جمعہ, نومبر 02, 2012

فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے

بالی ووڈ ایکٹر عامر خان کے بارے میں ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ جو کام بھی کرتے ہیں لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔ فلمی دنیا کے مسٹر پرفیکٹ ان دنوں حج کے ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔۔۔ ابھی وہ وہاں پہنچے بھی نہیں تھے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ان کے تذکرے زور شور سے شروع ہوگئے۔۔۔

یہاں تک کہ ممبئی ائیر پورٹ پر وہ اپنی والدہ کو لے کر کس طرح جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز کی کش نشست پر کس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اس تک کی تصویریں انٹرنیٹ پر ساتھ ساتھ اپ لوڈ ہوتی اور دنیا بھر میں دیکھی جاتی رہیں۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پوسٹ ہونے والی ان کی تصویروں سے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ انہوں نے مدینہ پہنچ کر پاکستانی کھلاڑی شاہد آفریدی اور ایک دینی مفکر مولانا طارق جمیل سے بھی ملاقات کی ۔

مسٹر پرفیکٹ۔۔ فلمی دنیا میں تو پرفیکٹ ہیں ہی ۔۔ حج کے دوران اپنی ماں کے روبرو بھی انہوں نے خود کو ”پرفیکٹ بیٹا“ ثابت کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔۔۔۔ حج کی ادائیگی کے دوران انہوں نے اپنی والدہ کی خوب لگن اور محنت کے ساتھ ایسی خدمت کی کہ دیکھنے والے بھی کہہ اٹھے۔۔ ”بیٹا ہو تو عامر خان جیسا“۔

اس حوالے سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی صحافی شاہد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حج کے تمام مناسک کی ادائیگی کے دوران عامر خان ناصرف اپنی والدہ کی وہیل چیئرخود چلاتے رہے بلکہ انہوں نے مناسک کی ادائیگی میں والدہ کی سہولت اور آرام کا ہر طریقے سے خیال رکھا۔

حد تو یہ کہ عرفات سے منٰی کے دوران شدید ٹریفک جام ہونے کے سبب انہوں نے باقی تمام حاجیوں کی طرح سات کلومیٹر کا طویل سفر پیدل اور اپنی والدہ کی وہیل چیئر دھکیلتے ہوئے طے کیا۔

الخالد ٹورز کے نگراں یوسف خیرادہ کے مطابق تمام مناسک حج کی ادائیگی کے دوران عامر خان پرجوش اور خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔ وہ اپنی والدہ کی خدمت پر پوری طرح مطمئن تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ کے لئے مزدلفہ میں جمرات کے لئے خود کنکریاں جمع کیں۔ اپنے ہونہار بیٹے کی خدمات سے عامرخان کی والدہ بھی خوش تھیں۔

عامر خان نے حج انتظامات کے لئے سعودی حکومت کے اقدامات کو سراہا۔

عامر خان۔۔۔ فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے

عورتوں کے شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی

حال ہی میں جاری ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدیوں سے جاری شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی ہونے لگی ہے۔ پہلے خواتین شادی کے لئے اعلیٰ سماجی حیثیت کے حامل شخص کو جیون ساتھی بنانا پسند کرتی تھیں لیکن اب اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اب خواتین خود سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والے شخص سے شادی کرنے کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ 

سپین میں یونیورسٹی کی سطح پر کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین مردوں کی انا کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ لیکن اب اس صورت حال کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ محقق البرٹ ایسٹیو کا کہنا ہے کہ خواتین میں تعلیم کی شرح میں اضافے سے سنگل وومن کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ خاتون خود کو خود مختار سمجھتی ہے اور شادی کرکے پابندیوں میں جکڑنا نہیں چاہتی، اس لیے وہ ایسا جیون ساتھی ڈھونڈتی ہے جو اس سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والا ہو تاکہ وہ بیوی کی عزت کرے۔ 

فرانس، سلووینیا اور منگولیا جیسے 21 ممالک میں خواتین خود سے اعلیٰ مرتبے کے بجائے کم تعلیم یافتہ اور کم وسائل کے مالک مرد سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں۔ 1960 کی دہائی سے جاری 56 ممالک میں کی گئی تحقیق کے بعد کہا گیا کہ اب خواتین میں شادی کے انتخاب میں روایتی جمود ٹوٹ چکا ہے۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

رابعہ کی شادی اپنے برطانوی نژاد پاکستانی کزن سے ہوئی۔ پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بچھڑتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا شریکِ سفر پہلے ہی کسی اور لڑکی کی محبت میں گرفتارہے، جس نے شادی ماں باپ کے مجبور کرنے پر محض اُن کی خوشی کی خاطر کی ہے؟ اتنا ہی نہیں۔ سسرال میں اُس کی حیثیت ایک ملازمہ سے زیادہ نہیں؟ پردیس میں اِس حقیقت کا سامنا اُس نے بڑی ہمت سے کیا۔ مگر، اِس قربانی کا صلہ اسے طلاق کی صورت میں ملا۔ آج رابعہ برطانیہ کے علاقے شیفیلڈ میں تنہا دو بچوں کےکونسل کےگھر میں رہتی ہے۔ وہ غیر تعلیم یافتہ ہے اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات کی انجام دہی میں اسےکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رابعہ نے ’وی او اے‘ سے اپنی کہانی اِس طرح بیان کی: میری شادی سنہ 2004 میں آصف سےمیر پور میں ہوئی۔ شادی کے چار ماہ بعد وہ برطانیہ بریڈ فورڈ آئی۔ اُن کا سسرال ساس، سسر، تین نندوں؛ ایک دیورانی اُس کی تین بچیوں، نند کے شوہر اور ایک بچے پر مشتمل تھا۔ ایک اچھی بہو کا فرض نبھاتے ہوئے سسرال کے ہر کام میں حصہ لیا مگر کچھ ہی دنوں بعد تمام کاموں کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی اور گھر والوں کا سلوک بھی بدل سا گیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ آصف شادی کے بعد گھر میں خرچے کے پیسے نہیں دے رہا ہے۔ لہذا، اسے سب گھر والوں کے کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا ملے گا۔ کئی دفعہ کھانا نہیں بچتا تھا اور اکثر اسے بھوکا رہنا پڑتا۔ 2005ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی، مگر آصف نے باپ بننے کا بھی فرض پورا نہیں کیا۔ اپنی بچی کی ضرورتوں کے لیے بھی محتاج تھی۔ روز روز کی لڑائی اور پھر نوبت مار پیٹائی تک جا پہنچی۔ سسرال والوں نے بھی کبھی اُس کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ، کہا جاتا کے جتنی ذلت ہم تمہاری کرتے ہیں اگر ایک کتے کی بھی کریں تو وہ گھر سے چلا جائے۔

رابعہ نے آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے کہا، میری زندگی دن بدں دشوار ہوتی جا رہی تھی۔ سنہ 2009 میں جب دوسری بار آٹھ ماہ کی حاملہ تھی تو اپنی نند کو ویکیوم کرنے کے لیے کہنے پر ایسی سزا دی گئی کہ پانچ دن اور رات اسے ایک ہی جگہ پر بٹھا کر رکھا گیا، ساس نے طنزیہ کہا آج سےسب گھر والے اس کی خدمت کریں گے۔ اس دوران کھانا اس طرح لا کر دیا جاتا جیسے کسی جانور کے آگے رکھا جاتا ہے، مگرایک ایسی بات بھی ہوئی کہ جو میں بتانا نہیں چاہتی، جس نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ صبح جب سب سو رہے تھےتو میں نے گھر چھوڑ دیا اور اپنی بچی کے سکول جا پہنچی۔ سکول والوں نے میری روداد سننے کے بعد مجھے فلاحی ادارے کے سپرد کردیا۔ سسرال سے میری کوئی خبر نہیں لی گئی۔ میں نے بریڈ فورڈ سے کہیں اور منتقل کرنے کی درخواست ادارے کو دی جس پر مجھے شیفیلڈ کے رفیوجی کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ یہں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس بات کی اطلاع آصف کو دی گئی مگر اس نے سنگدلی کی انتہا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔

دو سال کچھ ہمسائیوں کی مدد سے اپنی زندگی کی جنگ لڑی۔ تاہم، اکیلے پن سے گھبرا کر ایک دن آصف کو فون کیا۔ آصف بھی مجھ سے ملاقات کے لیےتیار ہوگیا، جبکہ اس کے دل میں اس ملاقات کے پیچھے کوئی اور ہی مقصد تھا، نا کہ میری اور میرے بچوں کی محبت۔ اُس نے شیفیلڈ کے معزز افراد کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ وہ میرا اور اپنے بچوں کا خیال رکھے گا۔ اس وعدے کے ساتھ وہ ہمیں گھر واپس لے آیا۔ رابعہ نے بتایا کہ اس نے یہ فیصلہ پاکستان میں اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک اس سے ناراض ہیں۔ تاہم، ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ آصف کچھ عرصہ ہی اپنی بات نبھا سکا اور پھر اپنی پرانی روش پر آگیا۔ ایک دن اچانک آصف نے بتایا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جو ماں بنے والی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تا کہ سوسائٹی میں بچے کو اپنا نام دے سکے۔ مجھے ایک بار پھر نئی آزمائش کا سامنا تھا۔ اس کی نظر میری چوڑیوں پر تھی میں نے اسے وہ چوڑیاں اتار کردیں تو وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ شادی کے کچھ عرصے تک آصف حسب وعدہ بچوں سے ملنے آتا اور ان کے لیے کچھ رقم بھی دینے لگا۔ ایک دن آصف نے کہا کہ وہ ایک اچھی گاڑی خریدنا چاہتا ہے اور اس کے پاس تھوڑے ہی پیسے کم ہیں۔ کیا میں اس کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے اس بار بھی اندازا نہیں ہوا کہ اب اس کی نظر میرے ان پیسوں پر ہے جو میں نے پچھلے دو سالوں میں اکیلے رہتے ہوئے بچائے تھے۔ اس دفعہ میں ایک مرتبہ پھر اس کے لہجے سے دھوکا کھا گئی، اور اپنی آخری جمع پو نجی بھی اس کے حوالے کر بیٹھی۔ مگر اس کی گاڑی میں بیٹھنا ہمارا مقدر نہیں تھا۔ اگلے ہی دن آصف سے جھگڑا ہوا کہ وہ وعدے کے مطابق ہمیں زیادہ وقت نہیں دیتا، جس پر وہ مشتعل ہوگیا۔ پہلے اُس نے مجھے دھکا دیا پھرمارا پیٹا۔ اُسی غصے میں اس نے مجھے تیں طلاقیں دیں۔ اور ہمیشہ کے لیے رشتہ ختم کردیا۔ مجھے اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی ٹھکانہ۔ ایک طرح سے میں سڑک پر آگئی تھی۔

ایک بار پھر مجھے سٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ سنہ 2012 میں دوبارہ شیفیلڈ واپس آگئی۔ یہاں سٹی کونسل کی جانب سے گھر دیا گیا ہے اور ماہانہ اخراجات کے لیے رقم بھی دی جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ برطانیہ میں عورتوں کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ روشنی نام کی ایسی ہی ایک تنظیم نے اس کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ وہ اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی، کونسل کے ذریعے سامان کا تقاضا آصف سے کیا تو تنگ کرنے کی غرض سے ٹی وی کا ریموٹ، کمپیوٹر کا چارجر، حتٰی کہ بچے کی گاڑی کے ریموٹ جیسی چیزیں بھی واپس نہیں کیں اور کہا کہ میں تمھیں اتنی ذہنی اذیت دوں گا کہ تم اپنا دماغی توازن کھو دو گی۔ تب میں آسانی سے اپنے بچے حاصل کرلوں گا۔ وہ تحریری طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں اور چاہتا ہے کہ طلاق میری طرف سے دائر کی جائے۔ میرے دونوں بچے، ماہین 7 سال اور بیٹا حسن 3 سال اپنے باپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ طلاق کا کیا مطلب ہے اور ضد کرتے ہیں کے انھیں واپس اپنے گھر جانا ہے۔ مجھے قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس کا سفر، سکول، بینک، شاپنگ، بلوں کی ادائیگی غرض باہر کی دنیا کا سامنا کرنا میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ فون پر بات کرنا ہو توکسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں آج کل انگریزی سیکھ رہی ہوں جس میں میری بیٹی میری کافی مدد کررہی ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں، تاکہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکرمیں بھی برطانوی معاشرے کے ساتھ چل سکوں۔ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل میری اولین ترجیح ہے۔ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر اور بیٹے کو وکیل بنانا چاہتی ہوں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب مغرب میں بسنے والی ایشیائی اور بالخصوص پاکستانی گھرانے اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان سے داماد ا ور بہو لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اِس کی وجوہات کئی ہیں جن میں اپنے خاندان، ذات اور برادری سے لڑکی یا لڑکا لانا، تاکہ خاندان سے رشتہ جڑا رہے، کبھی کبھی مفت کی ملازمہ کا حصول یا پھر اپنےکسی سگے رشتہ دار کو باہر بلا کر سیٹ کرنا شامل ہے۔ اکثر اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھی ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔ اپنے اس فیصلے سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ تو زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، کسی بے گناہ کی زندگی بھی برباد کردیتے ہیں۔ برطانیہ کے بہت سےپاکستانی گھروں میں بچوں کو جبرٍاًٍ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

رابعہ کی اِس کہانی میں قصور وار کون ہے؟

آپ خود ہی فیصلہ کریں۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

آسٹریلیا میں لڑکے کو نئی زندگی مل گئی

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ڈاکٹروں نے اپنی نوعیت کا پہلا سرجیکل آپریشن کرکے ایک بچے کی جان بچالی ہے، جس کا فشار خون ایک غیر معروف بیماری کے اچانک انتہائی بلند ہوجایا کرتا تھا۔ دس سالہ میتھیوگیتروپ اپنی تمام زندگی شدید نوعیت کے تناؤ میں رہا۔ اس کے جگر اور گردے کا ایسا عارضہ لاحق تھا، جسے طب کی زبان میں آٹوسومل ریسیسیو پولیسٹک کڈنی ڈزیز اینڈ کونجینائیٹل ہیپاٹک فائبروسس کہتے ہیں۔ اس کم عم میں اسے ایک بار دل کا دورہ بھی پڑچکا ہے۔ اس اذیت ناک زندگی میں روزانہ تیس طرز کی ادویات کھاتا تھا اور اس کے لیے خوراک بھی اسی مناسبت سےکیا کرتا تھا۔

محض چار برس کی عمر میں اسے نیند میں خلل کا عارضہ بھی لاحق ہوا تھا۔ روایتی طریقے سے اگر میتھیو گیتروپ کا علاج کیا جاتا تو روزانہ کی بنیاد پر اس کا خون تبدیل کرنا پڑتا یعنی ڈائلائسس، اس کا گردہ اور جگر تبدیل کرنا پڑتا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اسے پھر دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

ایسے میں موناش ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے طبی عملے نے ایک تجرباتی نوعیت کے آپریشن کی ٹھانی۔ ریڈیائی شعاعوں کی تکینک کو اس انداز میں استعمال کیا گیا کہ میتھیو کے گردے کو خون فراہم کرنے والی رگ اور قریبی عضلات کو نشانہ بنایا گیا۔ سرجن ای این میریڈیتھ کے بقول اس کی مدد سے میتھیو گیتروپ کا فشار خون معمول پر آیا اور اس کی بیماری کی علامات بھی کافی حد تک ختم ہوگئیں۔ اس کم عمر لڑکے پر اس طرح رگ کو ناکارہ کرنے کا رینل ڈینرویشن طریقہء کار آزمانے سے پہلے اس کا اخلاقی پہلو سے تین اخلاقی کمیٹیوں نے جائزہ لیا اور پھر اجازت دی۔ یہ طریقہء بالغ افراد پر بھی فی الحال محض تجرباتی بنیادوں پر آزمایا گیا ہے۔

دس سالہ اس بچے کی چھوٹی رگوں کے لیے یہ آلہ ایک امریکی کمپنی نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا۔ گیتروپ کی والدہ ایلکس اپنی بیٹے کی حالت دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ان کے بقول ان کا بیٹا اب خاصا پرسکون اور چوکنا رہنے لگا ہے اور اس کا بلند فشار خون بھی معمول پر آ گیا ہے۔  

’’اس نے پھر سے کہانیاں پڑھنا شروع کردی ہیں، یہ سننے میں بہت چھوٹی بات لگتی ہے مگر کافی عرصے تک یہ نہیں کر پارہا تھا، وہ اب سکول پر بھی خوب توجہ دے رہا ہے۔‘‘ وہ پر امید ہیں کہ ان کے بیٹے کو اب تکلیف دہ علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ ایک نئی اور آسودہ زندگی بسر کر سکے گا۔
 

’ميگا اپ لوڈ‘ پر پابندی کا جواب، نئی ويب سائٹ

انٹرنيٹ کے ذريعے فائل شيئرنگ کی بين الاقوامی شہرت يافتہ ويب سائٹ ’ميگا اپ لوڈ‘ پر جنوری سے پابندی عائد ہے۔ اس کے بانی نے اگلے سال اسی طرز کی ايک نئی ويب سائٹ متعارف کروانے کا اعلان کيا ہے۔

تصاوير، فلموں، گیتوں اور متعدد اقسام کی ديگر چيزوں کی آن لائن شيئرنگ کی ويب سائٹ ’ميگا اپ لوڈ‘ کے بانی کم ڈوٹ کام (Kim Dotcom) نے انٹرنيٹ پر مواد ذخيرہ کرنے کی ’ميگا‘ نامی ايک نئی سروس کا اعلان کر ديا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق يہ نئی ويب سائٹ جنوری 2013ء ميں متعارف کروائی جائے گی۔

ميگا اپ لوڈ کے بانی ڈوٹ کام کے بقول ان کی نئی ويب سائٹ کو امريکی پراسيکيوٹرز سے کوئی خطرہ نہيں ہے۔ انہوں نے يہ بات نيوز ايجنسی روئٹرز کو ديے جانے والے ايک انٹرويو کے دوران بتائی۔ ڈوٹ کام کا کہنا ہے، ’ميگا ويب سائٹ کا امريکی ہوسٹس، امريکی ڈومينز يا کسی بھی امريکی نژاد ويب سائٹ سے کوئی تعلق نہيں ہوگا‘۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اس بار کسی ممکنہ پابندی سے بچنے کے ليے انہوں نے اپنی حکومت عملی تبديلی کی ہے۔

بھارت: لڑکیوں کے موبائل فون اور حجاب پر پابندی

بھارتی ریاست راجستھان کے گاﺅں ڈوسا میں پنچائیت نے لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے اور حجاب کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گاﺅں کے کسی شخص نے جرگے کے اس فیصلے کے خلاف شکایت درج نہیں کرائی۔ پنچائیت میں شامل بزرگوں نے موقف اختیار کیا کہ جن لڑکیوں کے پاس موبائل فون ہیں وہ لڑکوں سے باآسانی رابطہ کرسکتی ہیں جس سے مختلف النوع مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ آگے چل کر ان کے اہل خانہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ 

پنچائیت میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ لڑکیوں کو حجاب پہنے سے بھی روکا جائے کیوں کہ حجاب کی آڑ میں وہ باآسانی اپنی شناخت چھپا لیتی ہیں اور باہر گھومنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے گاﺅں کی ایک لڑکی دوسرے گاﺅں کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی جس کے بعد یہ جرگہ منعقد کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پنچائیت کے اس فیصلے کے خلاف کسی نے شکایت درج نہیں کرائی۔

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

بھارت کی ریاست راجستھان کے بارمیڑ ضلعے کی ایک عدالت نے تین لڑکوں کو اپنے والد کا خیال نہ رکھنے پر دو دو ماہ کی سزا سنائی ہے۔ اس عمر رسیدہ شخص کے بیٹوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے والد کا خیال نہیں رکھا اور انہیں بے سہارا چھوڑ دیا۔ بارمیڑ کے گودھاملانی کے ذیلی ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جمعرات کو یہ فیصلہ سنایا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ ان تینوں بیٹوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے۔ ستر سالہ سونا رام وشنوعی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایس ڈی یم نے یہ پایا کہ ان کے بچوں نے ان کا خیال نہیں رکھا اور انھیں بے سہارا چھوڑ دیا اور اسی لیے انہیں یہ سزا سنائی گئی۔ شکایت کے مطابق وشنوئی کے چھ بیٹے ہیں جن میں سے تین نے عدالت کے حکم کے باوجود ان کی مدد کرنے سے منع کردیا۔ شکایت نامے کے مطابق چھ میں سے تین بیٹوں نے عدالت کے سامنے اپنے والد کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا لیکن دوسرے تین بیٹوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ایک لاپرواہ والد رہے ہیں اور انہوں کبھی اپنی اولاد کی پروا نہیں کی۔

عدالت میں ان بیٹوں کو حاضر کرنے کے لیے عدالت کو کافی مشقت کرنی پڑی کیونکہ ان کے بیٹے عدالت سے جاری سمن وصول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ عدالت نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ ضعیف سونارام وشنوئی یہاں وہاں بھٹک رہے ہیں اس لیے ان کے بیٹوں کو چاہیے کہ وہ ان کی فکر کریں لیکن ان کے بیٹوں نے ان کی کوئی خبر نہیں لی۔ شروع میں عدالت نے ان کے بیٹوں کو اپنے والد کی دیکھ بھال کی جانب راغب کرنے اور احساس دلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔ اس کے بعد ایس ڈی ایم شنکر لال نے بوڑھے اور معمر شہری کی نگرانی اور دیکھ بھال کے قانون کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ‎سزا سنائی۔

اس قانون کے مطابق اگر کسی شخص کو اس جرم کا مرتکب پایا گیا کہ وہ اپنے والدین کا خیال نہیں رکھ رہا ہے تو اسے تین ماہ کی قید ہو سکتی ہے اور پانچ ہزار تک جرمانہ۔ ریاست نے دو سال قبل اس قانون کو منظوری دی تھی۔

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل