شق القمر – ایک عظیم الشان معجزہ

معجزات کا انکار اگرچہ کوئی پرانی بات نہیں ہے مگر حالیہ کچھ سالوں میں ایک قابل ذکر تعداد مسلم معاشروں میں ایسے لوگوں کی پیدا ہوگئی ہے جو مغربی تعلیم اور مغربی سائنسی سوچ سے بے حد متاثر ہیں اور ایک مسلمان کی حثیت سے چاہتے ہیں کہ دین کی ایک ایسی تشریح ہو جو ان کے اذہان کو مطمئن کرسکے. مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مطالبہ آدھے ادھورے علم کی بنیاد پر کیا جاتا ہے. سائنس ابھی کسی حتمی نتیجے سے کوسوں دور ہوتی ہے اور مختلف نظریات قائم کر ہی رہی ہوتی ہے کہ ہمارے عالم و فاضل خواتین و حضرات پھرتی سے اپنی پسند کے سائنسی نظریات کو جنہیں سائنسی عقیدہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کو سائنسی حقیقت مان کر ایک حتمی فیصلہ صادر کردیتے ہیں. ہر علم کا اپنا ایک میدان ہوتا ہے اور اپنے تعاملات ہوتے ہیں. مَثَلاً ادب کا میدان تمثیل ہے جہاں فرضی کرداروں کو لے کر ایک فرضی سچویشن تخلیق کرکے اپنی بات کہی جاتی ہے. ادب پر تنقید بھی ہوتی ہے مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ سب جھوٹ اور فرضی ہے لہٰذا ہم اس کو مسترد کرتے ہیں. سائنس کے میدان میں استعمال ہونے والے معیارات آپ ادب میں استعمال نہیں کرتے اسی طرح مذہب پر بھی اس کا اطلاق دینی عقائد کو سمجھنے کے لئے نہیں کیا جاسکتا. کیونکہ دین وہ بات کررہا ہے کہ جس کو سمجھنے کے لئے موجودہ سائنس کے پاس ذرايع سرے سے ہیں ہی نہیں. کتنا اچھا ہوتا کہ سائنس سائنس ہی رہتی ضابطہ حیات نا بنتی.
بات معجزات کے انکار کی ہورہی تھی. میں نے ایک بلاگ پر ایسی ہی صورتحال دیکھی جب ایک فاضل تبصرہ نگار نے شق القمر کے معجزے کو ضعیف روایت بتلایا. دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے اپنی پہلی پوسٹ آج سے دو سال پہلے ٹھیک آج کے دن شق القمروالے معجزے پر ہی لکھی تھی. بلاگ انگریزی میں تھا اور بعد میں وہ سائٹ بھی بند ہوگئی.
شق القمر والے معجزے کی گواہی قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ملتی ہے. سورہ القمر میں یہ بیان اس طرح سے ہوا ہے:
اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ ﴿۲﴾
قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا‏- اور اگر (کافر) کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے ‏(٥٤: ١-٢)
محدثین اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً ٥ سال پہلے منیٰ کے مقام پر پیش آیا. اس سورہ کا پس منظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کے جواب میں کفّار مکّہ کا رویہ تھا کہ جس کے جواب میں انھیں یہ ایک عظیم الشان نشانی دکھا کر متنبہ کیا گیا تھا. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن تین بنیادی عقائد کی طرف دعوت دے رہے تھے یعنی توحید، رسالت اور آخرت، ان تینوں میں سے آخرت کے بارے میں وہ سخت نکتہ چینی کیا کرتے تھے اور اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے کہ کس طرح چاند پھاڑ دیا جائے گا اور سورج بجھا دیا جائے گا اور مرنے کے بعد جب قبروں میں ہماری ہڈیاں گل کر مٹی ہوجائیں گی ہم کیونکر زندہ کئے جائیں گے. اس تنقید کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نشانیاں اور معجزے طلب کیا کرتے تھے. ایسے میں یہ شق القمر کا معجزہ دکھلا کر یہ ثابت کیا گیا کہ جس طرح سے یہ چاند تمہاری آنکھوں کے سامنے پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا اسی طرح قیامت میں اس کا پھٹنا دور نہیں. کئی صحیح احادیث میں اس کا ذکر ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے روایت ہے کہ کفّار مکّہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دو ٹکڑے کرکے دکھا دیا. یہاں تک کہ انہوں نے حرا پہاڑ کو ان دو ٹکڑوں کے بیچ میں دیکھا.
(صحیح بخاری. کتاب 58 انصار کے مناقب – حدیث 386

حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے روایت ہے کہ جس وقت چاند کے دو ٹکڑے ہوۓ تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے میدان میں موجود تھے. آپ نے فرمایا تھا کہ لوگو! گواہ رہنا اور چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہوکر پہاڑ کی طرف چلا گیا تھا
(صحیح بخاری. کتاب 58 انصار کے مناقب – حدیث 3869)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے روایت ہے چاند پھٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو ٹکڑے ہوگیا. آپ نے فرمایا گواہ رہو.
(صحیح مسلم - منافقوں کی صفت اور ان کے حکم کے مسائل – حدیث 7071)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے روایت ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے منیٰ میں کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا. ایک ٹکڑا تو پہاڑ کے اس طرف رہا اور ایک اس طرف چلا گیا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گواہ رہو
(صحیح مسلم - منافقوں کی صفت اور ان کے حکم کے مسائل – حدیث -7072)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے روایت ہے کہ قیامت کی پانچ علامتیں گزر چکی ہیں الدخان (دھواں)، الروم (غلبہ روم ) القمر (چاند کے ٹکڑے ہوجانا ) البطشہ (پکڑ)، اللزام (ہلاکت اور قید)
(صحیح بخاری کتاب تفسیر نبوی – حدیث 4820)
يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ إِنَّا مُنتَقِمُونَ(16 :44)
جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے بے شک ہم بدلہ لینے والے ہیں
اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں حدیث ہے کہ:
عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے بیان فرمایا کہ پانچ (قران مجید کی پشین گوئیاں) گزر چکی ہیں لزام (بدر کی لڑائی کی ہلاکت)، الروم (غلبہ روم)، البطشہ (سخت پکڑ)، القمر (چاند کے ٹکرے ہونا) اور الدخان دھواں شدت فقہ کی وجہ سے (صحیح بخاری – کتاب تفسیر نبوی - حدیث 4825)

اس عظیم الشان معجزے پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں ہونا چاہیے تھا اور تاریخ کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا. حالانکہ اس معجزے کے وقت کا اندازہ کیا جائے تو چاند کا پوری دنیا میں دیکھا جانا ناممکنات میں سے تھا. کیونکہ اس وقت چاند صرف عرب اور اس کے مشرقی ممالک میں نکلا ہوا تھا. پھر اس معجزے کا وقت بھی طویل نا تھا اور اس سے روایت کے مطابق کوئی دھماکہ یا تیز روشنی کا اخراج بھی نہیں ہوا اور نا ہی اس کے اثرات زمین پر کسی قسم کے پڑے. ظاہر ہے کہ یہ ایک متوقع معجزہ نہیں تھا کہ تمام دنیا کی نظریں چند پر ہوتیں. اسی لئے یہ معجزہ صرف انہی لوگوں نے دیکھا جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا تھا. تاہم روایت ہے کہ مالابار کا راجہ چرآمن پیرومل (راما ورما کلشیکھر) نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا. کہا جاتا ہے کہ راجہ کسی وجہ سے اس رات مضطرب تھا اور محل کی چھت پر چہل قدمی کررہا تھا. جب اس نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے اور پھر دوبارہ جوڑتے دیکھا تو مبہوت رہ گیا اور سمجھنے لگا کہ کوئی بڑا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے. اس نے اس واقعہ کی کھوج لگانے کا فیصلہ کرلیا. نجومیوں سے اور مشرقی علوم کے ماہرین سے اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ عرب میں آنے والے کسی نبی سے متعلق ہے. تب اس نے اپنا تخت و تاج اپنے جانشین کے سپرد کیا اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے جزیرہ نما عرب آگیا جہاں انہوں نے اسلام قبول کیا اور تاج الدین کا نام اختیار کیا. واپسی کے سفر میں یمن میں صلالة کے مقام پر ان کا انتقال ہوا لیکن اپنے انتقال سے پہلے اپنے ایک خط میں اپنے جانشین کو ملک بن دینار کی مدد سے کرینگنور کیرالہ میں ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا. یہ مسجد چرآمن جمہ مسجد کے نام سے مشہور ہے اور اسے برصغیر کی پہلی مسجد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے.

اس ضمن میں ایک دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ناسا کے خلا نوردوں نے چاند کی ایک تصویر شایع کی جو چاند کی سطع پر ایک فالٹ لائن کو ظاہر کررہی ہے. جس کے بارے میں یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ یہ شاید لاوا کے بہنے سے لاکھوں سال پہلے بنی ہے. یہ صرف ایک نظریہ ہے اور اس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ کسی وقت میں لاکھوں سال قبل چاند زمین یا مریخ کا حصّہ رہا ہوگا اور کسی فلکیاتی حادثہ کی وجہ سے ٹوٹ کر زمین کے قریب آگیا ہوگا. اس نظریہ کا صحیح یا غلط ہونا چاند کی سطع پرانسانی موجودگی اور مزید سائنسی تجربات سے مشروط ہے. اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ چاند کبھی بھی زمین یا مریخ کا حصّہ نہیں رہا تو اس فالٹ لائن کی اہمیت اس معجزے کے حوالے سے نہایت اہم رخ اختیار کرلے گی.
اس فالٹ لائن کے حوالے سے مزید دلچسپ تفاصیل اور تصاویر یہاں اور یہاں دیکھی جاسکتی ہیں..

حرف آخر: شق القمر ایک ایسا معجزہ تھا جس کی گواہی خود قران کریم میں دی گئی ہے اور صحیح احادیث سے اس عظیم الشان معجزے کا ثبوت ملتا ہے. اس پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے. 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔