جمعرات, جون 28, 2012

کلرکہار، اسلام آباد کے قریب خوب صورت سیاحتی مقام

جھیل کا بوٹنگ پوائنٹ
کلرکہار ضلع چکوال کی تحصیل اور خوب صورت سیاحتی مقام ہے جو چکوال شہر سے جنوب مغرب کی جانب تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد، لاہور موٹر وے کے ساتھ سرگودھا خوشاب سڑک پر واقع ہے۔ کلرکہار سطح سمندر سے 3 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، کلرکہار میں کیڈٹ کالج، فضائیہ انٹر کالج اور فوج فائونڈیشن ہسپتال بھی قائم کیا گیا ہے۔ کلرکہار کی مقبولیت کی بنیادی وجہ  وہاں موجود باغات میں آزاد پھرتے مور اور بڑے رقبہ پر جھیل، لوکاٹ، ناشپاتی اور انار کے باغات ہیں۔ ان باغات میں کیلے کے درخت بھی موجود ہیں۔ درختوں سے پھل توڑنے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ سرکار باغات کا ٹھیکہ دیتی ہے اور ٹھیکہ دار کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کلرکہار میں گلاب کے باغ بھی ہیں جن سے عرق نکال کر فروخت کیا جاتا ہے۔ عرق گلاب کی بوتلیں چوک میں واقع دکانوں پر فروخت کے لئے موجود ہیں۔ درختوں میں ”مور“ کھلے عام آزاد پھرتے بہت مشہور ہیں۔ مزار کی پہاڑی سے مشرق کی جانب پہاڑی تک ایک لفٹ بھی لگائی گئی ہے جس سے وادی اور جھیل کا خوب صورت نظارہ ملتا ہے۔ 

تخت بابری اور جھیل کا راستہ
کلرکہار میں تخت بابری بہت مشہور جگہ ہے جو انار کے باغ میں واقع ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کشمیر جاتے ہوئے یہاں ٹھرائو کیا اور اپنی فوج سے خطاب کیا تھا۔

گرمیوں میں موسم کافی گرم اور سردیوں میں سرد ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار بھی ہے جہاں اکثر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ جس پہاڑی پر مزار واقع ہے اس کے دامن میں پانی کا چشمہ ہے جہاں سے ہر وقت پانی نکلتا رہتا ہے۔ یہ پانی ایک نالے کے ذریعے جھیل تک پہنچایا جاتا ہے، نالے کے اوپر پانی کے راستے میں حمام بنائے گئے ہیں جہاں عام لوگوں کو غسل کرنے کی اجازت ہے۔

آزاد گھومتا 'مور'
لوکاٹ اور انار کے باغات کے ساتھ ہی راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے۔ جھیل جانے کے لئے پہلے صرف ایک راستہ تھا، جہاں سے داخلہ تھا وہیں سے واپسی بھی ہوتی تھی جس کے باعث چھٹی کے روز خاص طور پر گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کے ہجوم کی وجہ سے سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ٹریفک جام ہوجاتی تھی لیکن اب سڑک جھیل کے گرد مکمل اور مناسب چوڑی کردی گئی ہے، ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے موٹر وے انٹر چینج کے قریب مرکزی سڑک پر پہنچا جا سکتا ہے۔ جھیل پر سہولتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کا موٹل اور ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاﺅسز اور ایک چھوٹا پارک بھی بنایا گیا ہے۔ بچوں کی دلچسپی کے لئے جھولے اور دیگر چیزیں بھی موجود ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء، گفٹ شاپس اور دستکاریوں کے مختلف سٹال بھی لگائے گئے ہیں۔ جھیل مین بوٹنگ سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، جھیل کی سیر اور بوٹنگ کے دوران سب سے خوب صورت نظارہ وہ ہوتا ہے جب آپ کی کشتی کے قریب کئی مرغابیاں تیرتی اور غوطہ خوری کرتی نظر آئیں گی۔

جھیل کے ساتھ جھولے اور پارکنگ
چکوال سے کلرکہار اور خوشاب جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی علاقوں میں کئی موڑ کافی خطرناک ہیں جس کے باعث کئی مہلک حادثات ہو چکے ہیں۔ پہلے سڑک کافی تنگ اور خراب تھی لیکن اب چوڑی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑ کاٹ کر کئی موڑ ختم اور کئی کافی چوڑے کئے گئے ہیں۔ موٹر وے بننے سے کلرکہار کی شہرت اور سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ دور دراز سے لوگ ایک روز کی تفریح کے لئے بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا روزگار بڑھا ہے اور اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

کلرکہار سے مشرق کی جانب ایک سڑک چوآسیدن شاہ جانے کے لئے ہے جس کے راستہ میں مشہور جگہ ”کٹاس“ ہے جس کے مشہور ہونے کی وجہ وہاں ہندوﺅں کے پرانے مندروں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان مندروں کے ساتھ پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے ”گنگا کی آنکھ“ کہا جاتا ہے۔ کلرکہار چوآسیدن شاہ روڈ کے ارد گرد علاقہ میں کوئلہ کی بہت ساری کانیں بھی ہیں، اسی سے متعلق ایک سرکاری سکول بھی یہاں قائم کیا گیا ہے۔

چکوال سرگودھا خوشاب روڈ
کلرکہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے سڑک پر سیمنٹ کے کئی کارخانے قائم کئے گئے ہیں، جن میں ”لفارجے سیمنٹ“ پیداوار کے لحاظ سے ایشیاء کا سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ ہے، اس کا پرانا نام ”چکوال سیمنٹ فیکٹری“ تھا جو مصر کی ایک کمپنی نے خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ ”ڈی جی سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ”ڈی جی خان سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوئے۔

++++++++++

چوآسیدن شاہ کے قریب "کٹاس راج" میں 'گنگا کی آنکھ' اور مندر

کلرکہار میں لفٹ

تخت بابری اصلی حالت میں

احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے

احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے
دنیا تو فقط اہلِ تجارت کی جگہ ہے

فرعونوں کی بستی ہے یہاں دب کے نہ رہنا
نخوت کی تکبّر کی رعونت کی جگہ ہے

ظاہر ہے یہاں تم بھی کبھی خوش نہ رہو گے
اک درد کا مسکن ہے اذیّت کی جگہ ہے

آسانی سے ملتی نہیں جینے کی اجازت
پھر سوچ لو دنیا بڑی ہمّت کی جگہ ہے

اے دل تجھے اک بوسہ بھی مشکل سے ملے گا
یہ حسن کا بازار ہے دولت کی جگہ ہے

یہ سوچ کے خاموشی سے ہر ظلم سہا ہے
اپنوں سے نہ غیروں سے شکایت کی جگہ ہے

خود اپنی ہی مخلوق کو برباد کرو گے
افسوس کی یہ بات ہے حیرت کی جگہ ہے

دل میرا کسی حال میں خوش رہ نہیں سکتا
جلوت کا مکاں ہے نہ یہ خلوت کی جگہ ہے

راحت کا یہاں کوئی تصور نہیں ملتا
معلوم ہے سب کو یہ مصیبت کی جگہ ہے

انجام کا سوچو گے تو بے چین پھرو گے
آرام سے سو جاؤ یہ غفلت کی جگہ ہے

پاگل ہو جو کرتے ہو یہاں عشق کی تلقین
دنیا تو ہر اک شخص سے نفرت کی جگہ ہے

جاتے ہوئے کہتے ہیں ہر اک بار پرندے
کچھ شرم کرو یہ بھی سکونت کی جگہ ہے

بس شرط ہے یہ دل میں محبت ہو کسی کی
صحرا ہی نہیں شہر بھی وحشت کی جگہ ہے

جانے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں اب
دیکھو یہ زمیں کیسی قیامت کی جگہ ہے

آئے ہو تو جاؤ گے یہاں بچ نہ سکو گے
یہ موت کی منزل ہے ہلاکت کی جگہ ہے

اے اہل جنوں آؤ یہاں کچھ نہیں رکھا
ناداں ہیں یہ سب لوگ حماقت کی جگہ ہے

کس بات پہ غمگین ہوں کس بات پہ میں خوش
ذلت کی جگہ ہے نہ یہ عزت کی جگہ ہے

صحرا کی طرف اس لئے جاتا ہے مرا دل
دنیا میں یہ دنیا سے بغاوت کی جگہ ہے
احمد فواد

تین اہم عہدوں کی ہم نام شخصیات

پاکستان کے تین اعلٰی ترین عہدوں پر فائز شخصیات ’ہم نام‘ ہیں جبکہ اس سے قبل صدر کے عہدے پر فائز شخص بھی انہی کا ہم نام تھا۔

حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کا نام اشفاق ’پرویز‘ کیانی ہے۔

وزیراعظم کا نام راجہ ’پرویز‘ اشرف ہے ۔

جس شخصیت کو ملک کے پہلے نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا ہے اس کا نام چوہدری ’پرویز‘ الہٰی ہے، جبکہ اس سے قبل ملک کے اعلٰی ترین صدارتی عہدے پر جنرل (ر) ’پرویز‘ مشرف فائز تھے۔