عورت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عورت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, اکتوبر 20, 2013

ہندو ۔ مسلم فسادت میں جنسی زیادتی کے واقعات

بھارتی ریاست اتر پردیش میں گزشتہ ماہ کے ہندو ۔ مسلم فسادات میں قتل اور لُوٹ مار کے علاوہ جنسی زیادتی کے واقعات بھی پیش آئے۔ ایسے صرف پانچ واقعات رپورٹ کیے گئے تاہم خدشہ ہے کہ ان کی تعداد کہیں زیادہ رہی ہے۔

جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین اور ان کے خاندان بد نامی کے خوف سے خاموش رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ فاطمہ کا تعلق بھی ایسے ہی ایک متاثرہ خاندان سے ہے جو اس وقت ضلع مظفر نگر کے علاقے مَلک پور میں ایک امدادی کیمپ میں رہائش پذیر ہے۔

فاطمہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں بتایا کہ سات ستمبر کو شروع ہونے والے تین روزہ فسادات کے دوران چھ افراد ان کے گھر میں گھُس گئے تھے۔ وہ درانتیاں اور تلواریں لیے ہوئے تھے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے انہیں ایک کرسی پر باندھ دیا اور ان کے سامنے ان کی 17 سالہ بیٹی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر ان کی بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے کی بات پھیل گئی تو کون اس سے شادی کرے گا۔ انہوں نے کہا: ’’اسے بد چلن قرار دے دیا جائے گا اور ہماری اپنی برادری ہمیں باہر نکال پھینکے گی‘‘۔

ایک 19 سالہ لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ سکوٹر پر اپنے دادا کے ساتھ فساد زدہ علاقے سے فرار ہو رہی تھی جب چھ افراد نے انہیں روکا۔ اس لڑکی نے بتایا کہ وہ اسے قریبی گنے کے کھیت میں لے گئے اور چھ گھنٹے تک زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں گشت پر مامور فوج کے ایک دستے نے اس کی جان بچائی۔

مَلک پور کے کیمپ میں رہائش پذیر فاطمہ اور دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اپنے گھروں کو نہیں لوٹیں گے۔ اے ایف پی کے مطابق مظفر نگر کے فسادات میں ایسے کئی واقعات پیش آئے۔ تاہم پولیس نے ان فسادات کے نتیجے میں مجرمانہ نوعیت کے جو 280 مقدمات درج کیے ان میں محض پانچ جنسی تشدد سے متعلق تھے۔

ایک وکیل نوشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ خواتین انتقامی کارروائیوں کے خوف کے ساتھ ساتھ پولیس اور عدلیہ پر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی ایسے معاملات رپورٹ کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’’انتہائی محتاط اندازے کے باوجود، صرف اجتماعی جنسی زیادتی کے کم از کم 50 واقعات پیش آئے ہوں گے۔‘‘

انسانی حقوق کے ایک گروپ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی صہبا فاروقی کہتی ہیں: ’’جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین نے جرأت کا مظاہرہ کیا اور پولیس تک پہنچیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اس سے دیگر خواتین کے حوصلے بھی ٹوٹے‘‘۔

جنوبی ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کہتی ہیں: ’’اتر پردیش کی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایسا ماحول پیدا کرے جس میں زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین انصاف کے لیے سامنے آ سکیں۔‘‘

مظفر نگر کے فسادات کے حوالے سے پولیس نے اب تک تقریباً ڈیڑھ سو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں چار سیاستدان بھی شامل ہیں جن پر مشتعل ہجوم کو اکسانے کا الزام ہے۔

ہفتہ, اکتوبر 19, 2013

مظفر نگر فسادات: رنگ برنگے خیموں تلے امید دم توڑ رہی ہے

سہیل حلیم، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

تشدد میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے
بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی
 پانی پت کے تاریخی میدان جنگ سے صرف تقریباً تیس کلومیٹر دور مغربی اترپردیش کے کچھ دیہی علاقوں میں آپ کو جگہ جگہ رنگ برنگے خیموں کی بستیاں نظر آئیں گی۔

یہ خیمے رنگین ضرور ہیں لیکن ان کے نیچے بقا کی جنگ لڑنے والوں کی زندگی میں کوئی رنگ نہیں۔ ستمبر میں مظفر نگر کے دیہی علاقے جب مذہبی فسادات کی آگ میں جل رہے تھے تو یہ لوگ جان بچانے کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگے تھے اور ایک مہینے بعد بھی واپس لوٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

سلمیٰ اور ان کے شوہر بھی ہزاروں مسلمانوں کے اس ہجوم میں شامل ہیں جس نے کیرانا کے قریب ملک پور کے کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔

’سات ستمبر کی شام مندر سے اعلان کیا گیا کہ گاؤں کے مسلمانوں پر حملہ کرو لیکن کچھ جاٹوں نے ہم سے آ کر کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا، ہم آپ کی حفاظت کریں گے ۔۔۔ لیکن اگلے دن صبح مار کاٹ شروع ہوگئی۔ ہمارا گھر جلا دیا گیا، ہم جان بچانے کے لئے کھیتوں میں بھاگے ۔۔۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں میری چار مہینے کی بچی گھر میں ہی رہ گئی ۔۔۔ اسے زندہ جلا دیا گیا۔‘

مذہبی تشدد میں ایک طرف جاٹ تھے اور دوسری طرف مسلمان۔ اس علاقے میں جاٹوں کی اکثریت ہے اور مسلمان زیادہ تر ان کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ تشدد میں پچاس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی۔ پانچ عورتوں نے اجتماعی ریپ کے مقدمے قائم کرائے ہیں۔

جمیلہ خاتون (اصلی نام نہیں) کی بیٹی ان میں شامل نہیں ہے۔ جب جمیلہ اور ان کے شوہر بچوں کو لے کر بھاگ رہے تھے تو ان کی ایک بیٹی کو حملہ آوروں نے پکڑ لیا۔ اس بچی کی لاش برآمد نہیں کی جاسکی ہے۔

’ہم نے مڑ کر دیکھا تو انہوں نے ہماری بیٹی کو پکڑ رکھا تھا ۔۔۔ ہم واپس نہیں گئے کیونکہ وہ ہمیں بھی مار ڈالتے۔۔۔‘

فسادات کے دوران جنسی زیادتی کے بہت سے الزامات تو سامنے آئے ہیں لیکن سماجی کارکن شبنم ہاشمی کہتی ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کا کسی کو اندازہ نہیں کیونکہ دیہی علاقوں میں عورتیں بدنامی کے ڈر سے خاموش ہی رہ جاتی ہیں۔

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب
امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے
تشدد تو اب ختم ہوگیا ہے لیکن خوف کا ماحول نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اب ان عارضی کیمپوں میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگ ہیں۔ جس سے بھی بات کریں، زبان پر ایک ہی بات ہے۔

’ہم تو انہیں کی غلامی کرتے تھے، انہوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ہم کسی بھی حالت میں واپس نہیں جائیں گے ۔۔۔ حکومت ہم سے کہہ رہی ہے کہ تمہارے پکے گھر بنوا دیں گے ۔۔۔ لیکن ان لوگوں کا کیا بھروسہ جنہوں نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ ہم سڑک پر زندگی گزار لیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گا ہماری کوئی مدد کرے یا نہ کرے‘۔

گجرات میں 2002ء کے مذہبی فسادات کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ تمام ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ دو ارکان اسمبلی سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک رکن پارلیمان کو گرفتار کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے مرنے والوں کے لواحقین کے لئے سرکاری  نوکریوں اور تمام متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔

مقامی لوگ بھی مانتے ہیں کہ متاثرین کے لئے اب اپنے گھروں کو لوٹنا آسان نہیں ہوگا ’کیونکہ دیہی علاقوں میں دشمنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی ۔۔۔ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے لوگ کون تھے ۔۔۔ یہ غریب لوگ ہیں یہ حملہ آوروں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔‘

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور پلاسٹک کے ان رنگ برنگے خیموں کے نیچے امید دم توڑ رہی ہے۔ یہاں نئی زندگیوں کا آغاز بھی ہے اور تاریک مستقبل کا خوف بھی۔

ان لوگوں کے گھر تو قریب ہیں لیکن منزل بہت دور۔

اتوار, دسمبر 30, 2012

زیادتی کا نشانہ بننے والی بھارتی طالبہ چل بسی

سنگاپور کے ماؤنٹ الزبتھ ہسپتال کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر کیلون لوح کی جانب سے ایک اعلان میں بتایا گیا کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی 23 سالہ بھارتی طالبہ سنگاپور میں ہفتے کے روز صبح کے وقت چل بسی۔ 

جمعرات کو اسے بہتر علاج کےلئے سنگاپور کے ماؤنٹ الزبتھ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ آج صبح دل کا دورہ پڑنے اور جسم کے کئی اعضا کے کام چھوڑنے کے باعث چل  بسی، ماؤنٹ الزبتھ اسپتال کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ لڑکی کے جسم کو پہنچنے والے زخم بہت شدید تھے، 8 سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ٹیم نے اس کا علاج کیا لیکن اس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔

میڈیکل کالج کی طالبہ کو 16 دسمبر کی رات نئی دہلی میں ایک چارٹرڈ بس میں سوار ہونے کے بعد چھ افراد نے لوہے کی سلاخوں سے بری طرح مارا پیٹا اور جنسی زیادتی کرنے کے بعد اسے چلتی بس سے نیچے دھکا دے دیا تھا۔ پولیس نے اس واقعہ میں ملوث تمام چھ افراد کو گرفتار کرکے ان پر اقدام قتل اور اجتماعی جنسی زیادتی کے الزامات عائد کیے ہیں۔



بدھ, دسمبر 26, 2012

لوگ بھلا ہی دیں گے: پروین شاکر کی یاد میں

مر گئے بھی تو کہإں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

شاعرہ کا یہ گلہ تو بجا نہیں کہ لوگ انہیں بھلا دیں گے۔ البتہ، مصرہ ثانی، خوشبو جیسے لہجے کی شاعرہ کے امر ہونے کا ایک زمانہ  گواہ ہے۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں  پروین شاکر کی جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 18 برس گزرنے کے باوجود لوگ بھولے نہیں، ان کے لفظ ہمیشہ ان کے ہونے کے گواہ رہیں گے۔

24 نومبر، پیر کی سرد رات اور رم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدائے اذان بلند کی، کراچی کے ایک ہسپتال میں  ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النسا اور سید شاکر حسین  زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا جسے آج دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔

بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

جدید  اردو شاعری کے  اہم نام  پروین شاکر کے فنی مقام سے تو لوگ آگاہ ہیں ہی، آج  ہم ان کی ذاتی زندگی کے چند اوراق پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان کی بڑی بہن نسرین بانو اور پروین نے اپنا بچپن ایک ساتھ ہنستے کھیلتے گزارا۔ دونوں اکٹھے سکول جایا کرتیں۔ پروین جب تیسری کلاس میں تھیں تو انہیں ڈبل پرموشن دیا گیا  یوں دونوں بہنیں ایک ہی کلاس میں آ گئیں۔

ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں، واپسی پر  اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا، وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں  جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زور زور سے ہارن بجا رہی تھیں، شاپ سے سیلز مین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں انہیں جوتا چاہیے، اصل میں وہ  کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو  بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔

ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ صرف 24 برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ ’’خوشبو‘‘ شائع ہوا۔

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر  جاؤں  تو  مجھ کو   نہ سمیٹے  کوئی

انگلش لٹریچر اور لنگئٹکس میں ماسٹرز کے بعد پروین شاکر کچھ عرصہ انگلش کی لیکچرر رہیں پھر  سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم میں اسسٹنٹ کمشنر  کے طور پر تعینات ہوئیں۔

رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں
ان کو تھاموں
زینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروں
یا اپنے کمرے میں ٹھہروں
چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے

سنہ 1976 میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا اور1987ء میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔

کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
۔۔۔۔
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
۔۔۔۔۔
کون چاہے گا تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
۔۔۔
پروین اسلام آباد میں سی۔بی۔آر کی سیکنڈ سیکریٹری مقرر ہوئیں، اس کے بعد کسٹم میں ہی انسپیکشن اور ٹریننگ کی ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئیں۔

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
۔۔۔
26 دسمبر پیر ہی کے روز آفس جاتے ہوئےاسلام آباد میں ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کومل لہجے والی ہی شاعرہ صرف 42 برس کی عمر میں  اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ انہیں اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اُن کے کتبے پر یہ شعر درج ہیں:

مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
۔۔۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

ہفتہ, دسمبر 22, 2012

لڑکیوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے

ایک طرف سستے کیمرہ فونز کی دستیابی اور اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے نوجوانوں میں کسی گمبھیر صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے عدم آگہی، نتیجتاً ایسے مسائل کا سامنا جن کا خاص طور پر وہ لڑکیاں تصور بھی نہیں کرسکتیں، جو اپنے دوستوں کو نجی لمحات کی وڈیوز یا تصاویر بنانے کی با آسانی اجازت دے دیتی ہیں۔

ہم نے ماضی میں بھی اس حوالے سے ایک تحریر پیش کی تھی، جس میں لڑکیوں سے التجا کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی فرد کو، چاہے وہ اُن کا دوست، کزن، رشتہ دار اور خاندان ہی کا فرد کیوں نہ ہو، اپنی تصاویر لینے یا وڈیو بنانے کی اجازت نہ دیں۔ کسی کو بھی نہیں، حتیٰ کہ اپنے منگیتر اور شوہر کو بھی۔ اسی طرح کا معاملہ ایم ایم ایس کا بھی ہے، اپنی نجی تصاویر اور وڈیوز کبھی کسی کو نہ بھیجیں۔

اس پر سختی سے عمل نہ کرنے یا لاپرواہی بہت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ وجہ: یہ جان لیں‌ کہ موبائل فون یا میموری کارڈ سے ڈیلیٹ کی گئی وڈیوز اور تصاویر نکالی جا سکتی ہیں اور کسی غلط ہاتھ میں بھی جا سکتی ہیں۔ یہ بات اپنے پلّو سے باندھ لیں کہ کسی بھی شخص کو اپنے نجی لمحات ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دینی۔ اور اس پر سختی سے کاربند رہیں، چاہے اس کا آپ کے رشتہ و تعلقات پر اثر کیوں نہ پڑے۔

ہمیں اپنے اہل خانہ اور دوستوں، خصوصاً گاؤں دیہات میں رہنے والے افراد میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ شاید اس موضوع پر براہ راست گفتگو کرنا موزوں نہ لگے، یا پھر اس قدر آسان نہ ہو، لیکن اس کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایسے مضامین کے لنکس اُن کو ای میل کریں جن میں نجی وڈیوز کی تباہ کاریوں کی وضاحت کی گئی ہو اور یوں وہ خود اُن کے نتائج پڑھیں۔

اے آر وائی نیوز نے حال ہی میں اس حوالے سے ایک پروگرام کیا تھا، جس میں اک ایسی لڑکی کو مدعو کیا گیا تھا، جس کی وڈیو بنا کر دوست نے بلیک میل کیا تھا اور یوں لڑکی کو اس کے تمام شیطانی احکامات ماننا پڑے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا شخص بھی پروگرام میں آیا جس کی لڑکی نے انہی وجوہات کی بناء پر خود کشی کر لی تھی۔

اس وڈیو کو خود دیکھئے اور اسے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ شیئر کیجیے
ویڈیو دیکھنے کے لئے کلک کریں

جمعہ, دسمبر 21, 2012

حاملہ خواتین: صبح کے وقت متلی سے بچنے کا طریقہ

ایسی حاملہ خواتین جنہیں صبح کے وقت اکثر متلی کا سامنا رہتا ہے، انہیں اس کیفیت سے نجات کے لیے پورے دن میں تھوڑی تھوڑی مقدار میں پانچ یا چھ مرتبہ کھانا کھانا چاہیے۔ جرمنی میں گائنیکالوجی کے ماہر ڈاکٹروں کی تنظیم کے صدر کرسٹیان آلبرِنگ کہتے ہیں کہ حاملہ خواتین اگر کھانا کم مقدار میں کھائیں اور اسے اچھی طرح چبائیں، تو وہ اس خوراک کو بہت اچھی طرح ہضم کر سکیں گی۔ اس کے علاوہ ایسی حالت میں خواتین کو صرف وہی کچھ کھانا چاہیے، جو انہیں واقعی بہت پسند ہو۔ ورنہ یہ امکان بہت زیادہ ہو جائے گا کہ انہیں بار بار متلی کی کیفیت اور قے کا سامنا رہے گا۔

جرمن گائنیکالوجسٹس ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق حاملہ خواتین میں متلی اور قے کی کیفیت بہت زیادہ ہوتی ہے، خاص طور پر صبح کے وقت۔ اس کا سبب حمل کے بعد ہارمونز میں آنے والی وہ تبدیلیاں ہوتی ہیں جو صبح کے وقت زیادہ ہوتی ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر ان کے اثرات کسی بھی وقت سامنے آ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر Christian Albring کے بقول صبح کے وقت مسلسل متلی ہونے اور قے آنے جیسی کیفیت حمل کے چھٹے اور 14 ویں ہفتے کے درمیان سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد کے عرصے میں حاملہ خواتین میں یہ شکایت بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح کے وقت متلی کی یہ کیفیت اتنی شدید نہیں ہوتی کہ مریضہ کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑے۔ طبی زبان میں اس حالت کو hyperemesis gravidarum کہتے ہیں۔ ڈاکٹر آلبرِنگ کا کہنا ہے کہ صبح کے وقت طبیعت کی یہ خرابی یا morning sickness دو سے تین فیصد تک حاملہ خواتین میں دیکھنے میں آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ معمول کی حالت ہوتی ہے، جس کا کسی ہسپتال میں علاج ضروری نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر کرسٹیان آلبرِنگ کہتے ہیں، ’صبح کے وقت متلی کی شکار حاملہ خواتین کو خاص طور پر دن بھر ایسی خوراک استعمال کرنی چاہیے جن میں گلوکوز اور نشاستہ یعنی کاربوہائیڈریٹ زیادہ ہوں۔ ایسی خوراک میں خاص طور پر میٹھی اشیاء تو ہوں لیکن چکنائی اور تیزابیت پیدا کرنے والی خوراک سے اجتناب بہتر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی خواتین کو پکے ہوئے کھانوں کی خوشبو سے دور رہنا چاہیے اور ریفریجریٹر میں رکھی گئی اشیاء سے پرہیز بھی کرنا چاہیے کیونکہ متلی کی کیفیت میں انسانوں کی سونگھنے کی حس بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

حاملہ خواتین: صبح کے وقت متلی سے بچنے کا طریقہ

جمعرات, دسمبر 13, 2012

گھریلو کام کرنے والی خواتین لمبی عمر پاتی ہیں

لندن: گھر کے کاموں میں مصروف رہنے والی خواتین صحت مند اور لمبی عمر پاتی ہیں۔ برطانیہ میں ہوئی ایک تحقیق کے مطابق گھریلو خواتین کو فٹ رہنے اور لمبی عمر پانے کے لئے چھ سے آٹھ گھنٹے گھریلو کاموں میں گزارنے چاہییں۔ ایسی خواتین کی نہ صرف عمر لمبی ہوتی ہے بلکہ ان کے جسم میں جوڑوں کا درد، شوگر اور بلڈ پریشر، جیسی بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے اور یوں گھریلو کاموں کی وجہ سے انہیں بغیر علاج کئی بیماریوں کی تکلیف سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔

ودیا بالن جمعہ کو پیا گھر سدھار جائیں گی

فلم ڈرٹی پکچر سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی معروف بھارتی اداکارہ ودیا بالن کی شادی 14 دسمبر کو تامل اور پنجابی رسم رواج کے مطابق انجام پائے گی۔

ایک بھارت چینل کے مطابق ودیا تامل ہونے کے ناطے سے چاہتی ہیں کہ ان کی شادی تامل رسم رواج کے مطابق انجام پائے جبکہ دوسری طرف ان کے ہونے والے شوہر سدھارتھ رائے کپور پنجابی ہونے کے باعث چاہتے ہیں کہ یہ شادی تامل کے ساتھ ساتھ پنجابی رسم و رواج کے مطابق ہو۔ ودیا بالن کے اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ شادی کی مرکزی تقریب جمعے کو شہر چھمبور کے مندر میں ہوگی جبکہ بعد ولیمے کی تقریبات میں بالی وڈ کے تمام بڑے ستاروں کو مدعو کیا جائے گا۔

’رقم نہیں دے سکتیں تو مجھ سے شادی کرنا ہوگی‘

افغانستان کے ایک اعلیٰ جج کی خفیہ ریکارڈنگ سامنے آئی ہے جس میں انہیں طلاق کے مقدمے میں مدد مانگنے والی ایک عورت سے رقم اور شادی کا مطالبہ کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔ صوتی ریکارڈنگ میں جج ظہورالدین کو سنا جا سکتا ہے کہ وہ 20 سالہ خاتون دیوا سے نہ صرف دو ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم بلکہ ان کا رشتہ بھی مانگ رہے ہیں۔ ریکارڈنگ سامنے آنے کے بعد جج نے ان الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ شادی کی تجویز محض ایک مذاق تھا۔

دیوا نے افغانستان کے شہر جلال آباد میں ہونے والی یہ گفتگو خفیہ طور پر ریکارڈ کی اور بی بی سی کو حاصل ہونے والی اس ریکارڈنگ میں ظہورالدین دیوا سے ایک لاکھ بیس ہزار افغانی یا دو ہزار امریکی ڈالر نقد رقم کا مطالبہ کرنے کے بعد ان سے بار بار شادی کا مطالبہ دہراتے ہیں۔

دیوا کا کہنا ہے کہ جب وہ مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت پہنچیں تو ظہورالدین نے مقدمے میں مدد دینے کے لیے ان کے گھر آنے کی پیش کش کی اور گھر آنے کے بعد جج نے رقم کا مطالبہ کیا۔ دیوا کے مطابق ’جب بات رشوت دینے پر آئی تو میں نے اپنا ریکارڈر آن کر لیا اور ان کی آواز ریکارڈ کرنا شروع کر دی‘۔ دیوا ایک مقامی ریڈیو سٹیشن سے منسلک صحافی ہیں اور انہوں نے ریکارڈنگ کا سامان اپنے لباس میں چھپا رکھا تھا۔ بی بی سی کو حاصل شدہ ریکارڈنگ میں پینسٹھ سالہ جج کو اپنے لیے بیس ہزار جبکہ مقدمے کا فیصلہ کرنے والے جج کے لیے ایک لاکھ افغانی کا مطالبہ کرتے اور دیوا کی جانب سے اتنی رقم کی ادائیگی سے معذوری ظاہر کرنے پر ان سے شادی کا مطالبہ کرتے سنا جا سکتا ہے۔ ظہورالدین کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ ’میں تمہارے لیے بیس لاکھ دوں گا اور تمہیں سر سے پیر تک سونے سے لاد دوں گا‘۔

جب بی بی سی نے مذکورہ جج سے رابطہ کیا اور انہیں ثبوت دکھائے تو ان کا دعویٰ تھا کہ صحافی خاتون نے ریکارڈنگ میں تحریف کی ہے اور یہ سب ان کی ’ترقی روکنے کے لیے مخالفین کی سازش ہے‘۔ شادی کے مطالبے کے حوالے سے ظہورالدین نے کہا کہ وہ سب مذاق تھا لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس پندرہ منٹ کی ریکارڈنگ میں انہوں نے شادی کا مطالبہ پندرہ مرتبہ دہرایا تھا۔ انہوں نےگفتگو کے دوران یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر دیوا کے شوہر کو دھمکا کر شہر سے باہر بھجوا سکتے ہیں۔ دیوا کے اہلخانہ نے یہ صوتی ٹیپ کابل میں سپریم کورٹ کے حوالے کی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے عدالتی نظام میں پائی جانے والی بدعنوانی کو نمایاں کرتا ہے۔ افغانستان کی بدعنوانی کے نگران ادارے کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔

’رقم نہیں دے سکتیں تو مجھ سے شادی کرنا ہوگی‘

اتوار, دسمبر 09, 2012

شہزادی کے لیے جعلی ٹیلی فون کال، نرس کی خود کشی

لندن — شہزادی کیتھرین کے حاملہ ہونے کی خبر جہاں ساری دنیا نے بہت خوشی سے سنی وہیں جمعہ کو لندن کے کنگ ایڈورڈ ہسپتال کی ایک نرس جاکینتا سیلڈانہ کی خود کشی کی خبر نے ساری دینا کو اداس کر کے رکھ دیا۔ شہزادی کیٹ ان دنوں حاملہ ہیں اور انھیں شدید کمزوری کے باعث گزشتہ پیر کی دوپہر اس ہسپتال میں لایا گیا تھا جہاں وہ چند دن زیر علاج رہنے کے بعد جمعرات کو ہسپتال سے رخصت ہو کرسینٹ جیمس پیلس منتقل ہوچکی ہیں۔ ہسپتال ذرائع نے اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ مرنے والی مسز سیلڈانہ ہی وہ نرس تھی جس نے سڈنی ریڈیو کے میزبانوں کی جھوٹی فون کال کو شہزادی کے کمرے میں منتقل کیا تھا۔ سیلڈانہ دو بچوں کی ماں تھی۔ جمعہ کی صبح ساڑھے نو بجے وسطی لندن کی رہائش گاہ سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے مطابق فی الحال اس کیس کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔

برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کی خبر کے مطابق جھوٹی فون کال منگل کے روز سڈنی آسٹریلیا کے مشہور ’ٹو ڈے ایف ایم ریڈیو‘ کے دو میزبانوں میل جریگ اور مائیکل کرسٹین نے اس ہسپتال میں کی اور انھوں نے برطانوی لب و لہجہ میں خود کو ملکہ برطانیہ اور شہزادہ چارلس ظاہر کرتے ہوئے شہزادی کیٹ کی خیریت دریافت کی۔ اس مذاق کا شکار بننے والی نرس جاکینتا سیلڈانہ نےاس کال کو ملکہ برطانیہ کی کال سمجھتے ہوئے شہزادی کی تیمارداری میں مصروف نرس کو ٹرانسفر کر دیا اس طرح دونوں میزبان شہزادی کی صحت سے متعلق تازہ ترین صورت جاننے میں کامیاب ہو گئے۔

سینٹ جیمز پیلس کے ترجمان کے مطابق شہزادی کیتھرین اور شہزادہ ولیم کو نرس کی موت سے گہرا دکھ پہنچا ہے اور وہ مصیبت کی اس گھڑی میں مسز سیلڈانہ کے خاندان اور ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ ہیں۔ ذرائع نے مزید کہا کہ شہزادی کیٹ اور شہزادہ ولیم کی جانب سے اس جھوٹی فون کال پر ہسپتال انتظامیہ سے شکایت درج نہیں کرائی گئی تھی۔ ادھر کنگ ایڈورڈ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 46 سالہ سیلڈانہ کو اس واقعہ کے بعد ملازمت سے بر طرف نہیں کیا گیا تھا اور انتظامیہ اس موقع پر اس کے ساتھ کھڑی تھی۔

سڈنی ریڈیو پر دونوں میزبانوں نے اپنے شو میں ہسپتال کوجھوٹی فون کال کرنے کا سارا واقعہ من و عن پیش کیا، دنیا بھر کے میڈیا کی طرف سے بھی اس خبر کو شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔ شو کے اختتام پر ریڈیو انتطامیہ نے اس مذاق پر شاہی خاندان سے معذرت بھی کی تھی۔ سیلڈانہ کی خود کشی کی خبر پر دنیا بھر کے لوگوں کی جانب سے سڈنی ریڈیو کو تنقید کا سامنا ہے جبکہ ریڈیو انتظامیہ نے دونوں میزبانوں کو فی الحال شو کرنے سے روک دیا ہے۔ 

ہفتہ, دسمبر 08, 2012

لِپ سٹک کے استعمال سے دماغ پر اثر پڑ سکتا ہے

لِپ سٹک لگانے والی خواتین ہوشیار ہو جائیں کیونکہ نئی تحقیق کے مطابق لِپ سٹک کے استعمال سے دماغ پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق زیادہ تر لِپ سٹک مصنوعات میں سيسا موجود ہوتا ہے جس کی ہلکی سی مقدار بھی دماغ اور سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ ایک امریکی میگزین کی طرف سے کرائے گئے سروے میں 22 لِپ سٹک برانڈز کو شامل کیا گیا۔ ان میں 55 فیصد لِپ سٹک میں زہریلے عناصر پائے گئے۔ امریکا میں کی گئی تحقیق میں 12 لِپ سٹک مصنوعات میں سيسا پایا گیا ان میں سيسا بہت زیادہ مقدار میں پایا گیا جو دماغ کے لیے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ ماہرین نے خواتین کو متنبہ کیا ہے کہ سيسے کی کم مقدار سے بھی صحت کے لیے سنگین خطرے پیدا ہو سکتے ہیں اور اس سے دماغی صحت پر اثرات پڑ سکتا ہے۔
 

پاکستان: آپریشن سے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹروں کا اصرار کیوں؟

پاکستان میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجوہات اکثر بچے کو جنم دینے والی ماؤں کو بھی پتہ نہیں ہوتیں۔ ستائیس سالہ نازیہ جو حال ہی میں ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں، کا تجربہ کافی تلخ ہے وہ بتاتی ہیں، ”میری یہ پہلی ڈیلیوری تھی۔ میں ہسپتال گئی تھی معمول کے چیک اپ یا معائنے کے لئے۔ میں وہاں گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپریشن کی ضرورت ہے اس لئے فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہو جائیں۔ مجھے انہوں نے وجہ کوئی نہیں بتائی۔ بس داخل کرنے کے بعد آپریشن کر دیا۔ مجھے کسی طرح کا درد نہیں تھا نہ ہی کوئی مسلئہ تھا لیکن انہوں نے آپریشن کیوں کیا یہ میں نہیں بتا سکتی‘‘۔ نازیہ نے مزید بتایا کہ آپریشن پر اٹھنے والے اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ انہیں مجبوراً آپریشن کے دوسرے دن ہی ہسپتال سے رخصت لینی پڑی کیونکہ مزید اخراجات اٹھانے کی سکت ان کا خاندان نہیں رکھتا۔

یہ صرف نازیہ کا ہی نہیں بلکہ کئی خواتین کا شکوہ ہے جو ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ان کی فیملی ڈاکٹرز معائنے کے بعد انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ بچے کی پیدائش قدرتی طریقے سے عمل میں آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ تاہم ان ہسپتالوں میں جہاں بچے کی پیدائش کے لئے اندراج کروایا جاتا ہے، وہاں کوئی نہ کوئی مسلئہ بتا کر آپریشن تجوہر کر دیا گیا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کا تناسب 15 فیصد سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اس کا کیا تناسب ہے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ سرکاری سطح پر ہسپتالوں سے ریکارڈ اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آپریشن سے بچوں کی ولادت کا تناسب پاکستان میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ”بعض اوقات کھبی کوئی مسلئہ ہوا مثلاً کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ آپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے ملتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار مل جاتے ہیں، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ethical practice نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کو ایسا لگتا ہے کہ ان کا آپریشن غیر ضروری طور پر کیا گیا تو اس شکایت کے اندارج کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، ”آپ PMDC پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں اپنی شکایت کا اندراج تو کروا سکتے ہیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان میں جو یہ معاملہ چل رہا ہے اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے‘‘۔ 

آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں کو غیر معمولی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے
ملتان کے ایک پرائیوٹ کلینک میں ماہر گائناکالوجسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر غزالہ اعوان کا کہنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے غیر ضروری آپریشن کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو ان خواتین کو چاہئے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین سے صلاح و مشورہ کیا کریں، ”سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو کیونکہ قدرتی یا آپریشن سے کی جانے والی ولادت کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے بہتر ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود کنسلٹنٹس سے مشورہ لیں‘‘۔

ڈاکٹر شیر شاہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین کو چاہئے کہ وہ ابتداء سے ہی کوشش کریں کہ ایسے ہسپتال سے رجوع کریں جس کے بارے میں وہ مطمئن ہوں۔

آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹر کیوں مُصر

جمعرات, نومبر 29, 2012

سعودی باشندے کی پرنسپل، ٹیچر اور طالبہ سے شادی

سعودی عرب کے جنوبی صوبہ جازان میں پچاس سال کے ایک سعودی باشندے نے شعبہ تعلیم سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار انوکھے انداز میں اس طرح کیا کہ اس شعبے سے وابستہ ایک ہی سکول کی پرنسپل سمیت ٹیچر اور ایک طالبہ سے شادی رچا لی جبکہ اس کی چوتھی بیوی ایک اور سکول میں کوآرڈینیٹر کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ 

سعودی اخبار عکاظ کے مطابق چاروں میں سے تین بیویاں جن میں پرنسپل، ٹیچر اور ایک طالبہ ہیں کا تعلق ایک ہی سیکنڈری سکول سے ہے۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پرنسپل بیوی اپنی دیگر ٹیچر اور طالبہ کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرتی ہے جو دیگر ٹیچرز اور طالبات کے ساتھ اپناتی ہے جبکہ ان چاروں بیویوں کے مابین مثالی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔
 

زبیدہ آپا-- ماہر ُکک، 4 ہزار ٹی وی شوز کی میزبان

کپڑوں پر تیل کے داغ لگ جائیں تو کیا کریں؟ فریج میں کسی قسم کی مہک بس جائے تو اس کا کیا حل ہے؟ اور بچوں کے پیٹ یا ’کان میں درد ہو تو کیا ٹوٹکا آزمایا جائے؟‘ یہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جو پاکستان کی کم و بیش ہر خاتون خانہ کو درپیش ہوتے ہیں۔ پہلے کی خواتین اِن مسائل کے حل کے لئے پریشان ہوتی ہوں تو ہوں، آج ان مسئلوں سے نمٹنے کے لئے ’زبیدہ آپا‘ کے ٹوٹکے آزماتی ہیں۔

زبیدہ طارق، عرف زبیدہ آپا، وہ شخصیت ہیں جن کو پاکستان کا ہر گھرانہ جانتا ہےاور اِس شہرت کی وجہ اُن کے وہ ٹوٹکے ہیں جو زبیدہ آپا ٹی وی کے اکثر’پکوان شوز‘ یا ’مارننگ شوز‘ میں سب کو بتاتی ہیں۔ مسز زبیدہ طارق نے لگ بھگ 18 سال پہلے کوکنگ ایڈوائرز کی حیثیت سے شوبز میں قدم رکھا اور اپنے کوکنگ شوز کے ذریعے اِس قدر ہردلعزیز ہوئیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک فیملی ممبر کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ چونکہ، وہ بہت اچھی کک بھی ہیں لہذا اُن کی بتائی ہوئی کھانوں کی ترکیبیں کس گھر میں استعمال نہیں ہورہیں۔

زبیدہ طارق جس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں، پاکستان کی مایہ ناز مصنفہ فاطمہ ثریا بجیا، منفرد لہجے کی شاعرہ زہرہ نگاہ اور ہر خاص و عام میں مقبول قلم کار، شاعر، مزاح نگار، مصور اور اداکار انور مقصود بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جی ہاں، زبیدہ طارق انہی نامور شخصیات کی سگی بہن ہیں۔ دس بہن بھائیوں میں زبیدہ آپا کا نواں نمبر ہے۔

زبیدہ طارق کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے عمر کے پچاس سال گھر کی چار دیواری میں رہ کر گزارے اور اس کے بعد جو ایک مرتبہ ٹی وی پر آئیں تو پھر چھاتی چلیں گئیں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر مختلف انٹرویوز کے دوران انہوں نے جو ذاتی معلومات لوگوں سے شیئر کی ہیں ان کے مطابق، ’میرے میاں ایک معروف ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھے، آئے دن گھر میں سو، ڈیڑھ سو افراد کی دعوتیں ہوتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’مجھے کھانا پکانے کا شوق تھا۔ لہذا، اچھے کھانے پکایا کرتی تھی۔ ان بڑی بڑی دعوتوں کا انتظام ہمیشہ میں نے خود سنبھالا، کبھی کسی کیٹرنگ سروس سے مدد نہیں لی۔ اس کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنی والدہ اور نانی سے بہت کچھ سیکھا تھا، پھر تجربات کا شوق بھی تھا۔ لہذا، میرے بنائے ہوئے کھانے سب کو پسند آتے تھے‘۔ وہ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے مزید کہتی ہیں، ’کھانا پکانے کا ہنر میرے کام آیا اور جس دن میرے شوہر ریٹائر ہوئے، اس سے اگلے دن میں نے اسی کمپنی میں ایڈوائزری سروس کی انچارج کی حیثیت سے کام سنبھال لیا۔ وہاں میں نے 8 سال تک کام کیا، ’تقریناً سارے ہی نجی ٹی وی چینلز سے ککری شوز، ٹاک شوز اور مارننگ شوز کئے، ان کی تعداد تقریباً 4000 بنتی ہے‘۔

اتوار, نومبر 25, 2012

امام حسینؓ کی شہادت پر انسانیت فخر کرتی رہے گی، زارا شیخ

زارا شیخ کی فائل فوٹو
اداکارہ زارا شیخ نے کہا ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے اسلام کی صحیح معنوں میں بقا کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔

واقعہ کربلا اور شہادت حسینؓ موجودہ دور کی تمام تر سچائیوں، خوبصورتیوں اور عظمتوں کی بنیاد ہے اور انسانیت ہمیشہ شہادت امام عالی مقام پر فخر کرتی رہے گی۔ آج پوری دنیا میں جمہوریت، حریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں ایسی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی جس میں سچائی، حق کی خاطر کسی نے وہ قربانی دی ہو جو سیدنا امام عالی مقام اور ان کے عظیم خاندان نے دی ۔

سیدنا امام عالی مقام انسانی تاریخ کی وہ عالی مرتبت شخصیت تھے جن کی تربیت خود حضور اکرمﷺ اور حضرت علیؓ نے کی۔ زارا شیخ نے کہا کہ موجودہ دور میں آج ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کمزور اور بے بس ہیں کیونکہ ہم نے اپنے کردار اور زندگی سے امام حسینؓ کو الگ کر رکھا ہے۔

پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کیلئے بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ

جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ
رواں برس جرمنی میں ’خاموش ہیرو‘ کا بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ ’بامبی‘ پاکستان میں گزشتہ پچاس برسوں سے جذام کے مرض کے خلاف برسر پیکار خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر جذام کی مشہور ڈاکٹر روتھ فاؤ کو یہ میڈیا پرائز جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف ميں منعقدہ ايک تقريب ميں دیا گیا، جہاں دنیا بھر سے ٹیلی وژن اور فلم کی ایک ہزار سے زائد شخصیات جمع تھیں۔ جرمنی کے بین الاقوامی ٹیلی وژن اور میڈیا ایوارڈز یعنی بامبی انعامات جرمنی میں ایمی ایوارڈز کے برابر ہیں۔ یہ ایوارڈز فلم، ٹیلی وژن، موسیقی، کھیل اور اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو دیے جاتے ہیں۔ رواں برس 19 کیٹیگریز میں یہ انعامات دیے گئے ہيں۔ امسالہ ’خاموش ہیرو‘ کا ایوارڈ 83 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’بامبی ایوارڈ‘ حاصل کرنے والوں میں خلاء سے چھلانگ لگانے والے فیلیکس باؤم گارٹنر اور ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک شامل ہیں۔

روتھ فاؤ کی 50 سالہ کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس مرض پر ابھی تک پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گی۔ جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں ڈاکٹر بننے کے دوران سن 1957ء میں انہوں نے Daughters of the Heart of Mary نامی کلیسائی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہ مسیحی تنظیم فرانسیسی انقلاب کے دوران قائم کی گئی تھی۔ ڈاکٹر فاؤ کا پاکستان جانا اور وہاں فلاحی کام کرنا محض ایک اتفاق تھا۔

سن 1960ء میں انہیں بھارت میں کام کرنے کے لیے جانا تھا لیکن ویزے کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی حالت قابل رحم تھی۔ وہاں کے باتھ روم گندگی سے بھرے پڑے تھے اور مریضوں کے جسموں پر جوئیں رینگ رہی تھیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ چوہے ان کے جسموں کو کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں اور جانوروں کی طرح رینگتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی قسمت سے مطمئن تھے لیکن یہ ان کی قسمت نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت بہتر اور خوش زندگی گزار سکتے تھے۔‘‘

اس کے بعد سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے ايک دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے سن 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔ 

سن 1929ء میں جرمن شہر لائپزگ میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ اس وقت 17 برس کی تھیں، جب انہوں نے مشرقی جرمنی سے سرحد پار کر کے مغربی جرمنی آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کے مغربی جرمنی میں داخلے کے لیے وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتی رہی تھیں۔ خوشحال زندگی گزارنے کے لیے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے والی روتھ فاؤ آج پاکستانی صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 

پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے روتھ فاؤ کہتی ہیں، ’’مجھے پاکستان میں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لیے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں زیادہ تر لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے میرے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘

جرمن میڈیا پرائز پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کے نام

سعودی خواتین کی ’جاسوسی‘ پر ہنگامہ

سعودی عرب میں ملک سے باہر مقیم سعودی خواتین کی نقل و حرکت کے بارے میں ان کے گھر کے مردوں کو ایس ایم ایس کے ذریعہ از خود اطلاع ملنے کے معاملے پر ٹوئٹر پر زبردست بحث جاری ہے۔ بیرون ملک سفر کرنے والی سعودی خواتین کی نقل و حمل کے بارے میں اطلاع ان کے گھر کے مردوں کو ایک ایس ایم ایس کی شکل میں ملے گی۔ اس بات کے سامنے آنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سعودی حکومت کڑی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اس سروس کی طرف لوگوں کی توجہ اس وقت گئی جب اپنی بیوی کے ساتھ سفر پر جانے والے ایک شخص کو ریاض سے روانہ ہوتے ہی فون پر پیغام موصول ہوا کہ ان کی اہلیہ ریاض کے ہوائی اڈے سے روانہ ہو گئی ہیں۔ اس سے پہلے ایس ایم ایس کی یہ سہولت سعودی عرب کے ان مرد شہریوں کو دی جاتی تھی جو اس کا مطالبہ کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کو ان کی بیویوں یا خاندان کی دیگر خواتین کے ملک سے باہر جانے پر پیغامات ملتے تھے۔ لیکن فی الحال یہ پیغام ان لوگوں کو بھی موصول ہو رہے ہیں جنہوں نے اس کی درخواست نہیں دی ہے۔ ٹوئٹر کے پر بعض صارفین نے سعودی حکومت کے اس اقدام کا مذاق اڑایا ہے اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ برس الیکٹرونک پاسپورٹ کی سہولت کا اجراء کیا تھا اور یہ ایس ایم ایس الرٹ اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ای پاسپورٹ شہریوں کو سفر سے متعلق تیاری کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے انہیں بار بار پاسپورٹ کے دفتر نہیں جانا پڑتا ہے۔

سعودی خواتین کی ’جاسوسی‘ پر ہنگامہ

پیر, نومبر 19, 2012

اداکاری کرنا چاہتی ہوں، ساتھی فنکار مخالف بن گئے، روحی بانو

لاہور: معروف اداکارہ روحی بانو کو پی ٹی وی سمیت پرائیویٹ چینلز اور ماضی میں ساتھ کام کرنے والے فنکاروں کے رویوں نے دلبرداشتہ کر دیا ہے۔

ایک طرف پی ٹی وی سمیت پرائیویٹ چینلز کی عدم توجہی ہے تو دوسری طرف ماضی میں بہت سے لازوال ڈراموں میں ان کے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں کی بے حسی پر ان کی آنکھیں نم رہنے لگی ہیں۔ گزشتہ روز ایک ملاقات کے دوران ’’ایکسپریس‘‘ کوخصوصی انٹرویو دیتے ہوئے روحی بانو کا کہنا تھا کہ میں اداکاری کرنا چاہتی ہوں مگر پی ٹی وی والے اور پرائیویٹ چینلز کے لوگ جان بوجھ کر مجھے کام کے لیے نہیں بلاتے۔

اس کے علاوہ اداکار عابد علی اور فردوس جمال جیسے ’’بڑے‘‘ فنکار بھی میری مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں، میں کس طرح کام کرسکتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر اپنے گھر میں رہتی ہوں اور فٹنس کے لیے صبح و شام واک کے لیے جاتی ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ سڑک پر چلتے چلتے اگر کوئی پرانا ساتھی فنکار مل جائے تو خیریت دریافت کر لیتا ہے مگر کوئی خاص طور پر ملاقات کے لیے کبھی نہیں آتا۔ جبکہ میرے پرستار ملتے ہیں تو ان کا رسپانس دیکھ کر میرا دل چاہتا ہے کہ پھر سے اداکاری کروں اور اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور طریقہ سے اظہار کروں مگر میں بے بس اور مجبور ہوں۔

پی ٹی وی اور پرائیویٹ چینلز کے پالیسی میکر نا جانے مجھ سے کیوں خفاء ہیں۔ ان لوگوں کا یہی رویہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کل تک جو لوگ مجھے سائن کرنے کے لیے آگے پیچھے ہوتے تھے آج وہ نگاہیں چرا کر دوسرے راستے پر چلنے لگتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر مجھے آج بھی اچھا کام ملے تو میں ضرور کرونگی اور ناظرین میرے کام کو دیکھ کر ماضی کی طرح پسند کرینگے۔

امی ملکہ سے تعارف

اِنا کووالینکو کو ”امی ملکہ“ کا خطاب دیا گیا
دنیا کی ایک حسین ماں سائبریا کے شہر Irkutsk میں رہتی ہے۔ اس بارے میں پتہ ماہ اکتوبر کے آخر میں چل گیا جب مالٹا میں بین الاقوامی بیوٹی کانٹیسٹ QUEEN OF THE PLANET 2012 منعقد کیا گیا۔ اس مقابلے میں یورپ اور ایشیا کے انیس ممالک سے تعلق رکھنے والی پچاس شادی شدہ خواتین نے حصہ لیا۔ جیوری ایک ہفتے تک ان کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی اور ان کی خوبیوں کا جائزہ لیتی رہی۔ آخرکار لتھاوانیہ کی اٹھائیس سالہ حسینہ Aliona Vasilayte کو ”کرہ ارض کی ملکہ“ قرار دیا گیا اور سائبریا کی رہنے والی Inna Kovalenko کو ”امی ملکہ“ کا خطاب دیا گیا۔

اِنا کووالینکو کی عمر 43 سال ہے لیکن وہ کہیں زیادہ جوان لگتی ہیں۔ اس میں ورزش اور موسیقی سے ان کے لگاؤ کا بڑا کردار ہے۔ مزید برآں اِنا کو ہسپانوی لوک رقص فلامینکو کا بھی بہت شوق ہے حتٰی کہ وہ یہ رقص پیش کرنے کے لیے درکار خصوصی جوتے خریدنے کے لیے سپین کے دارالحکومت میڈرڈ گئیں۔ جہاں تک فلامینکو کے لیے پیراہن کا سوال ہے تو اِنا کے پاس ایسے دسیوں پیراہن ہیں۔ اِنا نے بتایا کہ ”میں نے مالٹا میں ہوئے مقابلے میں بھی فلامینکو رقص پیش کیا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ رقص دیکھ کر ہی جیوری کے اراکین نے مجھے اعزازی خطاب دینے کا فیصلہ کیا ہوگا“۔ اِنا کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے تاج پہننے کا شوق ہے لیکن انہیں توقع نہیں تھی کہ کبھی انہیں ایک اصل تاج پہنایا جائے گا۔ اِنا کو حسن برقرار رکھنے کے علاوہ نسوانی صحت کا تحفظ کرنا بھی آتا ہے کیونکہ وہ نسوانی مرضیات کی ڈاکٹر ہیں۔ اِنا نے فخر کے ساتھ کہا کہ ”میرا پیشہ دنیا میں اہم ترین پیشہ ہے کیونکہ میں ماں بننے میں عورتوں کو مدد دیتی ہیں۔ میں بہت چاہتی ہوں کہ تمام عورتوں کو ممتا میں خوشی نصیب ہو، کہ وہ حسین ہوں اور ان کی قدر کی جائے“۔

اِنا کی دو بیٹیاں بین الاقوامی مقابلے میں اپنی ماں کی کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ بڑی بیٹی اس وقت سینٹ پیٹرزبرگ کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور چھوٹی بیٹی سکول کی طالبہ ہے۔ درحقیقت اِنا بذات خود بھی پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہت جلد وہ علم طب میں پی ایچ ڈی کے مقالے کی تیاری مکمل کرنے والی ہیں۔

امی ملکہ سے تعارف

اتوار, نومبر 18, 2012

بوڑھے سے شادی سے انکار، والد کا لڑکی پر تشدد

بوڑھے شخص سے زبردستی سے شادی انکار پر لڑکی کو قتل کرنے کی کوشش، لڑکی تھانے پہنچ گئی۔۔۔ تشدد کی وجھ سے نوجوان لڑکی کی حآلت خراب ہو گئی تشویشناک حالت میں ہسپتال منقتل داخل کرا دیا گیا۔

ڈھرکی کے نواحی گاؤں صوبیدار مجید اعوان کی رہائشی روبینھ اعوان کی شادی اس کے والد لالچ میں آکر ایک بوڑھے شخص سے کر رہے تھے۔۔۔ کہ لڑکی کے انکار پر اس گھر میں قید کر کے سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔ لڑکی جان بچا کر ڈھرکی تھانھ پہنچ گئی۔۔۔ جہاں پولیس نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔۔۔ تشدد کے باعث روبینھ اعوان بے ھوش ہو گئی جسے تشویش ناک حآلت میں نجی ہسپتال منقتل کیا گیا۔۔۔۔ ہسپتال میں پولیس تعینات ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں روانہ کردی گئی ہیں۔۔۔ ایس ایچ او ڈھرکی کےمطابق لڑکی کو پیر کے روز عدالت میں پیش کیا جائے گا۔