جمعہ, نومبر 23, 2012

چین: 90 دنوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت کی تعمیر کا منصوبہ

اس عمارت کا نقشہ تیار کرنے والے وہی انجینیئرز ہیں جنہوں نے دبئی میں ’برج الخلیفہ‘ پر بھی کام کیا تھا۔ برج الخلیفہ 828 میٹر کے ساتھ اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ چین کی ایک تعمیراتی کمپنی نے کہا ہے کہ اس کے پاس ایک ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کی مدد سے وہ دنیا کی سب سے بلند عمارت برسوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ صرف چند ہفتوں میں تعمیر کرسکتی ہے۔ بورڈ آف سسٹین ابیل بلڈنگ کارپوریشن نے اس ہفتے تعمیرات سے متعلق ایک جریدے ’کانسٹرکشن ویک‘ کو بتایا کہ اسے سوفی صد یقین ہے کہ وہ 220 منزلہ ایک عمارت، جس کا شمار دنیا کی سب سے بلند عمارت کے طور پر کیا جائے گا، صرف 90 دنوں میں کھڑی کرسکتی ہے۔ کمپنی چین کے جنوب وسطی شہر چانگشا میں 838 میٹربلند ایک دیو ہیکل عمارت تعمیر کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جس میں 31 ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش موجود ہوگی۔

دنیا کی اس سب سے بلند عمارت کو بنانے کے لیے پہلے سے تیار شدہ حصوں کو جوڑنے کی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن میں پانچ منزلیں تعمیر کرے گی۔ سسٹین ایبل بلڈنگ کارپوریشن نے کہا ہے کہ وہ حکومت سے منظوری ملنے کے بعد اس سال کے آخر میں عمارت کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو 90 دن کے اندر اپنی تکمیل کے بعد دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہونے کا اعزاز حاصل کرلے گی۔ کمپنی کے بیان کے مطابق 31 ہزار افراد کی گنجائش رکھنے والی اس عمارت میں ان کے لیے ہسپتال، سکول، شاپنگ سینٹر، دفاتر اور شہری زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہوں گی ۔

مستقبل کی اس سب سے بلند عمارت کا نقشہ برج خلیفہ تعمیر کرنے والے ماہرین نے بنایا ہے۔ دبئی میں واقعہ برج خلیفہ کا شمار اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ عمارت 828 میٹر بلند ہے جب کہ چانگشا میں بنائی جانے والی عمارت کی بلندی اس سے دس میٹر زیادہ ہوگی۔ اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوگا کہ اس کی تکمیل 90 دن کی ریکارڈ کم مدت میں ہوگی۔

چین: 90 دنوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ

گوگل ميپ کے ايک جزيرے کا کوئی وجود نہيں

آسٹريلوی سائنسدانوں کی ايک ٹيم نے يہ پتہ چلايا ہے کہ گوگل ميپس اور بعض دوسرے مشہور نقشوں ميں بھی ايک ايسا جزيرہ دکھايا گيا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہيں ہے۔ ايک طبقات الارضی مہم کے دوران آسٹريليا کے سائنسدانوں نے يہ پتہ چلايا ہے کہ جنوبی بحرالکاہل کا ايک جزيرہ جسے گوگل ميپس کے عالمی نقشوں ميں دکھايا جاتا ہے، کوئی وجود ہی نہيں رکھتا۔ آسٹريلوی سائنسدانوں نے اس پراسرار جزيرے کا سراغ لگانے کی بہت کوشش کی ليکن وہ ناکام رہے۔

گوگل ارتھ اور ورلڈ ميپ ميں يہ جزيرہ سينڈی آئی لينڈ کے نام سے آسٹريليا اور فرانس کے زير حکومت نيو کيليڈونيا کے درميان دکھايا گيا ہے۔ TIMES کے ورلڈ ايٹلس ميں اس جزيرے کو سيبل آئی لينڈ کا نام ديا گيا ہے۔ ايک آسٹريلوی بحری تحقيی جہاز کے موسمياتی نقشوں ميں بھی اس جزيرے کو دکھايا گيا ہے ليکن جب اس جہاز نے جزيرے کو ديکھنے کے ليے سفر کيا تو اُسے بھی يہ جزيرہ کہيں بھی نہيں ملا۔ سڈنی يونيورسٹی کی ڈاکٹر ماريا سيٹون نے جہاز کے 25 روزہ سفر کے بعد خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا: ’’يہ جزيرہ گوگل ارتھ اور دوسرے نقشوں پر دکھايا گيا ہے اور اس ليے ہم اس کی تصديق کرنا چاہتے تھے ليکن ہميں يہ جزيرہ کہيں نہيں ملا۔ ہم حيران ہيں۔ آخر نقشوں ميں يہ کيوں دکھايا گيا ہے؟‘‘

اس نظر نہ آنے والے جزيرے پر سوشل ميڈيا ميں بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس ميں چارلس لائڈ نے لکھا کہ يہ جزيرہ، ’سينڈی آئی لينڈ‘ ياہو ميپس اور بنگ ميپس ميں بھی دکھايا گيا ہے۔ ايک اور شخص نے لکھا کہ اُس نے فرانس کے ہائڈرو گرافک آفس سے يہ معلوم کرليا ہے حقيقتاً اس جزيرے کا کوئی وجود نہيں ہے اور اسے 1979 منں چارٹس سے مٹا ديا گيا تھا۔

گوگل نے اس بارے ميں کہا کہ وہ اپنے نقشوں کے بارے ميں آراء کو خوش آمديد کہتا ہے اور وہ لوگوں اور مستند ساتھيوں سے ملنے والی معلومات کو گوگل ميپس ميں جگہ دينے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے۔ گوگل کے ايک ترجمان نے خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ وہ قابل اعتماد پبلک اور تجارتی ڈيٹا کی مدد سے اپنے استعمال کرنے والوں کو نقشوں کے بارے ميں تازہ ترين اور بھرپور معلومات فراہم کرتے ہيں۔ ترجمان نے يہ بھی کہا کہ نقشوں اور جغرافيے کے بارے ميں ايک دلچسپ بات يہ ہے کہ دنيا مسلسل تبديل ہو رہی ہے۔

گوگل ميپ کے ايک جزيرے کا کوئی وجود نہيں

بلیو کارڈ سکیم کا جرمنی میں مستقبل

بلیو کارڈ کیا ہے؟ اس بارے میں زیادہ لوگوں نے ابھی تک کوئی خاص دھیان نہیں دیا ہے۔ یہ امریکی گرین کارڈ کا یورپی ورژن ہے۔ چونکہ یہ کارڈ نیلے رنگ کا ہے، اس لیے اسے بلیو کارڈ کہا جا رہا ہے۔

غیر ملکی ہنر مند افراد کو یورپی یونین میں ملازمتوں کے موقع فراہم کرنے والے اس پروگرام کے بارے میں جرمنی میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لی جا رہی۔ شاید اس حوالے سے جرمنی کو ابھی مزید محنت کرنا ہو گی۔

اگست میں متعارف کروائے گئے اس ’جاب پرمٹ‘ کا مقصد یہ تھا کہ ملازمت کے خواہاں اعلی تربیت یافتہ افراد کو کم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے۔ تب سے ہی ایسے ہنر مند افراد جو یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے تعلق نہیں رکھتے، انہیں ملازمتوں کے حصول کے حوالے سے درپیش مسائل میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ بلیو کارڈ کی بدولت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان ایسی ملازمتیں کر سکیں گے، جن سے وہ سالانہ 44 ہزار آٹھ سو یورو تک کما سکیں گے۔ اس کارڈ سے قبل سالانہ 66 ہزار یورو تک کمانے کی اجازت تھی۔ ’جاب پرمٹ‘ جیسے بلیو کارڈ کا نام دیا جا رہا ہے، ابتدائی طور پر تین برس کے لیے جاری کیا جائے گا۔ اس کارڈ کی کامیابی کے حوالے سے جرمنی کے مختلف حلقوں میں ایک بحث جاری ہے۔ جرمن چیمبر آف انڈسٹریز اینڈ کامرس سے منسلک Stefan Hardege کے بقول یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ سکیم ناکام ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جرمن حکومت کو اس حوالے سے اپنی ’جاب مارکیٹ‘ کو دلکش بنانے کے لیے مزید کوشش کرنا ہو گی تاکہ ہنر مند افراد کو زیادہ مؤثر انداز میں متوجہ کیا جا سکے۔

جرمنی میں انضمام و مہاجرت SVR نامی کونسل سے وابستہ Gunilla Fincke بھی کہتی ہیں کہ بلیو کارڈ کو ابھی سے ہی ناکام قرار دے دینا مناسب نہیں ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی عشروں کے بعد جرمنی کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ یہ ایک ’نان امیگریشن‘ ملک ہے اور اب پہلی مرتبہ ایک ایسا قانون بنا دینے سے یہ توقع نہیں کرنا چاہیے کہ برسوں پرانا یہ تاثر راتوں رات ہی ختم ہو جائے گا۔

جرمنی میں ملازمتوں کے مواقع  
جرمنی میں متعدد صنعتوں میں کئی برسوں سے ہی ہنر مند افراد کی کمی پائی جا رہی ہے۔ کار سازی اور انجنیئرنگ کے علاوہ تحقیق اور نرسنگ میں بھی اعلیٰ تربیت یافتہ افراد کا نہ ہونا ایک مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ Hardege کہتے ہیں کہ یہ ایسے شعبے ہیں، جہاں کئی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف یہ صنعتیں بلکہ اس کے علاوہ ٹریڈ کے شعبے میں بھی ہنر مند افراد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ لیبر مارکیٹ پر تحقیق کرنے والے ایک انسٹی ٹیوٹ IZA کے ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں 2020ء تک دو لاکھ 40 ہزار انجنیئروں کی کمی پیدا ہو جائے گی۔

کولون انسٹی ٹیوٹ برائے اقتصادی تحقیق IW سے منسلک کرسٹوف میٹزلر کے خیال میں غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے جرمنی میں ملازمت کرنے کے حوالے سے بلیو کارڈ ایک واضح اور مثبت اشارہ ہے۔ تاہم وہ قائل ہیں کہ اس حوالے سے ایک جارحانہ تشہیری مہم کی ضرورت بھی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کی 12 سو پچاس کمپنیوں نے کھلے عام کہہ رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی ہنر مند افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ڈگری اور قابلیت کو تسلیم کرنا
جرمنی میں سکونت پذیر ایسے بہت سے افراد کو ملازمتیں تلاش کرنے میں مسائل کا سامنا رہا ہے، جنہوں نے بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ اکثر اوقات ایسے افراد کی ڈگری یا قابلیت کو سرکاری طور پر تسلیم نہں کیا جاتا رہا، اس لیے وہ اپنے شعبے میں ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ کرسٹوف میٹزلر حکومت کی طرف اس رکاوٹ کو بھی دور کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے 'bq-portal' نامی ایک آن لائن پلیٹ فارم تخلیق کیا گیا ہے، جہاں غیر ملکی کمپنیاں اور چیمبر آف کامرس مختلف ممالک کے نظام تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ سسٹم میں مماثلتیں تلاش کر سکتی ہیں۔

جب جرمنی میں غیر ملکی ڈگری یا قابلت کو تسلیم کیا جاتا ہے تو عمومی طور پر ان کا جرمنی میں رائج نظام تعلیم سے تقابلی جائزہ کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں جرمنی میں کام کرنے والے غیر ملکی خواہشمند افراد ان خصوصی سکیموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جن کی بدولت وہ مطلوبہ اضافی کوالیفیکیشن حاصل کر سکتے ہیں۔

بلیو کارڈ سکیم کا جرمنی میں مستقبل

اینٹ کا جواب پتھر سے

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں