کسی جگہ سیب کا ایک بہت پرانا اور گھنا درخت تھا، ایک چھوٹا لڑکا روزانہ درخت کے قریب جاتا اور اس کے پاس کھیلتا تھا۔ وہ درخت کے اوپر چڑھتا سیب توڑ کر کھاتا اور پھر درخت کے سائے تلے آرام کرتا۔ اسے درخت سے پیار تھا اور درخت کو بھی اس کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ وقت گزرتا رہا لڑکا جوان ہوگیا۔ اب اس نے روزانہ درخت کے پاس کھیلنا چھوڑ دیا۔ ایک روز لڑکا درخت کے قریب گیا، لیکن وہ اداس نظر آرہا تھا۔ درخت نے لڑکے سے کہا، میرے پاس آﺅ اور میرے ساتھ کھیلو۔ لڑکے نے جواب دیا، میں بچہ نہیں ہوں اور اب درختوں کے پاس نہیں کھیلتا، مجھے کھلونے چاہیئے، اور اس کے لئے رقم کی ضرورت ہے۔ درخت نے جواب دیا، مجھے افسوس ہے، میرے پاس تو رقم نہیں ہے۔ لیکن تم ایسے کرو میرے تمام سیب توڑ کر بیچ دو اور اس طرح تم رقم حاصل کرسکتے ہو۔ لڑکا بہت خوش ہوا، اس نے تمام سیب توڑے اور وہاں سے خوشی خوشی چل دیا۔ اس کے بعد لڑکا کبھی واپس نہیں گیا تو درخت اداس ہوگیا۔
ایک دن لڑکا جو بڑا ہوکر مرد بن گیا تھا واپس درخت کے پاس پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر درخت بہت خوش ہوا اور اس سے کہا، آﺅ میرے ساتھ کھیلو!
لڑکے نے جواب دیا، میرے پاس کھیلنے کے لئے وقت نہیں ہے، مجھے اپنے خاندان کے لئے کام کرنا ہے۔ ہمیں رہنے کے لئے ایک مکان چاہیئے ہے۔ کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟؟؟
مجھے افسوس ہے میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا، کیوں کہ میرے پاس مکان نہیں ہے، درخت نے جواب دیا۔ لیکن تم مکان بنانے کے لئے میری ساری شاخیں کاٹ سکتے ہو۔ درخت نے مزید کہا۔
اس طرح اس نے درخت کی تمام شاخیں کاٹ لیں اور خوشی خوشی وہاں سے چل دیا۔
درخت اسے خوش دیکھ کر بہت مطمئن اور خوش ہوا، لیکن وہ شخص اس کے بعد کبھی واپس نہ آیا۔
درخت ایک بار پھر اداس اور اکیلا رہ گیا۔
شدید گرمی کے ایک روز، وہ شخص واپس آیا تو اسے دیکھ کر درخت بہت خوش ہوا، اور اس سے کہا آﺅ میرے ساتھ کھیلو۔
تو اس شخص نے کہا، میں اب بوڑھا ہو رہا ہوں، آرام اور تفریح کے لئے سیلنگ کرنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے کشتی دے سکتے ہو؟؟؟
تم میرا تنا کاٹ کر کشتی بنالو، سیلنگ کرو اور خوش رہو، درخت نے جواب دیا۔
اس شخص نے کشتی بنانے کے لئے درخت کا تنا بھی کاٹ لیا اور سیلنگ کے لئے چلا گیا۔ پھر وہ لمبے عرصے تک نظر نہیں آیا۔
بالآخر وہ کئی سالوں کے بعد واپس آیا۔
میرے بچے میں معذرت خواہ ہوں کہ اب میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ درخت نے کہا۔ میرے پاس اب سیب بھی نہیں ہیں، درخت نے مزید کہا۔
کوئی بات نہیں، اب تو میرے دانت ہی نہیں کہ سیب کھا سکوں۔
اب تو میرا تنا بھی نہیں ہے جس پر تم چڑھ سکو۔
اس شخص نے جواب دیا، اب میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔
اب میں حقیقت میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا، صرف اور صرف جڑیں بچ گئی ہیں اور وہ بھی خشک ہورہی ہیں۔ درخت نے روتے ہوئے کہا۔
اس شخص نے جواب دیا، اب مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں، صرف آرام کے لئے جگہ چاہیئے ہے، اس لئے کہ اب میں تھک گیا ہوں۔
آﺅ آﺅ میرے ساتھ بیٹھ جاﺅ اور آرام کرو، درخت نے کہا۔
وہ شخص وہاں بیٹھ گیا۔ درخت خوش ہوگیا اور آنسوﺅں کے ساتھ مسکرا دیا۔
اس کہانی میں آپ کے والدین اور آپ کا ذکر کیا گیا۔
اپنے والدین سے پیار کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔