ہفتہ, جون 30, 2012

ہاتھ دھونے سے انسان کے قوت فیصلہ میں آسانی


جدید طبی اور نفسیاتی تحقیق کے مطابق ہاتھ دھونے سے صرف صحت پر ہی مثبت اثرات نہیں ہوتے بلکہ اخلاقی سطح پربھی اس کے اثرات دیکھے گئے ہیں۔ اسلام میں صفائی نصف ایمان اور دیگر مذاہب میں جسم کی صفائی پر اسی لئے زور دیا گیا ہے کہ ہاتھ دھونے سے قوت فیصلہ میں اضافہ ہوسکتا ہے اور انسان خود کو زیادہ پراعتماد محسوس کرتا ہے۔ 

برطانوی سائنس دانوں نے کہا کہ کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اگر ہاتھ دھو لئے جائیں تو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ سائنس دانوں نے جرائم سے متعلق فیصلے کرنے والی جیوری کی سفارش کی ہے کہ وہ اس عمل سے استفادہ کرسکتے ہیں جبکہ ووٹر ووٹ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھولیں تو درست فرد کے انتخاب میں آسانی محسوس کریں گے۔ 

ایک تجربے کے دوران ۲۲ افراد کے ہاتھ دھلا کر اور ۲۲ افراد کے بغیر ہاتھ دھوئے ان کو منشیات کی سمگلنگ پر مشتمل ایک فلم دکھائی گئی۔ فلم دیکھنے کے بعد تمام افراد نے اس فلم کو برا قرار دیا اور سمگلروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر زور دیا مگر ہاتھ دھونے والے افراد نے منشیات سمگل کرنے والی وجوہات کو بھی سامنے لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ 
یہ تحقیق یونیورسٹی آف پلی ماوتھ کی طبی اور نفسیاتی ماہر ڈاکٹر سیمونی سچنل نے مرتب کی۔ جس کو ۱۰۰ سے زائد مختلف تجربوں کے بعد سامنے لایا گیا تھا۔ اس تحقیق کے نتائج کو لان کیسئر یونیورسٹی کے سائیکالوجسٹ پروفیسر کیری کوپر نے ”خوفناک“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”واقعی صفائی ہمیں بہت سے غلط فیصلوں سے بچا سکتی ہے‘‘۔

معمولات میں تبدیلی، صحت مند زندگی

ڈاکٹر خالد کاظمی

بہت کم لوگ ایسے ہیں، جو اعصاب شکن مصروفیات کے بعد بھی تروتازہ دکھائی دیتے ہیں۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثریت دفتروں میں زیادہ وقت کرسی پر بیٹھ کر ہی گزارتی ہے۔ ماحول اگر آئیڈیل نہ ہو تو انسان یکسانیت کا شکار ہوجاتا ہے اور طبیعت پر پژمردگی چھا جاتی ہے۔
 
اگر آپ خود پر تھوڑی سی توجّہ دیں تو دفتری کام کاج کے باوجود تروتازہ اور ہشّاش بشّاش رہا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ناشتا بھرپور کیجیے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جلدی بھوک نہیں لگے گی، دوسرے، آپ چاکلیٹ، چھولے، سنیکس و دیگر غیرضروری چیزوں سے پرہیز کریں۔

ایک اچھے ناشتے سے مراد۔ اناج، دلیہ، دودھ، انڈا وغیرہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے ڈاکٹر نے مخصوص چیزوں پر پابندی نہیں لگا رکھی تو آپ اپنی پسند کے مطابق کھانے پینے کی ہر شے استعمال کرسکتے ہیں۔ توانائی حاصل کرنے کے لیے ”دہی“ بھی ایک عمدہ غذا ہے۔جسمانی توانائی کے حصول کے بعد اعصابی توانائی کا حصول باقی رہ جاتا ہے۔ آپ طالب علم ہیں یا ملازمت پیشہ، خاتونِ خانہ ہیں۔ دفتر میں کام کرتے ہیں، دکان دار ہیں یا کسی اور پیشے سے منسلک، آپ جو بھی کام کریں گے، اس میں توانائی تو بہرحال خرچ ہوگی۔ اگر ذہنی کام یا مصروفیات کچھ زیادہ ہیں تو تھکان یا اعصابی تناؤ کا ہونا لازمی امر ہے۔ ذیل میں ہم آپ کے لیے خوش و خرم رہنے کی کچھ ٹپس درج کررہے ہیں۔
 
دفتر میں ممکن ہو تو حرکت کرتے رہیں اور ہر پندرہ، بیس منٹ کے بعد اُٹھ کر پوزیشن تبدیل کرلیں۔ دوستوں اور ساتھیوں سے مختصراً بات چیت بھی کرتے رہیں۔ چپڑاسی سے پانی منگوانے کی بجائے خود پانی لا کر پییں۔ اس طرح خون کی گردش معمول پر رہے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مستقل ایک ہی انداز میں ہرگز بیٹھے نہ رہیں۔ گھنٹوں مسلسل ایک ہی انداز میں بیٹھے رہنے سے آپ زیادہ تھک سکتے ہیں اور آپ کتنے ہی توانا کیوں نہ ہوں، تھکاوٹ بہرحال محسوس کریں گے۔ اگر آپ دفتر میں چل پھر نہیں سکتے تو کھڑے ہوکر، ہاتھوں اور بازوؤں کو ورزش کے انداز میں پھیلا سکتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جسم پر چھایا ہوا جمود ٹوٹ جائے۔

دفاتر میں کام کرنے والے خواتین و حضرات کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک جگہ نظر جما کر کام کرنے سے آنکھوں میں تھکاوٹ اور جلن سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس طرح اعصاب بری طرح متاثر ہوتے ہیں، رفتہ رفتہ بینائی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔ آنکھوں کی قدرتی اور فطری چمک غائب ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے ایک پینسل یا پین لیں اور آنکھوں سے تقریباً آٹھ انچ کے فاصلے پر رکھ لیں۔ اس کو دیکھیں، پھر تقریباً پانچ سیکنڈ کے بعد پینسل سے نظریں ہٹا کر کسی دور کی چیز کو دیکھیں۔ یہ عمل کئی بار کریں۔ بار بار کے اس عمل سے آنکھوں کی ہلکی سی ورزش ہوگی اور کچھ ہی دنوں میں آنکھیں پہلے سے زیادہ روشن و چمک دار ہوجائیں گی اور تھکاوٹ بھی نہیں ہوگی۔

اکثر لوگ کرسی پر بیٹھے بیٹھے فربہ ہوجاتے ہیں، خاص طور سے خواتین۔ اکثریت کی رانیں بھدّی ہوجاتی ہیں۔ ان کو معمول پر لانے کے لیے ایک سہل سی ورزش کیجیے۔ کاغذ کا ایک ٹکڑا کرسی پر بیٹھے بیٹھے دونوں رانوں کے درمیان میں دبا لیں اور تقریباً ۲۰سیکنڈ کے بعد رانوں کو ڈھیلا چھوڑ دیں۔ یہ عمل بار بار کیجیے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ کی بھدی رانیں سڈول ہوجائیں گی۔ اس کے علاوہ کرسی پر تن کے سیدھے بیٹھیں اور جب بھی محسوس ہونے لگے کہ جُھک رہے ہیں تو پھر سے سیدھے بیٹھنے کی کوشش کریں۔ اس دوران گہری سانسیں لیتے رہیں۔ گہری سانس لینے سے توانائی ذخیرہ ہوتی ہے اور آپ چاق چوبند ہوجاتے ہیں۔

گھر ہو یا دفتر، پانی زیادہ پیئیں، پیاس نہ بھی ہو تو دن بھر میں کم از کم دس بارہ گلاس پانی پینا ضروری ہے۔ پانی جسم کی محض ضرورت ہی نہیں، یہ حسن و دل کشی اور تازگی بھی فراہم کرتا ہے اور گہرے سانس لینے کی عادت سے آکسیجن جسم کے باریک ترین خلیوں میں بہ آسانی پہنچ جاتی ہے جو آپ کو تروتازہ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

چائے خون کا بہاؤ بہتر بناتی ہے

چائے دل کی طرف خون کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے۔ جاپان کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ کالی چائے پینے سے خون کا بہاؤ دل کی جانب بہتر ہوجاتا ہے اور دل کے امراض کے خطرات کم ہوسکتے ہیں۔ اوساکا سٹی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کالی چائے کولیسٹرول کی سطح کو نارمل رکھنے، خون میں لوتھٹرے کم کرنے اور خون کی نالیوں کو تنگ ہونے سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

طبی ماہرین نے اس تحقیق کو مکمل کرنے کیلئے ۱۰صحت مند افراد کوچائے پلانے کے بعد ان کی خون کے بہاؤ کو نوٹ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خون کی گردش پہلے سے زیادہ بہتر ہوگئی ہے۔ جاپانی طبی ماہرین نے اس تجربے کو بنیاد بناکر جب مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کالی چائے نہ صرف دل کی شریانوں کوتنگ ہونے سے روکتی ہے بلکہ انہیں لچکدار اور بہتر بہاؤ کے قابل بھی بناتی ہے۔ اس مقصد کے طبی ماہرین نے الٹرا ساونڈ کی ایک خصوصی تکنیک کو استعمال کیا تھا، جس کو ”سی ایف وی آر“ کہا جاتا ہے۔ طبی ماہرین نے چائے کے ساتھ کیفین ملے دوسرے مشروبات پربھی تجربات کیے تھے مگر چائے کو سب سے مجرب پایا۔


اسی بارے میں مزید

سرطان کی روک تھام کے لیے پاکستانی چائے

گردے کے مریض اور گرمیوں میں پانی کا استعمال


گردے میں پتھری کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ گرمیوں میں زیادہ دیر تک دھوپ میں نہ رہیں۔ جسم سے پسینہ زیادہ خارج ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت گردہ فیل ہوسکتا ہے۔ گرمیوں میں گردوں کے امراض زیادہ شدید ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ہونے والی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ گردے کے مریضوں کو گرمیوں میں زیادہ پانی پینا چاہیے تاکہ جسم میں پانی کی کمی واقع نہ ہو۔ 

امریکن فاونڈیشن فاریورالوجیک ڈیزیز کے زیر اہتمام ہونے والی اس تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے جو لوگ فیلڈ میں کام کرتے ہیں، اگر وہ گرمیوں میں پانی کی مناسب مقدار نہیں لیتے تو ان کے گردے خراب ہونے کے امکانات میں ۶۵ فی صد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ منہ کے ذریعے پیا جانے والا پانی جسم میں جہاں پانی کی مقدار اور سطح کو نارمل رکھتا ہے وہاں گردوں کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ 

کڈنی فاونڈیشن آف کینیڈا نے تو یہاں تک تجویز کیا ہے کہ ہر ایک گھنٹے بعد ایک گلاس پانی پیا جانا چاہیے تاکہ گردوں کی صفائی کا کام متواتر جاری رہے۔ 

تحقیقی رپورٹ میں گردوں میں پتھر بننے کی متعدد وجوہات بھی درج کی گئی ہیں مگر ان میں سب سے زیادہ زور پانی نہ پینے کی خطرناک عادت پر دیا گیا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ پانی واحد شے ہے جس سے گردے صحت مند رہتے ہیں۔

وٹامن سی اور ذیابیطس

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ روز مرہ کی خوراک میں وٹامن سی کا بھر پور استعمال ذیابیطس لاحق ہونے کے خطرے کو روک دیتا ہے۔ اس تحقیق سے قبل پھلوں اورسبزیوں کے استعمال سے ذبابیطس میں کمی کے شواہد بھی مل چکے ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والی اس تحقیق میں ۲۱۸۳۱ صحت مند مرد اور خواتین جن کی عمریں ۴۰ سے ۷۰ سال کے درمیان تھیں، کا تجزیہ کرنے کے بعد دیکھا گیا کہ وٹامن سی کا استعمال کرنے اور پھلوں اور سبزیوں کو روزانہ کھانے والوں میں ذیابیطس کے مرض سے بہت ہی کم خطرات لاحق تھے۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پھل اور سبزیوں قدرتی طور پر وٹامن سی کا ذریعہ ہیں، جبکہ وٹامن سی پر مشتمل سپلیمنٹ بھی اس عمل میں مفید ثابت ہوتے ہیں مگر ان میں شامل دیگر مصنوعی اجزاء کی وجہ سے ان کی افادیت نسبتاً کم ہوتی ہے۔

سبزیوں اور پھلوں کا استعمال

ڈاکٹر احمد اختر قادری

انار کے دانے ہمیشہ اس کی جھلّی کے ساتھ کھانے چاہییں، جو دانوں پر لپٹی ہوتی ہے، یہ مقویِ معدہ یعنی معدے کو طاقت دینے والی ہے۔

کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو خوب دھو دیتا ہے اور بیماریوں کو جڑ سے ختم کردیتا ہے۔

سبزی، پھل اور اناج میں موجود غذائیت کا ”محافظ“ اس کا چھلکا ہوتا ہے لہٰذا جو چیز چھلکے کے ساتھ بہ آسانی کھائی جاسکتی ہے، اُس کا چھلکا نہیں اُتارنا چاہیے۔ جس پھل یا سبزی کا چھلکا بہت سخت ہو، اُس کی بھی صرف ہلکی سی تہ، وہ بھی آہستہ آہستہ اُتارنی چاہیے۔ چھلکا جس قدر موٹا اُتاریں گے، اتنے ہی وٹامنز اور قوّت بخش اجزاء ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

بیرونی ممالک میں رہنے والے اکثر، ٹِن پیک غذائیں استعمال کرتے ہیں، ان غذاؤں کا مسلسل استعمال مضرِ صحت ہے۔ پراسیس کردہ ٹِن پیک غذاؤں کو محفوظ کرنے کے لیے ”سوڈیم نائٹریٹ“ نامی کیمیکل ڈالا جاتا ہے۔ اس کا مسلسل استعمال جسم میں سرطان کی گانٹھ (Cencer Tumer) بناتا ہے۔

پھلوں کا استعمال؛
سیب، چیکو، آڑو، آلوچہ، املوک اور کھیرے کو چھیلے بغیر کھانا نہایت مفید ہے، کیوں کہ چھلکے میں بہترین غذائی ریشہ (فائبر) ہوتا ہے۔ غذائی ریشے، بلڈ شوگر، بلڈ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کم کرکے قبض کھولتے ہیں۔ یہ نہ صرف غذا سے زہریلے مادّوں کو خارج کرتے ہیں بلکہ بڑی آنت کے کینسر سے بھی بچاتے ہیں۔

سبزیوں کا استعمال؛
کدّو، شکرقند، چقندر، ٹماٹر، آلو وغیرہ چھلکے سمیت کھانے چاہیئیں، ان کا چھلکا کھانا مفید ہے۔ گودے والے پھل مثلاً پپیتا، امرود، سیب وغیرہ اور رس والے پھل مثلاً موسمی، سنگترہ وغیرہ ایک ساتھ نہیں کھانے چاہیئیں۔ پھلوں کے ساتھ چینی یا مٹھائی کا استعمال نقصان دہ ہے۔ مختلف پھلوں کی ٹکڑیاں کرکے چاٹ مسالا ڈالنے میں حرج نہیں، مگرچینی نہ ڈالی جائے۔ کھیرا، پپیتا اور تربوز کھانے کے بعد پانی نہ پیا جائے تو بہتر ہے۔

ابلی ہوئی سبزی کھانا بہت مفید ہے کہ یہ جلدی ہضم ہو جاتی ہے۔ سبزی کے ٹکڑے اُسی وقت کیے جائیں، جب پکانی ہو۔ پہلے سے کاٹ کر رکھ دینے سے اُس کے قوّت بخش اجزاء رفتہ رفتہ ضائع ہوجاتے ہیں۔ تازہ سبزیاں، وٹامنز، نمکیات اور معدنیات وغیرہ کے اہم عناصر سے لبریز ہوتی ہیں، مگر جتنی دیر تک رکھی رہیں گی، اتنے ہی وٹامنز اور مقوّی اجزاء ضائع ہوتے چلے جائیں گے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جس دن کھانا ہو، اسی دن تازہ سبزیاں خریدی جائیں۔ انہیں پکانے میں پانی کم سے کم ڈالنا چاہیے، کیوں کہ پانی سبزیوں کے حیات بخش اجزاء کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح آلو، شکرقند، گاجر، چقندر وغیرہ اُبالنے کے بعد بچا ہوا پانی ہرگز نہ پھینکا جائے۔ اسے استعمال کرلینا فائدہ مند ہے، کیونکہ اُس میں ترکاریوں کے مقوّی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ سبزیوں کو زیادہ سے زیادہ ۲۰منٹ میں اُبال لینا چاہیے۔ خاص طور پر سبز رنگ کی ترکاریاں تو دس منٹ کے اندر اندر چولہے سے اُتار لی جائیں تو صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ زیادہ دیر پکانے سے سبزیوں کے حیات بخش اجزاء ضائع ہوجاتے ہیں، بالخصوص وٹامن سی کے اجزا زیادہ دیر پکانے سے بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔

ترکاری یا کسی قسم کی غذا پکاتے وقت آگ درمیانی ہونی چاہیے۔ اس سے غذا اندر تک صحت بخش اور لذیذ بنتی ہے۔ چولہے سے اتارنے کے بعد ڈھکن کو بند رکھنا چاہیے۔ بھاپ کے اندر غذا پکنے کا عمل نہایت مفید ہے۔ لیموں کی بہترین قسم وہ ہے، جس کا رس رقیق اور چھلکا ایک دم پتلا ہو، عام طور پر اسے کاغذی لیموں کہتے ہیں۔ لیموں کو آم کی طرح گھولنے کے بعد، چوڑائی میں کاٹنا چاہیے۔ اس کے کم از کم چار اور اگر ذرا بڑا ہو تو آٹھ ٹکڑے کر لیجیے، اس طرح نچوڑنے میں آسانی رہے گی۔ لیموں کا ٹکڑا اس قدر نچوڑیں کہ سارا رس نچڑ جائے، ادھورا نچوڑ کر پھینک دینا وٹامنز کو ضائع کرنا ہے۔ کچی سبزیاں اور سلاد کھانا مفید ہے کہ یہ وٹامنز سے بھرپور، صحت بخش اور قبض کشا ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق اکثر سبزیاں پکانے سے ان کی غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ تازہ سبزی کا استعمال مفیدجب کہ باسی سبزیاں نقصان کرتی اور پیٹ میں گیس بھرتی ہیں، ہاں آلو، پیاز،لہسن وغیرہ تھوڑے دن رکھنے میں حرج نہیں۔

  • موسمی، سنگترہ، کینو وغیرہ کاموٹا چھلکا اتارنے کے بعد بچی ہوئی باریک جھلّی کھا لینا صحت کے لیے مفید ہے۔
  • اُبلے ہوئے یا بھاپ میں پکائے ہوئے کھانے اور سبزیاں زیادہ مفید اور زُود ہضم ہوتے ہیں۔
  • بیمار جانور کا گوشت فوڈ پوائزنگ اور بڑی آنت کے کینسر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
  • ہاف فرائی انڈا اچھی طرح فرائی کر کے کھانا چاہیے اور آملیٹ اس وقت تک پکانا چاہیے، جب تک خشک نہ ہوجائے۔ انڈہ اُبالنا ہو تو کم از کم سات منٹ تک اُبالا جائے، ورنہ مضرِ صحت ہوسکتا ہے۔
  • کالے چنوں کا استعمال صحت کے لیے مفید ہے۔ ابلے ہوئے ہوں یا بھنے ہوئے، ان کے چھلکے بھی کھا لینے چاہیئیں۔ ایک ہی وقت میں مچھلی اور دودھ کا استعمال نقصان دہ ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹیک ادویہ استعمال کرنے کے بعد دہی کھا لینا مفید ہے، اس طرح جو اہم بیکٹریا ختم ہوتے ہیں وہ دوبارہ بحال ہوجاتے ہیں۔
  • کھانے کے فوراً بعد چائے یا ٹھنڈی بوتل، نظامِ انہضام کو متاثر کرتی ہے، اس سے بدہضمی اور گیس کی شکایت ہو سکتی ہے۔ 
  • کھانا کھانے سے پہلے اور تقریباً دو گھنٹے کے بعد ایک دو گلاس پانی پی لینا نہایت مفید ہے۔ چاول کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے کھانسی ہوسکتی ہے۔
  • کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے پھل کھا لینا چاہیے، کھانے کے فوراً بعد پھل کھانا مضر صحت ہے۔ آج کل کھانے کے فوراً بعد پھل کھانے کا رواج ہے، جو بیماریوں کا سبب ہے۔ میٹھی ڈشز، مٹھائیاں اور میٹھے مشروبات کھانے سے کم از کم آدھے گھنٹے قبل یا درمیان میں استعمال کیے جائیں، کھانے کے بعد ان کا استعمال نقصان دہ ہے۔ جوانی ہی سے مٹھاس اور چکناہٹ والی چیزوں کا استعمال کم کر دینے سے بڑھاپے میں طاقت اور توانائی بحال رہتی ہے۔

نوزائیدہ بچے کو دودھ پلانا

بچے کی ولادت کے پہلے ہفتے کے دوران ماؤں کو اپنا دودھ پلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر ان ماؤں کے لئے جن کا پہلا بچہ ہو۔ ایک ہفتہ تک ماں کو بچے کی پوزیشن گود میں لینے کے طریقے سے آشنائی حاصل کرنا پڑتی ہے تو دوسری جانب بچے کو دودھ پینے کی پریکٹس سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران اگر صبر وتحمل کے ساتھ کام لیا جائے تو بچہ دودھ پینا کامیابی سے سیکھ لیتا ہے۔ 

جریدے ”برٹش“ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چھاتی سے دودھ پلانے کی مختلف تکنیکس اور معلومات کے متعلق ماؤں کو قبل از وقت آگاہی حاصل کرنی چاہے۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پہلے ہفتے کسی بھی مصنوعی طریقے سے بچے کو دودھ پلانے کی کوشش بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

موٹی خواتین کے ہاں جنم لینے والے بچوں کی صحت

جدید طبی تحقیق کے مطابق موٹی خواتین کے ہاں جنم لینے والے بچے دبلی پتلی خواتین کے بچوں کی نسبت کم صحت مند ہوتے ہیں۔ موٹی خواتین کو دوران زچگی زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے پیدا ہونے والے بچوں میں ہونٹ اور تالو کے نقائص، دل اور سانس کی بیماریاں، ہڈیوں کے ڈھانچے میں نقائص، نشوونما کی شرح میں کمی اور سماعت و بصارت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ 

امریکن جنرل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ موٹاپا صحت کا بڑا دشمن ہے جو زچہ بچہ کیلئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ نیوکسیٹیل یونیورسٹی اور کتھیرینا سٹور ٹرڈ کے تعاون سے منعقد ہونے والی اس تحقیق میں زیادہ وزن والی ماؤں کو خبردار کیا ہے کہ ”نیچرل ٹیوب ڈیفیکٹ“ کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچوں میں دماغی معذوری اور ریڑھ کی ہڈی میں نقص سے جسمانی معذوری کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

بزرگوں کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے

جدید طبی اور نفسیاتی تحقیق کے مطابق چائلڈ کیئر سنٹر اور نرسری میں پرورش پانے والے بچوں کی نسبت گھروں میں دادا، دادی، نانا، نانی، یا کسی بزرگ کے زیر سایہ پرورش پانے بچے زیادہ ذہین اور مستعد ہوتے ہیں۔ ۳ سال سے کم عمر بچوں پر کی جانے والی تحقیق میں بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے متعلق مسائل اور جسمانی نشوونما کو دیکھا گیا تھا۔ 

ماہرین نے اس خیال سے اتفاق کیا ہے کہ گھر کے بزرگ زیادہ توجہ اور شفقت سے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ۴۸۰۰ بچوں پر یہ تحقیق انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن یونیورسٹی آف لندن میں شروع کی گئی تھی۔ اس تحقیق کے پہلے مرحلے میں ایک سے تین سال، دوسرے مرحلے میں تین سے ۱۳سال اور آخر میں ۱۴سے ۲۰ سال کے نوجوانوں کے رویوں کا تعلق بچپن میں پرورش سے جوڑ کر دیکھا گیا تھا۔

بچوں کے لئے دودھ سے تیار شدہ خوراک کا استعمال

بچوں کے لئے دودھ سے تیار شدہ خوراک کا استعمال نہایت ضروری ہے، اس لئے کہ سکول جانے سے پہلے اور سکول جانے کے دوران بچوں کو دن میں دو یا دو سے زائد مرتبہ دودھ سے تیار کی گئی خوراک کھلانے سے ان کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور وہ کھیل کود میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 

طبی ماہرین کے مطابق ۵ سال تک اس عمل کو جاری رکھنے سے ہڈیوں کی بنیادی تیاری مکمل ہوجاتی ہے۔ 

طبی ماہرین نے اس تحقیق کے دوران دیکھا کہ جو بچے دودھ سے تیار شدہ مصنوعات کا استعمال کم کرتے ہیں یا دودھ نہیں پیتے ان کی ہڈیوں کی نشوونما میں کمی رہ جاتی ہے۔ طبی ماہرنی نے اپنی تحقیق میں پروٹین، کیلشیم، فاسفورس اور وٹامن ڈی کی سطح کو بنیاد بنایا تھا۔

کھانا کھانے کے آداب

کھانا کھانے کے دوران لقمہ گر جائے تو کیا کریں؟


حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے، پس (کھانے کے دوران) لقمہ ہاتھ سے گر جائے تو اس پر جو چیز لگ جائے اس سے لقمہ کو صاف کرکے کھا لے اور اسے شیطان کے لئے نہ چھوڑے‘‘۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ نے اس سلسلے میں دو عجیب واقعے لکھے ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دن ہمارے احباب میں سے ایک صاحب ملاقات کے لئے تشریف لائے ہم نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا، کھانے کے دوران ایک ٹکڑا ان کے ہاتھ سے گرگیا اور زمین پر لڑکھڑانے لگا وہ صاحب اس کو پکڑنے لگے تو وہ جوں جوں اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے وہ لقمہ ان کے ہاتھ سے دور ہوتا جاتا، بالآخر انہوں نے پکڑ لیا اور کھا لیا۔ چند دن بعد ایک شخص کے اوپر جن کا سایہ ہوگیا اور وہ شخص جن کے سحر میں گرفتار ہوگیا جن اس شخص کی زبان سے باتیں کرنے لگا منجملہ دوسری باتوں کے اس نے ایک بات یہ کہی کہ میں فلاں فلاں آدمی کے پاس سے گزرا وہ کھانا کھا رہا تھا، مجھے وہ کھانا اچھا لگا لیکن اس شخص نے اس میں سے کچھ نہیں دیا میں نے اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا، اس شخص نے مجھ سے کشا کشی کی یہاں تک اس نے مجھ سے وہ کھانا لے لیا۔ 
دوسرے واقعے میں شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے گھر میں لوگ گاجر کھا رہے تھے اچانک ایک گاجر لڑکھڑانے لگی ایک شخص نے اس کو شتابی سے پکڑ کر کھا لیا گاجر کھاتے ہی اس کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا پھر اس پر جن آگیا وہ جن اس کی زبان سے بولا کہ وہ گاجر میں کھانا چاہتا تھا اور اس شخص نے مجھ سے وہ گاجر چھین کر خود کھالی۔

سورۃُ الملک عذاب قبر سے بچانے والی

قبروں سے آواز آرہی ہے: اے دنیا میں رہنے والو! تم نے ایسا گھر آباد کررکھا ہے جو بہت جلد تم سے چھن جائے گا اور اس گھر کو اجاڑ رکھا ہے جن میں تم تیزی سے منتقل ہونے والے ہو۔ تم نے ایسے گھر آباد کررکھے ہیں جن میں دوسرے رہیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے اور وہ گھر اجاڑ رکھے ہیں جن میں تمہیں دائمی زندگی گزارنی ہے۔ دنیا دوڑ دھوپ کرنے اور کھیتی کی پیداوار مہیا کرنے کا گھر ہے اور قبر عبرتوں کا مقام ہے یہ یا تو جنت کا کوئی باغ ہے یا جہنم کا کوئی خطرناک گڑھا!
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ایک صحابی نے لاعلمی میں ایک قبر پر خیمہ گاڑھ لیا۔ اندر سے سورہ ملک پڑھنے کی آواز آئی۔ صاحب قبر نے اول سے آخر تک اس سورہ کی تلاوت کی۔ آپ نے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر یہ واقعہ بیان کیا۔ فرمایا۔ یہ سورہ عذاب قبر کو روکنے والی اور اس سے نجات دینے والی ہے۔ 
(ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شخص سے کہا: کیا میں تمہیں ایک حدیث بطور تحفہ نہ سناؤں، تم اسے سن کر خوش ہوگے؟ وہ شخص بولا: ضرور سنائیے۔ فرمایا: سورہ ملک پڑھا کرو اسے تم بھی یاد کرلو اور اپنے بیوی بچوں کو بھی یاد کرادو اور اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے بچوں کو بھی یاد کرادو، کیونکہ یہ نجات دلانے والی اور جھگڑنے والی ہے۔ یہ قیامت والے دن اپنے پڑھنے والے کے لئے رب سے جھگڑے کرے گی۔ اگر وہ جہنم میں ہوگا تو رب سے درخواست کرے گی کہ آپ اسے جہنم کے عذاب سے بچا دیں۔ اللہ پاک اس کی وجہ سے عذاب قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ سورہ ملک میری امت کے ہر فرد کو یاد ہو (عبد بن حمید) 
یہ صحیح حدیث ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ۳۰ آیتوں والی سورہ ملک نے اپنے پڑھنے والے کی یہاں تک سفارش کی حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (ابن عبدلبر)