جمعہ, ستمبر 07, 2012

فیس بک کی حریف سلام ورلڈ

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کی انٹرنینشل اسلامک یونیورسٹی میں ایک روسی طالبہ جحان جعفر نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ویڈیو شائع کی تو اس پر ترک زبان میں رائے کا اظہار کیا گیا۔ جحان جعفر یہ زبان بولنا نہیں جانتی تھیں لیکن انہوں نے ویڈیو کے صفحے پر موجود ترجمے کی سہولت کی مدد سے اس رائے کا جواب دیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’سلام ورلڈ‘ پر یہ ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ویب سائٹ کو امید ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ملانے اور رابطوں کو آسان بنایا جا سکے گا۔

ملائیشیا کے علاوہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ سلام ورلڈ کا تجرباتی ٹیسٹ اس وقت بوسنیا، ترکی، مصر اور انڈونیشیا میں موجود ایک ہزار صارفین کے ذریعے کیا جارہا ہے اور نومبرمیں سائٹ دنیا بھر میں استعمال کے لیے دستیاب ہوگی۔ ویب سائٹ کی پہلی جھلک سے یہ سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس کی طرح ہی نظر آتی ہے۔

نیلی اور سفید وضع قطع اور وال پر پیغامات لکھنے، تصاویر اور ویڈیوز شائع کرنے جیسی خصوصیات سماجی رابطے کی مقبول ویب سائٹ فیس بک کی ابتدائی خصوصیات سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن کثیر الثقافتی اور کثیراللسان منصوبے کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ ویب سائٹ پر موجود مواد ان میں تفریق کرے گا۔ سلام ورلڈ کا مقصد مسلمانوں کو ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا ہے جہاں پر توہین مذہب، جوئے سمیت اسلامی اصولوں کے خلاف کسی قسم کا مواد موجود نہ ہو۔

ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ مسلم دنیا کے لیے ایک ویب سائٹ تیار کی گئی ہے اس سے پہلے بھی کوششیں کی گئی ہیں لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ فن لینڈ کی مسلم ڈاٹ کام (Muxlim.com) اس وقت بند ہوچکی ہے۔ اسی طرح سے مصر کی جماعت اخوان المسلمین نے اخوان بک ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائٹ شروع کی تھی اور یہ بھی بند ہوچکی ہے۔ 

ناقدین کا کہنا ہے کہ ان ویب سائٹس کا ہدف علاقائی صارفین تھے یا یہ اپنے خطے تک محدود تھیں۔ سلام ورلڈ ترکی سے شروع کی جارہی ہے لیکن اس کے اصلاح کاروں کا تعلق بارہ سے زیادہ ممالک سے ہے۔ ویب سائٹ کا مقصد دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد کرنا ہے اور اس پر مواد کی جانچ پڑتال کرنے کے لیےتین سطحی فلٹر موجود ہونگے۔

ایک طالب علم عبدل ہادی بن حاجی کے مطابق’اگر سیاسی مقاصد کے لیے چیزوں کو سنسر کیا جائے گا، مثال کے طور پر شام میں اصل صورتحال، برما میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات کے بارے میں جاننے سے روکا جائے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

ماہرین کے مطابق اگر دنیا بھر میں مسلمان مسلم ورلڈ کا بڑے پیمانے پر استعمال شروع بھی ہوجائے تو پھر بھی اس کا فیس بک کی حریف بننا مشکل ہوسکتا ہے۔ تاہم مسلم ورلڈ کے ایشیا پیسفک کے سربراہ سلام سلیمانوف کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ ان کے خیال میں ایک متبادل کی اشد ضرورت ہے۔ ’اگر ہم ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو ان میں سے ہوسکتا ہے میرے موقف کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہو لیکن پھر بھی عددی اعتبار سے یہ تعداد بہت بڑی ہوگی۔‘

فیس بک کی حریف سلام ورلڈ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔