بدعنوانی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بدعنوانی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر, نومبر 19, 2012

بھارتی سٹے بازوں کو قابو کرنے کی ضرورت

آئی سی سی کے سابق صدر احسان مانی کا کہنا ہے کہ بھارتی سٹے بازوں پر قابو پائے بغیر کرکٹ میں بدعنوانی ختم کرنا ممکن نہیں اور اس ضمن میں آئی سی سی بھارتی کرکٹ بورڈ کے سامنے کمزور دکھائی دیتی ہے۔ احسان مانی نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ غور طلب بات یہ ہے کہ پچھلے بیس برسوں میں میچ فکسنگ کے جتنے بھی کیس سامنے آئے ہیں ان میں بھارتی تعلق ہی دکھائی دیتا ہے۔

گذشتہ دنوں منظرِعام پر آنے والی برطانوی صحافی کی کتاب میں بھی انکشافات ایک بھارتی سٹے باز کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کیے گئے ہیں۔

احسان مانی نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئی سی سی، بی سی سی آئی اور پی سی بی ان انکشافات کے بعد برطانوی صحافی سے ثبوت طلب کریں اور اگر ان الزامات میں کوئی سچائی ہے تو تحقیقات کی جائیں ورنہ لندن کی عدالت میں اس صحافی کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جائے۔ احسان مانی کا کہنا ہےکہ اگر وہ اس وقت آئی سی سی کے صدر ہوتے تو فوراً بھارتی حکومت سے بات کرتے اور اس سے کہتے کہ چونکہ سٹے بازی کا سب سے بڑا مرکز بھارت ہے اور اسے وہاں کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے، لہٰذا ان سٹے بازوں کو کنٹرول کیا جائے کیونکہ یہ بھارت کا نام بدنام کررہے ہیں۔

احسان مانی نے کہا کہ آئی سی سی کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کرکٹ کرپشن میں بھارتی تعلق کے بار بار سامنے آنے کے باوجود کچھ بھی نہیں کر پا رہی ہے۔ سٹے بازوں کے خلاف قدم اٹھانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ احسان مانی نے کہا کہ برطانوی صحافی ایڈ ہاکنز کی اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ سپاٹ فکسنگ کے مقدمے کے جج جسٹس کک کو کرکٹ کی کوئی سمجھ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ جج حضرات مختلف نوعیت کے مقدمے سنتے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ ہر شعبے سے تعلق نہیں رکھتے لیکن وہ قانون سمجھتے ہیں اور انہیں شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرنا آتا ہے، لہٰذا برطانوی صحافی کا اعتراض کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دراصل یہ کرکٹ کا مقدمہ نہیں تھا، کرپشن کا مقدمہ تھا جس کا فیصلہ جسٹس کک نے دیا۔

اظہر الدین کو بھارتی عدالت سے کلیئر کیے جانے کے بارے میں احسان مانی کا کہنا ہے کہ سلیم ملک اور اظہر الدین کے مقدمات میں پی سی بی اور بی سی سی آئی نے دلچسپی نہیں لی شاید اس لیے کہ انہیں پتا تھا کہ ان دونوں کی بین الاقوامی کرکٹ ختم ہوگئی ہے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں کرکٹر چاہیں تو اپنے کریئر ختم کیے جانے پر آئی سی سی اور اپنے کرکٹ بورڈوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ انہیں پتا ہے کہ آئی سی سی اور کرکٹ بورڈوں کے پاس ان کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔

بھارتی سٹے بازوں کو قابو کرنے کی ضرورت

ہفتہ, نومبر 03, 2012

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

ڈاکٹر صفدر محمود
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
 
خیال آیا کہ عید ابھی کل ہی گزری ہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود لوگ تین دن تک عید مناتے رہے ہیں اس لئے عید کے تناظر میں کوئی ہنستی مسکراتی تحریر لکھنی چاہئے۔ دل نے کہا جہاں ہر روز نا اہلی، کرپشن اور بے حسی کے زخم کھلتے ہوں وہاں ہنستے مسکراتے الفاظ تخلیق کرنا نہایت کٹھن کام ہوتا ہے۔ زخم کھا کر مسکرانا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ ہم تو کرپشن اور نا اہلی کا ماتم کرتے رہیں گے اور بے حسی پر آنسو بہاتے رہیں گے کوئی ہماری فریاد سنے یا نہ سنے، سچی بات یہ ہے کہ ہم مسکرانا بھی چاہیں تو ایسی خبریں مسکرانے نہیں دیتیں۔
عید کے دن کے اخبارات میرے سامنے رکھے تھے اور میں دو خبریں پڑھ کر اداسی کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ ہاں یاد رکھیئے کہ یہ دو خبریں تو دیگ کے محض دو دانے ہیں ورنہ کوئی دن نہیں گزرتا کہ اربوں کی کرپشن اور نا اہلی کی داستانیں پڑھنے اور سننے کو نہ ملتی ہوں۔ کرپشن کے پہاڑوں کے سامنے یہ خبر تو محض رائی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اسے پڑھ کر مغموم ہو گیا اور حکومتی نا اہلی کا دل ہی دل میں ماتم کرنے لگا۔ پھر سوچنے لگا کہ جہاں قومی وسائل کو اس بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہو، وہاں معاشی امراض کا علاج ناممکن ہے۔ اصل مسئلہ وسائل کی قلت نہیں بلکہ وسائل کا زیاں ہے۔ میں آپ سے کوئی خفیہ بات شیئر نہیں کر رہا، چھپی ہوئی خبروں کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔
ہماری نوجوان نسل کو علم نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کو بدحالی کا شکار ہی دیکھا ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دہائی دو دہائیاں قبل ہمارا ریلوے کا نظام ہر لحاظ سے نہایت معیاری ہوا کرتا تھا۔ دولت مند طبقے تو ہوائی سفر اور ذاتی کاروں کی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے تھے لیکن عوام کے لئے ریلوے کا سفر آرام دہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اسے ہماری نااہلی اور بدنیتی کی نظر لگ گئی جبکہ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک اپنے ریلوے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ موجودہ ریلوے کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص ریلوے کے ہاتھوں پریشان ہے۔ چنانچہ حکومت نے چین سے 75 ڈیزل انجن درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے منصوبوں کی مانند کرپشن کی نذر ہو گیا۔ مجھے اس ناکامی میں کرپشن سے زیادہ نا اہلی کا پہلو نظر آتا ہے۔ ہماری حکومت نے 2009 میں چین کی حکومت سے 75 انجن خریدنے کا معاہدہ کیا اور اس مقصد کے لئے ایک چینی بینک سے ایک سو ملین یعنی دس کروڑ ڈالر کا قرضہ منظور کروایا۔ معاہدے کے مطابق حکومت پاکستان نے پندرہ ملین ڈالر بینک میں جمع کروا دیئے۔ رینٹل پاور ہاﺅسز کی مانند یہاں بھی کرشن ہوئی۔ اصولی طور پر انجنوں کی خریداری کے لئے عالمی سطح پر ٹینڈر ہونے چاہئیں تھے لیکن یہاں قانونی تقاضوں سے انحراف کیا گیا۔ بدعنوانی کے سبب خریداری نہ ہو سکی اور پاکستان قرضہ استعمال نہ کر سکا۔ معاہدے کے مطابق قرضہ استعمال نہ کرنے کی پاداش میں چینی بینک گزشتہ دو سال سے ہر روز پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ کرتا رہا ہے۔ اس طرح وہ پندرہ ملین ڈالر جو پاکستان نے جمع کروائے تھے وہ جرمانے کی مد میں ادا ہو گئے ہیں اور انجن بھی نہ منگوائے جا سکے۔ تین سال تک انجن نہ منگوانے پر حکومت چین بھی ناخوش ہے اور چینی بینک بھی ناراض۔ اب اگر عالمی سطح پر ٹینڈر دیئے جاتے ہیں تو حکومت چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور جو انجن 2009 میں چودہ لاکھ ڈالر کا مل رہا تھا اب کم سے کم 20 لاکھ ڈالر میں ملے گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ مقصد کرپشن اور نااہلی کی دیگ میں سے فقط نمونے کا ایک دانہ دکھانا تھا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس طرح کے حالات میں انسان کس طرح خوش رہ سکتا ہے اور کیونکر مسکرا سکتا ہے۔
دوسری خبر ہماری قومی بے حسی، ناشکری اور سرد مہری کی داستان تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک موثر اور متحرک ادارہ ہے جس کا دائرہ کار عالمی سطح پر تعلیم، ثقافت اور سائنس کے شعبوں پر محیط ہے۔ کوئی 193 ممالک اس کے رکن ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا تین سال منتخب رکن رہا ہوں اور یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا منتخب وائس چیئرمین رہا ہوں۔ درجن بھر اراکین پر مشتمل ایگزیکٹو بو رڈ یونیسکو کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی نگرانی کرتا ہے، منصوبوں اور حکمت عملی کی منظوری دیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں 1998 کے دوران یونیسکو کی ایک میٹنگ کے سلسلے میں پیرس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک روز دعوت نامہ ملا آج شام ہال میں ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دینے والے ماہرین کو انعامات دیئے جائیں گے۔ میں اس تقریب میں اس تاثر کے ساتھ شریک ہوا کہ 193 ممالک میں پاکستان کہاں کسی انعام کا حق دار ٹھہرے گا جبکہ ان ممالک میں فرانس برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، چین جیسے ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے حد خوشی بھی جب ایک پاکستانی سائنس دان کو انعام لینے کے لئے پکارا گیا۔ وہ انعام لے کر لوٹا تو میں نے اسے سینے سے لگا لیا، مبارک باد دی اور کہا کہ میں تمہارا ممنون ہوں تم نے عالمی سطح پر میرے ملک کا نام روشن کیا۔ اس سائنس دان کا نام تھا ڈاکٹر ریاض الدین اور وہ لاہور میں ایک سائنسی ادارے کا سربراہ تھا۔ وطن واپس لوٹا تو میں گورنر پنجاب کو ساتھ لے کر ڈاکٹر ریاض الدین کے ادارے میں پہنچا اور اس کی عزت افزائی کی۔
ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ادارہ جینز اور ڈی این اے کے حوالے سے ریسرچ کر رہا تھا اور ان کی تحقیق سے نہ صرف مجرموں کو پکڑا جا سکتا تھا بلکہ اس سے زرعی پیداوار میں بھی خاصا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ادارہ براہ راست وفاقی حکومت وزارت تعلیم کا حصہ تھا۔ وزارت تعلیم کا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر ریاض الدین کو سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک سے نہایت پُر کشش آفرز آ رہی تھیں لیکن وہ وطن کی خدمت پر مصر تھا۔ 27 اکتوبر کے دی نیوز میں ایک خبر پڑھ کر میں پریشان ہو گیا۔ میں 1999 کے بعد ڈاکٹر ریاض سے کبھی نہیں ملا۔
خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر ریاض الدین نے ہیپاٹائٹس کے مرض کے لئے ایک دوا ایجاد کی جس کی قیمت 70 روپے ہے جبکہ ہمارے ملک میں اس مرض کے لئے دستیاب دواﺅں کی قیمت 900 روپے ہے۔ میری اطلاع کے مطابق تجارت کے نام پر خون چوسنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈاکٹر ریاض کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس خبر کے مطابق یہ انجکشن ہمارے دو سائنس دانوں کی ریسرچ کا پھل تھا۔ چنانچہ انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور وزارت سائنس نے ان کے خلاف فنڈز میں بے ضابطگی پر انکوائری ایف آئی اے کے حوالے کر دی۔ مجھے دوران ملازمت بہت سے سائنس دانوں سے پالا پڑا ہے۔ مان لیا کہ انہیں حکومتی ضابطوں کا کلرکوں کی مانند علم نہیں ہوتا اور وہ بعض اوقات ضابطوں کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں لیکن اسے بے ایمانی نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ بھلا کرے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا کہ جس نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کو مجرموں کے خلاف اقدام کرنے کے لئے خط لکھا۔ ایف آئی اے کی انکوائری نے ان سائنس دانوں کو کلین چٹ دے دی لیکن اس دوران ملک میں ہیپاٹائٹس کے لئے جو سستے انجکشن بنائے گئے تھے ان کی معیاد گزر گئی اور ایک لاکھ ٹیکے بے کار ہو گئے۔ خبر کے مطابق بیرون ملک سے مہنگے ٹیکے منگوا کر قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ہم نے ان سائنس دانوں کی یوں قدر و منزلت کی کہ ان کی تنخواہیں دو سال بند کئے رکھیں اور ان کے نام مجرموں کی مانند ای سی ایل پر ڈال دیئے۔ یہی ڈاکٹر ریاض سنگا پور یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں چلا گیا ہوتا تو بے پناہ تحقیقی کام کرتا، کروڑوں کماتا اور عزت پاتا۔ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تحقیق کے لئے ماحول، وسائل اور سامان موجود ہے اور نہ ہم اپنے سائنس دانوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے بہترین دماغ امریکہ برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں جا رہے ہیں اور ہم خالی ہاتھ سائنسی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا جہان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں سائنسی تحقیق پر بے پناہ خرچ کرتی ہیں اور سائنسی ایجادات سے بے حساب کماتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی یہ شعور ہی پیدا نہیں ہوا اور ہم غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں رہی حکومت تو حکومت کے پاس سائنسی ریسرچ کے لئے نہ وسائل ہیں نہ ویژن اور نہ اہلیت.... سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیسے ترقی کریں گے اور کیسے آگے بڑھیں گے؟ جو قوم علم کی قدر و منزلت سے آشنا نہیں وہ علم کی روشنی سے کیسے منور ہو گی؟

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا

 (نوٹ) (منگل والے کالم میں میں نے لکھا تھا ”دل کو پوری طرح فتح کر لینا گویا دنیا کو فتح کرنے کے مترادف ہے۔“ کمپوزنگ کی غلطیاں معمول کی بات ہے لیکن اس فقرے کو ”دل کو پوری طرح فتح نہیں“ لکھ کر بے معنی بنا دیا گیا۔ قا رئین نوٹ کر لیں)

روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

جمعہ, ستمبر 07, 2012

چینی مقتدر طبقہ اور عیش و عشرت کی داستانیں

چین کی قیادت عنقریب تبدیل ہونے والی ہے۔ نئی حکومت میں عہدوں کے حصول کے لیے پس پردہ جاری جدوجہد کتنی شدید ہوچکی ہے، اس کا اندازہ مقتدر شخصیات کے شاہانہ طرز زندگی سے متعلق ایک تازہ سکینڈل سے ہوتا ہے۔

شروع شروع میں بات تیز رفتار کاروں، پیسے اور جنسی روابط تک ہی محدود تھی۔ قصہ تھا گزشتہ مارچ میں سیاہ رنگ کی ایک فیراری کار کو پیش آنے والے ایک حادثے کا، ایک پلے بوائے کا، جو اس حادثے میں ہلاک ہوگیا اور دو نوجوان خواتین کا، جو برہنہ حالت میں یا انتہائی مختصر لباس میں اس کار میں بیٹھی تھیں اور اس حادثے میں شدید زخمی ہوگئیں۔ تاہم گزشتہ چند روز سے یہ پتہ چلنے کے بعد کہ اس کار کو ڈرائیو کون کررہا تھا، یہ کار ایکسیڈنٹ ایک بڑے سیاسی سکینڈل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

مرنے والا شخص ایک سرکردہ پارٹی عہدیدار لِنگ جی ہُوا کا بیٹا تھا، وہی لِنگ جی ہُوا، جو موجودہ صدر اور پارٹی قائد ہو جن تاؤ کے سب سے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پتہ یہ چلا ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیں ہورہی تھیں کیونکہ ان کی وجہ سے پارٹی کی پہلے سے خراب ساکھ کو اور بھی زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔


نائب صدر سی جن پنگ
فیراری گاڑی کا حادثہ کئی ایک سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مثلاً یہ کہ پارٹی عہدیدار کے اس پلے بوائے بیٹے کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آ گئے کہ اُس نے لگژری کلاس کی ایک سپورٹس کار خرید لی؟ ہانگ کانگ کے با اثر اخبار کائی فَینگ کے مدیر اعلیٰ جِن ژَونگ کہتے ہیں:’’لِنگ جی ہُوا کا بیٹا ہو یا بُو ژیلائی کی حال ہی میں قتل کے الزام میں سزا پانے والی اہلیہ، یہ لوگ پارٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود کو حاصل مراعات سے فائدہ اٹھا کر غیرقانونی طور پر پیسہ کماتے ہیں۔ جتنی بڑی تعداد اس طرح کے کاموں میں ملوث ہے، اُس کا عشر عشیر بھی منظر عام پر نہیں آیا۔ پارٹی کے اندر اور باہر اس صورت حال پر کافی غم و غصہ اور بے چینی ہے۔‘‘

اس سکینڈل کی وجہ سے کار حادثے میں مرنے والے پلے بوائے کے والد لِنگ جی ہُوا کو، جو سنٹرل کمیٹی کے جنرل آفس کے انچارج کے اہم عہدے پر فائز تھے، اب ایک ضمنی عہدے پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ جنرل آفس کا نیا انچارج اُس شخص کو بنایا گیا ہے، جسے عنقریب ہو جن تاؤ کی جگہ نیا پارٹی قائد اور صدر بننے والے سی جِن پِنگ کا قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ 

جمعرات, اگست 30, 2012

چین: اعلٰی اہلکار لاکھوں ڈالر لے کر امریکہ فرار

چینں میں میڈیا کے مطابق ملک کے شمال مشرقی صوبے لیاؤننگ میں ایک سابق اعلٰی پارٹی عہدیدار لاکھوں ڈالر لے کر امریکہ فرار ہوگئے ہیں۔ اخبار پیپلز ڈیلی کے مطابق وانگ گاؤ کیانگ صوبہ لیاؤننگ کے شہر فینگ چینگ کے پارٹی سیکرٹری تھے جو اپریل میں اپنی اہلیہ کے ساتھ امریکہ چلے گئے۔اخبار نے سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے بتایا کہ وانگ گاؤ کیانگ کو بدعنوانی کے الزمات کے تحت عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور ان کے خلاف تحقیقات ہورہی تھیں۔

کئی اطلاعات کے مطابق وہ بیس کروڑ یوان یعنی تین کروڑ پندرہ لاکھ امریکی ڈالر ساتھ لے گئے ہیں۔ مقامی سرکاری اہلکاروں نے وانگ گاؤ کیانگ کے خلاف خرد برد اور رقم امریکہ لے جانے کے الزامات کے بارے کچھ زیادہ تفصیل نہیں بتائی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ گاؤ کیانگ کا خاندان امریکہ میں مقیم ہے۔ منظر عام پر آنے سے پہلے اس سکینڈل کے متعلق افواہیں کچھ عرصہ انٹرنیٹ پر گردش کرتی رہی تھیں۔ شہر کی ویب سائٹ کے مطابق شہر کے ناظم یان چوان نے فینگ چینگ کے پارٹی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا۔

چین کے وزیرِاعظم وین جیاباؤ اس سے پہلے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ بدعنوانی ہے۔

بیجنگ میں بی بی سی کے نامہ نگارمارٹن پیشنس کے مطابق سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے چینی عوام میں سخت غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑے رہنماؤں کا معاشی احتساب نہیں ہوتا جب کہ چھوٹے لیڈر سکیینڈلوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔

گذشتہ برس چین کے مرکزی بینک نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک سو بیس ارب سے زیادہ امریکی ڈالر بدعنوان سرکاری اہلکار بیرونِ ممالک لے اُڑے ہیں جن کی اکثریت نے امریکہ کا رخ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے لے کر دو ہزار آٹھ تک سرکاری کمپنیوں کے سولہ سےاٹھارہ ہزار تک ملازمین خرد برد کر کے ملک چھوڑ چکے ہیں۔

چین: اعلٰی اہلکار لاکھوں ڈالر لے کر امریکہ فرار