پرندے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پرندے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, نومبر 03, 2012

پاکستان میں مسافر پرندوں کے ڈیرے

کراچی کے ساحلوں اور اندرون سندھ کی جھیلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے لگ گئے ہیں۔ کلفٹن ، ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ اور سینڈز پٹ کی سنہری ریت میں جھنڈ در جھنڈ کھیلتے اور بھانت بھانت کی سریلی آوازیں نکالتے ہزاروں پرندے ان ساحلوں کی خوب صورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ ان پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی ساحل پر ان کا نظارہ کرنے والوں کا بھی رش بڑھ گیا ہے۔

یہ پرندے سائبیریا، وسط ایشیائی ریاستوں، منگولیا، روس، مشرقی یورپ، چین اور دیگر ممالک سے براستہ افغانستان اور ایران، پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ میدانی علاقوں کے آبی مقامات پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔

ان پرندوں کی آمد کی بنیادی وجہ وہ سخت موسم ہوتا ہے جس میں نہ صرف شدید برف باری ہوتی ہے بلکہ اس قدر یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں کہ انسان تک پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ ان دنوں برفیلے علاقوں کا درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ پرندے قدرت سے سدھائے ہوئے طریقے پر چلتے ہوئے معتدل موسم کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔

ستمبر کے آخر سے ان پروندوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اپریل تک رہتا ہے۔ ان پرندوں کی آمد کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ویٹ لینڈ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر بابر حسین نے کہا ’سائبریا سے ہرسال تقریباً ایک سو دس اقسام کے پرندے پاکستان آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بطخیں اور بگلے ہوتے ہیں۔ ان پرندوں کے نظارے کا بہترین وقت جنوری کا مہینہ ہوتا ہے جب یہ پرندے اپنے پورے جوبن پر ہوتے ہیں۔‘

بابر حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پرندے ’سینڈزپٹ ‘ پر اترتے ہیں جبکہ اندرون سندھ رن آف کچھ اور ہالیجی جھیل بھی ان پرندون کی قیام گاہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سینڈزپٹ پر مینگروز کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے یہاں پرندوں کو آسانی سے خوراک مل جاتی ہے۔ سندھ کی آبی قیام گاہوں میں گھاس کی ایک خاص قسم بھی پائی جاتی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے پتے اور بیج و چھوٹی مچھلیاں ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ یہ پرندے اپنی افزائش نسل کے بعد اپریل کے وسط تک واپسی کا سفر شروع کردیتے ہیں۔‘

کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے جنگلوں، دمکتی جھیلوں اور تالابوں میں بھی سینکڑوں مہاجر پرندے ہر سال اپنا عارضی بسیرا بناتے ہیں۔ ان پرندوں میں تلور، کونج، بھگوش، چارو، چیکلو، لال سر، بنارو اور دیگر چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔ یہ پرندے زیادہ تر رن کچھ کے ساحلی علاقے اور تھر کے ریگستانوں میں اُترتے ہیں۔ اس کے علاوہ منچھر، کلری اور ہالیجی جھیلیں بھی ان پروندوں کے ٹھہرنے کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔

ڈپٹی کنزویٹو سندھ وائلڈ لائف ڈاکٹر فہمیدہ اور دیگر ماہرین کے مطابق کئی سال پہلے تک پاکستان میں تقریباً 10لاکھ پرندے آتے تھے لیکن اب ہر سال ان پرندوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اس کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہے۔ قدرت نے ان پرندوں کو بہت حساس ناک دی ہے جس کی مدد سے یہ بارود اور خطرے کی بو بہت دور سے ہی پہچان لیتے ہیں لہذا افغانستان کے راستے آنے والے پرندوں نے آمد بند کردی ہے۔

ادھر سندھ کی جن جھیلوں اور تالابوں پر یہ بسیرا کرتے تھے وہ صنعتی فضلے، کوڑا کرکٹ اور دیگر زہریلے مادے سے بھر گئے ہیں لہذا ان پرندوں نے اس وجہ سے بھی آنا کم کردیا ہے۔ شوگر ملوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں اور مواد نے دریا میں چھپی ان کی خوراک کو بھی زہریلا بنا دیا ہے۔ اس وجہ سے اب یہ پرندے پاکستان کا رخ کرنے کے بجائے بھارت جانے لگے ہیں۔ بھارتی ریاست راجستھان اور گجرات میں ان کا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کے تحفظ کے لئے بھی کئی تظیمیں سرگرم عمل ہیں۔

ان پرندوں کی آمد میں کمی کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی شکار بھی ہے۔ موسم بدلتا نہیں کہ شکاریوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ یہ شکاری با اثر ہونے کے سبب قانون سے کھیلتے اور محض اپنے شوق میں ہزاروں پرندے مار دیتے ہیں۔

کراچی سمیت سندھ کے ساحلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے

اتوار, اگست 12, 2012

عرب شہزادوں کو شکار کی اجازت ملنے پر اظہار تشویش

اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی نے عرب ممالک کے شاہی خاندانوں کو تلور کے شکار کی اجازت دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت خارجہ سے تلور کے شکار کے لیے دیے گئے لائسنسوں پر جواب طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی غلام میر سمیجھو کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی سمیت وفاقی سیکرٹری، وزارت موسمیاتی تبدیلی محمود عالم، ڈی جی این ڈی ایم اے تار سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ 

آئی جی فارسٹ سید محمود ناصر نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں پودوں کی 10ہزار جبکہ جانوروں اور پرندوں کی 4 ہزار سے زائد اقسام کی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ شاہی خاندانوں کو پاکستان میں تلور کے شکار کے لائسنس جاری ہونے سے تلور کی نسل ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ آئی جی فاریسٹ نے بتایا کہ عرب شاہی خاندان کے پاکستان شکار کے لیے آنے والے ایک شخص کو 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم وہ اس سے کئی گنا زیادہ پرندے شکار کرتے ہیں۔ وزارت خارجہ نے شاہی خاندانوں کو یومیہ 700 جانوروں اور پرندوں تک کے شکارکرنے کے لائسنس جاری کیے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کا عرب شہزادوں کو شکار کی اجازت ملنے پر اظہار تشویش

جمعرات, اگست 09, 2012

طوطے تین سالہ بچوں کی طرح ذہین

آسٹریا اور جرمنی کے ماہرین حیوانات نے تحقیقات کرکے یہ ندازہ لگایا ہے کہ ژاکو نسل کے طوطے وجہ اور نتیجہ کے درمیان موجود رابطہ کو تین سالہ بچوں کی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایسے طوطوں کی منطقی صلاحیت ایک آسان تجربہ کے دوران سامنے آئی۔ محققین نے طوطوں کو دو یکساں پلاسٹک گلاس دکھائے جس کے بعد ایک گلاس میں اخروٹ رکھا گیا جبکہ دوسرا خالی رہا۔ پھر محققین نے دونوں گلاس باری باری ہلا دیئے تاکہ طوطے سن سکیں کہ اخروٹ کون سے گلاس میں ہے۔ بعد میں طوطوں نے صحیح گلاس منتخب کیا۔ جہاں تک بچوں کا سوال ہے تو وہ تین سال کی عمر میں ہی ایسی مشق کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

طوطے تین سالہ بچوں کی طرح ذہین ہیں

جمعہ, اگست 03, 2012

صحرائے تھر کا خوب صورت پرندہ ’مور‘ ۔۔ موت کے ہاتھوں بے بس

صوبہ سندھ کا صحرائے تھر بنجر ہونے کے باوجود اپنے آپ میں بہت دلکش ہے۔ خاص کر یہاں کے حیوانات۔ اوران حیوانات میں بھی سرفہرست ہے مور۔
مگر گذشتہ کچھ عرصے سے صحرائے تھر کے مور موت کے شکنجے میں گرفتار ہیں اور پچھلے انیس بیس دنوں میں 100 سے زائد مور ہلاک ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ماجرہ کیا ہے پھر معلوم ہوا کہ ان میں ”رانی کھیت“ نامی بیماری پھوٹ پڑی ہے۔ اب سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ کہیں وہ اس صحرا سے ختم ہی نہ ہوجائیں۔

موروں کی ہلاکت کی سب سے پہلی اطلاع ملی تھر کے علاقے مٹھی سے۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے کئی مور ہلاک ہوگئے۔ محکمہ جنگلی حیات کو اطلاع ملی تو انہوں نے کئی دن تحقیق میں گزار دیئے۔ اسی دوران کچھ ماہرین نے بتایا کہ موروں کو رانی کھیت کا جان لیوا مرض لاحق ہوگیا ہے۔

ابھی مٹھی میں معاملہ سنبھالا ہی نہیں تھا کہ یکے بعد دیگرے علاقے کی دس تحصیلوں سے بھی موروں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مٹھی کے دیہاتوں کے بعد اب یہ بیماری ڈیپلو اور ننگر پارکر تحصیلوں تک پہنچ چکی ہے جہاں کے دس دیہات میں قریب ڈیڑھ درجن مور ہلاک ہوچکے ہیں۔

ادھر محکمہ وائلڈ لائف حکام نے متاثرہ دیہاتوں میں ادویات کی فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ متاثرہ دیہاتوں میں وائلڈ لائف کی ٹیمیں اور ادویات ضرورت سے کم ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف ذرائع کے مطابق اس بیماری کا دورانیہ 2 سے 18 دن تک کا ہوتا ہے اس لئے مٹھی سمیت جن علاقوں میں پہلے مرحلے میں ہی یہ بیماری پھیلی تھی وہاں اب ہلاکتوں میں واضح کمی آرہی ہے۔

اس بیماری نے وباء کی شکل اختیار کرکے اسلام کوٹ اورنوکوٹ کے مختلف دیہاتوں کو گھیرا ہوا ہے جہاں سے اب تک ایک درجن سے زائد موروں کی ہلاکت کی اطلاعات مل چکی ہیں جبکہ پورے تھر میں مجموعی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔

محکمہ پولٹری کی جانب سے پورے ضلع میں بھیجی جانے والی چارٹیموں میں صرف ایک ہی ماہر ڈاکٹر شامل ہے۔ صوبائی وزیروائلڈ لائف دیا رام اسرانی نے اپنے دورہ تھر کے دوران میڈیا کو یہ بتایا تھا کہ تھر میں اب تک ہلاک ہونے والے موروں کی تعداد صرف 11 ہے، جسے مقامی آبادی نے مسترد کردیا تھا۔

مقامی افراد کے مطابق صرف ببوگاؤں میں 33 سے زیادہ مور مرچکے ہیں۔ صوبائی وزیر نے مور بچاؤ مہم مزید تیز کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

سرکاری اعداد و شما ر کے مطابق تھرپارکر میں پائے جانے والے موروں کی تعداد 7 ہزارسے زیادہ ہے۔ دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ جنگل میں آزاد گھومنے والے موروں کو صرف چار ٹیموں کے ذریعے دوا پہنچانا مشکل کام ہے۔ اگر فوری طورپر بڑے پیمانے پر مہم شروع نہ کی گئی تو موروں کی نسل ختم ہوجائے گی۔

اس وقت بھی تھرپا رکر کے پیراکی، تھرپارکر ضلع کی یونین کونسل کلوئی، بھٹارو، مہرانو اور کھیتلاری میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہے اور گاؤں خان محمد لاشاری، بابن کوہ اور گرڑابہ کے مور بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ اگر فوری طور پر مور بچاؤ مہم میں تیزی نہ لائی گئی تو صحرائے تھر میں بڑے پیمانے پر مور ہلاک ہوسکتے ہیں۔


صحرائے تھر کا خوب صورت پرندہ ’مور‘ ۔۔ موت کے ہاتھوں بے بس

بدھ, جولائی 11, 2012

کوئل ۔۔ دس ہزار میل پرواز کرنے والا پرندہ

اگر آپ صبح سویرے سیر پر جاتے ہیں تو آپ نے درختوں کے قریب سے گذرتے ہوئے ایک پرندے کی خوبصورت اور سریلی آواز ضرور سنی ہوگی۔ دل کو چھو لینے والی یہ آواز ایک لمحے کے لیے رک پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کردیتی ہے۔ یہ خوبصورت آوازایک چھوٹے سے پرندے کوئل کی ہے۔

کوئل اور ہر گھنٹے کے بعد کوئل جیسی آواز نکالنے والے کلاک اب ماضی کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ زیادہ دور پرے کی بات نہیں ہے کہ باغوں اور پارکوں میں کوئل کی سریلی اور خوبصورت آواز اکثر سنائی دیتی تھی اور بہت سے گھروں کی دیواروں پر ایسے کلاک نظر آتے تھے جن میں ہر گھنٹے کے بعد ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلتی تھی اور ایک ننھی سی کوئل اپنی چونچ باہر نکال کر وقت کا اعلان کرتی تھی۔

کوکو کلاک موبائل فونز اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دیگر گھریلو آلات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے، جب کہ آب و ہوا کی تبدیلیاں ہمارے باغوں اور پارکوں کوکوئل کے سریلے نغموں سے محروم کررہی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں کوئل کی آبادی میں کتنی کمی واقع ہوئی ہے؟ اس بارے میں مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن برطانیہ میں ایک حالیہ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ 1995ء کے مقابلے میں 2010ء میں اس خوش الحان پرندے کی تعداد آدھی ہوچکی تھی۔

کم ہی لوگوں کو یہ علم ہے کہ کوئل ایک خانہ بدوش پرندہ ہے اور وہ خوراک کی تلاش اور موسموں کی سختیوں سے بچنے کی خاطر ہر سال ہزاروں میل کا سفر کرتا ہے۔ یورپ میں یہ ننھا پرندہ افریقہ سے طویل سفر کے بعد وہاں آتا ہے اور سردیاں شروع ہوتے ہی واپسی کی پرواز شروع کردیتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ یہ ننھی سی جان ہرسال دس ہزار میل سے زیادہ پرواز کرتی ہے۔ اوراس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شمالی امریکہ کے سفر کے لیے یہ پرندہ چار ہزار میل کی ایک مسلسل اڑان میں بحیرہ کریبیئن عبور کرتا ہے۔

کوئل یا کوکو کی کئی اقسام ہیں جن کا وزن 15 گرام سے سوا پونڈ تک ہوتا ہے۔ مختلف اقسام کے پروں کی رنگت بھی مختلف ہوتی ہے اور کوئل کی نقل مکانی پر نظر رکھنے والے یورپی تحقیقی ادارے بی ٹو او کے مطابق کچھ اقسام نقل مکانی نہیں کرتیں اور کسی خاص علاقے میں مستقل طور پر رہتی ہیں۔

برطانوی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے، جو گذشتہ ایک سال سے کوئل پر تحقیق کررہی ہے، افریقہ سے برطانیہ پہنچنے والی کوئل کی پرواز کے راستوں کی مستند معلومات اکھٹی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اس تحقیق کے لیے پہلی بار جی پی ایس سے مدد لی گئی ہے اور سیٹلائٹ کے ذریعے ان کی پرواز پر نظر رکھ کر ڈیٹا مرتب کیا گیا ہے۔

ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فل اٹکن سن کا کہنا ہے کہ اپنی تحقیق کے لیے انہوں نے پچھلے سال مئی میں نورفوک کے علاقے سے پانچ نر کوئل پکڑے، اور پھر ایک خصوصی چھوٹے جی پی ایس کو ان کے بازوں کے ساتھ باندھنے کے بعد آزاد کردیا گیا۔ جس کے بعد ان کی پرواز کاریکارڈ مرتب کیا گیا۔

ڈاکٹر اٹکن سن کا کہنا ہے کہ ان پانچ میں سے دو پرندوں نے جن کے نام لاسٹر اور کرس رکھے گئے تھے، خزاں کا موسم شروع ہوتے ہی اپنی واپسی کی پرواز شروع کی اور وہ مختلف راستوں سےاٹلی اور سپین سے گذرتے، بحیرہ روم کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے افریقہ کے صحرائے اعظم میں داخل ہوئے اور سردیوں کے آغاز پر ایک برساتی جنگل میں پہنچ گئے۔ پھر جب موسم بدلنا شروع ہوا تو انہوں نے واپسی کے سفر کا آغاز کیا اور مختلف راستوں سے گذرتے اپریل کے آخر میں برطانیہ میں فورنوک کے اسی علاقے میں پہنچ گئے جہاں سے ایک سال قبل انہیں پکڑا گیا تھا۔

پرندوں پر ایک اور حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 1995ء سے یورپ میں کوئل سمیت پرندوں کی دوسری کئی اقسام کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔ ان میں قمری، فاختہ، بلبل اور ممولے بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں ہر سال کوئل کے دس ہزار سے بیس ہزار جوڑے گرمیاں گذارنے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مادہ کوئل اپنے واپسی کے سفر پر روانگی سے قبل عموماً کوئے کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔ اور کوئے کو اس وقت پتا چلتا ہے کہ وہ کوئل کے انڈے سہتا اور اس کے بچے پالتا رہا ہے، جب وہ بولنا شروع کرتے ہیں۔ وہ انہیں گھونسلے سے باہر پھینک دتیا ہے۔ مگر تب تک وہ اڑنے کے قابل ہوچکے ہیں اور پھر گھونسلے سے بے دخل ہونے کے چند ہی ہفتوں کے بعد وہ افریقہ کے لیے اپنی پرواز شروع کردیتے ہیں۔

کوئل کی اقسام اپنے انڈے خود سہتی ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش بھی خود کرتی ہیں۔

نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئل پرواز کے لیے مختلف راستے اختیار کرتا ہے۔ بالغ پرندے اپنا سفر پہلے شروع کرتے ہیں اور عموماً مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں برطانیہ پہنچ جاتے ہیں اور پھر جولائی اگست میں ان کی واپسی شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ ان کے بچوں کی پرواز تقریباً ایک ماہ بعد شروع ہوتی ہے۔

صحرائے اعظم عبور کرنے سے پہلے یہ پرندے کچھ عرصہ مغربی افریقہ میں رکتے ہیں اور اپنے قیام کے دوران معمول سے زیادہ خوراک کھاتے ہیں جس سے ان کے وزن اور جسم میں توانائی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اپنی اسی توانائی کے بل پر وہ صحرا ئے اعظم عبور کرتے ہیں۔

ڈاکٹر فل اٹکن سن کا کہنا ہے کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ غیرمعمولی موسمی تبدیلیاں ان کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیق میں شامل پہلا کوئل افریقی ملک کیمرون سے گذرتے ہوئے سخت موسم کے باعث ہلاک ہوگیا تھا۔

ماہرین کے مطابق کوئل کا اصل وطن افریقہ ہے اور وہ خوراک کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتا ہے۔

ڈاکٹر اٹکن سن نے ٹیلی گراف کے ساتھ اپنے انٹرویو میں موسمیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تبدیلوں کے باعث اس سال فروری کے آخر میں ہی کوئل کی آمد کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا، جب کہ ان کی آمد عموماً اپریل اور مئی میں ہوتی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نر اور مادہ کوئل کی عادات کافی مختلف ہیں۔ برطانیہ میں نر پرندوں کی آمد پہلے شروع ہوتی ہے اور وہ گرمیاں گذارنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں انہیں اپنے لیے اچھے جیون ساتھی ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ جب کہ مادہ پرندے کئی ہفتوں کے بعد وہاں پہنچنے ہیں اوران کی پرواز کے راستے بھی مختلف ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر اٹکن سن کی ٹیم مادہ کوئل کی پرواز کے راستوں کا نقشہ بنانے کے لیے اس سال ان پر تحقیق کررہی ہے۔

بدھ, جولائی 04, 2012

ومبلڈن کا شاہین دوبارہ مل گیا

لندن میں ومبلڈن گرینڈ سلام ٹینس مقابلوں کے دوران کبوتروں کو میدان سے دور رکھنے میں مدد دینے والا شاہین چوری ہونے کے تین دن بعد مل گیا ہے۔

جمعرات کو روفس نامی اس شاہین کو جنوب مشرقی لندن میں اس کے سفری ڈبے سے چوری کیا گیا تھا۔

اس باز کے مالک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ’روفس کی صحت ٹھیک اور خیریت سے ہے۔ ہمیں اس کے ملنے پر بے انتہا خوشی ہے۔‘

جمعرات کی رات کو روفس چوری ہوا تھا اور جمعہ کی صبح لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے روفس کے سفری ڈبے کے بارے میں اطلاع دی۔

اس سفری ڈبے کو تیار کرنے والے مارٹن انڈروڈ کے مطابق ایک شخص نے انہیں فون کر کے کہا کہ’مجھے ایک ایسی چیز ملی ہے جس کا تعلق آپ سے ہے۔‘

مارٹن انڈروڈ کے مطابق اس وقت تک انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ روفس چوری ہو چکا ہے تاہم اطلاع دینے والا شخص پولیس ملازم یا اس کا تعلق خیراتی ادارے’آر ایس پی سی اے‘ سے تھا۔

لندن پولیس کی ایک ترجمان کے مطابق روفس کو خیراتی ادارے کے جانوروں کے ہسپتال میں حوالے کیا گیا۔

ترجمان کے مطابق’روفس کی ٹانگ پر معمولی زخم ہے اور اسے دوبارہ کام پر جانے سے پہلے چند روز آرام کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘

چار سالہ روفس کو ومبلڈن کے مرکزی سٹیڈیم میں صبح کے وقت تماشائیوں کے آنے سے پہلے کبوتروں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔


ومبلڈن کا شاہین دوبارہ مل گیا

اتوار, جولائی 01, 2012

جنوبی ایشیا کے گدھ پر منڈلاتے خطرات

گدھ ماحول کو تعفن اور دیگر جراثیم سے صاف رکھنے کے لیے حیاتیاتی تنوع میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران جنوبی ایشیا میں اس پرندے کی نسل تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے جو کہ ایک تشویشناک امر ہے۔

اس پرندے کی خوراک مردہ جانور کا گوشت اور دیگر باقیات ہوا کرتی ہیں لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ موت سے زندگی کشید کرنے والا پرندہ اب اپنی ہی خوراک سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

اس کی ناپید ہوتی نسل کی وجوہات ماہرین کے بقول ایسے مردہ جانوروں کا گوشت ہے جنہیں بیماری کے دوران ڈیکلوفینک کی دوا دی گئی ہوتی ہے۔ اس گوشت سے گدھ کے گردے ناکارہ ہوجاتے ہیں اور وہ موت کا شکار ہوجاتا ہے۔

اس امر کی نشاندہی کے بعد اس دوا کے جانوروں میں استعمال پر خطے کے چار ملکوں پاکستان، نیپال، بھارت اور بنگلہ دیش میں پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن اس کے باوجود صورتحال اتنی حوصلہ افزا نہیں۔