متاثر ہوئیں جو محبت کا بہترین درس دیتا ہے۔

انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کا اسلام سے پہلا تعارف انیس سو بانوے میں اس وقت ہوا جو وہ پاکستان کے اس وقت کے کرکٹ کی دنیا کے سٹار عمران خان کے ساتھ پہلی مرتبہ ڈیٹ پر گئی تھیں۔

اپنی ایم ٹی وی کے دنوں کی مسکراہٹ کے ساتھ جب وہ مکہ کے سفر کا ذکر کرتی ہیں تو ان کے مداح مسلمان اور خاص کر پاکستان کے مسلمان انھیں اسلام کا مغرب میں ’گڈ ول ایمبیسیڈر‘ (خیر سگالی کا سفیر) قرار دیتے ہیں۔ کرسٹیان بیکر صرف مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتی ہیں اسی وجہ سے وہ کسی بھی متازع موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

کرسٹیان بیکر حجاب نہیں پہنتی ہیں تاہم وہ حجاب پہنے والی مسلمان خواتین کے لباس کے حقِ انتخاب کی آزادی کا دفاع کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام میں مخصوص قسم کے حجاب کا حکم نہیں ہے بلکہ ایک مہذب لباس پہننے کی تاکید ہے لہٰذا اگر کوئی خاتون مغرب میں رہتی ہے اور یہاں عام طور پر مہذب لباس لمبی سکرٹ بھی سمجھا جاتا ہے تو یہ بھی درست ہے۔

’ایم ٹی وی سے مکہ تک‘

جمعرات, ستمبر 06, 2012

کراچی میں حجاب کے استعمال میں اضافہ، ’باپردہ‘ خواتین کی کثرت

کراچی میں حجاب کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حجاب سے مراد خواتین کا دوپٹے یا سکارف سے منہ یا سر کا ڈھکنا، نقاب لگانا یا باقاعدہ برقع اوڑھنا ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ ایک دور میں پورے ملک کا فیشن کراچی کو دیکھ کر بدلتا تھا مگر اب یہی شہر ”پردہ“ کرنے میں باقی ملک اور خاص کر سندھ اور پنجاب سے آگے نکل رہا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹیڈیز کے لیکچرار عبدالرحمن کا ’وی او اے‘ سے خصوصی بات چیت میں کہنا تھا کہ ان کے اندازے کے مطابق شہر میں حجاب استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد اگر کچھ سال پہلے تک 25 یا 30 فیصد تک تھی تو اب یہ تعداد تقریباً 50 فیصد ہوگئی ہے۔

عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے ڈپارٹمنٹ میں پردے میں آنے والی طالبات کی تعداد 100 میں سے 12 یا 13 ہوا کرتی تھی تو اب یہ تعداد 50 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ گزشتہ روز یعنی منگل کو جبکہ ملک بھر میں مقامی طور پر ”یوم حجاب“ منایا گیا ہر جگہ اس دن کے حوالے سے پوسٹرز اور بینرز دکھائی دیئے۔ یہاں تک کہ اخبارات میں بھی اس دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹس اور ضمیمے تک شائع ہوئے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آنے والے سالوں میں حجاب لینے والی خواتین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ “

’یوم حجاب‘ فرانس میں مسلم خاتون مروہ الشربینی کے حجاب لینے پر چھڑنے والے تنازع اور بعد ازاں اس کے قتل کے سبب پاکستان میں شہرت کی وجہ بنا۔ قتل کا واقعہ کچھ سال پہلے 4 ستمبر کو پیش آیا تھا تب سے ہر سال اسی دن یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کی دینی و مذہبی جماعتیں خاص طور پر اس دن کا اہتمام کرتی ہیں۔

یوم حجاب کی مناسبت سے کراچی میں عربی طرز کے برقعے ”عبایا“ عام ہونے لگے ہیں۔ کسی زمانے میں سر تا پاؤں ایک ہی رنگ کا برقع چلا کرتا تھا جسے اس کی بناوٹ کے سبب ”شٹل کاک برقع“ بھی کہا جاتا تھا مگر اب یہ صرف خیبر پختوا یا بلوچستان تک محدود ہوگیا ہے، اس کے مقابلے میں کراچی میں عبایا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

اس وقت شہر کی تقریباً ہر بڑی چھوٹی دکان میں عبایا اور حجاب فروخت ہورہے ہیں۔ یہ مختلف اقسام اور سٹائل کے ہوتے ہیں۔ ان میں کئی قسم کی کڑھائی اور موتیوں کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ ایسا عبایا یا سکارف بہت زیادہ مقبول ہے۔ خواتین اور نوجوان لڑکیاں چمک دمک والے اور نت نئے سٹائلز والے عبائے اور سکارف استعمال کررہی ہیں۔

حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب بازاروں میں حجاب کی دکانوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جو دکانیں پہلے صرف کپڑوں کی ہوا کرتی تھیں اب ان پر صرف عبایا فروخت ہوتے ہیں۔

حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک دکاندار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عبائے کی قیمت اس کے کپڑے اور اس کی کڑھائی و موتیوں کے کام پر منحصر ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں 2 ہزار سے 8 ہزار تک کے عبائے اور برقعے فروخت ہورہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حجاب اور عبائے کے استعمال میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ایک اور دکاندار نے بتایا کہ ہر خریدار خاتون نئے سے نئے سٹائل والے اور کام والے عبائے مانگتی ہے جس کی وجہ سے عبایا بنانے والے کارخانوں میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ عبائے کے کاریگروں کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت تھا کہ بھاری کام والے کپڑے زیادہ فروخت ہوتے تھے لیکن اب کپڑوں کے ساتھ ساتھ برقعوں اور عبایوں کی خرید و فروخت بڑھ رہی ہے۔

کراچی میں حجاب کے استعمال میں اضافہ، ’باپردہ‘ خواتین کی کثرت

جمعرات, اگست 09, 2012

غصے کا علاج

جب غصہ آئے تو اِن میں سے کوئی بھی ایک یا سارے عمل کر ڈالیے۔

- اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھیے
- ولا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیے
- خاموش ہوجائیے
- وضو کر لیجئے
- ناک میں پانی چڑھائیے
- کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے
- بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے
- خود کو زمین سے ملا لیجئے، (وضو ہو تو سجدہ کرلیں) تاکہ احساس ہو کہ خاک سے بنا ہوں لہذا مجھے کسی شخص پر غصہ کرنا زیب نہیں دیتا۔
- جس پر غصہ آیا ہو اس کے سامنے سے ہٹ جائیے

اگر کسی کو غصے کی حالت میں ڈانٹ دیا ہے تو خصوصیت کے ساتھ سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگیں اس طرح نفس ذلیل ہوگا اور آئندہ غصہ کرتے وقت ذلت یاد رہے گی۔

اس بات پر غور کیجئے کہ آج میں کسی شخص کی خطا پر غصہ کررہا ہوں اور درگزر کرنے پر تیار نہیں، حالاں کہ میری خطائیں بے شمار ہیں اگر اللہ عز وجل غضب ناک ہوگیا اور اس نے مجھے معاف نہیں کیا تو میرا کیا ہوگا؟

اگر کوئی زیادتی کرے یا خطا کر دے اور اس پر نفس کی خاطر غصہ آجائے تو معاف کردینا کار ثواب ہے تو کیوں نہ میں اس کو معاف کرکے ثواب کا حق دار بنوں اور ثواب بھی کیسا زبردست کہ قیامت کے دن اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ پوچھا جائے گا کس کے لئے اجر ہے کہا جائے گا ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں۔

بدھ, جولائی 25, 2012

مشہور نیپالی اداکارہ کا قبول اسلام

نیپال کی مشہور اداکارہ، ماڈل اور گلو کارہ 28 سالہ پوجا لاما نے پانچ ماہ قبل اسلام قبول کرکے بدھ سماج کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ بدھ خاندان میں پرورش و پرداخت پانے والی پوجا نے دبئی و قطر کے ایک مختصر دورے سے لوٹنے کے بعد کاٹھمانڈو میں اپنے اسلام کا اعلان کیا، پیش ہے ان سے کی گئی بات چیت کے اہم اجزاء-

 سوال: اسلام کی کون سی خصوصیت نے آپ کو قبول اسلام پر آمادہ کیا؟

جواب: میں بدھ خاندان سے تھی، بدھ مت میرے رگ رگ میں سرایت تھا، ایک سال پہلے میرے ذہن میں خیال آیا کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے، ہندو مت، عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ شروع کیا، مطالعہ کے دوران دبئی و قطر کا سفر بھی ہوا، وہاں کے اسلامی تہذیب و تمدن سے میں بہت متاثر ہوئی، اسلام کی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے، وہ توحید ہے، ایک اللہ پر ایمان و یقین کا جو مضبوط عقیدہ یہاں دیکھنے کو ملا، وہ کسی اور دھرم میں نہیں مل سکا۔

سوال: عالمی میڈیا نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، اسلام کو دہشت کے انداز میں پیش کیا جارہا ہے، کیا آپ اس سے متاثر نہیں ہوئیں؟

جواب: اسلام کے خلاف پروپگنڈہ نے مجھے اسلام سے قریب کردیا، اس لیے کہ مطالعہ میں اس کے برعکس پایا، اور اب میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے مسائل کا عادلانہ و پُرامن حل پیش کرتا ہے۔

سوال: پوجا جی! آپ کا تعلق فلمی دنیا سے رہا ہے، اور آپ ہی سے متعلق میڈیا میں کئی سکینڈل منظر عام پر آئے، جس سے آپ کو صدمہ لاحق ہوا، اور ایک مرتبہ آپ نے خود کشی کی ناکام کوشش بھی کی، کچھ بتائیں گی؟

جواب: میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ذاتی زندگی کے تعلق سے میڈیا تہمت تراشی کرے، تبصرے شائع کرے، مجھے بدنام کرے، میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتی ہوں کہ اب تک میری تین شادیاں ہوچکی ہیں، مختصر وقفے کے بعد سب سے علحدگی ہوتی گئی، پہلے شوہر سے ایک بیٹا ہے جو میری ماں کے ساتھ رہتا ہے، انہی امور کے متعلق میڈیا نے کچھ نامناسب چیزیں اچھال دیں، جس سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی، لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ شہرت کے لیے میں نے یہ سب کیا، حقیقت یہ ہے کہ میں بدحال تھی خودکشی کرنا چاہتی تھی، مجھے میرے دوستوں نے سنبھالا، مذہبی کتابوں کے مطالعہ پر اکسایا، پھر اسلام قبول کیا، میں اپنا ماضی بھول جانا چاہتی ہوں، اس لیے کہ میں اب ایک پرسکون و باوقار زندگی بسر کررہی ہوں۔

سوال: پوجا جی! قبول اسلام کے بعد آپ کے طرز زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، آپ کے سر پر سکارف بندھا ہوا ہے، کیا شراب و تمباکو نوشی سے بھی توبہ کرلیا؟

جواب: براہ مہربانی مجھے پوجا نہ پکاریں، پوجا میرا ماضی تھا اور اب میں آمنہ فاروقی ہوں، قبول اسلام سے پہلے تناؤ  بھرے لمحات میں شراب و سگریٹ میرا سہارا تھے، کبھی اس قدر پی لیتی کہ بے ہوش ہوجاتی تھی۔ ڈپریشن کا شکار ہوچکی تھی، میرے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، لیکن قبول اسلام کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے، شراب، سگریٹ سے توبہ کرلی ہے، صرف حلال گوشت ہی کھاتی ہوں۔

سوال: اسلام نے خواتین کو جسمانی نمائش، ناچ گانا اور سازو سرود سے روکا ہے، آپ کس حد تک متفق ہیں؟

جواب: میرے مسلمان ہونے کے بعد سارے پروڈیوسروں نے مجھ سے ناطہ توڑ لیا ہے، چونکہ سنگیت میرے نس نس میں سمایا ہوا ہے، اس لیے کبھی کبھار تھمیل ( کاٹھمانڈو کا پوش علاقہ) کے ایک ریستوران میں گیت گانے چلی جاتی ہوں، برقع (مکمل پردہ) پہننے کی بھی عادت ڈال رہی ہوں، کوشش کروں گی کہ گانے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے۔

سوال: قبول اسلام کے محرکات کیا تھے؟

جواب: چونکہ میرے کئی بدھ ساتھی اسلام قبول کرچکے تھے، جب وہ مجھے پریشان دیکھتے تو اسلام کی طرف رغبت دلاتے، اس کی تعلیمات بتاتے، میں نے مطالعہ شروع کیا، ایک دن مجھے ایک مسلم دوست نے لیکچر دے ڈالا، اس کا ایک جملہ میرے دل میں پیوست ہوگیا کہ کوئی بھی غلط کام انسانوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ کے ڈر سے نہیں کرنا چاہئے، چنانچہ اسی وقت اسلام کے دامن میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔

سوال: قبول اسلام کے بعد آپ کے خاندان کا کیا ردعمل رہا؟

جواب: اسلام کو گلے لگانے کے بعد میں نے اپنے خاندان کو اطلاع دی، جو دار جلنگ میں رہتا ہے، میری ماں نے بھر پور تعاون کیا، انہوں نے جب مجھے دیکھا تو پھولے نہیں سمائیں، کہنے لگیں ”واہ بیٹا! تو نے صحیح راہ چنا، تمہیں خوش دیکھ کر مجھے چین مل گیا ہے“۔ میری عادتیں بدل گئی ہیں، اس لیے خاندان کے دوسرے لوگوں نے بھی سراہا۔

سوال: میڈیا نے شک ظاہر کیا ہے کہ کہیں آپ کسی مسلمان کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس سے شادی کے لیے آپ نے اسلام قبول کیا ہے؟

جواب: بالکل بے بنیاد خبر، میرے کئی دوست مسلمان ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی کی محبت میں گرفتار ہوں اور اس سے شادی کے لیے اسلام لائی ہوں، ہاں اب میں مسلمان ہوں، لہذا میری شادی بھی کسی مسلمان سے ہی ہوگی، اور جب اس کا فیصلہ کروں گی تو سب کو پتہ چل جائے گا۔

انٹرویو: عبد الصبور ندوی

abdussaboor5@gmail.com

 مشہور نیپالی اداکارہ پوجا لاما کا قبول اسلام

جمعہ, جولائی 20, 2012

والدین سے پیار کریں

کسی جگہ سیب کا ایک بہت پرانا اور گھنا درخت تھا، ایک چھوٹا لڑکا روزانہ درخت کے قریب جاتا اور اس کے پاس کھیلتا تھا۔ وہ درخت کے اوپر چڑھتا سیب توڑ کر کھاتا اور پھر درخت کے سائے تلے آرام کرتا۔ اسے درخت سے پیار تھا اور درخت کو بھی اس کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ وقت گزرتا رہا لڑکا جوان ہوگیا۔ اب اس نے روزانہ درخت کے پاس کھیلنا چھوڑ دیا۔ ایک روز لڑکا درخت کے قریب گیا، لیکن وہ اداس نظر آرہا تھا۔ درخت نے لڑکے سے کہا، میرے پاس آﺅ اور میرے ساتھ کھیلو۔ لڑکے نے جواب دیا، میں بچہ نہیں ہوں اور اب درختوں کے پاس نہیں کھیلتا، مجھے کھلونے چاہیئے، اور اس کے لئے رقم کی ضرورت ہے۔ درخت نے جواب دیا، مجھے افسوس ہے، میرے پاس تو رقم نہیں ہے۔ لیکن تم ایسے کرو میرے تمام سیب توڑ کر بیچ دو اور اس طرح تم رقم حاصل کرسکتے ہو۔ لڑکا بہت خوش ہوا، اس نے تمام سیب توڑے اور وہاں سے خوشی خوشی چل دیا۔ اس کے بعد لڑکا کبھی واپس نہیں گیا تو درخت اداس ہوگیا۔

ایک دن لڑکا جو بڑا ہوکر مرد بن گیا تھا واپس درخت کے پاس پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر درخت بہت خوش ہوا اور اس سے کہا، آﺅ میرے ساتھ کھیلو!

لڑکے نے جواب دیا، میرے پاس کھیلنے کے لئے وقت نہیں ہے، مجھے اپنے خاندان کے لئے کام کرنا ہے۔ ہمیں رہنے کے لئے ایک مکان چاہیئے ہے۔ کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟؟؟

مجھے افسوس ہے میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا، کیوں کہ میرے پاس مکان نہیں ہے، درخت نے جواب دیا۔ لیکن تم مکان بنانے کے لئے میری ساری شاخیں کاٹ سکتے ہو۔ درخت نے مزید کہا۔

اس طرح اس نے درخت کی تمام شاخیں کاٹ لیں اور خوشی خوشی وہاں سے چل دیا۔

درخت اسے خوش دیکھ کر بہت مطمئن اور خوش ہوا، لیکن وہ شخص اس کے بعد کبھی واپس نہ آیا۔

درخت ایک بار پھر اداس اور اکیلا رہ گیا۔

شدید گرمی کے ایک روز، وہ شخص واپس آیا تو اسے دیکھ کر درخت بہت خوش ہوا، اور اس سے کہا آﺅ میرے ساتھ کھیلو۔
تو اس شخص نے کہا، میں اب بوڑھا ہو رہا ہوں، آرام اور تفریح کے لئے سیلنگ کرنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے کشتی دے سکتے ہو؟؟؟ 

تم میرا تنا کاٹ کر کشتی بنالو، سیلنگ کرو اور خوش رہو، درخت نے جواب دیا۔

اس شخص نے کشتی بنانے کے لئے درخت کا تنا بھی کاٹ لیا اور سیلنگ کے لئے چلا گیا۔ پھر وہ لمبے عرصے تک نظر نہیں آیا۔

بالآخر وہ کئی سالوں کے بعد واپس آیا۔

میرے بچے میں معذرت خواہ ہوں کہ اب میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ درخت نے کہا۔ میرے پاس اب سیب بھی نہیں ہیں، درخت نے مزید کہا۔

کوئی بات نہیں، اب تو میرے دانت ہی نہیں کہ سیب کھا سکوں۔

اب تو میرا تنا بھی نہیں ہے جس پر تم چڑھ سکو۔

اس شخص نے جواب دیا، اب میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔

اب میں حقیقت میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا، صرف اور صرف جڑیں بچ گئی ہیں اور وہ بھی خشک ہورہی ہیں۔ درخت نے روتے ہوئے کہا۔

اس شخص نے جواب دیا، اب مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں، صرف آرام کے لئے جگہ چاہیئے ہے، اس لئے کہ اب میں تھک گیا ہوں۔

بہت اچھا، پرانے درخت کی جڑیں لیٹنے اور آرام کے لئے بہترین جگہ ہے۔

آﺅ آﺅ میرے ساتھ بیٹھ جاﺅ اور آرام کرو، درخت نے کہا۔

وہ شخص وہاں بیٹھ گیا۔ درخت خوش ہوگیا اور آنسوﺅں کے ساتھ مسکرا دیا۔

اس کہانی میں آپ کے والدین اور آپ کا ذکر کیا گیا۔

اپنے والدین سے پیار کریں۔