سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فصاحت و بلاغت

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و فرامین، خطبات اور مکتوبات عربی زبان و ادب کا شاہکار اور حکمت و دانائی کا سرچشمہ ہیں

 

پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی


پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افصح العرب و العجم تھے۔ آپ کو نطق و زبان اور علم و ادب پر جو امتیاز حاصل تھا، اس پر عربی زبان کو ناز ہے۔ آپ کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا اور آپ کو صفت ”جوامع الکلم“ سے نوازا۔ واقعہ یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب میں سب سے زیادہ فصیح تھے۔ تکلف سے پاک، بناوٹ سے دور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام تھا اور انداز بیان بھی شیریں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو میں حکمت و دانائی ہوتی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان جامع ہوتا تھا۔ ایجازِ کلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعجاز تھا۔ سادگی و بے ساختگی کے ساتھ گفتار دلکش و پراثر ہوتی تھی۔ بات دہن مبارک سے نکل کر دلوں پر اثر کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں خطبات، مکتوبات، معاہدے، منشور، دستاویزات، صلح نامے اور دعائیں شامل ہیں۔ خطبات کیا ہیں، صفحہٴ قرطاس پر بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ مکتوبات، معاہدوں اور دستاویزات میں فصاحت و بلاغت کا حسن و جمال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے نظیر خطابت سے نوازا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عصائے موسوی عطا کیا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اعجاز مسیحائی بخشا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو افصح العرب بنایا، چوں کہ اس زمانے میں اہل عرب میں فصاحت و بلاغت کا چرچا تھا اور وہ دوسروں کو عجمی یعنی گونگا تصور کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فصاحت و بلاغت کا جوہر عطا کیا۔ فصاحتِ لسانی اور بلاغت کلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب نہ تھا۔ عرب دو قبیلوں فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھے، ایک قریش اور دوسرے بنو سعد۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق قریش سے تھا اور بنو سعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش ہوئی تھی، اس لئے فصاحت و بلاغت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گُھٹی میں پڑی تھی۔ قرآن مجید قریش کی زبان میں نازل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انداز گفتگو میں شائستگی ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہتے نظر آتے تھے۔ خطبات کا جلا، بیان کی طلاقت، صفت ایجاز و اختصار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی خصوصیات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منتخب حروف اور موزوں الفاظ استعمال فرماتے تھے، خوش بیانی اور شگفتہ لسانی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبات، مکتوبات، منشور اور دعاؤں میں نظر آتا ہے۔

حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ہے، ”اُعِیذُ ھُما من السّامّة والھامّة و کلّ عین لامّة“ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو زہریلے جانور، حملہ آور اور نظربد سے بچائے۔ اس میں سامّہ، ھامّہ اور لامّہ میں صفتِ ترصیع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فصاحت و بلاغت کے سامنے عربی زبان کے سامریوں کا طلسم ٹوٹ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیریں بیان و فصیح اللّسان تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں عرفانی تجلّیات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو حسب حال ہوتی تھی۔ ہر شخص سے اس کے ذہن کی سطح کے مطابق بات کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو میں آمد ہوتی تھی آورد نہیں۔ احادیث مبارکہ میں سراسر ادبیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں صنفِ نازک کو شیشے سے تعبیر کیا ہے، جو نادر تشبیہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں الفاظ و معانی کا حسین توازن ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قلیل الکلام تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام ”ماقَل ودلّ“ مختصر اور مدلل کے مترادف ہوتا تھا۔ لفاظی نہیں ہوتی تھی۔ فالتو بات نہیں کرتے تھے، زیادہ ثقیل الفاظ بھی استعمال نہیں فرماتے تھے۔ فصحائے عرب کو اپنے آگے ساری دنیا گونگی نظر آتی تھی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے عربی فصاحت و بلاغت نے گھٹنے ٹیک دیے۔
حدیث شریف میں ہے ”اعطیتُ جوامع الکلم“ مجھے فصاحت و بلاغت عطا کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے ”الکلمة الطیبة صدقة“ حسن گفتار بھی نیکی ہے۔ ایک اور حدیث ہے ”کلّ ذی نعمة محسُود“ ہر نعمت پانے والا حسد کیا جاتا ہے۔ ایک اور جگہ ہے ”الفقُر فخری“ فقر پر مجھے فخر ہے۔ ایک اور جگہ ہے ”السّوال ذلّ“ مانگنا ذلت ہے۔ ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حسن الخلق حسن العبادة“ اچھا اخلاق بہتر عبادت ہے۔ ”الوحدة خیر من جلیس السُّوء“ بری صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔
ان اقوال زریں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام کس قدر فصیح و بلیغ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبات جوشِ بیان، سلاست و روانی اور سہلِ ممتنع کا نمونہ ہیں۔ خاص طور سے خطبہٴ فتح مکہ اور حجة الوداع انسانی بنیادی حقوق کا میگناکارٹا یعنی منشور انسانیت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط میں بھی علم و حکمت کی نہریں بہتی ہیں۔ یہ خطوط وہ ہیں جو مختلف اقوام کے سرداروں، پیشواؤں اور بادشاہوں کو لکھے گئے یہ خطوط علم و ادب کا سرمایہ ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاہدے، منشور اور دستاویزات ادب کا خزانہ ہیں۔ میثاقِ مدینہ تاریخِ انسانیت کا پہلا منشور ہے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ، معنویت کی گہرائی ہے۔ غرض مکتوبات، عہدنامے، وثیقہ جات، فرامین اور دعاؤں میں فصاحت و بلاغت ہے۔ ادیبوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے علم بیان پیدا ہوا۔ محاسنِ سخن مرتب ہوئے، ضائع و بدائع کا دَر کھلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لہجے میں مٹھاس تھی، حسنِ صورت کے ساتھ حسنِ صوت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرہٴ امتیاز تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز دل نشیں تھی۔ شہرت، نمائش اور تکبّر سے بچتے تھے۔ بے ہودہ گوئی اور مبالغہ آرائی کو ناپسند فرماتے تھے۔ ناشائستہ الفاظ سے بچتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زبان کی رعنائی عطا کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے حکمت و دانش کے موتی برستے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان سے علم و عرفان کے چشمے ابلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی خوبی ندرت اور جدت بھی ہے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شوق میری سواری ہے، ذکر الٰہی میرا مونس ہے“ اور ایک اور جگہ فرمایا: ”غم میرا ساتھی ہے، علم میرا ہتھیار ہے، صبر میرا لباس ہے“۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یقین میری طاقت ہے، صدق میرا سفارش کنندہ ہے۔ طاقت میری ڈھال ہے“۔ یہ وہ کلام ہے، جو مختصر مگر جامع اور فصیح و بلیغ ہے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افصح العرب تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔