سائنس لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سائنس لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر, نومبر 19, 2012

پاکستان میں بمبار ڈرون کی تیاری

جمعہ پندرہ نومبر کو لی گئی تصویر میں اسلحے کی بین الاقوامی نمائش (آئیڈیاز) میں
پائلٹ کے بغیر اڑنے والے پاکستانی جاسوس طیارے۔ اے پی تصویر
کراچی: پاکستان خفیہ انداز میں مقامی سطح پر ایسے خودکار ڈرونز بنانے کی کوشش کررہا ہے جو بمباری بھی کرسکیں۔ اس صنعت سے وابستہ ماہرین کے مطابق، پاکستان نے ابتدائی طور پر چند تجربات کئے ہیں لیکن ان میں نشانے میں درستگی کی کمی کے ساتھ ساتھ ہدف کو تباہ کرنے کی ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے۔

اسلام آباد کے دیرینہ اور قریب ترین دوست ملک چین نے پاکستان کو ہتھیاروں والے ڈرونز فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن ماہرین اب بھی چینی طیاروں کی صلاحیت کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہیں۔ پاکستان امریکہ سے بھی خودکار بمبار ڈرون کی فراہمی کا مطالبہ کرتا رہا تاکہ انہیں عسکریت پسندوں پر بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکے۔ واشنگٹن نے معاملے کی حساسیت اور دشمنوں کے خلاف ان کے استعمال پر شبہات کی بنیاد پر یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ امریکہ پاکستان کو غیر جاسوسی اور نگرانی کیلئے بغیر اسلحے والے ڈرون کی پیشکش کرچکا ہے لیکن پاکستان پہلے ہی ایسے کئی ڈرونز استعمال کررہا ہے۔

گزشتہ ہفتے کراچی میں اسلحے اور دفاعی ٹیکنالوجی کی ایک بین الاقوامی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے امریکی ضد کے جواب میں چین سے مدد لینے کا اشاریہ دیا تھا۔ ’ٹیکنالوجی کے ضمن میں غیر اعلانیہ رکاوٹ ختم کرنے کے لئے پاکستان چین سے بھی استفادہ کرسکتا ہے‘، راجہ پرویز اشرف نے کہا تھا۔

پاکستان خود اپنے بل پر بھی بغیر پائلٹ کے لڑاکا طیارے بنانے کی کوششیں کررہا ہے۔ ایک پاکستانی عسکری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر بتایا کہ اس مقامی ڈرون صنعت میں سویلین افراد بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

ایک سویلین جسے اس خفیہ منصوبے کا علم ہے نے بتایا کہ اب سے سات یا آٹھ ماہ قبل پاکستان نے اپنے ملک میں استعمال ہونے والے اٹلی کے ڈرون، فالکو میں راکٹ لے جانے کے لئے چند تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے بتایا کہ عسکری حکام ملک میں تیار شدہ تازہ ترین ڈرون، شہپر کے ساتھ بھی اسی قسم کے تجربات میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ شہپر کا غیر بمبار لڑاکا ورژن پہلی مرتبہ کراچی میں آئیڈیاز نمائش میں رکھا گیا تھا۔ اسی سویلین ماہر نے بتایا کہ چند طیاروں پر ہی اسلحے کی آزمائش کی گئی ہے اور لڑائی میں کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے۔

درستگی میں کمی
پاکستان کے پاس ہیل فائر جیسے لیزر گائیڈڈ میزائل بھی نہیں ہیں جو امریکی پریڈیٹر اور ریپر جیسے جدید ترین ڈرونز میں ایڈوانس ٹارگٹ سسٹم کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستانی افواج گائیڈ کے بغیر راکٹ استعمال کررہی ہے جن کا نشانہ بہت اچھا نہیں۔ پاکستانی میزائلوں میں غلطی کی گنجائش تیس میٹر تک ہے اور اگر ہوا ذیادہ تیز چل رہی ہو تو یہ ٹارگٹ سے تین سو میٹر دور بھی گرسکتے ہیں۔ سویلین ماہر نے بتایا۔ اور اگرپاکستان کو جدید ہیل فائر میزائل اور گائیڈنس سسٹم مل بھی جائے تب بھی ان کا وزن پاکستان میں تیار ہونے والے چھوٹے ڈرون کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ پاکستان میں تیارشدہ سب سے بڑے ڈرون، شہپر کے بازووں کا گھیر سات میٹر ہے جو پچاس کلوگرام وزن لے جاسکتا ہے۔ جبکہ امریکی ڈرون پریڈیٹر جو ایک وقت میں دو ہیل فائر میزائل لے جاسکتا ہے اس کے پروں کا گھیر اس سے دوگنا ہے اور وہ اس سے چار گنا ذیادہ وزن کے ہتھیار لے جاسکتا ہے۔ پھر شہپر ریڈیو نشریات پر کام کرتا ہے جبکہ پریڈیٹر عسکری سیٹلائٹ سے مدد لیتے ہیں۔ شہپر صرف ڈھائی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتا ہے جبکہ پریڈیٹر ڈرون اس سے پانچ گنا ذیادہ فاصلے تک جا سکتا ہے۔

چین کے ڈرونز
چینی حکومت نے پاکستان کو سی ایچ تھری نامی لڑاکا ڈرون کی پیشکش کی ہے جو ایک وقت میں دو لیزر گائیڈڈ میزائل یا بم کو اپنے ہدف تک لے جاسکتا ہے۔ چین نے پاکستان کو اپنے قدرے جدید سی ایچ فور ڈرون کی بھی پیشکش کی ہے جو امریکی ڈرون ریپر سے ملتا جلتا ہے اور ایک وقت میں چار میزائل یا بم لے جاسکتا ہے۔ یہ بات لائی زیاولی نے بتائی جو سی ایچ تھری اور فور بنانے والی سرکاری کپمنی ایئروسپیس لانگ مارچ انٹرنیشنل کے نمائندے ہیں۔ پاکستان کو چینی ڈرون کی خریداری سے قبل ان کی صلاحیتوں کے بارے میں جانچ کرنے کی ضرورت ہے لیکن شاید مستقبل میں یہ ممکن ہوسکے۔

دنیا میں برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل جیسے چند ممالک ہی ہیں جن کے بمبار ڈرون جنگوں میں کامبیابی سے آزمائے گئے ہیں۔

پیر, نومبر 12, 2012

جذبات سے عمل تک

”دنیا کو کہو سلام!“ یہ وہ افتتاحیہ ہے جسے روس اور سی آئی ایس میں مسلمانوں کے سوشل نیٹ ورک ”سلام ورلڈ“ کی قیادت نے ایک مقابلے میں منتخب کیا ہے۔

اس افتتاحیہ نعرے کے خالق کزاخستان کے عبد راسل ابیلدینوو ہیں۔ ری پبلک کازان کے الشاط سعیتوو کو اس مقابلے میں دوسرا مقام حاصل ہوا ہے۔ ان کا لکھا نعرہ تھا، ”عقیدے میں یگانگت، انٹر نیٹ پہ یگانگت!“۔

”سلام ورلڈ“ کے صدر عبدالواحد نیازوو نے ریڈیو ”صدائے روس“ کی نامہ نگارہ کو بتایا۔، ”میں نعرہ منتخب کرنے والی کمیٹی میں شریک رہا۔ یہ مقابلہ تین ماہ تک جاری رہا۔ انگریزی میں لکھا نعرہ ”سے سلام ٹو دی ورلڈ“ کو چنا گیا ہے۔ یہ نعرہ مجھے اچھا لگا ویسے ہی جیسے دوسرے اور تیسرے مقام پر آنے والے نعرے اچھے لگے۔ ایسے بہت سے اور بھی اچھے نعرے تھے، جنہیں تخلیق کرنے والوں نے ہمارے نیٹ ورک کے نظریے اور مقصد کو سمجھا ہے“۔

اس مقابلے میں روس کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کی جانب سے بھیجے گئے دوہزار سے زیادہ نعروں پر غور کیا گیا، عبدالواحد نیازوو بتا رہے ہیں، ”30 % نعرے روس کے جنوب کی شمالی قفقاز کی ریپلکوں انگوشیتیا، چیچنیا اور داغستان کے مسلمانوں کی جانب سے وصول ہوئے تھے۔ ان ریاستوں کے مسلمانوں نے بہت زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کیا لیکن جیت کازان اور الماآتا کے حصے میں آئی۔ ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ روس اور آزاد برادری کے دیگر ملکوں کے نوجوان لوگ ان سرگرمیوں میں شریک ہوں جو ہمارے اس منصوبے کے توسط سے رونما ہونگی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے ہمارا منصوبہ بحیثیت مجموعی متاثر ہوگا“۔

یاد دلادیں کے ماہ رمضان کے ایام میں ”سلام ورلڈ“ کا آزمائشی مرحلہ شروع کیا گیا تھا۔

اس وقت مذکورہ نیٹ ورک کے استنبول میں واقع صدر دفتر میں تیرہ ملکوں کے نمائندے مصروف کار ہیں جو اس نیٹ ورک کو پوری استعداد کے ساتھ شروع کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عبدالواحد نیازوو نے بتایا ہے کہ اس نیٹ ورک کو اگلے برس کے ماہ اپریل میں روس کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔

فی الحال دنیا بھر میں مقابلہ کرنے کی خاطر سلام ورلڈ نے اشتہار ”جذبات سے عمل تک“ کے نام سے بہترین بل بورڈ تیار کرنے کے بین الاقوامی مقابلے کا اعلان کیا ہے۔ نیازوو کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں مسلسل اسلام مخالف اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے، جیسے کہ خاص طور پر غم و غصہ کی لہر دوڑا دینے والی فلم ”مسلمانوں کی معصومیت“۔ عبدالواحد نیازوو کہتے ہیں: ”جی ہاں، مسلمانوں نے اپنے غیض کا درست اظہار کیا لیکن ہوا کیا؟ بس مسلمانوں نے امریکی جھنڈا نذر آتش کردیا یا اسے پاؤں تلے روند ڈالا، یا پھر مغربی ملکوں کے سفارتخانوں پہ پتھر برسائے۔ آج زیادہ سے زیادہ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ گوگل اور یو ٹیوب پہ مغرب والے دہرے معیارات کا استعمال کرکے ان کی جتنی بھی دل آزاری کرتے رہیں، جب تک مسلمانوں کا اپنا اطلاعاتی انفراسٹرکچر بشمول انٹرنیٹ سرور کے نہیں ہوگا، ہم اسی طرح ذلت اور ندامت کا نشانہ بنائے جاتے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ مہینوں میں ہمارے منصوبے میں لوگوں کی دلچسپی کئی گنا بڑھی ہے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کے بین الاقوامی مقابلے کے شرکاء کو چاہیے کہ وہ بہترین ڈیزائن اور بہترین نعرہ تیار کرکے بھجوائیں۔ اہم یہ ہونا چاہیے کہ اس میں اس نظریے کا اظہار ہو کہ موجودہ عہد میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور آزادی اظہار کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جیتنے والے کے تیار کردہ بل بورڈ کے ڈیزائن اور نعرے کو دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں نمایاں طور پر لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ عبدالواحد نیازوو نے مزید کہا، ”روس سے پہلا نعرہ اور تین ڈیزائن وصول ہو چکے ہیں۔ نعرہ یوں ہے، ”ہمیں حضرت عیسیٰ بھی پیارے ہیں اور محمد بھی“۔ سادہ سی بات ہے لیکن اس میں بہت بڑی سوچ مضمر ہے۔ ہمارے مقابلے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اور سب سے پہلے غیر مسلموں پہ واضح کیا جائے کہ یاد رکھو ہمارے مذہب کا سارا حسن اس میں ہے کہ کسی بھی انسان کے مذہبی جذبات اور کسی بھی مذہب کے عقائد کی تعظیم کی جانی چاہیے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کا بل بورڈ تیار کیے جانے کا بین الاقوامی مقابلہ اسلامی تنظیم تعاون کی اعانت سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی بھی شخس حصہ لے سکتا ہے۔

جذبات سے عمل تک

ہفتہ, نومبر 10, 2012

ڈرائیورکی نیند ختم کرنے والی ڈیوائس

چلتی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اگر آپ کی آنکھ لگ جائے اور ایسے میں گردن دائیں بائیں لڑھکنے لگے تو یہ کسی حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہے لیکن اب ایک ایسا آلہ بنا یا گیا ہے جو ڈرائیور کو سونے نہیں دے گا۔

سفر کے دوران نیند بہت خطرناک ہو سکتی ہے، کسی بھی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لئے امریکی سائنس دانوں نے ایک ایسی انوکھی ڈیوائس تیار کی ہے جس کی مدد سے دورانِ سفر اگر آپ کو نیند آئے تو یہ ڈیواس آپ کو ایک تیز سگنل بھیجے گی جس سے آپ کی نیند ختم ہو جائے گی۔ بس جب بھی آپ کو نیند آنے لگے تو اسے آن کر لیں اور بے فکر ہو جائیں۔ اس کا وزن بھی بہت ہلکا ہے یعنی صرف 16 گرام اور اسے استعمال کرنا بھی بہت آسان ہے۔ اس ڈیوائس کو پہننے والا شخص اپنے آپ کو انتہائی آرام دہ محسوس کرتا ہے۔

ہفتہ, نومبر 03, 2012

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

ڈاکٹر صفدر محمود
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
 
خیال آیا کہ عید ابھی کل ہی گزری ہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود لوگ تین دن تک عید مناتے رہے ہیں اس لئے عید کے تناظر میں کوئی ہنستی مسکراتی تحریر لکھنی چاہئے۔ دل نے کہا جہاں ہر روز نا اہلی، کرپشن اور بے حسی کے زخم کھلتے ہوں وہاں ہنستے مسکراتے الفاظ تخلیق کرنا نہایت کٹھن کام ہوتا ہے۔ زخم کھا کر مسکرانا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ ہم تو کرپشن اور نا اہلی کا ماتم کرتے رہیں گے اور بے حسی پر آنسو بہاتے رہیں گے کوئی ہماری فریاد سنے یا نہ سنے، سچی بات یہ ہے کہ ہم مسکرانا بھی چاہیں تو ایسی خبریں مسکرانے نہیں دیتیں۔
عید کے دن کے اخبارات میرے سامنے رکھے تھے اور میں دو خبریں پڑھ کر اداسی کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ ہاں یاد رکھیئے کہ یہ دو خبریں تو دیگ کے محض دو دانے ہیں ورنہ کوئی دن نہیں گزرتا کہ اربوں کی کرپشن اور نا اہلی کی داستانیں پڑھنے اور سننے کو نہ ملتی ہوں۔ کرپشن کے پہاڑوں کے سامنے یہ خبر تو محض رائی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اسے پڑھ کر مغموم ہو گیا اور حکومتی نا اہلی کا دل ہی دل میں ماتم کرنے لگا۔ پھر سوچنے لگا کہ جہاں قومی وسائل کو اس بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہو، وہاں معاشی امراض کا علاج ناممکن ہے۔ اصل مسئلہ وسائل کی قلت نہیں بلکہ وسائل کا زیاں ہے۔ میں آپ سے کوئی خفیہ بات شیئر نہیں کر رہا، چھپی ہوئی خبروں کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔
ہماری نوجوان نسل کو علم نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کو بدحالی کا شکار ہی دیکھا ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دہائی دو دہائیاں قبل ہمارا ریلوے کا نظام ہر لحاظ سے نہایت معیاری ہوا کرتا تھا۔ دولت مند طبقے تو ہوائی سفر اور ذاتی کاروں کی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے تھے لیکن عوام کے لئے ریلوے کا سفر آرام دہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اسے ہماری نااہلی اور بدنیتی کی نظر لگ گئی جبکہ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک اپنے ریلوے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ موجودہ ریلوے کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص ریلوے کے ہاتھوں پریشان ہے۔ چنانچہ حکومت نے چین سے 75 ڈیزل انجن درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے منصوبوں کی مانند کرپشن کی نذر ہو گیا۔ مجھے اس ناکامی میں کرپشن سے زیادہ نا اہلی کا پہلو نظر آتا ہے۔ ہماری حکومت نے 2009 میں چین کی حکومت سے 75 انجن خریدنے کا معاہدہ کیا اور اس مقصد کے لئے ایک چینی بینک سے ایک سو ملین یعنی دس کروڑ ڈالر کا قرضہ منظور کروایا۔ معاہدے کے مطابق حکومت پاکستان نے پندرہ ملین ڈالر بینک میں جمع کروا دیئے۔ رینٹل پاور ہاﺅسز کی مانند یہاں بھی کرشن ہوئی۔ اصولی طور پر انجنوں کی خریداری کے لئے عالمی سطح پر ٹینڈر ہونے چاہئیں تھے لیکن یہاں قانونی تقاضوں سے انحراف کیا گیا۔ بدعنوانی کے سبب خریداری نہ ہو سکی اور پاکستان قرضہ استعمال نہ کر سکا۔ معاہدے کے مطابق قرضہ استعمال نہ کرنے کی پاداش میں چینی بینک گزشتہ دو سال سے ہر روز پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ کرتا رہا ہے۔ اس طرح وہ پندرہ ملین ڈالر جو پاکستان نے جمع کروائے تھے وہ جرمانے کی مد میں ادا ہو گئے ہیں اور انجن بھی نہ منگوائے جا سکے۔ تین سال تک انجن نہ منگوانے پر حکومت چین بھی ناخوش ہے اور چینی بینک بھی ناراض۔ اب اگر عالمی سطح پر ٹینڈر دیئے جاتے ہیں تو حکومت چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور جو انجن 2009 میں چودہ لاکھ ڈالر کا مل رہا تھا اب کم سے کم 20 لاکھ ڈالر میں ملے گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ مقصد کرپشن اور نااہلی کی دیگ میں سے فقط نمونے کا ایک دانہ دکھانا تھا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس طرح کے حالات میں انسان کس طرح خوش رہ سکتا ہے اور کیونکر مسکرا سکتا ہے۔
دوسری خبر ہماری قومی بے حسی، ناشکری اور سرد مہری کی داستان تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک موثر اور متحرک ادارہ ہے جس کا دائرہ کار عالمی سطح پر تعلیم، ثقافت اور سائنس کے شعبوں پر محیط ہے۔ کوئی 193 ممالک اس کے رکن ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا تین سال منتخب رکن رہا ہوں اور یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا منتخب وائس چیئرمین رہا ہوں۔ درجن بھر اراکین پر مشتمل ایگزیکٹو بو رڈ یونیسکو کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی نگرانی کرتا ہے، منصوبوں اور حکمت عملی کی منظوری دیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں 1998 کے دوران یونیسکو کی ایک میٹنگ کے سلسلے میں پیرس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک روز دعوت نامہ ملا آج شام ہال میں ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دینے والے ماہرین کو انعامات دیئے جائیں گے۔ میں اس تقریب میں اس تاثر کے ساتھ شریک ہوا کہ 193 ممالک میں پاکستان کہاں کسی انعام کا حق دار ٹھہرے گا جبکہ ان ممالک میں فرانس برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، چین جیسے ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے حد خوشی بھی جب ایک پاکستانی سائنس دان کو انعام لینے کے لئے پکارا گیا۔ وہ انعام لے کر لوٹا تو میں نے اسے سینے سے لگا لیا، مبارک باد دی اور کہا کہ میں تمہارا ممنون ہوں تم نے عالمی سطح پر میرے ملک کا نام روشن کیا۔ اس سائنس دان کا نام تھا ڈاکٹر ریاض الدین اور وہ لاہور میں ایک سائنسی ادارے کا سربراہ تھا۔ وطن واپس لوٹا تو میں گورنر پنجاب کو ساتھ لے کر ڈاکٹر ریاض الدین کے ادارے میں پہنچا اور اس کی عزت افزائی کی۔
ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ادارہ جینز اور ڈی این اے کے حوالے سے ریسرچ کر رہا تھا اور ان کی تحقیق سے نہ صرف مجرموں کو پکڑا جا سکتا تھا بلکہ اس سے زرعی پیداوار میں بھی خاصا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ادارہ براہ راست وفاقی حکومت وزارت تعلیم کا حصہ تھا۔ وزارت تعلیم کا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر ریاض الدین کو سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک سے نہایت پُر کشش آفرز آ رہی تھیں لیکن وہ وطن کی خدمت پر مصر تھا۔ 27 اکتوبر کے دی نیوز میں ایک خبر پڑھ کر میں پریشان ہو گیا۔ میں 1999 کے بعد ڈاکٹر ریاض سے کبھی نہیں ملا۔
خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر ریاض الدین نے ہیپاٹائٹس کے مرض کے لئے ایک دوا ایجاد کی جس کی قیمت 70 روپے ہے جبکہ ہمارے ملک میں اس مرض کے لئے دستیاب دواﺅں کی قیمت 900 روپے ہے۔ میری اطلاع کے مطابق تجارت کے نام پر خون چوسنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈاکٹر ریاض کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس خبر کے مطابق یہ انجکشن ہمارے دو سائنس دانوں کی ریسرچ کا پھل تھا۔ چنانچہ انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور وزارت سائنس نے ان کے خلاف فنڈز میں بے ضابطگی پر انکوائری ایف آئی اے کے حوالے کر دی۔ مجھے دوران ملازمت بہت سے سائنس دانوں سے پالا پڑا ہے۔ مان لیا کہ انہیں حکومتی ضابطوں کا کلرکوں کی مانند علم نہیں ہوتا اور وہ بعض اوقات ضابطوں کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں لیکن اسے بے ایمانی نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ بھلا کرے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا کہ جس نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کو مجرموں کے خلاف اقدام کرنے کے لئے خط لکھا۔ ایف آئی اے کی انکوائری نے ان سائنس دانوں کو کلین چٹ دے دی لیکن اس دوران ملک میں ہیپاٹائٹس کے لئے جو سستے انجکشن بنائے گئے تھے ان کی معیاد گزر گئی اور ایک لاکھ ٹیکے بے کار ہو گئے۔ خبر کے مطابق بیرون ملک سے مہنگے ٹیکے منگوا کر قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ہم نے ان سائنس دانوں کی یوں قدر و منزلت کی کہ ان کی تنخواہیں دو سال بند کئے رکھیں اور ان کے نام مجرموں کی مانند ای سی ایل پر ڈال دیئے۔ یہی ڈاکٹر ریاض سنگا پور یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں چلا گیا ہوتا تو بے پناہ تحقیقی کام کرتا، کروڑوں کماتا اور عزت پاتا۔ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تحقیق کے لئے ماحول، وسائل اور سامان موجود ہے اور نہ ہم اپنے سائنس دانوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے بہترین دماغ امریکہ برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں جا رہے ہیں اور ہم خالی ہاتھ سائنسی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا جہان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں سائنسی تحقیق پر بے پناہ خرچ کرتی ہیں اور سائنسی ایجادات سے بے حساب کماتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی یہ شعور ہی پیدا نہیں ہوا اور ہم غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں رہی حکومت تو حکومت کے پاس سائنسی ریسرچ کے لئے نہ وسائل ہیں نہ ویژن اور نہ اہلیت.... سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیسے ترقی کریں گے اور کیسے آگے بڑھیں گے؟ جو قوم علم کی قدر و منزلت سے آشنا نہیں وہ علم کی روشنی سے کیسے منور ہو گی؟

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا

 (نوٹ) (منگل والے کالم میں میں نے لکھا تھا ”دل کو پوری طرح فتح کر لینا گویا دنیا کو فتح کرنے کے مترادف ہے۔“ کمپوزنگ کی غلطیاں معمول کی بات ہے لیکن اس فقرے کو ”دل کو پوری طرح فتح نہیں“ لکھ کر بے معنی بنا دیا گیا۔ قا رئین نوٹ کر لیں)

روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

منگل, اکتوبر 23, 2012

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

مہم جُو نوجوانوں کے ایک گروپ نے سائیکل پر سفر کرتے ہوئے جرمنی سے بھارت جانے کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران اہم بات یہ تھی کہ یہ گروپ جہاں بھی گیا، اسے بغیر کسی مشکل کے انٹرنیٹ کی سہولت حاصل رہی۔

برلن سے نئی دہلی تک کا سفر اور وہ بھی سائیکل پر۔ تھوماس جیکل اپنے دیگر تین ساتھوں کے ساتھ برلن سے نئی دہلی تک کا 8 ہزار سات سو کلومیٹر طویل سفر کرنے کے لیے نکلے۔ دیگر اشیاء کے علاوہ زاد راہ کے طور پر ان کے پاس لیپ ٹاپ یو ایس بی سٹکس اور سمارٹ فونز تھے۔ ان تینوں نے اس دوران راتیں خیموں میں بسر کیں اور دن میں سفر کے دوران وقفہ کرنے کے لیے کسی ایسے کیفے یا ہوٹل کا انتخاب کیا، جہاں انٹرنیٹ کی سہولت یعنی ہاٹ سپاٹ موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں یہ سہولت ایسے علاقوں میں بھی میسر آئی، جن کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ باہر کی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ رات کو یہ لوگ سفر کی داستان اور ای میلز لکھتے تھے اور دن میں اسے اپ لوڈ کرتے رہے۔ 26 سالہ تھوماس کہتے ہیں، ’میں بھوک اور پیاس تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن انٹرنیٹ مجھے ہر حال میں چاہیے‘۔

ان کا یہ سفر چھ ماہ پر محیط تھا۔ مہم جو نوجوانوں کا یہ گروپ چیک ریپبلک، آسٹریا، سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، ترکی، ایران اور پھر پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت پہنچا۔ اس دوران انہوں نے آسانی یا مشکل سے کسی نہ کسی طرح انٹرنیٹ سہولت کو تلاش کر ہی لیا۔ جیکل بتاتے ہیں، ’ایران میں، میں نے موبائل کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ بغیر عنوان والی ایک ای میل کو بھیجنے کے لیے تقریباً ایک گھنٹہ لگا‘۔ 27 سالہ ایرک فیئرمان بتاتے ہیں، ’راستے میں جہاں بھی انٹرنیٹ کنکشن موجود تھا، ہم نے وہاں وقفہ کیا۔ لیپ ٹاپ چارج کیے اور انٹرنیٹ کا پاس ورڈ پتا چلانے میں بھی کوئی خاص مشکل پیش نہ آئی‘۔ ان نوجوانوں کے مطابق انٹرنیٹ سے رابطہ ہونے کی صورت میں انہوں نے صرف اہم چیزوں پر ہی توجہ دی اور سکائپ اور فیس بک پر اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس ٹیم نے اپنے سفر کے دوران یہ ثابت کیا کہ انسان اگر چاہے تو وہ سنسان اور ویران مقامات سے بھی رابطے میں رہ سکتا ہے۔

اس سفر کا ایک مقصد بھارت میں بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے ان کے ’’ٹائلٹ پروجیکٹ‘‘ کے لیے چندہ جمع کرنا بھی تھا۔ اس دوران ان کے پاس ساڑھے گیارہ ہزار یورو اکھٹے ہوئے۔ اس رقم سے یہ نوجوان ممبئی کے قریب 25 حاجت خانے بنوائیں گے۔ ممبئی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اس ٹیم کے چار ارکان نے سائیکل پر بھارت کا سفر طے کیا جبکہ ان کے بقیہ ساتھی اپنے اس منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے بھارت پہنچے۔

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

ہفتہ, اکتوبر 13, 2012

پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے نگران جنرل کا پہلا انٹرویو

’پاکستان کے لئے ایٹمی دھماکہ ضروری تھا‘، تجرباتی طور پر پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے والی ٹیم کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ذوالفقار علی خان نے پہلی مرتبہ کوئی انٹرویو دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو کئی اہم تفصیلات بتائیں۔

اٹھائیس مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کرنے والی پاکستانی ٹیم کے چیف اور اس وقت ملکی فوج کی انجینئرنگ کور کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار علی خان نے کہا ہے کہ اگر بھارت ایٹمی دھماکے کرکے پاک بھارت دفاعی صلاحیتوں کا توازن خراب نہ کرتا تو پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آتی۔

ڈوئچے ویلے کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جنرل ریٹائرڈ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے در اصل بھارتی ایٹمی دھماکوں کا ردعمل تھے۔ ان کے مطابق 18 مئی 1998ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہتک آمیز بیانات کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی طرح پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیت اور دفاعی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے ایٹمی دھماکے کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت بہت پہلے سے موجود تھی اور دھماکے کئے بغیر دونوں ملکوں میں ایک دفاعی توازن قائم تھا جو بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے بعد عدم توازن میں بدل گیا تھا۔

ایک سوال کےجواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت امن کے قیام میں بھی مدد گار ثابت ہوئی ہے۔ ان کے بقول یہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہی تھی جس نے 2004ء میں سرحد پر فوجیں تعینات ہونے کے باوجود پاک بھارت جنگ روکی اور کارگل کی لڑائی پھیلنے سے بچی۔ 

اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان کے نیوکلئیر اثاثے طالبان کے ہاتھ لگنے کا کوئی امکان ہے۔

جنرل ذوالفقار کا کہنا تھا کہ جو سنجیدہ لوگ نیوکلئیر صلاحیت اوراس کی حفاظت اور مینجمنٹ کے نظام کو جانتے ہیں وہ کبھی پاکستان کے نیوکلئیر اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی بات نہیں کرتے۔ ان کے مطابق یہ الزام ان لوگوں کی طرف سے لگایا جاتا ہے جن کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا میٹریل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بقول امریکی انتظامیہ سمیت مغرب کے ذمہ دار حلقوں کو پورا یقین ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثےاتنے ہی محفوظ ہیں جتنے کہ کسی ترقی یافتہ ملک کے ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد پچھلے 12 سالوں میں کسی ایک بھی بے احتیاطی، کوتاہی یا غیرذمہ داری کا واقعہ سامنے نہیں آیا۔

ایک سوال کے جواب میں جنرل ذوالفقار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنا ساری قوم کی خواہش تھی مگر اس کا بنیادی فیصلہ نوازشریف نے کیا۔ ان کے بقول پاکستان کی مسلح افواج، سائنسدانوں، دفترخارجہ اور سیاست دانوں سمیت سارے طبقوں نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کی حمایت کی تھی اور اپنا ہر ممکن تعاون فراہم کیا تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی وہ ساری سیاسی جماعتیں جو آپس میں شدید اختلافات رکھتی تھیں انہوں نے بھی ملک کے نیوکلئیر پروگرام کو ہمیشہ بھرپور سپورٹ کیا۔ اس سلسلے میں ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر، نوازشریف، ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان سمیت سب کی خدمات بڑی نمایاں ہیں۔ لیکن جنرل ذوالفقارکا یہ بھی کہنا ہے کہ ایٹمی دھماکوں کی کامیابی میں ڈاکٹر قدیر خان کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ روٹی پکانے میں جو کردار آٹے کا ہوتا ہے اسی طرح ایٹمی دھماکوں میں استعمال ہونے والے میٹریل کی فراہمی کا سہرا ڈاکٹر قدیر خان کے سر ہے۔ 

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کے حوالےسےکس قسم کے دباؤ کا سامنا تھا، جنرل ذوالفقار کا کہنا تھا کہ دھماکوں سے پہلے ہر روز کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوتا تھا اور وہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔ صدر کلنٹن کی طرف سے آنے والے ہر فون کے بعد اس ردِ عمل کا جائزہ لیا جاتا تھا۔

انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ امریکی افواج کے سربراہ جنرل زینی دھماکوں سے چند روز پہلے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے ملنے آئے۔ اس موقع پر ان کا رویہ بڑا ہی نا مناسب تھا، انہوں نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا کہ اگر پاکستان نے نیوکلئیر ٹیسٹ کیا تو اس کے نتائج پاکستان کے لئے بہت بھیانک ہوں گے۔ اس موقع پر شدید دباو ڈالنے کے بعد انہوں نے اربوں ڈالر امداد کی پیش کش بھی کی۔ جنرل ذوالفقار کہتے ہیں کہ یہی جنرل زینی جب دھماکوں کے بعد 4 جون کو دوبارہ جنرل کرامت سے ملنے آئے تو وہ بالکل بدلے ہوئے تھے اس موقع پر ان کا رویہ بڑا ہی باعزت اور برابری والا تھا۔ جنرل ذوالفقار کے مطابق یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ جب آپ مضبوط ہوں تو لوگ بھی آپ کی عزت کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایٹمی دھماکوں سے چند دن پہلے وہ اس وقت کے سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور پاکستان کے موجودہ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کے ہمراہ چینی حکام سے مشاورت کے لئے چین گئے، واپسی پر ایک جگہ جہاز میں سوار ہوتے ہوئے کسی اجنبی شخص نے سلمان بشیر کو ایک چٹ دی۔ جب وہ جہاز میں جا کر اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے، تو سلمان بشیر نے چٹ نکال کر پڑھی تو اس پر لکھا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ رہے ہیں۔ اگر آپ نے (ایٹمی دھماکے کی طرف) پیش رفت جاری رکھی تو ہم آپ کا قیمہ بنا دیں گے۔‘ 

جنرل ذوالفقار نے ایٹمی دھماکے کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک روشن دن تھا، جب وہ ایٹمی دھماکوں کے لئے بلوچستان کے شہر چاغی پہنچے ۔ 28 مئی 1998ء کو وہ اس پہاڑ کے سامنے کھڑے تھے جس کے اندر بنائے جانے والے ایک غار میں دھماکہ کیا جانا تھا۔ اس ٹنل کی مخالف سمت میں وہ ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے، اٹامک انرجی کمیشن کے ایک جونئیر اہلکار جو عمر میں ان سب سے بڑے تھے، ان سے کامیابی کی دعا کروائی گئی۔ رقت آمیز دعا کے بعد انہی سے بٹن دبانے کی استدعا کی گئی۔ انہوں نے بٹن دبایا۔ بٹن دبانے اور ایٹمی دھماکے میں 11 سیکنڈ کا تاخیری وقت رکھا گیا تھا۔ یہ 11 سیکنڈ اس دن اتنے لمبے ہوگئے کہ انہیں 11 ماہ اور 11 سال معلوم ہورہے تھے۔ انہوں نے کہا،’جب ایٹمی دھماکہ ہوا تو ہمارے پاوں تلے موجود زمین ہل گئی۔ یہ ریکٹر سکیل پر چارسے چھ تک کی شدت کا ایک زلزلہ تھا ۔ ہمارے سامنے موجود کالے رنگ کا مضبوط گرینائڈ پہاڑ پہلے گرے رنگ میں تبدیل ہوا پھر اس کا رنگ آف وائٹ ہوگیا۔ اس پہاڑ میں ایک ملین سینٹی گریڈ کا ٹمپریچر پیدا ہوا۔ اس کے باوجود کوئی نیوکلئیر تابکاری خارج نہیں ہوئی۔‘

جنرل ذوالفقار بتاتے ہیں کہ ایک نیوکلئیر ٹیسٹ میں 50 ہزارآئیٹمز کی ایک چیک لسٹ ہوتی ہے، ان میں سے اگر چند ایک آئیٹمز بھی غلط ہوجائیں تو ایٹمی دھماکہ ناکام ہوسکتا ہے۔ ان کےمطابق پاکستان کے ایٹمی دھماکے کا کریڈٹ کسی ایک شخصیت کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کامیابی میں بہت سارے لوگوں کی کوششیں شامل رہیں۔

پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے نگران جنرل کا پہلا انٹرویو

بدھ, ستمبر 19, 2012

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

واشنگٹن — تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا ایک مدت سے سائنس دانوں کی آرزو رہی ہے۔ سائنسی اندازوں کے مطابق تخلیقِ کائنات کا واقعہ لگ بھگ 14 ارب سال پہلے پیش آیا تھا۔ اب اتنے پرانے واقعے کی کھوج لگانا کچھ آسان کام تو ہے نہیں، اسی لیے ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان ایک مصنوعی (ورچوئل) کائنات تخلیق دے کر ’بِگ بینگ‘ کا تجربہ دہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

امریکی محکمہ توانائی کی ’ارگون نیشنل لیبارٹری‘ سے منسلک ماہرینِ طبیعات دنیا کے تیسرے تیز ترین کمپیوٹر کی مدد سے ’بِگ بینگ‘ کے اس تجربے کو دوبارہ دہرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس سے انہیں امید ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

ایک مدت تک سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات ٹیلی سکوپوں کے ذریعے اندھیرے آسمانوں کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور اس مشق کے ذریعے انہوں نے کائنات کے نقشے تیار کیے ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے کائنات اور کہکشاؤں کے ان نقشوں کو حقیقت سے مزید ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی ہے۔

اب انہی آسمانی نقشوں کی مدد سےماہرین نے ’ارگون میرا سپر کمپیوٹر‘ پر ایک مصنوعی کہکشاں تخلیق کی ہے جس پر وہ اب تک کا سب سے ہائی ریزولوشن والا ’بِگ بینگ‘ تجربہ کریں گے اور کائنات میں مادے کی تقسیم کی حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔

سلمان حبیب اس منصوبے کے قائدین میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں نے اس بڑے پیمانے پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ سلمان حبیب کے بقول کائنات کی تخلیق کا راز سمجھ میں آجانے سے پوری سائنس سمجھی جاسکتی ہے۔

اس منصوبے کے ایک اور قائد کیٹرن ہیٹمین کے مطابق تجربے کے دوران میں مختلف اوقات میں کائنات کی مختلف ہیئتوں کی تصویروں اور موویز سے مدد لی جائے گی۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس تجربے سے ’ڈارک میٹر‘ یا ’تاریک مادے‘ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں مدد ملے گی۔ ’ڈارک میٹر‘ مادے کی ایک خیالی قسم ہے جس کے بارے میں ماہرین کا گمان ہے کہ کائنات کا بیش تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔

سلمان حبیب کہتے ہیں خلا کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ یا تو رکی ہوئی ہے یا ایک مخصوص شکل میں موجود ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی خلائیں تخلیق پارہی ہیں۔

سلمان کہتے ہیں کہ کائنات میں توسیع کا فلسفہ آئین سٹائین کی 'تھیوری آف ریلیٹویٹی' سے بھی تقویت پاتا ہے لیکن اس نظریے کے مطابق اس توسیعی عمل کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سست پڑجانا چاہیے تھا۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور 2011ء میں طبعیات کا 'نوبیل انعام' حاصل کرنے والی تحقیق اور دیگر مشاہدوں سے یہ پتا چلا ہے کہ کائنات کی توسیع کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔

سلمان حبیب کے مطابق اس راز پر تاحال پردہ پڑا ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن کئی سائنس دانوں نے اس گمان کا اظہار کیا ہے کہ کائنات کی اس توسیعی عمل کے پیچھے درحقیقت 'تاریک توانائی' یا 'ڈارک انرجی' کی قوت موجود ہے۔

'ڈارک میٹر' کی طرح 'ڈارک انرجی' بھی توانائی کی ایسی قسم ہے جس کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 70 فی صد کائنات اس توانائی پر مشتمل ہے اور امید ہے کہ یہ تجربہ 'ڈارک انرجی' کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے گا۔

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

جمعرات, اگست 30, 2012

کیا مصنوعی ذہانت تخلیق کر لی گئی ہے؟

روس کے سائنسدانوں نے دنیا میں پہلی بار انسانی دانشمندی کا کمپیوٹرائزڈ نمونہ پیش کیا ہے۔ ”یوگینی“ نام سے تیار کردہ یہ کمپیوٹر پروگرام انسانی دماغ سے بس کچھ ہی کم ہے۔ اسے برطانیہ میں ہوئے سائیبر دانش مندی کے مقابلے میں بہتریں تسلیم کیا گیا ہے۔

”ذہنی دھاوے“ کے پروگراموں کی تیاری میں سبھی شریک افراد کو ”ٹیورنگ ٹیسٹ“ سے گذرنا پڑا تھا۔ اس نام کے برطانوی ماہر ریاضی کو کمپیوٹر پروگرامنگ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک کھیل ترتیب دیا تھا، جس میں حصہ لے کر معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کا مخاطب کون ہے؟ مشین یا انسان۔ اس کے اصول بہت سادہ ہیں، امتحان لینے والا انجانوں سے گفتگو کرتا ہے، جو اس کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ جوابات سے ممتحن جان لیتا ہے کہ وہ انسان کی بجائے کمپیوٹر پروگرام سے انٹرویو کررہا تھا، کیونکہ یہ عیاں ہے کہ تا حال مشین انسانوں کی طرح کے جواب دینے سے قاصر ہے۔

ایسے پہلے پروگرام جنہیں ”ٹیورنگ ٹیسٹ“ کے ذریعے آنکا گیا، کے جواب ایسے لگتے تھے جیسے کوئی انسان مذاق کررہا ہو یا پھر الّو بنانے کی کوشش کررہا ہو۔ پروگرام وہی بات پوچھنے لگ جاتا تھا جس بارے میں اس سے سوال کیا جاتا تھا۔ دوسری جانب بیٹھا ہوا شخص یہ سمجھتا تھا کہ جیسے اس قسم کے جواب کوئی باشعور شخص دے رہا ہے۔ بہر حال یہ سلسلہ بہت دیر نہیں چل سکتا تھا۔

اس نوع کا پروگرام کوئی سنجیدہ عمل نہیں کر سکتا تھا، بس شریک گفتگو شخص کے ہونے کا تاثر پیدا کرسکتا تھا۔ اسے مصنوعی ذہانت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس معاملے میں پیشرفت جاری رکھنا بلا جواز ہے، روسی انسٹیٹیوٹ برائے عملی ریاضی کے میخائیل گوربونوو پوسادوو کو یقین ہے۔ ”یہ کام بیکار نہیں ہے۔ یہ اصل میں لسانی، ہئیتی اور لسانی عمل جار کی صفات کا تجزیہ ہے۔ مشین میں سب کچھ صحت کے ساتھ درست بھرنا چاہیے وگرنہ انسان اس کو شریک گفتگو نہیں مان سکے گا۔ اس سطح تک پہنچنے کی خاطر محنت درکار ہے، جس کے سبب کامیابی ممکن ہوگی اور اس کا بہت سی صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا“۔

فی الحال مشین کی استعداد محدود نوعیت کی ہے۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اگر اس طرح 30 % سوالوں کا جواب دے کر بھی انسان کو ”دھوکہ“ دیا جا سکتا ہو، تو اسے مصنوعی ذہانت خیال کیا جائے گا۔ روس کے پروگرام ”یوگینی“ نے ڈیڑھ سو سوالات میں سے 2۔29 % سوالوں کے مناسب جواب دیے ہیں۔ اس طرح وہ بہت کم حد تک مصنوعی ذہانت کہلائے جانے سے رہ گیا ہے۔ بہرحال اس پروگرام کے طفیل روس کی ٹیم مقابلہ جیت گئی۔

یہ نتیجہ ”سائیبر دانشمندی“ کے حوالے سے ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔ پروگرامرز کو یقین ہے کہ اس کو مزید بہتر بنائے جانے سے وہ کیا جانا ممکن ہوگا جس کا خواب عہد جدید کا انسان دیکھتا ہے یعنی کمپیوٹر کو سکھایا جاسکے گا کہ وہ کیے گئے سوال کو سمجھ پائے تاکہ انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کیا جانا سہل ہو۔

کیا مصنوعی ذہانت تخلیق کر لی گئی ہے؟

بدھ, اگست 29, 2012

سن 2050 تک زندہ رہنے کے لئے انسانوں کو سبزی خور بننا ہوگا

سن 2050 تک زندہ رہنے کے لئے انسانوں کو سبزی خور بننا ہوگا۔ سائنس دانوں کا ایک گروپ سٹاک ہوم میں جاری پانی کا عالمی ہفتہ نامی فورم کے دوران متعلقہ رپورٹ منظر عام پر لایا ہے۔ کھانے کی عادتیں نہ بدلی گئیں تو چالیس سال بعد نو ارب آبادی کی ضروریات کو پورا کئے جانے کی خاطر پینے کے پانی کے ذخائر نہیں رہیں گے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی نو ارب افراد ہوگی۔ اس وقت ہر شخص کی پروٹین کی بیس فیصد ضروریات گوشت سے پوری کی جاتی ہیں۔ اگر دنیا کی آبادی میں دو ارب افراد کا اضافہ ہوا تو پروٹین کی صرف پانچ فیصد ضروریات گوشت کھانے سے پوری ہوں گی۔ لیکن اب تک گوشت کافی مقدار میں نہیں پیدا کی جا سکے گی کیونکہ مویشیوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہوگا۔

سن 2050 تک زندہ رہنے کے لئے انسانوں کو سبزی خور بننا ہوگا

جمعرات, اگست 16, 2012

امریکا کا آواز سے چھ گنا تیز سفر کا تجربہ ناکام

امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ ’ویو رائیڈر‘ نامی ہائپر سونک جیٹ کے آواز کی رفتار سے چھ گنا زیادہ رفتار سے سفر کرنے کا تجربہ ایک مرتبہ پھر ناکام ہوگیا ہے۔

میک کسی شے کی رفتار کے آواز کی رفتار سے تناسب کا نام ہے اور درجۂ حرارت اور بلندی جیسے عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک میک اندازاً سات سو اڑسٹھ میل فی گھنٹہ کے برابر ہوتا ہے۔

’میک چھ‘ یا تین ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار سے لندن سے نیویارک کا سفر ایک گھنٹے میں طے کرنا ممکن ہے۔

امریکی حکام کے مطابق ویو رائیڈر کے تازہ تجربے کے دوران اسے ایک بی باون بمبار طیارے کی مدد سے بحرالکاہل کے اوپر پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے چھوڑا گیا لیکن تکینکی خرابی کی وجہ سے اس کا سپرسانک انجن چل ہی نہیں سکا اور جہاز بحرالکاہل میں گر کر لاپتہ ہوگیا۔

امریکی فضائیہ کے ترجمان کے مطابق جیٹ کی پرواز کے سولہویں سیکنڈ میں ہی خرابی کا پتہ چل گیا تھا۔ امریکی فضائیہ کی تحقیقاتی تجربہ گاہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’بدقسمتی سے ثانوی نظام میں خرابی کی وجہ سے اس سے قبل کہ ہم سکریم جیٹ انجن چلا پاتے مشن ناکام ہوگیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تمام ڈیٹا کے مطابق ہم نے انجن چلانے کے لیے بہترین حالات پیدا کرلیے تھے اور ہم اپنے تجربے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پرامید تھے‘۔

یہ لگاتار دوسرا موقع ہے کہ اس جیٹ کا انجن چلنے میں ناکام رہا ہے۔ دو ہزار گیارہ کیے گئے ایک اور تجربے میں بھی جیٹ کا انجن چل نہیں سکا تھا تاہم جون دو ہزار دس میں کیے گئے ایک تجربے میں ویو رائیڈر نے آواز سے پانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے سفر کیا تھا لیکن وہ اپنی مطلوبہ رفتار تک پہنچنے میں ناکام رہا تھا۔

اب امریکی فضائیہ کے پاس صرف ایک ایکس اکیاون اے تجرباتی جیٹ باقی بچا ہے اور ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ آیا فضائیہ چوتھی مرتبہ تجربہ کرے گی یا نہیں۔

یہ منصوبہ ایک ہائپرسونک طیارے کی تیاری کے لیے جاری کئی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس منصوبے کے لیے امریکی محکمۂ دفاع اور امریکی خلائی ادارے ناسا نے رقم فراہم کی ہے اور یہ تیز رفتار میزائلوں کی تیاری کے منصوبے کا حصہ ہے۔

اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق کو ایسے مسافر طیاروں کی تیاری کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جو موجودہ زمانے کے جیٹ طیاروں سے کہیں تیز اڑ سکیں۔

ماضی میں کنکارڈ طیارے آواز سے دگنی رفتار سے سفر کرتے رہے ہیں اور وہ لندن سے نیویارک کا سفر تین گھنٹے میں طے کیا کرتے تھے۔ تاہم سنہ انیس سو ترانوے کے بعد سے ان کا استعمال ترک کردیا گیا تھا۔

یورپی ایروسپیس کمپنی اِیڈز کے نائب صدر پیٹر روبی کا کہنا ہے کہ ہائپر سونک مسافر طیارے مستقبل قریب میں سامنے آنے لگیں گے۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب سپر سانک سے ہائپر سونک پرواز تک کے سفر کے بارے میں دلچسپی پائی جاتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس قسم کا جہاز نہایت مہنگا ہوگا کیونکہ اس قسم کی رفتار کے حصول کے لیے بےپناہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ لیکن کاروباری اور سیاسی شخصیات کے لیے ڈھائی گھنٹے میں ٹوکیو سے پیرس پہنچنے کا خیال ہی بہت پرکشش ہے۔ میرے خیال میں دو ہزار پچاس تک مارکیٹ میں قابلِ عمل ہائپرسونک مسافر طیارہ آ جائے گا‘۔

آواز سے چھ گنا تیز سفر کا تجربہ ناکام

منگل, اگست 14, 2012

مریخ کی پہلی مفصل رنگین تصویر

کیوروسٹی نے ایک اونچے مستول پر نصب وائیڈ اینگل کیمرے کی مدد سے متعدد تصاویر لی تھیں جن میں سے کم ریزولیوشن والی تصاویر کا پینوراما ابتدائی طور پر جاری کیا گیا تھا اور بہتر ریزولیوشن والی تصاویر کے زمین پر پہنچنے کے بعد اب یہ رنگین تصویر سامنے آئی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تصویر سے بظاہر مریخ کی سطح امریکہ کے جنوب مغربی علاقے کی سطح سے مشابہ معلوم ہوتی ہے۔

اس تصویر میں گیل نامی اس گڑھے کا ایک حصہ دکھایا گیا ہے جہاں کیوروسٹی اتری تھی۔ اس گڑھے کی دیوار میں وادیوں کا ایک جال دیکھا جا سکتا ہے جو ممکنہ طور پر باہر سے پانی داخل ہونے کے نتیجے میں بنا ہوگا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ زمین پر موجود سائنسدان مریخ کی سطح پر کسی دریا یا ندی کے آثار واضح طور پر دیکھ پائے ہیں۔

سائنسدان کیوروسٹی کے اترنے کی جگہ کے جنوبی علاقے کی تصاویر کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں واقع ’ماؤنٹ شارپ‘ کے نام سے معروف پہاڑ کی چوٹی کے دامن تک جا کر اس کی چٹانوں کا مطالعہ اس مشن کا کلیدی مقصد ہے۔

اس چوٹی کا دامن کیوروسٹی کے موجودہ مقام سے ساڑھے چھ کلومیٹر دور ہے اور وہاں پہنچنے میں ایک سال لگ سکتا ہے۔

یہ گاڑی اپنے آلات کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ ماؤنٹ شارپ پر موجود چٹانوں کے بنتے وقت مریخ پر کیا حالات تھے، اور آیا اس سیارے کی تاریخ میں ایسا کوئی دور گزرا ہے جب وہاں کسی قسم کی جراثیمی زندگی موجود ہو۔

کیوروسٹی میں دو کیمرے نصب ہیں جو مل کر سٹیریو یا تھری ڈی تصاویر بنا سکتے ہیں۔ یہ کیمرے مریخ گاڑی کے سائنسی مشن کی منصوبہ بندی اور اس بات کا فیصلہ کرنے میں بے حد اہم ثابت ہوں گے کہ گاڑی کس طرف لے جانی ہے اور کس چٹان پر تحقیق کرنی ہے۔

یہ روبوٹک گاڑی اس علاقے کا معائنہ بھی کرے گی جہاں اس کے اترنے کے عمل کے دوران چلنے والے راکٹ کی وجہ سے کچھ چٹانیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔

کیوروسٹی مریخ گاڑی کا مشن امریکی شہر پیسا ڈینا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری سے چلایا جارہا ہے اور سائنس دانوں کی ایک بڑی ٹیم گاڑی کے مستقبل میں کیے جانے والے کام کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔

اس ٹیم نے گاڑی کی لینڈنگ سائیٹ کے آس پاس کے علاقے کو ایک اعشاریہ تین ضرب ایک اعشاریہ تین کلومیٹر کے ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے جن کا تفصیلی نقشہ، اور ان کے اندر موجود چٹانوں کے خدوخال مرتب کیے جارہے ہیں۔

بدھ, اگست 08, 2012

مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول

خلائی گاڑی کی جانب سے بھیجی گئی مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر
امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کو مریخ پر اترنے والی اپنی خلائی گاڑی سے مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول ہوگئی ہے۔

’ناسا‘ کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دور سے لی گئی سرخی مائل بھورے رنگ کی یہ تصویر مریخ کی سطح پر موجود ایک گڑھے کی شمالی دیوار اور دہانے کی ہے جسے سائنس دانوں نے ’گال کریٹر‘ کا نام دے رکھا ہے۔

’ناسا‘ کے مطابق تصویر خلائی گاڑی ’کیوریوسٹی‘ کے روبوٹک بازو میں نصب کیمرے نے کھینچی ہے۔

یاد رہے کہ ’کیوریوسٹی‘ آٹھ ماہ طویل خلائی سفر کے بعد اتوار کی شب کامیابی سے مریخ کی سطح پر اتر گئی تھی۔ اس سے قبل خلائی گاڑی کے نیچے نصب کیمروں نے اس کے اترنے کے عمل کے دوران میں مریخ کی سطح کی سیکڑوں تصاویر کھینچ کر ’ناسا‘ کو روانہ کی تھیں تاہم سیارے پر اترنے کے بعد خلائی گاڑی کی جانب سے لی گئی یہ پہلی تصویر ہے۔

گو کہ یہ تصویر دھندلی ہے لیکن ’ناسا‘ کے سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’کیوریوسٹی‘ میں نصب کیمرے ’ہائی ریزو لوشن‘ تصاویر بھی لینے لگیں گے۔

مریخ پر اتاری جانے والی گاڑی کیوریاسٹی
 اپنے دو سال طویل مشن کے دوران ایک ٹن وزنی اور ایک گاڑی کے حجم کے برابر مکمل طور پر خودکار ’کیوریوسٹی‘ مریخ کی سطح، موسم اور وہاں موجود تابکاری کی مقدار کے جائزے کا کام انجام دے گی۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ ڈھائی ارب ڈالرز مالیت کے اس منصوبے سے اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنا ممکن ہوپائے گا کہ کیا مریخ پر کبھی زندگی موجود تھی اور آیا اس سرخ سیارے پر مستقبل میں کبھی زندگی گزارنے کا امکان ہے یا نہیں۔

مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول

جمعرات, جولائی 19, 2012

جنوبی ایشیا میں لینڈ سلائیڈ میں اضافہ

جنوبی ایشیائی ممالک میں خصوصاً ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع علاقوں میں جون سے ستمبر تک مون سون کے موسم میں لینڈ سلائیڈ یا مٹی کے تودے گرنا کوئی نئی چیز نہیں۔

تاہم سائنسدانوں کے مطابق حالیہ برسوں میں اس خطے میں لینڈ سلائیڈ کے واقعات اور ان سے ہونے والی تباہی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دلّی میں قائم سارک ڈیزاسٹر مینجمنٹ سینٹر سے وابستہ ارضیاتی تباہی کے ماہر مریگانکا گھاتک کا کہنا ہے کہ ’حالیہ کچھ عرصے میں مٹی کے تودے گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے بھارت، نیپال، پاکستان کے شمالی علاقوں اور بنگلہ دیش کے کچھ حصوں میں لینڈ سلائیڈ میں تیزی دیکھی ہے‘۔

پاکستان کے ارضیاتی سروے کے ڈائریکٹر جنرل عمران خان کا کہنا ہے کہ علاقے میں آنے والے زلزلوں کا بھی ان واقعات سے گہرا تعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جنوبی ایشیا میں ہندوکش ہمالیہ کا خطہ زیرِ زمین دباؤ کی وجہ سے بہت سے ارضیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ اس خطے میں بڑی فالٹ لائنز موجود ہیں اور ہر زلزلے سے پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر موجود پتھر اور دیگر ملبہ اپنی جگہ سے ہل جاتا ہے اور یہی اس خطے میں لینڈ سلائیڈ کی بنیادی وجہ ہے‘۔

سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی، سڑکوں کی تعمیر اور پہاڑی ڈھلوانوں پر کاشتکاری بھی تودے گرنے کے واقعات میں اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔

جنوبی ایشیا میں لینڈ سلائیڈ میں اضافہ

ہفتہ, جولائی 14, 2012

مستقبل کی اہم سائنسی ایجاد

دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں جتنی تبدیلی پہلے سوبرس میں آتی تھی، اب وہ محض دس برسوں میں آرہی ہے اور بہت جلد تبدیلی کی رفتار اس سے بھی دگنی ہوجائے گی۔

اگلے پانچ سے دس سال میں بہت کچھ بدلنے جارہا ہے اور بہت ممکن ہے کہ آج پیدا ہونے والے بچے پانچ سال کے بعد جب سکول میں پہنچیں گے تو آج کی بہت سی مقبول سائنسی ایجادات انہیں تصویروں یا کباڑخانوں میں نظر آئیں گی۔

امریکہ سمیت بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ڈیجیٹل الیکٹرانکس کے سٹوروں میں اب ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اکا دکا ہی دکھائے دیتے ہیں اور ان کی جگہ لے لی ہے لیپ ٹاپ کمپوٹرز نے۔ لیپ ٹاپس کے اکثر نئے ماڈلز میں استعمال کیا جانے والا مائیکرو پراسسر ڈیسک ٹاپ کے مقابلے میں طاقت، ریم میموری اور ہارڈ ڈسک بھی نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ گرافک کارڈ بہتر ہیں اور انٹرنیٹ کے لیے زیادہ قوت کے وائی فائی استعمال کیے گئے ہیں۔ لیب ٹاپ کے اکثر نئے ماڈلز کو ڈیسک ٹاپ کے متبادل کا نام دیا جارہا ہے۔ قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ پانچ سو سے سات سو ڈالر میں آپ ایک ایسا لیپ ٹاپ لے سکتے ہیں جو آپ کو ڈیسک ٹاپ کی ضرورت سے بےنیاز کرسکتا ہے، اور آپ جس جگہ چاہیں، آرام سے بیٹھ کر اپنا کام کرسکتے ہیں۔ بجلی کے کنکشن کا جھنجھٹ اور نہ انٹرنیٹ کی تار لگانے کی ضرورت۔ نئے طاقت ور لیپ ٹاپ وزن میں ہلکے ہیں، ان کی بیٹری دیر تک چلتی ہے یعنی آپ چھ سے آٹھ گھنٹے تک بیٹری چارچ کیے بغیر کام کرسکتے ہیں۔ اب ایسے لیپ ٹاپ بھی دستیاب ہیں جن کی بیٹری 15 گھنٹوں تک چلتی ہے۔ 

ایک طرف جہاں ڈیسک ٹاپ کی جگہ لے رہا ہے لیپ ٹاپ تو دوسری طرف لیپ ٹاپ کی بقا بھی خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔ چار پانچ سال پہلے لیپ ٹاپ کے مقابلے میں نیٹ بک متعارف ہوئی تھی۔ یہ ہلکا پھلکا لیپ ٹاپ ایسے لوگوں کے لیے تھا جو زیادہ تر انٹرنیٹ پر رہتے ہیں۔ نیٹ بک کے بعد کے ماڈلز کو لیپ ٹاپ کا متبادل بنانے کےلیے ان میں طاقت ور مائیکرو پراسیسر، زیادہ ریم میموری اور بڑی ہارڈ ڈیسک لگائی گئی۔ نیٹ بک ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوہی رہی تھی کہ اس پر شب خون مارا ایپل نے آئی پیڈ کی شکل میں۔

آئی پیڈ ایک طرح سے نیٹ بک ہی ہے، مگر اس کا وزن کم تھا، کارکردگی بہتر تھی، بیٹری زیادہ چلتی تھی اور دیکھنے میں کہیں زیادہ جاذب نظر تھی۔ آئی پیڈ کی نقل میں بہت سی ڈیجیٹل کمپنیاں بھی اسی طرح کے اپنے کمپیوٹر مارکیٹ میں لے آئیں۔ امریکی مارکیٹوں میں اب نیٹ بک ڈھونڈے سے ہی کہیں دکھائی دیتی ہے اور ہر جگہ اپنے جلوے دکھا رہے ہیں آئی پیڈ طرز کے منی کمپیوٹر۔

منی کمپیوٹرز کی اس نئی نسل نے صرف نیٹ بک اور روایتی لیپ ٹاپ کو ہی اپنا نشانہ نہیں بنایا بلکہ الیکٹرانک بک ریڈرز بھی اس کی زد میں آگئے کیونکہ وہ اپنی شکل وشہبات اور حجم میں بک ریڈرز سے بہت قریب ہیں، جس پر آپ ڈیجیٹل کتابیں پڑھنے کے ساتھ کمپیوٹر کی سہولت کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ ان منی کمپیوٹرز یا لیپ ٹاپس کی بہتات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ بک ریڈر جو چند سال پہلے تک چار پانچ سو ڈالر میں ملتا تھا، اب ایک سو ڈالر سے کم میں بھی دستیاب ہیں مگر کوئی خریدار نہیں ہے۔

ایک دوسرے کی جگہ لینے کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔ آئی پیڈ طرز کے کمپیوٹرز کو اب نگل رہاہے سمارٹ موبائل فون۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران سمارٹ فونز کے سائز نمایاں طورپر بڑے ہوچکے ہیں۔ اور مارکیٹ میں پانچ سے سوا پانچ انچ سائز کے فونز عام فروخت ہورہے ہیں۔ ان میں طاقت ور مائیکرو پراسیسر نصب ہیں۔ نئی نسل کے کئی سمارٹ فونز اب ڈبل کور پراسیسر ز کے ساتھ آرہے ہیں اور ان ریم میموری دو جی بی ہے جب کہ قابل استعمال میموری 16 سے 32 جی بی ہے جب کہ ان میں 64 جی بی فلیش میموری کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ گویا ایک طرح سے آپ کے پاس 96 جی بی ہارڈ ڈسٹک موجود ہے جو نیٹ بک اور آئی پیڈ ٹائپ منی کمپیوٹرز سے کہیں زیادہ ہے۔ ان میں این ٹائپ طاقت ور وائی فائی انٹرنیٹ اور جی فور کی سہولت فراہم کی گئی ہے جس سے اس کی انٹرنیٹ کارکردگی ایک اچھے اور معیاری لیپ ٹاپ جیسی بن گئی ہے۔ ان سمارٹ فونز میں دو کیمرے فراہم کیے گئے ہیں۔ سامنے کے رخ ویڈیو چیٹنگ کے لیے تقریباً دو میگا پیکسلز کا کیمرہ لگایا گیا ہے جب کہ پیچھے کی جانب آٹھ میگا پیکسلز کا زوم کیمرہ ہے، جو نہ صرف معیاری تصویر اتار تا ہے بلکہ 1080 ایچ ڈی ویڈیو فلم بھی بناسکتاہے۔ بعض ماڈلز میں 16 میگا پیکسلز کے کیمرے نصب ہیں۔ نئے سمارٹ فونز کے کیمروں میں کئی ایسے فنگشنز بھی شامل کردیے گئے ہیں جو اس سے پہلے صرف اعلیٰ معیار کے پروفیشنلز کیمروں میں ہی ملتے تھے۔

نئے سمارٹ موبائل فونز اب لیپ ٹاپ کی ہائی ریزلوشن سکرین کے ساتھ آرہے ہیں۔ اس طرح سمارٹ فونز کی نئی نسل، صرف فون ہی نہیں ہے بلکہ وہ بیک وقت ایک طاقت ور منی کمپیوٹر بھی ہے، ایک معیاری سٹل اور ویڈیو کیمرہ بھی ہے، ایک ڈیجٹل بک ریڈر بھی ہے، ایک جدید جی پی ایس بھی ہے جس سے آپ راستے معلوم کرسکتے ہیں اور اس کے سیٹلائٹ لنک کے ذریعے سڑکوں پر ٹریفک کی تازہ ترین صورت حال سے بھی باخبر رہ سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کلاک بھی ہے اور کلینڈر بھی۔​​

نئے سمارٹ فونز میں ٹی وی کی سہولت بھی موجود ہے اوران پر آپ اپنی پسند کے ٹی وی چینلزالائیو دیکھ سکتے ہیں۔ گویا ایک فون میں کئی ڈیجیٹل آلات کی خصوصیات کو اکٹھا کردیا گیا ہے۔

اکثر تجریہ کاروں کا کہناہے کہ آج ہمارے زیر استعمال بہت سے سائنسی آلات آئندہ پانچ سے دس برسوں میں روزمرہ زندگی سے نکل جائیں گے اور ان سب کی جگہ لے لے گا ایک سمارٹ فون، جو کمپیوٹر سے لے کر گھر کے الیکٹرانک آلات کو کنٹرول کرنے والے ریموٹ تک کی بجائے استعمال کیا جانے لگے گا۔
مستقبل کی اہم سائنسی ایجاد

جمعہ, جولائی 13, 2012

سائنسی سچائیاں جو سچ نہیں

جمیل اختر | واشنگٹن

دنیا بھر میں ایسے بہت سے نظریات ہیں، جنہیں ایک سائنسی حقیقت سمجھتے ہوئے ان پر یقین اور عمل کیا جاتا ہے۔ جب کہ ان کا عموماً سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اور اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو اسے غلط سیاق و سباق میں پیش کیا گیا ہوتا ہے۔

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بہت سی چیزوں پر انہیں سائنسی حقیقت یاطبی شعبے کی تحقیق سمجھ کر نہ صرف یقین کرلیتے ہیں بلکہ انہیں اپنے لیے فائدہ مند سمجھتے ہوئے عمل بھی کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ڈاکٹر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ایسی کئی سائنسی غلط فہمیوں کو سچ مان کر ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم چند ایسی سائنسی غلط فہمیوں کا ذکر کررہے ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی میں شامل ہوچکی ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت ایک سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرچکی ہے۔

روزانہ پانی کے آٹھ گلاس پینے چاہیں:
آپ نے اکثر یہ پڑھا اور سنا ہوگا کہ اچھی صحت کے لیے روزانہ پانی کے آٹھ گلاس پینے چاہیں۔ جب کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک انسان کو روزانہ کتنا پانی درکار ہوتا ہے؟ اس کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔ مثلاً اس کی رہائش سرد یا گرم علاقے میں ہے؟ اس کی عمر، وزن اور قد کاٹھ کتنا ہے؟ وغیرہ۔

آٹھ گلاس کے مفروضے کی بنیاد غالباً 1945ء میں نیوٹریشن کونسل کے تحت کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق ہے۔ جس میں بتایا گیا تھ کہ ایک بالغ انسان روزانہ 64 اونس یا تقریباً آٹھ گلاس مائع استعمال کرتا ہے۔ مائع سے مراد پانی، چائے، شربت، کھانے، پھلوں، سبزیوں اورخوراک کی دیگر اشیاء میں قدرتی طور پرموجود پانی ہے۔

خیال یہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ’مائع‘ کا لفظ پانی میں بدل گیا اور یہ جملہ کہ ایک بالغ انسان تقریباً آٹھ گلاس مائع روزانہ استعمال کرتا ہے، غلط العام ہوکر یہ بن گیا کہ ایک بالغ انسان کو روزانہ آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے۔

کم روشنی میں پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے:
عموماً ہر گھر میں بچوں کو کم روشنی میں پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ خیال عام یہ ہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ یہ مفروضہ اس لیے بھی حقیقت سے قریب لگتا ہے کہ اگرآپ کچھ دیر تک کم روشنی میں مطالعہ کریں تو آپ کو اپنی آنکھوں پر بوجھ محسوس ہوگا اور ممکن ہے کہ الفاظ کچھ دھندلے سے بھی لگیں۔

طبی ماہرین اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہناہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کے اعصاب پر دباؤ پڑسکتا ہے جس سے عارضی طور پر لفظ دھندلے دکھائی دے سکتے ہیں۔ لیکن آنکھوں کو کچھ دیر آرام دینے سے اس کے اعصاب اپنی جگہ پر واپس چلے جاتے ہیں اور بینائی اپنی اصل حالت میں لوٹ آتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کم روشنی میں پڑھنے سے نظر پر کوئی مستقل اثر انہیں پڑتا۔ بینائی کی کمزوری کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں۔

شیو کرنے سے بال گھنے اور تیزی سے نکلتے ہیں:
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ شیو کرنے سے بال نہ صرف تیزی سے نکلتے ہیں، بلکہ وہ گھنے بھی ہوتے ہیں اور ان کی رنگت بھی گہری ہوتی ہے۔ جب کہ اس نظریے کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس مفروضے کی سچائی جاننے کے لیے 1928ء میں ایک سائنسی تحقیق کی گئی تھی، جس سے پتا چلا تھا کہ شیو کا بالوں کے بڑھنے کی رفتار، ان کی موٹائی اور رنگت کے گہرا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ شیو کرنے کے بعد بال ایک صاف جلد پر نکلتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں اور دیکھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ بال پہلے سے گھنے ہوگئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ شیو کے دوران بلیڈ عموماً بالوں کو ترچھا کاٹتا ہے اور اپنے نوکیلے سروں کی بنا پر بال گھنے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر جلد پر پہلے سے بال موجود ہوں تو ان کے بڑھنے کا احساس ذرا کم ہوتا ہے۔ لیکن صاف جلد پر وہ نمایاں انداز میں بڑھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ماہرین نے جب شیو سے قبل اوراس کے بعد ایک مقررہ وقت کے دوران ان کی لمبائی میں اضافے کی پیمائش کی، تو وہ برابر نکلی۔

بالوں کی رنگت کا بھی شیو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصے تک دن کی روشنی میں رہنے سے بالوں کی رنگت قدرے کم پڑ جاتی ہے کیونکہ سورج کی روشنی میں رنگ کاٹنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جب کہ صاف جلد پر نئے بال ہمیں اپنے اصلی رنگ میں دکھائی دیتے ہیں، اس لیے ان کا رنگ گہرا لگتا ہے۔

ہم اپنے دماغ کا صرف دس فی صد حصہ استعمال کرتے ہیں:
عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کا بہت ہی کم حصہ استعمال کرتے ہیں، یعنی زیادہ سے زیادہ دس فی صد اور عام حالات میں محض تین سے پانچ فی صد تک۔ ایک سائنسی تخمینے کے مطابق انسانی دماغ میں ایک کھرب سے زیادہ نیوران ہوتے ہیں۔ نیوران وہ خلیے ہیں جو یاداشت اور دوسرے افعال کی انجام دہی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

دماغ کے سٹی سیکن اور اس کی کارکردگی جانچنے کی جدید ٹیکنالوجی کی دستیابی سے قبل ماہرین کا خیال تھا کہ دماغ میں موجود نیوران کی تعداد ہماری ضرورت سے کئی گنا زیادہ ہے اس لیے دماغ کا ایک بڑا حصہ استعمال میں ہی نہیں آتا۔ لیکن اب جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انسانی دماغ سو فی صد فعال ہے اور اس کا ہر حصہ مکمل طورپر کام کررہا ہے۔

انسان حواس خمسہ سے کام لیتا ہے:
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک مکمل انسان کے پاس پانچ قدرتی حواس ہوتے ہیں جن کے سہارے وہ اپنی زندگی گذارتا ہے۔ یعنی، دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے اورسونگھنے کی حس۔ پانچ حواس کا تصور قدیم یونانی مفکر ارسطو نے پیش کیا تھا، جسے ایک سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرلیا گیا۔ مگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خدا نے انسان کو پانچ سے زیادہ حواس دیے ہیں اور مختلف جائزوں کے مطابق ان کی تعداد 9 سے 20 کے لگ بھگ ہے۔ دیگر حواس میں درد، بھوک، پیاس، دباؤ، توازن، رفتار اورحرارت وغیرہ محسوس کرنے کی صلاحیتیں شامل ہیں۔ یہ وہ حواس ہیں جن کے بغیر زندگی گذارنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

جمعرات, جولائی 05, 2012

’سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کی بڑی قدر‘

سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ ’سرن‘ سے منسلک ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق سرن لیبارٹری کے ساتھ تیس کے قریب پاکستانی سائنسدان کام کررہے ہیں۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ انیس سو چورانوے میں سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا اور اس وقت سے اب تک تقریباً سو سے زائد سائنسدان سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔
سرن کے ہیڈرون کولائیڈر منصوبے سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق ایک وقت میں لیبارٹری میں پندرہ کے قریب سائنسدان کام کرتے ہیں اور باقی سائسندان پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو ویلیو ایڈیشن کہا جاتا ہے۔

’سرن سے مختلف مواد تحقیق کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہاں پاکستان میں اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف ماڈلز تیار کرکے واپس بھیجے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق نیشنل سینٹر فار فزکس اور پاکستان کے جوہری ادارے ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت اور قابلیت کی یورپ میں، خاص طور پر سرن سے متعلق کام کے حوالے سے بہت قدر کی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے چالیس سائنسدان سرن کے ساتھ کام کررہے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کی تعداد تیس ہے۔

’سرن میں بھارتی سائنسدان صرف ایک منصوبے میں جبکہ پاکستانی سائنسدان دو پراجیکٹس’سی ایم ایس اور ایلس‘ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس شعبے کو ( Experimental High Energy Physics) کہتے ہیں اور یہ سرن کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرن میں دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے سائنسدان کام کرتے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اس سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

’سرن میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں جو کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں، اور ان آلات پر ہمیں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘

ڈاکٹر حفیظ ہورانی سے سیکھے گئے تجربات اور علم کو دیگر پاکستانی سائنسدانوں تک منتقل کرنے کے لیے اس شعبے کو نصاب میں شامل کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

’سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کی بڑی قدر‘

کائنات کی تخلیق کی وجہ، اہم ذرّے کی تلاش کا دعوٰی

سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں نے ہگس بوسون یا ’گاڈ پارٹیكل‘ جیسے ذرے کی دریافت کا دعویٰ کیا ہے۔

ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

سائنسدان گزشتہ پینتالیس برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس نے یہ واضح ہوسکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے اور اس دریافت کا اعلان جنیوا میں ایل ایچ سی سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے کیا۔

گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کررہے تھے جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔

ایل ایچ سی میں ہگس بوسون کی تلاش کے لیے کیے گئے دونوں تجربات میں اتنی یقینی صورتحال سامنے آئی کہ اسے’دریافت‘ کا درجہ دیا جاسکے۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں کام کرنا باقی ہے کہ آیا سائنسدانوں نے جس کا مشاہدہ کیا وہی ہگس بوسون ہے یا نہیں۔

ہگس بوسون کی تھیوری کے خالق پروفیسر پیٹر ہگس ہیں جنہوں نے ساٹھ کے عشرے میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران پروفیسر پیٹر ہگس نے کہا کہ ’میں اس دریافت پر ہر اس فرد کو مبارکباد دینا چاہوں گا جو اس کارنامے کا حصہ ہے‘۔ 

پروفیسر پیٹر ہگس
انہوں نے کہا کہ ’مجھے حیرت ہے کہ سائنسدانوں نے میری زندگی میں یہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ چالیس سال پہلے تو لوگوں کو یہ معلوم تک نہیں تھا کہ وہ کیا تلاش کررہے ہیں۔ یہ حیرت انگیز پیش رفت ہے‘۔

اس موقع پر ’سرن‘ کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر رالف دائتر ہیوئر کا کہنا تھا کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے تو میں کہوں گا کہ ’ہم کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن ایک سائنسدان کی حیثیت سے مجھے پوچھنا پڑے گا کہ ہم نے کیا تلاش کیا ہے؟ ہمیں ایک ذرہ ملا ہے جسے ہم بوسون کہتے ہیں لیکن ہمیں پتہ لگانا ہے کہ یہ کس قسم کا بوسون ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک تاریخی سنگِ میل ہے لیکن تو ابھی آغاز ہے‘۔

سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیٹا میں ایک ’اٹھان‘ دیکھی جو کہ ایسا ذرہ تھا جس کا وزن ایک سو پچیس اعشاریہ تین گیگا الیکٹرون وولٹس تھا۔ یہ ذرہ ہر ایٹم کے مرکز میں موجود پروٹون سے ایک سو تینتیس گنا بھاری ہے۔

ان کے مطابق حاصل شدہ ڈیٹا کو جمع کرنے پر فائیو سگما یا پینتیس لاکھ میں سے ایک کی امکانی شرح پر انہیں یہ یقین ہوا کہ جو سگنل انہوں نے دیکھا ہے وہ ظاہر ہوگا۔ تاہم مکمل ڈیٹا ملانے پر یہ امکانی شرح بیس لاکھ میں سے ایک پر آگئی۔

سائنسدانوں کے ترجمان پروفیسر جو انکنڈیلا کے مطابق ’یہ ابتدائی نتائج ہیں لیکن ہم جو ایک سو پچیس گیگا الیکٹرون وولٹس پر فائیو سگما سگنل دیکھ رہے ہیں وہ ڈرامائی ہے۔ یہ درحقیقت ایک نیا ذرہ ہے‘۔ 

ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ پارٹیکل فزکس کے اس سٹینڈرڈ ماڈل یا ہدایتی کتابچے کا لاپتہ حصہ ہے۔ یہ سٹینڈرڈ ماڈل کائنات میں عناصر اور قوت کے باہمی رابطے کو بیان کرتا ہے۔

تحقیق سے وابستہ پروفیسر کالر ہیگن کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے فزکس کی ایک بنیادی تھیوری کی تصدیق ہوگی۔ ’یہ تحقیق لمبے عرصے سے جاری تھی، یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی جس سے بہت بڑی حد تک سٹینڈرڈ ماڈل کے سائنسی تصور کی تصدیق ہوجائے گی۔ ہمیں اس ذرے کی تلاش تھی اور ہمارے لیے یہ بےانتہا خوشی کی بات ہے کہ ہم ایک بڑی دریافت کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں‘۔

اگر یہ تصدیق ہوتی ہے کہ نیا دریافت شدہ ذرہ ہگس بوسون ہی ہے تو یہ اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافتوں میں سے ایک ہوگی۔ ماہرینِ طبعیات اس ذرے کو سنہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پہلی مرتبہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے برابر قرار دیتے ہیں۔

کائنات کی تخلیق کی وجہ، اہم ذرّے کی تلاش کا دعویٰ