ٹیکنالوجی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ٹیکنالوجی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, دسمبر 09, 2012

چاول کی ریکارڈ فصل والا بیج بنا لیا، پاکستانی سائنسدان

پاکستان کے ایک سائنسدان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ چاول کی زیادہ سے زیادہ پیداوار دینے والے ایک نئے بیج کی تیاری میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں شعبہ جینیات کے پروفیسر ڈاکٹر فدا ایم حسین کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سپر این پی ٹی کی مدد سے انہوں نے ایسا بیج تیار کیا ہے جس سے چاول کی زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے فی ایکڑ 15 ٹن تک پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ عام طور پر تیار کی جانے والے فصل سے فی ایکڑ پانچ ٹن چاول حاصل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فدا ایم حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ گزشتہ 12 برس سے ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے جس کے ذریعے چاول کے پودے کے تنے کی موٹائی اور لمبائی میں اضافے کے ساتھ اس کے پتوں کا حجم بھی بڑھایا جا سکے تاکہ زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کی جا سکے۔

انہوں نے کہا: ’’میں ایسی فصل تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں جس کا قد چھ فٹ ہے۔ اس کے تنے کی موٹائی 1.2 سینٹی میٹر ہے جبکہ عام طور پر دستیاب قسم کے تنے کی موٹائی 0.4 سینٹی میٹر ہے۔ اس کا خوشہ ایک سے ڈیڑھ فٹ لمبا ہے جس سے چاول کے چھ سو سے آٹھ سو دانے حاصل ہوئے۔ پیداوار کے تناسب سے یہ دنیا میں چاول کی سب سے زیادہ پیداوار دینے والی فصل ہے۔“

ڈاکٹر فدا کے مطابق انہوں نے فصل کی تیاری میں بائیو ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے فصل میں جینیاتی تبدیلی نہیں کی بلکہ اسے روایتی طریقے سے حاصل کیا ہے: انہوں نے کہا: ’’اس کے لئے ہم نے نئی اور پرانی ورائٹی جو ساٹھ برس قبل استعمال ہوتی تھی، انہیں لیتے ہوئے کئی تجربات کیے، ان کی کئی فصلیں تیار کیں اور ان کے کئی جین پولز کو اکٹھا کیا جس کے بعد ہم اس نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ پیداوار دینے والی فصل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے ذریعے صرف باسمتی چاول ہی نہیں بلکہ تمام صوبوں سے حاصل ہونے والی ورائٹی کے چاولوں کی زیادہ فصل حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر فدا کا کہنا ہے کہ انہیں حکومتی سطح پر کسی قسم کی مدد نہیں دی گئی اور نہ ہی اس تجربے کی کامیابی کے بعد دی جا رہی ہے: ’’میں نے پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے علاوہ پاکستان کوآڈینیٹر رائس کو بھی لکھا جس کے بعد ان اداروں کے ممبران نے آکر میری اس فصل کو دیکھا اور پرکھا۔ اس قت کئی غیر ملکی ایجنسیاں اور پاکستانی نجی ادارے میری اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں ۔ تاہم میں چاہتا ہوں کہ حکومت اس منصوبے سے فائدہ اٹھائے اور اس کے ہائبرڈ کی تیاری میں میری معاونت کرے تو پاکستان دنیا میں چاول کی طلب کو بڑی حد تک پورا کر سکتا ہے۔“

چین ، بھارت اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان چاول پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستانی معیشت کو سہارا دینے والے اجناس میں چاول دوسری سب سے اہم خوراک ہے پاکستان میں سالانہ اوسطاً چھ ملین ٹن چاول پیدا ہوتا ہے۔

چاول کی ریکارڈ فصل دینے والا بیج بنا لیا، پاکستانی سائنسدان کا دعویٰ

جمعرات, نومبر 29, 2012

نیکسس 7 اینڈرائیڈ صارفین کی اولین پسند

گوگل کی جانب سے چند ماہ قبل متعارف کرائے جانے والی پہلی نیکسس ٹیبلیٹ نے جہاں اپنے فیچرز کے حوالے سے دنیا بھر میں دھوم مچا دی وہیں اس کی قیمت نے اسے اینڈرائیڈ کے مداحوں کی پہلی ترجیح بھی بنا دیا۔

نیکسس 7 جو تائیوان کی کمپنی ایسوس نے تیار کیا ہے اسے پہلے 8GB اور 16GB کے ماڈلز میں پیش کیا گیا جن کی قیمت 199$ اور 249$ مقرر کی گئی تھی۔ لیکن حال ہی میں کمپنی نے 32GB ماڈل اور HSPA+ (موبائل سم کے ساتھ) نئے ماڈل پیش کیے جس کے بعد ان کی قیمتیں کچھ یوں ہیں
8GB ماڈل (اب دستیاب نہیں ، خیال کیا جارہا ہے کہ جلد اسے 99$ میں دوبارہ پیش کیا جائے گا)
16GB ماڈل قیمت 199$
32GB ماڈل قیمت 249$
32 GB ماڈل سم کی سہولت کے ساتھ قیمت 299$

گوگل کی جانب سے یہ ٹیبلیٹ پاکستان میں فروخت کے لیے پیش تونہیں کی گئی لہذا دکاندار اس ٹیبلیٹ کے لیے اپنی مرضی کے دام وصول کررہے ہیں۔ 8GB ورژن کم و بیش 26 ہزار روپے اور 16GB ورژن 30 ہزار روپے میں دستیاب ہے۔

ایسوس کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اکتوبر کے مہینے میں کمپنی نے 10 لاکھ سے زائد ٹیبلیٹ تیار کیں جو موجودہ کھپت پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں، بہت سے دکاندار اور آن لائن سٹور تمام نیکسس 7 ٹیبلیٹس بیچ چکے ہیں اور مزید ٹیبلیٹس آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں نیکسس 7 کی فروخت میں مزید اضافہ ہوگا، ڈجی ٹائمز کے مطابق 2012 میں کم و بیش 50 لاکھ نیکسس 7 ٹیبلیٹس فروخت ہونگی۔

کیا آپ بھی نیکسس 7 خریدنے کا ارادہ رکھتےہیں؟


نیکسس 7 اینڈرائیڈ صارفین کی اولین پسند

جمعہ, نومبر 23, 2012

چین: 90 دنوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت کی تعمیر کا منصوبہ

اس عمارت کا نقشہ تیار کرنے والے وہی انجینیئرز ہیں جنہوں نے دبئی میں ’برج الخلیفہ‘ پر بھی کام کیا تھا۔ برج الخلیفہ 828 میٹر کے ساتھ اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ چین کی ایک تعمیراتی کمپنی نے کہا ہے کہ اس کے پاس ایک ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کی مدد سے وہ دنیا کی سب سے بلند عمارت برسوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ صرف چند ہفتوں میں تعمیر کرسکتی ہے۔ بورڈ آف سسٹین ابیل بلڈنگ کارپوریشن نے اس ہفتے تعمیرات سے متعلق ایک جریدے ’کانسٹرکشن ویک‘ کو بتایا کہ اسے سوفی صد یقین ہے کہ وہ 220 منزلہ ایک عمارت، جس کا شمار دنیا کی سب سے بلند عمارت کے طور پر کیا جائے گا، صرف 90 دنوں میں کھڑی کرسکتی ہے۔ کمپنی چین کے جنوب وسطی شہر چانگشا میں 838 میٹربلند ایک دیو ہیکل عمارت تعمیر کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جس میں 31 ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش موجود ہوگی۔

دنیا کی اس سب سے بلند عمارت کو بنانے کے لیے پہلے سے تیار شدہ حصوں کو جوڑنے کی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن میں پانچ منزلیں تعمیر کرے گی۔ سسٹین ایبل بلڈنگ کارپوریشن نے کہا ہے کہ وہ حکومت سے منظوری ملنے کے بعد اس سال کے آخر میں عمارت کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو 90 دن کے اندر اپنی تکمیل کے بعد دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہونے کا اعزاز حاصل کرلے گی۔ کمپنی کے بیان کے مطابق 31 ہزار افراد کی گنجائش رکھنے والی اس عمارت میں ان کے لیے ہسپتال، سکول، شاپنگ سینٹر، دفاتر اور شہری زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہوں گی ۔

مستقبل کی اس سب سے بلند عمارت کا نقشہ برج خلیفہ تعمیر کرنے والے ماہرین نے بنایا ہے۔ دبئی میں واقعہ برج خلیفہ کا شمار اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ عمارت 828 میٹر بلند ہے جب کہ چانگشا میں بنائی جانے والی عمارت کی بلندی اس سے دس میٹر زیادہ ہوگی۔ اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوگا کہ اس کی تکمیل 90 دن کی ریکارڈ کم مدت میں ہوگی۔

چین: 90 دنوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ

پیر, نومبر 19, 2012

پاکستان میں بمبار ڈرون کی تیاری

جمعہ پندرہ نومبر کو لی گئی تصویر میں اسلحے کی بین الاقوامی نمائش (آئیڈیاز) میں
پائلٹ کے بغیر اڑنے والے پاکستانی جاسوس طیارے۔ اے پی تصویر
کراچی: پاکستان خفیہ انداز میں مقامی سطح پر ایسے خودکار ڈرونز بنانے کی کوشش کررہا ہے جو بمباری بھی کرسکیں۔ اس صنعت سے وابستہ ماہرین کے مطابق، پاکستان نے ابتدائی طور پر چند تجربات کئے ہیں لیکن ان میں نشانے میں درستگی کی کمی کے ساتھ ساتھ ہدف کو تباہ کرنے کی ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے۔

اسلام آباد کے دیرینہ اور قریب ترین دوست ملک چین نے پاکستان کو ہتھیاروں والے ڈرونز فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن ماہرین اب بھی چینی طیاروں کی صلاحیت کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہیں۔ پاکستان امریکہ سے بھی خودکار بمبار ڈرون کی فراہمی کا مطالبہ کرتا رہا تاکہ انہیں عسکریت پسندوں پر بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکے۔ واشنگٹن نے معاملے کی حساسیت اور دشمنوں کے خلاف ان کے استعمال پر شبہات کی بنیاد پر یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ امریکہ پاکستان کو غیر جاسوسی اور نگرانی کیلئے بغیر اسلحے والے ڈرون کی پیشکش کرچکا ہے لیکن پاکستان پہلے ہی ایسے کئی ڈرونز استعمال کررہا ہے۔

گزشتہ ہفتے کراچی میں اسلحے اور دفاعی ٹیکنالوجی کی ایک بین الاقوامی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے امریکی ضد کے جواب میں چین سے مدد لینے کا اشاریہ دیا تھا۔ ’ٹیکنالوجی کے ضمن میں غیر اعلانیہ رکاوٹ ختم کرنے کے لئے پاکستان چین سے بھی استفادہ کرسکتا ہے‘، راجہ پرویز اشرف نے کہا تھا۔

پاکستان خود اپنے بل پر بھی بغیر پائلٹ کے لڑاکا طیارے بنانے کی کوششیں کررہا ہے۔ ایک پاکستانی عسکری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر بتایا کہ اس مقامی ڈرون صنعت میں سویلین افراد بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

ایک سویلین جسے اس خفیہ منصوبے کا علم ہے نے بتایا کہ اب سے سات یا آٹھ ماہ قبل پاکستان نے اپنے ملک میں استعمال ہونے والے اٹلی کے ڈرون، فالکو میں راکٹ لے جانے کے لئے چند تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے بتایا کہ عسکری حکام ملک میں تیار شدہ تازہ ترین ڈرون، شہپر کے ساتھ بھی اسی قسم کے تجربات میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ شہپر کا غیر بمبار لڑاکا ورژن پہلی مرتبہ کراچی میں آئیڈیاز نمائش میں رکھا گیا تھا۔ اسی سویلین ماہر نے بتایا کہ چند طیاروں پر ہی اسلحے کی آزمائش کی گئی ہے اور لڑائی میں کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے۔

درستگی میں کمی
پاکستان کے پاس ہیل فائر جیسے لیزر گائیڈڈ میزائل بھی نہیں ہیں جو امریکی پریڈیٹر اور ریپر جیسے جدید ترین ڈرونز میں ایڈوانس ٹارگٹ سسٹم کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستانی افواج گائیڈ کے بغیر راکٹ استعمال کررہی ہے جن کا نشانہ بہت اچھا نہیں۔ پاکستانی میزائلوں میں غلطی کی گنجائش تیس میٹر تک ہے اور اگر ہوا ذیادہ تیز چل رہی ہو تو یہ ٹارگٹ سے تین سو میٹر دور بھی گرسکتے ہیں۔ سویلین ماہر نے بتایا۔ اور اگرپاکستان کو جدید ہیل فائر میزائل اور گائیڈنس سسٹم مل بھی جائے تب بھی ان کا وزن پاکستان میں تیار ہونے والے چھوٹے ڈرون کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ پاکستان میں تیارشدہ سب سے بڑے ڈرون، شہپر کے بازووں کا گھیر سات میٹر ہے جو پچاس کلوگرام وزن لے جاسکتا ہے۔ جبکہ امریکی ڈرون پریڈیٹر جو ایک وقت میں دو ہیل فائر میزائل لے جاسکتا ہے اس کے پروں کا گھیر اس سے دوگنا ہے اور وہ اس سے چار گنا ذیادہ وزن کے ہتھیار لے جاسکتا ہے۔ پھر شہپر ریڈیو نشریات پر کام کرتا ہے جبکہ پریڈیٹر عسکری سیٹلائٹ سے مدد لیتے ہیں۔ شہپر صرف ڈھائی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتا ہے جبکہ پریڈیٹر ڈرون اس سے پانچ گنا ذیادہ فاصلے تک جا سکتا ہے۔

چین کے ڈرونز
چینی حکومت نے پاکستان کو سی ایچ تھری نامی لڑاکا ڈرون کی پیشکش کی ہے جو ایک وقت میں دو لیزر گائیڈڈ میزائل یا بم کو اپنے ہدف تک لے جاسکتا ہے۔ چین نے پاکستان کو اپنے قدرے جدید سی ایچ فور ڈرون کی بھی پیشکش کی ہے جو امریکی ڈرون ریپر سے ملتا جلتا ہے اور ایک وقت میں چار میزائل یا بم لے جاسکتا ہے۔ یہ بات لائی زیاولی نے بتائی جو سی ایچ تھری اور فور بنانے والی سرکاری کپمنی ایئروسپیس لانگ مارچ انٹرنیشنل کے نمائندے ہیں۔ پاکستان کو چینی ڈرون کی خریداری سے قبل ان کی صلاحیتوں کے بارے میں جانچ کرنے کی ضرورت ہے لیکن شاید مستقبل میں یہ ممکن ہوسکے۔

دنیا میں برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل جیسے چند ممالک ہی ہیں جن کے بمبار ڈرون جنگوں میں کامبیابی سے آزمائے گئے ہیں۔

اتوار, نومبر 11, 2012

پاکستان فائٹر جیٹ برآمد کرسکتا ہے، ایئرمارشل سہیل گل

پاکستان ایرو ناٹیکل کپلیکس جے ایف تھنڈر فائٹر جیٹ پاک فضائیہ کی ضرورت پوری کرنے بعد فائٹر جیٹ بر آمد کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ جے ایف 17 تھنڈر فائٹر جہاز کے ائیر فریم کا ساٹھ فیصد حصہ آئندہ سال سے پاکستان میں ہی تیار کیا جائے گا جبکہ ستر سے اسی فیصد بھی آئندہ دو سے تین سال میں مقامی طور پر تیار کیا جائے گا۔

پی اے سی کامرہ کے چئیرمین ائیر مارشل سہیل گل نے بتایا کہ پاکستان ائیر فورس کو اب تک 47 جے ایف 17 تھنڈر فراہم کئے چکے ہیں۔ تین جہاز رواں سال کے اختتام پاکستان ائیر فورس کے حوالے کردیئے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہماری صلاحیت سالانہ سولہ جہاز بنانے کی ہے جس کو پچیس سے چھبیس جہاز تک لے جایا جاسکتا ہے۔ ائیر مارشل سہیل گل نے کہا کہ پاکستان ائیرو ناٹیکل کمپلکس میں جہاز کے کو بھی ہم خود کر رہے ہیں دنیا میں صرف سات ملک ہتھیاروں کو کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آئیڈیاز میں شریک متعدد ممالک جے ایف تھنڈر فائٹرکی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاک فضائیہ کی ضرورت پوری کرنے کے بعد ان جہازوں کی مارکیٹنگ کی جائے گی اور بہت جلد جے ایف تھنڈر مڈل ایسٹ اور فار ایسٹ میں اڑتے دکھائی دیں گے۔ ائیر مارشل سہیل گل نے بتایا کہ پی اے سی کامرہ میں جے سی ٹی ٹرینر، جنگی اور کمرشل جہازوں کی اوور ہالنگ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بوئنگ کمپنی سے معاہدے کے تحت بوئنگ 777 کے پارٹس بھی بناتے ہیں۔

پاکستان فائٹر جیٹ برآمد کرسکتا ہے، ایئرمارشل سہیل گل

منگل, اکتوبر 23, 2012

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

مہم جُو نوجوانوں کے ایک گروپ نے سائیکل پر سفر کرتے ہوئے جرمنی سے بھارت جانے کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران اہم بات یہ تھی کہ یہ گروپ جہاں بھی گیا، اسے بغیر کسی مشکل کے انٹرنیٹ کی سہولت حاصل رہی۔

برلن سے نئی دہلی تک کا سفر اور وہ بھی سائیکل پر۔ تھوماس جیکل اپنے دیگر تین ساتھوں کے ساتھ برلن سے نئی دہلی تک کا 8 ہزار سات سو کلومیٹر طویل سفر کرنے کے لیے نکلے۔ دیگر اشیاء کے علاوہ زاد راہ کے طور پر ان کے پاس لیپ ٹاپ یو ایس بی سٹکس اور سمارٹ فونز تھے۔ ان تینوں نے اس دوران راتیں خیموں میں بسر کیں اور دن میں سفر کے دوران وقفہ کرنے کے لیے کسی ایسے کیفے یا ہوٹل کا انتخاب کیا، جہاں انٹرنیٹ کی سہولت یعنی ہاٹ سپاٹ موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں یہ سہولت ایسے علاقوں میں بھی میسر آئی، جن کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ باہر کی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ رات کو یہ لوگ سفر کی داستان اور ای میلز لکھتے تھے اور دن میں اسے اپ لوڈ کرتے رہے۔ 26 سالہ تھوماس کہتے ہیں، ’میں بھوک اور پیاس تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن انٹرنیٹ مجھے ہر حال میں چاہیے‘۔

ان کا یہ سفر چھ ماہ پر محیط تھا۔ مہم جو نوجوانوں کا یہ گروپ چیک ریپبلک، آسٹریا، سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، ترکی، ایران اور پھر پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت پہنچا۔ اس دوران انہوں نے آسانی یا مشکل سے کسی نہ کسی طرح انٹرنیٹ سہولت کو تلاش کر ہی لیا۔ جیکل بتاتے ہیں، ’ایران میں، میں نے موبائل کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ بغیر عنوان والی ایک ای میل کو بھیجنے کے لیے تقریباً ایک گھنٹہ لگا‘۔ 27 سالہ ایرک فیئرمان بتاتے ہیں، ’راستے میں جہاں بھی انٹرنیٹ کنکشن موجود تھا، ہم نے وہاں وقفہ کیا۔ لیپ ٹاپ چارج کیے اور انٹرنیٹ کا پاس ورڈ پتا چلانے میں بھی کوئی خاص مشکل پیش نہ آئی‘۔ ان نوجوانوں کے مطابق انٹرنیٹ سے رابطہ ہونے کی صورت میں انہوں نے صرف اہم چیزوں پر ہی توجہ دی اور سکائپ اور فیس بک پر اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس ٹیم نے اپنے سفر کے دوران یہ ثابت کیا کہ انسان اگر چاہے تو وہ سنسان اور ویران مقامات سے بھی رابطے میں رہ سکتا ہے۔

اس سفر کا ایک مقصد بھارت میں بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے ان کے ’’ٹائلٹ پروجیکٹ‘‘ کے لیے چندہ جمع کرنا بھی تھا۔ اس دوران ان کے پاس ساڑھے گیارہ ہزار یورو اکھٹے ہوئے۔ اس رقم سے یہ نوجوان ممبئی کے قریب 25 حاجت خانے بنوائیں گے۔ ممبئی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اس ٹیم کے چار ارکان نے سائیکل پر بھارت کا سفر طے کیا جبکہ ان کے بقیہ ساتھی اپنے اس منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے بھارت پہنچے۔

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

پیر, اکتوبر 22, 2012

1960ء میں بنایا گیا پرانا کمپیوٹر دوبارہ فعال

برطانیہ میں دو انجینئروں راجر ہومز اور راڈ براو ¿ن نے گزشتہ صدی میں 1960ء کی دہائی میں تخلیق کیا گیا کمپیوٹر دوبارہ فعال کردیا ہے۔ 6 میٹر لمبے اور ساڑھے 6 میٹر چوڑے کمپیوٹر کی مرمت میں 9 سال لگے۔ 

یونیورسٹی آف لندن نے 1962ء میں یہ کمپیوٹر ڈھائی لاکھ پاؤنڈ میں خریدا تھا۔ یہ کمپیوٹر امتحانات کے کاغذات کی جانچ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اس کمپیوٹر کے ذریعے سندیں جاری کی جاتی تھیں۔ اب اس پرانے کمپیوٹر کو انہی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مرمت کے لیے کمپیوٹر کے غائب ہونے والے پرزے دوبارہ بنائے گئے ہیں۔ انجنیر مرمت کردہ کمپیوٹر کسی علمی ادارے یا عجائب گھر کے حوالے کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

جمعرات, اکتوبر 18, 2012

پی ٹی سی ایل ایوو ٹیبلیٹ؛ قیمت صرف 12000 روپے

لیجئے جناب آخر کار پی ٹی سی ایل کو بھی عقل آہی گئی، کمپنی کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی خصوصی عید آفر میں صارفین کو پی ٹی سی ایل ایوو ٹیب اب 30 ہزار روپے کی بجائے صرف 12 ہزار روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ جس کے ساتھ صارفین کو 3 ماہ تک لامحدود انٹرنیٹ بھی مفت فراہم کیا جائے گا۔

پی ٹی سی ایل ایوو ٹیبلیٹ کی نمایاں خصوصیات کچھ یوں ہیں:
3G سمارٹ فون ٹیبلیٹ جس میں ایوو وائرلیس براڈ بینڈ کی سہولت بھی موجود ہے۔
7 انچ لمبی ٹی ایف ٹی ٹچ سکرین۔
800MHz پراسیسر اور 512MB ریم۔
گوگل اینڈرائیڈ فرویو 2.2 آپریٹنگ سسٹم۔
5 میگا پکزل آٹو فوکس کیمرہ اور سامنے کی جانب ویڈیو کالنگ کے لیے دوسرا کیمرہ۔
جی ایس ایم اور CDMA سم کی سہولت جس میں آپ کالز اور ایس ایم دونوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
32GB تک میموری کارڈکی سہولت اور ساتھ میں 2GB کارڈ مفت۔

شرائط و ضوابط:
یہ آفر صرف ایوو ٹیب خریدنے والے صارفین کے لیے دستیاب ہے۔
آفر پی ٹی سی ایل ون سٹاپ شاپس اور مجاز ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے ہی دستیاب ہے۔
تین ماہ کے بعد صارفین کو Non-PSTN پیکج پر منتقل کردیا جائے گا جس کے چارجز 2100 روپے ماہانہ ہونگے۔ صارفین اپنا پیکج تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔
پی ٹی سی ایل کی یہ نئی آفر ہے تو بہت اچھی لیکن بہت دیر کردی مہربان آتے آتے، اگر پی ٹی سی ایل کی جانب سے یہ آفر ایوو ٹیب متعارف کرواتے وقت پیش کی جاتی تو یقیناً صارفین کی بڑی اکثریت یہ ٹیبلیٹ ضرور خریدتی، لیکن اب 800MHz پراسیسر اور اینڈرائیڈ 2.2 کا زمانہ پرانا ہوچکا ہے، دوسری طرف بہت سے صارفین ایوو سروس کی ناقص کوالٹی اور کم سپیڈز سے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا اگر آپ یہ ٹیبلیٹ خریدنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ذرا مزید سوچ لیجئےکہیں گھاٹے کا سودا ثابت نہ ہو۔

ہفتہ, اکتوبر 13, 2012

پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے نگران جنرل کا پہلا انٹرویو

’پاکستان کے لئے ایٹمی دھماکہ ضروری تھا‘، تجرباتی طور پر پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے والی ٹیم کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ذوالفقار علی خان نے پہلی مرتبہ کوئی انٹرویو دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو کئی اہم تفصیلات بتائیں۔

اٹھائیس مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کرنے والی پاکستانی ٹیم کے چیف اور اس وقت ملکی فوج کی انجینئرنگ کور کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار علی خان نے کہا ہے کہ اگر بھارت ایٹمی دھماکے کرکے پاک بھارت دفاعی صلاحیتوں کا توازن خراب نہ کرتا تو پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آتی۔

ڈوئچے ویلے کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جنرل ریٹائرڈ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے در اصل بھارتی ایٹمی دھماکوں کا ردعمل تھے۔ ان کے مطابق 18 مئی 1998ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہتک آمیز بیانات کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی طرح پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیت اور دفاعی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے ایٹمی دھماکے کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت بہت پہلے سے موجود تھی اور دھماکے کئے بغیر دونوں ملکوں میں ایک دفاعی توازن قائم تھا جو بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے بعد عدم توازن میں بدل گیا تھا۔

ایک سوال کےجواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت امن کے قیام میں بھی مدد گار ثابت ہوئی ہے۔ ان کے بقول یہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہی تھی جس نے 2004ء میں سرحد پر فوجیں تعینات ہونے کے باوجود پاک بھارت جنگ روکی اور کارگل کی لڑائی پھیلنے سے بچی۔ 

اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان کے نیوکلئیر اثاثے طالبان کے ہاتھ لگنے کا کوئی امکان ہے۔

جنرل ذوالفقار کا کہنا تھا کہ جو سنجیدہ لوگ نیوکلئیر صلاحیت اوراس کی حفاظت اور مینجمنٹ کے نظام کو جانتے ہیں وہ کبھی پاکستان کے نیوکلئیر اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی بات نہیں کرتے۔ ان کے مطابق یہ الزام ان لوگوں کی طرف سے لگایا جاتا ہے جن کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا میٹریل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بقول امریکی انتظامیہ سمیت مغرب کے ذمہ دار حلقوں کو پورا یقین ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثےاتنے ہی محفوظ ہیں جتنے کہ کسی ترقی یافتہ ملک کے ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد پچھلے 12 سالوں میں کسی ایک بھی بے احتیاطی، کوتاہی یا غیرذمہ داری کا واقعہ سامنے نہیں آیا۔

ایک سوال کے جواب میں جنرل ذوالفقار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنا ساری قوم کی خواہش تھی مگر اس کا بنیادی فیصلہ نوازشریف نے کیا۔ ان کے بقول پاکستان کی مسلح افواج، سائنسدانوں، دفترخارجہ اور سیاست دانوں سمیت سارے طبقوں نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کی حمایت کی تھی اور اپنا ہر ممکن تعاون فراہم کیا تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی وہ ساری سیاسی جماعتیں جو آپس میں شدید اختلافات رکھتی تھیں انہوں نے بھی ملک کے نیوکلئیر پروگرام کو ہمیشہ بھرپور سپورٹ کیا۔ اس سلسلے میں ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر، نوازشریف، ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان سمیت سب کی خدمات بڑی نمایاں ہیں۔ لیکن جنرل ذوالفقارکا یہ بھی کہنا ہے کہ ایٹمی دھماکوں کی کامیابی میں ڈاکٹر قدیر خان کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ روٹی پکانے میں جو کردار آٹے کا ہوتا ہے اسی طرح ایٹمی دھماکوں میں استعمال ہونے والے میٹریل کی فراہمی کا سہرا ڈاکٹر قدیر خان کے سر ہے۔ 

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کے حوالےسےکس قسم کے دباؤ کا سامنا تھا، جنرل ذوالفقار کا کہنا تھا کہ دھماکوں سے پہلے ہر روز کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوتا تھا اور وہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔ صدر کلنٹن کی طرف سے آنے والے ہر فون کے بعد اس ردِ عمل کا جائزہ لیا جاتا تھا۔

انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ امریکی افواج کے سربراہ جنرل زینی دھماکوں سے چند روز پہلے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے ملنے آئے۔ اس موقع پر ان کا رویہ بڑا ہی نا مناسب تھا، انہوں نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا کہ اگر پاکستان نے نیوکلئیر ٹیسٹ کیا تو اس کے نتائج پاکستان کے لئے بہت بھیانک ہوں گے۔ اس موقع پر شدید دباو ڈالنے کے بعد انہوں نے اربوں ڈالر امداد کی پیش کش بھی کی۔ جنرل ذوالفقار کہتے ہیں کہ یہی جنرل زینی جب دھماکوں کے بعد 4 جون کو دوبارہ جنرل کرامت سے ملنے آئے تو وہ بالکل بدلے ہوئے تھے اس موقع پر ان کا رویہ بڑا ہی باعزت اور برابری والا تھا۔ جنرل ذوالفقار کے مطابق یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ جب آپ مضبوط ہوں تو لوگ بھی آپ کی عزت کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایٹمی دھماکوں سے چند دن پہلے وہ اس وقت کے سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور پاکستان کے موجودہ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کے ہمراہ چینی حکام سے مشاورت کے لئے چین گئے، واپسی پر ایک جگہ جہاز میں سوار ہوتے ہوئے کسی اجنبی شخص نے سلمان بشیر کو ایک چٹ دی۔ جب وہ جہاز میں جا کر اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے، تو سلمان بشیر نے چٹ نکال کر پڑھی تو اس پر لکھا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ رہے ہیں۔ اگر آپ نے (ایٹمی دھماکے کی طرف) پیش رفت جاری رکھی تو ہم آپ کا قیمہ بنا دیں گے۔‘ 

جنرل ذوالفقار نے ایٹمی دھماکے کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک روشن دن تھا، جب وہ ایٹمی دھماکوں کے لئے بلوچستان کے شہر چاغی پہنچے ۔ 28 مئی 1998ء کو وہ اس پہاڑ کے سامنے کھڑے تھے جس کے اندر بنائے جانے والے ایک غار میں دھماکہ کیا جانا تھا۔ اس ٹنل کی مخالف سمت میں وہ ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے، اٹامک انرجی کمیشن کے ایک جونئیر اہلکار جو عمر میں ان سب سے بڑے تھے، ان سے کامیابی کی دعا کروائی گئی۔ رقت آمیز دعا کے بعد انہی سے بٹن دبانے کی استدعا کی گئی۔ انہوں نے بٹن دبایا۔ بٹن دبانے اور ایٹمی دھماکے میں 11 سیکنڈ کا تاخیری وقت رکھا گیا تھا۔ یہ 11 سیکنڈ اس دن اتنے لمبے ہوگئے کہ انہیں 11 ماہ اور 11 سال معلوم ہورہے تھے۔ انہوں نے کہا،’جب ایٹمی دھماکہ ہوا تو ہمارے پاوں تلے موجود زمین ہل گئی۔ یہ ریکٹر سکیل پر چارسے چھ تک کی شدت کا ایک زلزلہ تھا ۔ ہمارے سامنے موجود کالے رنگ کا مضبوط گرینائڈ پہاڑ پہلے گرے رنگ میں تبدیل ہوا پھر اس کا رنگ آف وائٹ ہوگیا۔ اس پہاڑ میں ایک ملین سینٹی گریڈ کا ٹمپریچر پیدا ہوا۔ اس کے باوجود کوئی نیوکلئیر تابکاری خارج نہیں ہوئی۔‘

جنرل ذوالفقار بتاتے ہیں کہ ایک نیوکلئیر ٹیسٹ میں 50 ہزارآئیٹمز کی ایک چیک لسٹ ہوتی ہے، ان میں سے اگر چند ایک آئیٹمز بھی غلط ہوجائیں تو ایٹمی دھماکہ ناکام ہوسکتا ہے۔ ان کےمطابق پاکستان کے ایٹمی دھماکے کا کریڈٹ کسی ایک شخصیت کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کامیابی میں بہت سارے لوگوں کی کوششیں شامل رہیں۔

پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے نگران جنرل کا پہلا انٹرویو

بدھ, ستمبر 19, 2012

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

واشنگٹن — تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا ایک مدت سے سائنس دانوں کی آرزو رہی ہے۔ سائنسی اندازوں کے مطابق تخلیقِ کائنات کا واقعہ لگ بھگ 14 ارب سال پہلے پیش آیا تھا۔ اب اتنے پرانے واقعے کی کھوج لگانا کچھ آسان کام تو ہے نہیں، اسی لیے ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان ایک مصنوعی (ورچوئل) کائنات تخلیق دے کر ’بِگ بینگ‘ کا تجربہ دہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

امریکی محکمہ توانائی کی ’ارگون نیشنل لیبارٹری‘ سے منسلک ماہرینِ طبیعات دنیا کے تیسرے تیز ترین کمپیوٹر کی مدد سے ’بِگ بینگ‘ کے اس تجربے کو دوبارہ دہرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس سے انہیں امید ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

ایک مدت تک سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات ٹیلی سکوپوں کے ذریعے اندھیرے آسمانوں کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور اس مشق کے ذریعے انہوں نے کائنات کے نقشے تیار کیے ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے کائنات اور کہکشاؤں کے ان نقشوں کو حقیقت سے مزید ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی ہے۔

اب انہی آسمانی نقشوں کی مدد سےماہرین نے ’ارگون میرا سپر کمپیوٹر‘ پر ایک مصنوعی کہکشاں تخلیق کی ہے جس پر وہ اب تک کا سب سے ہائی ریزولوشن والا ’بِگ بینگ‘ تجربہ کریں گے اور کائنات میں مادے کی تقسیم کی حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔

سلمان حبیب اس منصوبے کے قائدین میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں نے اس بڑے پیمانے پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ سلمان حبیب کے بقول کائنات کی تخلیق کا راز سمجھ میں آجانے سے پوری سائنس سمجھی جاسکتی ہے۔

اس منصوبے کے ایک اور قائد کیٹرن ہیٹمین کے مطابق تجربے کے دوران میں مختلف اوقات میں کائنات کی مختلف ہیئتوں کی تصویروں اور موویز سے مدد لی جائے گی۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس تجربے سے ’ڈارک میٹر‘ یا ’تاریک مادے‘ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں مدد ملے گی۔ ’ڈارک میٹر‘ مادے کی ایک خیالی قسم ہے جس کے بارے میں ماہرین کا گمان ہے کہ کائنات کا بیش تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔

سلمان حبیب کہتے ہیں خلا کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ یا تو رکی ہوئی ہے یا ایک مخصوص شکل میں موجود ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی خلائیں تخلیق پارہی ہیں۔

سلمان کہتے ہیں کہ کائنات میں توسیع کا فلسفہ آئین سٹائین کی 'تھیوری آف ریلیٹویٹی' سے بھی تقویت پاتا ہے لیکن اس نظریے کے مطابق اس توسیعی عمل کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سست پڑجانا چاہیے تھا۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور 2011ء میں طبعیات کا 'نوبیل انعام' حاصل کرنے والی تحقیق اور دیگر مشاہدوں سے یہ پتا چلا ہے کہ کائنات کی توسیع کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔

سلمان حبیب کے مطابق اس راز پر تاحال پردہ پڑا ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن کئی سائنس دانوں نے اس گمان کا اظہار کیا ہے کہ کائنات کی اس توسیعی عمل کے پیچھے درحقیقت 'تاریک توانائی' یا 'ڈارک انرجی' کی قوت موجود ہے۔

'ڈارک میٹر' کی طرح 'ڈارک انرجی' بھی توانائی کی ایسی قسم ہے جس کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 70 فی صد کائنات اس توانائی پر مشتمل ہے اور امید ہے کہ یہ تجربہ 'ڈارک انرجی' کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے گا۔

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

جمعہ, ستمبر 07, 2012

فیس بک کی حریف سلام ورلڈ

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کی انٹرنینشل اسلامک یونیورسٹی میں ایک روسی طالبہ جحان جعفر نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ویڈیو شائع کی تو اس پر ترک زبان میں رائے کا اظہار کیا گیا۔ جحان جعفر یہ زبان بولنا نہیں جانتی تھیں لیکن انہوں نے ویڈیو کے صفحے پر موجود ترجمے کی سہولت کی مدد سے اس رائے کا جواب دیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’سلام ورلڈ‘ پر یہ ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ویب سائٹ کو امید ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ملانے اور رابطوں کو آسان بنایا جا سکے گا۔

ملائیشیا کے علاوہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ سلام ورلڈ کا تجرباتی ٹیسٹ اس وقت بوسنیا، ترکی، مصر اور انڈونیشیا میں موجود ایک ہزار صارفین کے ذریعے کیا جارہا ہے اور نومبرمیں سائٹ دنیا بھر میں استعمال کے لیے دستیاب ہوگی۔ ویب سائٹ کی پہلی جھلک سے یہ سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس کی طرح ہی نظر آتی ہے۔

نیلی اور سفید وضع قطع اور وال پر پیغامات لکھنے، تصاویر اور ویڈیوز شائع کرنے جیسی خصوصیات سماجی رابطے کی مقبول ویب سائٹ فیس بک کی ابتدائی خصوصیات سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن کثیر الثقافتی اور کثیراللسان منصوبے کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ ویب سائٹ پر موجود مواد ان میں تفریق کرے گا۔ سلام ورلڈ کا مقصد مسلمانوں کو ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا ہے جہاں پر توہین مذہب، جوئے سمیت اسلامی اصولوں کے خلاف کسی قسم کا مواد موجود نہ ہو۔

ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ مسلم دنیا کے لیے ایک ویب سائٹ تیار کی گئی ہے اس سے پہلے بھی کوششیں کی گئی ہیں لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ فن لینڈ کی مسلم ڈاٹ کام (Muxlim.com) اس وقت بند ہوچکی ہے۔ اسی طرح سے مصر کی جماعت اخوان المسلمین نے اخوان بک ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائٹ شروع کی تھی اور یہ بھی بند ہوچکی ہے۔ 

ناقدین کا کہنا ہے کہ ان ویب سائٹس کا ہدف علاقائی صارفین تھے یا یہ اپنے خطے تک محدود تھیں۔ سلام ورلڈ ترکی سے شروع کی جارہی ہے لیکن اس کے اصلاح کاروں کا تعلق بارہ سے زیادہ ممالک سے ہے۔ ویب سائٹ کا مقصد دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد کرنا ہے اور اس پر مواد کی جانچ پڑتال کرنے کے لیےتین سطحی فلٹر موجود ہونگے۔

ایک طالب علم عبدل ہادی بن حاجی کے مطابق’اگر سیاسی مقاصد کے لیے چیزوں کو سنسر کیا جائے گا، مثال کے طور پر شام میں اصل صورتحال، برما میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات کے بارے میں جاننے سے روکا جائے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

ماہرین کے مطابق اگر دنیا بھر میں مسلمان مسلم ورلڈ کا بڑے پیمانے پر استعمال شروع بھی ہوجائے تو پھر بھی اس کا فیس بک کی حریف بننا مشکل ہوسکتا ہے۔ تاہم مسلم ورلڈ کے ایشیا پیسفک کے سربراہ سلام سلیمانوف کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ ان کے خیال میں ایک متبادل کی اشد ضرورت ہے۔ ’اگر ہم ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو ان میں سے ہوسکتا ہے میرے موقف کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہو لیکن پھر بھی عددی اعتبار سے یہ تعداد بہت بڑی ہوگی۔‘

فیس بک کی حریف سلام ورلڈ

جمعرات, اگست 30, 2012

کیا مصنوعی ذہانت تخلیق کر لی گئی ہے؟

روس کے سائنسدانوں نے دنیا میں پہلی بار انسانی دانشمندی کا کمپیوٹرائزڈ نمونہ پیش کیا ہے۔ ”یوگینی“ نام سے تیار کردہ یہ کمپیوٹر پروگرام انسانی دماغ سے بس کچھ ہی کم ہے۔ اسے برطانیہ میں ہوئے سائیبر دانش مندی کے مقابلے میں بہتریں تسلیم کیا گیا ہے۔

”ذہنی دھاوے“ کے پروگراموں کی تیاری میں سبھی شریک افراد کو ”ٹیورنگ ٹیسٹ“ سے گذرنا پڑا تھا۔ اس نام کے برطانوی ماہر ریاضی کو کمپیوٹر پروگرامنگ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک کھیل ترتیب دیا تھا، جس میں حصہ لے کر معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کا مخاطب کون ہے؟ مشین یا انسان۔ اس کے اصول بہت سادہ ہیں، امتحان لینے والا انجانوں سے گفتگو کرتا ہے، جو اس کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ جوابات سے ممتحن جان لیتا ہے کہ وہ انسان کی بجائے کمپیوٹر پروگرام سے انٹرویو کررہا تھا، کیونکہ یہ عیاں ہے کہ تا حال مشین انسانوں کی طرح کے جواب دینے سے قاصر ہے۔

ایسے پہلے پروگرام جنہیں ”ٹیورنگ ٹیسٹ“ کے ذریعے آنکا گیا، کے جواب ایسے لگتے تھے جیسے کوئی انسان مذاق کررہا ہو یا پھر الّو بنانے کی کوشش کررہا ہو۔ پروگرام وہی بات پوچھنے لگ جاتا تھا جس بارے میں اس سے سوال کیا جاتا تھا۔ دوسری جانب بیٹھا ہوا شخص یہ سمجھتا تھا کہ جیسے اس قسم کے جواب کوئی باشعور شخص دے رہا ہے۔ بہر حال یہ سلسلہ بہت دیر نہیں چل سکتا تھا۔

اس نوع کا پروگرام کوئی سنجیدہ عمل نہیں کر سکتا تھا، بس شریک گفتگو شخص کے ہونے کا تاثر پیدا کرسکتا تھا۔ اسے مصنوعی ذہانت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس معاملے میں پیشرفت جاری رکھنا بلا جواز ہے، روسی انسٹیٹیوٹ برائے عملی ریاضی کے میخائیل گوربونوو پوسادوو کو یقین ہے۔ ”یہ کام بیکار نہیں ہے۔ یہ اصل میں لسانی، ہئیتی اور لسانی عمل جار کی صفات کا تجزیہ ہے۔ مشین میں سب کچھ صحت کے ساتھ درست بھرنا چاہیے وگرنہ انسان اس کو شریک گفتگو نہیں مان سکے گا۔ اس سطح تک پہنچنے کی خاطر محنت درکار ہے، جس کے سبب کامیابی ممکن ہوگی اور اس کا بہت سی صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا“۔

فی الحال مشین کی استعداد محدود نوعیت کی ہے۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اگر اس طرح 30 % سوالوں کا جواب دے کر بھی انسان کو ”دھوکہ“ دیا جا سکتا ہو، تو اسے مصنوعی ذہانت خیال کیا جائے گا۔ روس کے پروگرام ”یوگینی“ نے ڈیڑھ سو سوالات میں سے 2۔29 % سوالوں کے مناسب جواب دیے ہیں۔ اس طرح وہ بہت کم حد تک مصنوعی ذہانت کہلائے جانے سے رہ گیا ہے۔ بہرحال اس پروگرام کے طفیل روس کی ٹیم مقابلہ جیت گئی۔

یہ نتیجہ ”سائیبر دانشمندی“ کے حوالے سے ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔ پروگرامرز کو یقین ہے کہ اس کو مزید بہتر بنائے جانے سے وہ کیا جانا ممکن ہوگا جس کا خواب عہد جدید کا انسان دیکھتا ہے یعنی کمپیوٹر کو سکھایا جاسکے گا کہ وہ کیے گئے سوال کو سمجھ پائے تاکہ انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کیا جانا سہل ہو۔

کیا مصنوعی ذہانت تخلیق کر لی گئی ہے؟

بدھ, اگست 15, 2012

آواز سے چھ گنا تیز رفتار طیارے کا تجربہ

امریکی فوج نے منگل کو بحرالکاہل پر سے پائلٹ کے بغیر چلنے والے ایک انتہائی تیز رفتار طیارہ اڑانے کا تجربہ کیا، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی رفتار آواز کی سے چھ گنا زیادہ تھی۔

امریکی ایئر فورس نے کہاہے کہ تجرباتی طیارہ ویو رائیڈر کو 15000 ہزار میٹر کی بلندی پر بی 52 بمبار طیارے کے بازو سے سے فضا میں چھوڑا گیا۔

جس کے بعد ٹھوس راکٹ بوسٹر اور میزائل کی شکل کے انجن کے استعمال کرنے سے اس کی رفتار 7300 میل فی گھنٹہ بڑھ گئی۔

ویو رائیڈر اپنی پانچ منٹ کی تجرباتی پرواز کے دوران 21000 میٹر کی بلندی پر پہنچ گیا، جس کے بعد وہ غوطہ لگا کر سمندر میں ڈوب گیا۔ فوجی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان کا طیارے کو سمندر سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اس سےپہلے مئی 2010ء میں ایک اور طیارے کی تجرباتی اڑان میں آواز سے پانچ گنا رفتار کا تجربہ کیا گیا تھا لیکن تکنیکی خرابی پیدا ہوجانے کے سبب اس تجربے کو ادھورا چھوڑنا پڑا تھا۔

امریکہ کے دفاعی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ہائیپرسونک طیارے کے کامیاب تجربوں سے ایک روز امریکی فضائیہ کی قوت کو نمایاں طور پر بڑھانے میں مدد ملے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے کمرشل طیاروںں کی رفتار میں بھی غیرمعمولی اضافہ کیا جاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں لندن اور نیویارک کے درمیان پرواز کا دورانیہ سمٹ کر ایک گھنٹے سے بھی کم ہوجائے گا۔

آواز سے چھ گنا تیز رفتار طیارے کا تجربہ

منگل, جولائی 24, 2012

چین: ایک رٹائرڈ پائلٹ نے آبدوز بنا لی

چین میں گاؤ گوانسوئے نام کے ایک رٹائرڈ پائلٹ نے اپنے خاکے کے مطابق آبدوز بنا لی ہے۔ اخبار "چائنا ڈیلی" کے مطابق اب وہ یہ آبدوز فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مقامی ٹورسٹ کمپنی انسٹھ ہزار ڈالر کے عوض آبدوز خریدنے کے لیے تیار ہے۔

بحیرہ جنوبی چین میں خود ساختہ آبدوز کی آزمائش کی جاچکی ہے۔ یہ آبدوز چھہ میٹر چالیس سینٹی میٹر لمبی، ایک میٹر چوڑی اور ایک میٹر بیس سینٹی میٹر اونچی ہے۔ آبدوز میں پانچ افراد کے لیے گنجائش ہے۔ یوں جن لوگوں کو کلاسٹروفوبیا نہیں ہے، وہ اس آبدوز کے ذریعے سیر کر سکیں گے۔

چین: ایک رٹائرڈ پائلٹ نے آبدوز بنا لی

پیر, جولائی 23, 2012

ائیر کنڈیشنر کے ایک سو دس سال

ایک سو دس سال قبل یعنی سترہ جولائی سن انیس سو دو کو نیو یارک کے علاقے بروکلن میں واقع ایک اشاعت گھر میں نصب ائیر کنڈشننگ نظام کا استعمال شروع کیا گیا تھا۔ ائیر کنڈیشنر کے موجد ولیس ہیوی لینڈ کی عمر اس وقت صرف پچیس سال تھی، انہوں نے اپنے بنائے گئے آلے کا نام "ہوا کی پروسیسنگ کرنے والا آلہ" رکھا تھا۔ پہلا ائیر کنڈیشنر انسانوں کی سہولیت کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اشاعت گھر میں نمی کم کی جائے جو اخبارات اور کتابوں کی اشاعت کے عمل پر بری طرح اثر انداز ہوتی تھی۔ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں ٹیکسٹائل ملز میں ائیر کنڈشننگ نظام کا وسیع پیمانے پر استعمال شروع کیا گیا تھا جبکہ سن انیس سو چودہ میں امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینیاپولیس میں ایک گھر میں پہلا ائیر کنڈیشنر نصب کیا گیا تھا۔

جمعرات, جولائی 19, 2012

ناسا کے سُوپر کمپیوٹر کی رفتار بڑھا دی گئی

امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایمز نامی ریسرچ سینٹر میں نصب سُوپر کمپیوٹر کی رفتار بڑھا کر ایک اعشاریہ چوبیس پیٹافلاپس کردی ہے۔
اس سوپر کمپیوٹر کی رفتار کا اندازہ لگانے کے لیے یہ فرض کرنا کافی ہوگا کہ اگر دنیا کی پوری آبادی ایک سینکنڈ میں علم ریاضی کا ایک ہی عمل کرے تو اسے وہ اعمال کرنے کے لیے تین سو ستر دن لگیں گے جو ناسا کا سُوپر کمپیوٹر ساٹھ سیکنڈ میں کرتا ہے۔
اس وقت بارہ سو ادارے یہ سوپر کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں۔ سوپر کمپیوٹر کے ذریعے طیارہ سازی، خلائی تحقیقات اور خلائی جہازوں کی تعمیر کا حساب کیا جاتا ہے۔

ونڈوز ایٹ کی فروخت چھبیس اکتوبر کو شروع ہوگی

فرانسیسی ٹی وی چینل ”فرانس 24“ نے سافٹ ویئر بنانے والی امریکی کارپوریشن مائیروسافٹ کے ایک ڈائریکٹر سٹیون سنووسکی کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ مائیکروسافٹ کے نئے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز ایٹ کی فروخت رواں سال چھبیس اکتوبر کو شروع ہوگی۔ توقع ہے کہ یہ نیا آپریٹنگ سسٹم ایک سو نو زبانوں میں دستیاب ہوگا۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپریٹنگ سسٹم کمپیوٹر کے علاوہ سمارٹ فون اور ٹیبلیٹ میں بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔

ونڈوز ایٹ کی فروخت چھبیس اکتوبر کو شروع ہوگی

جمعرات, جولائی 05, 2012

'آئی پیڈ' تنازع: ایپل نے چینی کمپنی کو 6 کروڑ ڈالر ادا کردیے

آئی پیڈ گولڈ
ٹیکنالوجی کی معروف کمپنی 'ایپل' نے چین میں 'آئی پیڈ' کےٹریڈ مارک پر کھڑے ہونے والے تنازع کے حل کے لیے ایک مقامی کمپنی کو چھ کروڑ ڈالر ادا کردیے ہیں۔

پیر کو ایک چینی عدالت کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ایپل' نے 'پرو وِیو ٹیکنالوجی' نامی کمپنی کو یہ رقم ثالثی کے نتیجے میں دونوں کمپنیوں کے درمیان ہونے والی مصالحت کے تحت دی ہے۔

مصالحت کے نتیجے میں دونوں کمپنیوں کے درمیان اس طویل عدالتی جنگ کا خاتمہ ہوگیا ہے جس کے ذریعے 'پرو وِیو ٹیکنالوجی'، 'ایپل' کو چین کے بعض علاقوں میں اس کا 'آئی پیڈ' نامی معروف ٹیبلٹ کمپیوٹر فروخت کرنے سے روکنے کی کوشش کررہی تھی۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق 'پروویو ٹیکنالوجی' کی تائیوان شاخ ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل 'آئی پیڈ' ٹریڈ مارک رجسٹرڈ کراچکی تھی جب کہ 'ایپل' نے اس نام سے اپنا 'ٹیبلٹ پی سی' 2010ء میں متعارف کرایا تھا۔

گوکہ 'ایپل' نے 2009ء میں 'پرو ویو' سے 'آئی پیڈ' ٹریڈ مارک کے حقوق خرید لیے تھے لیکن چینی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے 'ایپل' کو چین میں اس ٹریڈ مارک کے استعمال کے حقوق فروخت نہیں کیے تھے۔

یاد رہے کہ چین کی 'ٹیبلٹ کمپیوٹرز' کی مارکیٹ میں 'آئی پیڈ' کا حصہ 76 فی صد ہے اور کمپنی کی مصنوعات چین میں بہت مقبول ہیں۔
 

اتوار, جولائی 01, 2012

سام سنگ گلیکسی نیکسس پر بھی پابندی

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک امریکی عدالت نے سام سنگ اور ایپل کے مابین جاری پیٹنٹ کے تنازع کے تصفیے تک ملک میں سام سنگ کے سمارٹ فون گلیکسی نیکسس کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔
تاہم عدالت نے کہا ہے کہ ان احکام پر عملدرآمد کے لیےایپل کو دس کروڑ ڈالر بطور ضمانت جمع کروانے ہوں گے۔ ضمانت کا مقصد یہ ہے کہ اگر سام سنگ یہ مقدمہ جیت جاتا ہے تو اس پابندی سے ہونے والے نقصان کی تلافی ہوسکے۔

جج لوسی کوح نے اس ہفتے کے آغاز میں سام سنگ کے ٹیبلٹ کمپیوٹر گلیکسی ٹیب 10.1 کی فروخت پر بھی پابندی عائد کی تھی۔

سام سنگ جنوبی کوریا کی ایک انتہائی بڑی الیکٹرونکس کمپنی ہے جس کی مصنوعات دنیا بھر میں بہت مقبول ہیں۔ ان کا کہنا تھا وہ جمعہ کو آنے والے فیصلے سے مایوس ہیں تاہم نیکسس کو صارفین تک پہنچانے کے لیے قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ تمام اقدامات کریں گے۔

دوسری جانب ایپل امریکہ کی مقبول ترین کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کے آئی فون نے سمارٹ فون کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ آئی پوڈ، آئی فون اور آئی پیڈ کی بے پناہ کامیابی کے بعد ایپل اپنی قدر کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔
ایپل اور سام سنگ دنیا بھر کے ممالک میں پیٹنٹ اور دیگر جملہ حقوق کے سلسلے میں مختلف مقدمات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔

ایپل کا کہنا ہے کہ سام سنگ نے اس کی مصنوعات کے ڈیزائن کی نقل کی ہے جبکہ سام سنگ کا دعویٰ ہے کہ ایپل مصنوعات میں انٹرنیٹ سے رابطہ قائم کرنے کا طریقہ سام سنگ کا بنایا ہوا ہے۔