عید لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عید لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات, اکتوبر 18, 2012

پاکستان میں عیدالاضحٰی 27 اکتوبر کو ہوگی

کراچی — پاکستان میں اسلامی مہینے ذی الحج کا چاند نظر آگیا ہے۔ جمعرات 18 اکتوبر کو یکم ذی الحج ہوگی اور ملک بھر میں عیدالاضحٰی 27 اکتوبر بروز ہفتہ منائی جائے گی۔

اس مقدس تہوار پر بھر کے مسلمان پیغمبر اسلام حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی سنت کی پیروی میں اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں۔ 

چاند نظر آنے کا اعلان بدھ کی شام مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کیا۔ اعلان سے قبل کمیٹی کا کراچی میں باضابطہ اجلاس ہوا جس میں متعدد مکاتب فکر کے علماء بھی شریک ہوئے۔ اعلان کے مطابق مطلع صاف ہونے کی وجہ سے لاہور میں چاند ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک نظر آتا رہا۔

پاکستان میں عیدالاضحٰی 27  اکتوبر کو ہوگی


سعودی عرب میں ذی الحج کا آغاز، حج 25 اکتوبر کو ہوگا
سعودی عرب میں ذی الحج کا مہینہ شروع ہوگیا ہے اور بروز بدھ 17 اکتوبر کو یکم ذی الحج ہے، اس لحاظ سے حج 2012ء جمعرات 25 اکتوبر کو ادا کیا جائے گا جبکہ عیدالاضحٰی جمعہ 26 اکتوبر کو منائی جائے گی۔

اس بات کا باقاعدہ سرکاری اعلان منگل کو سعودی عدالتی کونسل نے کیا۔ اعلان کے مطابق حج کا رکن اعظم ’وقوف عرفہ‘  9 ذی الحج بمطابق 25 اکتوبر کو ادا کیا جائے گا جبکہ سعودی عرب میں فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے آنے والے دنیا بھر کے مسلمان 26 اکتوبر کو عیدالاضحٰی مناتے ہوئے جانور قربان کریں گے۔

سرکاری اعلامیہ کے مطابق رواں برس 30 لاکھ پانچ سو حجاج فریضہ حج ادا کریں گے۔ اس وقت صرف مدینہ منورہ میں ہی 8 لاکھ 27 ہزار دو سو 51 عازمین حج موجود ہیں ۔

ادھر وزیرثقافت و اطلاعات ڈاکٹر عبدالعزیز بن محی الدین خوجہ کا کہنا ہے کہ ہرسال کی طرح اس سال بھی سعودی عرب سے حج کے تمام مناسک کی براہ راست ٹی وی کوریج کی جائے گی۔ سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی سے وابستہ ایک عہدیدار مصطفی حبیب صدیقی نے ریاض سے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سعودی ٹی وی دنیا بھر کو حج کی نشریات بلامعاوضہ فراہم کرتا ہے۔ مغربی ممالک بھی سیٹیلائٹ کے ذریعے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اتوار, اگست 19, 2012

عید کی نماز کا طریقہ صحیح سُنت مبارکہ کے مُطابق

تحریر: عادل سہیل

: مسئلہ (١) ::::: عید کی نماز کے لیے نہ اذان ہوتی ہے اور نہ ہی اقامت :::::
::::: دلیل ::::: (١) ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ (کان رسولُ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہِ وَسلمَ یَخرُجُ یوم الفِطرِ وَالاَضحَی اِلی المُصَلَّی فَاَوَّلُ شَیء ٍ یَبدَا بِہِ الصَّلَاۃُ ،،، ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فِطر (چھوٹی عید) کے دِن اور اضحٰی (بڑی عید) کے دِن مُصلّے کی طرف تشریف لے جاتے اور (وہاں پہنچ کر) سب سے پہلے نماز کا آغاز فرماتے ،،،) صحیح البُخاری، حدیث ٩١٣ / کتاب العیدین / باب ٦، صحیح مُسلم، حدیث ٨٨٩ / کتاب صلاۃ العیدین کی نویں حدیث۔
:::::دلیل ::::: (٢) جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ (میں نے ایک دو دفعہ نہیں، کئی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں عیدوں کی نماز بغیر اذان اور اِقامت کے پڑھی ہے) صحیح مُسلم، حدیث ٨٨٧ / کتاب صلاۃ العیدین حدیث ٧
(دلیل ::::: (٣) عبداللہ ابن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ( (عید) الفِطر اور(عید ) الاضحٰی کے دِن (عیدوں کی نماز کے لیے) کوئی اذان نہ ہوتی تھی) اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے ( (عید) فِطر کے دِن (نمازِ عید کے لیے) کوئی اذان نہیں، اور جب اِمام (نماز کے لیے) نکلے اور نہ ہی جب (نماز کی جگہ) پہنچ جائے، اور نہ ہی کوئی اقامت ہے اور نہ ہی کوئی بھی آواز اور نہ ہی کوئی (اور) چیز، اُس دِن کوئی آواز نہیں اور نہ ہی اقامت) صحیح مُسلم، حدیث ٨٨٦ / کتاب صلاۃ العیدین حدیث ٥،
یعنی یہ کہنا کہ صلاۃ العید، نمازِ عید، یا گلہ وغیرہ کھنکھارنا، یا کوئی بھی اور آواز پیدا کرکے لوگوں کو یہ خیال کروانا کہ نماز شروع ہورہی ہے، وغیرہ، سب کچھ خِلافِ سُنّت ہے۔
: مسئلہ (٢) ::::: عید الفِطر کی نماز کی دو رکعتیں ہوتی ہیں :::::
::::: دلیل ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خلیفہ بلا فصل عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہُ کا فرمان ہے کہ (صَلاَۃُ السَّفَرِ رَکعَتَانِ وَصَلاَۃُ الاَضحَی رَکعَتَانِ وَصَلاَۃُ الفِطرِ رَکعَتَانِ وَ صَلاَۃُ الجُمُعَۃِ رَکعَتَانِ تَمَامٌ غَیرُ قَصرٍ علی لِسَانِ مُحَمَّدٍ صلّی اللَّہ عَلِیہ وسلم ::: سفر میں نماز دو رکعت ہے اور قُربانی والے دِن (بڑی عید) کی نماز دو رکعت ہے، اور فِطر والے دِن (چھوٹی عید) کی نماز دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے اور اِن دو دو رکعتوں میں کوئی کمی نہیں (اور یہ حُکم) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبان سے ہے) مُسند احمد / حدیث ٢٥٧، سنن النسائی / حدیث ١٤١٩ / کتاب الجمعہ / باب ٣٧، سنن البیھقی الکبریٰ / کتاب الجمعہ / باب١٥، حدیث صحیح ہے۔
: مسئلہ (٣) ::::: نماز کا آغاز کِسی بھی اور نماز کی طرح تکبیرِ تحریمہ سے ہوگا، پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے سات تکبیریں کہی جائیں گی، اور دوسری رکعت میں سجدے سے کھڑے ہوچکنے کے بعد پانچ تکبیریں :::::
::::: دلیل ::::: اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ (اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہِ وسَّلَم کَان یُکَبِّرُ فی الفِطرِ وَالاَضحَی فی الاولَی سَبعَ تَکبِیرَاتٍ وفی الثَّانِیَۃِ خَمسًا سِوَی تَکبِیرَتَي الرُّکُوعِ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فِطر اور قُربانی (والے دِن کی نمازوں میں) پہلی رکعت میں سات تکبیریں بلند کیا کرتے اور دوسری میں پانچ تکبیریں، (دونوں رکعتوں کی یہ تکبیریں) رکوع کی تکبیروں کے عِلاوہ ہیں (((((سنن ابو داؤد / حدیث ١١٤٤ / باب ٢٥٠ التکبیر فی العیدین، سنن ابن ماجہ / حدیث ١٢٨٠ / کتاب اِقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا / باب ١٥٦، حدیث صحیح، اِرواء الغلیل / حدیث ٦٣٩
: مسئلہ (٤) ::::: عید کی نماز میں اضافی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنا (دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھانا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ::::: سنن البیہقی میں عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں جو روایت ہے کہ وہ نمازِ جنازہ اور نمازِ عید میں سب تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے، یہ روایت ضعیف یعنی کمزور ناقابلِ حُجت ہے، اِرواء الغلیل / حدیث ٦٤٠،
: مسئلہ (٥) ::::: نمازِ عید کی اضافی تکبیروں کے درمیان کوئی خاص ذِکر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ::::: لیکن عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ سے ثابت ہے کہ ((((( وہ ہر دو تکبیروں کے درمیان اللہ کی حمد و ثناء کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کرتے))))) حدیث صحیح اِرواء الغلیل / حدیث ٦٤٢،
: مسئلہ (٦) ::::: تکبیروں کے بعد سورت الفاتحہ اور اُس کے بعد مندرجہ ذیل سورتوں میں سے کوئی سورت پڑھی جائے گی:::::
(١) سورت الاعلیٰ ( سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الاَعلی) (٢) سورت الغاشیہ (وَھَل اَتَاکَ حَدِیثُ الغَاشِیَۃِ) صحیح مُسلم، حدیث ٨٧٨ / کتاب الجمعہ / باب١٦ ۔۔۔۔۔ (٣) سورت ق (قۤ وَالقُرآنِ المَجِیدِ) (٤) سورت الانشقاق (وَاقتَرَبَت السَّاعَۃُ وَانشَقَّ القَمَرُ) صحیح مُسلم، حدیث ٨٩١ / کتاب صلاۃ العیدین / باب ٣۔
: مسئلہ (٧) ::::: اِس کے عِلاوہ عید کی نمازیں باقی نمازوں کی طرح ہی ہیں کوئی اور فرق نہیں:::::
: مسئلہ (٨) ::::: اگر کِسی کی عید کی نماز رہ جائے، خواہ کِسی وجہ سے یا جان بوجھ کر چھوڑی ہو تو وہ دو رکعت نماز پڑھے گا ::::: صحیح البخاری / کتاب العیدین / باب ٢٥ کا عنوان، اور، فتح الباری شرح صحیح البُخاری، اسی باب کی شرح۔
: مسئلہ (٩) ::::: شافعی مذھب کے مُطابق اگر کوئی اِمام کے ساتھ نمازِ عید نہیں پڑھ پایا تو وہ (نماز عید کی نیت سے) دو رکعت نماز پڑہے گا، گو کہ وہ با جماعت نمازِ عید کی فضیلت حاصل نہیں کرسکا (لیکن وہ اکیلے ہی نمازِ عید پڑھے) تا کہ اُسے نمازِ عید کی فضیلت مل سکے،،، اور حنفی مذھب کے مُطابق اگر کوئی اِمام کے ساتھ نمازِ عید نہیں پڑھ سکا تو اُسے خود نماز (قضاء کرکے) پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ شرح تراجم ابوب البخاری / صفحہ ٨٠،
: مسئلہ (١٠) ::::: اِمام مالک علیہ رحمۃُ اللہ کا فتویٰ ہے ’’’اگر کِسی کی نمازِ عید رہ گئی تو ضروری نہیں کہ وہ اُسے (خود سے) پڑھے نہ ہی مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) میں اور نہ ہی گھر میں، لیکن اگر کوئی خود (اپنی) نمازِ عید پڑھے عورت ہو یا مرد، تو میں کہتا ہوں کہ وہ (ثابت شدہ سُنّت کے مُطابق) پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے ساتھ تکبیریں کہے اور دوسری رکعت میں تلاوت سے پہلے پانچ تکبیریں‘‘‘ المؤطاء / کتاب العیدین / باب ٩، مطبوعہ دار الحدیث، القاھرہ۔
: مسئلہ (١١) ::::: نماز عید سے پیچھے رہ جانے والا جتنی نماز سے رہ گیا اُسے نماز کی کیفیت کے مُطابق مکمل کرے گا ::::: المغنی، اِمام ابو قدامہ المقدسی۔
: مسئلہ (١٢) ::::: نمازِ عید کی اضافی تکبیریں اور اُن کے درمیان ذِکر سُنّت ہے، واجب نہیں، اگر یہ تکبیریں رہ جائیں بھول سے یا جان بوجھ کر تو نماز باطل (ضائع) نہیں ہوگی ::::: المغنی، اِمام ابو قدامہ المقدسی۔ لیکن جان بوجھ یہ اضافی تکبیریں چھوڑنے والا یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّتِ مُبارکہ کا مُخالف قرار پائے گا۔

پہلا حصہ

عید کی نماز کا طریقہ صحیح سُنت مبارکہ کے مُطابق

ہفتہ, اگست 18, 2012

دنیا بھر میں روزہ، شمالی وزیرستان میں عید منائی گئی

دنیا بھر میں روزہ رکھا گیا جبکہ شمالی وزیرستان میں آج عیدالفطر جوش و جذبے کے ساتھ منائی گئی ہے۔ میر علی کے علاقے حیدر خیل میں پانچ افراد نے شہادت دی تھی۔ پورے علاقے میں نماز عید کے موقع پر عالم اسلام، ملکی سلامتی اور مغربی میڈیا کے پروپیگنڈہ کے آپریشن کے حوالے سے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ آج پورے علاقے میں بڑے بڑے نماز عید کے اجتماعات ہوئے۔ تاہم اکثر علاقوں میں سعودی عرب سے بھی ایک دن پہلے عید منانے کی بحث جاری ہے۔ علماء کرام کے فیصلے کے باعث عوام بھی بے بس ہے۔

دونوں عید کے دِن اور نماز کے اہم مسائل

*** شرعی حُکم (حیثیت ) *** 

تحریر: عادل سہیل

عید کی نماز ہر ایک مُسلمان پر واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کبھی بھی کِسی بھی عید کی نماز نہیں چھوڑی، اور دوسروں کو یہ نماز پڑھنے اور اِس کا مُشاھدہ کرنے کا شدید حُکم دِیا ہے۔
:::::: دلیل ::::: اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (اَمَرَنَا رسولُ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہ وسلم اَن نُخرِجَہُنَّ فی الفِطرِ وَالاَضحَی العَوَاتِقَ وَالحُیَّضَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَاَمَّا الحُیَّضُ فَیَعتَزِلنَ الصَّلَاۃَ وَیَشہَدنَ الخَیرَ وَدَعوَۃَ المُسلِمِینَ :::
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (عورتوں) کو حُکم فرمایا کہ ہم سب (عید) الاضحی اور (عید) الفِطرمیں (مُصلّے کی طرف) جائیں، نئی بالغ ہونے والی لڑکیاں، اور حیض (ماہواری) کی حالت والیاں، اور جوان کنواریاں (سب کی سب مُصلّے جائیں) لیکن حیض والی عورتیں نماز نہ پڑھیں بلکہ (نماز کی جگہ سے ذرا ہٹ کر) مسلمانوں کی خیر اور دعوت (اسلام کی تبلیغ) کا مشاہدہ کریں)))))
میں نے کہا :: اے اللہ کے رسول اگر ہم میں سے کِسی کے پاس پردے کے لیے چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟،
تو ارشاد فرمایا (((((لِتُلبِّسہَا اُختُہَا من جِلبَابِہَا ::: اُس کی کوئی دوسری (مسلمان) بہن اُسے اپنی چادر میں لپیٹ (کر ساتھ) لائے)))))) صحیح البُخاری / کتاب العیدین / باب ٢٠،٢١، صحیح مُسلم، حدیث ٨٩٠ / کتاب صلاۃ العیدین / پہلا باب، اُوپر نقل کیئے گئے اِلفاظ مُسلم کی روایت کے ہیں۔
گو کہ اِن احادیث میں حُکم عورتوں کے لیے ہے، لیکن یہ بات بالکل سیدھی سادھی ہے کہ مَردوں کے لیے عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے مُصلّے جانے کا حُکم بدرجہ اول ہے، کیونکہ اگر مَرد نہیں جائیں گے تو کیا عورتیں اپنی نماز پڑھیں گی، اور مسلمانوں کے کون سے اجتماع کی خیر اور دعوت کا مشاہدہ کرسکیں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم عید کے مُصلّے میں حاضر ہونے کو واجب قرار دیتا ہے، اور اِس حاضری کا سبب عید کی نماز ادا کرنا ہے، لہذا عید کی نماز ہر مُسلمان پر واجب ہے، فرضِ کفایہ نہیں اور نہ ہی سُنّت، اور جمعہ کے دِن عید کی نماز پڑھ لینے کی صورت میں جمعہ کی نماز سے معافی دی گئی ہے، اِس کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا، یہ معاملہ عید کی نماز کے واجب ہونے کی دوسری دلیل ہے۔

یہاں یہ بات بھی بہت اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے خواتین کو مُصلّے جانے کا حُکم دِیا گیا ہے، تو ساتھ ہی ساتھ پردے کے بارے میں بھی یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ جِس کے پاس چادر نہ ہو اُسے اُس کی کوئی بہن اپنی چادر میں لپیٹ کر لائے، یعنی بے پردگی نہ ہو، اور نہ ہی کِسی قِسم کی کوئی بے حیائی ہو، اور نہ ہی مَردوں کے ساتھ میل جول کا کوئی سبب بنے۔
 
*** عید کا دِن، تابع فرمانی یا نافرمانی، اِسلامی عزت و وقار کا اِظہار یا کافروں کی غلامی میں اُن کی نقالی کا اِظہار ***
مسئلہ ::::: عید کے دِن کھیل کُود تفریح وغیرہ جائز ہے :::::
انس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے) مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والوں کے لیے دورِ جاھلیت میں سے دو دِن ایسے تھے جِن میں وہ لوگ کھیل کوُد کرتے تھے (یہ دو دِن یوم النیروز اور یوم المھرجان یعنی تہوار اور میلے تھے)،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((((قَدِمتُ عَلَیکُم وَلَکُم یَومَانِ تَلعَبُونَ فِیہِمَا فاِن اللَّہَ قد اَبدَلَکُم یَومَینِ خَیراً مِنہُمَا یوم الفِطرِ وَیَومَ النَّحرِ ::: میں جب تُم لوگوں کے پاس آیا تو تُم لوگوں کے لیے دو دِن تھے جِن میں تُم لوگ کھیل کُود کرتے تھے، اللہ نے تُم لوگوں کو اُن دو دِنوں کے بدلے میں اُن سے زیادہ خیر والے دو دِن فِطر کا دِن اور اضحٰی کا دِن دے دیے ہیں))))) مُسند احمد / جلد ٣ / صفحہ ١٧٨،٢٣٥، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ حدیث ٢٠٢١۔
جی ہاں ::::: دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ وہ کھیل کُود کے ذریعے خود کو خوش کرنا چاہیں تو کرلیں، اوروہ عام طور پر ایسے کھیل ہوتے تھے جِن میں کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے طاقت و قوت اور جنگی مہارت کا اظہار ہوتا تھا،،،،، نہ کہ ایسے کھیل جِن میں وقت اور مال ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ، کِسی پردہ و غیرت کے بغیر، کِسی حد و حیاء کے بغیر مرد و عورت کا اختلاط ہو، طاقت و قوت و جنگی مہارت کے اظہار کی بجائے عزت و حمیت کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہوں۔
جی ہاں ::::: دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ وہ دف وغیرہ بجالیں اور ایسا کلام پڑھ لیں جِس میں شرک و کفر، بے حیائی و جھوٹ وغیرہ نہ ہو،،،،، نہ کہ ہر طرف موسیقی کی مجلسوں (میوزک پارٹیز) کے ذریعے، عید ملن پارٹیز، یا اُن کے بغیر شیطان کی ہر آواز (موسیقی کے آلات، میوزک انسٹرومنٹس) بلند کی جائے، اور جھوٹ، بے حیائی، عشق و محبت، فِسق و فجور، کفر و شرک پر مبنی شیطانی کلام گایا جائے، اور مَرد و عورت رقص کرتے ہوں، جسے اپنی عِزت کا موتی پردے میں چھپا کر رکھنے کا حُکم ہے وہ خوشی کے نام پر اپنا انگ انگ سب کو دِکھاتی رہے، اور، نامحرم مَردوں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے، اور، اور، اور۔
جی ہاں ::::: اِن دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو ایک مُصلّے میں نماز کے ذریعے عظیم اجتماع کی تعلیم دی گئی، کہ اِسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اِظہار کِیا جائے، کافروں کو اسلامی شعائر دِکھائے جائیں، مُسلمانوں کا بھائی چارہ اور باہمی مُحبت و اخوت دِکھائی جائے،،،،، نہ کہ کافروں کی عیدوں اور تہواروں پر جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ بلکہ اپس سے بھی کچھ بڑھ کر کرکے دِکھایا جائے اور اُنہیں یہ تسلی دِلائی جائے کہ ہم اور تُم ایک ہیں، ناموں کے فرق سے کچھ نہیں ہوتا، جو تُم کرتے ہو ہم بھی وہی کرتے ہیں، لہذا ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم وہ مسلمان نہیں ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا تصور بھی نہیں کیا کرتے تھے اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکموں کے نفاذ اور اپنے دِین کی سر بلندی کے لیے کِسی سے ڈرتے تھے نہ ہی کِسی کا لحاظ رکھتے تھے، 

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا ::::: کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا