انسانی زندگی پر نماز کے اثرات

ملک محمد اسحاق راہی

نماز اسلام کے فرائض میں سب سے پہلے فرض ہوئی اور یوں آخرت میں بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا، لیکن اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آخرت کی کامیابی و کامرانی کا دار و مدار نماز کے ہی ٹھیک ہونے میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پانچ نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لئے کفارہ ہیں، جب کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ (مسلم، ترمذی)

نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کے تمام فرائض کا حکم زمین پر دیا گیا، جب کہ نماز کا تحفہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج پر بلا کے عالم بالا میں دیا گیا۔ نماز کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ (مشکوٰة شریف) ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ”نماز مومن کا نور ہے، جب کہ آج کل کساد بازاری اور سرمایہ دارانہ نظام کی نحوست کی وجہ سے ساری دنیا پر بے روزگاری کا عذاب آیا ہوا ہے۔ بیماریاں عام ہیں، رزق میں برکت نہیں، دعائیں قبول نہیں ہوتیں، معرفت کا نور ہمیں نصیب نہیں ہوتا، دشمن ہم پر حاوی ہوتا جارہا ہے، موت سے ہمیں ڈر لگنے لگا ہے، قیامت سے متعلق ساری باتیں ہمارے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی ہیں، یہ سب کچھ صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام اور اللہ کے نظام سے دوری یا بغاوت کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ”تنبیہ الغافلین“ میں حضرت جعفر بن محمد سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ”نماز اللہ تعالیٰ کا محبوب عمل، معرفت کا نور، ایمان کی اصل بنیاد، دعا کی قبولیت کا ذریعہ، دشمنوں کے مقابلے میں ہتھیار اور شیطان کی ناراضی کا سامان ہے“۔ اعمال کے مقبول ہونے اور رزق میں برکت کا ذریعہ ہے۔ جسم کی راحت کا سبب ہے۔ بہرحال نماز بہت بڑا اعلیٰ و ارفع عمل ہے۔ اس کے علاوہ نماز سے متعلق بہت سی احادیث ملتی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ نماز دین کا ستون ہے اور اس کے ادا کرنے میں 10 عمدہ باتیں حاصل ہوتی ہیں
٭ دنیا اور عقبیٰ میں عزت و آبرو حاصل ہوتی ہے
٭ علم و نیکی میں قلبی نور حاصل ہوتا ہے
٭ بدن تمام بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے
٭ پروردگار عالم کی رحمت کا نزول ہوتا ہے
٭ عبادات الٰہی دعا کے قبول ہونے میں چابی کی مانند ہے یعنی نمازی کی دعا قبول ہوتی ہے
٭ نماز قبر کی تاریکی میں تنہائی کی رفیق ہوتی ہے
٭ یہ نیکیوں کے پلڑے کو جھکا لیتی ہے
٭ حوروں کے ساتھ طرح طرح کے میوہ جات کھانے کو ملیں گے
٭ نمازی سے روزِ محشر اللہ تعالیٰ راضی ہوگا
٭ جنت کی دل پسند نعمتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا۔

ایک روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک عورت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئی کہ اے اللہ کے پیارے نبی میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے، مگر میں نے توبہ کرلی ہے، لہٰذا آپ بھی میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ آخر تیرا گناہ کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے بدکاری کی، بچہ جنا اور اس بچے کو قتل کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس عورت کو غصے میں آکر کہا۔ اے بدکار، یہاں سے نکل جا کہیں آسمان سے آگ نہ برس پڑے اور تیری بدبختی کی وجہ سے ہمیں بھی نہ جلادے اور یوں وہ عورت شکستہ دل وہاں سے نکلی۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: اے موسیٰ، رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ تونے توبہ کرنے والی کو کیوں رد کردیا؟ اے موسیٰ کیا میں تمہیں اس سے بھی برا شخص نہ بتاﺅں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا۔ اے جبرائیل علیہ السلام اس سے بھی برا شخص کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ وہ شخص جو نماز چھوڑدے، قصداً جان بوجھ کر۔
یہ تو تھی نماز کی اہمیت، فضیلت، انعامات اور وعید۔ نماز کا آج کی جدید سائنس سے کیا تعلق ہے، کیوں کہ نماز کی اہمیت و فضیلت اور وعیدوں سے متعلق تو ہم کثرت سے پڑھتے اور سنتے آئے ہیں، مگر نماز کی سائنٹیفک تشریح کرتے ہوئے ”اسلامی عبادات اور جدید سائنس“ کے مصنف لکھتے ہیں: نماز ایک ایسا دینی فریضہ ہے کہ اس میں بے شمار روحانی، جسمانی اور نفسیاتی فوائد بھی پنہاں ہیں اور اس کے علاوہ طبی فوائد بھی نماز سے حاصل ہوتے ہیں۔ ذرا غور کریں مسلمان 24 گھنٹوں میں پانچ نمازوں کی ادائیگی میں فرض، سنت اور نفل ملا کر کل 48 رکعت ادا کرتے ہیں ،جب کہ ایک رکعت میں کل 7 شکلیں اختیار کی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر مسلمان مرد، عورت، بچہ، بوڑھا یا جوان ایک دن کی پانچ نمازوں میں (7x48=336) یعنی سات مختلف وضعتوں کو 336 بار دہراتا ہے، جب کہ ایک نماز کی ادائیگی میں اوسطاً 10 سے 15 منٹ درکار ہوتے ہیں اور اگر صرف فرض ہوں تو پانچ نمازوں میں کل 17 فرض ہوتے ہیں۔ اس طرح کم از کم (7x17=119) ایک سو انیس (119) وضعتیں اختیار کی جاتی ہیں۔ ایک وضع سے دوسری وضع میں تبدیلی آہستہ آہستہ اصول شریعت کے عین مطابق (خشوغ و خضوع) ہو تو ہر عضو کو تازگی بخشتی ہے۔ یوں نماز میں جدید سائنسی طریقے پر جو فائدہ مضمر ہے، ان سے بے خبر ہوکر بھی اگر نماز کا عمل مسلسل جاری رہے، تب بھی وہ مجموعی طور پر انسانی زندگی کے بہتر بنانے کی طرف اپنا عمل جاری رکھتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نماز کو مسلسل قائم رکھا جائے تو اس سے دور رس نتائج نہ صرف روحانی لحاظ سے بلکہ طبی اور سائنسی لحاظ سے بھی حاصل ہوتے رہیں گے۔ مزید یہ کہ ماہرین نے نماز کو سائنس کی مشق کا بالکل آسان طریقہ قرار دیا ہے۔ اس میں تمام مقام خاص طور پر بیان کرتے ہیں ایک قیام اور اس میں سجدے کی جگہ نگاہ کا ارتکاز۔ دوسرا رکوع میں پاﺅں کی جگہ نگاہ کا ارتکاز اور سجدے میں سانس کی مشق اور سانس کا ارتکاز۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ نماز اصول شریعت (خشوع و خضوع) کے عین مطابق پڑھنی چاہیے اور شریعت میں اسی وجہ سے خشوع و خضوع پر بہت زور دیا گیا ہے۔ خشوع و خضوع اخلاص اور یقین کی قوت حاصل کرنے کے لئے بار بار مشق کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ خشوع اندر کے سکون، دھیان اور توجہ کا نام ہے، جب کہ خضوع باہر کی ترتیب اور توجہ کا نام ہے۔ بس یہی دو چیزیں مطلوب ہیں بہترین نماز کے لئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سستی اور کاہلی اور بے عملی کے اس دور میں نماز نہ صرف افضل ترین عبادت ہے، بلکہ یہ ایک ایسی بے مثال ورزش بھی ہے کہ اگر اسے صحیح طریقے سے پڑھا جائے تو دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا بن سکتی ہے جو جسمانی اعتبار سے نہ صرف بیرونی اعضاء کی خوش نمائی کا ذریعہ ہے، بلکہ طبی نقطہ نظر سے اندرونی مثلاً دل، گردے، جگر، پھیپھڑے، دماغ، آنتیں، معدہ، ریڑھ کی ہڈی، گردن، سینہ اور تمام قسم کے غدود کی نشوونما بھی کرتی ہے اور جسم کو سڈول اور خوب صورت بھی بناتی ہے۔ روحانی طور پر ہماری روح کو بالیدگی عطا کرکے اسے قوت بخشتی ہے، یہ ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا بہترین علاج ہے۔ نیز ظاہری اعتبار سے قیام میں عاجزی و انکساری پائی جاتی ہے، مگر رکوع میں قیام کی نسبت زیادہ عاجزی کا اظہار ہوتا ہے اور سجدے میں رکوع سے بھی زیادہ عجز و انکسار پایا جاتا ہے، کیوں کہ اب انسان اپنی جبین نیاز کو بارگاہِ خداوندی میں پیش کرتے ہوئے خاک آلود کررہا ہے۔ اسی طرح آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ قیام کے طبی و روحانی فوائد اپنی جگہ، مگر رکوع میں قیام کی نسبت زیادہ حکمتیں محسوس ہوتی ہیں اور سجدہ، رکوع سے بھی زیادہ روحانی و جسمانی فوائد کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نماز دنیا اور آخرت کے مصالح حاصل کرنے اور دنیا و آخرت کے مفاسد دور کرنے میں سب سے زیادہ معاون ہے۔ نماز گناہوں کو روکتی ہے، دل کے روگ کو دور کرتی ہے، جسم سے امراض کا ازالہ کرتی ہے، دل کو روشن اور چہرے کو چمک دار بناتی ہے، دل اور اعضائے جسم میں نشاط پیدا کرتی ہے۔ رزق کو بڑھاتی ہے، ظلم دفع کرتی ہے، مظلوم کی مدد کرتی ہے، شہوات نفس کا قلع قمع کرتی ہے، نعمت کی حفاظت کرتی اور بلاﺅں کو دور کرتی ہے، رحمت نازل کرتی ہے، رنج و الم کو ختم کرتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز روحانی ہی نہیں بے شمار دنیوی، طبی اور سائنسی فوائد بھی عطا کرتی ہے۔

روزنامہ جنگ راولپنڈی، اقرا ایڈیشن

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔