جمعہ, ستمبر 14, 2012

پانچ سو روپے کی موت!

بارہ ستمبر کو لاہور اور کراچی کی دو فیکٹریوں میں جل مرنے والے 310 سے زائد محنت کش اگر ان فیکٹریوں میں نا بھی مرتے تو گیٹ سے باہر نکلتے ہی غفلت، بے حسی اور بدعنوانی کی رسیوں سے بٹے موت کے کسی اور جال میں پھنس کر مر جاتے۔

اگر یہ کارکن کسی کوئلہ کان کےمزدور ہوتے تو بغیر حفاظتی آلات کے زیرِ زمین سیاہ دیواروں کا لقمہ بنتے۔ ویسے بھی پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اوسطاً سالانہ ایک سو افراد کا ہلاک ہونا قطعاً غیر معمولی خبرنہیں۔

گذشتہ برس کی ہی تو بات ہے جب بلوچستان میں کوئلے کی ایک کان میں 45 اور دوسری کان میں 15 مزدور پھنس کے مرگئے۔ شاید ہی کوئی مہینہ ہو جو اپنے ساتھ ایک دو کان مزدور نہ لے جاتا ہو۔ زخمی تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔

اگر یہ مزدور کسی بھی فیکٹری یا کان میں نہ ہوتے اور تلاشِ روزگار میں کسی مسافر ویگن میں جا رہے ہوتے تب بھی زندہ روسٹ ہوجاتے۔ جیسے گذشتہ برس وہاڑی میں ایک مسافر وین کا گیس سلنڈر پھٹنے سے اٹھارہ، خیرپور کے نزدیک سٹھارجہ میں تیرہ، گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب چھ، اور شیخوپورہ میں اب سے تین ماہ پہلے سکول وین کا سلنڈر پھٹنے سے پانچ خواتین ٹیچرز اور ایک بچہ زندہ جل گیا۔

اور کسی ایک سال کے دوران گنجان رہائشی علاقوں میں قائم سینکٹروں غیرقانونی دوکانوں میں بکنے والے مائع گیس اور سی این جی سلنڈر پھٹنے کے حادثات سے ہونے والے املاکی و جانی نقصان کا تذکرہ اگر لے بیٹھوں تو یہ مضمون فہرست کی تپش سے ہی جل جائے گا۔

ایسے واقعات پر نگاہ رکھنے والی ایک این جی او سول سوسائٹی فرنٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2011 میں صرف گیس سلنڈر پھٹنے سے پاکستان میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گذشتہ برس ڈرون حملوں سے مرنے والوں کے مقابلے میں چار گنا زائد ہے۔

مگر ڈرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اگر سی این جی سے چلنے والی بسوں اور ویگنوں میں سفر نہ بھی کریں یا گنجان آبادی میں مائع گیس یا آتش بازی کا سامان فروخت کرنے والی موت کی دوکانوں سے بچ کر بھی گذر جائیں تب بھی شاید جہان سے گذر جائیں۔ زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ سڑک بھی پار نہ کریں، موٹر سائیکل بھی نہ چلائیں اور کار سے بھی اتر جائیں۔ اگر کسی بدمست مسافر ویگن، بس یا مال بردار ٹرک نے کچل دیا یا کسی ٹرالر کا کنٹینر آپ پر پھسل گیا تو قاتل ڈرائیور پر زیادہ سے زیادہ غفلت کا مقدمہ قائم ہوجائے گا۔ آپ نے ایسے کتنے ڈرائیوروں پر 302 کا کیس بنتے دیکھا یا سنا ہے؟ آخر پاکستان کی سڑکوں پر ہر سال آٹھ سے دس ہزار آپ جیسے یونہی تو نہیں مرجاتے۔

لیکن آپ سڑک بھی پار نہ کریں، کسی سی این جی والی وین میں بھی نہ بیٹھیں اور صرف ایک عام سی بس میں سفر کریں تو بچنے کا کوئی امکان ہے؟ یاد کریں گذشتہ برس ستمبر میں کلر کہار موٹر وے پر فیصل آباد کے سکولی بچوں کو پکنک سے واپس لانے والی بس کے ساتھ کیا ہوا۔ کیا 70 مسافروں کی گنجائش والے اس گردشی تابوت میں 110 بچے اور اساتذہ نہیں ٹھونسے گئے تھے؟ اور جب فٹنس سرٹیفکیٹ یافتہ اس تیس برس پرانی بس کے بریک جواب دے گئے اور وہ کھائی میں گر گئی تو اس کھائی سے 37 لاشیں اور 70 زخمی کیسے نکالے گئے؟ اس واقعے کو ایک برس ہوگیا۔ اس دوران اگر کسی کو سزا ملی ہو یا مقدمے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہو تو مطلع فرما کے شکریے کا موقع دیں۔

اب آئیے نجی و سرکاری عمارات میں آتش زدگی سے بچاؤ کی سہولتوں کی طرف۔ پاکستان کے اقتصادی و افرادی انجن یعنی کراچی میں اس وقت جتنی بھی قانونی و غیرقانونی کمرشل یا رہائشی عمارات کھڑی ہیں، ان میں سے 65 فیصد عمارات میں نہ باہر نکلنے کے ہنگامی دروازے ہیں، نہ ہی آگ بجھانے کے آلات۔ جن عمارات میں آگ بجھانے کے سرخ سلنڈر نمائشی انداز میں لٹکے ہوئے ہیں، ان عمارات کے بھی سو میں سے ننانوے مکین نہیں بتا سکتے کہ بوقتِ ضرورت یہ آلات کیسے استعمال کیے جاتے ہیں یا ان آلات کو استعمال کرنے کے ذمہ دار کون کون ہیں یا فائر ڈرل کس جانور کا نام ہے۔ ذرا سوچئے اگر کراچی ایسا ہے تو باقی کیسا ہوگا؟

رہی بات صنعتی سیکٹر کی تو پاکستان میں اس وقت کم ازکم 70 لاکھ مزدور کارخانوں، ورکشاپوں اور اینٹوں کے بھٹوں میں ملازم ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 20 فیصد مزدور ہی ایسے ہوں گے جنہیں نافذ صنعتی قوانین کے تحت بنیادی مراعات اور حادثات سے تحفظ کے ازالے کی سہولت حاصل ہے۔ باقی بندگانِ محنت پھوٹی قسمت کے رحم و کرم پر ہیں۔

بظاہر جس صنعتی یونٹ میں بھی دس سے زائد ورکر ہوں اس یونٹ کا محکمہ لیبر میں رجسٹریشن لازمی ہے تاکہ یہ صنعتی یونٹ مروجہ حفاظتی و مراعاتی قوانین پر عمل درآمد کا پابند ہوجائے۔ اس وقت پاکستان میں قائم کتنے صنعتی یونٹ رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ ہیں اس بارے میں جتنے محکمے اتنے اندازے۔ جو یونٹ رجسٹرڈ بھی ہیں ان کے اکثر مالکان اور اکثر لیبر انسپکٹرز کے درمیان بڑا پکا زبانی معاہدہ ہوتا ہے کہ ہم تمہارے اور تم ہمارے۔ 

کراچی میں جو صنعتی یونٹ 300 کے لگ بھگ مزدوروں کا جہنم بن گیا وہ بھی تو ایک رجسٹرڈ یونٹ ہے۔ مگر اس میں ہنگامی طور پر باہر نکلنے کا ایک بھی دروازہ نہ تھا۔ شاید کسی بھی لیبر انسپکٹر کو سیٹھ کے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے سوا کوئی اور دروازہ دیکھنے کی کیا پڑی۔ یہی حالت کم و بیش دیگر ہزاروں فیکٹریوں کی ہے۔ مگر وہ تب تک بالکل محفوظ ہیں جب تک آگ نہیں لگ جاتی۔

اور آگ بھی لگ جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وفاقی حکومت کے محنت و افرادی قوت ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق فیکٹریز لاء مجریہ 1934 کے ترمیمی مسودے مجریہ 1997 کے تحت رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں دو ہزار چار سے نو کے درمیان ڈھائی ہزار کے لگ بھگ چھوٹے بڑے صنعتی حادثات ہوئے۔ ان میں 252 کارکن جاں بحق، 570 شدید زخمی اور ڈیڑھ ہزار سے زائد معمولی زخمی ہوئے۔ گویا پاکستان میں رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں ہر سال اوسطاً تقریباً پانچ سو صنعتی حادثات ہوتے ہیں۔ مگر ہزاروں غیر رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں کتنے حادثات ہوتے اور کتنے کارکن مرتے ہیں۔ یہ واقعات و اموات و زخم کس کھاتے میں درج ہوتے ہیں۔ معاوضہ کون، کتنا طے کرتا اور کسے دیتا ہے۔ یہ راز خدا جانے، فیکٹری مالک جانے یا زندہ درگور خاندان جانے۔

کیا روک تھام یا کمی ہوسکتی ہے، کیا لیبر کورٹس کے ذریعے کسی کی حقیقی گرفت کبھی ممکن ہے؟ فیکٹریز ایکٹ کے تحت کارکنوں کے جانی و مالی تحفظ سے غفلت برتنے والے صنعتی یونٹ کے مالکان کے لئے سزا کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟

فی خلاف ورزی پانچ سو سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ۔۔

پانچ سو روپے کی موت!

آسٹریا میں نئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کا تجربہ

واشنگٹن — آسٹریا سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر پروگرامرز اور ہیکرز کے ایک گروپ نے مختلف آبادیوں میں انٹرنیٹ کے استعمال کو فروغ دینے کا ایک سستا متبادل تیار کرلیا ہے۔

ان پروگرامرز نے اپنے اس نئے نیٹ ورک کو ’فنک فیوور‘ کا نام دیا ہے جس کا جرمن زبان میں مطلب ہے ’نیٹ ورک فائر‘۔ اس وائرلیس نیٹ ورک کی تخلیق میں روزمرہ کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس کے ذریعے کمپنیوں یا حکومت کی مداخلت کے بعد ایک فرد سے دوسرے کو ڈیٹا منتقل کیا جاسکتا ہے۔

بیشتر صارفین کے لیے انٹرنیٹ بھی فون سروس یا بجلی کی طرح کی ایک ’یوٹیلٹی‘ ہے۔ صارف انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے اپنی فون سروس یا ٹی وی کیبل کمپنی کو رقم ادا کرتے ہیں۔ لیکن ویانا کی چھتوں پہ نصب ’فنک فیوور‘ کے آلات اس معمول کی نظام سے ذرا مختلف ہیں۔

یہ نیٹ ورک ’وائی فائی‘ کی طرح کا ’اوپن ریڈیو سپیکٹرم‘ استعمال کرتے ہوئے وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لیکن گھروں اور دفاتر میں استعمال ہونے والے روایتی چھوٹے ’وائی فائی‘ نیٹ ورکس کے برخلاف ’فنک فیوور‘ زیادہ وسیع علاقے تک کارآمد ہوتا ہے۔

اس نیٹ ورک کی وسعت کا انحصار اس کے استعمال کرنے والوں پر ہوتا ہے جو ہر دوسرے صارف کے لیے رائوٹر اور اینٹینے کا کام دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی صارف انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہے تو ’فنک فیوور‘ سے جڑے تمام صارفین اس کےذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

کئی لوگ اس ٹیکنالوجی کو حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور قدغنوں کے ایک اچھے توڑ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

نیٹ ورک کے خالق ایرون کیپلن کہتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کو شٹ ڈائون کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ آپ کو اس کے ایک ایک صارف تک جا کر اس کی انٹرنیٹ تک رسائی منقطع کرنی ہوگی۔

 ان کے بقول، ”اس لیے یہ ایک آسان کام نہیں۔ ماضی کی طرح اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی ایک ’آئی ایس پی‘ (انٹرنیٹ سروس پرووائڈر) کے پاس جائیں اور اسے کہیں کہ سسٹم بند کردے۔ اس نیٹ ورک میں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ عدم مرکزیت کا حامل ہے جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے جدا آزادانہ حیثیت میں کام کر رہی ہے“۔

اس نیٹ ورک کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اسے ایک شہر ہی نہیں بلکہ پورے پورے ملکوں تک توسیع دے سکتے ہیں اور گو کہ یہ کام آسان نہیں، لیکن ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔

آسٹریا میں نئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کا تجربہ

ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے لاپتا والدہ کو ڈھونڈ لیا

چھوٹی سکرین کا بڑا نام، کاظم پاشا
فوٹو: فائل
یہ دنیا کارخانۂ عجائب ہے۔ یہاں وقت کی رفتار میں گُم ہوتے لمحات انوکھے، پُراسرار واقعات اور تعجب خیز اتفاقات سے گندھے ہوئے ہیں، جو ہمارے لیے تحیر و تجسس کا سامان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں امکانات کبھی معدوم نہیں ہوتے اور زندگی میں ایسے واقعات جنم لیتے ہیں، جن میں عقل کو دخل نہیں ہوتا۔ ہم انھیں اتفاق کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔

کاظم پاشا کا نام اور کام کسی تعارف اور حوالے کا محتاج نہیں۔ آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کو اپنی وابستگی کے دوران شان دار سیریلز دیے۔ آپ کے مقبول ترین ڈراموں میں سیڑھیاں، منڈی، جانگلوس، تھوڑا سا آسمان، کشکول، چھاؤں، کشش، الجھن، رات، ریت اور ہوا شامل ہیں۔ آج انھیں رجحان ساز ڈائریکٹر مانا جاتا ہے، رواں برس مارچ کے مہینے میں ڈراما پروڈکشن کے شعبے میں بہترین کارکردگی پر انھیں صدارتی تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا، جب کہ مشہورِ زمانہ ’کیمبرج‘ نے رواں سال انٹلکچوئلز کی اپنی مرتب کردہ فہرست میں ان کا نام اپنے شعبے کے بہترین دماغ کے طور پر شامل کیا، اور ’اعزازی لیٹر‘ ان کے نام بھیجا۔ کاظم پاشا نے اپنی زندگی کے یہ دو واقعات ’بھلا نہ سکے‘ کے لیے ہمیں کچھ یوں سنائے۔

’’یہ 1985 کا واقعہ ہے۔ حج کا موقع تھا اور ہمارے چند قریبی عزیز عازمینِ حج کے ایک گروپ کے ساتھ کعبۃ اﷲ کے طواف کی غرض سے جارہے تھے۔ میرے والد اُن دنوں بیمار تھے اور والدہ حج کی سعادت حاصل کرنے کی آرزو مند تھیں۔ ہم نے انھیں عازمینِ حج کے اُس کارواں کے ساتھ کردیا، جس میں ہمارے رشتے دار بھی شامل تھے۔

مقررہ تاریخ پر تمام افراد سرزمینِ حجاز کے لیے روانہ ہوئے اور خیریت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ یہاں میری یادداشت ساتھ نہیں دے رہی، شاید، تیسرا دن تھا جب یہ اطلاع ملی کہ میری والدہ وہاں پہنچنے کے بعد لاپتا ہوگئی ہیں۔‘‘

’’گھر کا ہر فرد والدہ کے لیے فکر مند تھا، میرے بھائی ان دنوں ’قطر‘ میں تھے، انھیں اس واقعے کے بارے میں بتایا، سعودی عرب میں مقیم اپنے رشتے داروں، احباب سے رابطہ کرکے اپنی والدہ کو تلاش کرنے کی درخواست کی۔‘‘

والدہ کی گُم شدگی پر کاظم پاشا کا سخت ذہنی اذیت اور فکر میں مبتلا ہونا فطری امر تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تشویش بڑھتی جارہی تھی۔

طوافِ کعبہ، دیگر عبادات اور اس عظیم الشان اجتماع سے متعلق انتظامات کی دنیا بھر میں ذرایع ابلاغ کی بدولت تشہیر ہوتی ہے اور اُس مرتبہ بھی ٹیلی ویژن چینلز پر عازمینِ حج سے متعلق رپورٹس نشر کی جارہی تھیں۔ اپنی والدہ کی گُم شدگی پر دل گیر کاظم پاشا کے لیے حج سے متعلق روزناموں کی ہر خبر اور ٹیلی ویژن رپورٹ اہمیت حاصل کر گئی تھی اور ایک روز عجیب اتفاق ہوا، جس کا انھیں گمان تک نہ تھا!

اُس روز ٹیلی ویژن پر کیمرے کی آنکھ سے مکّہ میں ہر طرف ہجوم، گلیوں، بازاروں میں بھیڑ اور انتظامات کے مناظر دکھائے جارہے تھے، جو پاکستان میں بیٹھے کاظم پاشا اور ان کی اہلیہ کی نظروں سے گزر رہے تھے، اسی رپورٹ میں خیموں سے سجا ہوا عرفات کا میدان دکھایا گیا، وہاں سیکڑوں چہروں سے گزرتی ہوئی کیمرے کی آنکھ ایک خاتون پر جا کر ٹھیر گئی، اور ’کلوز اپ‘ لیا، یہ کاظم پاشا کی والدہ تھیں!!

وہ بتاتے ہیں،’’ہم نے اُنھیں اسکرین پر دیکھا، اور جانیے کہ زندگی ہماری طرف لوٹ آئی۔ میں نے فوراً سعودی عرب میں اپنے ایک عزیز کو اس بارے میں بتایا، وہ انھیں خیموں میں تلاش کرنے نکلے جو کہ ایک انتہائی مشکل کام تھا، اس سلسلے میں انھوں نے وہاں پاکستانی عازمینِ حج کے کاؤنٹر سے رابطہ کیا اور ان سے مدد چاہی، لیکن والدہ تک نہیں پہنچ سکے۔ امید ٹونٹے لگی تھی۔ تاہم انھیں صحیح سلامت دیکھ کر قدرے اطمینان ضرور ہوگیا تھا اور میں خیال کررہا تھا کہ تھوڑی کوشش کرکے ہم ان کا کھوج لگا لیں گے۔‘‘

وہ عجیب لمحات تھے، نہایت عجیب اور متضاد کیفیات سے لبریز، والدہ کو صحیح سلامت دیکھ لینے پر خوشی، مکّہ میں ان کی موجودگی کا اطمینان اور دوسری طرف اس جگہ تلاش کے باوجود ان کا نہ ملنا میری پریشانی بڑھا رہا تھا۔ اہلِ خانہ کا بھی یہی حال تھا کہ اسی عرصے میں شہرِ مدینہ سے میرے ایک کزن کی فون کال موصول ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ والدہ اُن کے ساتھ ہیں اور خیریت سے ہیں اور یوں میں اُن کیفیات سے آزاد ہوا۔

مجھے آج بھی اس بات پر حیرت ہے کہ کیمرے نے میری ہی والدہ کو ’کلوز اپ‘ کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر سال عازمین حج کی تعداد پچیس لاکھ تک جا پہنچتی ہے اور میدانِ عرفات دنیا بھر کے مسلمانوں سے آباد ہوتا ہے، لیکن اُس روز کیمرے کا لاکھوں کے مجمع میں ایک ایسی خاتون پر جا کر ٹھیرنا، جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے ’لاپتا‘ تھیں، شاید، کسی کے نزدیک محض اتفاق ہو، لیکن میں اسے ’غیبی تسلی‘ تصور کرتا ہوں۔ اس عجیب اور غیرمتوقع صورتِ حال کا تانا بانا قدرت نے مجھے اس بے سکونی اور پریشانی سے نجات دلانے کے لیے بنا تھا، جو والدہ کی گُم شدگی کے باعث تھی۔‘‘

کاظم پاشا کے مطابق والدہ سے بعد میں اس پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ انھیں اس تمام عرصے میں اپنے گروپ کے اراکین سے بچھڑ جانے کا احساس تک نہ تھا۔ وہ خیمہ گاہ سے مدینہ جانے کے ارادے سے نکلی تھیں اور ایک بس کے ذریعے مسجدِ نبوی پہنچ گئیں، جہاں ایک اور اتفاق نے جنم لیا۔ وہاں اُن کی نظر کاظم پاشا کے کزن پر پڑی، جنھیں انھوں نے خود آواز دے کر اپنی جانب متوجہ کیا، اور یوں وہ کاظم پاشا اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے ’گُم شدہ‘ نہ رہیں۔

کاظم پاشا نے اپنی زندگی کا ایک اور واقعہ کچھ یوں سنایا۔

’’ پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے میری تعیناتی کوئٹہ میں تھی۔ ایک روز رات کے وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف میری اہلیہ تھیں، جو ایک روز قبل ہی کوئٹہ سے کراچی گئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ دورانِ نماز تخت سے گرنے کے بعد میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ سن کر میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور کوئٹہ میں اپنے جنرل مینیجر کو اس کی اطلاع دی۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور اس موقعے پر میری غم گساری کی۔

مجھے والدہ کی تدفین پر کراچی جانا تھا اور یہ فوری نوعیت کا معاملہ تھا۔ صبح کا وقت ہورہا تھا، میں سیٹ بک کروانے کے لیے اپنے جی ایم کے ساتھ ایئرپورٹ گیا، لیکن اس روز موسم انتہائی خراب تھا۔ ابر اور شدید دھند کی وجہ سے فضائی آپریشن میں دشواری کا سامنا تھا، مجھے بتایا گیا کہ ’سیٹ‘ نہیں ہے۔ میں غم سے نڈھال تھا اور اس بات نے مجھے پریشانی اور کرب میں مبتلا کردیا۔ میرے ساتھ موجود جی ایم صاحب نے میری ہمت بندھائی اور کہا کہ مایوس نہ ہوں۔ مجھے کوئی امید، کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، لیکن جی ایم کوششوں میں مصروف رہے اور ان کی بھاگ دوڑ رنگ لائی، مجھے ’سیٹ‘ مل گئی، لیکن فلائٹ کی روانگی مطلع صاف ہونے سے مشروط تھی۔

میں آب دیدہ بیٹھا ہوا تھا، والدہ کا چہرہ میری نظروں کے سامنے تھا، ان کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ اسی دکھ اور پریشانی کے عالم میں کافی وقت گزر گیا اور میری بے چینی بڑھ رہی تھی، کیوں کہ دو مرتبہ مسافر بس جہاز سے لگی اور پھر اسے واپس کردیا گیا، دراصل خراب موسم کی وجہ سے جہاز کو پرواز کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا۔ اُس بار موسم کی خرابی کے باعث جہاز کے پرواز نہ کرنے کا اعلان سُننے کے بعد میرے دل سے دُعا نکلی کہ پروردگار تُو میرے کراچی جانے کی کوئی سبیل کردے، اس گھڑی میرا ہاتھ تھام لے کہ میں اپنی ماں کو لحد میں اتار سکوں۔‘‘

اس دعا کے ساتھ وقت کچھ اور آگے بڑھ گیا، اس اناؤنسمینٹ کے بعد کپتان سمیت فضائی عملے کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ تھوڑا وقت مزید گزرا تھا کہ کپتان کی آواز سنائی دی۔ اس مرتبہ ڈھارس بندھاتے اور امید جگاتے الفاظ کاظم پاشا کی سماعت سے ٹکرائے تھے۔ پرواز کی اجازت مل گئی تھی۔

ان لمحوں کی بابت کاظم پاشا بتاتے ہیں، ’’وہ قبولیت کی گھڑی تھی، میرے دعا مانگنے کے چند ہی لمحوں کے بعد کپتان نے کراچی کے لیے پرواز کرنے کا اعلان کردیا۔ فلائٹ پرواز کر گئی، دورانِ سفر میں نے سبّی سے گزرتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا تو ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔ موسم بہت خراب تھا، لیکن وہ فلائٹ تمام مسافروں کے ساتھ بہ خیریت کراچی پہنچی۔ کراچی میں ایئرپورٹ پر میرے ایک عزیز موجود تھے، جن کے ساتھ سیدھا قبرستان پہنچا۔ وہاں میری والدہ کا جنازہ موجود تھا۔ میں باری تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے میری دعا قبول کی اور مجھے وقت پر کراچی پہنچ کر اپنی والدہ کا آخری دیدار کرنے اور انھیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے لاپتا والدہ کو ڈھونڈ لیا