جمعرات, نومبر 15, 2012

یوٹیوب چند روز میں کھولے جانے کا امکان

اسلام آباد: ملک بھر میں یوٹیوب کو آئندہ چند روز میں کھولے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات کی ہدایت کی ہے، پی ٹی اے اس سلسلے میں ایک ایسا فلٹر سسٹم لگائے گا جس سے یوٹیوب پر کسی بھی گستاخانہ مواد کو روکا جاسکے گا۔ واضح رہے کہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے چند روز قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت یوٹیوب پر سے تمام گستاخانہ مواد کو ہٹا کر اسے کھولنے پر غور کررہی ہے۔

حکومت نے گزشتہ ماہ یوٹیوب پر اس وقت پابندی لگادی تھی جب امریکا میں بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کے دوران امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ یوٹیوب پر گستاخانہ مواد کے باعث نہ صرف پاکستان بلکہ متعدد اسلامی ممالک میں بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران لیبیا میں مشتعل افراد نے دارالحکومت طرابلس میں امریکی سفارتخانے میں گھس کر امریکی سفیر سمیت 3 سفارتکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔

پاکستان نے بھارت کی فتوحات کا سلسلہ ختم کردیا

جوہربارو: سلطان آف جوہر کپ جونیئر ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان نے بھارت کی فتوحات کا سلسلہ ختم کردیا۔

مقابلے کا اختتام بغیر کسی گول کے برابری پر ہوا، گرین شرٹس جمعرات کو میزبان ملائیشیا کے مقابل آئیں گے، ٹیم نے اس سے قبل کیویز کیخلاف مقابلہ 3-3 سے ڈرا کیا جبکہ آسٹریلیا کے ہاتھوں 1-5 سے شکست برداشت کرنا پڑی، اس کے برعکس بھارت نے اپنے دونوں ابتدائی میچز جیتے تھے، اس نے آسٹریلیا کے خلاف 2-0 سے حیران کن فتح پائی اور پانچ مرتبہ کے ورلڈ جونیئر چیمپئن جرمنی کو 3-1 سے ہرایا تھا۔ جوہربارو، ملائیشیا میں بدھ کو روایتی حریف کے خلاف پاکستان نے جارحانہ انداز اختیار کیے رکھا تاہم دونوں ٹیموں کے فارورڈز میچ کو نتیجہ خیز نہیں بناسکے۔

گرین شرٹس نے پہلا پنالٹی کارنر 39 ویں منٹ میں حاصل کیا لیکن محمد عرفان نے گول کا موقع ضائع کردیا، 46 ویں منٹ میں بھارت کے پردیپ سنگھ کی لگائی ہوئی ہٹ پر گول کیپر نے گیند قابو کرلی، پاکستان کو 64 ویں منٹ میں بھی گول داغنے کا موقع ملا لیکن محمد ارسلان قادر کا سٹریٹ شاٹ انڈین گول کیپر ششانت ٹرکی نے روک لیا، تین میچز کی تکمیل پر بھارت 7 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ پاکستان 2 پوائنٹس لے کر6 ٹیموں کے ایونٹ میں آخری نمبر پر ہے۔

دونوں ٹیمیں جونیئر سطح پر 27 مرتبہ مدمقابل آچکیں، 10 میں گرین شرٹس اور 9 میں حریف نے فتح پائی، 8 میچز ڈرا ہوئے، پاکستان کے 42 گول کے مقابلے میں بھارت نے 49 بنائے، جوہر بارو ایونٹ میں اس سے قبل منعقدہ تین میچز میں سے دو میں بھارت اور ایک میں پاکستانی ٹیم کامیاب رہی۔ بدھ کو دیگر میچز میں آسٹریلیا نے میزبان ملائیشیا کو 3-2 سے مات دی، جرمنی نے اپنی گذشتہ دو ناکامیوں کا غصہ نیوزی لینڈ کو5-1 سے ہرا کر اتارا۔ 

کچی مٹی کے لازوال نقوش

مسرت جبیں

 mussarat.jabeen@janggroup.com.pk

اتنا تو مجھے پتہ تھا کہ چھوٹی عمر کے ناخوشگوار تجربے انسان کی ساری عمر اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بعد میں چاہے اسے زندگی سے کتنا کچھ ہی کیوں نہ مل جائے۔ ابتدائی سالوں کے وہ نقوش اسے رہ رہ کر ناخوش کرتے رہتے ہیں۔ میری اپنی بڑی بہن جو ایک بے حد خوبصورت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہیں اور زندگی نے انہیں ہمیشہ مجھ سے بڑھ کر نوازا ہے۔ ان کے دل کے اندر ایک عجیب سی افسردگی ہمیشہ رہتی ہے۔ خود انہیں بھی احساس ہے لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی اسے خود سے نوچ کر پھینک نہیں سکتیں۔ محض اس لئے کہ بہت بچپن میں یعنی صرف دوسال کی عمر میں ماں باپ سے جدا کر کے خالہ کی گود میں ڈال دیا گیا تھا۔ بہن کی ناخوشگوار ازدواجی زندگی کے مختصر تجربے اور پھر کبھی شادی نہ کرنے کے فیصلے کو اپنے طور پر قابل قبول بنانے کے لئے بہن اور بہنوئی نے اپنی دوسری بیٹی یعنی میری پیدائش پر، اپنی پہلی بیٹی اور اس وقت تین بھائیوں کی بہن کو خالہ کی محبت بھری گود کے سپرد کر دیا۔ بظاہر تو یہ فیصلہ اس بچی کے لئے جو خالہ سے یوں بھی بے حد مانوس تھی ناقابل قبول نہیں تھا، لیکن بڑھتی عمر اور یہ احساس کہ بھرے پرے کنبے کے بجائے محض خالہ اور نانی کی موجودگی چاہے وہ کتنے نخرے اٹھانے والی کیوں نہ ہوں۔ باپ ، ماں اور بھائی بہنوں کی موجودگی کا بدل کبھی نہ بن سکی۔ خاص طورپر جبکہ یہ حقیقت اس بچی سے بھی نہ چھپائی گئی کہ درحقیقت اس کا اپنا گھر کون سا ہے۔

ہمارے ہاں بڑے فیصلے کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہی کہ بچوں کے کچے اور معصوم ذہنوں پر ایسے فیصلوں کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پانچ چھ سال تک کے بچے کو کسی بھی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کا ذہن اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ اس چھوٹی عمر کے تجربات اور احساسات کو باقی زندگی کے لئے ذخیرہ کر سکے۔ اچھے یا برے، یہ تو ضمنی بات ہے لیکن خود میرے اپنے ذہن میں ایسے نقش یا یوں کہیئے کہ فلم کی ریل کی طرح عکس موجود ہیں جن کا سلسلہ میری پونے دو سال کی عمر سے جڑتا ہے۔ بھلا کون یقین کر سکتا ہے کہ اتنا چھوٹا بچہ، اپنے گرد و پیش میں ہونے والے واقعات اور مقامات کو اپنے ذہن میں اس طرح نقش کر لیتا ہے لیکن ایسا ہوتا ہے اور اب ایک بیس سالہ تحقیق نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔
یہ تحقیق پینسلوینا یونیورسٹی کے شعبہ نیورو سائنس کی سربراہ مارتھا فرح نے یہ جاننے کے لئے کیا ہے کہ چھوٹی عمر یعنی چار سال تک کے بچے کی روزمرہ مصروفیات اور تجربات، بڑوں کے رویّے اور ماحول اس کے ذہن پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں اور وہ آگے زندگی میں ان سے کتنی رہنمائی لے سکتا ہے۔ بیس سال پر محیط اس ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ چار سال کی عمر تک بچے کو جو ماحول مہیا کیا جاتا ہے یعنی جیسے اور جتنے لوگ اس کے آس پاس رہتے ہیں، جیسے کھلونے یا کتابیں اسے دی جاتی ہیں، موسیقی کے کتنے آلات۔ اصلی یا کھلونوں کی صورت میں اس کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ رنگوں اور خوشبوﺅں سے اس کا جتنا تعارف ہوتا ہے یہ سب چیزیں مل جل کر اس کے ذہن کی نشو ونما کرتے ہیں لیکن ان سب سے بڑھ کر محبت کی وہ گرمی جو اسے اس عمر میں حاصل ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، ان سب کا اثر زندگی بھر اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔

چونسٹھ بچوں کے دماغوں کا اسکین (SCAN) پہلے چار سال کی عمر میں کیا گیا، پھر آٹھ سال کی عمر میں اور آخری اسکین سترہ اور انیس سال کی عمروں میں اور اس سارے عرصے میں سائنسدان ان بچوں کے گھروں کے ماحول، ان کی زندگی میں موجود افراد اور باقی ہر طرح کے تجربات سے باخبر رہے لیکن نتیجے نے یہ ثابت کیا کہ جو ماحول، حالات، رویّے اور دوسرے عوامل ایک بچے کو چار سال کی عمر تک پیش آتے ہیں وہی اس کی باقی زندگی اور ذہنی نشو و نما کے لئے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ دماغی نشو ونما میں اس کے بعد کوئی واضح فرق محسوس نہیں کیا گیا۔ بچے بڑے ہوتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں یا نہیں کر سکتے، زندگی کے بہت سے دوسرے تجربات سے گزرتے ہیں۔ جو مختلف لوگوں اور مختلف حالات کے تحت بے حد متفرق ہو سکتے ہیں لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چار سال کی عمر تک پیش آنے والے واقعات، اس عرصے تک گزاری گئی زندگی، ماں باپ اور دوسرے گھر والوں کے رویّے، محبت اور توجہ یا ان دونوں کی عدم موجودگی اور پورا ماحول مل کر ایک انسان کے رویوں، اس کے فیصلوں اور زندگی گزارنے کے طریقوں کا تعین کرتے ہیں۔
ماں باپ زندگی بھر تو کسی کے ساتھ نہیں رہتے لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے صحیح فیصلے کر سکیں، اپنی زندگی کی راہیں مثبت خطوط پر استوار کریں اور سب سے بڑھ کر ایک مطمئن اور خوشگوار زندگی گزار سکیں تو اس وقت کا انتظار نہ کیجئے کہ بچہ ذرا بڑا ہو جائے تو اسے اچھے، برے اور مثبت چیزوں کی پہچان کرائیں۔ یہ سارے کام آپ کو چار سال کی عمرتک کر لینے چاہئیں کیونکہ اس وقت تک کمہار کی کچی مٹی کی طرح ذہن کی سطح پر پڑنے والے نقش بھی پکّے ہو جاتے ہیں پھرآپ لاکھ کوشش کریں پختہ مٹی کو نئے سرے سے گوندھ کر نئے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے، اس لئے شروع سے ہی احتیاط لازم ہے۔

مانا کہ حالات اور ماحول آپ کے اختیار میں نہیں یعنی وہ ماحول جو روپے پیسے اور چیزوں سے عبارت ہے لیکن میٹھے بول، بچوں کی بات توجہ سے سننے کی عادت اور لمس کی گرمی تو آپ کے اختیار میں ہے۔ یقین جانیں یہ سب کسی بھی ٹانک یا بیرونی محرک سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ میرے ماں باپ مجھے چاہتے ہیں، میری ذات کو گھر میں اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ اعتماد زندگی بھر انسان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
جنگ

بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی

حامد میر

hamid.mir@janggroup.com.pk

پاکستانی میڈیا کو کئی دنوں سے شٹ اَپ کال دی جا رہی تھی۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنے والوں کا فرمانا تھا کہ جب کوئی فوج حالت جنگ میں ہو تو اس فوج پر تنقید نہیں کی جاتی بلکہ اس فوج کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنے والوں کو بہت سمجھایا گیا کہ میڈیا نے فوج پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ماضی میں آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں کے کردار پر بحث کی جا رہی ہے لیکن ڈانٹ ڈپٹ میں شدت آتی گئی اور میڈیا پر بلا جواز تنقید میں میڈیا کے کچھ لوگ بھی اپنے مخصوص منافقانہ انداز میں شامل ہو گئے۔ اس دوران کچھ ٹی وی چینلز کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا اور کچھ اینکرز کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں لگام دی جائے یا اسکرین سے ہٹا دیا جائے۔ یہ مطالبہ صاف بتا رہا تھا کہ اپنے آپ کو ریاست سے زیادہ طاقت ور سمجھنے والے کچھ عناصر بدستور اپنے سابقہ باس جنرل پرویز مشرف کے انداز میں سوچتے ہیں وہ نظریہ ضرورت کے تحت اپنی ماضی کی غلطیوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ماضی کی ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اس سے پہلے کہ کم از کم چار ٹی وی اینکرز کا دماغ درست کرنے کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کیا جاتا امریکی میڈیا میں دنیا کی طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا سکینڈل بے نقاب ہوگیا۔

60 سالہ ڈیوڈ پیٹریاس دو بچوں کی ماں 40 سالہ پاﺅلا بروڈ ویل کے ساتھ خفیہ طور پر عشق فرما رہے تھے۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے اس عشق کا بھانڈا ایف بی آئی نے پھوڑا جو سی آئی ے کے سربراہ کی ای میلز کی نگرانی کر رہی تھی۔ جیسے ہی یہ معاملہ میڈیا میں آیا تو ڈیوڈ پیٹریاس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے سی آئی اے سے استعفیٰ دے دیا۔ اب امریکی میڈیا اس اسکینڈل کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے پاﺅلا اور پیٹریاس کے پیچھے بھاگ رہا ہے لیکن کسی نے امریکی میڈیا کو قومی مفادات کی آڑ لے کر اس معاملے کی رپورٹنگ سے نہیں روکا۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے نہ تو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت کی نہ، سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کیں نہ کوئی رشوت لی۔ صرف ایک خاتون کے ساتھ عشق کیا جس کی وجہ سے کچھ خفیہ اطلاعات مذکورہ خاتون تک پہنچنے کا خدشہ تھا لہٰذا سی آئی اے کے سربراہ نے اخلاقی بنیادوں پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اب ذرا پاکستان کی طرف آیئے۔ ہمارے ہاں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔ جی ایچ کیو پر حملہ، ایبٹ آباد آپریشن، مہران بیس کراچی پر حملہ، سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ اور پھر کامرہ ایئر بیس پر حملہ ہوا۔ کسی خفیہ ادارے کے سربراہ نے استعفیٰ نہیں دیا اور جب میڈیا نے ان اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے تو انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔ پیٹریاس پاکستان میں ہوتے تو صاف بچ جاتے۔

واقفان حال جانتے ہیں کہ جس قسم کے اسکینڈل کی وجہ سے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے استعفیٰ دیا اس قسم کے اسکینڈل ہمارے لئے نئے نہیں ہیں۔ جنرل یحییٰ خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوج کے کئی جرنیل اپنی رنگین مزاجی کے لئے مشہور تھے لیکن ہمارے میڈیا نے کبھی ان رنگین داستانوں کی تفصیل میں جانے کی جرا ¿ت نہ کی۔پاکستانی میڈیا کے لئے سیاستدانوں اور بیورو کریٹ کے خلاف سچ بولنا ہمیشہ آسان رہا ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہوتی۔ جب بھی کوئی صحافی جرنیلوں کی غیر آئینی یا غیر اخلاقی سرگرمیوں کے بارے میں زبان کھولتا ہے تو اسے دھمکیوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کون نہیں جانتا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک ٹی وی اداکارہ کی رسائی ایوان صدر کے کون کون سے کونے تک پہنچ چکی تھی؟ با خبر صحافی تو ایک صنعت کار خاتون کی پہنچ سے بھی واقف تھے جس نے ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو شادی کا جھانسہ دے کر کئی راز اگلوائے اور پھر یہ سب کچھ مشرف صاحب کو بتا کر ان کے قریب ہو گئی۔

مشرف دور حکومت میں ق لیگ کی کچھ خواتین ارکان اسمبلی کی سرگرمیوں نے چودھری شجاعت حسین کو زچ کر دیا تھا اور مشرف سے ان کے اختلافات کی یہ ایک بنیادی وجہ تھی۔ مشرف دور میں کیا کچھ ہوتا رہا؟ مزید تفصیلات کے لئے برطانیہ کی خاتون صحافی کیر ی شوفیلڈ کی کتاب ”ان سائیڈ پاکستان آرمی“ پڑھئے۔ یہ کتاب کسی بھارتی یا یہودی ایجنٹ کا پراپیگنڈہ نہیں بلکہ کیری شوفیلڈ کو یہ کتاب لکھنے کے لئے جی ایچ کیو نے پورا تعاون فراہم کیا اور انہوں نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں کئی بریفنگز بھی لیں۔ برطانوی صحافی نے لکھا ہے کہ پاکستان آرمی کے ایک افسر میجر جنرل فیصل علوی کو اگست 2005 میں ایک خاتون کے ساتھ مبینہ تعلقات کی وجہ سے جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا۔ بعد ازاں فیصل علوی نے الزام کو جھٹلاتے ہوئے اپنے کچھ سینئرز کے بارے میں ناشائستہ گفتگو کی۔ کچھ عرصے کے بعد میجر جنرل فیصل علوی کو پراسرار انداز میں قتل کر دیا گیا۔ قتل کے الزام میں ایک ریٹائرڈ میجر کو گرفتار کیا گیا جو بعد میں رہا ہو گیا۔ اس کتاب میں قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے مختلف آپریشنز کا بھی ذکر ہے جن میں ہمارے کئی افسروں اور جوانوں نے جرا ¿ت و بہادری کا مظاہرہ کیا لیکن میجر جنرل فیصل علوی کے بارے میں تفصیلات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ افسر انصاف مانگتا مانگتا قتل ہو گیا۔ میڈیا سیاستدانوں اور کرکٹروں کے خلاف برطانیہ اور امریکہ میں شائع ہونے والی کتابوں کے اقتباسات تو شائع کرتا ہے لیکن کیری شوفیلڈ کی کتاب میں فیصل علوی کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اسے نظر انداز کرتا ہے کیونکہ جان سب کو پیاری ہے۔

یہ سب لکھنے کا مقصد یہ قطعاً نہیں کہ میڈیا اس خاتون کی تلاش شروع کر دے جو میجر جنرل فیصل علوی کا کیریئر تباہ کرنے کا باعث بنی۔ مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ڈیوڈ پیٹریاس ایک خاتون سے ناجائز تعلقات کے الزام میں سی آئی اے سے استعفیٰ دے سکتا ہے تو جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی؟ دونوںکے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ فوج کو بحیثیت ادارہ ان دونوں کے جرائم کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ 10 اکتوبر 2006ءکو جیو ٹی وی پر کیپٹل ٹاک میں اسد درانی سے ان کے سیاسی کردار پر میں نے کچھ سخت سوالات کئے تو 21 اکتوبر کو پمرا کے ڈائریکٹر جنرل رانا الطاف مجید نے مجھے ایک شوکاز نوٹس دیا تھا جس میں مجھ پر فوج کے خلاف سازش کا الزام لگایا گیا۔

یہ وہی رانا الطاف مجید تھا جس نے 2007ء میں وکلاءتحریک کو اہمیت دینے والے ٹی وی چینلز کی مقبولیت کم کرنے کے لئے پاکستان میں بھارتی ٹی وی چینلز کھلوا دیئے تھے لیکن موصو ف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اسد درانی اور اسلم بیگ کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ دونوں صاحبان فوج کی آڑ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ دو ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف ہے اور فیصلے میں نواز شریف، الطاف حسین، جاوید ہاشمی اور عابدہ حسین سمیت کئی سیاستدانوں اور کچھ صحافیوں کا بھی ذکر ہے۔ حکومت شفاف تحقیقات کرے گی تو صرف کچھ سیاستدان نہیں بلکہ وہ صحافی بھی بے نقاب ہوں گے جو قومی مفادات کے نام پر خاموشی سے بھاری رقوم ہضم کرتے رہے اور ہم نے جب بھی اصغر خان کیس کا ذکر کیا تو ان بزرگوں نے ہماری ڈانٹ ڈپٹ کی۔ مجھے یقین ہے کہ تحقیقات شروع ہوئیں تو معاملہ صرف 1990ء کے الیکشن تک محدود نہ رہے گا۔ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی 1993، 1997، 2002 اور 2008 کے الیکشن میں کس نے پیسے دیئے اور کس نے لئے سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ سچ سامنے آئے گا تو فوج، سیاستدان اور صحافی بدنام نہیں ہوں گے بلکہ کچھ کالی بھیڑیں بے نقاب ہوں گی آج پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو سب کے بارے میں سچ بولا جائے سچ سے پاکستان کمزور نہیں مضبوط ہوگا۔

جنگ

چنگیز خان کی قبر تووا میں تلاش کی جانی چاہیے

عظیم چنگیز خان کی آخری آرام گاہ ایک عرصے سے تلاش کرنے والوں کے لیے معمہ بنی ہوئی ہے اور اس بارے میں دنیا بھر کے دانشوروں اور تلاش کنندگان میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ منگولوں کا خیال ہے کہ ان کے عظیم جد کی قبر الن باتور کے شمال کے پہاڑی علاقے میں کہیں ہے۔ روایت یہ ہے کہ انہیں برہان ہلدون نام کے پہاڑ پہ دفنایا گیا تھا۔ 1990 کی دہائی میں منگولیا کے اس مقام پر امریکی اور جاپانی مہم جووں نے ان کی قبر تلاش کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ انہوں نے ان مہمات پر لاکھوں ڈالر صرف کیے تھے لیکن بے نیل و مرام رہے تھے۔

گزشتہ برسوں میں چینیوں کا یہ دعوٰی رہا ہے کہ چنگیز خان کی قبر منگولیا اور چین کی سرحد کے نزدیک چین کی سرزمین پر التائی پہاڑوں کی تلہٹی میں ہونی چاہیے۔ شہر ہرمچی سے تلاش کے لیے آنے والی مہم کی دلیل یہ ہے کہ یہی وہ مقام تھا جہاں سے چنگیز خان کئی بار تنگوتوں کے ملک سی سیا آئے گئے تھے۔ شمالی چین کی یہ ریاست 1227 میں منگول فوج کا نشانہ بنی تھی۔ تنگوتوں پر چڑھائی کے دوران ہی چنگیزخان کا انتقال ہو گیا تھا۔

چنگیز خان کی قبر ”تووا“ میں تلاش کی جانی چاہیے کیونکہ تاریخی طور پر یہ جگہ ہی اس سپہ سالار کی جائے پیدائش ہے، جہاں قدیم زمانے میں اریانہی یعنی توویائی رہتے تھے۔ یہ تصور تووا کی سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور تاریخ دان نکولائی ابایو کا ہے، جس سے روس کے بہت سے دوسرے دانشور بھی متفق ہیں۔ معروف روسی منگول شناس ماہر تاریخ ایلینا بوئیکووا سمجھتی ہیں، ”چنگیز خان کی قبر کے معاملے کو وسیع تناظر بخشا جانا چاہیے اور اسے اس کی جائے پیدائش سے منسلک کیا جانا چاہیے جہاں روایات کے مطابق کسی شخص کو دفن کیا جاتا تھا۔ روس کے تاریخ دانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ چنگیز خان کے آباء کا تعلق یا تو سایانو التایا خطے سے تھا جو آج کے تووا کے علاقے میں تھا یا پھر شمال مغربی منگولیا میں جھیل ہبسگل کے نزدیک جہاں توویائی بستے ہیں“۔

ایکلینا بوئیکووا کی رائے سے چینی دانشور بھی اتفاق کرتےہیں اور کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی قبر کا چین میں وجود متنازع ہے، جس کے لیے بڑے ثبوت درکار ہیں۔ ایلینا بوئیکووا کہتی ہیں، ”میں سمجھتی ہوں کہ روایت بن جانے والے سپہ سالار کے مدفن کی تلاش بارے چینیوں کو خالص علمی دلچسپی نہیں ہے بلکہ منگول شہنشاہ کی قبر کی تلاش بارے ان کے کچھ سیاسی عزائم ہیں کہ بیجنگ اپنے ہمسایہ ملکوں پہ ثابت کر سکے کہ وہ اس خطے کے بلا شرکت غیرے رہنما رہے ہیں“۔

چنگیزخان کے مدفن بارے روسی ماہرہ کے دعوے کا ایک اور ثبوت بھی ہے۔ ایک معروف روایت کے مطابق جہاں چنگیز خان دفن تھا اس کے ارد گرد قبیلہ اریانہی کے ان ہزاروں جنگجووں کو جنہیں جنگی مقاصد سے علیحدہ کیا جا چکا تھا، حفاظت پہ متعین کیا گیا تھا۔ اریانہی قدیم منگولیا والے توویاؤں کے اجداد کو کہا کرتے تھے۔ بالاخر یہ پہرہ ہٹا دیا گیا تھا، یوں مدفن گم ہو گیا تھا کیونکہ اس زمین پر ہزاروں گھوڑوں کو دوڑایا گیا تھا تاکہ قبر کے نشان کا پتہ نہ چل پائے۔

چنگیز خان کی قبر تووا میں تلاش کی جانی چاہیے

امریکہ کے ساتھ رہنے سے کون انکاری ہے؟

اگرچہ اس بارے میں یقین کرنا دشوار ہے لیکن اپنی ریاستوں کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے جدا کرنے کے خواہش مندوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 6 نومبر کو ہوئے صدارتی انتخاب کے بعد وہائٹ ہاؤس کی سائٹ پر ”ہم ۔۔ عوام“ نام کے کالم میں ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم اس خواہش کو علیحدگی پسندانہ رجحان پہ محمول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ اس علیحدگی کا تعلق وفاقی سرکاری پالیسیوں سے جان چھڑانا ہے۔ امریکی واشنگٹن سرکار کو پسند نہیں کرتے۔ یوں ایسے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ماسوائے احتجاج کی ایک اور شکل کے مزید کچھ نہیں ہے۔ ویسے تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ مذاق میں شروع ہوا تھا۔

کچھ عرصہ قبل اس نوع کی ریاستوں میں بیس ریاستوں کے نام شامل تھے، جن میں ٹیکساس اور نیویارک جیسی بڑی ریاستوں کے نام بھی ہیں۔ پھر نیو جرسی، نارتھ اور ساؤتھ کیرولینا، الاباما، جارجیا، فلوریڈا اور دیگر ریاستیں بھی اس فہرست مں درج ہیں۔

13 نومبر کو ان میں 8 اور باغی ریاستوں کے نام شامل ہو گئے ہیں جن میں کیلیفورنیا، نیوادا، پینسلوانیا اور اوہائیو بھی ہیں۔ اس طرح کے احتجاج کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے، ماسکو سٹیٹ انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروریکٹر آرتیوم مالگین سمجھتے ہیں، ”انتخابی مہم کے دوران اس طرح کی معلومات کو سیاسی لطیفے کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ ایسے لطائف کے اثرات نہیں ہوا کرتے اور بھلا اثر ہو بھی کیا سکتا ہے۔“

مسئیہ تو کچھ اتنا عاقلانہ نہیں ہے تاہم ”وہائٹ ہاؤس“ نے اس کے لیے ایک کالم بنا دیا ہے۔ ”وی دی پیپلٴٴٴٴٴٴ‘ امریکہ کے دستور کے اولیں الفاظ ہیں، یوں امریکہ کے شہریوں کو براہ راست صدر کی انتظامیہ تک رسائی فراہم کی گئی ہے تاکہ سنا جاسکے کہ لوگ کس قسم کی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ باراک اوبامہ نے 2008 کی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی انتظامیہ کو بے مثل حد تک قابل رسائی بنائیں گے اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔

ایسی پٹیشن 13 سال سے زیادہ عمر کو کوئی بھی شہری ارسال کر سکتا ہے۔ 150 دستخط پورے ہو جانے کے بعد اسے ”وہائٹ ہاؤس“ کی سائٹ پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جب فہرست میں درج لوگوں کی تعداد پانچ ہزار ہو جائے گی تو وہائٹ ہاؤس کے وعدے کے مطابق، ایسی درخواست رسمی دستاویز کی شکل اختیار کر لے گی جس کا جواب دیا جانا لازمی ہوگا۔

کچھ پٹیشنوں پہ یہ تعداد دس پندرہ ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے یعنی مذاق سے شروع ہونے والی بات سنجیدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب تک وصول ہونے والی پٹیشنوں میں سے بیشتر گذشتہ ہفتے موصول ہوئی ہیں۔ اب تک کسی کا بھی سرکاری جواب نہیں دیا گیا۔ لگتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس طے نہیں کر پا رہا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ رہنے سے کون انکاری ہے؟

ہیمبرگ میں مسلم تقریبات پر تعطیل

جرمن شہر ہیمبرگ کے میئر اولاف شتولتس نے مسلم برادری کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس کے تحت کچھ مسلم تقریبات تعطیل قرار دی جائیں گی، جرمن اخبار ”ویلٹ“ نے لکھا۔ مسلم تقریبات کے موقع پر ہیمبرگ میں رہنے والے مسلمانوں کو تین روزہ چھٹی دی جائے گی۔ یہی روایت کچھ عیسائی تقریبات کے لئے موجود ہے۔

مزید برآں مذکورہ سمجھوتے کے مطابق سکولوں میں اسلامی مذہب کے بارے میں تعلیم دینے کی اجازت دی گئی۔ اپنی طرف سے مسلمانوں کو خواتین اور حضرات کے درمیان مساوی حقوق سمیت اہم ترین انسانی حقوق کی حمایت کرنی ہوگی۔

ہیمبرگ کی پارلیمنٹ کو اس سمجھوتے کو منظوری کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ہیمبرگ کی اٹھارہ لاکھ باشندوں میں سے ایک لاکھ اسی ہزار مسلمان ہیں۔

جرمن شہر ہیمبرگ میں مسلم تقریبات تعطیل قرار دی گئیں

بن لادن کے قتل کا منصوبہ ساز سی آئی اے کا سربراہ

بیوی کے ساتھ بے وفائی کرنے کی خبر افشاء ہونے کے بعد سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ڈیوڈ پیٹریوس کے استعفے کے بعد مائیکل موریل کو سی آئی اے کا قائم مقام سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس کا پاک امریکہ تعلقات اور خاص طور پر سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟

مائیکل موریل کو ”اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والی سی آئی اے کی ٹیم“ کا سربراہ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے بارے تیاری میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ پس مائیکل موریل کے نئے عہدے پر تعیناتی کو خطے میں اچھا نہیں خیال کیا جائے گا، جغرافیائی سیاسی مسائل بارے اکادمی کے صدر کرنل جنرل لیوند ایواشوو سمجھتے ہیں، ”سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کو مثبت کی بجائے منفی لیا جائے گا۔ پاکستان کے لوگوں اور کلی طور پر خطے کے لوگ اس سے خوش نہیں ہونگے۔ اسامہ بن لادن جو اور جیسا بھی تھا وہ اسلامی دنیا کی بیشتر آبادی کے لیے اہمیت رکھتا تھا اور اس کے قاتل کو وہاں مطعون سمجھا جاتا ہے۔“

اس خطے کے ملکوں اور امریکہ کے تعلقات کی ایک دکھتی رگ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ ملحق علاقوں مین ڈرون طیاروں کے ذریعے کیے جانے والے حملے ہیں۔ ان حملوں میں جنگجو طالبان کے علاوہ عام پاکستانی شہریوں کا مارا جانا اب بھی جاری ہے۔ پھر مائیکل موریل کو ڈروں کے ذریعے حملوں کا بہت بڑا حامی خیال کیا جاتا ہے تاکہ پاکستان، افغانستان، یمن اور دیگر ملکوں میں اسلام پسند جنگجووں سے نمٹا جا سکے۔

پاک امریکہ تعلقات میں باہمی اعتماد کی فضا بے حد خراب ہے۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین تعاون بھی بحال نہیں ہو پایا ہے۔ اس برس کے ماہ اگست میں پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کے دورہ امریکہ کے متوقع نتائج برآمد نہیں ہو سکے تھے۔ پاکستان کے راستے نیٹو کے دستوں کو سامان پہنچائے جانے کا عمل معاہدے پہ دستخط ہو جانے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹرکوں اور ٹینکروں پہ طالبان جنگجووں کے حملے جاری ہیں۔

سی آئی اے کے نئے سربراہ مائیکل موریل پاکستان میں خاصے جانے پہچانے ہیں، شاید یہی ایک وجہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بااعتماد بنانے کے کام آ سکے۔