بھارتی ہاکی سٹار کا قبول اسلام

سعدیہ اور عفیفہ
اصل میں، میں ہریانہ کے سونی پت ضلع کے ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں ہمارے گھر میں سبھی مرد پڑھے لکھے ہیں اور اکثر کبڈی کھیلتے رہتے ہیں، میں نے سکول میں داخلہ لیا شروع سے کلاس میں ٹاپ کرتی رہی، سی بی ایس ای بورڈ میں میری ہائی سکول میں گیارہویں پوزیشن رہی، مجھے شروع سے مردوں سے آگے نکلنے کاشوق تھا، اس کے لئے میں نے سکول میں ہاکی کھیلنا شروع کی، پہلے ضلع میں نویں کلاس میں سلیکشن ہوئی، پھر ہائی سکول میں ہریانہ سٹیٹ کے لئے لڑکیوں کی ٹیم میں میرا سلیکشن ہوگیا، بارہویں کلاس میں بھی میں نے سکول ٹاپ کیا اور سی بی ایس ای بورڈ میں میرا نمبر اٹھارہواں رہا، اسی سال میں انڈیا ٹیم میں سلیکٹ ہوگئی، عورتوں کے ایشیا کپ میں بھی کھیلی اور بہت سے ٹورنامنٹ میری کارکردگی کی وجہ سے جیتے گئے، اصل میں ہاکی میں بھی سب سے زیادہ ایکٹیو رول سنڈر فارورڈ کھلاڑی کا ہوتا ہے، یعنی سب سے آگے درمیان میں کھیلنے والے کھلاڑی کا، میں ہمیشہ سنٹر فارورڈ کھیلتی رہی، اصل میں بس مردوں سے آگے بڑھنے کا جنون تھا، مگر روزانہ رات کو میرا جسم مجھ سے شکایت کرتا تھا، کہ یہ کھیل عورتوں کا نہیں ہے، مالک نے اپنی دنیا میں ہر ایک کے لئے الگ کام دیا ہے، ہاتھ پاؤں بالکل شل ہوجاتے تھے، مگر میرا جنون مجھے دوڑاتا تھا اور اس پر کامیابی اور واہ واہ اپنے نیچر کے خلاف دوڑنے پر مجبور کرتی تھی۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے میرا نام پریتی تھا، میرا نام ابھی عفیفہ کچھ ماہ پہلے رکھا ہے۔ میرے والد ایک سکول چلاتے ہیں اس کے پرنسپل ہیں، وہ سی بی ایس ای بورڈ کا ایک سکول چلاتے ہیں، میرے ایک بڑے بھائی اس میں پڑھاتے ہیں، میری بھابھی بھی پڑھاتی ہیں، وہ سب کھیل سے دل چسپی رکھتی ہیں، میری بھابھی بیڈمنٹن کی کھلاڑی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اب ایسے آزاد ماحول میں زندگی گزارنے کے بعد ایسے پردہ میں رہنا مجھے کیسا لگتا ہے؟ انسان اپنے نیچر سے کتنا دور ہوجائے، اور کتنے زمانہ تک دور رہے، جب اس کے نیچر کی طرف آنا ملتا ہے، وہ کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرے گا، وہ ہمیشہ فیل کرے گا کہ اپنے گھر لوٹ آیا، اللہ نے انسان کو بنایا، اور عورتوں کی نیچر بالکل الگ بنائی، بنانے والے نے عورت کا نیچر چھپنے اور پردہ میں رہنے کا بنایا، اسے سکون و چین لوگوں کی ہوس بھری نگاہ سے بچے رہنے میں ہی مل سکتا ہے، اسلام دین فطرت ہے، جس کے سارے حکم انسانی نیچر سے میل کھاتے ہیں، مردوں کے لیے مردوں کے نیچر کی بات، اور عورتوں کے لیے عورتوں کے نیچر کی بات۔ میری تاریخ پیدائش ٦ جنوری ۱۹۸۸ء ہے، گویا میں بائیس سال کی ہونے والی ہوں۔ مجھے مسلمان ہوئے ساڑھے چھے مہینے کے قریب ہوئے ہیں۔ گھر میں میرے اتنے بڑے فیصلے پر مخالفت ہوئی اور خواب ہوئی، مگر سب جانتے ہیں کہ عجیب دیوانی لڑکی ہے، جو فیصلہ کرلیتی ہے پھرتی نہیں، اس لیے شروع میں ذرا سختی کی، مگر جب اندازہ ہوگیا کہ میں دور تک جاسکتی ہوں تو سب موم ہوگئے۔ اب ہاکی میں نے چھوڑ دی ہے۔
 اس پرتو گھر والوں کو بہت ہی احساس ہوا ہوگا مگر میرا فیصلہ مجھے لینے کا حق تھا میں نے لیا، اور میں نے اپنے اللہ کا حکم سمجھ کرلیا، اب اللہ کے حکم کے آگے بندوں کی چاہت کیسے ٹھہر سکتی ہے۔ آدمی کو ڈھل مل نہیں ہونا چاہئے۔ اصل میں آدمی پہلے یہ فیصلہ کرے کہ میرا فیصلہ حق ہے کہ نہیں، اور اگر اس کا حق پر ہونا ثابت ہوجائے تو پہاڑ بھی سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔ میں ہریانہ کے اس علاقہ کی رہنے والی ہوں جہاں کسی ہندو کا مسلمان ہونا تو دور کی بات ہے، ہمارے چاروں طرف کتنے مسلمان ہیں جو ہندو بنے ہوئے ہیں، خود ہمارے گاؤں میں بادی اور تیلیوں کے بیسوں گھر ہیں جو ہندو ہوگئے ہیں۔ مندر جاتے ہیں، ہولی دیوالی مناتے ہیں، لیکن مجھے اسلام کی طرف وہاں جاکر رغبت ہوئی جہاں جاکر خود مسلمان اسلام سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

میں ہاکی کھیلتی تھی تو بالکل آزاد ماحول میں رہتی تھی، آدھے سے کم کپڑوں میں ہندستانی روایات کا خیال بھی ختم ہوگیا تھا، ہمارے اکثر کوچ مرد رہے، ٹیم کے ساتھ مچھ مرد ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں، ٹیم میں ایسی بھی لڑکیاں تھیں جو رات گزارنے بلکہ خواہشات پوری کرنے میں ذرہ برابر کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں، میرے اللہ کا کرم تھا کہ مجھے اس نے اس حد تک نہ جانے دیا، گول کے بعد اور میچ جیت کر مردوں عورتوں کا گلے لگ جانا چمٹ جانا تو کوئی بات ہی نہیں تھی، میری ٹیم کے کوچ نے کئی دفعہ بے تکلفی میں میرے کسی شاٹ پر ٹانگوں میں کمر میں چٹکیاں بھریں، میں نے اس پر نوٹس لیا، اور ان کو وارننگ دی۔ مگر ٹیم کی ساتھی لڑکیوں نے مجھے برا بھلا کہا، اتنی بات کو دوسری طرح لے رہی ہو۔ مگر میرے ضمیر پر بہت چوٹ لگی۔ ہماری ٹیم ایک ٹورنامنٹ کھیلنے ڈنمارک گئی، وہاں مجھے معلوم ہواکہ وہا ں کی ٹیم کی سنٹر فارورڈ کھلاڑی نے ایک پاکستانی لڑکے سے شادی کرکے اسلام قبول کرلیا ہے، اور ہاکی کھیلنا چھوڑ دیا ہے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس نے شادی کے لیے اس لڑکے کی محبت میں اسلام قبول کیا ہے۔ مجھے یہ بات عجیب سی لگی، ہم جس ہوٹل میں رہتے تھے، اس کے قریب ایک پارک تھا، اس پارک سے ملا ہوا ان کا مکان تھا۔ میں صبح کو اس پارک میں تفریح کررہی تھی کہ ڈنمارک کی ایک کھلاڑی نے مجھے بتایا کہ وہ سامنے بریٹنی کا گھر ہے، جو ڈنمارک کی ہاکی کی مشہور کھلاڑی رہی ہے، اس نے اپنا نام اب سعدیہ رکھ لیا ہے اور گھر میں رہنے لگی ہے۔ مجھے اس سے ملنے کا شوق ہوا، میں ایک ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس کے گھر گئی، وہ اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جانے والی تھی، بالکل موڑے، دستانے اور پورے برقع میں ملبوس، میں دیکھ کر حیرت میں رہ گئی، اور ہم دونوں ہنسنے لگے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مجھے پہچانتی تھی، وہ بولی میں نے تمہیں کھیلتے دیکھا ہے، سعدیہ نے کہا ہمارے ایک سسرالی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے، مجھے اس میں جانا ہے ورنہ میں آپ کے ساتھ کچھ باتیں کرتی، میں تمہارے کھیلنے کے انداز سے بہت متأثر رہی ہوں، ہاکی کھیل عورتوں کے نیچر سے میل نہیں کھاتا، میرا دل چاہتا ہے کہ تمہاری صلاحیتیں نیچر سے میل کھانے والے کاموں میں لگیں، میں تم سے ہاکی چھڑوانا چاہتی ہوں، میں نے کہا آپ میرے کھیل کے انداز سے متأثر ہیں اور مجھ سے کھیل چھڑوانا چاہتی ہیں، اور میں آپ کا ہاکی چھوڑنا سن کر آپ سے ملنے آئی ہوں، کہ ایسی مشہور کھلاڑی ہوکر آپ نے کیوں ہاکی چھوڑ دی؟ میں آپ کو فیلڈ میں لانا چاہتی ہوں۔ سعدیہ نے کہا کہ اچھا آج رات کو ڈنر میرے ساتھ کرلو، میں نے کہا آج تو نہیں، کل ہوسکتا ہے، طے ہوگیا، میں ڈنر پر پہنچی، تو سعدیہ نے اپنے قبول اسلام کی روداد مجھے سنائی اور بتایا کہ میں نے شادی کے لیے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اپنی شرم اپنی عصمت کی عزت و حفاظت کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کے لیے شادی کی ہے۔ سعدیہ نہ صرف ایک مسلم خاتون تھی بلکہ اسلام کی بڑی داعیہ تھی، اس نے فون کرکے دو انگریز لڑکیوں کو اور ایک معمر خاتون کو بلایا، جو ان کے محلہ میں رہتی تھیں، اور سعدیہ کی دعوت پر مسلمان ہوگئی تھیں۔ وہ مجھے سب سے زیادہ اسلام کے پردہ کے حکم کی خیر بتاتی رہیں اور بہت اصرار کرکے مجھے برقع پہن کر باہر جاکر آنے کو کہا۔ میں نے برقع پہنا، ڈنمارک کے بالکل مخالف ماحول میں میں نے برقع پہن کر گلی کا چکر لگایا، مگر وہ برقع میرے دل میں اتر گیا، بیان نہیں کرسکتی کہ میں نے مذاق اڑانے یا زیادہ سے زیادہ اس کی خواہش کے لیے برقع پہنا تھا، مگر مجھے اپنا انسانی قد بہت بڑھا ہوا محسوس ہوا۔ اب مجھے اپنے کوچ کی بے شرمانہ شہوانی چٹکیوں سے گھن بھی آرہی تھی، میں نے برقع اتارا اور سعدیہ کو بتایا کہ مجھے واقعی برقع پہن کر بہت اچھا لگا، مگر آج کے ماحول میں جب برقع پر ویسٹرن حکومتوں میں پابندی لگائی جارہی ہے، برقع پہننا کیسے ممکن ہے؟ اور غیرمسلم کا برقع پہننا تو کسی طرح ممکن نہیں۔ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتی رہیں اور بہت اصرار کرتی رہیں، میں نے معذرت کی کہ میں اس حال میں نہیں ہوں، ابھی مجھے دنیا کی نمبر ون ہاکی کی کھلاڑی بننا ہے، میرے سارے ارمانوں پر پانی پھرجائے گا، سعدیہ نے کہا مجھے آپ کو ہاکی کی فیلڈ سے برقع میں لانا ہے، میں نے اپنے اللہ سے دعا بھی کی ہے اور بہت ضد کرکے دعا کی ہے، اس کے بعد ہم دس روز تک ڈنمارک میں رہے، وہ مجھے فون کرتی رہی، دو بار ہوٹل میں ملنے آئی، اور مجھے اسلام پر کتابیں دے کر گئی۔

میں انڈیا واپس آئی، ہمارے یہاں نریلا کے پاس ایک گاؤں کی ایک لڑکی (جس کے والد سن ۴۷ء میں ہندو ہوگئے تھے، اور بعد میں آپ کے والد مولانا کلیم صاحب کے ہاتھوں مسلمان ہوگئے تھے، ان کے مرید بھی تھے اور حج بھی کر آئے تھے) ہاکی کھیلتی تھی، دلی سٹیٹ کی ہاکی ٹیم میں تھی اور انڈیا کی طرف سے سلیکشن کے بعد روس میں کھیلنے جانے والی تھی، مجھ سے مشورہ اور کھیل کے اندازمیں رہنمائی کے لیے میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے ڈنمارک کی مشہور کھلاڑی بریٹنی کا ذکر کیا، اس نے اپنے والد صاحب سے ساری بات بتائی، وہ اپنی لڑکے کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے، اور مجھے حضرت کی کتاب ’’آپ کی امانت‘‘ اور ’’اسلام ایک پریچے‘‘ دی۔ آپ کی امانت چھوٹی سی کتاب تھی، برقع نے میرے دل میں جگہ بنالی تھی، اس کتاب نے برقع کے قانون کو میرے دل میں بٹھا دیا۔ میں نے حضرت صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دوسرے روز حضرت کا پنجاب کا سفر تھا، اللہ کا کرنا کہ بہال گڑھ ایک صاحب کے یہاں ہائی وے پر ملاقات طے ہوگئی اور حضرت نے دس پندرہ منٹ مجھ سے بات کر کے کلمہ پڑھنے کو کہا، اور انہو ں نے بتایا کہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ بریٹنی نے اپنے اللہ سے آپ کو برقع میں لانے کی بات منوالی ہے۔ بہرحال میں نے کلمہ پڑھا اور حضرت نے میرا نام عفیفہ رکھا۔ اور کہا عفیفہ پاک دامن کو کہتے ہیں، چونکہ بائی نیچر آپ اندر سی پاکدامنی کو پسند کرتی ہیں، میری بھانجی کا نام بھی عفیفہ ہے، میں آپ کا نام عفیفہ ہی رکھتا ہوں۔
اس کے بعد میں نے برٹنی کو فون کیا، اور اس کو بتایا، وہ خوشی میں جھوم گئی، جب میں نے حضرت کا نام لیا تو انہو ں نے اپنے شوہر سے بات کرائی، ڈاکٹر اشرف ان کا نام ہے، انہوں نے بتایا کہ حضرت کی بہن کے یہاں رہنے والی ایک حرا کی شہادت اور اس کے چچا کے قبول اسلام کی کہانی سن کر ہمیں اللہ نے اسلام کی قدر سکھائی ہے، اور اسی کی وجہ سے میں نے بریٹنی سے شادی کی ہے، یہ کہہ کر کہ اگر تم اسلام لے آتی ہو تو میں آپ سے شادی کے لئے تیار ہوں۔ میں نے اخبار میں ایڈ دیا، گزٹ میں نام بدلوایا، اپنی ہائی سکول اور انٹر کی ڈگریوں میں نام بدلوایا اور ہاکی سے ریٹائرمنٹ لے کر گھرپر سٹڈی شروع کی۔
میں نے آئی سی ایس کی تیاری شروع کی ہے، میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں ایک آئی سی ایس افسر بنوں گی، اور برقع پوش آئی ایس افسر بن کر اسلامی پردہ کی عظمت لوگوں کو بتاؤں گی۔

میں نیٹ پر سٹڈی کررہی ہوں، میرے اللہ نے ہمیشہ میرے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے، کہ میں جو ارادہ کرلیتی ہوں، اسے پورا کردیتے ہیں، جب کافر تھی تو پورا کرتے تھے، اب تو اسلام کی عظمت کے لیے میں نے ارادہ کیا ہے، اللہ ضرور پورا کریں گے۔ مجھے ایک ہزار فیصد امید ہے کہ میں پہلی بار میں ہی آئی سی ایس امتحانات پاس کرلوں گی۔

لوگ کہتے ہیں کہ میرے انٹرویو کا کیا ہوگا کیونکہ آئی سی ایس کے لئے تو انٹرویو بھی دینا پڑتا ہے؟
 میں کہتی ہوں کہ سارے برقع اور اسلام کے مخالف بھی اگر انٹرویو لیں گے تو وہ میرے سلیکشن کے لئے ان شاء اللہ مجبور ہوجائیں گے۔ رہا یہ سوال کہ گھر والوں کو اسلام کی دعوت نہیں دی؟

ابھی دعا کررہی ہوں، اور قریب کررہی ہوں، ’’ہمیں ہدایت کیسی ملی؟‘‘ ہندی میں میں نے گھر والوں کو پڑھوائی، سب لوگ حیرت میں رہ گئے، اور اللہ کا شکر ہے ذہہن بدل رہا ہے۔

جو بھی اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں ان کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ عورت کا بے پردہ ہونا اس کی حد درجہ توہین ہے، اس لئے مرد خدا کے لئے اپنے جھوٹے مطلب اور اپنا بوجھ ان پر ڈالنے کے لئے ان کو بازاروں میں پھرا کر بازاری بنانے سے باز رہیں، اور عورتیں اپنے مقام اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے اسلام کے پردہ کے حکم کی قدر کریں۔

بہت بہت شکریہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ

بشکریہ ماہنامہ ارمغان انڈیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔