میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں- اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے- انھیں سمجھنے کے لیے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے-
وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسب توفیق یا حسب تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں- اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا، اس میں بھی وہ چو خانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا-
وہ اس طرح سے تھا ’’اس مرتبہ دوحا قطر سے کوئی صاحب آئے تھے انھوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دیے ہیں- میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر ان پیسوں کو 100، 50 کے نوٹوں میں تبدیل کروایا، جنھیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چو خانوں والے کپڑے میں ہیں-
عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے“-
وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسب توفیق یا حسب تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں- اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا، اس میں بھی وہ چو خانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا-
وہ اس طرح سے تھا ’’اس مرتبہ دوحا قطر سے کوئی صاحب آئے تھے انھوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دیے ہیں- میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر ان پیسوں کو 100، 50 کے نوٹوں میں تبدیل کروایا، جنھیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چو خانوں والے کپڑے میں ہیں-
عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے“-
مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں ’’دس دنیا ستر آخرت‘‘
آخر دینے سے کچھ فائدہ ہی ہوتا ہے نا! شاید وہ یہ ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ یہ بات جو لکھی ہوئے ہے واقعی درست ہے یا ایسے ہی چلتی چلی آ رہی ہے-
میں نے دیکھا کہ اس کپڑے میں سے کچھ لوگوں نے روپے لیے، ایک نے پچاس کا نوٹ لیا- ایک اور شخص نے سو کا نوٹ لیا- کچھ ڈالنے والوں نے اپنی طرف سے بھی اس کپڑے میں نوٹ ڈالے-
اگلے دن میں مولوی صاحب سے ملا اور ان سے کہا گزشتہ روز آپ کا عجیب و غریب تجربہ تھا- ہم نے تو آج تک ایسا دیکھا نہ سنا-
تو وہ کہنے لگے کہ جناب جب میں نے آخر میں اس رومال یا کپڑے کو کھول کر دیکھا اور گنا تو پونے چھہ ہزار روپے تھے-
اب یہ بات میرے جیسے ’’پڑھے لکھے آدمی‘‘ کے ذہن میں یا ’’دانش مند‘‘ آدمی کے ذہن میں نہیں آئی-
ایک ان پڑھ کبھی کبھی ایسے ماحول یا تجربے سے گزرتا ہے اور پھر ایک ایسا نتیجہ اخذ کرتا ہے جو مجھ کتاب والے کو بھی نہیں ملا-
(از اشفاق احمد زاویہ 2 ان پڑہ سقراط صفحہ 237)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔