بچے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بچے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, اکتوبر 19, 2013

مظفر نگر فسادات: رنگ برنگے خیموں تلے امید دم توڑ رہی ہے

سہیل حلیم، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

تشدد میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے
بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی
 پانی پت کے تاریخی میدان جنگ سے صرف تقریباً تیس کلومیٹر دور مغربی اترپردیش کے کچھ دیہی علاقوں میں آپ کو جگہ جگہ رنگ برنگے خیموں کی بستیاں نظر آئیں گی۔

یہ خیمے رنگین ضرور ہیں لیکن ان کے نیچے بقا کی جنگ لڑنے والوں کی زندگی میں کوئی رنگ نہیں۔ ستمبر میں مظفر نگر کے دیہی علاقے جب مذہبی فسادات کی آگ میں جل رہے تھے تو یہ لوگ جان بچانے کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگے تھے اور ایک مہینے بعد بھی واپس لوٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

سلمیٰ اور ان کے شوہر بھی ہزاروں مسلمانوں کے اس ہجوم میں شامل ہیں جس نے کیرانا کے قریب ملک پور کے کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔

’سات ستمبر کی شام مندر سے اعلان کیا گیا کہ گاؤں کے مسلمانوں پر حملہ کرو لیکن کچھ جاٹوں نے ہم سے آ کر کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا، ہم آپ کی حفاظت کریں گے ۔۔۔ لیکن اگلے دن صبح مار کاٹ شروع ہوگئی۔ ہمارا گھر جلا دیا گیا، ہم جان بچانے کے لئے کھیتوں میں بھاگے ۔۔۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں میری چار مہینے کی بچی گھر میں ہی رہ گئی ۔۔۔ اسے زندہ جلا دیا گیا۔‘

مذہبی تشدد میں ایک طرف جاٹ تھے اور دوسری طرف مسلمان۔ اس علاقے میں جاٹوں کی اکثریت ہے اور مسلمان زیادہ تر ان کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ تشدد میں پچاس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی۔ پانچ عورتوں نے اجتماعی ریپ کے مقدمے قائم کرائے ہیں۔

جمیلہ خاتون (اصلی نام نہیں) کی بیٹی ان میں شامل نہیں ہے۔ جب جمیلہ اور ان کے شوہر بچوں کو لے کر بھاگ رہے تھے تو ان کی ایک بیٹی کو حملہ آوروں نے پکڑ لیا۔ اس بچی کی لاش برآمد نہیں کی جاسکی ہے۔

’ہم نے مڑ کر دیکھا تو انہوں نے ہماری بیٹی کو پکڑ رکھا تھا ۔۔۔ ہم واپس نہیں گئے کیونکہ وہ ہمیں بھی مار ڈالتے۔۔۔‘

فسادات کے دوران جنسی زیادتی کے بہت سے الزامات تو سامنے آئے ہیں لیکن سماجی کارکن شبنم ہاشمی کہتی ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کا کسی کو اندازہ نہیں کیونکہ دیہی علاقوں میں عورتیں بدنامی کے ڈر سے خاموش ہی رہ جاتی ہیں۔

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب
امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے
تشدد تو اب ختم ہوگیا ہے لیکن خوف کا ماحول نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اب ان عارضی کیمپوں میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگ ہیں۔ جس سے بھی بات کریں، زبان پر ایک ہی بات ہے۔

’ہم تو انہیں کی غلامی کرتے تھے، انہوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ہم کسی بھی حالت میں واپس نہیں جائیں گے ۔۔۔ حکومت ہم سے کہہ رہی ہے کہ تمہارے پکے گھر بنوا دیں گے ۔۔۔ لیکن ان لوگوں کا کیا بھروسہ جنہوں نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ ہم سڑک پر زندگی گزار لیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گا ہماری کوئی مدد کرے یا نہ کرے‘۔

گجرات میں 2002ء کے مذہبی فسادات کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ تمام ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ دو ارکان اسمبلی سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک رکن پارلیمان کو گرفتار کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے مرنے والوں کے لواحقین کے لئے سرکاری  نوکریوں اور تمام متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔

مقامی لوگ بھی مانتے ہیں کہ متاثرین کے لئے اب اپنے گھروں کو لوٹنا آسان نہیں ہوگا ’کیونکہ دیہی علاقوں میں دشمنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی ۔۔۔ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے لوگ کون تھے ۔۔۔ یہ غریب لوگ ہیں یہ حملہ آوروں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔‘

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور پلاسٹک کے ان رنگ برنگے خیموں کے نیچے امید دم توڑ رہی ہے۔ یہاں نئی زندگیوں کا آغاز بھی ہے اور تاریک مستقبل کا خوف بھی۔

ان لوگوں کے گھر تو قریب ہیں لیکن منزل بہت دور۔

پیر, اکتوبر 14, 2013

بھارتی مسلمانوں پر مظالم کی داستان

بھارت میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود دہشت گرد ہندئوں کے خوف سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے باوجود کہ بھارت کی مرکزی حکومت میں کئی مسلمان وزیر کے عہدہ پر فائز ہیں وہ بھی مسلمان شہریوں پر ہندو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے منظم حملوں اور مظالم سے اپنے مسلم بھائیوں کو بچانے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ شاید مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری اتحاد کا فقدان ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں پر مظالم کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بھارتی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ بھی ہو مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتے چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ ان اداروں میں بھی ہندئوں کی اکثریت ہے۔

بھارت میں ستمبر 2013 میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا واقع پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ سازش کے تحت مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا اور منصوبہ بندی کے تحت بچوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے افراد کا نہ صرف قتل عام کیا گیا بلکہ ان کے گھروں، دکانوں میں لوٹ مار کی گئی، مساجد کی بے حرمتی کی گئی، ان کی املاک جلا دی گئیں، مسلمان خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں اور مسلمانوں کو ہی گرفتار بھی کیا گیا۔ اور تو اور ان واقعات کی وجہ مسلمانوں کو قرار دیا گیا۔ ستمبر میں جو کچھ ہوا وہ 1980 میں مراد آباد، 1993 میں ممبئی اور 2000 میں گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا تسلسل ہے۔ 

ان خوف زدہ معصوم چہروں اور عمر رسیدہ روتا چہرہ تو دیکھو اور بین کرتی خواتین کو دیکھو ۔ ۔ایک سوال ۔ ۔ ۔ ہمارا کیا قصور ہے؟
ایسے واقعات سن کر مجھے ان لوگوں کی باتیں یاد آتی ہیں جو یہ سب کچھ جاننے کے باوجود قیام پاکستان کو ایک انگریز کے ایجنٹ کی غلطی قرار دیتے ہیں اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کو گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہندئوں کا یہ ظالمانہ سلوک دیکھ کر یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ پاک وطن کسی سازش کے تحت نہیں بلکہ محض اللہ کے حکم سے وجود میں آیا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے جو خواب دیکھا تھا وہ اللہ کی حکمت تھی جس کے بعد قیام پاکستان کی جد و جہد رنگ لائی اور آج ہم کسی بھی ایسے خوف کے بغیر چین کی نیند سوتے ہیں جو ہمارے بھارتی مسلمان بھائیوں کو ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی قائداعظم کو برا بھلا اور انگریز کا ایجنٹ کہنے والے اگر پاکستان سے خوش نہیں ہیں تو بھارت کیوں جا کر بسیرا نہیں کر لیتے؟ پاکستان کو برا کہنے والو کیا کبھی تم نے سوچا ہے کہ تم نے اس ملک کو کیا دیا ہے؟ اس ملک کے لئے تم نے کیا کیا ہے؟ اس کے بدلے میں جو تم نے اس ملک سے حاصل کیا ہے۔ اس ملک کی آزاد فضا میں لی ایک ایک سانس کا بدلہ نہیں دے سکتے، یقیناً نہیں دے سکتے۔ یقیناً وہ ایسا نہیں کریں گے کیوں کہ جو سکون انہیں اس پاک سر زمین پر میسر ہے بھارت میں تو کیا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملے گا۔ اللہ کا شکر ادا نہ کرنے والو یہ تفصیل پڑھو اور پھر شکر ادا کرو اس اللہ کا جس نے ہمیں اپنا وطن عطا کیا۔
اب اس کی تفصیل پڑھیں جو ستمبر میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے شہر مظفر نگر میں مسلمانوں پر بیتی ہے تاکہ آپ کو حقیقت میں اندازہ ہو کہ یہ آزاد وطن کتنی بڑی اللہ کی نعمت ہے؛ 
پڑھتا جا اور شرماتا جا؛


پڑھنے میں دشواری کی صورت میں یہاں کلک کریں اور دوسری صورت میں آپ صفحہ کمپیوٹر میں محفوظ (save) کرکے با آسانی پڑھ سکتے ہیں۔

اتوار, اکتوبر 13, 2013

ننھا داعی

عبدالمالک مجاہد | دین و دانش

جمعہ کو نماز عصر کے بعد باپ بیٹے کا معمول تھا کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے اپنے گھر سے نکلتے، بازار کے وسط میں سڑک کنارے کھڑے ہو جاتے، آتے جاتے لوگوں میں اسلامی لٹریچر تقسیم کرتے۔ باپ مقامی ...مسجد میں خطیب ہیں ان کا گیارہ سالہ بیٹا گزشتہ کئی سالوں سے موسم کی شدت کی پروا کیے بغیراپنے والد کے ساتھ جاتا تھا۔

ایمسٹر ڈم ہالینڈ کا دارالحکومت ہے۔ یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک بے حد خوبصورت ہے۔ یہاں بے حد و حساب پھول پیدا ہوتے ہیں۔ بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں، اس لیے یہاں ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ دودھ کی پیداوار اور اس کی پروڈکٹ کے اعتبار سے یہ ملک بڑا مشہور ہے۔ کتنی ہی مشہور زمانہ کمپنیاں یہاں سے خشک دودھ دنیا بھر میں سپلائی کرتی ہیں۔


اس روز موسم بڑا ہی خراب تھا۔ صبح سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ یخ بستہ سردی کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے بارش بھی ہو رہی تھی۔ جمعہ کا دن تھا اور معمول کے مطابق باپ بیٹے کو لٹریچر تقسیم کرنا تھا۔ والد تھوڑی ہی دیر پہلے مسجد سے گھر پہنچے تھے۔ انہیں قدرے تھکاوٹ بھی تھی۔ بیٹے نے خوب گرم کپڑے پہنے اور اپنے والد صاحب سے کہنے لگا: ابا جان چلیے! لٹریچر تقسیم کرنے کا وقت ہو چکا ہے۔
مگر بیٹے! آج تو موسم بڑا خراب ہے۔ سردی کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہو رہی ہے۔
میں تو تیار ہو گیا ہوں۔ بارش ہو رہی ہے تو پھر کیا ہے؟ یہاں تو بارش کا ہونا معمول کی بات ہے، بیٹے نے جواب دیا۔
بیٹے! موسم کا تیور آج ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم آج گھر پر ہی رہیں، والد نے جواب دیا۔
ابا جان! آپ تو خوب جانتے ہیں کہ کتنے ہی لوگ جہنم کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں ان کو بچانا ہے۔ انہیں جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ آپ کو تو خوب معلوم ہے کہ جنت کا راستہ نامی کتاب پڑھ کر کتنے ہی لوگ راہِ راست پر آگئے ہیں۔
والد: بیٹے! آج میرا اس موسم میں باہر جانے کا قطعاً ارادہ نہیں ہے کسی اور دن پروگرام بنا لیں گے۔
بیٹا: ابا جان! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آج میں اکیلا ہی ان کتابوں کو تقسیم کر آئوں۔ بیٹے نے اجازت طلب نگاہوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ والد تھوڑی دیر تردد کا شکار ہوئے اور پھر کہنے لگے: میرے خیال میں تمہارے اکیلے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ کا نام لے کرتم بے شک آج اکیلے ہی چلے جائواور لوگوں میں کتابیں تقسیم کر آئو۔

والد نے بیٹے کو Road to Paradise ’’جنت کا راستہ‘‘ نامی کچھ کتابیں پکڑائیں اور اسے فی اما ن اللہ کہہ کر الوداع کہہ دیا۔ قارئین کرام! اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہمارے اس ننھے داعی کی عمر صرف گیارہ سال ہے اسے بچپن ہی سے اسلام سے شدید محبت ہے اور وہ نہایت شوق سے دین کے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے۔

ننھا داعی گھر سے نکلتا ہے، اس کا رخ بازار کی طرف ہے جہاں وہ کافی عرصہ سے لٹریچر تقسیم کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب وہ بازار میں اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا ہے وہ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان کو سلام کرتا ہے۔ انہیں روکتا ہے۔ ان سے بات چیت کرتا ہے مسکراتے ہوئے ان سے کہتا ہے: دیکھیے سر!
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے شدید محبت کرتا ہے۔ وہ انہیں کتاب پیش کرتا ہے، ان سے کہتا ہے: جناب! یہ فری ہے۔ یہ آپ کے لیے ہے۔ ان میں کچھ لوگ اس ننھے لڑکے سے کتاب لے لیتے ہیں کچھ شانے اچکا کر آگے نکل جاتے ہیں۔ کچھ کتابیں تقسیم کرنے کے بعد اب اس کا رخ قریبی محلے کی طرف ہے وہ بعض گھروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے اگر کوئی باہر نکلتا ہے تو مسکراتے ہوئے اسے کتاب کا تحفہ پیش کرتا ہے۔ کوئی قبول کرلیتا ہے کوئی انکار کرتا ہے مگر وہ ان چیزوں سے بے پروا اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔

کتابیں تقسیم کرتے ہوئے کم و بیش دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اب اس کے ہاتھوں میں آخری کتاب رہ گئی ہے۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ یہ آخری کتاب کسے دی جائے۔ اس نے گلی میں آنے جانے والے کئی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں کتاب دینے کی پیش کش کی، مگر انہوں نے تھینک یو کہہ کر انکار کیا اور آگے چل دئیے۔

گلی میں ایک جگہ جہاں بہت سارے گھر ایک ہی ڈیزائن کے بنے ہوئے ہیں وہ ان میں سے ایک گھر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے دروازے پر جا کر گھنٹی بجاتا ہے، کسی نے جواب نہ دیا۔ اس نے بار بار گھنٹی بجائی، مگر اندر مکمل خاموشی تھی۔ نجانے اسے کیا ہوا۔ یہ اس کے طریق کار کے خلاف تھا کہ وہ کسی کے دروازہ کو اس طرح بجائے مگر آج اس نے دروازہ کو زور زور سے بجانا شروع کر دیا زور سے کہا: کوئی اندر ہے تو دروازہ کھولو۔
 
 اندر بدستور مکمل خاموشی تھی۔ وہ مایوس ہونے لگا، اس نے کچھ سوچا اور آخری بار اپنی انگلی گھنٹی پر رکھ دی۔ گھنٹی بجتی رہی، بجتی رہی… اور آخر کار اسے اندر سے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔ چند لمحوں بعد آہستگی سے دروازہ کھلتا ہے۔
ایک بوڑھی خاتون چہرے پر شدید رنج و غم کے آثار لیے سامنے کھڑی تھی، کہنے لگی: ہاں میرے بیٹے! بتائو میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟
ننھے داعی نے مسکراتے ہوئے کہا: نہایت ہی معزز خاتون! اگر میں نے آپ کو بے وقت تنگ کیا ہے تو اس کے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ دراصل میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے حقیقی اور سچی محبت کرتا ہے۔ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ میں کچھ کتابیں تقسیم کر رہا تھا۔ میرے پاس یہ آخری کتاب بچی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ اس کتاب میں کیا ہے؟ یہ آپ کو پڑھنے کے بعد معلوم ہو گا، مگر اتنی بات میں کہے دیتا ہوں یہ کتاب آپ کو آپ کے حقیقی رب کے بارے میں بہت کچھ بتائے گی۔ اسے پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں کن مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے اور ہم اپنے رب اپنے خالق اور مالک کو کیسے راضی کر سکتے ہیں۔ بوڑھی عورت نے کتاب وصول کی اور بچے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جیتے رہو بیٹا، جیتے رہو۔

ننھے داعی کا آج کے لیے مشن مکمل ہو چکا تھا، اس کو جتنی کتابیں تقسیم کرنا تھیں وہ کر چکا تھا۔ اس کا رخ اب اپنے گھر کی طرف تھا۔ یوں بھی شام کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہ ہنستا مسکراتا اپنے گھر واپس آ گیا۔

ہفتہ کے ایام جلد ہی گزر گئے۔ آج ایک بار پھر جمعہ کا دن ہے۔ باپ بیٹا حسب معمول جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں ہیں۔ ننھے داعی کے والد نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ نماز پڑھانے کے بعد حسب معمو ل حاضرین سے کہا کہ آپ میں سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہو یا کوئی بات کہنا چاہتا ہو تو اسے بر سر عام ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ وہ اٹھ کر بیان کر سکتا ہے۔
حاضرین میں تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ آج کسی کے پاس کوئی خاص سوال نہیں۔ اچانک پچھلی صفوں پر بیٹھی ہوئی خواتین میں سے ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہوتی ہے۔ وہ قدرے بلند آواز میں کہنا شروع کرتی ہے;

خواتین و حضرات! آپ لوگوں میں سے مجھے کوئی بھی نہیں پہچانتا نہ ہی آج سے پہلے میں کبھی اس مسجد میں آئی ہوں۔ میں تو گزشتہ جمعہ تک مسلمان بھی نہ تھی بلکہ میں نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

چند ماہ گزرے میرے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد میں اس دنیا میں بالکل تنہا تھی۔ گزشتہ جمعہ کے روز موسم غیر معمولی ٹھنڈا تھا۔ وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں اس دنیا اور تنہائی سے تنگ آچکی تھی۔ دنیا میں میرا کوئی بھی نہ تھا۔ میں کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ میں خود کشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں نہ کر لوں۔

جب میرا خاوند نہیں رہا تو میں اس دنیا میں رہ کر کیا کروں گی۔ بالآخر گزشتہ جمعہ کو میں نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں بازار گئی وہاں سے ایک نہایت مضبوط رسی خریدی۔ سیڑھی پر چڑھ کر چھت کے ایک گارڈر سے رسی کو باندھا۔ پھر میں نے رسی کے ایک سرے سے پھندا بنایا، اگلا مرحلہ یہ تھا کہ کرسی کو اپنے قریب کر کے مجھے اس پر پائوں رکھنا تھا اور گلے میں پھندا ڈال کر کرسی کو ٹھوکر مار دینی تھی۔ اس طرح پھندہ میرے گلے میں اٹک جاتا اور میری زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ جوں ہی میں نے گلے میں رسی ڈالی، نیچے سے گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ پہلے تو میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ میں نے سوچا میرا ملنے والا کون ہو سکتا ہے؟ مدتیں گزر گئی ہیں مجھے کوئی ملنے کے لیے کبھی نہیں آیا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں گھنٹی کو نظر انداز کر دوں اور خود کشی کر لوں۔ ادھر گھنٹی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کوئی غیر مرئی طاقت مجھ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟

لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں آ رہا تھا اس دنیا میں تو میرا کوئی بھی نہیں پھر یہ گھنٹی دینے والا کون ہو سکتا ہے؟
اسی دوران کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا چلو کوئی بات نہیں، میں خود کشی کے پروگرام کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کر دیتی ہوں چنانچہ میں نے رسی کو گردن سے اتارا، کرسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ نچلی منزل کی طرف چل دی۔

میں نے دروازہ کھولا تو ایک بہت پیارے اور خوبصورت بچے کو دیکھا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، مجھے دیکھ کر اسے یوں لگ رہا تھا کہ اسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو۔ میں نے آج تک اس عمر کے بچے کے چہرے پر اتنی خوبصورت مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ میں بتا نہیں سکتی کہ وہ بچہ مجھے کتنا پیارا لگا۔

اس کے منہ سے نکلنے والے کلمات نہایت پیارے اور دل کش تھے۔ جس انداز سے اس نے میرے ساتھ گفتگو کی وہ ناقابل فراموش تھی۔ اس نے مجھ سے کہا: اے معزز اور محترم خاتون! میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور آپ کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔ اس نے ’’جنت میں جانے کا راستہ‘‘ نامی کتاب میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا: اسے اطمینان سے ضرور پڑھیے۔

وہ خوبصورت اور روشن چہرے والا بچہ جدھر سے آیا تھا ادھر ہی واپس چلا گیا مگر میرے دل میں شدید ہلچل پیدا کر گیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور نچلی منزل پر ہی بیٹھ کر اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے لگی۔ میں کتاب پڑھتی چلی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ کتاب میرے لیے اور صرف میرے لیے لکھی گئی ہے۔ میں نے جیسے ہی کتاب ختم کی میرے ذہن میں انقلاب آچکا تھا۔ مجھے روشنی مل گئی تھی۔ میں اوپر والی منزل میں گئی۔ چھت سے رسی کھولی اور کرسی کو پیچھے ہٹا دیا۔ اب مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہ رہی تھی۔

معزز حاضرین! اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا; میں نہایت سعادت مند اور خوش بخت ہوں کہ میں نے اپنے حقیقی رب کو پہچان لیا ہے۔ میں نے فطرت کو پا لیا ہے۔ میں اب الحمد للہ! مسلمان ہو چکی ہوں۔ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت سے نوازا۔ کتاب کے آخری صفحہ پر اس مرکز کا ایڈریس دیا ہوا تھا میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کر سکوں، خصوصاً اس ننھے سے داعی کا جو میرے پاس نہایت ہی مناسب وقت پر آیا۔ بس یہ چند لمحوں کی با ت تھی اگر وہ نہ آتا تو میں جہنم کا ایندھن بننے ہی والی تھی۔

لوگ حیران و ششدر ہو کر بڑھیا کی بات سن رہے تھے، جب اس کی بات ختم ہوئی تو مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں شاید ہی کوئی آنکھ ہو جس میں آنسو نہ چھلک رہے ہوں۔ مسجد میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ امام مسجد منبر سے نیچے اترے، سامنے والی صف میں ان کا ننھا داعی بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔

انہوں نے روتے ہوئے اسے اپنے بازوئوں میں لیا اور سینے سے لگا لیا۔ وہ کہہ رہے تھے: بیٹے! مجھے تم پر فخر ہے۔ تم صحیح معنوں میں ننھے داعی اور مجاہد ہو۔ مسجد میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس کی یہ تمنا نہ ہو کہ کاش اس کا بیٹا بھی اس قسم کا داعی ہوتا!!!

جمعہ, ستمبر 13, 2013

سونے میں بے قاعدگی بچوں کی ذہانت متاثر کر سکتی ہے

جن بچوں کے بیڈ ٹائم میں تین برس کی عمر سےبے قاعدگی موجود تھی، انھوں نے حساب اور انگریزی کے مضمون میں بہت کم نمبر حاصل کئے جبکہ ان کا آئی کیو ٹیسٹ کا اسکور بھی بہت کم رہا: رپورٹ

ماہرین کا کہنا ہے کہ سونے کی عادت بچوں کی ذہانت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ایسے بچے جن کے بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی پائی جاتی ہے وہ آگے چل کر سکول کی پڑھائی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت کے اثرات سے لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور وہ لڑکوں کی نسبت زیادہ نیند کی کمی کا شکار نظر آتی ہیں جس کا اثر ان کی زندگی بھر کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ 

'یونیورسٹی کالج لندن' میں ہونے والی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کے بیڈ ٹائم میں 3 برس کی عمر سے بے قاعدگی موجود تھی انھوں نے حساب اور انگریزی کے مضمون میں بہت کم نمبر حاصل کئے جبکہ ان کا آئی کیو ٹیسٹ کا سکور بھی بہت کم رہا۔ 'جرنل آف ایپی ڈیمیو لوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ' میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے سونے کی عادت میں بے قاعدگی اور بچوں کی ذہانت کے درمیان تعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔

تحقیق کی سربراہ پروفیسر 'ایوان کیلی' کے مطابق بچوں کی ابتدائی ذہنی نشو و نما کا بچے کے مستقبل کی صحت اور خوشحالی سے گہرا تعلق ہوتا ہے لیکن چھوٹے بچوں میں بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت ان کی ذہنی صلاحیتوں کو محدود کرسکتی ہے جس کا اثر بچے کے مستقبل کی کامیابیوں پر پڑ سکتا ہے۔

تحقیق میں 7 برس کے 11,200 بچوں کے حساب، انگریزی اور آئی کیو ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبروں کا موازنہ کیا گیا اور نتائج کو والدین کی جانب سے فراہم کردہ بچوں کی سونے کی عادت سے متعلق معلومات کے ساتھ ملا کر دیکھا گیا۔

اس سے قبل ماہرین نے والدین سے ایک سوالنامہ بھروایا تھا جس میں ان سے بچے کی تین برس، پانچ برس اور سات برس کی عمر میں سونے کی عادت کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھیں اور یہ بھی دیکھا گیا کہ اس تمام عرصے میں بچوں کی سونے کی عادت میں کتنا فرق آیا یا پھر وہ مختلف اوقات میں سونے کی عادت پر قائم رہے۔ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات صاف نظر آئی کہ سب سے زیادہ تین برس کے بچوں بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت سے متاثر تھے اور انھوں نے سات برس کی عمر میں سب سے خراب تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ انہوں نے آئی کیو ٹیسٹ میں بھی بہت کم نمبر حاصل کئے تاہم سات برس کی عمر تک بچوں کی نصف تعداد میں مقررہ بیڈ ٹائم پر سونے کی عادت پیدا ہو چکی تھی۔

ماہرین کے مطابق تین برس کی عمر سے بچوں کے رات میں سونے کے اوقات مقرر ہونا چاہیئے کیونکہ یہ بچے کی ذہنی نشو و نما کا وقت ہوتا ہے جب دماغ دن بھر کی معلومات کو محفوظ کرتا ہے اور نئی نئی صلاحیتوں کو یاد کرتا ہے لہذا نیند میں خلل یا بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت بچے کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ تحقیق سے منسلک امینڈا ساکر کہتی ہیں کہ 'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تین برس کی عمر میں سونے کی عادت بچوں پر زیادہ گہرا اثر چھوڑتی ہے اور یہی بات باعث تشویش ہے'۔
​​
پروفیسر کیلی کے نزدیک بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت کے کئی اسباب ہیں جن میں بچوں کا اضافی ہوم ورک، ٹیلی وژن یا کمپیوٹر گیمز سے کہیں زیادہ اہم ایک خاندان کے سونے کی روٹین ہے جو بچے کی سونے کی عادت کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا نتیجہ یہ بتاتا ہے کہ بچوں میں بیڈ ٹائم کی عادت کا ہونا ضروری ہے چاہے گھریلو معاملات کسی بھی نوعیت کے ہوں''۔

گذشتہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ برطانوی سکولوں کے بچوں میں ایک گھنٹہ کم نیند لینے کی عادت پائی جاتی ہے جبکہ ماہرین 
کے نزدیک نیند کی کمی کا شکار بچے تقریباً دو سال کے برابر سیکھنے کے عمل سے محروم ہو جاتے ہیں۔

جمعہ, مئی 31, 2013

گھر کا کھانا کھانے والے بچے زیادہ صحت مند

برطانوی طبی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جو اپنے والدین کا کھانا (گھر کا پکا ہوا کھانا) کھاتے ہیں وہ ان بچوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوتے ہیں جو گھر کا کھانا نہیں کھاتے ہیں۔ 

لندن — اکیسویں صدی کی اس تیز رفتار زندگی میں سب ہی لوگوں کو وقت کی کمی کا سامنا ہے۔ ان میں ایسے والدین بھی شامل ہیں جن کے لیے بازاروں میں آسانی سے دستیاب بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء اور تیار شدہ فروزن پکوان گویا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ جھٹ پٹ مائیکرو ویوو میں تیار ہوجانے والے یہ کھانے بچوں کی بھی بے حد مرغوب غذا بن چکے ہیں لہذا ہر ماہ اچھی خاصی رقم خرچ کرنے کے بعد بھی خاتون خانہ کو یہ گھاٹے کا سودا معلوم نہیں ہوتا۔ بچوں میں فاسٹ فوڈ کھانے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اب انھیں گھر کا کھانا پسند نہیں آتا، ایسے میں والدین کے پاس بچوں کی ضد پوری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا لیکن ہر بار اپنے بچے کی فرمائش پر اسے پزا، برگر اور چپس کھلاتے ہوئے کیا کبھی ہمیں یہ خیال آیا ہے کہ ہم اس کے ساتھ بھلائی نہیں کر رہے بلکہ ہم اس طرح اسے گھر کے کھانے سے مزید دور کرتے جارہے ہیں۔

برطانوی طبی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جو اپنے والدین کا کھانا (گھر کا پکا ہوا کھانا) کھاتے ہیں وہ ان بچوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوتے ہیں جو گھر کا کھانا نہیں کھاتے ہیں۔ یہ تحقیق ’یونیورسٹی ایڈنبرگ سینٹر فار ریسرچ فار فیملیز اینڈ ریلیشن شپ‘ میں ہوئی جس میں حصہ لینے والی ایک تجزیہ کار والریاء سکافیدا (valeria skafida) کا کہنا تھا کہ جو والدین بچوں کو ان کی پسندیدہ کھانوں کی پیشکش کرتے ہیں وہ دراصل انھیں گھر کے بنے ہوئے غذائیت سے بھر پور کھانے سے محروم کررہے ہوتے ہیں مثلاً ہو سکتا ہے کہ اس روز گھر کے کھانے میں سبزی موجود ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر جو بچے روزمرہ سنیک کی شکل میں مختلف کھانے کھاتے ہیں ان کے کھانوں میں غذائیت کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔

دوسری طرف ان تجزیہ کاروں نے بازاروں میں بچوں کے نام پر بکنے والے طرح طرح کے کھانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں بہت سی مائیں ایسے کھانوں کو بچوں کے اندر انڈیل رہی ہیں۔

یہ تحقیق ’سوشیالوجی ہیلتھ اینڈ النیس‘ میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں 2 ہزار 2 سو بچوں نے حصہ لیا جن کی عمریں 5 سال تھیں۔ تحقیق میں دیکھا گیا کہ جب بھی بچوں کی خواہش پر انھیں پزا اور چپس کھانے میں دیا گیا تو انھیں اس کھانے سے کیلوریز تو مل رہیں تھیں لیکن اس میں غذائیت کی شرح بہت کم تھی۔

محقیقین کا کہنا ہے کہ گھر کا کھانا والدین کو یہ جاننے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ آیا ان کا بچہ صحت مند کھانا کھا تا ہے یا نہیں کیونکہ اکثر بچے جب دن میں سنیک لیتے ہیں یا تنہا کھانا کھاتے ہیں تو والدین کو ان کی خوراک کے بارے میں صحیح اندازہ نہیں ہو پاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عموماً گھر کے پہلے بچے کی خوراک اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ غذائیت والی ہوتی ہے کیونکہ گھر میں بتدریج کھانے پینے کا انداز تبدیل ہوتا جاتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل ایک تہائی والدین کا کہنا تھا کہ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے جب گھر کا ایک ہی کھانا پورے خاندان کو پسند آئے یا صرف تقریبات کے موقع پر ہی سارا خاندان ایک ہی کھانا کھاتا ہے۔ پانچ فیصد والدین نے بتایا کہ انھیں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا کم ہی موقع ملتا ہے۔

اس تحقیق کی سربراہ سکا فیدا کیا کہنا تھا کہ ’’سبھی لوگوں کا ایک ہی کھانا کھانا ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘‘ انھوں نے مصروف والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کو کھانا وقت یا بے وقت بھی دیا جاسکتا ہے لیکن شرط وہی ہے کہ یہ کھانا وہ ہو جو آپ خود کھاتے ہیں۔' ان کا کہنا تھا کہ ’’ایک ہی گھر میں والد اور بہن بھائیوں کے لیے علحیدہ علحیدہ کھانے تیار کرنے کے بجائے ایک ہی دیگچی میں سب کا کھانا پکنا چاہیے۔''

رائل کالج لندن کے بچوں کے ڈاکٹر کولن میچی نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں میں آئرن، زنک اور وٹامن ڈی کی کمی کو اکثر بچوں کی تنہا کھانا کھانے کی عادت سے جوڑا جاتا ہے تاہم ایک ہی کھانا کھانے کی وجہ سے بچوں کے بہت سے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

جبکہ ماہر غذائیت مشیل اسٹورفر کا کہنا تھا ''ہو سکتا ہے اس تحقیق سے والدین کو نئے انداز سے سوچنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے کہ کس طرح وہ اس آسان حل کی مدد سے اپنا وقت بچا سکتے ہیں جس کے لیے انہیں سب سے پہلے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنی ہوگی اور گھر میں ایک صحت مند کھانے کا رجحان پیدا کرنا ہوگا۔

رپورٹ کے آخر میں تجزیہ کاروں نے ظاہر کیا ہے کہ 2 سال سے 12 سال کے بچوں کی بڑھتی ہوئی نشوونما کے دوران لی جانے والی غذائیت ان بچوں کو مستقبل میں موٹاپے اور دیگر موذی بیماریوں کے خلاف مضبوط بناتی ہے۔

جبکہ دوسری طرف ایسی غذا جو آج ہم اپنے بچوں کو خوش کرنے کے لیے انھیں کھلا رہے ہیں یہ خوراک نہ صرف ان کے لیے موٹاپے کا سبب بن سکتی ہے بلکہ مستقبل میں بھی ان کی صحت پر اس کے مضر اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔

منگل, جنوری 29, 2013

والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں

چین اور امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اپنی اولاد کی پرورش میں بچوں کا رویہ تبدیل کرنے کے لیے بیشتر والدین جھوٹ بولتے ہیں۔ عام جگہوں پر والدین اپنے بچوں کو اکثر دھمکی دیتے ملیں گے کہ اگر وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آئے تو انہیں تنہا چھوڑ کر چلے جائیں گے جو اس کی ایک واضح مثال یہ ہے۔ اس کے لیے کئی بار پرانی کہانیوں کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ بچوں کو بعض خاص چیز کھانے کے لیے راضی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ فلانی سبزی نہیں کھائیں گے تو اندھے ہوسکتے ہیں۔ اس تجزیاتی رپورٹ کو نفسیات سے متعلق ایک عالمی میگزین ’انٹرنیشنل جرنل آف سائیکالوجی‘ میں شائع کیا گيا ہے جس میں اس طرح کے جھوٹ کا جائزہ لیا گيا ہے۔ تقریباً دو سو خاندانوں کے ساتھ انٹرویو پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق امریکہ اور چین دونوں ملکوں میں والدین کی ایک بڑی اکثریت بچوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اس طرح کے جھوٹ کا سہارا لیتی ہے۔

اس کی ایک بہت عام مثال یہ ہے کہ بچے کئی بار ایک جگہ سے نہیں جانا چاہتے یا بہت شرارت کرتے ہیں تو انہیں تنہا چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گيا ہے ’اس نوعیت کا جھوٹ دنیا بھر ان تمام والدین میں عام ہے جو اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف اس جگہ سے جانا چاہتے۔‘ ایک اور جھوٹ، جو بہت عام ہے، یہ کہ جب بچے کھلونا دلانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین بچوں سے یہ کہ کر کر جھوٹا وعدہ کرتے ہیں کہ ہاں وہ مستقل میں اسے لے دیں گے۔

محقیقین نے ایسے بہت سے جھوٹوں کو جمع کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب بچے شرارت کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ’اگر باز نہیں آ‏ئے تو میں پولیس کو کال کرونگا‘۔ یا بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ رویہ نہیں بدلتے تو ’پھر وہ جو خاتون وہاں پر کھڑی ہیں وہ آپ سے بہت ناراض ہو جائیں گي‘۔ بعض دفعہ والدین جھوٹ بول کر بچوں کو منانے میں اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں یہ کہتے سنا گيا ’اگر تم میرے ساتھ نہیں چلوگے تو پھر ایک اغوا کرنے والا آئے گا اور تمہیں یرغمال بناکر لے جائےگا‘۔

لیکن اس سلسلے میں اس طرح کے بھی بہت سے جھوٹ ہیں جو بچوں کے احساسات کے تحفظ کو خیال کرکے مثبت اثر کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ ’آپ کا پالتو، کتا یا بلی، آپ کے انکل کے فارم میں رہنے گيا ہے جہاں اسے کھیلنے کودنے کے لیے زیادہ وسیع جگہ ملے گي‘۔ کئي بار دکان پر بچوں سے یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ’آج پیسے نہیں لایا ہوں اور اس کے لیے کسی اور روز واپس آئیں گے‘۔ اس رپورٹ میں یہ بات واضح نہیں کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں ماں اور باپ کے جھوٹ بولنے میں کیا فرق ہے۔ ریسرچ کرنے والے ماہرین کا تعلق امریکہ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی، چین میں زیجنگ نیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کینیڈا کے شعبہ نسفیات سے ہے۔ امریکہ اور چین دونوں میں اس طرح کے جھوٹ عام بات ہے لیکن امریکہ کے بہ نسبت چین میں یہ کچھ زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بچوں کے رویہ میں تبدیلی کے لیے اس طرح کے جھوٹ کو سماج میں قبول کر لیا گيا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کو سبزی یا صلاد کھانے کی ترغیب دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اگر بروکلی کھائیں گے تو زیادہ لمبے ہوں گے۔

اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ رویہ رکھنے پر بڑے ہونے پر والدین اور ان کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔اور بچوں میں اس سے جھوٹ بولنے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔

والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں

اتوار, دسمبر 09, 2012

یوکرین میں 6 کلو گرام سے زائد وزنی بچے کی پیدائش

یوکرین کے صوبہ زاپوروژئے کے شہر میلی توپول میں میکسم درانک اور الینا کے ہاں 6 کلو گرام دو سو اسی گرام وزنی بچہ پیدا ہوا۔ بچے کا قد 64 سینٹی میٹر ہے۔ بچے کے قد اور وزن کی دنیا میں مثال نہیں ملی۔ یہ بات میلی توپول سٹی کونسل نتالیا فیدوروا نے بتائی۔

میلی توپول سٹی میٹرنٹی ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بچہ پانچ مہینے کے بچے کے برابر ہے۔ اکتیس سالہ ماں کا یہ تیسرا بچہ ہے۔ بچے کی ماں الینا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سارے کپڑے اس کے بچے کے لئے بہت کم ثابت ہوئے اور اب انہیں بڑے کپڑے خریدنا پڑیں‌ گے۔ ماں اور بچے کی صحت ٹھیک ہے۔

ہفتہ, دسمبر 08, 2012

پاکستان: آپریشن سے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹروں کا اصرار کیوں؟

پاکستان میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجوہات اکثر بچے کو جنم دینے والی ماؤں کو بھی پتہ نہیں ہوتیں۔ ستائیس سالہ نازیہ جو حال ہی میں ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں، کا تجربہ کافی تلخ ہے وہ بتاتی ہیں، ”میری یہ پہلی ڈیلیوری تھی۔ میں ہسپتال گئی تھی معمول کے چیک اپ یا معائنے کے لئے۔ میں وہاں گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپریشن کی ضرورت ہے اس لئے فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہو جائیں۔ مجھے انہوں نے وجہ کوئی نہیں بتائی۔ بس داخل کرنے کے بعد آپریشن کر دیا۔ مجھے کسی طرح کا درد نہیں تھا نہ ہی کوئی مسلئہ تھا لیکن انہوں نے آپریشن کیوں کیا یہ میں نہیں بتا سکتی‘‘۔ نازیہ نے مزید بتایا کہ آپریشن پر اٹھنے والے اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ انہیں مجبوراً آپریشن کے دوسرے دن ہی ہسپتال سے رخصت لینی پڑی کیونکہ مزید اخراجات اٹھانے کی سکت ان کا خاندان نہیں رکھتا۔

یہ صرف نازیہ کا ہی نہیں بلکہ کئی خواتین کا شکوہ ہے جو ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ان کی فیملی ڈاکٹرز معائنے کے بعد انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ بچے کی پیدائش قدرتی طریقے سے عمل میں آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ تاہم ان ہسپتالوں میں جہاں بچے کی پیدائش کے لئے اندراج کروایا جاتا ہے، وہاں کوئی نہ کوئی مسلئہ بتا کر آپریشن تجوہر کر دیا گیا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کا تناسب 15 فیصد سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اس کا کیا تناسب ہے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ سرکاری سطح پر ہسپتالوں سے ریکارڈ اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آپریشن سے بچوں کی ولادت کا تناسب پاکستان میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ”بعض اوقات کھبی کوئی مسلئہ ہوا مثلاً کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ آپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے ملتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار مل جاتے ہیں، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ethical practice نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کو ایسا لگتا ہے کہ ان کا آپریشن غیر ضروری طور پر کیا گیا تو اس شکایت کے اندارج کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، ”آپ PMDC پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں اپنی شکایت کا اندراج تو کروا سکتے ہیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان میں جو یہ معاملہ چل رہا ہے اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے‘‘۔ 

آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں کو غیر معمولی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے
ملتان کے ایک پرائیوٹ کلینک میں ماہر گائناکالوجسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر غزالہ اعوان کا کہنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے غیر ضروری آپریشن کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو ان خواتین کو چاہئے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین سے صلاح و مشورہ کیا کریں، ”سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو کیونکہ قدرتی یا آپریشن سے کی جانے والی ولادت کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے بہتر ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود کنسلٹنٹس سے مشورہ لیں‘‘۔

ڈاکٹر شیر شاہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین کو چاہئے کہ وہ ابتداء سے ہی کوشش کریں کہ ایسے ہسپتال سے رجوع کریں جس کے بارے میں وہ مطمئن ہوں۔

آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹر کیوں مُصر

ہفتہ, نومبر 24, 2012

لاوارث ٹائیگر بچوں کو نئی ماں مل گئی

روس میں ٹائیگر کے تین بچوں کو نئی ماں مل گئی ہے، مگر وہ شیرنی نہیں بلکہ جرمن نسل کی سفید شیفرڈ کتیا ہے، جس کا نام تالیم ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ بچے روس کے بحیرہ اسود کے ایک تفریحی قصبے سوچی کے چڑیا گھر میں 14 نومبر کو پیدا ہوئے تھے۔ پیدائش کے بعد نر بچوں کے نام اولیمپ اور دار جب کہ مادہ ٹائیگر کا نام تالی رکھا گیا۔ بچوں کی ماں نے، جس کا نام باگیریا ہے، جنم دینے کے بعد انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور وہ لاوارث ہوگئے۔ باگیریا اس سے پہلے بھی دو بچوں کو جنم دینے کے بعد انہیں چھوڑ چکی ہے۔ ماضی کے تجربے کے پیش نظر چڑیا گھر کی انتظامیہ بچوں کی پیدائش سے قبل ہی ان کی نئی ماں کا انتظام کر چکی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی شیرنی نے اپنے نوزائیدہ بچوں کو پرے دھکیلا، چڑیا گھر کی انتظامیہ نے انہیں نئی ماں کے حوالے کر دیا۔ بچوں کا باپ بھی اسی چڑیا گھر میں ہے، لیکن بچوں کی دیکھ بھال عموماً ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 

چڑیا گھر کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بچے اپنی ٹائیگر کی جبلت کا اظہار کرتے ہوئے غرانے اور پنچے مارنے سے باز نہیں رہتے، لیکن کتیا کےرویے میں ان کے لیے نرمی اور شفقت ہے۔ چڑیا گھر کی انتظامیہ کو توقع ہے کہ ٹائیگر کے بچے اپنی نئی ماں کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنیں گے۔

پیر, نومبر 19, 2012

طلبا سکول جانے کے لیے دریا عبور کرتے ہیں

علم کے حصول کے لئے چین تک جانے کا حکم ہے لیکن انڈونیشیا میں بچوں کو سکول جانے کے لئے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ مغربی سماٹرا کے گاؤں لمبونگ بیوکک کے بچوں کو سکول جانے کے لئے ہر روز دریا عبور کرنا پڑتا ہے جس کا پاٹ 80 فٹ چوڑا اور بعض مقامات پر گہرائی تین فٹ کے لگ بھگ ہے۔ دریا کا بہاؤ بھی بہت تیز ہے۔ دریا کنارے پہنچتے ہی یہ اپنی پینٹوں کے پائنچے اوپر چڑھا لیتے ہیں جبکہ بعض کو تو اپنی قمیض تک اٹھانا پڑتی ہیں۔ دوسرے کنارے پہنچ کر بچے دوبارہ یونیفارم پہن کر سکول کا رخ کرتے ہیں۔ 

بچوں کا کہنا ہے برسات میں دریا کا بہاؤ اور تیز ہو جاتا ہے اور اس وقت اسے عبور کرنا جاں جوکھوں کا کام ہے۔ دریا اب تک بچوں کے دو ساتھیوں کو نگل چکا ہے۔ 

مقامی انتظامیہ کے مطابق بچوں کی مشکل کو دیکھتے ہوئے دریا پر پل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رقم مختص ہو چکی اور اگلے برس پل بن جائے گا۔

اتوار, نومبر 18, 2012

بس اور ٹرین میں تصام: 47 بچے جاں بحق

حادثے میں زخمی بچے ہسپتال میں زیر علاج ہیں
مصر کے جنوب میں ایک سکول بس ٹرین کی زد میں آنے سے درجنوں بچے ہلاک ہو گئے۔ حکام کے مطابق ہفتہ کو جنوبی علاقے منفالوت میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک سکول بس ریلوے لائن کراس کرتے ہوئے ریل گاڑی کی زد میں آ گئی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق بس میں چار سے چھ سال تک کی عمر کے تقریباً 60 بچے سوار تھے۔ ہلاکتوں کی تعداد 47 بتائی گئی ہے۔

صدر محمد مرسی نے متعلقہ وزراء کو متاثرہ خاندانوں کی معاونت کا حکم دیا ہے۔ مصر میں عموماً ریل کے ناقص نظام اور خراب انتظامی ڈھانچہ ملک میں ایسے حادثات کی ایک بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔ ادھر پاکستان نے مصر میں پیش آنے والے اس حادثے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ہفتہ کو وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے مصر کی حکومت اور ہلاک شدگان کے لواحقین سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی گئی ہے۔

بدھ, نومبر 14, 2012

خون کی کمی: ننھی کلی مرجھانے کا خطرہ

تھیلیسیمیا کی مریض 8 سالہ عفیفہ بہت خاص بچی ہے۔ اس کے خون کا گروپ hh ہے جو بہت نایاب ہے۔ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں ہر دس لاکھ میں سے صرف چار ایسے لوگ ہوں گے جن کا بلڈ گروپ hh ہوگا۔ خون فراہم کرنے والے ادارے کہتے ہیں پورے پاکستان میں اب تک محض 14 لوگ خون کے اس گروپ کے ساتھ دریافت ہوپائے ہیں اور کراچی میں تو صرف سات ہی لوگ hh گروپ کا خون رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی کو بھی اپنے خون کا عطیہ دے سکتے ہیں لیکن پھر ان کے اپنے لیے خون کا عطیہ کوئی نہیں دے سکتا۔ ان کا خون صرف اپنے ہی گروپ والے خون کو قبول کرتا ہے۔ ایسے میں سوچئے اگر کسی کو خون کی ضرورت ہو تو کیا کرے ۔

عفیفہ کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کو خون کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ننھی سی بچی پچھلے چار سال سے تھیلیسیمیا کی مریض ہے اور اس کو ہر مہینے دو بوتل خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب اتنے نایاب خون کی دو بوتلیں ہر مہینے حاصل کرنا عفیفہ کے والدین کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

کچھ عرصے پہلے تک تو صرف دو ہی ایسے نیک لوگ تھے جو عفیفہ کے لئے خون دیا کرتے تھے اور اب بھی یہ عطیہ دینے والوں کی تعداد صرف تین ہوپائی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عطیہ دینے والا اپنے خون کے پیسے نہیں لیتا بلکہ دو لوگ تو عفیفہ کو خون دینے کے لئے امریکہ اور دبئی سے اپنے خرچے پر خاص طور پر پاکستان آتے ہیں۔
 
عفیفہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہی ہے
پاکستان میں عموماّّ یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کس کے خون کا گروپ کیا ہے جب تک کسی کو خون کی ضرورت خود نہ پڑ جائے۔ یورپی ممالک میں بھی، جہاں یہ معلومات پیدائش کے وقت ہی دستاویزات میں محفوظ کر لی جاتی ہیں hh گروپ کے خون والے لوگ بہت کم ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر دس لاکھ میں صرف ایک شخص ایسا ہوگا جو خون کے اس نایاب گروپ سے تعلق رکھتا ہوگا۔ بھارت اور خاص طور پر ممبئی میں جہاں یہ گروپ اب سے پچاس سال پہلے سب سے پہلے دریافت ہوا تھا دس لاکھ میں سے سو افراد ایسے مل سکتے ہیں جو ایسا گروپ والا خون رکھتے ہوں۔

مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر عفیفہ کا تھیلیسیمیا کا علاج ہوجائے تو ایسا خون رکھنا از خود کوئی بیماری نہیں۔ اب تک صرف ایک ہی راستہ نظر آیا ہے اور وہ بھی خاصہ مشکل۔ عفیفہ کی والدہ کی ہڈیوں کا گودا اگر عفیفہ کو مل سکے تو اس bone marrow transplant operation کے ذریعے عفیفہ کا تھیلیسیمیا ختم ہوسکتا ہے۔ مگر یہ آپریشن نہ صرف مہنگا ہوگا بلکہ خطرناک بھی۔ اس میں عفیفہ کی جان بھی جاسکتی ہے۔
 
 عفیفہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مشکل ہوگا۔ جب تک عفیفہ کے لئے خون دینے والے اتنی بڑی تعداد میں جمع نہ ہوجائیں کہ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون مل سکے یا پھر کسی طور اس کے تھیلیسیمیا کا علاج ہوسکے یہ ایک بہت مشکل کام ہوگا۔ عفیفہ کوالبتہ ابھی بھی امید ہے، دنیا میں اس کے خون کا گروپ نایاب صحیح، نیکی ابھی بھی نایاب نہیں ہوئی ہے۔

خون کی کمی اور نایاب بلڈ گروپ: ننھی کلی کے مرجھانے کا خطرہ

پیر, نومبر 12, 2012

نمونیہ کے خلاف نیا ٹیکا۔۔۔ پاکستانی بچوں پر تجربہ شروع

ہر سال پاکستان میں کم سے کم ایک لاکھ 35 ہزار بچے نمونیہ کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ اس موضی مرض کا علاج اتنا مشکل نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے نہ ہونے کی وجہ سے اتنی جانیں ہر سال ضایع ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین بھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ کیسے اس مرض کی روک تھام کی جاسکے۔ لیکن اب بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک نئی دوا ایجاد ہوئی ہے جس پر ان کا بھروسہ زیادہ ہے۔

شاید اسی وجہ سے پاکستانی حکومت نے اس سے پہلے کہ بھارت یا خطے کا کوئی دوسرا ملک اس دوا کو اپنے ہاں استعمال کرے، پہلے خود استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پچھلے دنوں سندھ حکومت نے اسی فیصلے کہ مطابق سندھ کے تمام اضلاع میں اس نئی دوا کو متعارف کروایا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک یہ دوا جنوبی ایشیا کے کسی دوسرے شہر میں متعرف نہیں ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں صرف تقریباََ 20 ایسے ممالک ہیں جو اس دوا کو استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ سینے کے امراض کے ماہر ڈکٹر جاوید خان کا کہنا ہے کہ اس دوا کا استعمال پاکستان میں بر وقت ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سال اتنے سارے بچوں کی موت کے باوجود پاکستان میں اس مرض کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ جس طرح دوسری خطرناک بیماریوں کے بارے میں تشہیر کی جاتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کے بارے میں اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کی احتیاطی ویکسین کی ایجاد سے اس بیماری سے لڑنے میں بہت مدد ملے گی۔ اب تک بچوں کی ویکسین صرف پولیو وغیرہ تک محدود تھی لیکن نمونیہ کی اس دوا کے میسر ہونے سے بہت سے بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک ہی کیوں ایسی ادویات کے لئے تجربے گاہ بنتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نمونیہ کا تعلق گندگی سے ہے اور مغربی ممالک نے اس لعنت سے بڑی حد تک چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ پاکستان میں چونکہ حفظان صحت ابھی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لہذا یہیں ایسے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ اسی لیے ان بیماریوں کی ادویات بھی یہیں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

انہوں نے حکومتِ پاکستان کی تعریف کی کہ ویکسین کے حوالے سے اٹھایا جانے والا یہ قدم اس موضی مرض سے بچنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ بیماری بہت عام ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں غربت ، کثیر الاولادی، اور صفائی کا نہ ہونا بڑے مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ممالک میں اگر کسی کو نمونیہ ہوجائے تو دیہی علاقوں میں تو علاج بیس بیس میل تک نہیں ملتا۔

اتوار, نومبر 11, 2012

ملالہ ڈے پر پاکستان بھر میں تقریبات


 ملالہ ڈے پر پاکستان بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا جبکہ سوات کی بہادر بیٹی کی مکمل صحت یابی کی دعائیں مانگی گئیں۔ 

سندھ اسمبلی میں ملالہ ڈے کی مناسبت سے تقریب سجائی گئی جس میں سول سوسائٹی، میڈیا اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور ملالہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف ٹیبلوز پیش کیے۔ 

سپیکر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ جو لوگ مذہب اور انسانیت کے دشمن ہیں وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔ 

معروف مصنفہ فاطمہ ثریا بجیا نے اس موقعے پر ملالہ یوسفزئی کی درازی عمر کی دعائیں مانگیں۔ وادی سوات کے مخلتف سکولوں میں بھی ملالہ کی مکمل صحت یابی کےلیے دعائیں مانگی گئیں۔ 

اسلام آباد میں ملالہ زندہ باد کنونشن سے خطاب میں رکن قومی اسمبلی ممتاز عالم گیلانی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان ملالہ کی لکھی ہوئی ڈائری کے متن کو قومی نصاب میں شامل کرے۔ 

کنونشن میں ملالہ کو نوبل انعام دینے اور ملالہ ایجوکیشن فائونڈیشن کے قیام کی قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔

جمعہ, نومبر 09, 2012

جاڑا دھوم مچاتا آیا

گلابی سردیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ گوکہ ابھی مکمل سردیوں کا موسم شروع نہیں ہوا۔ لیکن ٹھنڈی ہواؤں کی آمد کے ساتھ ہی خواتین نے کمبل، لحاف اور رضائیوں کو دھوپ لگانی شروع کر دی ہے۔ مہینوں سے الماری اور سوٹ کیسوں میں بند سوئٹرز، شالیں، جیٹکس اور اوُنی ٹوپیاں بھی اب وارڈ روب کی زینت بن چکی ہیں۔

سردیوں کے موسم کا حسن ہی الگ ہے، جو مزہ سردیوں میں لحاف میں دبک کر مونگ پھلیاں کھانے میں ہے، وہ مزہ بھلا کسی اور موسم میں کہاں۔ مگر اس کے باوجود سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی بیشتر افراد سرد موسم اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں کے زیر اثر فلو، کھانسی، نزلہ ، جوڑوں کے درد یا جلد کی خشکی جیسے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان چھوٹی موٹی بیماریوں اور تکالیف کی وجہ سے سردیوں کے موسم کا لطف نہیں اٹھا پاتے کئی لوگ اسی لیے سردیوں کے موسم کو پسند نہیں کرتے اور سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی پریشان ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے تو پریشان ہونا چھوڑیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور ٹوٹکوں پر عمل کرکے آپ سردیوں میں بھی خوش باش رہ سکتی ہیں۔ خصوصاً خواتین بچوں اور گھر کے بزرگوں کی چھوٹی چھوٹی بیماریوں اور تکالیف سے پریشان رہتی ہیں۔ اب بے فکر ہوجائیے، ہماری درج ذیل باتوں پر عمل کیجیے سب آپ کے قائل ہوجائیں گے۔ 

جوڑوں کا درد:
1۔ روزانہ وقت مقرر کرکے واک ضرور کریں۔ دس منٹ پندرہ منٹ سے شروع کریں آہستہ آہستہ اس کو بڑھاتے ہوئے تیس منٹ تک لے جائیں۔

2۔ کچھ وقت سورج کی روشنی میں ضرور گزاریں، اس طرح کے آپ کے متاثرہ جوڑ پر سورج کی روشنی پڑے۔

3۔ اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بڑھا دیں، مثلاً دو گلاس نیم گرم دودھ اور آدھا کپ دہی۔ دن بھر میں کسی بھی وقت لے لیں، مثلاً ایک گلاس دودھ صبح، دوپہر میں دہی، پھر رات کو ایک گلاس دودھ لے لیجیے۔

4۔ ایک ٹب میں گرم پانی (اتنا گرم ہو کہ آپ کی جلد برداشت کرسکے) اس میں مٹھی بھر کر نمک شامل کرکے اس میں اپنے پیر یا ہاتھ یا متاثرہ جوڑ کچھ دیر اس پانی میں ڈبوئے رکھیں پھر پانی سے نکال کر فوراً تولیے سے خشک کر لیں۔ یہ درد کے لیے مفید ٹوٹکا ہے۔

5۔ زیتون کے تیل سے جوڑوں پر ہلکے ہاتھ سے کچھ دیر مساج کیجیے بہت مفید ہے۔ 

فلو، کھانسی، نزلہ :
1۔ صبح نہار منہ اور رات سوتے وقت ایک کھانے کا چمچہ نیم گرم شہد کھا لیں۔

2۔ ایک کپ پانی میں تھوڑی سی چائے کی پتی، تین چار دانے لونگ، دو چھوٹے ٹکڑے دار چینی اور ایک چھوٹی الائچی ڈال کر ابالیں۔ اتنا پکائیں کہ آدھا کپ رہ جائے پھر چھان کر شہد یا چینی ملا کر صبح نہار منہ پی لیں۔

3۔ دن بھر کی غذا میں سوپ کا استعمال ضرور کریں، مرغی کا سوپ، بکرے کی ہڈیوں کی یخنی، مرغی کی یخنی، سبزی اور گوشت کا سوپ غرض کوئی بھی سوپ ہو اس کا استعمال ضرور کیجئے۔

نزلہ ، زکام ، سینے کی جکڑن میں بھاپ ضرور لیں، کھلے منہ کے دیگچے میں پانی ابال کر اس میں وکس ملالیں اگر وکس بام نہ ہو تو صرف پانی کی بھاپ لے لیں۔

5۔ نیم گرم پانی میں شہد ملا کر صبح اور رات کے وقت پی لیں۔

جلد اور بالوں کی خشکی:
1۔ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ سردیوں میں عموماً پانی کم پیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے جِلد خشکی کا شکار ہوجاتی ہے۔

2۔ بالوں کی خشکی کے لیے ایک انڈا توڑ کر اس میں ناریل کا تیل ملائیں۔ ناریل کا تیل اپنے بالوں کی لمبائی کے حساب سے کم یا زیادہ ملائیں۔ اب اس کو اپنے بالوں میں لگائیں۔ اچھی طرح تمام بالوں میں لگا کر بالوں کا جوڑا باندھ لیں یا کلپ سے باندھ کر پرانا دوپٹہ چاہے باندھ لیں۔ دو گھنٹے بعد نیم گرم پانی اور شیمپو سے دھولیں نرم ملائم خشکی سے پاک بال ہوجائیں گے۔

3۔ منہ ہاتھ دھونے یا نہانے کے بعد جِلد کو مکمل طور پر خشک نہ کریں۔ جلد میں ہلکی نمی باقی ہو تو لوشن لگالیں۔ اس طرح جلد مکمل خشک ہوجانے سے بچ جاتی ہے۔ یہ عمل نومولود بچوں سے بڑوں تک سب کے لیے فائدہ مند ہے۔

4۔ ہاتھوں اور پیروں کو خشکی سے بچانے کے لیے لوشن اور ویسلین کا استعمال ضرور کیجیے۔ خصوصاً برتن، کپڑے وغیرہ دھونے کے بعد ہاتھ دھو کر فوراً لوشن لگالیں۔
 

جمعہ, نومبر 02, 2012

آسٹریلیا میں لڑکے کو نئی زندگی مل گئی

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ڈاکٹروں نے اپنی نوعیت کا پہلا سرجیکل آپریشن کرکے ایک بچے کی جان بچالی ہے، جس کا فشار خون ایک غیر معروف بیماری کے اچانک انتہائی بلند ہوجایا کرتا تھا۔ دس سالہ میتھیوگیتروپ اپنی تمام زندگی شدید نوعیت کے تناؤ میں رہا۔ اس کے جگر اور گردے کا ایسا عارضہ لاحق تھا، جسے طب کی زبان میں آٹوسومل ریسیسیو پولیسٹک کڈنی ڈزیز اینڈ کونجینائیٹل ہیپاٹک فائبروسس کہتے ہیں۔ اس کم عم میں اسے ایک بار دل کا دورہ بھی پڑچکا ہے۔ اس اذیت ناک زندگی میں روزانہ تیس طرز کی ادویات کھاتا تھا اور اس کے لیے خوراک بھی اسی مناسبت سےکیا کرتا تھا۔

محض چار برس کی عمر میں اسے نیند میں خلل کا عارضہ بھی لاحق ہوا تھا۔ روایتی طریقے سے اگر میتھیو گیتروپ کا علاج کیا جاتا تو روزانہ کی بنیاد پر اس کا خون تبدیل کرنا پڑتا یعنی ڈائلائسس، اس کا گردہ اور جگر تبدیل کرنا پڑتا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اسے پھر دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

ایسے میں موناش ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے طبی عملے نے ایک تجرباتی نوعیت کے آپریشن کی ٹھانی۔ ریڈیائی شعاعوں کی تکینک کو اس انداز میں استعمال کیا گیا کہ میتھیو کے گردے کو خون فراہم کرنے والی رگ اور قریبی عضلات کو نشانہ بنایا گیا۔ سرجن ای این میریڈیتھ کے بقول اس کی مدد سے میتھیو گیتروپ کا فشار خون معمول پر آیا اور اس کی بیماری کی علامات بھی کافی حد تک ختم ہوگئیں۔ اس کم عمر لڑکے پر اس طرح رگ کو ناکارہ کرنے کا رینل ڈینرویشن طریقہء کار آزمانے سے پہلے اس کا اخلاقی پہلو سے تین اخلاقی کمیٹیوں نے جائزہ لیا اور پھر اجازت دی۔ یہ طریقہء بالغ افراد پر بھی فی الحال محض تجرباتی بنیادوں پر آزمایا گیا ہے۔

دس سالہ اس بچے کی چھوٹی رگوں کے لیے یہ آلہ ایک امریکی کمپنی نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا۔ گیتروپ کی والدہ ایلکس اپنی بیٹے کی حالت دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ان کے بقول ان کا بیٹا اب خاصا پرسکون اور چوکنا رہنے لگا ہے اور اس کا بلند فشار خون بھی معمول پر آ گیا ہے۔  

’’اس نے پھر سے کہانیاں پڑھنا شروع کردی ہیں، یہ سننے میں بہت چھوٹی بات لگتی ہے مگر کافی عرصے تک یہ نہیں کر پارہا تھا، وہ اب سکول پر بھی خوب توجہ دے رہا ہے۔‘‘ وہ پر امید ہیں کہ ان کے بیٹے کو اب تکلیف دہ علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ ایک نئی اور آسودہ زندگی بسر کر سکے گا۔
 

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

بھارت کی ریاست راجستھان کے بارمیڑ ضلعے کی ایک عدالت نے تین لڑکوں کو اپنے والد کا خیال نہ رکھنے پر دو دو ماہ کی سزا سنائی ہے۔ اس عمر رسیدہ شخص کے بیٹوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے والد کا خیال نہیں رکھا اور انہیں بے سہارا چھوڑ دیا۔ بارمیڑ کے گودھاملانی کے ذیلی ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جمعرات کو یہ فیصلہ سنایا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ ان تینوں بیٹوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے۔ ستر سالہ سونا رام وشنوعی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایس ڈی یم نے یہ پایا کہ ان کے بچوں نے ان کا خیال نہیں رکھا اور انھیں بے سہارا چھوڑ دیا اور اسی لیے انہیں یہ سزا سنائی گئی۔ شکایت کے مطابق وشنوئی کے چھ بیٹے ہیں جن میں سے تین نے عدالت کے حکم کے باوجود ان کی مدد کرنے سے منع کردیا۔ شکایت نامے کے مطابق چھ میں سے تین بیٹوں نے عدالت کے سامنے اپنے والد کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا لیکن دوسرے تین بیٹوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ایک لاپرواہ والد رہے ہیں اور انہوں کبھی اپنی اولاد کی پروا نہیں کی۔

عدالت میں ان بیٹوں کو حاضر کرنے کے لیے عدالت کو کافی مشقت کرنی پڑی کیونکہ ان کے بیٹے عدالت سے جاری سمن وصول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ عدالت نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ ضعیف سونارام وشنوئی یہاں وہاں بھٹک رہے ہیں اس لیے ان کے بیٹوں کو چاہیے کہ وہ ان کی فکر کریں لیکن ان کے بیٹوں نے ان کی کوئی خبر نہیں لی۔ شروع میں عدالت نے ان کے بیٹوں کو اپنے والد کی دیکھ بھال کی جانب راغب کرنے اور احساس دلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔ اس کے بعد ایس ڈی ایم شنکر لال نے بوڑھے اور معمر شہری کی نگرانی اور دیکھ بھال کے قانون کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ‎سزا سنائی۔

اس قانون کے مطابق اگر کسی شخص کو اس جرم کا مرتکب پایا گیا کہ وہ اپنے والدین کا خیال نہیں رکھ رہا ہے تو اسے تین ماہ کی قید ہو سکتی ہے اور پانچ ہزار تک جرمانہ۔ ریاست نے دو سال قبل اس قانون کو منظوری دی تھی۔

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

محمد موسٰی صحت مند بچوں کا چیمپیئن

گوجرانوالہ ڈویژن کے محمد موسیٰ نے صحت مند بچوں کا فائنل ٹائٹل جیت لیا ہے۔ مقابلے میں پنجاب کے نو ڈویژنز کے فاتح بچوں نے حصہ لیا۔

ایکسپو سینٹر لاہور میں ہونے والے دلچسپ فائنل مقابلے میں گجرات سے تعلق رکھنے والے تین سالہ محمد موسٰی پہلے، شیخوپورہ کے فاتح رانا فیصل دوسرے اور فائنل تک پہنچنے والی ڈویژن کی واحد بچی لاریب زہرہ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ فاتح محمد موسیٰ کی والدہ کا کہنا تھا کہ انہیں پہلے دن سے یقین تھا کہ ان کا بیٹا صوبے کا چیمپین بنے گا۔

مقابلے میں دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے بچوں کے والدین نے بھی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایسے مقابلوں کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ایسے ایونٹس سے بچوں کے اعتماد میں بچپن سے ہی اضافہ ہوتا ہے۔

یونین کونسل سطح سے شروع ہونے والے اس مقابلے میں 61 ہزار بچوں نے حصہ لیا۔ نو بچے بتدریج فائنل سطح تک پہنچے۔ ان بچوں کو وزن، قد، ذہانت، خوبصورتی اور خوش لباسی کا جائزہ لینے کے بعد منتخب کیا گیا۔

بچوں کو کھانسی میں اینٹی بائیوٹکس نہ دیں

اطالوی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو کھانسی میں اینٹی بائیوٹکس ادویات دینے سے پرہیز کریں۔

سردیوں میں بچوں کو نزلہ زکام کے ساتھ کھانسی بھی ہوجاتی ہے جس کا علاج دیگر ادویات کے ساتھ اینٹی بائیوٹکس کو سمجھا جاتا ہے۔ 

اطالوی ڈاکٹروں نے تین سو سے زائد بچوں کا معائنہ کیا جو سردی لگنے سے کھانسی کا شکار ہوئے۔ بچوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا پہلے گروپ کو اینٹی بائیوٹکس، دوسرے کو کھانسی کے شربت اور تیسرے گروپ کو اینٹی بائیوٹکس اور کھانسی کی ادویات دی گئیں۔ اینٹی بائیوٹکس لینے والے بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑا جبکہ باقی دونوں گروپوں کے بچے تقریباً ایک ساتھ ٹھیک ہوئے۔