خاص خبریں / کالم

  سپیکر کی رولنگ کا تاریخی فیصلہ، گیلانی نااہل، اسمبلی رکنیت سے بھی فارغ، وزارت عظمیٰ کا عہدہ 26 اپریل سے خالی ہے، سپریم کورٹ

  اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) سپریم کورٹ نے سپیکر رولنگ کیس میں تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیدیا ہے جس کے بعد سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یوسف گیلانی کی حلقہ این اے 151 ملتان کی نشت خالی قرار دیدی ہے جبکہ عدالت نے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت کے ذریعے جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے صدر کو ضروری اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ صدر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نئے وزیراعظم کے تقرر کے لئے اقدامات کرینگے۔ عدالتی فیصلے کے تحت یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور ممبر قومی اسمبلی دونوں نشستوں سے ہی فارغ ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم کو 26 اپریل سے ہی فارغ کر دیا ہے اور ان کو اسی تاریخ سے قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی فارغ کر دیا ہے جبکہ عدالت نے 26 اپریل سے ہی وزیراعظم کے عہدے کو خالی قرار دیدیا ہے اور صدر مملکت سے کہا کہ وہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت کے تحت جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے ضروری اقدامات کریں جبکہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کو قومی اسمبلی کی نشست سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے تحت صدر آئین کے مطابق اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے اقدامات کرینگے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت کو شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ عدالت نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 63 ٹو کے تحت اپنے اختیارات کو استعمال کرتا ہے اور تعریف کے تحت پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی کے دائرے میں نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 26 اپریل کو یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت میں مجرم قرار دیا تھا۔ وزیراعظم کو عدالت نے آئین کے آرٹیکل 204(2) اور توہین عدالت آرڈیننس 2003ء کے سیکشن 3 کے تحت توہین عدالت کو مجرم قرار دیا تھا اور اس کے بعد وزیراعظم کو اس آرڈیننس کے سیکشن 5کے تحت عدالت کے برخاست ہونے تک کی سزا سنائی تھی اور عدالت کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل دائر نہ کی گئی جس پر عدالت نے کہا ہے کہ اس طرح سات رکنی بینچ کا وہ فیصلہ حتمی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس میں عدالت کے سات رکنی بینچ نے ان کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا تھا۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی 26 اپریل کے فیصلے کے تحت اپنے عہدے سے نااہل ہو چکے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 63 ون جی کے تحت نااہل ہو چکے ہیں جس وجہ سے اسی دن سے ہی وہ وزیراعظم کے عہدے سے بھی فارغ ہو چکے ہیں۔ اسی دن سے وویراعظم کا عہدہ بھی خالی ہو چکا ہے۔ قبل ازیں عدالت کے روبرو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اپنے دلائل کے دوران سپیکر کے فیصلے کے حق میں قومی اسمبلی کی قرارداد عدالت میں پڑھی اور کہا کہ سپیکر پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہیں۔ عدالت کے فیصلے سے عدلیہ اور مقننہ میں تصادم ہو سکتا ہے اداروں میں تصادم نہیں ہونا چاہئے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں اداروں کے درمیان کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں ہے۔ ہم یہاں اداروں کے وقار کے تحفظ کیلئے بیٹھے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ہمارا کام آئین اور قانون سے متصادم اقدامات کو روکنا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت حکم جاری بھی کر دے تو پارلیمنٹ اس کو کالعدم کر سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے دلائل مکمل کرنے کے بعد درخواست گزار جوڈیشل ایکٹوزم پینل کے چیئرمین محمد اظہر صدیق کے وکیل اے کے ڈوگر نے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت ایسی حکومت کا نام ہے جس میں تمام شہریوں کا شیئر ہوتا ہے اور بطور شہری میرا یہ حق ہے کہ ایک آزاد عدلیہ ہو کیونکہ آزاد عدلیہ کے بغیر شہری کو انصاف نہیں مل سکتا اس لحاظ سے میرا بنیادی حق متاثر ہوا ہے۔ لہٰذا درخواست قابل سماعت ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ چیف جسٹس بنیادی حقوق کے تحفظ کا پابند ہے۔ اے کے ڈوگر کے بعد عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیئے جن کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر عدالت کسی کو پاگل قرار دے دے تو سپیکر اپنا ذہن استعمال نہیں کر سکتا۔ سپیکر زیادہ سے زیادہ رائے کے ساتھ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج سکتی تھیں۔ سپیکر کو باقی معاملات میں تو اختیار ہے مگر عدالت کے فیصلے پر انہیں کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا انتظامیہ سات رکنی بینچ کے فیصلے کی سکروٹنی کر سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو عدلیہ کی آزادی کہاں جائے گی۔ اگر وزیراعظم اپیل کر لیتے تو نااہلی کچھ عرصے کیلئے رک سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاگل پن یا سزا یافتہ کا تعین عدالتی فیصلے پر منحصر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپیلٹ کورٹ کے علاوہ کوئی عدالت کے فیصلے کو ختم نہیں کر سکتا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اب سپیکر کو حاصل میعاد گزر چکی ہے۔ حامد خان کے علاوہ دیگر درخواست گزاروں کے وکلاءکے دلائل مکمل ہونے کے بعد دن ایک بجے عدالت یہ کہہ کر برخاست کر دی گئی کہ فیصلہ تین بجے سنایا جائے گا جس کے بعد عدالت نے ساڑھے تین بجے وزیراعظم کو فارغ کرنے کا فیصلہ سنایا۔ مانیٹرنگ ڈیسک اور نیوز ایجنسیوں کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے۔ آئین سب سے مقدم ہے، کوئی نہیں جانتا کہ وہ آج ہے، کل نہ ہو۔ وزیراعظم بھی آج ہیں، شاید کل نہ ہوں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر کو دلائل دینے کا کہا اور استفسار کیا کہ اعتزاز احسن کا اعتراض ہے کہ درخواست گزاروں کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوا۔ اس پر ان کا کیا موقف ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے پوچھا کہ کوئی فرد غلط یا صحیح طور پر رکن اسمبلی رہتا ہے تو آپ کا کونسا حق متاثر ہوتا ہے۔ اس پر اے کے ڈوگر نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے لئے آزاد عدلیہ ہر شہری کا حق ہے اور ان کا یہ حق متاثر ہوا ہے۔ اے جی نے کہا کہ پارلیمنٹ کو خدشہ تھا کہ جس طرح 7 رکنی بنچ نے نامناسب حکم جاری کیا کہیں یہ بنچ بھی ایسا ہی حکمنامہ جاری نہ کر دے پارلیمنٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ عدالت کے ایسے فیصلوں کو ان ڈو (undo) کر سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ کیا یہاں وزیراعظم کی نااہلی کا کوئی سوال اٹھایا گیا ہے تو میرا جواب یہ ہے کہ نہیں اٹھایا گیا۔ ججز نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر رہ کر سماعت کی۔ ججز کے رویوں میں بھی فرق تھا۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 248 کی بھی خلاف ورزی کی جس کے تحت وزیراعظم کو استثنیٰ حاصل ہے۔ 7 رکنی بنچ کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ وزیراعظم پر فرد جرم عائد کرتے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم پر سول توہین عدالت کا الزام لگایا گیا جبکہ لفظ (ریڈیکولیٹ) واضح نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم کو سزا بغیر کسی الزام کے دی گئی۔ سپریم کورٹ سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے حکم دے ہی نہیں سکتی کوئی ایک حکم بتا دیں جو عدالت نے وزیراعظم کو خط لکھنے کیلئے کیا ہو جب انہیں فرد جرم سنائی گئی اس وقت سے پہلے ہی ان کو ملزم قرار دیدیا گیا تھا یہ سب کچھ فرد جرم میں شامل ہی نہیں تھا۔ تمام سماعت غیر قانونی اور غیر آئینی ہے وزیراعظم کسی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔ں اس ملک میں سرے سے ہی کوئی توہین عدالت کا قانون ہی نہیں ہے اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ حکومت کی نمائندگی کے لئے آئے ہیں یا کسی فریق کے مفاد کے تحفظ کیلئے آئے ہیں ہم نے بار بار آپ کو کہا ہے کہ آپ ہماری آئین کے آرٹیکل (3) 184کے تحت معاونت کریں اگر قانون نہیں تو نظام ایسے ہی چل رہا ہے اس کو استعمال کر کے ججوں کو فارغ کیا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ سابق اٹارنی جنرل نے جو کہا وہ قانون نہیں آپ جو کہہ رہے ہیں وہ قانون ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آپ ثابت کریں کہ توہین عدالت کا کوئی قانون موجود نہیں۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اپنے دلائل میں عدالت سے شکوہ کیا کہ 7 رکنی بنچ نے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو شک کا فائدہ نہیں دیا اگر دے دیتے تو ان کا کیا جاتا تھا اس پر عدالت نے کہا کہ آپ اگر سوئس حکام کو خط تحریر کر دیتے تو آپ کا کیا جاتا ۔ عدالت کے حکم پر عمل ہو جاتا۔ کیس کے دوران ملک قیوم کی جانب سے بطور اٹارنی جنرل سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کی بات بھی کی گئی ۔ اٹارنی جنرل نے ملک قیوم کا لکھا گیا خط بھی عدالت میں پیش کیا۔اٹارنی جنرل اور عدالت کے مابین شاعری پر دلچسپ مکالمہ ہوا ۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ہم شاعری نہیں کر رہے ہیں شاعری تو آپ کر رہے ہیں ہم تو بس سامع ہیں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے تو شاعری نہیں آتی۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے نہ نہ کر تے ہوئے بھی عدالتی وقفے تک اپنے دلائل کو جاری رکھا اس دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو اشتعال دلانے کی مسلسل کو ششیں کی تاہم چیف جسٹس سمیت ججوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ان کی تلخی کے باوجود کوئی سوال نہ کیا جس سے کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بنچ نے اڑھائی گھنٹے میں اٹارنی جنرل عرفان قادر کو انتہائی تحمل سے سنا اور اس دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل کے حوالے سے ایک سوال بھی نہیں کیا۔
روزنامہ جنگ، بدھ 29 رجب المرجب 1433ھ 20 جون 2012ء
+==========+


پرویز اشرف 211 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب، 27 وزراءاور 11 وزرائے مملکت نے بھی حلف اٹھا لیا

پارلیمنٹ بالادست ہے، عوام کا دیا ہوا اختیار کسی کو استعمال نہیں کرنے دیں گے، پرویز اشرف


اسلام آباد: صدر آصف زرداری نومنتخب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے حلف لے رہے ہیں
اسلام آباد (خبرنگارخصوصی‘ نامہ نگار خصوصی‘ وقائع نگار) راجہ پرویز اشرف بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ انہوں نے 211 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل ن لیگ کے سردار مہتاب عباسی نے 89 ووٹ لئے جبکہ وزیراعظم کے عہدہ پر ووٹنگ سے قبل مولانا فضل الرحمن وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر نکل گئے‘ بعد ازاں نومنتخب وزیراعظم کابینہ کے 27 وزراء اور 11 وزرائے مملکت نے بھی حلف اُٹھا لیا۔ قبل ازیں قومی اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ کی تاخیر سے شروع ہوا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فوزیہ وہاب کے انتقال کی وجہ سے پارلیمانی روایات کے تحت فاتحہ خوانی کے بعد اجلاس ملتوی کردیا جائے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ہماری ساتھی اور مرکزی رہنما کے انتقال پر ہم سب غمگین ہیں لیکن بدقسمتی سے ایوان کا موجودہ سیشن ریگولر سیشن نہیں ہے اور وزیراعظم کے انتخاب کے لئے اجلاس ہورہا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کا انتخاب ہے اور یہ بہت اہم معاملہ ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ 5 منٹ کے بعد ایوان کے دروازے بند کردیئے جائیں گے جس کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کا عمل شروع ہوجائے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے اپنا نام واپس لے لیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاکستان میں پھیلی ہوئی سیاسی افراتفری کے خاتمہ کے لئے ہم نے اپنا کردار ادا کیا لیکن متفقہ وزیراعظم کے طور پر ہماری کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ ملک میں اداروں میں ٹکراﺅ کی صورت سے عوام پریشان ہیں ہم اس انتخاب میں غیرجانبدار ہیں اور متنازعہ حالات میں اپنا ووٹ استعمال نہیں کریں گے جس کے بعد ایوان میں 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں تاکہ تمام اراکین ایوان میں آجائیں۔ 5 منٹ کے بعد ایوان کے دروازے بند کردیئے گئے جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم کے عہدہ کے لئے راجہ پرویز اشرف اور مسلم لیگ ن کے سردار مہتاب عباسی کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ راجہ پرویز اشرف کے حق میں ووٹ دینے والے سپیکر قومی اسمبلی کے دائیں جانب اور سردار مہتاب عباسی کو ووٹ دینے کے خواہشمند بائیں جانب آجائیں۔ اراکین اپنے اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے بعد اپنی اپنی مقررہ لابیوں میں جانے لگے۔ ووٹنگ کے عمل میں سست روی پر سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ مغرب کی اذان کا وقت ہونے والا ہے‘ تھوڑی تیزی دکھائیں۔ سید خورشید شاہ‘ عبدالقادر پٹیل اور فیصل کریم کنڈی نے سب سے آخر میں ووٹ ڈالا‘ جبکہ قائد ایوان کے انتخاب میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 8 اور فاٹا کا ایک گروپ نے جنکی تعداد 10 بتائی جاتی ہے ووٹنگ کے دوران غیرجانبدار رہتے ہوئے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔ ادھر پارلیمنٹ میں واضح اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا۔ صدر آصف علی زرداری نے ان سے حلف لیا اس تقریب میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کی کابینہ کے تمام ارکاب اور پارٹی عہدیدار بھی موجود تھے جبکہ تقریب میں سروسز چیف نے بھی شرکت کی۔ کیبنٹ سیکرٹری نرگس سیٹھی نے صدر سے تقریب کے آغاز کی اجازت طلب کی اور حلف لینے کی استدعا کی۔ قبل ازیں وزیراعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد سیدھے ایوان صدر گئے اور انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور وزیراعظم کے طور پر نامزدگی پر اپنے قائد کا شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ وہ ان کے اعتماد پر پورا اتریں گے اور عوام کے مسائل کے حل پر پوری توجہ دیں گے۔ صدر آصف علی زرداری نے نومنتخب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو مبارکباد دی۔ صدر نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو بھی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ دریں اثناء صدر آصف علی زرداری نے وزیراعظم سے حلف لینے کے بعد 27 وفاقی وزراءاور 11 وزرائے مملکت سے الگ الگ حلف لیا جن وزراء نے حلف اٹھایا وہ گیلانی کابینہ میں بھی وزیر اور وزیر مملکت تھے۔ حلف اٹھانے والے وزراء میں سید خورشید شاہ‘ چوہدری قمر زمان کائرہ‘ چوہدری احمد مختار‘ فاروق ایچ نائیک‘ سید نوید قمر‘ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ حنا ربانی کھر‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ چوہدری پرویز الٰہی‘ مخدوم امین فہیم‘ فرزانہ راجہ‘ ثمینہ خالد گھرکی‘ مخدوم شہاب الدین‘ غلام احمد بلور‘ بابر غوری‘ عبدالحفیظ شیخ‘ حاجی خدا بخش‘ راجہ چنگیز جمالی‘ اسرار اللہ زہری‘ انجینئر شوکت‘ رانا فاروق‘ ڈاکٹر ارباب عالمگیر‘ منظور وٹو‘ نذر محمد گوندل‘ میرہزار خان بجارانی‘ مولانا بخش چانڈیو اور سردار محمد گورگیج تھے جبکہ وزرائے مملکت میں سید صمصام بخاری‘ سردار سلیم حیدر‘ تسنیم احمد قریشی‘ ملک عظمت خان‘ ڈاکٹر ندیم احسان‘ راحیلہ بلوچ‘ معظم علی جتوئی‘ اعتبار صفدر وڑائچ‘ عباس خان آفریدی‘ دوست محمد مزاری اور ملک عماد خان شامل ہیں۔
دریں اثناء حکومتی اتحادیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےپیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ءخورشید شاہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہیں کہ جس نے ہر مشکل گھڑی میں باعزت راستہ دکھایا، پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت کے لئے عدالتی فیصلہ تسلیم کیا، ملک کے مفاد میں تصادم کی طرف کبھی نہیں گئے۔ انہوںنے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کا حکمنامہ مشکل واقعہ تھا اور پورے ملک میں یہ سوچ تھی کہ حکومت عدالتی حکم پر مزاحمت کرے گی، لیکن حکومت اس راہ پر نہیں گئی۔ انہوں نے کہاکہ آج وزیراعظم کے نام کا اعلان کر رہا ہوں اس کے بعد پارلیمنٹ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے آنے والے چند ماہ میں ملک کی تاریخ میں بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ منتخب پارلیمنٹ اپنا دور پورا کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ یہ سال الیکشن کا ہے اور ہم سب کا فرض ہے کہ ملک، پارلیمنٹ اور عوامی فیصلے کا احترام کریں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اور اتحادیوں نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم کیلئے نامزد کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم بہترین اور صاف ستھری سیاست کی طرف جا رہے ہیں، اداروں کے درمیان جنگ نہیں کرانا چاہتے، اداروں میں جنگ سے اثر ملک پر پڑے گا، کوشش ہے کہ اداروں کے درمیان ٹکراﺅ نہ ہو۔ آئندہ بھی کسی صورتحال کا مقابالہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر کریں گے۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی اور جمہوریت کے لئے پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں سمیت مکمل طور پر متحد ہے۔ انہوں نے اپوزیشن سے اپیل کی کہ آنے والے حالات پر نظر رکھیں۔ سید خورشید شاہ نے کہاہے کہ اتحادیوں سے تفصیلی مشاورت کے بعد وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے نام کو حتمی شکل دی گئی۔ آئینی سپریم کورٹ کے فوری قیام کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ ملک میں حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر مشکل گھڑی اور کٹھن مرحلے میں جس طرح اتحادیوں نے جمہوریت کی بقاءاور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے ہمارا ساتھ دیا ہے پیپلز پارٹی اس پر ان کا شکریہ ادا کرتی ہے۔ عوام کی منتخب پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے گی جس سے جمہوریت کو استحکام ملے گا جبکہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو فیصلے کااختیار پاکستانی عوام پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ سال انتخابات کا سال ہوگا اور ہم انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں سید خورشید شاہ نے کہا کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے اتحادیوں سے مشورہ کرینگے جبکہ ہم نے آئین کے ہر آرٹیکل کے تحفظ کی قسم کھائی ہے اور میثاق جمہوریت میں موجود ہے کہ آئینی سپریم کورٹ تشکیل دی جائے۔

اسلام آباد (پرویز شوکت/ اظہر سید) نومنتخب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ بالادست ہے عوام کا دیا ہوا اختیار کسی اور کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ اداروں کے تصادم کے خواہاں نہیں۔ قومی مفاہمت کی پالیسی پر عمل جاری رکھیں گے۔ غیر جمہوری ذہن عوام کو تسلیم نہیں کرتے۔ طاقتور احتساب کے لئے اپوزیشن احتساب بل کو منظور کرانے میں حکومت کا ساتھ دے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے طور پر اپنے پہلے خطاب میں وزیراعظم پرویز اشرف نے کہا کہ مجھے جو کرسی ملی ہے وہ شہیدوں کی کرسی ہے‘ جو شمع مجھے دی گئی ہے اس کو ماند نہیں ہونے دوں گا۔ شریک چیئرمین اور یوسف رضا گیلانی کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے نامزد کرنے میں کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے انتخاب پر اﷲ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں۔ پاکستان کے عوام‘ پیپلز پارٹی‘ شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور اتحادی جماعتوں کا مشکور ہوں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا‘ آئین کی پاسداری کی اور جمہوریت کو مستحکم کیا انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں راستے آگے بھی جاتے ہیں اور منزل گم بھی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ 1973ءکے آئین کے تحت وجود میں آئی جو میرے قائد ذوالفقار علی بھٹو کا تحفہ ہے۔ غیر جمہوری ذہن عوام کو تسلیم نہیں کرتے آئین اور قانون پارلیمنٹ سے نکلتا ہے اور پارلیمنٹ عوام کی آخری امید ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنائیں گے۔ عوام کا دیا ہوا اختیار کسی اور کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ پاکستان کے عوام کو آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے اور یہ ہماری منزل ہے۔ شفاف الیکشن ایک چیلنج سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہم صاف شفاف غیر جانبدار الیکشن کو یقینی بنائیں گے۔ ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ اس کے لئے اپوزیشن کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں۔ تصادم کی سیاست کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ بے نظیر بھٹو کے مفاہمت کے فلسفہ کے پیروکار ہیں ملک کو درپیش سنجیدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے حزب اختلاف کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں۔ ہم مل جل کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی سے ملک کو اسلام اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ شدت پسندوں کو ہتھیار پھینک کر قومی دائرہ میں شامل ہونے کی پیشکش کرتا ہوں۔ اداروں کے درمیان ٹکراﺅ اور تصادم نہیں ہونے دیں گے۔ گزشتہ چار سال کے دوران ایوان نے متعدد اہم فیصلے کئے ریاستی ساکھ میں تبدیلیاں لائیں۔ بیروزگاری اور توانائی کا بحران ابھی حل کرنا ہے۔ زراعت اور صنعت کو مزید ترقی دینے کے اقدامات کریں گے۔ بلوچستان کے مسائل کا حل پہلی ترجیح ہوگی۔ بلوچ عوام سے رابطہ بلوچ قیادت سے مذاکرات اور بلوچ نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں گے۔ بھارت‘ ایران‘ افغانستان کے ساتھ بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کے لئے تیار ہیں۔ چین اور پاکستان کی دوستی لازوال ہے اس رشتہ کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات‘ یورپین یونین امریکہ اور عالمی برادری کے ساتھ وقار اور برابری کے ساتھ تعلقات رکھیں گے۔ پاکستان خطہ اور عالمی امن کا خواہاں ہے۔ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ طاقتور احتساب کا نظام ناگزیر ہے۔ احتساب بل قومی اسمبلی میں موجود ہے۔ اپوزیشن اس پر تعاون کرے۔ میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ورکر ہوں مجھے پارٹی نے اور اتحادیوں نے جس عہدہ پر پہنچادیا اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس کرسی پر مجھے اﷲ نے بٹھایا ہے یہ شہیدوں کی کرسی ہے جتنا وقت بھی ملے گا پاکستان کے عوام کے لئے استعمال کروں گا جو شمع مجھے منتقل کی گئی ہے اس کو ماند نہیں پڑنے دوں گا۔
روزنامہ جنگ، ہفتہ 2 شعبان المعظم 1433ھ 23 جون 2012ء
+==========+


صدر کا ایک عہدہ نہ چھوڑنا بادی النظر میں توہین عدالت ہے، لاہور ہائیکورٹ.... مقدمے کی سماعت کے لئے لارجر بنچ تشکیل

لاہور (نمائندہ جنگ) لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالتی حکم کے باوجود ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں بند نہ کرنے پر صدر آصف علی زرداری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر صدر کے پرنسپل سیکرٹری کو 27 جون کےلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کےلئے بڑا بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔چیف جسٹس نے قرار دیا کہ بادی النظر میں عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ صدر مملکت قابل احترام ضرور ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ آئین اور عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے صدر کے پرنسپل سیکرٹری کو بذریعہ نوٹس ہدایت کی کہ وہ درخواست میں اٹھائے گئے اعتراضات پر موقف پیش کریں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے آبزرو کیا کہ آئین کے آرٹیکل 5 اور صدارتی حلف کے تحت صدر مملکت عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے 12 مئی 2011ءکو صدر کے دو عہدوں کے خلاف کیس میں دیئے گئے فیصلے میں اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ صدر مملکت ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں نہ کریں مگر صدر مملکت نے ایسا نہیں کیا ۔ عدالت کے روبرو اے کے ڈوگر اور محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹس نے صدر کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں سماعت کے دوران اظہر صدیق نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت صدر مملکت کو طلب کرکے ان سے اسی طرح وضاحت طلب کرے جس طرح سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو طلب کرکے مانگی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ایسا حکم بھی جاری کیا جاسکتا ہے ۔ آپ بار بار یہ استدعا نہ کریں ہم نے صدر کے پرنسپل سیکرٹری کو نوٹس کیا ہے ان کاموقف سامنے آ جائے تو پھر آئین اور قانون کے مطابق اس کا فیصلہ کریںگے۔
روزنامہ جنگ، ہفتہ 2 شعبان المعظم 1433ھ 23 جون 2012ء
+==========+





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔