جمعرات, اگست 01, 2013

نیلم وادی؛ سیاحوں کی نئی جنت

پاکستان سے ایسی کم ہی خبریں سننے کو ملتی ہیں، جن میں کامیابی یا خوشی کا عنصر پایا جاتا ہو۔ اس دوران ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحت کا شعبہ بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔

2005ء میں آنے والے زلزلے اور عسکریت پسندی کے خوف نے آزاد کشمیر میں سیاحت کے شعبہ کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ تاہم اب ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی شہری سیر و سیاحت کی غرض سے اس خطے کا رخ کررہے ہیں۔ اِن پاکستانی سیاحوں کے لیے جھیلیں، گلیشیئرز اور وادی نیلم سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں۔

غیر ملکی خاص طور پر مغربی ممالک کے سیاحوں نے گزشتہ کئی برسوں سے آزاد کشمیر انا چھوڑ دیا ہے۔ اس کی وجہ علاقہ میں عسکریت پسندوں کے تربیتی مراکز کی خبریں بنی تھیں۔ تاہم زلزلہ کے بعد چین کی جانب سے تعمیر کی جانے والی نئی سڑک اور بھارت کے ساتھ فائر بندی معاہدہ کے بعد سیاحوں کی آمد کا سلسلہ دوبارہ  شروع ہوا۔

آزاد کشمیر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ چھٹیاں منانے والے جنوبی پنجاب کے ایک وکیل محمد عامر نے بتایا ’’کچھ ڈر اور خوف تو ہے لیکن ہم خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں‘‘۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی طالبہ منزہ طارق کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ وہ بتاتی ہے، ’’جون کے مہینے میں غیر ملکی کوہ پیماؤں پر کیا جانے والا حملہ پاکستان کے دشمنوں نےکیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد کراچی سے ہمارے رشتہ داروں نے خیریت کے فون کئے لیکن ہم خود کو یہاں محفوظ محسوس کرتے ہیں‘‘۔

سیاحت کے فروغ کی مقامی وزارت سے تعلق رکھنے والی شہلا وقار نے بتایا کہ 2010ء میں گھومنے کے لیے وادی نیلم آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تھی جبکہ گزشتہ برس یہ بڑھ کر چھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے؛ ’’مظفرآباد سے ملانے والی اُس سڑک کی تعمیر کے بعد سیاحت کو مزید فروغ حاصل ہوا جو چینیوں نے تعمیر کی ہے۔ مظفرآباد سے وادی نیلم تک سڑک بہت ہی خوبصورت ہے‘‘۔ یہ علاقہ انتہائی پرسکون ہے اور یہاں دہشت گردی کا خطرہ بھی نہیں ہے۔

علاقہ کے ڈپٹی کمشنر محمد فرید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وادی نیلم میں رجسٹرڈ گیسٹ ہاؤسز کی تعداد 115 ہے جبکہ 2010ء میں یہاں ایک بھی گیسٹ ہاؤس موجود نہیں تھا۔

بالائی نیلم کی گریس وادی کا خوب صورت گائوں تائو بٹ
آزاد کشمیر کے وزیر سیاحت عبدالسلام بٹ نے بتایا کہ غیر ملکی کوہ پیماؤں کو قتل کرنے کے واقعہ نے پاکستان میں سیاحت کو شدید نقصان پہنچایا ہے لیکن اس کا کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ صرف مقامی سیاح ہی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ’’ہم نے تمام ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کو تاکید کی ہے کہ دس بجے تک مرکزی دروازوں کو بند کر دیا جائے‘‘۔

سیاحت کے فروغ سے ملک کے اس غریب ترین خطہ کی معیشت پر مثبت اثرات پڑ رہے ہیں۔ پہلے اس علاقہ کے لوگ گھر بار چھوڑ کر دور دراز کے علاقوں میں محنت مزدوری کے لئے جاتے تھے لیکن اب ایک بڑی تعداد کو اپنے آس پاس ہی روزگار ملنا شروع ہو گیا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔