جمعہ, اگست 31, 2012

گجرات فسادات، رياستی وزير مجرم قرار

بھارت ميں سن 2002 ميں ہونے والے مذہبی فسادات ميں مسلمانوں کے قتل عام ميں ملوث پائے جانے پر ايک سابقہ رياستی وزير کو قتل کے الزام ميں مجرم قرار دے ديا گيا ہے۔

رواں ہفتے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ايک عدالت نے سابق سٹيٹ منسٹر مايا کودنانی کو مجرم قرار ديا۔ کودنانی پر سن 2002 ميں مسلمان عورتوں، مردوں اور بچوں کو قتل اور تشدد کرنے کے علاوہ زندہ جلائے جانے ميں بھی ملوث ہونے کا الزام تھا۔ ان واقعات میں ملوث دیگر افراد کو سزا جمعے کے روز سنائی جائے گی اور استغاثہ کا مطالبہ ہے کہ سابق رياستی وزير کو موت کی سزا سنائی جائے۔ عدالت ميں کودنانی کے علاوہ اکتيس مزيد افراد کو مجرم قرار ديا گيا۔ يہ تمام افراد 97 افراد کے قتل سے منسلک ايک واقعے ميں مجرم قرار ديے گئے ہيں۔

واضح رہے کہ بھارت ميں قريب دس سال قبل ہونے والے مذہبی فسادات، جنہيں Naroda Patiya کے نام سے جانا جاتا ہے، ميں ڈھائی ہزار افراد کو بے رحمانہ انداز ميں قتل کرديا گيا تھا۔ انسانی حقوق سے متعلق اداروں کے مطابق گجرات ميں رونما ہونے والے ان واقعات ميں ہلاک ہونے والوں میں سے اکثريت مسلمانوں کی تھی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مذہبی فسادات اُس واقعے کے بعد رونما ہوئے تھے جس ميں مبينہ طور پر مسلمانوں نے فروری 2002ء ميں ايک ريل گاڑی ميں 59 ہندو زائرين کو زندہ جلا ديا تھا۔

عدالتی کارروائی کے دوران ايک گواہ نے مايا کودنانی پر يہ الزام عائد کيا تھا کہ انہوں نے قتل و غارت گری کے دوران مسلمانوں کو ہدف بنانے کے ليے حملہ آوروں کی رہنمائی کی تھی اور ايک موقع پر خود بھی پستول سے گولی چلائی تھی۔ مايا کودنانی نے 2002ء ميں رونما ہونے والے واقعات کے پانچ سال بعد وزارت کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انہيں سن 2009 ميں گرفتار کيا گيا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنے سرکاری عہدے سے مستعفی ہونے کا فيصلہ کيا۔

نئی دہلی ميں ہونے والی اس پيش رفت کے پس منظر ميں برسر اقتدار سياسی جماعت کانگريس کا کہنا ہے کہ اس فيصلے سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ گجرات کے فسادات ميں بھارتيہ جنتا پارٹی ملوث تھی۔ کانگريس کے مطابق اس فيصلے کا گجرات ميں ہونے والے انتخابات پر اثر ضرور پڑھے گا۔ دوسری جانب بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فيصلے سے يہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ رياست کا عدالتی نظام انصاف کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔

2002ء کے گجرات فسادات، رياستی وزير مجرم قرار

سانپ کے کاٹے کا نیا علاج: پاکستانی سائنسدان کامیاب

پاکستانی سائنسدانوں نے کچھ ایسے سانپوں کے کاٹے کا علاج دریافت کرلیا ہے جن کا طریاق امریکا اور یورپ میں بھی نہیں ملتا ہے۔

سرکاری ڈاﺅ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس کے سائنسدانوں کے مطابق چونکہ پاکستان میں ملنے والے سانپ امریکی اور یورپی سانپوں سے مختلف ہوتے ہیں لہذا ان کا طریاق بھی باہر سے نہیں منگایا جاسکتا۔ اب تک جتنے بھی طریاق درآمد کیے جاتے رہے ہیں وہ پاکستانی سانپوں کی کئی اقسام کے کاٹے کا علاج نہیں کر پاتے تھے۔ ڈاؤ یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر عمر فاروق کے مطابق پاکستان میں چار اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے کئی اقسام کا علاج باہر سے منگائی ہوئی ادویات نہیں کر پاتیں۔ اسی لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ طریاق یہیں تیار کئے جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طریاق کو بلجیم کی تجربہ گاہوں میں پرکھا گیا ہے اور وہاں ان کی قوت بین الاقوامی میعار کے مطابق پائی گئی ہے۔

سندھ میں کئی ایسے علاقے پائی جاتے ہیں جہاں ہر سال ہزاروں افراد سانپوں سے ڈسے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی اس وجہ سے مر بھی جاتے ہیں۔ چونکہ پاکستانی سانپوں کے زہر کا طریاق نہیں پایا جاتا تھا لہذا یہاں مرنے والوں کی شرح زیادہ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر سال یہاں سیکڑوں افراد سانپوں سے ڈسے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ اس مصیبت سے ہمیشہ کے خائف رہے ہیں اور اسی وجہ سے اس علاقے میں ایک عرصے تک سانپوں کو پوجا جاتا رہا ہے۔ اسلام آنے کے بعد یہاں لوگوں نے سانپوں کو خدا ماننا تو بند کردیا تھا لیکن ان کا خوف بہرحال ختم نہیں ہوا تھا۔

پروفیسر عمر فاروق کہتے ہیں کہ اس طریاق کی تیاری میں پاکستانی سائنسدانوں نے یہاں پائے جانے والے چاروں اقسام کے سانپوں کے زہر کو گھوڑوں پر آزمایا اور یوں اب ان کے پاس کئی گھوڑے پائے جاتے ہیں جو سانپ کے کاٹے سے مکمل طور پر محفوظ ہوگئے ہیں۔ اب انہی گھوڑوں سے یہ طریاق نکالا گیا ہے۔ ان کو یقین ہے کہ ہر چند کہ باقاعدہ اس دوا کا بنایا جانا شروع تو نہیں ہوا ہے لیکن ایک دفعہ بازار میں آجانے کے بعد یہ طریاق سندھ اور پنجاب میں پائے جانے والی اس بڑی مشکل سے لوگوں کو بچا سکے گا۔


سانپ کے کاٹے کا نیا علاج: پاکستانی سائنسدان کامیاب

خون کا گروپ اور دل کا عارضہ

ہر ایک کا خون ایک جیسا نہیں ہوتا۔ خون کے چار گروپ ہوتے ہیں۔ اِن میں جو کمیاب ہیں اُن کو ’اے‘، ’بی‘ اور ’اے بی‘ کہا جاتا ہے، جب کہ ’او گروپ‘ سب سے زیادہ پایا جانے والا گروپ ہے۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ’او‘ بلڈ گروپ والے افراد کی بنست ’اے بی‘ گروپ والے افراد کو دل کے امراض کا 23 فی صد زیادہ خطرہ ہوتا ہے، جب کہ ’اے‘ گروپ والے افراد کو پانچ فی صد زیادہ خطرہ ہے۔

یہ تحقیق بالسٹن یونیورسٹی میں ہارورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ کے محققین نے کی۔

اِس کے لیے، اُنھوں نے نرسوں اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد پر کی گئی دو تحقیقوں کے دوران حاصل کیے گئے اعداد و شمار کا مطالعہ کیا۔ اِس تحقیق میں شامل افراد کو 20 سال یا اُس سے بھی زیادہ عرصے تک مطالعہ کیا گیا۔ اِس کے نتائج مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں ہیں۔

خون کا گروپ اور دل کا عارضہ

یو ایس اوپن: مرے، شاراپوا، آزارینکا اور فیرر اگلے مرحلے میں

کِم کلائسٹرز
اینڈی مرے، ماریا شاراپووا، وکٹوریہ آزارینکا اور ڈیوڈ فیرر یو ایس اوپن کے تیسرے مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔ سٹار کھلاڑی کِم کلائسٹرز کو برطانیہ کی جواں سال لورا روبنسن نے ٹورنامنٹ سے باہر کردیا ہے۔

اینڈی مرے نے بدھ کو کروشیا کے Ivan Dodig خلاف میچ چھ دو، چھ ایک اور چھ تین سے جیت کر تیسرے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا۔ بیلاروس کی وکٹوریہ آزارینکا نے بیلجیم کی کرسٹین فلِپکینس کو چھ دو، چھ دو سے مات دی اور یو ایس اوپن کے تیسرے راؤنڈ میں پہنچ گئیں۔

سابق چیمپئن ماریا شاراپووا نے سپین کی لورڈ ڈومینگس لینو کو چھ صفر، چھ ایک سے مات دیتے ہوئے یو ایس اوپن کے تیسرے مرحلے میں جگہ بنائی ہے۔ شاراپووا نے 2006ء میں یہ ٹورنامنٹ جیتا تھا۔ بدھ کو ہسپانوی حریف کے خلاف میچ جیتنے میں انہیں 54 منٹ لگے۔ سپین کے ڈیوڈ فیرر نے جنوبی افریقہ کے کیون اینڈرسن کو مات دی ہے۔

کِم کلائسٹرز یو ایس اوپن کے بعد کھیل کو خیرباد کہنے کا اعلان کر چکی تھیں۔ یوں بدھ کا مقابلہ ان کا آخری سنگلز میچ ثابت ہوا ہے۔ لورا روبنسن نے انہیں سات چھ، سات چھ سے مات دی۔ کلائسٹرز کے لیے یہ ہار کسی دھچکے سے کم نہ تھی اور میچ کے ا‌ختتام پر ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ پھر بھی شکست کے باوجود کِم کلائسٹرز کا کہنا تھا کہ کھیل سے کنارہ کرتے ہوئے ان کے دِل میں کوئی حسرت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’میچ کے ایک گھنٹے بعد تک کچھ مایوسی تھی اور کسی حد تک بے چینی بھی تھی۔ لیکن ریٹائرمنٹ کے بارے میں بات کرنے اور سوچنے کے بعد میں خوش ہوں۔‘‘

روبنسن نے کِم کلائسٹرز کو نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک رول ماڈل قرار دیا۔ کلائسٹرز کی ریٹائرمنٹ پر ماریا شاراپووا اور سیم سٹوزر نے بھی اظہار خیال کیا۔

کلائسٹرز نے 2005ء میں یو ایس اوپن جیتا تھا۔ وہاں وہ 2009ء میں دوبارہ لوٹیں جب ان کی ایک بیٹی بھی تھی۔ تاہم اس کے باوجود انہوں نے پہلے سے بہتر کھیل پیش کیا اور بعد میں دو مرتبہ یو ایس اوپن اور ایک مرتبہ آسٹریلین اوپن جیتا۔

ان کا کہنا تھا: ’’یہ بہت زبردست سفر رہا ہے اور میرے بہت سے خواب ٹینس کی وجہ سے پورے ہوئے ہیں۔‘‘

یو ایس اوپن: مرے، شاراپوا، آزارینکا اور فیرر اگلے مرحلے میں

پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم تین ملکی ٹورنامنٹ کی فاتح

پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم نے آئرلینڈ میں کھیلا جانے والا تین ملکی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹورنامنٹ جیت لیا۔ ٹورنامنٹ میں پاکستان کے علاوہ آئرلینڈ اور بنگلہ دیش کی خواتین کرکٹ ٹیمیں شامل تھیں۔

بنگلہ دیش کے کے خلاف کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے چھ اور آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ میں آٹھ وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

پاکستان کی خواتین ٹیم جمعرات سے انگلینڈ کا دورہ شروع کررہی ہے جہاں وہ میزبان خواتین ٹیم کے علاوہ وہاں کی انڈر 19 اور مخلتف مقامی خواتین کرکٹ کلبز کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔

پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم تین ملکی ٹورنامنٹ کی فاتح

جمعرات, اگست 30, 2012

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں

ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں

اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں

ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
                                       احمد فراز

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے

میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے
                                      احمد فراز

چین: اعلٰی اہلکار لاکھوں ڈالر لے کر امریکہ فرار

چینں میں میڈیا کے مطابق ملک کے شمال مشرقی صوبے لیاؤننگ میں ایک سابق اعلٰی پارٹی عہدیدار لاکھوں ڈالر لے کر امریکہ فرار ہوگئے ہیں۔ اخبار پیپلز ڈیلی کے مطابق وانگ گاؤ کیانگ صوبہ لیاؤننگ کے شہر فینگ چینگ کے پارٹی سیکرٹری تھے جو اپریل میں اپنی اہلیہ کے ساتھ امریکہ چلے گئے۔اخبار نے سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے بتایا کہ وانگ گاؤ کیانگ کو بدعنوانی کے الزمات کے تحت عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور ان کے خلاف تحقیقات ہورہی تھیں۔

کئی اطلاعات کے مطابق وہ بیس کروڑ یوان یعنی تین کروڑ پندرہ لاکھ امریکی ڈالر ساتھ لے گئے ہیں۔ مقامی سرکاری اہلکاروں نے وانگ گاؤ کیانگ کے خلاف خرد برد اور رقم امریکہ لے جانے کے الزامات کے بارے کچھ زیادہ تفصیل نہیں بتائی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ گاؤ کیانگ کا خاندان امریکہ میں مقیم ہے۔ منظر عام پر آنے سے پہلے اس سکینڈل کے متعلق افواہیں کچھ عرصہ انٹرنیٹ پر گردش کرتی رہی تھیں۔ شہر کی ویب سائٹ کے مطابق شہر کے ناظم یان چوان نے فینگ چینگ کے پارٹی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا۔

چین کے وزیرِاعظم وین جیاباؤ اس سے پہلے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ بدعنوانی ہے۔

بیجنگ میں بی بی سی کے نامہ نگارمارٹن پیشنس کے مطابق سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے چینی عوام میں سخت غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑے رہنماؤں کا معاشی احتساب نہیں ہوتا جب کہ چھوٹے لیڈر سکیینڈلوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔

گذشتہ برس چین کے مرکزی بینک نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک سو بیس ارب سے زیادہ امریکی ڈالر بدعنوان سرکاری اہلکار بیرونِ ممالک لے اُڑے ہیں جن کی اکثریت نے امریکہ کا رخ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے لے کر دو ہزار آٹھ تک سرکاری کمپنیوں کے سولہ سےاٹھارہ ہزار تک ملازمین خرد برد کر کے ملک چھوڑ چکے ہیں۔

چین: اعلٰی اہلکار لاکھوں ڈالر لے کر امریکہ فرار

اسامہ کی ہلاکت: ’آنکھوں دیکھا احوال سرکاری بیان سے متضاد‘

اسامہ بن دلان
امریکی نیوی سیلز کے ایک سابق کمانڈو کی کتاب میں اسامہ بن دلان کی ہلاکت کا آنکھوں دیکھا احوال سرکاری بیان سے متضاد ہے۔ سابق کمانڈر امریکی نیوی سیلز کی اس ٹیم کے رکن تھے جس نے گزشتہ سال مئی میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی تھی۔

سابق اہلکار نے مارک اوون کے فرضی نام سے کتاب ’نو ایزی ڈے‘ میں اس کارروائی کا آنکھوں دیکھا احوال لکھا ہے۔ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس نے کتاب ’نو ایزی ڈے‘ کی کاپی حاصل کی ہے۔ کتاب کے مطابق اسامہ بن لادن نے جیسے ہی اپنے بیڈ روم یا سونے کے کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو انہیں ہلاک کردیا گیا اور اس وقت سیلز سڑھیوں سے اوپر جارہے تھے۔

تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کو صرف ایک بار گولی ماری گئی جب وہ اپنے کمرے میں واپس چلے گئے۔ حکام کے مطابق اسامہ کی حرکات سے ایسا محسوس ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ ہتھیار لینے کے لیے جارہے تھے۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ناشر نے کتاب پینٹاگون کے پاس جمع نہیں کرائی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ کوئی خفیہ معلومات افشا نہ ہونے پائیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کتاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ سڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ بالکل اسی فوجی کے پیچھے تھے جس نے نشانہ باندھ رکھا تھا۔

سڑھیوں کے اوپر تک پہنچنے سے’پانچ قدم سے بھی کم‘ پر انہوں نے گولیاں چلنے کی مدھم آواز سنی۔ نشانہ لینے والے فوجی نے دیکھا کہ برآمدہ کی دائیں جانب ’ایک شخص دروازے سے باہر جھانک رہا ہے۔‘

مصنف کے بقول اسامہ بن لادن اپنے کمرے کی جانب واپس مڑے اور سیلز نے ان کا پیچھا کیا، اس وقت وہ فرش پر سمٹے ہوئے پڑے تھے اور خون بہہ رہا تھا جبکہ ان کے سر کی دائیں جانب ایک نمایاں سوراخ تھا اور ان دو خواتین ان کے جسم پر ماتم کررہی تھیں۔

ان خواتین کو پیچھے ہٹایا گیا اور اسامہ کے جھٹکے لیتے جسم پر کئی گولیاں اس وقت چلائیں جب تک وہ بے حس و حرکت نہیں ہوگئے۔ اس کے بعد سیلز نے دروازے کے قریب سے دو غیر استعمال شدہ ہتھیار برآمد کیے۔

اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ واپس کمرے میں مڑے اور اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ کہیں ہتھیار نہ نکال لیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے بدھ کی رات تک سابق فوجی کی کہانی پر تبصرہ نہیں کیا۔

واشنگٹن میں بی بی سی کے نامہ نگار پال ایڈمز کے مطابق مصنف کا کہنا ہے کہ حکام کےطویل جھڑپ شامل سمیت آپریشن پر دیئے گئے ابتدائی بیانات گمراہ کن ہیں۔

مصنف کے مطابق ایبٹ آباد کارروائی کو ایک بری ایکشن فلم کی طرح سے بیان کیا گیا۔

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یہ کوئی حیران کن انکشاف نہیں ہے کیونکہ کارروائی کے بعد چند روز تک وائٹ ہاؤس کے اپنے موقف میں بظاہر تضاد تھا۔

اس کتاب میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کارروائی میں حصہ لینے والے کمانڈو نے اگرچہ صدر اوباما کی جانب سے آپریشن کرنے کے فیصلے کی تعریف کی لیکن وہ صدر اوباما کے کوئی زیادہ مداح نہیں تھے۔

’آنکھوں دیکھا احوال سرکاری بیان سے متضاد‘

قبر کے عذاب سے بچنے کے اعمال

قبروں سے آواز آرہی ہے: ”اے دنیا میں رہنے والو! تم نے ایسا گھر آباد کر رکھا ہے جو بہت جلد تم سے چھن جائے گا اور اس گھر کو اجاڑ رکھا ہے جس میں تم تیزی سے منتقل ہونے والے ہو۔ تم نے ایسے گھر آباد کر رکھے ہیں جن میں دوسرے رہیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے اور وہ گھر اجاڑ رکھے ہیں جن میں تمہیں دائمی زندگی گزارنی ہے۔ دنیا دوڑ دھوپ کرنے اور کھیتی کی پیداوار مہیا کرنے کا گھر ہے اور قبر عبرتوں کا مقام ہے یہ یا تو جنت کا کوئی باغ ہے یا جہنم کا کوئی خطرناک گڑھا“۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک صحابی نے لاعلمی میں ایک قبر پر خیمہ گاڑھ لیا۔ اندر سے سورہ ملک پڑھنے کی آواز آئی۔ صاحب قبر نے اول سے آخر تک اس سورہ کی تلاوت کی۔ آپ نے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر یہ واقعہ بیان کیا۔ فرمایا۔ یہ سورہ عذاب قبر کو روکنے والی اور اس سے نجات دینے والی ہے۔ (ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص سے کہا: ”کیا میں تمہیں ایک حدیث بطور تحفہ نہ سناؤں، تم اسے سن کر خوش ہوگے“۔ وہ شخص بولا: ”ضرور سنائیے“۔ فرمایا: ”سورہ ملک پڑھا کرو اسے تم بھی یاد کر لو اور اپنے بیوی بچوں کو بھی یاد کرا دو اور اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے بچوں کو بھی یاد کرا دو، کیونکہ یہ نجات دلانے والی اور جھگڑنے والی ہے۔ یہ قیامت والے دن اپنے پڑھنے والے کے لئے رب سے جھگڑے کرے گی۔ اگر وہ جہنم میں ہوگا تو رب سے درخواست کرے گی کہ آپ اسے جہنم کے عذاب سے بچا دیں۔ اللہ پاک اس کی وجہ سے عذاب قبر سے محفوظ رکھتا ہے“۔ 

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری تمنا ہے کہ سورہ ملک میری امت کے ہر فرد کو یاد ہو“۔ (عبد بن حمید)۔ صحیح حدیث ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیس (۳۰) آیتوں والی سورہ ملک نے اپنے پڑھنے والے کی یہاں تک سفارش کی، حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا“۔ (ابن عبدلبر)

پیاز صحت کے لئے مفید

پیاز دنیا کی قدیم ترین سبزیوں میں سے ہے۔ یہ دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔ یہ غذا کو لذیذ بنانے اور سالن کو گاڑھا کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ پیاز ہری ہو تو ہنڈیا کے علاوہ انڈے کے آملیٹ اور چائنیز کھانے میں ذائقہ کو بڑھانے کے لئے مددگار ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی باورچی خانہ پیاز کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ 

پیاز چھیلتے وقت اس کا پانی آنکھوں میں لگتا ہے اور جلن پیدا کرکے آنسو نکالتا رہتا ہے۔ ایسے میں پیاز چھیلتے یا کاٹتے وقت اگر پانی کا نلکا کھول کر اس کے نیچے رکھا جائے تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ زہریلے حشرات الارض کے کاٹے پر پیاز کا عرق لگایا جائے تو فائدہ ہوتا ہے۔ پیاز موسم گرما میں لُو سے بچنے کا نہایت اہم ذریعہ ہے۔ ایک زمانے میں مزدور یا غریب لوگ گرمی کی شدت کے دنوں میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے روٹی کے ساتھ پیاز اور نمک ملا کر شوق سے کھاتے تھے۔ اس طرح وہ لُو لگنے اور ہیضہ سے محفوظ رہتے تھے اور غذائی حراروں کی پوری مقدار بھی ان لوگوں کو مہیا ہوجاتی تھی۔ 

تاثیر کے لحاظ سے پیاز سخت گرم ہے۔ سرکہ میں پیاز کا اچار بنا کر کھانا اکسیر ہے۔ پیاز لیموں کے عرق، کالی مرچ اور نمک کے ساتھ کھانا زیادہ مفید ہے۔ جلدی امراض میں اس کی مالش کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ پیاز کے عرق میں شہد ملا کر کھانے سے پرانی کھانسی دور ہوجاتی ہے۔ ریفریجریٹر میں ایک پیاز رکھ دیا جائے تو دوسرے پھلوں کی بو نہیں آتی۔ پیاز کا عرق نکال کر چہرے پر لگانے سے داغ دھبے دور ہوجاتے ہیں۔ آدھے سر کا درد ہونے پر پیاز خوب باریک پیس کر پاﺅں کے تلوﺅں پر ملیں۔ پیاز دہی کے ساتھ کھانے سے ڈائریا نہیں ہوتا۔ کانٹا چھبنے پر پیاز اور گڑ ملا کر اس جگہ پر باندھیں تو کانٹا خود بخود نکل جائے گا۔ پیاز کا اچار جسم میں خون کی کمی دور کرتا ہے اور جسم کے زہریلے مادے خارج کرتا ہے۔ سانس کے مرض میں صبح نہار منہ اس کا عرق پینے سے مرض میں افاقہ ہوتا ہے۔ وبا کے دنوں میں اگر پیاز کھانے کے ساتھ رکھی جائے تو وبا سے محفوظ رہے گا۔ پیاز نمک اور سرکہ کے ساتھ کھانے سے بھوک بڑھتی ہے۔ پیاز موسم گرما کا بہترین تحفہ ہے۔ کریلوں کے ساتھ کھانے سے ہانڈی کا ذائقہ دوبالا ہوجاتا ہے۔

سونف کا استعمال اور اس کے فوائد

سونف ایک جانی پہچانی خوراک ہے۔ پیٹ کی تکالیف‘ ہاضمے کی خرابیوں وغیرہ کے لئے اسے بہ کثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے اس مقصد کے لئے اکثر لوگ پان میں ڈال کر کھاتے ہیں۔ اس سے فائدے کے لئے ضروری ہے کہ اسے اچھی طرح چبا کر اس کا لعاب اور پیگ نگل لیا جائے۔ سونف منہ کو خوشبودار بناتی ہے۔ انگریزی میں اسے Fennel اور Aniseed بھی کہتے ہیں۔ اس کو عربی میں ’راز‘ یا ’نج‘ اور فارسی میں ’بادیان‘ کہتے ہیں۔ عرق بادیان بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ قرون وسطی میں سونف کے کھانوں کو خوشبودار بنانے اور کیڑے وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لئے بہ کثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ خیال تھا کہ اسے شامل کرنے سے باسی کھانے خراب اور مضر ثابت نہیں ہوتے۔

16 ویں صدی کا ماہر جیرارڈ اسے بینائی بڑھانے کے لئے بہت مفید قرار دیتا تھا جب کہ دوسرا ماہر عقاقیر کلپیر سونف کو سانپ یا کھمبی کے زہریلے اثرات دور کرنے کےلئے موثر قرار دیتا تھا۔ سونف (تخم بادیان) جسم کے نرم عضلات کے آرام دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کے استعمال سے ہضم کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ سونف خاص طور پر غذا کے روغنی یا چربیلے اجزا ہضم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ چینی معالج لی۔ شین۔ چن نے اپنی کتاب پین لساﺅ میں اسے خاص طور پر بچوں کے نظام ہضم کے لئے مفید لکھا ہے اس کے مطابق سونف پیٹ اور دانت کے درد کے لئے بھی مفید ہوتی ہے۔ یورپی ممالک میں لوگ سونف، بابونہ، سویا، دھنیا اور سنتے کے پوست کے جوشاندے کو ہاضمے کے لئے بہت مفید قرار دیتے ہیں۔ ایک مغربی محقق نے سونف کی پیشاب آور صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ سونف آلات بول، گردے مثانے کا ورم دور کرنے کے لئے بہت موثر ہوتی ہے۔ اسے باقاعدہ استعمال کرتے رہنے سے گردے، مثانے میں پتھری نہیں بنتی اور اگر بن بھی گئی تو اس کے استعمال سے پتھری خارج ہوجاتی ہے۔ سونف دودھ پلانے والی ماﺅں کے لئے بھی بہت مفید سمجھی جاتی ہے۔ اس کے استعمال سے دودھ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ سونف میں زنانہ ہارمون، ایسٹروجن جیسی خاصیت بھی ہوتی ہے اس لحاظ سے یہ خواتین کے لئے بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔ سن یاس کی تکالیف سے نجات کے لئے اطباء دیگر پیشاب آور دواﺅں کے ساتھ سونف استعمال کرتے ہیں۔ طب یونانی کی مشہور دوا شربت بزوری میں سونف کے بیج اور اس کی جڑ بھی شامل کی جاتی ہے۔
ایک یورپی معالج جان ایولن نے اپنی کتاب ایسی تاریا میں سونف کی ٹہنیوں کے گودے کو موثر، مسکن اور خواب آور قرار دیا ہے۔ طب ہندی کے معالجین کے مطابق سونف کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ ہاضمے کے لئے بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔ سونف کے چبانے سے ثقیل کھانے آسانی سے ہضم ہوجاتے ہیں۔ سونف معدے کے علاوہ جگر کے لئے بھی مفید ہوتی ہے۔ سینے اور معدے کی جلن کے لئے بھی اس کا استعمال بہت مفید ہوتا ہے۔ سونف پیشاب آور اور موثر حیض بھی ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم وزن سونف اور گڑ کو پانی میں جوش دے کر نیم گرم پینے سے حیض کی بے قاعدگی دور ہوجاتی ہے۔ دوائی مقاصد کے لئے 5 سے 7 گرام سونف استعمال کرنا چاہیے۔ پیٹ کی ہر قسم کی تکلیف کے لئے پانی کے ساتھ چائے کا ایک چمچ پسی ہوئی سونف کا استعمال بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ عرق بادیان بچوں کےلئے موثر گرائپ واٹر ثابت ہوتا ہے۔ طب ہندی میں ”سونف“ کا استعمال بینائی کے تحفظ اور اضافے کے لئے مفید قرار دیا جاتا ہے۔

کیا مصنوعی ذہانت تخلیق کر لی گئی ہے؟

روس کے سائنسدانوں نے دنیا میں پہلی بار انسانی دانشمندی کا کمپیوٹرائزڈ نمونہ پیش کیا ہے۔ ”یوگینی“ نام سے تیار کردہ یہ کمپیوٹر پروگرام انسانی دماغ سے بس کچھ ہی کم ہے۔ اسے برطانیہ میں ہوئے سائیبر دانش مندی کے مقابلے میں بہتریں تسلیم کیا گیا ہے۔

”ذہنی دھاوے“ کے پروگراموں کی تیاری میں سبھی شریک افراد کو ”ٹیورنگ ٹیسٹ“ سے گذرنا پڑا تھا۔ اس نام کے برطانوی ماہر ریاضی کو کمپیوٹر پروگرامنگ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک کھیل ترتیب دیا تھا، جس میں حصہ لے کر معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کا مخاطب کون ہے؟ مشین یا انسان۔ اس کے اصول بہت سادہ ہیں، امتحان لینے والا انجانوں سے گفتگو کرتا ہے، جو اس کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ جوابات سے ممتحن جان لیتا ہے کہ وہ انسان کی بجائے کمپیوٹر پروگرام سے انٹرویو کررہا تھا، کیونکہ یہ عیاں ہے کہ تا حال مشین انسانوں کی طرح کے جواب دینے سے قاصر ہے۔

ایسے پہلے پروگرام جنہیں ”ٹیورنگ ٹیسٹ“ کے ذریعے آنکا گیا، کے جواب ایسے لگتے تھے جیسے کوئی انسان مذاق کررہا ہو یا پھر الّو بنانے کی کوشش کررہا ہو۔ پروگرام وہی بات پوچھنے لگ جاتا تھا جس بارے میں اس سے سوال کیا جاتا تھا۔ دوسری جانب بیٹھا ہوا شخص یہ سمجھتا تھا کہ جیسے اس قسم کے جواب کوئی باشعور شخص دے رہا ہے۔ بہر حال یہ سلسلہ بہت دیر نہیں چل سکتا تھا۔

اس نوع کا پروگرام کوئی سنجیدہ عمل نہیں کر سکتا تھا، بس شریک گفتگو شخص کے ہونے کا تاثر پیدا کرسکتا تھا۔ اسے مصنوعی ذہانت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس معاملے میں پیشرفت جاری رکھنا بلا جواز ہے، روسی انسٹیٹیوٹ برائے عملی ریاضی کے میخائیل گوربونوو پوسادوو کو یقین ہے۔ ”یہ کام بیکار نہیں ہے۔ یہ اصل میں لسانی، ہئیتی اور لسانی عمل جار کی صفات کا تجزیہ ہے۔ مشین میں سب کچھ صحت کے ساتھ درست بھرنا چاہیے وگرنہ انسان اس کو شریک گفتگو نہیں مان سکے گا۔ اس سطح تک پہنچنے کی خاطر محنت درکار ہے، جس کے سبب کامیابی ممکن ہوگی اور اس کا بہت سی صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا“۔

فی الحال مشین کی استعداد محدود نوعیت کی ہے۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اگر اس طرح 30 % سوالوں کا جواب دے کر بھی انسان کو ”دھوکہ“ دیا جا سکتا ہو، تو اسے مصنوعی ذہانت خیال کیا جائے گا۔ روس کے پروگرام ”یوگینی“ نے ڈیڑھ سو سوالات میں سے 2۔29 % سوالوں کے مناسب جواب دیے ہیں۔ اس طرح وہ بہت کم حد تک مصنوعی ذہانت کہلائے جانے سے رہ گیا ہے۔ بہرحال اس پروگرام کے طفیل روس کی ٹیم مقابلہ جیت گئی۔

یہ نتیجہ ”سائیبر دانشمندی“ کے حوالے سے ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔ پروگرامرز کو یقین ہے کہ اس کو مزید بہتر بنائے جانے سے وہ کیا جانا ممکن ہوگا جس کا خواب عہد جدید کا انسان دیکھتا ہے یعنی کمپیوٹر کو سکھایا جاسکے گا کہ وہ کیے گئے سوال کو سمجھ پائے تاکہ انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کیا جانا سہل ہو۔

کیا مصنوعی ذہانت تخلیق کر لی گئی ہے؟

امریکی فوجیوں نے باراک اوباما پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ تیار کیا تھا

چار امریکی فوجیوں نے کودیتا اور باراک اواباما پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس بارے میں ریاست جارجیا کے پراسیکیوٹر جنرل کی ترجمان اسابیل پولی نے اعلان کیا ہے۔ اس سازش میں ریاست جارجیا کے فوجی اڈے ”فورٹ سٹوارٹ“ پر متعین تھرڈ موٹورائزڈ انفنٹری ڈیویژن کے فوجی ملوث تھے۔ ان چاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پراسکیوٹر کے ادارے کے ذرائع کے مطابق تفتیش کاروں نے معلوم کیا ہے کہ گرفتار شدگان اس علاقے میں سرگرم ایک حکومت مخالف گروہ میں شامل تھے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ فورٹ سٹوارٹ میں واقع ہتھیاروں کے گوداموں پر قبضہ کرکے، اندرونی سلامتی کے ادارے کے دفتر اور ریاست واشنگٹن میں پن بجلی گھر کو دھماکوں سے اڑا دیں۔ جس کے بعد وہ صدر اوباما پر قاتلانہ حملہ اور فوجی بغاوت برپا کرنا چاہتے تھے۔ سازش کاروں کا کہنا ہے کہ غیرملکی نام والے سیاہ فام باراک اوباما کو صدر امریکہ کے عہدے پر فائز ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سازش کار جس شدت پسند گروہ میں شامل تھے اس کے بارے میں اب تک زیادہ معلومات حاصل نہیں کی جاسکی ہیں لیکن امریکی حکام اسے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست اسود میں درج کرچکے ہیں۔

امریکی فوجیوں نے باراک اوباما پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ تیار کیا تھا

بدھ, اگست 29, 2012

انگلینڈ کو شکست، ہاشم عاملہ کے 150 رنز

جنوبی افریقہ نے پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے دوسرے میچ میں انگلینڈ کو 80 رنز سے شکست دے دی ہے۔ انگلینڈ کے شہر ساؤتھ ہمٹن کے روز باؤل گراونڈ میں کھیلے جانے والے میچ کی خاص بات جنوبی افریقہ کے ہاشم عاملہ کی ایک سو پچاس رنز کی شاندار اننگز تھی۔

288 رنز کے ہدف کے جواب میں انگلینڈ کی ٹیم چالیس اعشاریہ چار اوورز میں 207 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔

انگلینڈ کے اوپنر سمیت تین بلے باز صفر پر آؤٹ ہوئے۔ بیل اور پٹیل پینتالیس، پینتالیس رنز بنا کر نمایاں بلے باز رہے۔ جنوبی افریقہ کے مورکل، پیٹرسن اور پرنیل نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔

جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ پچاس اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر دو سو ستاسی رنز بنائے۔ ہاشم عاملہ نے سولہ چوکوں کی مدد سے ایک سو پچاس رنز بنائے اور مین آف دی میچ کے حق دار ٹھہرے۔ اس کے علاوہ سمتھ نے باؤن رنز سکور کیے۔ انگلینڈ کے سوان نے دو وکٹیں حاصل کیں۔

جنوبی افریقہ کو پانچ میچوں کی سریز میں ایک صفر سے برتری حاصل ہوگئی ہے۔ چوبیس اگست کو کھیلے جانے والا پہلا میچ بارش کی وجہ سے بے نتیجہ رہا تھا۔

اس سے پہلے جنوبی افریقہ نے تین میچوں پر مشتمل ٹیسٹ سیریز دو صفر سے جیت لی ہے۔

انگلینڈ کی شکست، ہاشم عاملہ کے 150 رنز

جاپان: دو قسموں کے جانوروں کے مٹ جانے کے بارے میں حتمی اعلان

جاپان کی وزارت ماحولیات نے ملک میں پائے جانے والے جانوروں کی اقسام میں دو کی کمی کردی ہے۔ جن جانوروں کو صفحہ ہستی سے مٹنے کا خطرہ درپیش ہے، ان کی فہرست سے جاپانی اود بلاؤ اور جزیرے کوشو میں پایا جانے والک ریچھ خارج کردیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان دو جانوروں کے وجود کے نشانات پچھلے تیس سال سے میسر نہیں ہیں۔ اس کی بنا پر جاپان میں جانوروں کے مٹنے کے بارے میں سرکاری اعلان کیا جاسکتا ہے۔

ماضی میں جاپان کے تمام دریاؤں اور جھیلوں میں اود بلاؤ پائے جاتے تھے لیکن انہیں قیمتی سمور کے حصول کی خاطر ختم کردیا گیا جبکہ ریچھ جنگلی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کا شکار ہوگئے۔ آج جاپان میں ساڑھے تین ہزار جانوروں اور پرندوں کو صفحہ ہستی سے مٹنے کا خطرہ لاحق ہے۔

جاپان: دو قسموں کے جانوروں کے مٹ جانے کے بارے میں حتمی اعلان

سرطان کی روک تھام کے لیے پاکستانی چائے

برطانیہ کے شہر برمنگھم میں آسٹن یونیورسٹی کے ماہرین اور شہر ڈاڈلی کے رسلز ہال ہسپتال کے ڈاکٹروں نے معلوم کیا ہے کہ پاکستان میں پائے جانے والے پودے Fagonia cretica چھاتی کے سرطان کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں اسی مقصد کے لیے یہ پودا استعمال کیا جاتا ہے لیکن مغربی ڈاکٹروں کی نظریں پہلی بار اس پودے پر پڑی ہیں اگرچہ سرطان کی مریض خواتین نے کہا تھا کہ اس پودے سے کام لیتے ہوئے انہیں مضر اثرات سے دو چار نہیں ہونا پڑا جو سرطان کے علاج کے لیے لی جانے والی ادویات کے ساتھ ہمیشہ ہوتا ہے۔ برطانوی ماہرین لیبارٹری میں تجربات کرکے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ پودا سرطان میں مبتلا خیلیوں کو ختم کرنے کے قابل ہے جبکہ صحت مند خلیوں کو اس سے نقصان نہیں پہنچتا۔ اب ماہرین یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ پودے کا کونسا حصہ سرطان کی روک تھام میں مددگار ہوتا ہے اور یہ کہ مریضوں کی طرف سے اس پودے پر مبنی ادویہ کے استعمال سے اتنا اثر ہوگا یا نہیں ہو جیساکہ لیبارٹری میں ہوا ہے۔

سرطان کی روک تھام کے لیے پاکستانی چائے


 اسی بارے میں مزید

چائے خون کا بہاؤ بہتر بناتی ہے

سن 2050 تک زندہ رہنے کے لئے انسانوں کو سبزی خور بننا ہوگا

سن 2050 تک زندہ رہنے کے لئے انسانوں کو سبزی خور بننا ہوگا۔ سائنس دانوں کا ایک گروپ سٹاک ہوم میں جاری پانی کا عالمی ہفتہ نامی فورم کے دوران متعلقہ رپورٹ منظر عام پر لایا ہے۔ کھانے کی عادتیں نہ بدلی گئیں تو چالیس سال بعد نو ارب آبادی کی ضروریات کو پورا کئے جانے کی خاطر پینے کے پانی کے ذخائر نہیں رہیں گے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی نو ارب افراد ہوگی۔ اس وقت ہر شخص کی پروٹین کی بیس فیصد ضروریات گوشت سے پوری کی جاتی ہیں۔ اگر دنیا کی آبادی میں دو ارب افراد کا اضافہ ہوا تو پروٹین کی صرف پانچ فیصد ضروریات گوشت کھانے سے پوری ہوں گی۔ لیکن اب تک گوشت کافی مقدار میں نہیں پیدا کی جا سکے گی کیونکہ مویشیوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہوگا۔

سن 2050 تک زندہ رہنے کے لئے انسانوں کو سبزی خور بننا ہوگا

آسٹریلیا کی شارجہ میں پاکستان کے خلاف پہلی فتح

آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف تین ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ، جو شارجہ میں کھیلا گیا، دلچسپ مقابلے کے بعد چار وکٹوں سے جیت لیا۔

آسٹریلیا نے199 رنز کا مطلوبہ ہدف 48.2 اوورز میں حاصل کرلیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے کپتان مائیکل کلارک نے 66 اور اپنا دسواں میچ کھیلنے والے جارج بیلی نے 57 رنز ناٹ آوٹ کی اننگز کھیلیں۔

بظاہر کم ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کو بھی شروع ہی میں نقصان اٹھانا پڑا جب اوپنر وارنر اور میتھیو ویڈ بالترتیب 5 اور 10 رنز بنا کر حفیظ اور شاہد آفریدی کے ہاتھوں آؤٹ ہوگئے۔ سعید اجمل نے اس کے بعد کے بعد دیگرے ہسی برادرز کو پویلین بھجوا کر آسٹریلیا پر دباو بڑھا دیا۔ جب آسٹریلیا کے چار کھلاڑی صرف 67 کے سکور پر آؤٹ ہوگئے تھے اور کینگروز بلے باز پاکستانی سپنرز کو کھیلنے میں خاص طور دشواری محسوس کررہے تھے تو لگ رہا تھا کہ پاکستان کی ٹیم شاید کم سکور کے باوجود میچ جیتنے میں کامیاب ہوجائے لیکن اس موقع پر کپتان کلارک نے جارج بیلی کے ساتھ پانچویں وکٹ پر 54 رنز جوڑے۔ کلارک 66 رنز بناکر محمد حفیظ کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے تو آسٹریلیا کا مجموعی سکور 121 تھا۔ اس طرح میچ میں ایک بار پھر سنسنی پیدا ہوئی تاہم جارج بیلی نے، جو سعید اجمل کی گیندوں پر خاصے پریشان رہے، اپنی ناتجربہ کاری کو راہ میں آڑے نہیں آنے دیا، انہوں نے میکسویل کے ساتھ 54 رنز کی پارٹنر شپ قائم کی اور میچ کو پاکستان سے بہت دور لے گئے۔

پاکستان کے سپنرز، سعید اجمل نے خاص طور پر بہت اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے نہ صرف تماشائیوں اور کمنٹریٹرز سے داد سمیٹی بلکہ آسٹریلیا کے بلے باز بھی انہیں استہزائیہ نظروں سے دیکھتے رہے۔ انہوں نے 10 اورروں میں 30 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں جبکہ محمد حفیظ نے 29 رنز کے عوض دو اور شاہد آفریدی نے 37 رنز دے کر ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ سہیل تنویر اور اعزاز چیمہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے اس طرح پاکستان کا فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ متاثر کرنے میں ناکام رہا۔

چھٹے باؤلر کی کمی کو محمد اظہر سے پورا کیا گیا۔ اظہر نے جو تکینیکی اعتبار سے مستند بلے باز کے طور پر جانے جاتے ہیں، آج کے میچ میں بطور لیگ سپن باؤلر انٹرنیشنل باؤلنگ کا کھاتا کھولا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اظہر نے اپنا ڈومیسٹک کیئریر بطور باؤلر ہی شروع کیا تھا۔ انہوں نے تین اووروں میں بارہ رنز دیے اور اپنی ہی گیند پر ایک مشکل کیچ لینے میں ناکام رہے۔

اس سے قبل پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ اور پوری ٹیم 45.1 اوور میں 198 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ اسد شفیق 56 اور عمر اکمل 52 رنز کے ساتھ نمایاں سکورر رہے۔ دیگر بلے بازوں میں حفیظ 4، ناصر جمشید 23، اظہر 5، کپتان مصباح 26 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

99 کے سکور پر چار وکٹیں گرنے کے بعد نوجوان اسد شفیق اور عمر اکمل نے جارحانہ مگر ذمے داری سے بیٹنگ کی اور سکور 160 تک پہنچا دیا مگر بیٹنگ پاورپلے ایک بار پھر پاکستانی ٹیم کے لیے زحمت ثابت ہوا اور وکٹیں یکے بعد دیگرے گرنے لگیں۔ آخری 6 وکٹیں ٹیم کے مجموعی سکور میں صرف 38 رنز کا اضافہ کرسکیں۔

لوور آرڈر بھی ناکام ثابت ہوا جب ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد ٹیم میں واپس آنے والے کامران اکمل 4 اور آفریدی بغیر کوئی رنزبنائے آؤٹ ہوگئے۔ سہیل تنویر کی اننگ بھی ایک رن پر ہی محدود رہی۔

آسٹریلیا کی جانب سے اپنا چھٹا میچ کھیلنے والے مچل سٹارک نے تباہ کن باؤلنگ کرتےہوئے 5 جبکہ پیٹنسن نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔ سٹارک کو مین آف دا میچ قرار دیا گیا۔ شارجہ کے اس میدان پر پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان اس سے قبل کھیلے گئے تمام میچوں میں پاکستان کی ٹیم فاتح رہی اور آج اسے پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سیریز کا دوسرا میچ 31 اگست کو ابوظہبی جبکہ تیسرا تین ستمبر کو شارجہ میں ہوگا جس کے بعد دونوں ٹیموں کے درمیان تین ٹی-20 میچوں کی سیریز بھی کھیلی جائے گی۔

آسٹریلیا کی شارجہ میں پاکستان کے خلاف پہلی فتح

منگل, اگست 28, 2012

پاکستان آسٹريليا کرکٹ: پہلا ون ڈے آج کھيلا جائے گا

شارجہ میں ايک اورميدان سج گيا ہے، پاکستان اور آسٹريليا کے درميان پہلا ون ڈے آج شارجہ کے تاريخي ميدان پر کھيلا جائے گا۔ یہ میچ پاکستان کے وقت کے مطابق شام 7 (14:00 GMT) بجے شروع ہوگا۔

پاکستان نے آسٹريليا کے خلاف آخري سيريز 2002ء ميں جيتي تھي اب ديکھنا ہے کہ پاکستان کا انتظار ختم ہوتا ہے يا آسٹريلوي ٹيم کي کاميابيوں ميں مزيد اضافہ ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق تو آسٹريليا آگے ہے، ليکن شارجہ کي کنڈيشنز پاکستان کے لئے نئي نہيں ہيں تاہم آسٹريلوي ٹيم کے لئے مشکل ضرور ہيں ليکن اس پر بھي کوئي دباؤ نہيں۔ دونوں ٹيميں شارجہ کرکٹ گراؤنڈ ميں پہلے ميچ کي تياريوں ميں مصروف ہيں اور شائقين کو ايک دلچسپ ميچ کي توقع ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی اور وہابی نظریات

پاکستان میں بہت سے لوگ طالبان اور ان کی پر تشدد کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہیں تاہم عجیب بات یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے اُس وہابی نظریے کو چیلنج نہیں کرتے، جو شدت پسندی کو اساس فراہم کرتا ہے۔

ایسا ہرگز مشکل نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے لوگ نہ ملیں جو طالبان اور ان کی طرف سے کیے جانے والے خود کش حملوں کو ناپسند نہ کرتے ہوں لیکن تضاد یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ سعودی عرب میں موجود وہابی فرقے کی طرف سے پھیلائے جانے والے ان نظریات کی مخالفت نہیں کرتے، جو ریاستی سطح پر پاکستان میں سرایت کرتے جارہے ہیں۔

پاکستان میں اگر کوئی سعودی عرب کی کسی پالیسی پر تنقید کرتا ہے تو اسلام اور اسلامی روایات کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد اسے اسلام پر تنقید کے مترادف سمجھتی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ابتداء میں سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ ہی قریبی تعلقات قائم کیے تاہم 1979ء میں ایران میں انقلاب کے بعد پاکستانی حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہوگیا۔

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات اس وقت مزید قریبی اور مضبوط ہوگئے جب افغانستان کی جنگ شروع ہوئی۔ 80 کی دہائی میں سابقہ سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں ان دونوں ممالک نے مجاہدین کی مدد کے لیے امریکا کے ساتھ بھی اپنے رابطوں میں اضافہ کردیا۔ افغان جنگ تو ختم ہوگئی لیکن پاکستان کا سعودی عرب اور وہاں پائی جانے والی وہابی تحریک کی طرف جھکاؤ ختم نہ ہوا۔

انتہا پسندی کی جڑیں

پاکستان کے سابق وزیر قانون اقبال حیدر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ پاکستان میں جہادی اور دہشت گرد تنظیموں کی زیادہ تر تعداد وہابی نظریات کی ماننے والی ہے، ’’چاہے وہ طالبان ہوں یا لشکر طیبہ، اس میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ وہ سعودی وہابی نظریات کے ماننے والے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تنظیموں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

مقتول پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں وزیر قانون کے عہدے پر فائز رہنے والے اقبال حیدر پاکستان میں انتہا پسندی کے بیج بونے کے حوالے سے سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق پر الزام عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء نے وہابی گروپوں کی مدد کو ریاستی پالیسی بنا لیا تھا۔

اقبال حیدر یہ بھی کہتے ہیں کہ ضیاء الحق نے ملک کے اندر اقلیتی گروپوں بالخصوص شیعہ کمیونٹی کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کی مدد کی۔ حیدر کے مطابق شیعہ کمیونٹی کو بالخصوص اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ اپنے مذہبی نظریات کی وجہ سے ایران کے ساتھ ہمددری رکھتی تھی۔

دوسری طرف پاکستانی مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں وہابی نظریات کا اثر اتنا ہی پرانا ہے، جتنا کہ وہابی ازم۔ ڈاکٹر مبارک علی دیوبندی تعلیمات کو وہابی ازم کا ایک مظہر قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں وہابی نظریات کو ریاستی سطح پر دیگر نظریات کے مقابلے میں ترجیح دی گئی ہے۔ مبارک علی کے بقول یہ ایک عجیب بات محسوس ہوتی ہے کیونکہ پاکستان میں وہابی ازم ایک اقلیتی سنی فرقہ ہے۔

معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ وہابی نظریات نے نہ صرف پاکستانی معاشرے کی بنیادی ساخت کو متاثر کیا بلکہ انہوں نے اس علاقے کی کثیر الجہتی تہذیب کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے بقول وہابی نظریات کے حامی کثیرالثقافتی رویوں کے مخالف ہیں، ’’وہ مقدس مقامات، میوزک فیسٹیولز اور دیگر تہذیبی مراکز کو نشانہ بناتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کے خلاف ہیں۔‘‘ مبارک علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہابی ازم میں چونکہ عرب روایات کا پرچار کیا جاتا ہے، اس لیے یہ ایک غیر محسوس طریقے سے بہت سے پاکستانیوں کی نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ ’’لوگ اب سعودی عرب کی تقلید کی کوشش میں ’خدا حافظ‘ کے لیے ’اللہ حافظ‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ’رمضان‘ کو ’رمادان‘ کہتے ہیں۔

سعودی امریکی اتحاد

مغربی ممالک پاکستان کے خفیہ اداروں بالخصوص آئی ایس آئی پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ امریکا کا بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ موجود ہیں اور پاکستان ان جنگجوؤں کے خلاف مناسب کارروائی سے گریزاں ہے۔ لیکن اقبال حیدر کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کے ایسے مطالبات میں ایک تضاد ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو تو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم سعودی عرب کو کچھ نہیں کہا جاتا، جو پاکستان میں سرگرم وہابی جنگجوؤں کو سب سے زیادہ مالی مدد فراہم کرتا ہے۔

سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ ریاض حکومت ہی امریکا اور پاکستان کے مابین ثالثی کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ اقبال حیدر کہتے ہیں کہ ایرانی انقلاب سے قبل جو کردار تہران ادا کرتا تھا، وہ اب ریاض کے پاس چلا گیا ہے۔ وہ پاکستان میں شیعہ اقلیت کے قتل کے واقعات کے لیے بھی پاکستانی حکومت کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حیدر نے مزید کہا کہ پاکستانی ریاست اپنے اسٹریٹیجک مفادات اور جغرافیائی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے دیگر نظریات کے مقابلے میں ’وہابی ازم کی اجارہ داری‘ چاہتی ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی اور وہابی نظریات

روسی صدر کا اکتوبر میں مجوزہ دورہ پاکستان

روسی صدر ولادیمیر پوٹن دو اکتوبر کو ایک سرکاری دورے پر پاکستان جائیں گے۔ کسی روسی صدر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔ پاکستان میں خارجہ، داخلہ، پیداوار اور دفاع سمیت کئی وزارتوں کے حکام نے روسی صدر کے دورے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ پاک فضائیہ کے سربراہ بھی حال ہی میں روس کا دورہ کرکے آئے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستانی صدر بھی اپنے روسی ہم منصب سے کئی ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ روس پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی پاکستان کی مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکا ہے۔ کئی پاکستانی دانشور روس کو گوادر میں کردار آفر کرنے کی بات بھی کررہے ہیں۔ مبصرین پاکستان اور روس کے مابین تعلقات کے فروغ کی نئی کوششوں کو پاک امریکی تعلقات میں بگاڑ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

محمد حفیظ ایک روزہ میچوں کے سرفہرست باؤلر

پاکستانی کرکٹر محمد حفیظ ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کے باؤلروں کی عالمی فہرست میں اول پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

پیر کو کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین فہرست میں محمد حفیظ 727 پوائنٹس کے ساتھ سر فہرست ہیں۔ اس سے قبل یہ اعزاز جنوبی افریقہ کے باؤلر ساٹ سوبے کے پاس تھا جو اب فہرست میں دوسرے درجے پر آگئے ہیں۔

پاکستان ہی کے سعید اجمل 696 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں بیٹنگ کے شعبے میں کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی پہلے دس درجوں میں جگہ نہیں بنا سکا۔

جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ پہلے اور اے بی ڈی ویلیئرز تیسرے نمبر پر ہیں جب کہ بھارت کے ویرات کوہلی دوسری پوزیشن حاصل کرسکے ہیں۔

محمد حفیظ ایک روزہ میچوں کے سرفہرست باؤلر

پیر, اگست 27, 2012

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی 20 ٹیم رینکگ


دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے...

قصہ مختصر…عظيم سرور

رمضان کا مبارک مہينہ اس سال بہت سي حسين ياديں چھوڑ کر رخصت ہو گيا۔ ان يادوں ميں بہت اچھے ٹي وي پروگراموں کي ياديں بھي ہيں جو جيو ٹي وي پر پيش کيے گئے۔ ان پروگراموں ميں ايک سادہ سا پروگرام وہ تھا جس نے ميرے دل اور ذہن ميں بہت سے چراغ روشن کرديئے۔ يہ پروگرام اسم محمد کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔ اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے مجھے ہر بار احساس ہوا کہ اس ميں قرآن پاک ميں اللہ تعالٰي کے فرمان ”ورفعنا لک ذکرک“ کي تفاسير پرنور رنگوں کي صورت ميں پيش ہورہي ہيں۔ ہر روز پروگرام ميں تين شرکاء اسم محمد کے ايک پہلو کو ذہن ميں رکھ کے خطّاطي کرتے اور خطوں اور رنگوں کے ذريعے اسم محمد کي رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں کو اجاگر کرتے۔

جيو ٹي وي پر يہ پروگرام ڈاکٹر محمد طاہر مصطفٰي پيش کررہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر نے اسماء النبي پر مقالہ لکھا اور لاہور کي ٹيکنالوجي يونيورسٹي کے اسلامي علوم کے شعبے سے ڈاکٹر کي ڈگري حاصل کي۔ ٹيلي وژن پر يہ پروگرام کرنے کا خيال ان کو اس طرح آيا کہ مغربي دنيا ميں شرپسند اور شيطان صفت لوگ پيغمبر اسلام کي بے ادبي کرتے ہوئے آئے روز اخباروں اور کتابوں ميں خاکے بناتے رہتے ہيں۔ ہم ان خاکوں پر احتجاج تو کرتے ہيں ليکن اس کا کوئي مثبت جواب نہيں ديتے۔ حال ہي ميں ايک شيطان صفت عورت نے انٹرنيٹ پر پيغمبر اسلام کي شخصيت پر خاکے بنانے کا مقابلہ کروايا ہے اور دنيا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اس خاص سائٹ پر اپنے يہ خاکے ارسال کريں۔ پہلے جو کام کسي ايک اخبار ميں کوئي ايک شخص کرتا تھا اب انٹرنيٹ پر وہ کام کئي افراد کررہے ہيں۔

اقبال نے کہا تھا، چراغ مصطفوي سے شرار بو لہبي ہميشہ جنگ جاري رکھے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں بھي لوگ ان کے اور ان کے پيغام کے دشمن تھے۔ ان کو کبھي جادوگر، کبھي مجنون، کبھي شاعر، کبھي ابتر کہہ کر پکارتے تھے۔ اللہ تعالٰي ان کي ہر ہر بار ترديد فرماتا تھا اور قرآن کي آيات ميں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات اور نام کي سربلندي کا حکم ديتا تھا۔ اللہ تعالٰي نے نبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرنے کا جو وعدہ فرمايا ہے وہ قيامت تک جاري رہے گا، اس عرصے ميں شيطان بھي اپني کارروائياں جاري رکھے گا ليکن اللہ کے بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شيدائي بھي اسم محمد کا پرچم بلند کرتے رہيں گے۔ اسم محمد کے اجالے سے دنيا کو منوّر کرتے رہيں گے اور اسم محمد کي رحمتوں کے رنگوں سے زمين کو سجاتے رہيں گے۔ جيو ٹي وي کا يہ پروگرام بھي اس کا حصّہ تھا۔ ڈاکٹر طاہر مصطفٰي نے خيال پيش کيا کہ ہم پاکستان کے لوگوں کو دعوت ديں کہ وہ آئيں اور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي شخصيت کے مختلف پہلوؤں کو ان کے ”اسماء“ کے رنگوں سے سجي خطّاطي کے ذريعے اجاگر کريں۔ بہت پہلے پاکستان کے نامور مصوّر صادقين نے سورة الرحمن کي آيات کي خطّاطي کرکے مصوّري ميں ايک باب کا اضافہ کيا تھا۔ ڈاکٹر طاہر نے کہا کہ کيوں نہ ہم اسمائے محمد کي خطاطي کے شہہ پارے پيش کرکے مغرب کے شيطان صفت لوگوں کے شر اور فساد کا مثبت اور پر نور جواب ديں۔ ان کا يہ خيال منظور ہوا اور رمضان کے پورے ماہ ميں انہوں نے ہر روز تين مصوّروں کو بلا کر ان سے يہ نور پارے تخليق کروائے۔

اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے ميں نے ہر بار سوچا کہ اس ماہ رمضان کا يہ تحفہ جاري رہنا چاہئے، لوگ اپنے نور پارے ساري دنيا سے ارسال کريں گے تو پوري دنيا کو پيغام جائے گا کہ اسم محمد کا اصل رنگ و روپ کيا ہے۔ الفاظ اور اسماء کي تاثير ہوتي ہے، ان ميں طاقت ہوتي ہے اور ان کے ارتعاش ميں پيغام ہوتا ہے۔ پھر جب نام محمد کي قوّت اس خوبصورت انداز ميں ساري دنيا ميں پھيل جائے گي تو پھر رحمت کے اثرات مرتّب ہونے لگيں گے اور دنيا ميں سلامتي کي فضاء پيدا ہونا شروع ہو جائے گي۔ اس پروگرام ميں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرنے والے اپني عقيدتوں اور محبتوں کے رنگ بھي جگائيں گے اور پھر اقبال کا وہ پيغام عملي صورت اختيار کر جائے گا جس ميں انہوں نے کہا تھا:

قوّت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر ميں اسم محمد سے اجالا کردے

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں

تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں

چاہتوں کی صورت ہوتی ہیں

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں


دل کے زخم مٹانے کو


آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں

نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی

نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں

چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں

تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی

رداؤں جیسی ہوتی ہیں

بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں


کبھی بلا سکیں، کبھی چھپا سکیں

بیٹیاں اَن کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی جھکا سکیں، کبھی مٹا سکیں

بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی ہنسا سکیں، کبھی رُلا سکیں

کبھی سنوار سکیں، کبھی اجاڑ سکیں


بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں

حد سے مہرباں، بیان سے اچھی

بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں

پھول جب شاخ سے کٹتا ہے بکھر جاتا ہے

پتیاں سوکھتی ہیں ٹوٹ کے اُڑ جاتی ہیں

بیٹیاں پھول ہیں


ماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں

ماں کی آنکھوں کی چمک بنتی ہیں

باپ کے دل کا سکوں ہوتی ہیں

گھر کو جنت بنا دیتی ہیں

ہر قدم پیار بچھا دیتی ہیں

جب بچھڑنے کی گھڑی آتی ہے

غم کے رنگوں میں خوشی آتی ہے

ایک گھر میں تو اُترتی ہے اداسی لیکن

دوسرے گھر کے سنورنے کا یقیں ہوتا ہے


بیٹیاں پھول ہیں

ایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر

سوکھتی ہیں نہ کبھی ٹوٹتی ہیں

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

اور پھول کے مقدر میں
بالآخر بکھرنا ہے
انہیں تو بس مہکنا ہے
سجا دو سیج پر چاہے
چڑھا دو یا مزاروں پر
سہرے میں انہیں گوندھو
لگا دو یا کہ مدفن پر
انہیں خوشبو پھیلانی ہے
بھلا پھولوں کی مرضی کون پوچھتا ہے
بتاﺅ تم کو بالوں میں سجائیں یا کہ مرقد پے
آبیاری ہو کہیں یا قطع و برید ہو
پھولوں کے اختیار میں بس مہکتے رہنا ہے
اجنبی جذبات کو اپنی زباں میں کہنا ہے
جس رنگ میں چاہے باغباں
گلدستے میں سج جانا ہے
جس کیاری میں چاہے
وہیں پے ان کو اگنا ہے، وہیں پھل پھول دینے ہیں
وہیں مرجھانا ہے ان کو

پرندوں اور پودوں میں
یہی اک فرق ہے ازلی
کبھی جو بے سبب یہ مہرباں برساتیں روٹھ جائیں تو
یا بد قسمت گھٹائیں راستے بھول جائیں تو
کبھی جب پانیوں کی کوکھ بانج ہو جانے کا خدشہ ہو

پرندے ہجرتیں کرکے، نئی آب و زمیں کھوجیں
ٹھکانے، آشیانے، چمن و گلشن سب نیا ڈھونڈیں
مگر پھولوں کو پودوں کو، مگر بیلوں کو بانہوں کو
وہیں پانی کے مدفن پر، وہیں اشجار کے ساکت بدن پہ خاک ہونا ہے
انہی گجروں میں سجنا ہے
انہیں راہوں میں رلنا ہے
گلدان آباد کرنے ہیں
یہی پھولوں کی قسمت ہے، یہی ان کا مقدر ہے

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

بندر سمجھ کر اپنا ہی بیٹا مار دیا

جنوبی نیپال میں ایک کسان نے غلط فہمی کا شکار ہوکر اپنے ہی بارہ سالہ بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ کسان سمجھا کہ بندر اس کی فصل خراب کررہا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ چترا بہادر نامی بارہ سالہ بچہ درخت پر چڑھ کر ان بندروں کا تعاقب کررہا تھا، جو اس کے گھرانے کے لیے پریشانی کی وجہ بنے ہوئے تھے۔ لیکن اس دوران چترا کے پچپن سالہ والد گپتا بہادر نے بندر سمجھ کر جس پر فائر کیا، وہ اس کا اپنا ہی بیٹا تھا۔ گپتا بہادر کے بقول یہ بندر اس کی فصلیں خراب کرتے تھے اور بطور خوراک انہیں لے کر بھاگ جاتے تھے۔

جنوبی نیپال میں آرگھا کھانچی نامی دور دراز علاقےکے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ چترا بندروں کا تعاقب کرتے ہوئے درختوں میں چھپا ہوا تھا کہ اس کے والد نے اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہوئے کہ وہ بندر کو نشانہ بنا رہا ہے، اپنے ہی بیٹے پر فائر کھول دیا۔ علاقے کی پولیس کے نائب سربراہ ارون پاؤڈل نے بتایا کہ بچہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، ’’بچہ درخت پر ٹہنیوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، جو گولی لگنے کے بعد وہیں ہلاک ہوگیا۔‘‘

ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گپتا بہادر کو علم نہیں تھا کہ اس کا بیٹا بندروں کو بھگانے کے لیے کھیتوں میں گیا ہوا ہے، اس لیے اس سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ گپتا بہادر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے اور وہ بندوق بھی برآمد کر لی گئی ہے، جس سے اس نے فائر کیا تھا۔

نیپال کی سرکاری نیوز ایجنسی نے آج اتوار کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعے کے روز رونما ہوا۔ گپتا بہادر نے بعد ازاں ذرائع ابلاغ کو بتایا، ’’مجھے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب فائر کے بعد میرا اپنا ہی بیٹا درخت سے گر کر شاخوں میں پھنس گیا۔‘‘

بندر سمجھ کر اپنا ہی بیٹا مار دیا

نئی دہلی میں یومیہ 12بچے اغوا ہوتے ہیں

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، اِس وقت پورے بھارت میں 55000 بچے لاپتا ہیں اور محکمہ پولیس اُن کا سراغ لگانے میں ناکام رہا ہے، جب کہ دارالحکومت دہلی میں روزانہ 12 بچے لاپتا ہوتے ہیں، جِن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔

اِس سلسلے میں سپریم کورٹ نے مرکز اور تمام ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اُس نے یہ کارروائی مفادِ عامہ کی ایک عذر داری پر سماعت کے دوران کی، جسے ایک وکیل سرو مِترا نے داخل کیا ہے۔

جسٹس آفتاب عالم کی سربراہی والے بینچ نے اِس بارے میں حکومتوں سے جواب طلب کیا ہے۔ عذر داری میں کہا گیا ہے کہ لاپتا بچے اذیت ناک حالت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اُن کو اغوا کرنے والے گروہ کسی بچے کا ایک ہاتھ کاٹ دیتے ہیں تو کسی کا ایک پیر اور کسی کی آنکھ پھوڑ دیتے ہیں۔ پھر اُنھیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا جاتا ہے یا جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

عذرداری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس محکمہ اغوا کے معاملات کی جانچ کرنے اور لاپتا بچوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ صورت حال اِن معصوم بچوں کو زندہ رہنے کے حق اور آزادی سے محروم کرنے جیسا ہے۔ ایسے بچوں کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے اور اُن کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

ادھر، دہلی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق دارالحکومت دہلی میں ایک سال کے اندر 3171 بچے لاپتا ہوئے ہیں، جن میں 1652 لڑکیاں اور 1519 لڑکے ہیں۔

یہاں یومیہ 12بچے غائب ہوتے ہیں۔ تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کےمقابلے میں امسال گمشدگی کی شرح کم ہوئی ہے، کیونکہ گذشتہ سال 14بچے یومیہ گم ہورہے تھے۔ لیکن، ایک اعلیٰ پولیس افسر کےمطابق بچوں کی گمشدگی کی کوئی ایک خاص وجہ نہیں ہے۔

جِن بچوں کو تلاش کرلیا گیا ہے اُن کی گمشدگی کی وجوہات میں والدین کا غلط سلوک، دوسرے لوگوں کے ذریعے گمراہ کیا جانا، تعلیم کا بوجھ، دماغی خلل یا کسی کے ساتھ بھاگ جانا شامل ہے۔

نئی دہلی میں یومیہ 12بچے اغوا ہوتے ہیں: پولیس ذرائع

بھارت نے انڈر - 19 کرکٹ عالمی کپ چیت لیا

بھارتی کھلاڑی فائنل میچ جیتنے پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں
 بھارت نے 19 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کی کرکٹ کے عالمی کپ مقابلوں کے فائنل میچ میں آسٹریلیا کو شکست دے کر چیمپیئن کا اعزاز تیسری مرتبہ چیت لیا۔

آسٹریلیا کے شہر ٹاؤنس ولے میں کھیلے جانے والے فائنل میں بھارتی ٹیم نے میزبان ملک کو چھ وکٹوں سے شکست دی۔ اس سے قبل 2000ء اور 2008ء میں بھارت نے انڈر - 19 عالمی کرکٹ کپ میں فتح حاصل کی تھی۔

فائنل میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی۔ میزبان ٹیم نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے آٹھ وکٹ کے نقصان پر 225 رنز بنائے تھے۔ بھارتی بلے بازوں نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے چار وکٹوں کے نقصان پر اڑتالیسویں اوور میں یہ ہدف حاصل کرلیا۔

بھارتی ٹیم کے کپتان انمکت چند نے جیت میں اہم کردار ادا کیا انھوں نے 111 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔

انمکت چند کو میچ کا بہترین کھلاڑی ’مین آف دی میچ‘ قرار دیا۔

بھارت نے انڈر - 19 کرکٹ عالمی کپ چیت لیا

اتوار, اگست 26, 2012

میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‫میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں- اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے- انھیں سمجھنے کے لیے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے-

وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسب توفیق یا حسب تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں- اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا، اس میں بھی وہ چو خانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا-

وہ اس طرح سے تھا ’’اس مرتبہ دوحا قطر سے کوئی صاحب آئے تھے انھوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دیے ہیں- میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر ان پیسوں کو 100، 50 کے نوٹوں میں تبدیل کروایا، جنھیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چو خانوں والے کپڑے میں ہیں-
عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے“-

مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں ’’دس دنیا ستر آخرت‘‘

آخر دینے سے کچھ فائدہ ہی ہوتا ہے نا! شاید وہ یہ ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ یہ بات جو لکھی ہوئے ہے واقعی درست ہے یا ایسے ہی چلتی چلی آ رہی ہے-

میں نے دیکھا کہ اس کپڑے میں سے کچھ لوگوں نے روپے لیے، ایک نے پچاس کا نوٹ لیا- ایک اور شخص نے سو کا نوٹ لیا- کچھ ڈالنے والوں نے اپنی طرف سے بھی اس کپڑے میں نوٹ ڈالے-

اگلے دن میں مولوی صاحب سے ملا اور ان سے کہا گزشتہ روز آپ کا عجیب و غریب تجربہ تھا- ہم نے تو آج تک ایسا دیکھا نہ سنا-

تو وہ کہنے لگے کہ جناب جب میں نے آخر میں اس رومال یا کپڑے کو کھول کر دیکھا اور گنا تو پونے چھہ ہزار روپے تھے-

اب یہ بات میرے جیسے ’’پڑھے لکھے آدمی‘‘ کے ذہن میں یا ’’دانش مند‘‘ آدمی کے ذہن میں نہیں آئی-

ایک ان پڑھ کبھی کبھی ایسے ماحول یا تجربے سے گزرتا ہے اور پھر ایک ایسا نتیجہ اخذ کرتا ہے جو مجھ کتاب والے کو بھی نہیں ملا-

(از اشفاق احمد زاویہ 2 ان پڑہ سقراط صفحہ 237)

مہک تیری دل میں بسا کر چلے

مہک تیری دل میں بسا کر چلے
ترا نام لب پر سجا کر چلے

مرے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں
دل و جان سب کچھ لٹا کر چلے

وہ دولت جو بخشی تھی تو نے ہمیں
اسے اپنے دل میں چھپا کر چلے

کیا تھا جو تم سے کبھی قول عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے

وہی ضد ہماری رہی عمر بھر
کبھی سر نہ اپنا جھکا کر چلے

جئے ہم تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے بھی تو گردن کٹا کر چلے

جہالت کے ظلمت کدے میں نصر
چراغِ محبت جلا کر چلے
محمد ذیشان نصر

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے
جو میرے دل میں ہے وہ کسک اُس طرف بھی ہے

کربِ شبانِ ہجر سے ہم بھی ہیں آشنا
آنکھوں میں رت جگوں کی جھلک اُس طرف بھی ہے

ہیں اِس طرف بھی تیز بہت، دل کی دھڑکنیں
بیتاب چوڑیوں کی کھنک اُس طرف بھی ہے

شامِ فراق اشک اِدھر بھی ہیں ضوفشاں
پلکوں پہ جگنوؤں کی دمک اُس طرف بھی ہے

سامان سب ہے اپنے تڑپنے کے واسطے
ہے زخمِ دل ادھر تو نمک اس طرف بھی ہے

باقی ہم اہلِ دل سے یہ دنیا بھی خوش نہیں
جائیں کہاں کہ سر پہ فلک اس طرف بھی ہے

تو رُل گیا تے تاں کی ہویا

ہیرے سستے تُلدے ویکھے
لال تکڑی وِچ تُلدے ویکھے

پُھل پَیراں وِچ رُلدے ویکھے
سیانے گَلّاں تو پُلدے ویکھے

کوئی کسے نال پیار نئی کردا
دل دنیا وچ کُھلدے ویکھے

رنگ برنگی دنیا ویکھی
کئی کئی رنگ اِک پُھل دے ویکھے

بس کر دِلا چھڈ دے کھیڑا
چھڈ دے رام کہانی ساری

تو رُل گیا تے تاں کی ہویا
شاہ وی گلیاں وچ رُلدے ویکھے

شاور سے غسل، صحت کے لیے نقصان دہ

امریکی سائنسدانوں کے مطابق شاور کے ذریعے نہانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ شاور کے گندے سرے سے خطرناک بکٹیریا خارج ہوسکتا ہے۔

ایک تحقیق کے دوران ٹیسٹ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک تہائی شاورز کے سرے بکٹیریا کا ٹھکانہ ہوتے ہیں جو انسانی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق گھروں میں پانی سپلائی کرنے والی پائپ لائنوں کے برعکس شاور کے سروں میں مائکو بکٹیریا کی مقدار سو فیصد زیادہ ہوتی ہے۔

نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق شاور کے سرے میں ایم ۔ اے وئیم نامی بکٹیریا ایک بائیو فلم یا تہہ بناتے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق تحقیق سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے ان میں زیادہ تر زیادہ تر وہ شامل تھے جو شاور کے ذریعے غسل کو ترجیح دیتے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق شاور کے سرے سے خارج ہونے والے پانی میں بکٹیریا شامل ہوجاتا ہے جو بعد میں پانی کے بخارات میں تبدیل ہوکر سانس کے ذریعے آسانی کے ساتھ پھیپڑوں کے تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر نومین پیس کے مطابق شاور کھولنے کے بعد آپ کے چہرے پر گرنے والے پانی میں مائکو بکٹیریا کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اگرچہ بہت صحت مند لوگوں کو شاور سے نہانے سے زیادہ خطرہ نہیں ہوسکتا لیکن وہ افراد جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے ان کی صحت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ان میں بڑی عمر کے افراد اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔

شاور کے ذریعے خارج ہونے والے بکٹیریا سے پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے تھکاوٹ، خشک کھانسی، سانس کی بیماری کی وجہ سے کمزوری اور روزمرہ زندگی میں صحت مند محسوس نہ کرنے جیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

تحقیق کے دوران امریکہ کے سات شہروں میں پچاس کے قریب شاورز کا معائنہ کیا گیا اور ان میں سے تیس فیصد کو خطرہ قرار دیا ہے۔ پروفیسر نومین پیس کے مطابق پلاسٹک کے شاورز میں بکٹیریا سے بھری بائیو فلمز زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کے برعکس دھات کے بنے ہوئے شاور ایک بہتر متبادل ہوسکتے ہیں۔

ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق گرم پانی کے ٹب اور پولز بھی سے اسی قسم کی بیمایاں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

تم نے بارشوں کو محض برستے دیکھا ہے

تم نے بارشوں کو محض برستے دیکھا ہے
میں نے اکثر بارشوں کو کچھ کہتے دیکھا ہے

تم دیکھتے ہو بارشوں کی جل تھل ہر سال
میں نے برسات کو بارہا پلکوں پے مچلتے دیکھا ہے

کیسے مانگوں پھر برستا ساون اپنے رب سے
کہ ان آنکھوں نے دلوں کو ساون میں‌ اجڑتے دیکھا ہے

سیکھ گئے ہم بارشوں کو اپنے اندر اتارنے کا فن
اور پھر سب نے ہمیں ہر پل ہر دم ہنستے دیکھا ہے

محبت روگ ہے جاناں

محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں
بڑے بوڑھے بتاتے تھے
کئی قصے سناتے تھے
مگر ہم مانتے کب تھے
یہ سب کچھ جانتے کب تھے
بہت پختہ ارادے کس طرح ٹوٹ جاتے ہیں
ہمیں ادراک ہی کب تھا
ہمیں کامل بھروسہ تھا
ہمارے ساتھ کسی صورت بھی ایسا ہو نہیں سکتا
یہ دل کبھی قابو سے بے قابو ہو نہیں سکتا
مگر
پھر یوں ہوا جاناں
نہ جانے کیوں ہوا جاناں
جگر کا خوں ہوا جاناں
ترے ابرو کی اک جنبش پر
ترے قدموں کی آہٹ پر
گلابی مسکراہٹ پر
ترے سر کے اشارے پر
صدائے دلربانہ پر
چہرۂ مصومانہ پر
نگاۂ قاتلانہ پر
ادائے کافرانہ پر
گھائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بے باک پھرتے تھے
مائل ہوگئے ہم بھی
سخاوت کرنے آئے تھے
اور
سائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بوڑھوں کے ان باتوں کے
قائل ہوگئے ہم بھی
کہ
محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں...!!

کہاں شفٹ ہوں۔۔۔۔۔۔۔ امریکہ یا کینیڈا


چاند پر پہلا قدم، پھر مکمل خامشی

چاند پر پہلا قدم رکھنے والے خلا باز نیل آرمسٹرانگ لاکھوں لوگوں کے ہیرو ہیں لیکن انہوں نے شہرت ترک کرتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ آخر ایسا کیوں ہوا، آرمسٹرانگ ہیرو سے ایک پہیلی کیوں بن گئے؟ مصنف اینڈریو سمتھ جنہوں نے چاند پر جانے والے خلابازوں کی زندگی پر کتاب لکھی یہی جاننے کے لیے طویل سفر طے کرکے آرمسٹرانگ کے قریبی لوگوں سے ملاقات کے لیے گئے۔

آرمسٹرانگ نے اپنے دیگر رفقاء کے بر عکس اپنی شہرت سے فائدہ اٹھانے سے انکار کردیا بلکہ انہوں نے بظاہر اس کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

اینڈریو سمتھ کا خیال ہے کہ اٹھہتر سالہ آرمسٹرانگ کے خیال میں وہ شہرت اور توجہ کے حقدار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چاند پر انسان کو اتارنے کے مِشن پر چار لاکھ لوگوں نے مختلف حیثیتوں میں کام کیا اور صرف خلا میں جانے کی وجہ سے ان کا زیادہ حق نہیں بنتا۔

چاند پر اترنے کے بعد آرمسٹرانگ راتوں رات مشہور ہوگئے تھے۔ ان کا مشن چاند پر ایسے دور میں گیا جب دنیا خلابازی کے سحر میں گرفتار تھی۔ چاند پر انسان کے اترنے کا منظر دنیا بھر لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا۔ خلابازوں کو واپسی پر ناسا نے عالمی دورے پر بھیج دیا۔

آرمسٹرانگ اس دورے میں شامل ہوتے ہوئے بھی تقریبات سے الگ تھلگ نظر آئے۔ انہوں نے ہر جگہ اپنے جذبات کی بجائے حقائق بیان کیے۔ انہوں نے تقریر کرنے سے اور انٹرویو دینے سے انکار کردیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے آٹوگراف دینا اور غیرنجی محافل میں تصویر کھنچوانا بھی بند کردیا۔

اینڈریو سمتھ کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق گزشتہ چالیس سالوں میں نیل آرمسٹرانگ نے صرف دو انٹرویو دیے ہیں اور انہوں نے کبھی اپنے جذبات بیان نہیں کیے۔ ’وہ صرف حقائق بتاتے ہیں اور بس۔‘

سمتھ نے کہا کہ آرمسٹرونگ اپنی شہرت سے مالی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے حالانکہ چاند پر جانے والے دوسرے خلابازوں نے ایسا کیا۔ سمتھ نے کہا کہ نیلامیاں کروانے والی ایک کمپنی نے بتایا کہ آرمسٹرانگ کو صرف ایک شام آٹوگراف دینے کے دس لاکھ ڈالر مل سکتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔

آرمسٹرانگ نے چاند کے سفر کے دو سال کے بعد اگست انہیس سو اکہتر میں سنسناٹی یونیورسٹی میں ایرو سپیس انجنیئرنگ کا مضمون پڑھانا شروع کردیا۔ لیکن اگر وہ سمجھتے تھے کہ اس کام میں وہ دنیا کی پہنچ سے بچ جائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ یونیورسٹی میں ان کے ایک سینیئر نے بتایا کہ آرمسٹرانگ پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہر روز دو گھنٹے دیگر اساتذہ کی طرف سے دی گئی کاپیوں پر آٹوگرف دیتے ہوئے گزارتے تھے۔

لوگ ان کے دفتر کی کھڑکی کے باہر ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوکر اپنے آپ کو اونچا کرتے اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش پوری کرتے۔ وہ یونیورسٹی کے کیمپس میں آزادانہ گھومنے پھرنے سے قاصر ہوگئے تھے۔ تنہائی کی تلاش میں انہوں نے اپنا بہت سا وقت اکیلے جہاز اڑاتے گزارنا شروع کردیا۔

آرمسٹرانگ کا یہ رویہ ان کے ساتھی خلابازوں سے مختلف تھا جو ان کے ساتھ چاند پر گئے تھے۔ بز آلڈرن مسلسل ذرائع ابلاغ پر رہتے اور مختلف پروگراموں میں حصہ لیتے۔ انسان کے چاند پر اترنے کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر ریپ فنکار سنوپ ڈاگ اور پروڈیوسر کوئنسی جونز کے ساتھ مل کر ’راکٹ ایکسپیریئنس‘ کے عنوان سے ایک وڈیو بنوا رہے ہیں۔

چاند پر پہلا قدم، پھر مکمل خامشی

معروف امریکی خلا باز نیل آرم سٹرونگ انتقال کر گئے

چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان امریکی خلا باز نیل آرم سٹرونگ بیاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ اسی ماہ کے آغاز میں ان کا دل کا آپریشن ہوا تھا۔

جولائی انیس سو انہتر میں اپولو مشن کے کمانڈر نے چاند پر قدم رکھتے ہوئے یہ یاد گار الفاظ کہے تھے ’ایک شخص کے لیے ایک چھوٹا سا قدم، پوری انسیانیت کے لیے ایک بڑی چھلانگ۔‘

گزشتہ سال نومبر میں انہیں تین اور خلابازوں سمیت امریکہ کا اعلیٰ ترین سولین ایوارڈ کانگریشنل طلائی تمغہ دیا گیا تھا۔

وہ اپولو گیارہ خلائی جہاز کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے ساتھی خلا باز ایڈون آلڈرن کے ساتھ تقریباً تین گھنٹے چاند کی سطح پر گزارے۔

باز نیل آرم سٹرونگ
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق آرمسٹرونگ کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی وفات دل کے آپریشن کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگی کی وجہ سے ہوئی۔

نیل آرمسٹرونگ نے پہلی بار پرواز اپنے والد کے ساتھ چھ سال کی عمر میں کی اور یہ ان کا عمر بھر کا شوق بن گیا۔

پچاس کی دہائی میں انہوں نے کوریائی جنگ میں امریکی بحریہ کے پائلٹ کے طور پر شرکت کی۔ انیس سو باسٹھ میں وہ امریکی خلائی پروگرام میں شامل ہوگئے۔

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آرمسٹرونگ کا رویہ ہمیشہ عاجزانہ تھا اور وہ خلائی پروگرام کی چمک دمک کا حصہ نہیں بنے۔

آرمسٹرونگ کم ہی منظرِ عام پر آتے تھے۔ فروری دو ہزار میں انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سفید جرابوں اور جیب میں بہت سے قلم رکھنے والا ’پڑھاکو سا، انجینیئر رہوں گا‘۔

معروف امریکی خلا باز نیل آرم سٹرونگ انتقال کر گئے

ہفتہ, اگست 25, 2012

استغفار کی فضیلت

استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ

میرے رب! میں اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہوں اور تیری جانب پلٹتا (توبہ کرتا) ہوں

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک سبق آموز واقعہ

ایک بار امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سفرمیں تھے، ایک قصبے میں رات ہوگئی تو نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا۔ اُن کی عاجزی و انکساری نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کو اپنا تعارف کروا کر خوب آؤ بھگت کروائی جائے۔ مسجد کے خادم نے امام کو نہ پہچانا اور اُن کو مسجد سے باہر نکلنے کا کہا، امام نے سوچا کہ مسجد کے دروازے پر سو جاتا ہوں، لیکن خادم نے وہاں سے بھی کھینچ کر نکالنا چاہا۔

یہ تمام منظر ایک نانبائی نے دیکھ لیا جو مسجد کے قریب ہی تھا، اُس نانبائی نے امام کو اپنے گھر رات ٹھہرنے کی پیشکش کردی جبکہ وہ امام کو جانتا بھی نہیں تھا۔ امام جب اُس کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ نانبائی کام کے دوران بھی کثرت سے استغفار (استغفر اللہ) کررہا ہے۔
امام نے استفسار کیا: کیا تمہیں اس قدر استغفار کرنے کا پھل ملا ہے؟
نانبائی نے جواب دیا: میں نے جو بھی مانگا اللہ مالکُ المُلک نے عطا کیا۔۔۔۔ ہاں ایک دعا ہے جو ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔
امام نے پوچھا: وہ کونسی دعا ہے؟
نانبائی بولا: میرے دل میں کچھ دنوں سے یہ خواہش مچل رہی ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملنے کا شرف حاصل کروں۔
امام فرمانے لگے: میں ہی احمد بن حنبل ہوں۔ اللہ نے نا صرف تمہاری دُعا سُنی بلکہ مجھے تمہارے دروازے تک کھینچ لایا۔
(الجمعہ میگزین، والیم 19، جلد 7)

ایک اور حکایت:
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی۔
فرمایا: استغفار کرو،
دوسرے نے تنگدستی کی شکایت کی،
فرمایا: استغفار کرو،
تیسرے آدمی نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی،
فرمایا: استغفار کرو،
چوتھے نے شکایت کی کہ پیداوارِ زمین میں کمی ہے،
فرمایا: استغفار کرو،
پوچھا گیا کہ آپ نے ہر شکایت کا ایک ہی علاج کیسے تجویز فرمایا؟
تو انہوں یہ آیت تلاوت فرمائی:
”استغفرو ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً ویمدد کم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انہارا۔“ (سورۃ نوح: 10-11-12)
ترجمہ:۔ ”استغفار کرو اپنے رب سے بے شک وہ ہے، بخشنے والا، وہ کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغات بنا دے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرما دے گا۔“

واضح ہے کہ استغفار پر اللہ تعالٰی نے جن جن انعامات کا اس آیت میں اعلان فرمایا ہے تو ان چاروں کو انہی کی حاجات درپیش تھیں، لہذا حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے سب کو استغفار ہی کی تلقین فرمائی۔

”استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم و اتوب الیہ“

پانی کا عالمی ہفتہ

26 اگست سے پانی کا عالمی ہفتہ منایا جارہا ہے۔ اس کا مقصد دنیا کی توجہ پانی سے منسلک مسائل اور اس کے تحفظ پر مبذول کرانا ہے۔ اس ہفتے کا موضوع ہے پانی اور خوراک کی سیکیورٹی۔

دنیا بھر میں پانی کے بڑھتے ہوئے مسائل اور ان کے حل کی تجاویز پر گفتگو کے لیے اس سالانہ اجلاس میں دنیا بھر سے تقریباً 25 سو ماہرین، سائنس دان، سرکاری عہدے دار اور قانون ساز سٹاک ہوم میں جمع ہورہے ہیں۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 2030 تک عالمی سطح پر پانی کی طلب اس کی فراہمی کے مقابلے میں 40 فی صد بڑھ جائے گی۔

سٹاک ہوم میں قائم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر برگرن کہتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ حقیقتاً ہر شخص کی ضرورت کے لیے پانی موجود ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر پانی ضائع کردیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم پانی کو بڑے پیمانے پر ضائع کرنے کی بری عادت میں مبتلا ہیں۔ ہم خوراک پیدا کرنے کے عمل میں بہت سا پانی ضائع کرتے ہیں۔ اور دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی لگ بھگ 50 صد خوراک صارفین تک ہی نہیں پہنچ پاتی۔ وہ یا تو کھیت میں ہی گل سڑ جاتی ہے یا پھر صارفین تک پہنچنے کے عمل میں ضائع ہوجاتی ہے۔

پانی کا عالمی ہفتہ