شخصیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شخصیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ, دسمبر 26, 2012

لوگ بھلا ہی دیں گے: پروین شاکر کی یاد میں

مر گئے بھی تو کہإں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

شاعرہ کا یہ گلہ تو بجا نہیں کہ لوگ انہیں بھلا دیں گے۔ البتہ، مصرہ ثانی، خوشبو جیسے لہجے کی شاعرہ کے امر ہونے کا ایک زمانہ  گواہ ہے۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں  پروین شاکر کی جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 18 برس گزرنے کے باوجود لوگ بھولے نہیں، ان کے لفظ ہمیشہ ان کے ہونے کے گواہ رہیں گے۔

24 نومبر، پیر کی سرد رات اور رم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدائے اذان بلند کی، کراچی کے ایک ہسپتال میں  ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النسا اور سید شاکر حسین  زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا جسے آج دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔

بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

جدید  اردو شاعری کے  اہم نام  پروین شاکر کے فنی مقام سے تو لوگ آگاہ ہیں ہی، آج  ہم ان کی ذاتی زندگی کے چند اوراق پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان کی بڑی بہن نسرین بانو اور پروین نے اپنا بچپن ایک ساتھ ہنستے کھیلتے گزارا۔ دونوں اکٹھے سکول جایا کرتیں۔ پروین جب تیسری کلاس میں تھیں تو انہیں ڈبل پرموشن دیا گیا  یوں دونوں بہنیں ایک ہی کلاس میں آ گئیں۔

ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں، واپسی پر  اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا، وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں  جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زور زور سے ہارن بجا رہی تھیں، شاپ سے سیلز مین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں انہیں جوتا چاہیے، اصل میں وہ  کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو  بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔

ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ صرف 24 برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ ’’خوشبو‘‘ شائع ہوا۔

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر  جاؤں  تو  مجھ کو   نہ سمیٹے  کوئی

انگلش لٹریچر اور لنگئٹکس میں ماسٹرز کے بعد پروین شاکر کچھ عرصہ انگلش کی لیکچرر رہیں پھر  سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم میں اسسٹنٹ کمشنر  کے طور پر تعینات ہوئیں۔

رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں
ان کو تھاموں
زینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروں
یا اپنے کمرے میں ٹھہروں
چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے

سنہ 1976 میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا اور1987ء میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔

کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
۔۔۔۔
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
۔۔۔۔۔
کون چاہے گا تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
۔۔۔
پروین اسلام آباد میں سی۔بی۔آر کی سیکنڈ سیکریٹری مقرر ہوئیں، اس کے بعد کسٹم میں ہی انسپیکشن اور ٹریننگ کی ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئیں۔

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
۔۔۔
26 دسمبر پیر ہی کے روز آفس جاتے ہوئےاسلام آباد میں ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کومل لہجے والی ہی شاعرہ صرف 42 برس کی عمر میں  اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ انہیں اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اُن کے کتبے پر یہ شعر درج ہیں:

مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
۔۔۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

ہفتہ, دسمبر 08, 2012

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

ڈاکٹر عمران فاروق
لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں ایجویئر کے علاقے میں واقع ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ مارنے اور تلاشی لینے کی تصدیق کی ہے۔ میٹروپولیٹن (میٹ) پولیس کے پریس آفس نے جمعہ کی شب بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر تلاشی کا کام دو دن سے جاری تھا۔ میٹ پولیس کے ایک اہلکار جوناتھن نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ چھاپہ جمعرات کو مارا گیا تھا جس کے بعد مفصل تلاشی کا کام شروع ہوا جو جمعہ کی شام کو مکمل کر لیا گیا۔ میٹ آفس کے اہلکار نے ایم کیو ایم کے دفتر سے قبضے میں لیے گئے شواہد کی تفصیل نہیں بتائی۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے سلسلے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی شخص کو تفتیش کے لیے روکا گیا ہے۔
لندن میں ایم کیو ایم کے ترجمان مصطفٰی عزیز آبادی سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے انہوں نے کہا کہ ’ایسی کوئی بات نہیں۔‘ مصطفٰی عزیز آبادی نے کہا کہ کل سے اخبار والے یہ خبر اڑاتے پھر رہے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

 گزشتہ ستمبر میٹروپولیٹن پولیس سروس کی انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم نے کہا تھا کہ ڈاکٹر فاروق قتل سے چند ماہ پہلے اپنا ایک آزاد سیاسی ’پروفائل‘ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹر فاروق اپنا سیاسی کیریئر از سر نو شروع کرنے کے متعلق سوچ رہے ہوں۔ اس وجہ سے پولیس ہر اس شخص سے بات کرنا چاہتی ہے جو ڈاکٹر فاروق سے سیاسی حوالے سے رابطے میں تھا۔ پولیس کے علم میں ہے کہ ڈاکٹر فاروق نے جولائی 2010 میں ایک نیا فیس بک پروفائل بنایا تھا اور سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر بہت سے نئے روابط قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی ہلاکت کی دوسری برسی کے موقع پر پولیس نے ایک مرتبہ پھر لوگوں سے اپیل کی کہ اگر ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ سامنے لائیں۔

پچاس سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو جو سنہ 1999 میں لندن آئے تھے، 16 ستمبر 2010 کو ایجویئر کے علاقے میں واقع گرین لین میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اکتوبر میں پولیس کو حملے میں استعمال ہونے والی چھری اور اینٹ بھی ملی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور لگتا ہے کہ اس کے لیے دوسرے افراد کی مدد بھی حاصل کی گئی تھی جنہوں نے ہو سکتا ہے جان بوجھ کر یا انجانے میں قتل میں معاونت کی ہو۔

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

اتوار, دسمبر 02, 2012

ملالہ یوسف زئی پاپولر چوائس

ملالہ یوسف زئی
لندن — معروف ہفت روزہ جریدہ ٹائم نے ’پرسن آف دا ائیر‘ منتخب کرنے کے لیے چالیس شخصیات اور خیالات پر مشتمل ایک فہرست شائع کی ہے۔ جس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی پندرہ سالہ ملالہ یوسف زئی کا نام بھی شامل ہے۔ برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کے مطابق سال 2012 کے لیے میگزین نے ایسی شخصیات اور خیالات کو منتخب کیا ہے جو بارہ مہینوں کے دوران اچھے یا برے حوالے سے سب سے زیادہ خبروں کا حصہ بنے ہوں۔ ملالہ کے علاوہ اس فہرست کی دیگر شخصیات میں امریکی صدر باراک اباما، مصر کے صدر محمد مرسی، شام کے صدر بشارالاسد، امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن، مٹ رومنی، سابق امریکی صدر بل کلنٹن، گنگم سٹائل پی ایس وائی اور کئی اہم نام شامل ہیں۔

ٹائم میگزین ہر سال کے اختتام پر پرسن آف دا ائیر کا انتخاب ایک عوامی پولنگ یا رائے عامہ کے ذریعے کرتا ہے، تاہم آخری فیصلے کا اختیار میگزین کے ایڈیٹر کے پاس ہوتا ہے۔ اب تک مصر کے صدر محمد مرسی کو ڈیفینٹلی اور نو وے دونوں ہی کالموں میں تقریباً ایک ہی تعداد میں ووٹ ملے ہیں شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے ڈکٹیٹر کم جونگ اون نےسب سے زیادہ ووٹ ڈیفینٹلی کے کالم میں حاصل کیے، جب کہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حق مانگنے پر سوات میں طالبان کی گولی کا نشانہ بننے والی بہادر ملالہ کو تقریباً 70 فیصد لوگ سال 2012 کے لیے پرسن آف دا ائیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ نا قدین کی رائے میں بھی ملالہ یوسف زئی پاپولر چوائس کے طور پر سامنے آئی ہے۔

سال 1928ء سے شائع ہونے والے میگزین کی روایت ہے کہ سال کے آخری شمارے کا سرورق ’پرسن آف دا ائیر‘ کی تصویر سے سجا ہوتا ہے اور اندر سپیشل کور سٹوری اس جریدے کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ ٹائم میگزین کے سرورق پر تین مرتبہ پرسن آف دا ائیر بننے والی شخصیت امریکی صدر بل کلنٹن کی ہے۔ پولنگ کا اختتام 12 دسمبر رات بارہ بجے ہو جائے گا جبکہ 14 دسمبر کو میگزین کے ایڈیٹر کی جانب سے منتخب پرسن آف دا ائیر کے نام کا اعلان کیا جائے گا ۔

کیا ملالہ بنے گی ٹائم میگزین کی پرسن آف دا ائیر

جمعرات, نومبر 29, 2012

پانچ سو باوقار ترین مسلمان شخصیات

اردن کا شاہی مرکز برائے تزویری تحقیقات پانچ سو باوقار ترین مسلمان شخصیات کے ناموں پر مشتمل فہرست منظر عام پر لایا ہے۔ یہ فہرست سن دو ہزار نو سے ہر سال تیار کی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ ابن عبدالعزیز کی طرف سے مختلف فلاحی تنظیموں کو ایک ارب چوبیس کروڑ ڈالر دیئے جانے کے پیش نظر ان کا نام اس فہرست میں پہلے مقام پر درج کیا گیا ہے۔

دوسرے مقام پر ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوگان کا نام ہے۔ سن دو ہزار نو میں ایسی فہرست شروع کئے جانے کے بعد اردوگان کو ہر سال پہلے تین مقامات میں سے کوئی مقام حاصل ہوتا ہے۔ رواں سال اردن کے بادشاہ تیسرے مقام پر ہیں، فہرست تیار کرنے والوں نے انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق بڑھانے اور غریبوں کو مدد دینے کے لیے ان کی سرگرمیوں کو بہت سراہا ہے۔ مزید برآں اس فہرست میں کئی روسی مسلمان شامل ہیں جن میں روس کے مفتیوں کی کونسل کے سربراہ شیخ رویل گین الدین، تاتارستان کے سربراہ رستم منی خانوو اور چیچنیا کے سربراہ رمضان کادیروو قابل ذکر ہیں۔

دنیا کی پانچ سو باوقار ترین مسلمان شخصیات کی فہرست تیار

زبیدہ آپا-- ماہر ُکک، 4 ہزار ٹی وی شوز کی میزبان

کپڑوں پر تیل کے داغ لگ جائیں تو کیا کریں؟ فریج میں کسی قسم کی مہک بس جائے تو اس کا کیا حل ہے؟ اور بچوں کے پیٹ یا ’کان میں درد ہو تو کیا ٹوٹکا آزمایا جائے؟‘ یہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جو پاکستان کی کم و بیش ہر خاتون خانہ کو درپیش ہوتے ہیں۔ پہلے کی خواتین اِن مسائل کے حل کے لئے پریشان ہوتی ہوں تو ہوں، آج ان مسئلوں سے نمٹنے کے لئے ’زبیدہ آپا‘ کے ٹوٹکے آزماتی ہیں۔

زبیدہ طارق، عرف زبیدہ آپا، وہ شخصیت ہیں جن کو پاکستان کا ہر گھرانہ جانتا ہےاور اِس شہرت کی وجہ اُن کے وہ ٹوٹکے ہیں جو زبیدہ آپا ٹی وی کے اکثر’پکوان شوز‘ یا ’مارننگ شوز‘ میں سب کو بتاتی ہیں۔ مسز زبیدہ طارق نے لگ بھگ 18 سال پہلے کوکنگ ایڈوائرز کی حیثیت سے شوبز میں قدم رکھا اور اپنے کوکنگ شوز کے ذریعے اِس قدر ہردلعزیز ہوئیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک فیملی ممبر کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ چونکہ، وہ بہت اچھی کک بھی ہیں لہذا اُن کی بتائی ہوئی کھانوں کی ترکیبیں کس گھر میں استعمال نہیں ہورہیں۔

زبیدہ طارق جس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں، پاکستان کی مایہ ناز مصنفہ فاطمہ ثریا بجیا، منفرد لہجے کی شاعرہ زہرہ نگاہ اور ہر خاص و عام میں مقبول قلم کار، شاعر، مزاح نگار، مصور اور اداکار انور مقصود بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جی ہاں، زبیدہ طارق انہی نامور شخصیات کی سگی بہن ہیں۔ دس بہن بھائیوں میں زبیدہ آپا کا نواں نمبر ہے۔

زبیدہ طارق کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے عمر کے پچاس سال گھر کی چار دیواری میں رہ کر گزارے اور اس کے بعد جو ایک مرتبہ ٹی وی پر آئیں تو پھر چھاتی چلیں گئیں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر مختلف انٹرویوز کے دوران انہوں نے جو ذاتی معلومات لوگوں سے شیئر کی ہیں ان کے مطابق، ’میرے میاں ایک معروف ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھے، آئے دن گھر میں سو، ڈیڑھ سو افراد کی دعوتیں ہوتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’مجھے کھانا پکانے کا شوق تھا۔ لہذا، اچھے کھانے پکایا کرتی تھی۔ ان بڑی بڑی دعوتوں کا انتظام ہمیشہ میں نے خود سنبھالا، کبھی کسی کیٹرنگ سروس سے مدد نہیں لی۔ اس کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنی والدہ اور نانی سے بہت کچھ سیکھا تھا، پھر تجربات کا شوق بھی تھا۔ لہذا، میرے بنائے ہوئے کھانے سب کو پسند آتے تھے‘۔ وہ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے مزید کہتی ہیں، ’کھانا پکانے کا ہنر میرے کام آیا اور جس دن میرے شوہر ریٹائر ہوئے، اس سے اگلے دن میں نے اسی کمپنی میں ایڈوائزری سروس کی انچارج کی حیثیت سے کام سنبھال لیا۔ وہاں میں نے 8 سال تک کام کیا، ’تقریناً سارے ہی نجی ٹی وی چینلز سے ککری شوز، ٹاک شوز اور مارننگ شوز کئے، ان کی تعداد تقریباً 4000 بنتی ہے‘۔

اتوار, نومبر 25, 2012

لٹل ماسٹر اہلیہ کی باؤلنگ سے گھبراتے ہیں

سچن ٹنڈولکر اور ان کی اہلیہ انجلی ایک تقریب کے دوران
نئی دہلی: کرکٹ کے میدان میں باؤلرز کے چھکے چھڑانے والے لٹل ماسٹر سچن ٹنڈولکر اہلیہ کی فاسٹ باؤلنگ سے گھبرا جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ناراض بیوی کا سامنا باؤنسر کھیلنے سے زیادہ مشکل ہے۔

بھارت کے ماسٹر بلاسٹر بلے باز سچن ٹنڈولکر میدان میں تو باؤلرز کی پٹائی کرتے نہیں تھکتے لیکن کرکٹ کا یہ شیر بھی دیگر مردوں کی طرح گھر میں بھیگی بلی ہے جس کا اعتراف سچن ٹنڈولکر نے نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران کیا۔

لٹل ماسٹر نے بتایا کہ وہ باؤنسر سے تو بچ سکتے ہیں لیکن بيوی کے غصے سے نہيں۔ کیونکہ فاسٹ باؤلرز کو کھیلنا ناراض بیوی کو منانے سے زیادہ آسان ہے۔ 

سچن ٹنڈولکر نے اپنی اہلیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انجلی نے کيريئر کے اتار چڑھاؤ ميں ان کا بھرپور ساتھ ديا ہے۔

لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے۔

اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا 24 نومبر کو اٹھاون واں جنم دن منایا گیا۔

پروین شاکر 24 نومبر 1954ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ منفرد لہجے کے باعث بہت کم عرصہ میں انہیں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہو پاتی ہے۔

انگریزی ادب میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور سی ایس ایس کرنے کے بعد کسٹمز اسلام آباد میں خدمات انجام دیں۔ پروین شاکر نے 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دسمبر 1994ء میں ٹریفک کے ایک حادثہ میں اسلام آباد میں 42 سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ خوشبو، صد برگ، خودکلامی، انکار اور ماہ تمام ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔

  لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے، پروین شاکر کی 58 ویں سالگرہ منائی گئی

پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کیلئے بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ

جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ
رواں برس جرمنی میں ’خاموش ہیرو‘ کا بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ ’بامبی‘ پاکستان میں گزشتہ پچاس برسوں سے جذام کے مرض کے خلاف برسر پیکار خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر جذام کی مشہور ڈاکٹر روتھ فاؤ کو یہ میڈیا پرائز جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف ميں منعقدہ ايک تقريب ميں دیا گیا، جہاں دنیا بھر سے ٹیلی وژن اور فلم کی ایک ہزار سے زائد شخصیات جمع تھیں۔ جرمنی کے بین الاقوامی ٹیلی وژن اور میڈیا ایوارڈز یعنی بامبی انعامات جرمنی میں ایمی ایوارڈز کے برابر ہیں۔ یہ ایوارڈز فلم، ٹیلی وژن، موسیقی، کھیل اور اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو دیے جاتے ہیں۔ رواں برس 19 کیٹیگریز میں یہ انعامات دیے گئے ہيں۔ امسالہ ’خاموش ہیرو‘ کا ایوارڈ 83 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’بامبی ایوارڈ‘ حاصل کرنے والوں میں خلاء سے چھلانگ لگانے والے فیلیکس باؤم گارٹنر اور ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک شامل ہیں۔

روتھ فاؤ کی 50 سالہ کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس مرض پر ابھی تک پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گی۔ جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں ڈاکٹر بننے کے دوران سن 1957ء میں انہوں نے Daughters of the Heart of Mary نامی کلیسائی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہ مسیحی تنظیم فرانسیسی انقلاب کے دوران قائم کی گئی تھی۔ ڈاکٹر فاؤ کا پاکستان جانا اور وہاں فلاحی کام کرنا محض ایک اتفاق تھا۔

سن 1960ء میں انہیں بھارت میں کام کرنے کے لیے جانا تھا لیکن ویزے کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی حالت قابل رحم تھی۔ وہاں کے باتھ روم گندگی سے بھرے پڑے تھے اور مریضوں کے جسموں پر جوئیں رینگ رہی تھیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ چوہے ان کے جسموں کو کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں اور جانوروں کی طرح رینگتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی قسمت سے مطمئن تھے لیکن یہ ان کی قسمت نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت بہتر اور خوش زندگی گزار سکتے تھے۔‘‘

اس کے بعد سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے ايک دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے سن 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔ 

سن 1929ء میں جرمن شہر لائپزگ میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ اس وقت 17 برس کی تھیں، جب انہوں نے مشرقی جرمنی سے سرحد پار کر کے مغربی جرمنی آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کے مغربی جرمنی میں داخلے کے لیے وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتی رہی تھیں۔ خوشحال زندگی گزارنے کے لیے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے والی روتھ فاؤ آج پاکستانی صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 

پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے روتھ فاؤ کہتی ہیں، ’’مجھے پاکستان میں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لیے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں زیادہ تر لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے میرے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘

جرمن میڈیا پرائز پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کے نام

اتوار, نومبر 18, 2012

یوراگوئے کا صدر چھوٹے گھر کا مکین

دنیا بھرمیں عظیم الشان محلوں میں رہنے والے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے والے صدور کی اس بھیڑ میں ایک صدر ایسا بھی ہے جو ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہتا اور کنویں سے پانی بھرتا ہے۔

یوراگوئے کے صدر ”جوز موجیکا“ کو دنیا کا غریب ترین صدر کہا جاتا ہے۔ وہ چھوٹےسے پرانے گھر میں رہتے اور اپنی تنخواہ کا زیادہ حصہ خیرات کر دیتے ہیں۔ ان کے کپڑے دھونے کی جگہ بھی گھر سے باہر ہے اور انہیں پانی بھی کنویں سے بھرنا پڑتا ہے۔ یہ نرالا صدر سیکیورٹی سے بھی بے نیاز ہے۔ ان کے گھر پر صرف دو پولیس اہلکار اور تین کتے تعینات ہیں۔ 

جوزموجیکا نے حکومت کی جانب سے دی گئی مراعات کو خود ٹھکرایا اور اپنی بیوی کے گھر میں رہنا پسند کیا ہے۔ صدر اور ان کی اہلیہ گھر کے سامنے کھیتوں میں خود کام کرتے اور پھول اگاتے ہیں۔ ان کی تنخواہ بارہ ہزار امریکی ڈالر بنتی ہے تاہم وہ اس کا بیشتر حصہ غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ خیرات کے بعد ان کے پاس سات سو پچھتر ڈالر بچتے ہیں جنہیں وہ اپنے لئے کافی قرار دیتے ہیں۔ صدر کی سالانہ آمدنی ایک ہزار آٹھ سو ڈالر ہے جو انیس سو ستّاسی میں خریدی گئی ان کی گاڑی کی قیمت کے برابر ہے۔ 

جوز موجیکا کہتے ہیں اگر آپ کے پاس زیادہ دولت نہیں ہے تو آپ خود کو زیادہ وقت دے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے غریب ترین صدر کہا جاتا ہے لیکن مجھے کبھی غربت کا احساس نہیں ہوا، غریب وہ ہیں جو مہنگا طرز زندگی اپنانے کے لئے کام کرتے اور مزید سے مزید کی خواہش رکھتے ہیں۔
 

جمعرات, نومبر 15, 2012

چنگیز خان کی قبر تووا میں تلاش کی جانی چاہیے

عظیم چنگیز خان کی آخری آرام گاہ ایک عرصے سے تلاش کرنے والوں کے لیے معمہ بنی ہوئی ہے اور اس بارے میں دنیا بھر کے دانشوروں اور تلاش کنندگان میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ منگولوں کا خیال ہے کہ ان کے عظیم جد کی قبر الن باتور کے شمال کے پہاڑی علاقے میں کہیں ہے۔ روایت یہ ہے کہ انہیں برہان ہلدون نام کے پہاڑ پہ دفنایا گیا تھا۔ 1990 کی دہائی میں منگولیا کے اس مقام پر امریکی اور جاپانی مہم جووں نے ان کی قبر تلاش کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ انہوں نے ان مہمات پر لاکھوں ڈالر صرف کیے تھے لیکن بے نیل و مرام رہے تھے۔

گزشتہ برسوں میں چینیوں کا یہ دعوٰی رہا ہے کہ چنگیز خان کی قبر منگولیا اور چین کی سرحد کے نزدیک چین کی سرزمین پر التائی پہاڑوں کی تلہٹی میں ہونی چاہیے۔ شہر ہرمچی سے تلاش کے لیے آنے والی مہم کی دلیل یہ ہے کہ یہی وہ مقام تھا جہاں سے چنگیز خان کئی بار تنگوتوں کے ملک سی سیا آئے گئے تھے۔ شمالی چین کی یہ ریاست 1227 میں منگول فوج کا نشانہ بنی تھی۔ تنگوتوں پر چڑھائی کے دوران ہی چنگیزخان کا انتقال ہو گیا تھا۔

چنگیز خان کی قبر ”تووا“ میں تلاش کی جانی چاہیے کیونکہ تاریخی طور پر یہ جگہ ہی اس سپہ سالار کی جائے پیدائش ہے، جہاں قدیم زمانے میں اریانہی یعنی توویائی رہتے تھے۔ یہ تصور تووا کی سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور تاریخ دان نکولائی ابایو کا ہے، جس سے روس کے بہت سے دوسرے دانشور بھی متفق ہیں۔ معروف روسی منگول شناس ماہر تاریخ ایلینا بوئیکووا سمجھتی ہیں، ”چنگیز خان کی قبر کے معاملے کو وسیع تناظر بخشا جانا چاہیے اور اسے اس کی جائے پیدائش سے منسلک کیا جانا چاہیے جہاں روایات کے مطابق کسی شخص کو دفن کیا جاتا تھا۔ روس کے تاریخ دانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ چنگیز خان کے آباء کا تعلق یا تو سایانو التایا خطے سے تھا جو آج کے تووا کے علاقے میں تھا یا پھر شمال مغربی منگولیا میں جھیل ہبسگل کے نزدیک جہاں توویائی بستے ہیں“۔

ایکلینا بوئیکووا کی رائے سے چینی دانشور بھی اتفاق کرتےہیں اور کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی قبر کا چین میں وجود متنازع ہے، جس کے لیے بڑے ثبوت درکار ہیں۔ ایلینا بوئیکووا کہتی ہیں، ”میں سمجھتی ہوں کہ روایت بن جانے والے سپہ سالار کے مدفن کی تلاش بارے چینیوں کو خالص علمی دلچسپی نہیں ہے بلکہ منگول شہنشاہ کی قبر کی تلاش بارے ان کے کچھ سیاسی عزائم ہیں کہ بیجنگ اپنے ہمسایہ ملکوں پہ ثابت کر سکے کہ وہ اس خطے کے بلا شرکت غیرے رہنما رہے ہیں“۔

چنگیزخان کے مدفن بارے روسی ماہرہ کے دعوے کا ایک اور ثبوت بھی ہے۔ ایک معروف روایت کے مطابق جہاں چنگیز خان دفن تھا اس کے ارد گرد قبیلہ اریانہی کے ان ہزاروں جنگجووں کو جنہیں جنگی مقاصد سے علیحدہ کیا جا چکا تھا، حفاظت پہ متعین کیا گیا تھا۔ اریانہی قدیم منگولیا والے توویاؤں کے اجداد کو کہا کرتے تھے۔ بالاخر یہ پہرہ ہٹا دیا گیا تھا، یوں مدفن گم ہو گیا تھا کیونکہ اس زمین پر ہزاروں گھوڑوں کو دوڑایا گیا تھا تاکہ قبر کے نشان کا پتہ نہ چل پائے۔

چنگیز خان کی قبر تووا میں تلاش کی جانی چاہیے

پیر, نومبر 12, 2012

احمد فراز کی آخری غزل یا احمد فراز پر آخری تہمت

اگر شاعر نئی نئی باتیں سوچنے پر قادر ہیں تو زمانے والے ان پر ستم کرنے کے نئے نئے انداز بھی ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سے استفادہ کرتے ہوئے جس استاد شاعر کے نام کے ساتھ اپنے شعر نما جملوں کی تہمت سب سے زیادہ باندھی گئی ہے ان میں احمد فراز سر فہرست ہیں۔

جانِ فراز پر مداحوں کے بے پناہ ستم تو نظروں سے گزرتے ہی ہیں مگر آج یہ غزل نظر سے گزری۔

ملاحظہ فرمائیے۔

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کوئی ازل سے کہ دے رُک جاؤ دو گھڑی
سنا ہے کہ آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے رُوٹھ ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر نا آ جائے پھر سانس نبضوں میں
اتنے حسیں ہا تھوں سے میٹ سجا رہا ہے کوئی

اب بہت ہی بعید ہے کہ یہ غزل موجودہ حالت میں احمد فراز کی ہو۔ اس میں تو عام سی غلطیاں نمایاں ہیں۔ مگر شومئی قسمت ان کے نام پر اتنی مشہور ہو گئی کہ اگر اب وہ خود بھی کہیں کہ یہ غزل میں نے نہیں لکھی تو کوئی نہیں مانے گا۔
یہ غزل بے وزن ہے۔

فراز کے معیار سے کافی زیادہ نشیب میں ہے۔

اگر یہ غزل فراز صاحب کی ہے بھی تو پھر کمپوز کرنے میں کافی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔

اگر اس غزل کو موزوں کرنے کی کوشش کی جائے تو کچھ یوں بنے گی

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کہو یہ موت سے رُک جائے دو گھڑی کے لیے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

کچھ ایسے ناز سے بیٹھے ہیں میری لاش کے پاس
کہ جیسے رُوٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر آ ہی نہ جائے یہ سانس نبضوں میں
حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی

چنانچہ اس پر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں
ہمارے ادبی صفحات، انجمنیں، ویب سائٹس اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھتے کہ جس چیز کو احمد فراز کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے وہ ان کے معیار کی ہے بھی کہ نہیں۔ کیا کسی ایٹمی سائنسدان کا تعارف آپ یوں کروانا چاہیں گے کہ یہ غلیل بھی اسی نے ایجاد کی تھی؟
کیا یوں اس ایٹمی سائنسدان کا رتبہ بلند ہوگا؟
اگر نہیں تو پھر غیر معیاری کلام یا کتابت کی خامیوں سے بھرپور کلام کو ایک بلند پایہ شاعر سے منسوب کر کے ادب کی خدمت کی جا رہی ہے یا بے ادبی

نوٹ : اگر آپ کو اس غزل کا ریفرنس پتہ ہو تو ضرور راہنمائی کیجیے۔ شکریہ

جمعرات, نومبر 01, 2012

حضرت علی رضی اللہ عنہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ بچپن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوشِ تربیت میں پلے تھے اور جس قدر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے مطلع ہونے کا موقع ملا تھا اور کسی کو نہیں ملا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی نسبت کثیر الروایت کیوں ہیں؟ فرمایا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دریافت کرتا تھا تو بتاتے تھے۔ اور چپ رہتا تھا تو خود ابتدا کرتے تھے۔

اس کے ساتھ ذہانت، قوتِ استنباط، ملکۂ استخراج ایسا بڑھا ہوا تھا کہ عموماً صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اعتراف کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عام قول تھا کہ خدا نہ کرے کہ کوئی مشکل مسئلہ آن پڑے اور علی رضی اللہ عنہ ہم میں موجود نہ ہوں۔ عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ خود مجتہد تھے مگر کہا کرتے تھے کہ جب ہم کو علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔

(ابو حنیفہ سے اقتباس)

بدھ, اکتوبر 31, 2012

بہلول کی باتیں

کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: ”تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟“

لوگوں نے کہا: ”حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟“

شیخ نے جواب دیا: ”ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔“

مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: ”تم کون ہو؟“

”میں ہوں جنید بغدادی۔“

”تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟“

”جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔“

”اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟“

”کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔“

پھر دوبارہ کہا: ”جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔“

یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: ”تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔“

یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: ”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔“

”ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔“

بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: ”کون ہو تم؟“

”میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔“

بہلول نے کہا: ”خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟“

شیخ نے جواب دیا: ”جی ہاں جانتا تو ہوں۔“

”تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟“

”میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہوجائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔“ اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔

بہلول نے کہا: ”کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمہیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔“ پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: ”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟“

”بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔“ اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: ”تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہوگا؟“

شیخ نے کہا: ”جی ہاں! معلوم ہے۔“

”اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟“

”جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔

بہلول نے کہا: ”معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔“

یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: ”اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔“

کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: ”میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہوجائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔“

شیخ جنید نے بےساختہ کہا: ”جزاک اللہ خیرأً۔“ (اللہ تمہارا بھلا کرے)

پھر بہلول نے بتایا: ”گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہوگی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔“

پھر سونے کے متعلق بتایا: ”اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔“

بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

بہلول کی باتیں

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

نوبل انعام یافتہ چینی ادیب مو یان کروڑ پتی بن گئے

رواں سال ادب کے شعبہ میں نوبل انعام پانے والے چینی ادیب مو یان کی آمدنی بڑھ کر تین کروڑ بیس لاکھ ڈالر ہو جانے کا امکان ہے۔ یہ اندازہ اخبار "چائنا ڈیلی" نے لگایا ہے۔ نوبل انعام دئے جانے کے بعد چین میں مو یان کی مقبولیت میں انتہائی اضافہ ہوا ہے۔ نوبل انعام کے بارے میں اطلاع ملنے کے بعد چند ہی گھنٹوں میں تمام چینی انٹرنیٹ دوکانوں میں ان کی کتابیں بک گئی تھیں۔ اخبار "چائنا ڈیلی" کے مطابق رواں سال مو یان کی آمدنی بہت بڑھ جائے گی کونیکہ ان کے افسانوں پر مشمتل نئے مجموعی کی تعداد اشاعت دس لاکھ ہوگی۔ مزید برآں توقع ہے کہ پانچ نئی تصانیف کی اشاعت سے ادیب کو بہت بڑی رقم حاصل ہوگی۔

اب تک مو یان کے گیارہ ناول، بیس افسانے اور اسی سے زیادہ کہانیاں منظر عام پر آ چکے ہیں۔

نوبل انعام یافتہ چینی ادیب مو یان کروڑ پتی بن گئے

جمعہ, اگست 10, 2012

ابن سینا

ان کا مکمل نام علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980 تا 1037 عیسوی) ہے جو کہ دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں۔ بوعلی سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔

”الشیخ الرئیس“ ان کا لقب ہے، فلسفی، طبیب اور عالم تھے۔ اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلاسفروں اور اطباء میں سے تھے۔ صفر 370 ہجری 980 عیسوی کو فارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”افنشہ“ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ ان کے والد ”بلخ“ (اب افغانستان) سے آئے تھے۔ بچپن میں ہی ان کے والدین بخارا (اب ازبکستان) منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد کو سلطان نوح بن منصور السامانی کے کچھ مالیاتی امور کی ادارت سونپی گئی۔ بخارا میں دس سال کی عمر میں قرآن ختم کیا اور فقہ، ادب، فلسفہ اور طبی علوم کے حصول میں سرگرداں ہوگئے اور ان میں کمال حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سلطان نوح بن منصور کے ایک ایسے مرض کا علاج کیا تھا جس سے تمام تر اطباء عاجز آچکے تھے، خوش ہوکر انعام کے طور پر سلطان نے انہیں ایک لائبریری کھول کردی تھی۔ بیس سال کی عمر تک وہ بخارا میں رہے، اور پھر خوارزم چلے گئے جہاں وہ کوئی دس سال تک رہے (392-402 ہجری) خوارزم سے جرجان پھر الری اور پھر ہمذان منتقل ہوگئے جہاں نو سال رہنے کے بعد اصفہان میں علاء الدولہ کے دربار سے منسلک ہوگئے۔ اس طرح گویا انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر کرتے گزاری۔ ان کا انتقال ہمذان میں شعبان 427 ہجری 1037 عیسوی کو ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ ”قولنج“ کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور جب انہیں اپنا اجل قریب نظر آنے لگا تو انہوں نے غسل کرکے توبہ کی، اپنا مال صدقہ کردیا اور غلاموں کو آزاد کردیا۔

ابن سینا نے علم ومعرفت کے بہت سارے زمروں میں بہت ساری تصانیف چھوڑیں ہیں جن میں اہم یہ ہیں:

ادبی علوم: اس میں منطق، لغت اور شعری تصنیفات شامل ہیں۔

نظری علوم: اس میں طبیعات، ریاضی، علومِ الہی وکلی شامل ہیں۔

عملی علوم: اس میں کتبِ اخلاق، گھر کی تدبیر، شہر کی تدبیر اور تشریع کی تصنیفات شامل ہیں۔

ان اصل علوم کے ذیلی علوم پر بھی ان کی تصنیفات ہیں 
ریاضی کی کتابیں: 
ابن سینا کی کچھ ریاضیاتی کتابیں یہ ہیں: رسالہ الزاویہ، مختصر اقلیدس، مختصر الارتماطیقی، مختصر علم الہیئہ، مختصر المجسطی، اور ”رسالہ فی بیان علہ قیام الارض فی وسط السماء“ (مقالہ بعنوان زمین کی آسان کے بیچ قیام کی علت کا بیان) یہ مقالہ قاہرہ میں 1917 میں شائع ہوچکا ہے۔

طبیعات اور اس کے ذیلی علوم: رسالہ فی ابطال احکام النجوم (ستاروں کے احکام کی نفی پر مقالہ)، رسالہ فی الاجرام العلویہ (اوپری اجرام پر مقالہ)، اسباب البرق والرعد (برق ورعد کے اسباب)، رسالہ فی الفضاء (خلا پر مقالہ)، رسالہ فی النبات والحیوان (پودوں اور جانوروں پر مقالہ)۔

طبی کتب: ابن سینا کی سب سے مشہور طبی تصنیف ”کتاب القانون“ ہے جو نہ صرف کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہے بلکہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ 
ان کی دیگر طبی تصنیفات یہ ہیں: کتاب الادویہ القلبیہ، کتاب دفع المضار الکلیہ عن الابدان الانسانیہ، کتاب القولنج، رسالہ فی سیاسہ البدن و فضائل الشراب، رسالہ فی تشریح الاعضاء، رسالہ فی الفصد، رسالہ فی الاغذیہ والادویہ، ارجوزہ فی التشریح، ارجوزہ المجربات فی الطب، اور کئی زبانوں میں ترجم ہوکر شائع ہونے والی ”الالفیہ الطبیہ“۔

ابن سینا نے موسیقی پر بھی لکھا، ان کی موسیقی پر تصنیفات یہ ہیں: مقالہ جوامع علم الموسیقی، مقالہ الموسیقی، مقالہ فی الموسیقی۔

ان کی اہم تصانیف میں
- کتاب الشفاء
- القانون فی الطب
- اشارات

یورپ میں ان کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور وہاں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔

پیر, اگست 06, 2012

استاد کی عظمت

فاتح عالم سکندر ایک مرتبہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہا تھا۔ راستے میں ایک بہت بڑا برساتی نالہ آگیا۔ نالہ بارش کی وجہ سے طغیانی پر آیا ہوا تھا۔ استاد اور شاگرد کے درمیان بحث ہونے لگی کہ خطرناک نالہ پہلے کون پار کرے گا۔ سکندر بضد تھا کہ پہلے وہ جائے۔ آخر ارسطو نے اس کی بات مان لی۔ پہلے سکندر نے نالہ پار کیا، ارسطو نے نالہ عبور کرکے سکندر سے پوچھا ”کیا تم نے پہلے نالہ عبور کرکے میری بے عزتی نہیں کی“؟

سکندر نے جواب دیا، ”استاد مکرم! میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے، ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہوسکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کرسکتا“۔

آئن سٹائن کے باپ کو بھی نہیں سوجھی

ممتاز دانشور ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، علامہ اقبال کے بڑے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ علامہ اقبال گپ شپ لگانے کے لئے ان کے منتظر رہتے تھے۔ اک دن وہ تشریف لائے تو علامہ اقبال نے فوراً پوچھا ”عبداللہ اتنے دنوں سے کہاں تھے“؟

چغتائی صاحب نے جواب دیا، ”کیا عرض کروں۔ آج کل اس قدر مصروفیت ہوتی ہے کہ فرصت ہی نہیں ملتی اور فرصت ملتی ہے تو وقت نہیں ملتا“۔

علامہ اقبال کو ان کی اس بات پر بے اختیار ہنسی آگئی۔ وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے ”عبداللہ! تم نے آج وہ بات کہی ہے جو آئن سٹائن کے باپ کو بھی نہیں سوجھی ہوگی“۔

جمعرات, جون 28, 2012

تین اہم عہدوں کی ہم نام شخصیات

پاکستان کے تین اعلٰی ترین عہدوں پر فائز شخصیات ’ہم نام‘ ہیں جبکہ اس سے قبل صدر کے عہدے پر فائز شخص بھی انہی کا ہم نام تھا۔

حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کا نام اشفاق ’پرویز‘ کیانی ہے۔

وزیراعظم کا نام راجہ ’پرویز‘ اشرف ہے ۔

جس شخصیت کو ملک کے پہلے نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا ہے اس کا نام چوہدری ’پرویز‘ الہٰی ہے، جبکہ اس سے قبل ملک کے اعلٰی ترین صدارتی عہدے پر جنرل (ر) ’پرویز‘ مشرف فائز تھے۔