پیر, نومبر 12, 2012

احمد فراز کی آخری غزل یا احمد فراز پر آخری تہمت

اگر شاعر نئی نئی باتیں سوچنے پر قادر ہیں تو زمانے والے ان پر ستم کرنے کے نئے نئے انداز بھی ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سے استفادہ کرتے ہوئے جس استاد شاعر کے نام کے ساتھ اپنے شعر نما جملوں کی تہمت سب سے زیادہ باندھی گئی ہے ان میں احمد فراز سر فہرست ہیں۔

جانِ فراز پر مداحوں کے بے پناہ ستم تو نظروں سے گزرتے ہی ہیں مگر آج یہ غزل نظر سے گزری۔

ملاحظہ فرمائیے۔

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کوئی ازل سے کہ دے رُک جاؤ دو گھڑی
سنا ہے کہ آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے رُوٹھ ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر نا آ جائے پھر سانس نبضوں میں
اتنے حسیں ہا تھوں سے میٹ سجا رہا ہے کوئی

اب بہت ہی بعید ہے کہ یہ غزل موجودہ حالت میں احمد فراز کی ہو۔ اس میں تو عام سی غلطیاں نمایاں ہیں۔ مگر شومئی قسمت ان کے نام پر اتنی مشہور ہو گئی کہ اگر اب وہ خود بھی کہیں کہ یہ غزل میں نے نہیں لکھی تو کوئی نہیں مانے گا۔
یہ غزل بے وزن ہے۔

فراز کے معیار سے کافی زیادہ نشیب میں ہے۔

اگر یہ غزل فراز صاحب کی ہے بھی تو پھر کمپوز کرنے میں کافی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔

اگر اس غزل کو موزوں کرنے کی کوشش کی جائے تو کچھ یوں بنے گی

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کہو یہ موت سے رُک جائے دو گھڑی کے لیے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

کچھ ایسے ناز سے بیٹھے ہیں میری لاش کے پاس
کہ جیسے رُوٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر آ ہی نہ جائے یہ سانس نبضوں میں
حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی

چنانچہ اس پر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں
ہمارے ادبی صفحات، انجمنیں، ویب سائٹس اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھتے کہ جس چیز کو احمد فراز کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے وہ ان کے معیار کی ہے بھی کہ نہیں۔ کیا کسی ایٹمی سائنسدان کا تعارف آپ یوں کروانا چاہیں گے کہ یہ غلیل بھی اسی نے ایجاد کی تھی؟
کیا یوں اس ایٹمی سائنسدان کا رتبہ بلند ہوگا؟
اگر نہیں تو پھر غیر معیاری کلام یا کتابت کی خامیوں سے بھرپور کلام کو ایک بلند پایہ شاعر سے منسوب کر کے ادب کی خدمت کی جا رہی ہے یا بے ادبی

نوٹ : اگر آپ کو اس غزل کا ریفرنس پتہ ہو تو ضرور راہنمائی کیجیے۔ شکریہ

سری لنکا کی نیوزی لینڈ کو 7 وکٹ سے شکست

سری لنکا نے چوتھے ون ڈے میں نیوزی لینڈ کو با آسانی سات وکٹ سے شکست دے دی۔ جس کے ساتھ سری لنکا کو سیریز میں تین صفر کی فیصلہ کن برتری مل گئی ہے۔

ہمبن ٹوٹا میں کھیلا جانے والا سیریز کا چوتھا ون ڈے بھی بارش سے متاثر ہوا، جس کو پہلے بیالیس اور پھر بیتس اوور فی اننگز تک محدود کرنا پڑا۔ نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹ پر 131 رنز بنائے۔ برینڈن مک کلم تیس رنز بناکر ٹاپ سکورر رہے۔

سری لنکا کی جانب سے جیون مینڈس نے تین اور نوان کولو سیکرا نے دو وکٹیں لیں۔ جواب میں سری لنکا نے مطلوبہ ہدف تین وکٹ پر حاصل کرکے نہ صرف میچ جیت لیا بلکہ سیریز بھی اپنے نام کرلی۔ چندی مل تینتالیس اور کمارا سنگاکارا بیالیس رنز بناکر نمایاں رہے۔
 
سری لنکا نے چوتھے ون ڈے میں نیوزی لینڈ کو 7 وکٹ سے ہرا دیا

پیٹریاس کو دو خواتین کی لڑائی لے ڈوبی

واشنگٹن : امريکا کی سينٹرل انٹيلی جنس ايجنسی کے حکام نے کہا ہے کہ سابق سربراہ ڈيوڈ پيٹریاس کے پاؤلا براڈ ويل سے تعلقات کا علم ايک دھمکی آميز ای ميل کے ذريعے ہوا۔ يہ ميل پاؤلا براڈ ويل نے ڈيوڈ پيٹریاس سے جُڑی دوسری عورت کو بھيجی تھيں۔

سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈيوڈ پيٹریاس کے سکينڈل سے متعلق اب تک کی تحقيقات يہ بتاتی ہے کہ ڈيوڈ پيٹریاس اور ان کی بائيو گرافی لکھنے والی پاؤلا براڈ ويل کے درميان ناجائز تعلقات کا ايک نامعلوم عورت سے بھی ہے جسے چند ماہ قبل پاؤلا کی جانب سے دھمکی آميز خطوظ موصول ہوئے۔

يہ خطوط سی آئی اے حکام کے ہاتھ لگ گئے۔ اس طرح معاملہ کھلا اور ڈيوڈ پيٹریاس کو استعفٰی دينا پڑا۔ استعفیٰ کے دو روز بعد ڈيوڈ پيٹریاس کو سينيٹ اور ايوان نمائندگان ميں ليبيا ميں امريکی سفير کی ہلاکت سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا تھا۔

دوسروں کو ڈوبونے والے پیٹریاس کو دو خواتین کی لڑائی لے ڈوبی

نیند کی کمی بیماریوں کی وجہ

لندن: برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ نیند کی کمی کے شکار لوگوں میں ذیابیطس، ڈپریشن، بلند فشار خون اور دل کی بیماریاں ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ برطانوی ماہرین کے اس حوالے سے کیے گئے سروے کے مطابق برطانیہ میں اکیاون فیصد لوگوں کو نیند کی کمی کی شکایت ہے۔ خواتین مردوں سے تین گنا زیادہ نیند کی کمی سے متاثر ہوتی ہیں۔ نیند کی کمی کا شکار لوگ توانائی میں کمی، طبیعت میں چڑ چڑا پن اور جسمانی کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی کام پر ٹھیک طرح توجہ نہیں دے پاتے اور کام کے اوقات کار میں طبیعت میں سستی بھی محسوس کرتے ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ لوگ نیند کی کمی کی شکایت دور کرنے کے لیے مختلف ادویات استعمال کرتے ہیں جن کے سائیڈ افیکٹ بھی ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ عرصے تک افاقہ نہیں ہوتا۔ بیالیس فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ نیند کی گولیوں کے استعمال سے ان کی نیند میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔

دبئی سنوکر فائنل میں محمد آصف کو شکست

دبئی انٹرنیشنل اوپن سنوکر چیمپئن شپ کے فائنل میں نوپون سینگھم نے محمد آصف کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ ہفتے کے روز دبئی سنوکر کلب میں کھیلے گئے فائنل میچ میں پاکستان کے محمد آصف کا مقابلہ تھائی لینڈ کے کیوئسٹ نوپون سینگھم سے تھا۔ نوپون سینگھم نے فائنل میں انتہائی شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے محمد آصف کو بیسٹ آف نائن فریمز میں پانچ – دو سے شکست دی۔

پہلے فریم میں نوپون نے آصف کو 61-10 سے شکست دی، آصف نے دوسرا سیٹ 60-49 سے جیت کر مقابلہ برابر کر دیا۔ تاہم نوپون نے اگلے دونوں فریمز 60-40 اور 69-9 سے جیت کر سکور 3-1 کر دیا۔ آصف نے پانچویں فریمز میں ایک بار پھر عمدہ کھیل پیش کیا اور فریم 63-31 سے اپنے نام کیا لیکن چھٹے اور ساتویں فریمز نے نوپون نے آصف کے خلاف 74-27 اور 64-46 سے کامیابی حاصل کر کے میچ 5-2 فریمز سے جیت لیا۔

سلطان جوہر ہاکی ٹورنامنٹ، پاکستان نیوزی لینڈ کا میچ برابر

دوسرا سلطان جوہر جونیئر ہاکی ٹورنامنٹ شروع ہوگیا،،، قومی ٹیم نے نیوزی لینڈ سے جیت کا بہترین موقع ضائع کر دیا۔

ملائیشیا کے شہر جوہر بارو میں قومی جونیئر ٹیم نے حریف کیویز کے خلاف میدان میں اتری۔ محمد دلبر نے گرین شرٹس کو سبقت دلائی جسے محمد عرفان نے شاندار گول سے دو گنا کر دیا۔ محمد دلبر نے ایک اور گول کرکے برتری تین صفر کر دی جو پہلے ہاف تک برقرار رہی۔ دوسرا ہاف شروع ہوتے ہیں میچ کا پانسہ پلٹنے لگا۔ نیوزی لینڈ کی طرف سے گول پہ گول نے میچ کو سنسنی خیز بنا دیا۔ پاکستان کا دفاع ہی کمزور نہیں بلکہ حملے بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ کیویز نے شاندار کارکردگی سے گرین شرٹس کے جیت کا تر نوالہ چھین لیا۔ تین گول کر کے میچ برابر کر دیا۔ 

آج آسٹریلیا بھارت اور ملائیشیا جرمنی کے میچ بھی شیڈول ہیں۔

برسبین میں 24 سالہ آسٹریلوی حکمرانی کی بنیادیں ہل گئیں

برسبین: جنوبی افریقہ نے برسبین میں 24 سالہ آسٹریلوی حکمرانی کی بنیادیں ہلا دیں، پہلی اننگز میں 450 رنز بنانے کے بعد تین وکٹیں اڑا کر کینگروز پر دبائو بڑھا دیا۔

تیسرے دن کے اختتام تک میزبان سائیڈ نے 111 رنز بنائے، ایڈ کوان 49 اور کپتان مائیکل کلارک 34 رنز پر ناٹ آئوٹ تھے، رکی پونٹنگ کو کھاتہ تک کھولنا نصیب نہیں ہوا، مورن مورکل نے 2 وکٹیں لیں، آسٹریلیا کو ابھی 339 رنز خسارے کا سامنا جبکہ 7 وکٹیں باقی ہیں۔ اس سے پہلے آل راؤنڈر جیک کیلس نے147 اور ہاشم آملا نے 104 رنز بنائے، ابراہم ڈی ویلیئرز نے بھی 40 کی اننگز کھیلی، جیمز پیٹنسن نے 3 جبکہ بین ہلفنہاس، پیٹرسڈل اور ناتھن لیون نے دو، دو وکٹیں لیں۔ 

برسبین ٹیسٹ کے دوسرے دن کا کھیل بارش کی نذر ہونے کے باوجود مہمان ٹیم نے اپنی پوزیشن کو کافی مستحکم کرکے اس گراؤنڈ پر 24 برس سے ناقابل شکست آسٹریلیا کو دباؤ کا شکار کر دیا، کینگروز کو گابا میں آخری شکست کا سامنا ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 1988 میں کرنا پڑا تھا۔

جنوبی افریقہ کے پہلی اننگز میں 450 رنز یہاں پر 1986 میں انگلینڈ کی جانب سے بنائے گئے 456 رنز کے بعد سب سے بڑا مجموعہ ہے، آسٹریلیا کو پہلی اننگز کے ابتدائی 10 اوورز میں زوردار جھٹکا پہنچا جب تین بہترین بیٹسمین پویلین واپس لوٹ گئے، ڈیوڈ وارنر صرف 15 رنز کے مہمان ثابت ہوئے، وہ سٹین کی بال کو سیدھا سیکنڈ سلپ میں موجود جیک کیلس کے ہاتھوں میں تھما کر 4 رنز پر چلتے بنے، ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے روب کیونے 9 رنز بنا کر مورن مورکل کی گیند پر دلچسپ انداز میں کیچ ہوئے، سٹین نے اپنا پائوں فائن لیگ باؤنڈری سے باہر جاتے دیکھ کر گیند کو اوپر اچھالا اور پھر پلیئنگ فیلڈ میں واپس پلٹ کر کیچ تھام لیا، مورکل کی ہی گیند پر پونٹنگ بغیر کوئی رن بنائے کیلس کے ہاتھوں کیچ ہوگئے، اس طرح 40 رنز پر تین وکٹیں گرگئیں تاہم کوان اور کلارک نے 71 رنز کی شراکت سے مجموعے کو 111 تک پہنچایا۔

اس دوران پروٹیز کو کوان کی وکٹ بھی مل سکتی تھی تاہم مورکل کے فرنٹ فٹ فالٹ کی وجہ سے گیند کو نو قرار دے دیا گیا۔ اس سے قبل جیک کیلس اور ہاشم آملا نے میزبان بولنگ اٹیک کا عمدگی سے سامنا کرتے ہوئے سنچریاں جڑ کر ٹیم کا مجموعہ 450 تک پہنچایا، دونوں کے درمیان تیسری وکٹ کے لیے 165 رنز کی شراکت ہوئی آملا 104 رنز پر سڈل کی گیند پر مشکوک ایل بی ڈبلیوقرار پائے، یہ ان کی مجموعی طور پر 17ویں اور آسٹریلیا کے خلاف چوتھی اننگز میں تیسری تھری فیگر اننگز تھی۔ کیلس لنچ کے فوری بعد پیٹنسن کی گیند پر آئوٹ ہوئے، گلی میں موجود کیونے نے اچھل کر دونوں ہاتھوں سے کیچ تھاما، کیلس 44 ویں ٹیسٹ سنچری سے آل ٹائم سنچری میکرز کی فہرست میں ٹنڈولکر کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔

برسبین میں 24 سالہ آسٹریلوی حکمرانی کی بنیادیں ہل گئیں

انڈو پاک دوستی کپ بھارت نے جیت لیا

لاہور: بھارت نے پاکستان کو تیسرے ہاکی میچ میں ایک کے مقابلے میں تین گول سے شکست دے کر تین میچوں کی سیریز جیت لی۔

لاہور کے جوہر ہاکی سٹیڈیم میں انٹرنیشنل سپورٹس فیسٹیول انڈو پاک دوستی کپ سیریز کا آخری میچ کھیلا گیا۔ بھارت کے وکرم جیت نے پہلا، راج پال نے دوسرا جبکہ تیسرا گول جسکارن نے کیا۔

پاکستان کی جانب سےواحد گول عثمان نےپنالٹی کارنر پر کیا۔ اس سے پہلے دونوں میچ برابر رہے تھے. سیریز کے اختتام پر بھارتی ٹیم کو گولڈ میڈل اور پاکستانی ٹیم کو سلور میڈل دیا گیا۔

ماریا شراپووا بھارت کے دورہ پر

نئی دہلی: روسی سٹار ماریا شراپووا نے کہا کہ ثانیہ مرزا سنگلز کی بہترین کھلاڑی رہیں لیکن کھیل کے بدلتے ہوئے تقاضے کے پیش نظر ان کا ڈبلز پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ درست ہے۔

ان خیالات کا اظہار روسی ساحرہ نے اتوار کو اپنے پہلے دورہ بھارت کے موقع پر کیا۔ انھوں نے کہا کہ دونوں فارمیٹس ذہنی اور جسمانی طور پر مشقت طلب ہوتے اور یکساں توجہ دینا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے، مجھے ثانیہ سے مقابلہ کیے کافی وقت بیت چکا لیکن وہ باصلاحیت کھلاڑی ہیں، دراز قامت ماریا نے مزید کہا کہ مجھے ثانیہ مرزا کو ڈبلز میں اچھا پرفارم کرتا دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ ثانیہ مرزا فی الوقت عالمی رینکنگ میں ڈبلز میں 12 ویں اور سنگلز میں 280 ویں پوزیشن پر ہیں۔

اے ٹی پی ورلڈ ٹور فائنلز؛ اعصام الحق اور جولین روجرکو شکست

اے ٹی پی ورلڈ ٹور فائنلز ٹینس مقابلوں میں اعصام الحق اور ان کے پارٹنر جولین روجرکو کو سپین کےگرانولرز اور مارک لوپز نے شکست دے دی جبکہ مینز سنگلز میں دفاعی چیمپئن روجر فیڈرر بھی ہار گئے۔

لندن میں جاری مینز ڈبلز کوارٹر فائنل راؤنڈ میں اعصام اور ان کے ڈچ پارٹنر جین جولین راجر کو سپین کےگرانولرز اور مارک لوپز نے 4-6 اور 2-6 سے ہرا دیا۔

مینز سنگلزمیں دفاعی چیمپئن اور سوئس سٹار روجر فیڈرر کو ارجنٹائن کے مارٹن ڈیل پوٹرو کے ہاتھوں شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔ سنسنی خیز مقابلے میں ڈیل پوٹرو نے راجر کو 6-7 ، 4-6 اور 3-6 سے زیر کیا اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلی۔ ایک اور میچ میں سپین کے ڈیوڈ فیرر نے فرانس کے ولفرئیڈ سنگا کو 4-6، 3-6 اور 1-6 سے شکست دی۔

اے ٹی پی ورلڈ ٹور فائنلز؛ اعصام الحق اور جولین روجرکو شکست

چائے، روسیوں کا پسندیدہ مشروب

سائبریا کے شہر کراسنویارسک میں چائے پینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔ یہاں ایک ہزار افراد کو بیک وقت ایک ہی میز پر بٹھا کر چائے پلائی گئی ہے۔ اس قسم کا پچھلا ریکارڈ برطانیہ میں قائم کیا گیا تھا جہاں چار سو افراد نے ساتھ مل کر چائے پی تھی۔

روس کا سفر کرنے والے غیرملکی لوگ جانتے ہیں کہ روسیوں کو چائے پینے کا انتہائی شوق ہے۔ تاہم چائے روس کے لیے ایک غیرملکی مشروب ہے۔ روس میں ایک عرصے تک خیال کیا جاتا تھا کہ اٹھارہویں صدی میں بادشاہ پیٹر اول یورپ کے سفر سے چائے لے کر آئے تھے۔ لیکن درحقیقت روس میں چائے سولہویں صدی میں چینی تاجروں کے توسط سے پہنچی تھی۔ یہ مشروب روسی لوگوں کو بہت پسند آیا تھا اور اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ گئی تھی۔

چین سے روس میں چائے کی برآمد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چائے کے عوض روس چین کو کپڑے، چمڑا، سمور اور دھاتیں فراہم کرتا تھا۔ چائے کی فروخت کرنے والے تاجروں کو روس اور چین کے درمیان گیارہ ہزار کلومیٹر کا راستہ طۓ کرنے میں چھہ ماہ لگتے تھے۔ شروع میں چائے بہت مہنگی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں کمی ہونے لگی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں روس کو کالی اور سبز چائے فراہم کی جاتی تھی لیکن سبز چائے روسیوں کو اچھی نہيں لگی تھی اس لیے چین سے سبز چائے کی برآمد بند کر دی گئی تھی۔

انیسویں صدی کے شروع تک چائے بڑے شہروں میں بہت مقبول ہو چکی تھی۔ ساٹھ فی صد چائے کے شوقین دارالحکومت میں رہتے تھے۔ بعد میں چائے پینے کی روایت ملک بھر میں پھیل گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق جن علاقوں میں چائے کا استعمال بڑھ جاتا تھا وہاں شراب کے استعمال میں کمی ریکارڈ کی جاتی تھی۔

بیسویں صدی کے اوائل میں روس چائے کے استعمال کے حوالے سے دنیا میں پہلے مقام پر تھا۔ روس میں چائے کے ہزاروں ہوٹل اور چائے کی فروخت کرنے والی متعدد دوکانیں موجود تھیں۔ تاہم روس کی سرزمین پر چائے اگانے کی کوششیں ناکام رہی تھیں اس لیے چین سے چائے کی درآمد جاری رہی۔

روس میں چائے پینے کی کچھ روایات وجود میں آئی تھیں۔ کچھ لوگوں میں لیمون، جڑی بوٹیوں یا شہد کے ساتھ چائے پینے کا شوق پیدا ہوا۔ چائے کے لیے خصوصی برتن بنانے والی صنعت قائم ہو گئی۔ چائے بنانے کے لیے استعمال کئے جانے والا برتن سماوار اس قدر مشہور و معروف ہو گیا تھا کہ سماوار روس کا ایک قومی نشان سمجھا جانے لگا۔ سماوار لوہے سے بنا برتن ہوتا ہے جس کے اندر خلا ہوتا ہے۔ اس خلا میں ایندھن رکھ کر پانی ابالا جاتا ہے۔ سماوار مختلف سائز اور اشکال کے ہوتے ہیں، ان کو مختلف طریقوں سے سجایا جاتا ہے۔ تاہم اب روسی لوگ سماوار کے ذریعے چائے بنانے کی عادت فراموش کر چکے ہیں۔

1917 میں پیش آئے اشتراکی انقلاب کے بعد ملک کے نئے حکام نے چین سے چائے کی درآمد پر روس کے انحصار کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یوں سوویت یونین میں چائے کی صنعت کو ترقی دی جانے لگی تھی۔ بیس اور تیس کے عشرے میں سوویت یونین میں اپنی چائے اگائی گئی۔ چائے کے بڑے بڑے کھیت بنائے گئے۔ چائے کی صنعت میں اولین مقام جارجیا اور آذربائجان کو حاصل تھا۔ یوں سوویت یونین چین سے درآمد کردہ چائے پر انحصار کو کم کرنے کے علاوہ اپنی چائے مختلف ممالک میں برآمد کرنے لگا۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد چائے کے کھیت نئے خودمختار ممالک میں رہ گئے اس لیے روس کو چائے کی درآمد دوبارہ شروع کرنی پڑی۔ آج روس چین، ہندوستان، سری لنکا اور کینیا سے چائے خریدتا ہے۔ روس میں بیاسی فی صد لوگ ہر روز کالی چائے پیتے ہیں اور دو اعشاریہ دو فی صد افراد سبز چائے۔ روس میں چائے کا فی کس روزانہ استعمال آدھا لیٹر ہے۔

مختصر یہ کہ روس میں چائے اگرچہ نہیں اگائی جاتی لیکن ملک میں چائے پینے کی صدیوں پرانی روایت موجود ہے۔

چائے، روسیوں کا پسندیدہ مشروب

جذبات سے عمل تک

”دنیا کو کہو سلام!“ یہ وہ افتتاحیہ ہے جسے روس اور سی آئی ایس میں مسلمانوں کے سوشل نیٹ ورک ”سلام ورلڈ“ کی قیادت نے ایک مقابلے میں منتخب کیا ہے۔

اس افتتاحیہ نعرے کے خالق کزاخستان کے عبد راسل ابیلدینوو ہیں۔ ری پبلک کازان کے الشاط سعیتوو کو اس مقابلے میں دوسرا مقام حاصل ہوا ہے۔ ان کا لکھا نعرہ تھا، ”عقیدے میں یگانگت، انٹر نیٹ پہ یگانگت!“۔

”سلام ورلڈ“ کے صدر عبدالواحد نیازوو نے ریڈیو ”صدائے روس“ کی نامہ نگارہ کو بتایا۔، ”میں نعرہ منتخب کرنے والی کمیٹی میں شریک رہا۔ یہ مقابلہ تین ماہ تک جاری رہا۔ انگریزی میں لکھا نعرہ ”سے سلام ٹو دی ورلڈ“ کو چنا گیا ہے۔ یہ نعرہ مجھے اچھا لگا ویسے ہی جیسے دوسرے اور تیسرے مقام پر آنے والے نعرے اچھے لگے۔ ایسے بہت سے اور بھی اچھے نعرے تھے، جنہیں تخلیق کرنے والوں نے ہمارے نیٹ ورک کے نظریے اور مقصد کو سمجھا ہے“۔

اس مقابلے میں روس کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کی جانب سے بھیجے گئے دوہزار سے زیادہ نعروں پر غور کیا گیا، عبدالواحد نیازوو بتا رہے ہیں، ”30 % نعرے روس کے جنوب کی شمالی قفقاز کی ریپلکوں انگوشیتیا، چیچنیا اور داغستان کے مسلمانوں کی جانب سے وصول ہوئے تھے۔ ان ریاستوں کے مسلمانوں نے بہت زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کیا لیکن جیت کازان اور الماآتا کے حصے میں آئی۔ ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ روس اور آزاد برادری کے دیگر ملکوں کے نوجوان لوگ ان سرگرمیوں میں شریک ہوں جو ہمارے اس منصوبے کے توسط سے رونما ہونگی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے ہمارا منصوبہ بحیثیت مجموعی متاثر ہوگا“۔

یاد دلادیں کے ماہ رمضان کے ایام میں ”سلام ورلڈ“ کا آزمائشی مرحلہ شروع کیا گیا تھا۔

اس وقت مذکورہ نیٹ ورک کے استنبول میں واقع صدر دفتر میں تیرہ ملکوں کے نمائندے مصروف کار ہیں جو اس نیٹ ورک کو پوری استعداد کے ساتھ شروع کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عبدالواحد نیازوو نے بتایا ہے کہ اس نیٹ ورک کو اگلے برس کے ماہ اپریل میں روس کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔

فی الحال دنیا بھر میں مقابلہ کرنے کی خاطر سلام ورلڈ نے اشتہار ”جذبات سے عمل تک“ کے نام سے بہترین بل بورڈ تیار کرنے کے بین الاقوامی مقابلے کا اعلان کیا ہے۔ نیازوو کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں مسلسل اسلام مخالف اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے، جیسے کہ خاص طور پر غم و غصہ کی لہر دوڑا دینے والی فلم ”مسلمانوں کی معصومیت“۔ عبدالواحد نیازوو کہتے ہیں: ”جی ہاں، مسلمانوں نے اپنے غیض کا درست اظہار کیا لیکن ہوا کیا؟ بس مسلمانوں نے امریکی جھنڈا نذر آتش کردیا یا اسے پاؤں تلے روند ڈالا، یا پھر مغربی ملکوں کے سفارتخانوں پہ پتھر برسائے۔ آج زیادہ سے زیادہ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ گوگل اور یو ٹیوب پہ مغرب والے دہرے معیارات کا استعمال کرکے ان کی جتنی بھی دل آزاری کرتے رہیں، جب تک مسلمانوں کا اپنا اطلاعاتی انفراسٹرکچر بشمول انٹرنیٹ سرور کے نہیں ہوگا، ہم اسی طرح ذلت اور ندامت کا نشانہ بنائے جاتے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ مہینوں میں ہمارے منصوبے میں لوگوں کی دلچسپی کئی گنا بڑھی ہے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کے بین الاقوامی مقابلے کے شرکاء کو چاہیے کہ وہ بہترین ڈیزائن اور بہترین نعرہ تیار کرکے بھجوائیں۔ اہم یہ ہونا چاہیے کہ اس میں اس نظریے کا اظہار ہو کہ موجودہ عہد میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور آزادی اظہار کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جیتنے والے کے تیار کردہ بل بورڈ کے ڈیزائن اور نعرے کو دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں نمایاں طور پر لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ عبدالواحد نیازوو نے مزید کہا، ”روس سے پہلا نعرہ اور تین ڈیزائن وصول ہو چکے ہیں۔ نعرہ یوں ہے، ”ہمیں حضرت عیسیٰ بھی پیارے ہیں اور محمد بھی“۔ سادہ سی بات ہے لیکن اس میں بہت بڑی سوچ مضمر ہے۔ ہمارے مقابلے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اور سب سے پہلے غیر مسلموں پہ واضح کیا جائے کہ یاد رکھو ہمارے مذہب کا سارا حسن اس میں ہے کہ کسی بھی انسان کے مذہبی جذبات اور کسی بھی مذہب کے عقائد کی تعظیم کی جانی چاہیے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کا بل بورڈ تیار کیے جانے کا بین الاقوامی مقابلہ اسلامی تنظیم تعاون کی اعانت سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی بھی شخس حصہ لے سکتا ہے۔

جذبات سے عمل تک

روسیوں کے غیرمعمولی مشاغل

دنیا بھر میں بہت زیادہ لوگ بیجیز، ڈاک ٹکٹ، کیلنڈرز، چھوٹے مجسمے وغیرہ جمع کرتے ہیں، ایسا مشغلہ ایک معمول بن چکا ہے۔ تاہم روس میں کئی لوگوں کے مشاغل غیرمعمولی ہیں۔ پاویل نام کے ایک شخص کے گھر کے احاطے میں ایک چھوٹی ریلوے لائن نصب ہے۔ پاویل کے پاس 1912 کی طرز پر بنایا گیا ایک ریلوے انجن ہے جو لکڑی جلائے جانے سے چلتا ہے۔ لکڑیاں ایک چھوٹے سے چولہے میں رکھی جاتی ہیں اور انجن کی رفتار چار کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔ پاویل نے ایک پرانی تصویر کو دیکھتے ہوئے یہ ریلوے انجن خود بنایا ہے، اس کام میں انہیں ڈیڑھ سال لگے۔ اب پاویل کا منصوبہ ہے کہ چند ریلوے ڈبے بنائیں جو اصل ڈبوں کی نقل ہوں۔

روس میں کئی لوگوں کو سوکھی ہوئی پتیوں اور پھولوں سے تصاویر بنانے کا شوق ہے۔ چھہ سو سال پرانا یہ فن جاپان سے روس آیا ہے۔ شروع میں ایسی تصویر بنانا بہت دشوار کام ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ قدرتی مناظر حتی کہ دوسروں کے پورٹریٹ بنانا سیکھ لیتے ہیں۔

ایک اور غیرمعمولی مشغلہ باٹ جمع کرنے کا ہے جو عام طور پر ویٹ لفٹر کھلاڑی اٹھاتے ہیں۔ باٹ اٹھارہویں صدی میں وجود میں آئے تھے جب فوجیوں نے توپوں کے اندر گولے رکھنے کے کام کو آسان بنانے کے لیے گولوں پر دستے لگانا شروع کر دیئے تھے۔ سرگئی نام کے شخص کے مجموعے میں مختلف سائز کے پچاس باٹ ہیں۔ سرگئی کا خیال ہے کہ ستر کلوگرام وزنی باٹ جو انہوں نے خود بنایا تھا، اس مجموعے کی زینت ہے۔ سرگئی نے بہت زیادہ ٹریننگ لی تھی تاکہ ایک ہاتھ سے یہ باٹ اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔

کچھ روسی لوگ کشیدہ کاری اور ورزش کرنے کے مشاغل کو بھی غیرمعمولی مشغلے میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ستر سالہ ایِگور گولدمن لیٹے ہوئے ایک سو کلوگروم وزنی لوہے کے بار کو بارہ مرتبہ اٹھا کر گینس بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کئے گئے ہیں۔ یہ ریکارڈ قائم کر کے انہیں ”لوہے کا دادا“ کا نام دیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک نوجوان کمانڈو یہ ریکارڈ توڑنے میں ناکام رہا، وہ صرف تین بار لوہے کا بار اٹھا پایا۔

کچھ مشاغل کی بنیاد پر فلاحی سرگرمیاں کی جاتی ہیں۔ شمال مغربی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں لباس بنانے والی خواتین نے چھہ سو بیس میٹر لمبا گلوبند بنا کر اسے ٹکڑوں میں بانٹا ور بچوں میں تقسیم کر دیا۔

روسیوں کے غیرمعمولی مشاغل

نمونیہ کے خلاف نیا ٹیکا۔۔۔ پاکستانی بچوں پر تجربہ شروع

ہر سال پاکستان میں کم سے کم ایک لاکھ 35 ہزار بچے نمونیہ کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ اس موضی مرض کا علاج اتنا مشکل نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے نہ ہونے کی وجہ سے اتنی جانیں ہر سال ضایع ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین بھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ کیسے اس مرض کی روک تھام کی جاسکے۔ لیکن اب بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک نئی دوا ایجاد ہوئی ہے جس پر ان کا بھروسہ زیادہ ہے۔

شاید اسی وجہ سے پاکستانی حکومت نے اس سے پہلے کہ بھارت یا خطے کا کوئی دوسرا ملک اس دوا کو اپنے ہاں استعمال کرے، پہلے خود استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پچھلے دنوں سندھ حکومت نے اسی فیصلے کہ مطابق سندھ کے تمام اضلاع میں اس نئی دوا کو متعارف کروایا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک یہ دوا جنوبی ایشیا کے کسی دوسرے شہر میں متعرف نہیں ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں صرف تقریباََ 20 ایسے ممالک ہیں جو اس دوا کو استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ سینے کے امراض کے ماہر ڈکٹر جاوید خان کا کہنا ہے کہ اس دوا کا استعمال پاکستان میں بر وقت ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سال اتنے سارے بچوں کی موت کے باوجود پاکستان میں اس مرض کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ جس طرح دوسری خطرناک بیماریوں کے بارے میں تشہیر کی جاتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کے بارے میں اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کی احتیاطی ویکسین کی ایجاد سے اس بیماری سے لڑنے میں بہت مدد ملے گی۔ اب تک بچوں کی ویکسین صرف پولیو وغیرہ تک محدود تھی لیکن نمونیہ کی اس دوا کے میسر ہونے سے بہت سے بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک ہی کیوں ایسی ادویات کے لئے تجربے گاہ بنتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نمونیہ کا تعلق گندگی سے ہے اور مغربی ممالک نے اس لعنت سے بڑی حد تک چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ پاکستان میں چونکہ حفظان صحت ابھی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لہذا یہیں ایسے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ اسی لیے ان بیماریوں کی ادویات بھی یہیں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

انہوں نے حکومتِ پاکستان کی تعریف کی کہ ویکسین کے حوالے سے اٹھایا جانے والا یہ قدم اس موضی مرض سے بچنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ بیماری بہت عام ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں غربت ، کثیر الاولادی، اور صفائی کا نہ ہونا بڑے مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ممالک میں اگر کسی کو نمونیہ ہوجائے تو دیہی علاقوں میں تو علاج بیس بیس میل تک نہیں ملتا۔

حضرت زکریا کی اللہ سے دعا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل