امریکہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
امریکہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ, مارچ 01, 2013

کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے

واشنگٹن — امریکہ میں روز مرہ سفر کے دوران محسوس ہوا کہ لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور لوگوں کی اکثریت دوران سفر سمارٹ فون یا اسی نوعیت کی دوسری ڈیوائسز پر نظریں جمائے رکھتی ہے یا کتابوں میں کھوئی رہتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ سمارٹ فون یا اس طرح کی ڈیوائسز پر بھی اکثر لوگ کسی کتاب کی سافٹ کاپی کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔

چونکہ، پاکستان میں دورانِ سفر مطالعہ کرتے شاذ و نادر ہی کسی کو دیکھا تھا، اس لیے مجھے عجیب لگا کہ یہ بسوں اور ٹرینوں میں ہی کیوں پڑھائی میں لگے رہتے ہیں۔ ​​میں نے انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی پچاس ریاستوں اور دارالحکومت میں ایک لاکھ اکیس ہزار ایک سو ستر عوامی لائبریریاں ہیں اور حیران کن طور پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب سکولز کی ملکیت ہیں۔


ایک ریسرچ کے مطابق 75,76,278 نفوس پر مشتمل ریاست ورجینیا میں سالانہ تین کروڑ پچاس لاکھ افراد لائبریریوں میں جاتے ہیں، جو تقریباً چار وزٹ فی کس کے برابر ہے۔ اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی اتنی تعداد کا لائبریریوں کا رخ کرنے کی ایک وجہ یہاں ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں لائبریری کی موجودگی بھی ہے، جبکہ مقامی سطح پر عوامی لائبریری بنیادی ضروریات زندگی کا حصہ ہے اور حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

پاکستان میں بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ تو لائبریریاں ہوتی ہیں، لیکن سکولز کی سطح پر یا عوامی سطح پر ان کا کوئی خاص رحجان نہیں۔ لیکن، سوال یہ بھی ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق کتنا ہے؟ میں نے پاکستان میں گزارے کئی سالوں کے دوران اسلام آباد، لاہور، پشاور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کراچی اور ایبٹ آباد سمیت متعدد شہروں کا سفر کیا۔ لیکن، یہ تجربہ نہیں ہوا کہ لوگ بس سٹاپ پر کھڑے یا بس میں سفر کرتے کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوں.

​​ہمارے نظام تعلیم میں سکول کی سطح سے ہی نصابی کتب کے علاوہ کسی دوسری کتاب کے مطالعہ کو وقت کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے اور ہر سطح پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ امریکی سکول کی سطح پر ہی بچوں کو غیر نصابی کتب کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ سہولت فراہم کرتے ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تعلیم بطور قوم ہماری ترجیح نہیں، لیکن ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ امریکہ اپنی کل آمدنی کا 5.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان صفر 1.8 فیصد۔ جبکہ ہمارا پڑوسی بھارت اپنی کل آمدنی کا 4.1 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔

ہر جگہ مطالعے میں گم امریکیوں کو دیکھ کر میں نے اپنے ایک پاکستانی دوست سے کہا کہ ان کو پڑھنے کی بیماری ہے، میرے دوست کا جواب تھا کہ، کاش یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے۔ ۔!

کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے

پیر, دسمبر 31, 2012

ہندوؤں اور مسلمانوں سے نفرت ہے، امریکی خاتون

نیویارک پولیس کے حکام نے ایریکا میننڈز کو حراست میں لے لیا
امریکہ میں نیویارک پولیس نے ایک مقامی خاتون کو حراست میں لیا ہے، جس پر ایک بھارتی تارک وطن کو چلتی ہوئی ریل گاڑی کے سامنے دھکا دے کر قتل کرنے کا الزام ہے۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ 31 سالہ ایریکا میننڈز پر رواں ہفتے نفرت کی بنیاد پر قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ملزمہ نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ 2001ء میں امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد سے اسے ہندوؤں اور مسلمانوں سے نفرت ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 46 سالہ بھارتی شہری سنیڈو سین کوئینز ریلوے سٹیشن پر موجود تھا جب اسے امریکی خاتون نے ایک چلتی ریل گاڑی کے سامنے دھکا دے دیا۔ مسٹر سین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کوئینز کے علاقے ہی کے رہائشی تھے اور وہ ’پرنٹنگ بزنس‘ سے وابستہ تھے۔ امریکی عہدیداروں نے کہا ہے کہ اس واقعہ کی ہر پہلو سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
امریکی خاتون قتل کے الزام میں گرفتار

اتوار, دسمبر 02, 2012

امریکہ میں سام سنگ سرفہرست

سام سنگ گیلیکسی۔ فائل فوٹو اے ایف پی۔۔۔
سام سنگ نے امریکی موبائل مارکیٹ میں اپنی پہلی پوزیشن مزید مستحکم کر لی ہے جبکہ ایپل کمپنی اس درجے میں دوسرے نمبر پر آ گئی ہے۔ کام سکور کے سروے کے مطابق اکتوبر میں ختم ہونے والے تین ماہ کے عرصے تک جنوبی کوریا کی کمپنی ٹاپ مینوفیکچرر بن گئی ہے جبکہ اس مدت میں کمپنی کا مارکیٹ شیئر بھی 25.6 سے بڑھ کر 26.3 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ ایپل، جو صرف سمارٹ فروخت کرتی ہے، وہ پہلی دفعہ امریکی مارکیٹ میں دوسرے نمبر پر آگئی ہے جبکہ اس کا مارکیٹ شیئر 1.5 فیصد اضافے کے ساتھ 17.8 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ جنوبی کوریا کی ہی ایک اور کمپنی ایل جی 17.6 فیصد شیئر کے ساتھ تیسرے جبکہ موٹورولا 11 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔

سروے کے مطابق سمارٹ فون کی مارکیٹ میں گوگل اینڈرائیڈ سرفہرست ہے جس کا مارکیٹ شیئر 52.2 فیصد سے بڑھ کر 53.6 فیصد ہو گیا۔ سمارٹ فون میں بھی ایپل دوسرے نمبر پر براجمان ہے اور اس کا مارکیٹ شیئر 0.9 فیصد اضافے سے 34.3 فیصد ہو گیا ہے۔ دوسری جانب بلیک بیری کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے اور اس کا مارکیٹ شیئر 9.5 فیصد سے 7.8 فیصد تک گر گیا ہے جبکہ اکتوبر کے آخر میں مائیکروسافٹ کی جانب سے متعارف کرائے جانے والے ونڈوز فون 8 کے شیئر میں بھی کمی آئی اور اس کا شیئر 3.6 فیصد سے گر کر 3.2 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔
 

جمعہ, نومبر 30, 2012

کار 600 ڈالر کی، جرمانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ

شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ سچ ہے کہ امریکی شہر شکاگو میں ایک کار پر پارکنگ قواعد کی خلاف ورزی کے الزمات میں ایک لاکھ پانچ ہزار سات سو اکسٹھ ڈالر اور 80 سینٹ جرمانہ کیا گیا ہے اور عدم ادائیگی کی صورت میں سخت قانونی کارروائی کا نوٹس دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ جرمانے کا اعزاز حاصل کرنے والی کار کی مالیت اب تو شاید صفر ہو گی کیونکہ 2008 میں اس کے موجودہ مالک نے اسے صرف 600 ڈالر میں خریدا تھا۔

کرسچین پوسٹ اور سی بی این نیوز کی رپورٹس کے مطابق کار پر جب جرمانے کے ٹکٹ لگنے شروع ہوئے تو وہ شکاگو ایئرپورٹ کے اس حصے میں کھڑی تھی جو ہوائی اڈے کے کارکنوں کے لیے مختص ہے اور وہاں کسی عام شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ قواعد کے مطابق اس جگہ زیادہ سے زیادہ 30 دن تک گاڑی کھڑی کی جاسکتی ہے۔ جس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ عائد ہونے لگتا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کے مطابق مذکورہ کار کو آخری بار 17 نومبر 2009 کو پارکنگ لاٹ میں کھڑا کیے جانے کے بعد وہاں سے ہٹایا نہیں گیا۔ اس عرصے کے دوران کار پر 678 بار جرمانہ عائد کیا گیا، مگر کوئی اسے ہٹانے کے لیے نہیں آیا۔ کار کی مالکہ کا نام جینیفر فٹز گیرلڈ ہے۔ اس کی عمر 31 سال ہے اور وہ ایک بچے کی ماں ہے۔ جب کہ بچے کا باپ تین سال پہلے ان دونوں کو چھوڑ کر جا چکا ہے۔ جینیفر کا کہنا ہے کہ یہ کار اس کے بوائے فرینڈ پریویو نے 2008 میں 600 ڈالر کی خریدی تھی، لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ کار اس کے نام پر کیسے رجسٹر ہوئی۔ پریویو نے اسے کار کی رجسٹریشن کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔ جینیفر کے مطابق کار پریویو ہی کے استعمال میں رہی۔ وہ ایئرپورٹ پر ملازم تھا اور کام پر آنے جانے کے لیے یہی کار استعمال کرتا تھا۔ 2009 میں دونوں میں علیحدگی ہوگئی اور پریویو جاتے ہوئے کار اپنے ساتھ لے گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا، جینیفر کو کچھ معلوم نہیں۔ اسے اپنے نام کار کے رجسٹر ہونے کا پتا اس وقت چلا، جب اس کے ایڈریس پر جرمانے کے نوٹس آنے شروع ہوئے۔

جینیفر نے گاڑیوں کی رجسٹریشن کے دفتر میں جاکر انہیں بتایا کہ اس کا کار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے سابقہ بوائے فرینڈ پریویو کے نام پر ٹرانسفر کیا جائے۔ مگر دفتر نے انکار کردیا کیونکہ وہ مستند دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جینیفر نے جرمانے کی خط و کتابت سے چھٹکارہ پانے کے لیے متعلقہ دفتر سے رابطہ کرکے انہیں بتایا کہ وہ ایئرپورٹ کی پارکنگ سے کار باہر نہیں نکال سکتی کیونکہ اس حصے میں ایئرلائنز کے کارکنوں کے سوا کسی بھی شخص کا داخلہ ممنوع ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے پاس گاڑی کی چابی نہیں ہے۔ لیکن دفتر نے یہ کہتے ہوئے رعایت دینے سے انکار کر دیا کہ سرکاری دستاویزات میں کار کی مالکہ وہی ہے اور اسے وہاں سے ہٹانا اور جرمانے ادا کرنا اس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ جینیفر نے اس مشکل سے نکلنے کے لیے مختلف محکموں کے عہدے داروں اور وکیلوں سے رابطے شروع کیے، مگر لاحاصل۔ دن گذرتے رہے اور جرمانہ بڑھتا رہا۔

کار پر جرمانے کا آخری ٹکٹ 30 اپریل 2012 کو لگا، جس کے بعد محکمے نے اسے لاوارث گاڑیوں کے شعبے میں منتقل کر کے جینیفر کو نوٹس بھیجا کہ وہ 105761 ڈالر اور 80 سینٹ دے کر اپنی گاڑی لے جائے، یا پھر عدالت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ جینیفر کا سابقہ بوائے فرینڈ پریویو پارکنگ لاٹ میں کار چھوڑنے کے بعد کہاں چلا گیا، اگر پتا چل بھی جائے تو بھی اس کہانی میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ ملکیت کی دستاویزات میں کہیں بھی اس کا نام نہیں، اور گاڑی کی تمام تر ذمہ داری جینیفر پر عائد ہوتی ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ شکاگو کا پارکنگ جرمانوں کا شعبہ جینیفر کے خلاف قانونی کارروائی کر رہا ہے جب کہ جینیفر نے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس کی سماعت مئی 2013 میں متوقع ہے۔ چھ سو ڈالر میں خریدی جانے والی گاڑی کے ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ جرمانے کا مستقبل کیا ہوگا؟ کسی کو معلوم نہیں۔
 

جمعرات, نومبر 29, 2012

پاکستان نے ریمنڈ ڈیوس کے خلاف امریکا کو شواہد فراہم نہیں کئے

اسلام آباد: دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو سزا دینے کے لئے امریکی حکومت نے پاکستان سے شواہد مانگے لیکن پاکستانی حکام کی جانب سے شواہد دینے میں سرد مہری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ایکسپریس نیوز کو دستیاب دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ لاہورمیں سرعام دو پاکستانیوں کو قتل کرنے والے امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے خلاف امریکی حکومت اپنے ملک میں کارروائی کرنا چاہتی ہے اسی لئے امریکی سفارتخانے نے جون 2011 کو دفتر خارجہ کو خط لکھا جبکہ دوسرا خط 19 ستمبر2012 کو لکھا گیا۔

خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان امریکا کو مرنے والوں کی پوسٹ مارٹم اور آٹپسی رپورٹ، زخموں کی تصاویر، واقعہ میں ملوث کار کی تصاویر، ڈائیاگرامز، سی سی ٹی وی فوٹیج، ویڈیو اور متعلقہ تصاویر فراہم کرے۔ خط میں میڈیا پر اس حوالے سے ہونے والی کوریج کی سی ڈیز یا ڈی وی ڈیز، ریمنڈ ڈیوس اور دیگر افراد کے اسلحے، مرنے والے افراد کے جسم سے نکالی گئی گولیوں کی رپورٹ، جائے وقوعہ سے اٹھائے گئے گولیوں کے خالی خول، ریمنڈ ڈیوس کے زیر استعمال گاڑی کی اندرونی تصاویر، مرنے والوں کے کپڑے اور دیگر متعلقہ اشیاء اور فائرنگ میں ملوث موٹر سائیکل اور کار کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دفتر خارجہ نے نہ تو شواہد فراہم کئے اور نہ ہی امریکی ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت دی۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ واقعے کو 2 سال ہونے کو ہیں لیکن دفتر خارجہ اس حوالے سے تعاون نہیں کررہا۔ اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ اور وزارت خارجہ نے ایکسپریس نیوز کو ردعمل دینے سے بھی انکارکر دیا۔

پیر, نومبر 19, 2012

پاکستان میں بمبار ڈرون کی تیاری

جمعہ پندرہ نومبر کو لی گئی تصویر میں اسلحے کی بین الاقوامی نمائش (آئیڈیاز) میں
پائلٹ کے بغیر اڑنے والے پاکستانی جاسوس طیارے۔ اے پی تصویر
کراچی: پاکستان خفیہ انداز میں مقامی سطح پر ایسے خودکار ڈرونز بنانے کی کوشش کررہا ہے جو بمباری بھی کرسکیں۔ اس صنعت سے وابستہ ماہرین کے مطابق، پاکستان نے ابتدائی طور پر چند تجربات کئے ہیں لیکن ان میں نشانے میں درستگی کی کمی کے ساتھ ساتھ ہدف کو تباہ کرنے کی ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے۔

اسلام آباد کے دیرینہ اور قریب ترین دوست ملک چین نے پاکستان کو ہتھیاروں والے ڈرونز فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن ماہرین اب بھی چینی طیاروں کی صلاحیت کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہیں۔ پاکستان امریکہ سے بھی خودکار بمبار ڈرون کی فراہمی کا مطالبہ کرتا رہا تاکہ انہیں عسکریت پسندوں پر بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکے۔ واشنگٹن نے معاملے کی حساسیت اور دشمنوں کے خلاف ان کے استعمال پر شبہات کی بنیاد پر یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ امریکہ پاکستان کو غیر جاسوسی اور نگرانی کیلئے بغیر اسلحے والے ڈرون کی پیشکش کرچکا ہے لیکن پاکستان پہلے ہی ایسے کئی ڈرونز استعمال کررہا ہے۔

گزشتہ ہفتے کراچی میں اسلحے اور دفاعی ٹیکنالوجی کی ایک بین الاقوامی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے امریکی ضد کے جواب میں چین سے مدد لینے کا اشاریہ دیا تھا۔ ’ٹیکنالوجی کے ضمن میں غیر اعلانیہ رکاوٹ ختم کرنے کے لئے پاکستان چین سے بھی استفادہ کرسکتا ہے‘، راجہ پرویز اشرف نے کہا تھا۔

پاکستان خود اپنے بل پر بھی بغیر پائلٹ کے لڑاکا طیارے بنانے کی کوششیں کررہا ہے۔ ایک پاکستانی عسکری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر بتایا کہ اس مقامی ڈرون صنعت میں سویلین افراد بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

ایک سویلین جسے اس خفیہ منصوبے کا علم ہے نے بتایا کہ اب سے سات یا آٹھ ماہ قبل پاکستان نے اپنے ملک میں استعمال ہونے والے اٹلی کے ڈرون، فالکو میں راکٹ لے جانے کے لئے چند تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے بتایا کہ عسکری حکام ملک میں تیار شدہ تازہ ترین ڈرون، شہپر کے ساتھ بھی اسی قسم کے تجربات میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ شہپر کا غیر بمبار لڑاکا ورژن پہلی مرتبہ کراچی میں آئیڈیاز نمائش میں رکھا گیا تھا۔ اسی سویلین ماہر نے بتایا کہ چند طیاروں پر ہی اسلحے کی آزمائش کی گئی ہے اور لڑائی میں کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے۔

درستگی میں کمی
پاکستان کے پاس ہیل فائر جیسے لیزر گائیڈڈ میزائل بھی نہیں ہیں جو امریکی پریڈیٹر اور ریپر جیسے جدید ترین ڈرونز میں ایڈوانس ٹارگٹ سسٹم کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستانی افواج گائیڈ کے بغیر راکٹ استعمال کررہی ہے جن کا نشانہ بہت اچھا نہیں۔ پاکستانی میزائلوں میں غلطی کی گنجائش تیس میٹر تک ہے اور اگر ہوا ذیادہ تیز چل رہی ہو تو یہ ٹارگٹ سے تین سو میٹر دور بھی گرسکتے ہیں۔ سویلین ماہر نے بتایا۔ اور اگرپاکستان کو جدید ہیل فائر میزائل اور گائیڈنس سسٹم مل بھی جائے تب بھی ان کا وزن پاکستان میں تیار ہونے والے چھوٹے ڈرون کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ پاکستان میں تیارشدہ سب سے بڑے ڈرون، شہپر کے بازووں کا گھیر سات میٹر ہے جو پچاس کلوگرام وزن لے جاسکتا ہے۔ جبکہ امریکی ڈرون پریڈیٹر جو ایک وقت میں دو ہیل فائر میزائل لے جاسکتا ہے اس کے پروں کا گھیر اس سے دوگنا ہے اور وہ اس سے چار گنا ذیادہ وزن کے ہتھیار لے جاسکتا ہے۔ پھر شہپر ریڈیو نشریات پر کام کرتا ہے جبکہ پریڈیٹر عسکری سیٹلائٹ سے مدد لیتے ہیں۔ شہپر صرف ڈھائی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتا ہے جبکہ پریڈیٹر ڈرون اس سے پانچ گنا ذیادہ فاصلے تک جا سکتا ہے۔

چین کے ڈرونز
چینی حکومت نے پاکستان کو سی ایچ تھری نامی لڑاکا ڈرون کی پیشکش کی ہے جو ایک وقت میں دو لیزر گائیڈڈ میزائل یا بم کو اپنے ہدف تک لے جاسکتا ہے۔ چین نے پاکستان کو اپنے قدرے جدید سی ایچ فور ڈرون کی بھی پیشکش کی ہے جو امریکی ڈرون ریپر سے ملتا جلتا ہے اور ایک وقت میں چار میزائل یا بم لے جاسکتا ہے۔ یہ بات لائی زیاولی نے بتائی جو سی ایچ تھری اور فور بنانے والی سرکاری کپمنی ایئروسپیس لانگ مارچ انٹرنیشنل کے نمائندے ہیں۔ پاکستان کو چینی ڈرون کی خریداری سے قبل ان کی صلاحیتوں کے بارے میں جانچ کرنے کی ضرورت ہے لیکن شاید مستقبل میں یہ ممکن ہوسکے۔

دنیا میں برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل جیسے چند ممالک ہی ہیں جن کے بمبار ڈرون جنگوں میں کامبیابی سے آزمائے گئے ہیں۔

جمعرات, نومبر 15, 2012

امریکہ کے ساتھ رہنے سے کون انکاری ہے؟

اگرچہ اس بارے میں یقین کرنا دشوار ہے لیکن اپنی ریاستوں کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے جدا کرنے کے خواہش مندوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 6 نومبر کو ہوئے صدارتی انتخاب کے بعد وہائٹ ہاؤس کی سائٹ پر ”ہم ۔۔ عوام“ نام کے کالم میں ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم اس خواہش کو علیحدگی پسندانہ رجحان پہ محمول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ اس علیحدگی کا تعلق وفاقی سرکاری پالیسیوں سے جان چھڑانا ہے۔ امریکی واشنگٹن سرکار کو پسند نہیں کرتے۔ یوں ایسے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ماسوائے احتجاج کی ایک اور شکل کے مزید کچھ نہیں ہے۔ ویسے تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ مذاق میں شروع ہوا تھا۔

کچھ عرصہ قبل اس نوع کی ریاستوں میں بیس ریاستوں کے نام شامل تھے، جن میں ٹیکساس اور نیویارک جیسی بڑی ریاستوں کے نام بھی ہیں۔ پھر نیو جرسی، نارتھ اور ساؤتھ کیرولینا، الاباما، جارجیا، فلوریڈا اور دیگر ریاستیں بھی اس فہرست مں درج ہیں۔

13 نومبر کو ان میں 8 اور باغی ریاستوں کے نام شامل ہو گئے ہیں جن میں کیلیفورنیا، نیوادا، پینسلوانیا اور اوہائیو بھی ہیں۔ اس طرح کے احتجاج کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے، ماسکو سٹیٹ انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروریکٹر آرتیوم مالگین سمجھتے ہیں، ”انتخابی مہم کے دوران اس طرح کی معلومات کو سیاسی لطیفے کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ ایسے لطائف کے اثرات نہیں ہوا کرتے اور بھلا اثر ہو بھی کیا سکتا ہے۔“

مسئیہ تو کچھ اتنا عاقلانہ نہیں ہے تاہم ”وہائٹ ہاؤس“ نے اس کے لیے ایک کالم بنا دیا ہے۔ ”وی دی پیپلٴٴٴٴٴٴ‘ امریکہ کے دستور کے اولیں الفاظ ہیں، یوں امریکہ کے شہریوں کو براہ راست صدر کی انتظامیہ تک رسائی فراہم کی گئی ہے تاکہ سنا جاسکے کہ لوگ کس قسم کی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ باراک اوبامہ نے 2008 کی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی انتظامیہ کو بے مثل حد تک قابل رسائی بنائیں گے اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔

ایسی پٹیشن 13 سال سے زیادہ عمر کو کوئی بھی شہری ارسال کر سکتا ہے۔ 150 دستخط پورے ہو جانے کے بعد اسے ”وہائٹ ہاؤس“ کی سائٹ پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جب فہرست میں درج لوگوں کی تعداد پانچ ہزار ہو جائے گی تو وہائٹ ہاؤس کے وعدے کے مطابق، ایسی درخواست رسمی دستاویز کی شکل اختیار کر لے گی جس کا جواب دیا جانا لازمی ہوگا۔

کچھ پٹیشنوں پہ یہ تعداد دس پندرہ ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے یعنی مذاق سے شروع ہونے والی بات سنجیدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب تک وصول ہونے والی پٹیشنوں میں سے بیشتر گذشتہ ہفتے موصول ہوئی ہیں۔ اب تک کسی کا بھی سرکاری جواب نہیں دیا گیا۔ لگتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس طے نہیں کر پا رہا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ رہنے سے کون انکاری ہے؟

بن لادن کے قتل کا منصوبہ ساز سی آئی اے کا سربراہ

بیوی کے ساتھ بے وفائی کرنے کی خبر افشاء ہونے کے بعد سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ڈیوڈ پیٹریوس کے استعفے کے بعد مائیکل موریل کو سی آئی اے کا قائم مقام سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس کا پاک امریکہ تعلقات اور خاص طور پر سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟

مائیکل موریل کو ”اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والی سی آئی اے کی ٹیم“ کا سربراہ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے بارے تیاری میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ پس مائیکل موریل کے نئے عہدے پر تعیناتی کو خطے میں اچھا نہیں خیال کیا جائے گا، جغرافیائی سیاسی مسائل بارے اکادمی کے صدر کرنل جنرل لیوند ایواشوو سمجھتے ہیں، ”سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کو مثبت کی بجائے منفی لیا جائے گا۔ پاکستان کے لوگوں اور کلی طور پر خطے کے لوگ اس سے خوش نہیں ہونگے۔ اسامہ بن لادن جو اور جیسا بھی تھا وہ اسلامی دنیا کی بیشتر آبادی کے لیے اہمیت رکھتا تھا اور اس کے قاتل کو وہاں مطعون سمجھا جاتا ہے۔“

اس خطے کے ملکوں اور امریکہ کے تعلقات کی ایک دکھتی رگ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ ملحق علاقوں مین ڈرون طیاروں کے ذریعے کیے جانے والے حملے ہیں۔ ان حملوں میں جنگجو طالبان کے علاوہ عام پاکستانی شہریوں کا مارا جانا اب بھی جاری ہے۔ پھر مائیکل موریل کو ڈروں کے ذریعے حملوں کا بہت بڑا حامی خیال کیا جاتا ہے تاکہ پاکستان، افغانستان، یمن اور دیگر ملکوں میں اسلام پسند جنگجووں سے نمٹا جا سکے۔

پاک امریکہ تعلقات میں باہمی اعتماد کی فضا بے حد خراب ہے۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین تعاون بھی بحال نہیں ہو پایا ہے۔ اس برس کے ماہ اگست میں پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کے دورہ امریکہ کے متوقع نتائج برآمد نہیں ہو سکے تھے۔ پاکستان کے راستے نیٹو کے دستوں کو سامان پہنچائے جانے کا عمل معاہدے پہ دستخط ہو جانے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹرکوں اور ٹینکروں پہ طالبان جنگجووں کے حملے جاری ہیں۔

سی آئی اے کے نئے سربراہ مائیکل موریل پاکستان میں خاصے جانے پہچانے ہیں، شاید یہی ایک وجہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بااعتماد بنانے کے کام آ سکے۔
 

ہفتہ, نومبر 10, 2012

ڈرائیورکی نیند ختم کرنے والی ڈیوائس

چلتی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اگر آپ کی آنکھ لگ جائے اور ایسے میں گردن دائیں بائیں لڑھکنے لگے تو یہ کسی حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہے لیکن اب ایک ایسا آلہ بنا یا گیا ہے جو ڈرائیور کو سونے نہیں دے گا۔

سفر کے دوران نیند بہت خطرناک ہو سکتی ہے، کسی بھی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لئے امریکی سائنس دانوں نے ایک ایسی انوکھی ڈیوائس تیار کی ہے جس کی مدد سے دورانِ سفر اگر آپ کو نیند آئے تو یہ ڈیواس آپ کو ایک تیز سگنل بھیجے گی جس سے آپ کی نیند ختم ہو جائے گی۔ بس جب بھی آپ کو نیند آنے لگے تو اسے آن کر لیں اور بے فکر ہو جائیں۔ اس کا وزن بھی بہت ہلکا ہے یعنی صرف 16 گرام اور اسے استعمال کرنا بھی بہت آسان ہے۔ اس ڈیوائس کو پہننے والا شخص اپنے آپ کو انتہائی آرام دہ محسوس کرتا ہے۔

صدر اوباما رو پڑے

امریکی صدر باراک اوباما دوبارہ منتخب ہونے کے بعد نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روپڑے۔ شکاگو میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے باراک اوباما نے نوجوانوں کا اپنی انتخابی مہم میں انتھک محنت کرنے پرشکریہ ادا کیا۔ 

اس موقع پر باراک اوباما کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، انہوں نے کہا کہ انہیں انتخابی مہم کے کارکنوں پرفخر ہے اور خاص طور پر نوجوانوں نے جس محنت، محبت اور خلوص سے انتخابی مہم چلائی وہ میرے لئے قابل فخر ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ نوجوان ہی کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اورمجھے امید ہے ہم سب مل کرامریکا کی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

صدر اوباما نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رو پڑے

جمعہ, نومبر 09, 2012

امریکی صدور کی اولاد میں کوئی بیٹا نہیں

آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ گزشتہ بیس سال میں امریکا پر حکمرانی کرنے والے صدور کی اولاد میں کوئی بیٹا نہیں ہے۔

انیس سو بانوے اور چھیانوے میں دوبار امریکی صدر منتخب ہونے والے بل کلنٹن کی ایک ہی بیٹی ہے۔ 

سن دو ہزار اور دو ہزار چار میں جارج بش امریکا کے صدر بنے ان کی اولاد میں دو بیٹیاں شامل ہیں۔ 

اسی طرح دو ہزار آٹھ اور اس کے بعد حال میں ہی دوبارہ منتخب ہونے والے براک اوباما بھی دو بیٹیوں کے باپ اور بیٹے کی نعمت سے محروم ہیں۔
 

پاکستان میں امریکی ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: روس

روس کے محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ وزیر خارجہ سرگئی لاوروو کے اعلان نامہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لاوروو نے کہا کہ روس اور پاکستان نے پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے سے پہلے دو طرفہ معاشی تعاون کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا اور یہ کہ پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات مستحکم ہیں۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ روس پاکستان سے روابط کو ترقی دیتے ہوئے امریکہ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ ”ہم پاکستان کو انتہائی اہم ملک سمجھتے ہیں جس کے بغیر مسئلہ افغانستان کو حل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ہم پاکستان اور افغاستان کے درمیان مکالمے کا خیرمقدم کرتے ہیں“، روس کے وزیر خارجہ نے کہا۔

پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: روس

امریکی ڈرون پر ایران کی فائرنگ

امریکہ کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ خلیج پر پرواز کرنے والے ڈرون پر ایرانی جیٹ فائٹرز سے فائرنگ کی ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان جارج لٹل نے کہا کہ فائرنگ سے ڈرون کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی جیٹ فائٹرز نے بین الاقوامی فضائی حدود میں ڈرون پر فائرنگ کی۔ وزارت دفاع کا مزید کہنا ہے کہ یہ واقعہ یکم نومبر کو پیش آیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ امریکی صدر کو اس واقعے کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال ایران نے ایرانی فضائی حدود میں پرواز کرنے والا ڈرون مار گرایا تھا اور امریکہ کو واپس کرنے سے انکار کیا تھا۔ تاہم امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈرون فنی خرابی کے باعث گرا تھا۔ 

جارج لٹل کا کہنا ہے کہ یکم نومبر کے واقعے کے بعد امریکہ ڈرون کے ذریعے خلیج کی نگرانی کے لیے پروازیں جاری رکھے گا۔ ’امریکہ نے ایران کو مطلع کر دیا ہے کہ امریکہ خلیج میں بین الاقوامی فضائی حدود میں نگرانی کے لیے پروازیں جاری رکھے گا۔‘ وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ ڈرون ایران کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق ’ایران کے دو ایس یو 25 لڑاکا طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا۔ یہ فائر ڈرون کو نہیں لگے اور ڈرون کو واپس اڈے پر بلا لیا گیا۔‘ جارج لٹل نے مزید کہا ’ہمارے پاس اپنے فوجی اثاثے اور سکیورٹی فورسز کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت سی آپشنز ہیں جن میں سفارتی بھی ہیں اور فوجی بھی۔ جو بھی ضروری ہوگا وہ ہم کریں گے۔‘ امریکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ پالیسی کے تحت عام طور پر نگرانی کے مشن کی معلومات منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں لیکن اس بار وہ یہ معلومات عام کریں گے کیونکہ میڈیا کے کئی سوالات ہیں۔

امریکی وزارت دفاع کے مطابق ایران کے دو جنگی طیارے ایس یو 25 فروگ فٹ نے یکم نومبر کو آٹھ بج کر پچاس منٹ پر (جی ایم ٹی) امریکلی ڈرون طیارے پر فائرنگ کی۔ امریکی ڈرون معمول کی نگرانی کی پرواز پر ایران کے ساحل سے سولہ ناٹاکل میل دور تھا۔ جارج لٹل نے بتایا کہ بین الاقوامی فضائی حدود بارہ ناٹیکل میل کے بعد سے شروع ہوتی ہے اور ڈرون ایرانی حدود میں کسی وقت بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ ’اس سے پہلے کبھی بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جہاں ایرانی جنگی طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا ہو۔‘ جارج لٹل نے کہا کہ ہمارے خیال میں ایرانی جیٹ طیاروں نے دو بار فائر کیا۔ ’پہلی بار فائر کرنے کے بعد یہ طیارے گھوم کر واپس آئے اور فائر کیا۔ اس کے بعد بھی ایرانی جیٹ طیاروں نے ڈرون کا پیچھا کیا لیکن فائر نہیں کیا۔‘ دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ نے ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ نئی پابندیوں میں ایران کے وزیر مواصلات اور وزارت ثقافت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وزیر مواصلات پر پابندیاں اس لیے عائد کی گئی ہیں کہ انہوں نے انٹرنیشنل سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز کی نشریات کو جیم کرنے اور انٹرنیٹ کی رسائی محدود کرنے کا حکم دیا ہے۔

امریکی ڈرون پر ایرانی جیٹ طیاروں کی فائرنگ

ہفتہ, نومبر 03, 2012

امریکی طوفان سینڈی ہارپ کی کارستانی

نصرت مرزا

راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے روزنامہ ”جنگ“ میں دو مرتبہ ہارپ ٹیکنالوجی کی تباہ کاریوں کے بارے میں لکھا، پہلی مرتبہ 28 اگست 2010ء کو جب پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا اور دوسری مرتبہ جب جاپان میں 11 مارچ کو تباہی پھیلی تو 23 مارچ 2011ء کو ”جنگ“ میں کالم چھپا۔ اس سونامی نے جاپان کے ایٹمی ری ایکٹر کو بھی متاثر کیا۔ دونوں مرتبہ ہم نے لکھا تھا کہ ہارپ کی ٹیکنالوجی امریکہ نے حاصل کرلی ہے اور وہ دنیا بھر میں زلزلہ، سیلاب، طوفان اور سونامی لاسکتا ہے۔ ہم نے ان دونوں مضامین میں ساری تفصیلات لکھ دی تھیں کہ ہارپ کی مشین الاسکا میں واقع ہے اور وہاں 180 مائیکرویو انٹیناز کے ذریعے 3 گیگا واٹ کی انرجی حاصل کرکے اس کو Innosphere کے نظام میں ڈال کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ہم نے برملا لکھا تھا کہ پاکستان کا 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب ہارپ کی کارستانی ہے اور جاپان کا سونامی اس کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ ہم نے ہیٹی، ایران، چین اور روس کے نقصانات کا ان مضامین میں احاطہ نہیں کیا تھا مگر وہ بھی ہارپ کے مرہون منت تھے۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ قدرت کے نظام کو چھیڑ دیا گیا ہے۔ اب نہ جانے نقصانات کہاں پر جاکر رکیں گے اور کیا خود امریکہ اس کی زد میں آجائے گا، سو اب امریکہ کو اس کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔

سینڈی نامی طوفان امریکہ کے مشرقی ساحلوں سے ٹکڑنے سے 6 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ نیویارک سُونا ہوگیا اور اس کی تمام ٹرینوں کی آمدورفت رک گئی ہے۔ واشنگٹن کا شہر بند کردیا گیا، دکانیں اور ڈیڑھ لاکھ گھروں کو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی، ورجینیا اور نیوجرسی میں پانی داخل ہوگیا، ایٹمی ری ایکٹر، آئل ریفائنری بند کردی گئی، خوراک کے حصول کے لئے متاثرین کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ طوفان کے باعث پہلی بار اقوام متحدہ کے دفاتر، سٹاک مارکیٹس بند کرنا پڑی ہیں۔
اس کے نقصانات کا تخمینہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور نقصانات میں مزید اضافے کا اندیشہ بدستور موجود ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ اس طوفان کو معمولی نہ سمجھا جائے، دس ہزار کے قریب پروازیں معطل کی جاچکی ہیں، 9 ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، ساحلی علاقوں سے لاکھوں افراد کو نکال تو لیا ہے۔ اوباما اور رومنی کی انتخابی مہم معطل ہوگئی ہے اور وقت مقررہ پر امریکی صدارتی انتخابات کا انعقاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ عذاب الٰہی ہے اور اللہ کے نظام کو چھیڑنے کا نتیجہ ہے یا پھر ہارپ کی کارستانی ہے۔ امریکہ میں کئی ویب سائٹس اس کو ہارپ کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔ ان کا 28 ہارپ Sensors جو پورے امریکہ میں لگے ہیں وہ تاریخ کے مضبوط ترین اور تباہ کن ہارپ کے حملہ کی اطلاع دے رہے ہیں اور 1-10 کے اسکیل میں کانٹا 10 پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے آگے پیمائش کی اُن کے پاس گنجائش نہیں ہے۔ وہاں اس قدر سفید بادل اور لہریں ہیں جو قدرتی نظر نہیں آتی اور کئی سائنسدان اور کالم نگار جن میں ایک الیکس تھوس شامل ہے وہ کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ پر ہارپ سے حملہ ہوگیا ہے۔ ممکن ہے یہ حملہ کسی اور جگہ کرنا ہو اور غلطی سے امریکہ کا رُخ کر گیا ہے مگر یہ طوفان قدرتی نہیں، مصنوعی ہے اس پر سب کو اتفاق ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہارپ کا حملہ اس لئے کیا گیا تاکہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اور یہ کہ صدر بارک اوباما کو مزید حکمرانی کا موقع مل جائے کیونکہ اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوسکتے مگر کئی تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان نقصانات کا نزلہ اوباما پر ہی پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ جیسا کہ امریکی سیاسی پنڈت کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگ جائے اور دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے لے۔ امریکہ کے سیاسی پنڈت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکی انتظامیہ کا دعویٰ درست نہیں ہے کہ تباہ کاری مشرقی ساحل پر بھی ہوگی۔ اُن کا کہنا ہے کہ تباہی زیادہ آبادی کے علاقوں تک پھیلے گی۔ اب سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ امریکہ اپنے ہی ملک کے لوگوں پر ہی حملہ آور ہوگیا ہے۔

9/11 کے واقعے کے بعد 29 اکتوبر 2012ء کو امریکہ دوبارہ اپنے عوام کو تکلیف اور اذیت میں مبتلا کرکے عالمی جنگ چھڑوانے کا ارادہ رکھتا ہے یا پھر اُس کا کوئی اور منصوبہ ہے، آنے والے چند دن اس بات کو واضح کردیں گے۔ مگر دنیا کے لئے کوئی اچھی خبر منتظر نہیں ہے۔ اس طوفان کے بعد امریکہ کا کیا رویہ ہوگا وہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔

روزنامہ جنگ، جمعہ 16 ذوالحجہ 1433ھ 2 نومبر 2012ء

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

اسامہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر تھے، کمیشن کی رپورٹ

ایبٹ آ باد کمیشن کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں اور تحقیقاتی رپورٹ جلد حکومت کو پیش کردی جائے گی۔ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ، انٹیلی جنس چیفس ائرچیف، متعلقہ حکام اور عینی شاہدین سمیت دو سو افراد کے بیانات قلمبند کرنے، ایبٹ آ باد اور پاکستانی فضائی حدود کے جائزے اور اسامہ کمپاؤنڈ کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسامہ بن لادن اسی کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر تھے۔

کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسامہ بن لادن نو گیارہ کے حملوں کے بعد قندھارسے روپوش ہوکر اکتوبر یا نومبر دو ہزار ایک میں کراچی پہنچا۔ اس کے ہمراہ ابراہم آکا اور ابو احمد الکویتی بھی تھے۔ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق دو ہزار دو میں اسامہ بن لادن اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پشاور آئے جہاں وہ چند دن قیام کے بعد سوات روانہ ہوگئے۔ سوات میں قیام کے دوران خالد شیخ محمد نے اسامہ بن لادن سے ملاقات کی اور دو ہفتے اسامہ کے ہمراہ قیام کے بعد روالپنڈی روانہ ہوگیا۔ ایک ماہ بعد خالد شیخ محمود کو راولپنڈی سے گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد اسامہ بن لادن ہری پور منتقل ہوگیا۔

اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کے خون کے نمونے حاصل کرنے کے لیے سی آئی اے نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات حاصل کیں۔ شکیل آفریدی اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کے خون کے نمونے حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکی جاسوسی نیٹ ورک ابو احمد الکویتی کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

آپریشن ٹائم لائن۔ امریکی فورسز کی جلال آباد سے روانگی۔ 2300 - 2310 پاکستانی فضائی حدود میں داخلہ۔ 2320 دو بلیک ہاکس ایبٹ آباد پہنچ گئے۔ 0030 ایک بلیک ہاک ناکارہ ہوا۔ 0031 متبادل شینوک ہیلی کاپٹر کی آمد۔ 0040 آپریشن کا دورانیہ۔ 0030 سے 0106 امریکی ہیلی کاپٹروں کی واپسی۔ 0106 ناکارہ بلیک ہاک تباہ کیا گیا۔ 0106 رسپانس فورسز اور پولیس کی جائے وقوعہ پر آمد۔ 0115 سے 0130 آرمی چیف کی ائر چیف سے گفتگو۔ 0207 پہلے شینوک کا پاکستانی حدود سے اخراج۔ 0216 دوسرے شینوک اور بلیک ہاک کا پاکستانی حدود سے اخراج۔ 0226 پاکستانی ایف سولہ طیاروں کی مصحف ائربیس سے پرواز۔ 0250 آرمی چیف کا وزیراعظم کو ٹیلی فون۔ 0300 ایف سولہ طیاروں کی ایبٹ آباد آمد۔ 0315 آرمی چیف کا ایڈمرل مائیک مولن کو فون۔ 0500 آرمی چیف نے صدر کو آگاہ کیا۔ 0645 آپریشن میں شریک امریکی سیل نے پشتو میں مقامی افراد کو گھروں میں رہنے کو کہا۔

ابرار اور اس کی بیوی کو امریکی فورسز نے گراؤنڈ فلور پر قتل کردیا تاہم ان کے بچے محفوظ رہے۔ آپریشن شروع ہوتے ہی اسامہ کا بیٹا ابراہیم ، بیٹی سمیعہ، مریم اور ان کے بچے اپنے والد کے پاس تیسری منزل پر پہنچ گئے۔ انہوں نے حملہ کردیا ہے۔ ہر کوئی پرسکون رہے اور کلمہ پڑھے۔ اسامہ بن لادن کی بچوں کو ہدایت اسامہ کا بیٹا خالد بچوں کی مدد کے لیے نچلی منزل پر جاتے ہوئے امریکی سیلز کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اسامہ بن لادن نے اپنے اہل خانہ کو ہدایت کی وہ ان سے دور رہیں کیونکہ آنے والوں کا نشانہ ان کی ذات ہے، اسامہ نے غیرمعمولی حالات کے پیش نظر اپنا پستول نکال لیا اور شیلف میں گرینیڈ کی تلاش شروع کردی۔ قدموں کی آواز سن کر اسامہ بن لادن پلٹا لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ امریکی سیل کی گولی اس کی ماتھے کو چیر کر عقبہ دیوار میں پیوست ہوگئی۔ باپ کو گولی لگتے ہی سمیعہ اور اسامہ کی بیوی امل امریکی کمانڈوز پر جھپٹ پڑیں۔ کمانڈوز کی گولی سے امل کا گھٹنہ زخمی ہوا جبکہ سمیعہ پر تشدد ہوا۔ سمیعہ اور مریم نے امریکی سیلز کواپنے بیان میں تصدیق کی کہ مرنے والا شخص اسامہ بن لادن ہے۔

امریکی کمانڈوز اپنے ہمراہ اسامہ بن لادن کے زیر استعمال بعض اہم اشیا، چھ کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈرائیوز اور دیگر اشیا ساتھ لے گئے۔ شینوک ہیلی کاپٹر اسامہ کا جسد خاکی لے کر سیدھا افغانستان جبکہ بلیک ہاک پاکستانی حدود میں ری فیولنگ کے بعد قندھار پہنچا۔ آپریشن کے دوران پاکستان ائرفورس کی جانب سے کسی ردعمل سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی فضائی حدود میں اواکس طیارے محو پرواز رہے۔

اسامہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر تھے، کمیشن کی رپورٹ

جمعرات, ستمبر 20, 2012

پاکستان: امریکی قونصل خانے بند؛ ویزا سروس معطل

پاکستان میں جاری امریکہ مخالف احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر ملک میں تمام امریکی قونصل خانے بند کردئے گئے ہیں اور سفارت خانے میں ویزا سروس معطل کردی گئی ہے، امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا۔ موصوفہ نے مزید بتایا کہ پاکستان میں متعین سبھی سفارت کاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں۔

یاد رہے کہ عرب دنیا میں ”مسلمانوں کی معصومیت“ نامی امریکی فلم کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ پاکستان، یمن، لبنان، لیبیا اور دیگر ملکوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہوئی جھڑپوں کے نتیجے میں دسیوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں تمام امریکی قونصل خانے بند؛ سفارت خانے میں ویزا سروس معطل

جمعہ, ستمبر 07, 2012

امریکہ ڈرون طيارے فروخت كرنے كے لئے تیار

پينٹاگون كے ايک سينئرعہدے دار نے ميڈيا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنيا كے کئی ممالک ڈرون طيارے خريدنے ميں دلچسپی ركھتے ہيں جس كے لئے محكمہ دفاع کی نئی گائيڈ لائن كے تحت امریکی ڈرون طيارے خريدنے كے اہل 66 ممالک کی ایک فہرست تيار كرلی گئی ہے۔ تاہم انھوں نے ان ممالک كے نام نہيں بتائے۔

انہوں نے كہا كہ ڈرون طياروں کی فروخت كے لئے كانگريس اورمحكمہ خارجہ کی منظوری بھی ضروری ہے جس کے بعد ہی كوئی فيصلہ كيا جائے گا۔

امریکی محكمہ دفاع نے ڈرون طيارے فروخت كرنے كے لئے 66 ممالک كواہل قراردے ديا