سیاست لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سیاست لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر, ستمبر 09, 2013

شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے سے خصوصی انکشافات


شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے سے خصوصی انکشافات

پاکستان کی تاریخ کا پہلا اہم واقعہ ”تصور پاکستان“ تھا جس کے خالق شاعر مشرق علامہ اقبالؒ تھے۔ گو تصور پاکستان کو عملی جامہ پہنانے والے دوسرے لوگ تھے لیکن اگر تصور ہی نہ ہوتا تو عملی جامہ کس کو پہنایا جاتا اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ کے جد امجد کشمیری پنڈت تھے۔ علامہ صاحب کے غالباًدادا سہاج رام سپرو کشمیری برہمن تھے اور علامہ صاحب کے والد محترم شیخ نور محمد ”شیخ“ تھے ۔یہ ہماری تاریخ کے پہلے ”شیخ “تھے۔ پاکستان کی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوا وہ تھا مسئلہ کشمیر اور اسکا ذمہ دار تھا ”شیخ “محمد عبد اللہ تھاجسے کسی زمانے میں” شیر کشمیر “بھی کہا جاتا تھا۔ اسکی تفصیل بعد میں۔ تیسرا اہم سانحہ سقوط مشرقی پاکستان تھا اور اسکا ذمہ دار” شیخ“ مجیب الرحمن تھا۔ ”شیخ “ صاحب نے جو کچھ کیا وہ تو ہم جانتے ہیں لیکن انکا ذاتی پس منظر وہ نہیں جو عام طور پر کتابوں میں لکھا گیا ہے۔ 1972میں ایک مضمون غالباً کسی بھارتی رسالے کے توسط سے سامنے آیا تھا وہ بڑا حیران کن تھا۔

واقعہ اس طرح ہے کہ بیسیویں صدی کی ابتداءمیں کلکتہ کورٹ میںچاندی داس نامی ایک مشہور وکیل تھا۔ ایک نوجوان بنگالی شیخ لطف الرحمن اسکا منشی تھا۔ چاندی داس کی گوری بالا داس نام کی ایک بیٹی تھی۔ یہ لڑکی اپنے والد کے ایک انڈر ٹریننگ نوجوان وکیل ارون کمار چکروتی کے عشق میں گرفتار ہوئی اور ناجائز تعلقات کی وجہ سے 1920میں اسکے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جسکا نام دیوداس چکروتی رکھا گیا لیکن ارون کمار چکروتی نے گوری بالا سے شادی کرنے اور بچے کو اپنانے سے انکار کر دیا کیونکہ اسکا تعلق اونچی ذات سے تھا۔ چاندی داس نے مجبور ہوکر اپنی بیٹی کی شادی شیخ لطف الرحمن اپنے بنگالی منشی سے کر دی اور اسے کورٹ میں سرکاری ملازمت دلادی۔ گوری بالا داس مسلمان ہو گئی اور اسکا نیا نام ساحرہ بیگم رکھا گیا۔ دیوداس چکروتی کا نام تبدیل کرکے شیخ مجیب الرحمن رکھ دیا گیا۔


اس حقیقت کا انکشاف بیان حلفی نمبر118 مورخہ 10-11-1923 رو برو عدالت سٹی مجسٹریٹ کلکتہ روبرو داروغہ کورٹ عبد الرحمن شفاعت پولیس سٹیشن ونداریہ ضلع باریسال اور انیل کمار داروغہ کورٹ ضلع باریسال کے ذریعے سے ہوا۔ بعد میں میرے دوست کرنل (ر) مکرم خان نے جب اس موضوع پر ریسرچ کی تو ان کی ”فائنڈنگ“ بھی یہی تھی۔ تاریخ دان اس موضوع پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں۔
(سکندر بلوچ کے گزشتہ روز (3 جولائی 2013ء) کے کالم ہماری تاریخ کے ”شیخ صاحبان“ کا اقتباس)

ہفتہ, دسمبر 08, 2012

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

ڈاکٹر عمران فاروق
لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں ایجویئر کے علاقے میں واقع ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ مارنے اور تلاشی لینے کی تصدیق کی ہے۔ میٹروپولیٹن (میٹ) پولیس کے پریس آفس نے جمعہ کی شب بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر تلاشی کا کام دو دن سے جاری تھا۔ میٹ پولیس کے ایک اہلکار جوناتھن نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ چھاپہ جمعرات کو مارا گیا تھا جس کے بعد مفصل تلاشی کا کام شروع ہوا جو جمعہ کی شام کو مکمل کر لیا گیا۔ میٹ آفس کے اہلکار نے ایم کیو ایم کے دفتر سے قبضے میں لیے گئے شواہد کی تفصیل نہیں بتائی۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے سلسلے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی شخص کو تفتیش کے لیے روکا گیا ہے۔
لندن میں ایم کیو ایم کے ترجمان مصطفٰی عزیز آبادی سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے انہوں نے کہا کہ ’ایسی کوئی بات نہیں۔‘ مصطفٰی عزیز آبادی نے کہا کہ کل سے اخبار والے یہ خبر اڑاتے پھر رہے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

 گزشتہ ستمبر میٹروپولیٹن پولیس سروس کی انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم نے کہا تھا کہ ڈاکٹر فاروق قتل سے چند ماہ پہلے اپنا ایک آزاد سیاسی ’پروفائل‘ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹر فاروق اپنا سیاسی کیریئر از سر نو شروع کرنے کے متعلق سوچ رہے ہوں۔ اس وجہ سے پولیس ہر اس شخص سے بات کرنا چاہتی ہے جو ڈاکٹر فاروق سے سیاسی حوالے سے رابطے میں تھا۔ پولیس کے علم میں ہے کہ ڈاکٹر فاروق نے جولائی 2010 میں ایک نیا فیس بک پروفائل بنایا تھا اور سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر بہت سے نئے روابط قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی ہلاکت کی دوسری برسی کے موقع پر پولیس نے ایک مرتبہ پھر لوگوں سے اپیل کی کہ اگر ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ سامنے لائیں۔

پچاس سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو جو سنہ 1999 میں لندن آئے تھے، 16 ستمبر 2010 کو ایجویئر کے علاقے میں واقع گرین لین میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اکتوبر میں پولیس کو حملے میں استعمال ہونے والی چھری اور اینٹ بھی ملی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور لگتا ہے کہ اس کے لیے دوسرے افراد کی مدد بھی حاصل کی گئی تھی جنہوں نے ہو سکتا ہے جان بوجھ کر یا انجانے میں قتل میں معاونت کی ہو۔

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

جمعرات, نومبر 29, 2012

ڈاکٹر قدیر کی سیاسی پارٹی کی رجسٹریشن

پاکستان میں ایٹمی بم کے معمار قرار دیے جانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی نئی سیاسی جماعت کو باقاعدہ طور پر رجسٹر کروا دیا ہے تاکہ آئندہ برس ہونے والے انتخابات میں پہلی مرتبہ ان کی جماعت حصہ لے سکے۔

ڈاکٹر قدیر خان نے اپنے بہی خواہوں اور قریبی دوستوں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد اپنی نئی سیاسی جماعت ’تحریک تحفظ پاکستان‘(SPM) کی بنیاد رواں برس جولائی میں رکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سن 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے ان کی سیاسی پارٹی ملک بھر میں کرپشن کے خاتمے کے لیے مہم چلائی جائے گی۔ 76 سالہ ڈاکٹر خان کو پاکستان میں قومی ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے اور وہ عوام میں بھی بہت مقبول ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی مقبولیت کے باوجود یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ عام انتخابات میں زیادہ ووٹ نہیں لے سکیں گے۔ اس کی ایک وجہ پاکستان کی گروہی سیاست کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ دوسری وجہ ڈاکٹر خان کے وہ عوامی جلسے ہیں، جن میں لوگ بڑی تعداد میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

پاکستان کے الیکشن کمیشن کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ جن 19 نئی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کی گئی ہے، اُن میں ڈاکٹر خان کی جماعت بھی شامل ہے۔ ایس پی ایم کے ایک ترجمان روحیل اکبر کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت دائیں بازو کی پارٹیوں سے مل کر ایک اتحاد بنائے گی۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اِن دائیں بازوں کی جماعتوں میں برسر اقتدار اور موجودہ اپوزیشن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) شامل نہیں ہوں گی۔

انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ڈاکٹر قدیر کی سیاسی پارٹی کی رجسٹریشن

جمعہ, نومبر 16, 2012

عمران خان کا خواجہ آصف کے خلاف ہتک عزت کا دعوٰی

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کے خلاف 10 ارب روپے مالیت کا دعوٰی بطور ہتک عزت دائر کر دیا ہے۔ دعوٰی کی سماعت (آج) جمعہ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج وسٹ سکندر خان کریں گے۔ 

جمعرات کو عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ کے ذریعے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ویسٹ راجہ جواد عباس حسن کی عدالت میں دعوٰی دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ عمران خان شوکت خانم ہسپتال کے نام پر جمع ہونے والے فنڈز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو من گھڑت اور بے بنیاد ہے جس کے باعث میرے موکل کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے لہذا خواجہ آصف 10 ارب روپے ہرجانہ بطور ہتک عزت ادا کریں۔ سیشن جج اسلام آباد نے مذکورہ دعویٰ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ سکندر خان کی عدالت منتقل کر دیا۔

ہفتہ, اکتوبر 27, 2012

تحریک انصاف کے اراکین کی دوسری جماعتوں میں شمولیت

اسلام آباد — پاکستان کے سیاسی افق پر حال ہی میں تیزی سے ابھرنے والی عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے کئی اہم رہنماء حالیہ ہفتوں میں پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ممتاز قانون دان افتخار گیلانی نے بھی جمعہ کو عمران خان کی قیادت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حزب مخالف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ ناقدین افتخار گیلانی اور اس سے قبل شیرین مزاری کی پارٹی سے علیحدگی کو تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ لیکن عمران خان کی جماعت کے ایک سینیئر رہنما احسن رشید کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی پارٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ’’لوگ چھوڑتے بھی رہتے ہیں اور نئے لوگ شامل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور جب انھوں نے دیکھا کہ ان کی سوچ اور تحریک انصاف کے نظریے میں فرق ہے تو کچھ لوگ چھوڑ کر بھی جارہے ہیں۔‘‘

تاہم دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے ترجمان سینیٹر مشاہد اللہ کہتے ہیں کہ ان جماعت کی مقبولیت میں اضافے کے باعث افتخار گیلانی اور دیگر کئی سیاستدان ان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ ’’یقینی طور پر جب لوگ شامل ہوتے ہیں تو تقویت تو ملتی ہے، جب ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ہمارا ٹکٹ لے کر منتخب ہو سکتے ہیں تو پارٹی کو اس سے قوت تو ملتی ہے۔‘‘

امریکہ میں قائم انٹرنیشنل رپبلیکن انسٹیٹیوٹ (آئی آر آئی) کی ایک تازہ جائزہ رپورٹ کے مطابق عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی عوامی مقبولیت میں 22 فیصد کمی جبکہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں تین اعشاریہ سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔
 

پیر, اکتوبر 22, 2012

شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ممکن نہیں: صدر زرداری

پاکستان کےصدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے پہلے ملک گیر اتفاق رائے پیدا کرنا انتہائی ضرروری ہوتا ہے جو اب ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخاب کے قریب سیاسی جماعتیں دائیں بازو کے ووٹوں کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں اس لیے کسی آپریشن کے لیے مطلوبہ اتفاق رائے ممکن نہیں۔

اتوار کو ایوان صدر میں صحافیوں کی تنظیم سیفما کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سوات اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب آپریشن اسی وجہ سے ہو پائے تھے کہ ان کی حکومت نے ملک میں اتفاق رائے حاصل کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بغیر اتفاق رائے کے کسی آپریشن کا شروع کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو آپریشن شروع کرنے کا مشورہ دے رے ہیں انہیں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ ملک میں کتنے مدرسے ہیں اور انہیں متحد ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔

ملالہ پر طالبان کے حملے کے حوالے سے صدر زرداری نے کہا کہ حکومت نے ملالہ یوسفزئی کو سکیورٹی کی پیشکش کی تھی لیکن ان کے والد نے سکیورٹی لینے سے انکار کردیا تھا۔ صدر نے کہا کہ اگر ملالہ کے والد سکیورٹی کی پیشکش کو قبول بھی کر لیتے تو بھی ملالہ کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا سکیورٹی لینے کی صورت میں شدت پسند بڑا حملہ کرتے جس میں ان کی جان بھی جا سکتی تھی۔

انہوں نے کہا جب ایک پولیس اہلکار نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ہلاک کردیا تو اس مقدمے کو چلانے کے لیے حکومت کے لیے وکیل تلاش کرنا مشکل ہوگیا جبکہ دوسری جانب ایک سابق چیف جسٹس نے خود کو قادری کی پیروی کے لیے پیش کردیا۔

انہوں نے کہا کہ چین کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ وہ مرحومہ بینظر بھٹو کے ساتھ تھے جب جمہوری طاقتوں نے پاکستان کو امداد کی یقین دہانیاں کرائیں لیکن جب وقت آیا تو ایسی شرطیں عائد کیں جن کو پورا کرنا شاید پاکستان کے بس میں ہی نہیں ہے۔

شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ممکن نہیں: صدر زرداری

بدھ, اگست 15, 2012

وزیراعظم کے بچنے کا امکان نہیں، اعتزاز احسن

پیپلزپارٹی کے سینیٹر اور عدلیہ بحالی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے معروف قانون داں چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ عدلیہ آئینی حدود سے تجاوز کررہی ہے، این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے بچاؤ کا بھی کوئی امکان نہیں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ صدرآصف علی زرداری کو فوجداری مقدمات میں آئین نے استثنیٰ دیا ہے۔ ان کے خیال میں اگر وزیراعظم عدالت کے کہنے پر سوئس حکام کو خط لکھتے ہیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ عدالت کے پاس آئین تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے لیکن وہ ایک وزیراعظم کے بعد دوسرے کو گھر بھیج کر کریز سے باہر نکل رہی ہے اور آئینی حدود کے باہر قدم رکھ رہی ہے۔

اعتزاز احسن کے بقول بعض عناصر عدلیہ کو استعمال کررہے ہیں اور سیاسی میدانوں سے معاملات اٹھا کر عدالت میں لے جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایسے سیاستدان بھی قصور وار ہیں۔
 
ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی درخواست پر عدالت ایک دن میں کمیشن قائم کردیتی ہے، عمران خان کی درخواست کے دوسرے ہفتے بعد وزیراعظم گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کے دیگر راہنماؤں کی درخواستوں کی فوری سماعت ہوجاتی ہے۔ عدلیہ کو سیاسی مقدمات کے بجائے لوگوں کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ این آر او عملدرآمد کیس میں یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعد وہ نہیں سمجھتے کہ عدلیہ اور حکومت کے مابین کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے لہذا راجہ پرویز اشرف کے حوالے سے بھی کسی رعایت کا امکان نہیں۔
 
پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے تک عدلیہ وزیراعظم کو نا اہل قرار دیتی رہے گی جبکہ پارلیما ن نیا وزیراعظم منتخب کرتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت پارلیمان کو تحلیل کرسکتی ہے اور نہ ہی فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے۔
 

ہفتہ, اگست 04, 2012

نائب وزیراعظم ’پروٹوکول‘ کے خواہاں

انیس سو تہتر کا آئین بننے کے بعد، پاکستان کے پہلے نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے ریاستی منصب داروں میں وزیراعظم کے بعد اعلیٰ ترین مقام اور پروٹوکول کے مطالبے پر اصرار نے کابینہ ڈویژن کے افسران کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی نے کابینہ ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ ملک کے نائب وزیراعظم ہیں لہٰذا انہیں ریاستی معاملات میں وزیراعظم کے بعد اہم ترین درجہ حاصل ہے۔

اس بنا پر چوہدری پرویز الٰہی چاہتے ہیں کہ کسی بھی ایسی تقریب میں جہاں ملک کے دیگر اہم ریاستی منصب دار موجود ہوں، ان کے لیے وزیراعظم کے دائیں طرف کی نشست مختص کی جائے۔

کابینہ ڈویژن میں ریاستی عہدیداروں کے پروٹوکول کے معاملات کا تعین کرنے والے شعبے کے مطابق، ریاستی قواعد و ضوابط کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کے اس دعوے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

اس شعبے کے افسران کا کہنا ہے کہ کابینہ ڈویژن کے قواعد میں پروٹوکول کے لحاظ سے نائب وزیراعظم کے عہدے کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

پاکستان میں کار سرکار چلانے اور پروٹوکول کا تعین کرنے والے والے قواعد و ضوابط (وارنٹ آف پریسیڈنس) میں نائب وزیراعظم کے منصب کا ذکر نہیں ہے۔

انیس سو تہتر کے آئین کے تحت بننے والی اس دستاویز میں نائب صدر کے عہدے اور اس کے پروٹوکول کا تعین کیا گیا ہے لیکن نائب وزیراعظم کے معاملے میں وزارت داخلہ کی تیار کردہ یہ کتاب خاموش ہے۔

اس دستاویز کے مطابق پروٹوکول کے لحاظ سے صدر مملکت کے بعد وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، نائب صدر مملکت، چیف جسٹس آف پاکستان اور پھر سینیئر وزیر کا نمبر آتا ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی کا اصرار ہے کہ نائب وزیراعظم کی حیثیت میں اب وہ چیف جسٹس آف پاکستان، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سے بھی پہلے آتے ہیں۔

یہ مسئلہ خاص طور پر اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب کابینہ ڈویژن نے پاکستان کے یوم آزادی کی تقریب کے لیے نشستوں کی ترتیب کا نقشہ تیار کرنے کا کام شروع کیا۔

نائب وزیراعظم کے دفتر سے ایک بار پھر اصرار کیا گیا کہ انہیں ریاستی منصب داروں میں وزیراعظم کے فوراً بعد کی نشست دی جائے۔

کابینہ ڈویژن کے متعلقہ شعبہ ایسا کرنے میں ابتدائی طور پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔

کابینہ ڈویژن کے متعلقہ شعبے کے ایک افسر کا البتہ کہنا ہے کہ ان پر چوہدری پرویز الٰہی کی ہدایت کے مطابق عمل کرنے کے لیے دباؤ بہت ’اوپر‘ سے ڈالا جا رہا ہے۔

ایسے میں آثار یہی دکھائی دیتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کے منصب کی اہمیت تو شاید واضح نہیں ہے، لیکن کابینہ ڈویژن کے متعلقہ شعبے پر ان کے عہدے کی’طاقت‘ ثابت ہو جائے گی۔

نائب وزیراعظم ’پروٹوکول‘ کے خواہاں

منگل, جولائی 24, 2012

روہنگیا مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟

زہرہ خاتون کے باپ کو ان کے سامنےگولی مار دی گئی
جون میں مغربی برما میں اپنی آنکھوں کے سامنے باپ کی ہلاکت دیکھنے والی زہرہ خاتون اب بھی صدمے سے چور ہیں۔

بنگلہ دیش کے جنوب مغربی شہر ٹیکناف کے ماہی گيروں کے ایک گاؤں میں چھّپر کی ایک جھونپڑی میں بیٹھی زہرہ نے اپنی غم کی داستان یوں بتائی ’میرے والد کو برما کے فوجیوں نے میری آنکھوں کے سامنے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ہمارا پورا گاؤں تباہ کردیا گيا۔ ہم اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے، ہمیں اب بھی پتہ نہیں ہے کہ میری ماں کا کیا ہوا۔‘

زہرا ان روہنگیا مسلمانوں میں سے ایک ہیں جو برما کے مغربی صوبہ رکھنی میں فرقہ وارنہ تشدد کے بعد کسی طرح جان بچا کر سرحد پار کرکے بنگلہ دیش میں آگئي ہیں۔ تیس سالہ زہرہ اپنی داستان سناتے ہوئے کئی بار رو پڑیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برما کے اکثریتی بدھوں اور اقلیتی مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کے دوارن ان کےگاؤں پر بھی حملہ کیا گيا۔ اس حملے میں تقریباً اسّی لوگ ہلاک ہوئے اور سینکڑوں لوگ بےگھر ہوگئے۔

برما میں چونکہ بیرونی صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے اس لیے ماوارئے عدالت قتل، گرفتاریوں اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق کی خبروں کی آزادانہ تحقیق مشکل ہے۔

زہرہ خان نے بتایا ’ہم چھ روز تک پانی میں ہی پھرتے رہے۔ ہم اپنے بچوں کو کئی دن کھانا تک نہیں کھلا سکے۔ جب ہم نے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش کی تو ہمیں اس کی اجازت نہیں ملی، ہمیں نہیں معلوم کہ ہم پناہ کہاں لیں‘۔

مغربی برما میں تقریباً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان آباد ہیں۔ برما کے حکام کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا حال ہی میں برصغیر سے نقل مکانی کرکے وہاں پہنچے ہیں۔

لیکن ڈھاکہ کا اصرار ہے کہ ان لوگوں کا تعلق برما سے ہے اس لیے بنگلہ دیش میں انہیں آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کا کہنا ہے کہ تقریباً چار لاکھ روہنگیا پہلے ہی سے غیرقانونی طور پر بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں۔

جون سے اب تک بنگلہ دیش نے پندرہ سو سے زیادہ برمی مسلمانوں کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا ہے کہ ان کی مدد کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔ لیکن زہرہ خان کی طرح کئی دیگر مہاجرین کسی طرح بنگلہ دیش میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

لیکن اجڑے ہوئے برمی مسلمانوں کے بنگلہ دیش میں داخلے کو روکنے کے لیے بنگلہ دیشی بارڈر سکیورٹی فورسز نے گشت میں اضافہ کردیا ہے۔ 

بنگلہ دیش میں برمی مسلمانوں کے کیمپس بنیادی سہولیات سے محروم ہیں
لیکن برما کے مسلمان مجبور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بدھ اکثریت نے ان کے گاؤں کا نشانہ بنایا تو سکیورٹی فورسز نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔

سیدہ بیگم کہتی ہیں ’فساد میں میرے شوہر کو ہلاک کردیا گیا۔ برما کی پولیس صرف مسلمانوں پر گولی چلا رہی تھی اور بدھوں پر نہیں۔ فوج چھت پر سے تماشہ دیکھ رہی تھیں لیکن اس نے مداخلت تک نہیں کی۔‘

تو برما کے مسلمان اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ اپنے ملک میں وہ محفوظ نہیں اور پڑوسی ان کی مدد نہیں کرسکتے۔ جو بنگلہ دیش میں ہیں بھی وہ کیمپوں میں اور انہیں غیرملکی مانا جاتا ہے۔ وہ جن کیمپوں میں مقیم ہیں وہاں بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریات بھی نہیں ہیں۔

برما کے صدر تھین سین نے اس بارے میں حال ہی میں ایک بیان جاری کرکے برمی مسلمانوں کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا کہ ان مسلمانوں کو کسی تیسرے ملک میں آباد کرنا چاہیے۔

روہنگیا مسلمان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا تعلق برما سے ہے اور وہ اس شرط پر اپنے ملک جانے کے لیے تیار ہیں اگر ان کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

کوکس بازار کے پاس کوٹوپلانگ کیمپ میں رہنے والے روہنگیا مسلمان احمد حسن کہتے ہیں ’ہمیں صدر کے بیان پر تشویش ہے۔ ہمارا تعلق برما سے ہے اور ہم اپنے گاؤں واپس جانا چاہتے ہیں۔ مہاجر کیمپ میں اس طرح رہنا بہت مشکل ہے۔ ہم برما جانے کو تیار ہیں اگر ہماری سکیورٹی کی ضمانت دی جائے۔‘

اس تنازع میں غریب برمی مسلمان پھنسے ہوئے ہیں اور مشکلات سے دوچار ہیں۔

روہنگیا مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟

پیر, جولائی 23, 2012

بشار الاسد کی اہلیہ روس میں نہیں، ماسکو

اسماء الاسد
روس نے جمعے کے روز انٹرنیٹ پر سامنے آنے والی ان چہ میگوئیوں کو ’افواہیں‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے، جن میں کہا جارہا ہے کہ بشار الاسد کی اہلیہ غالباً ملک سے فرار ہوکر روس پہنچ چکی ہیں۔

اسماء الاسد کو گزشتہ کافی عرصے سے عوامی سطح پر نہیں دیکھا گیا ہے اور گزشتہ کچھ روز سے انٹرنیٹ پر سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس میں یہ کہا جارہا تھا کہ وہ ملک میں تشدد کی لہر میں اضافے کے تناظر میں فرار ہوکر روس میں پناہ لے چکی ہیں۔

روسی وزارت خارجہ کے ترجمان Alexander Lukashevich نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’میں چاہوں گا کہ ایسی افواہوں پر کوئی بات ہی نہ کروں۔ میرے خیال میں یہ غلط اطلاعات کا ایک جال ہے، جس کے بارے میں میں آپ سے کہوں گا کہ آپ اس میں نہ پھنسیں‘۔

انہوں نے ان اطلاعات کو بھی مسترد کردیا کہ بشارالاسد روس میں ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی تھیں کہ ملکی وزیردفاع کی دمشق میں ہلاکت کے بعد بشار الاسد بھی روس فرار ہوچکے ہیں۔ روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسد رواں ہفتے دمشق میں اعلٰی سرکاری عہدیداروں کی ایک بم حملے میں ہلاکت کے بعد سرکاری ٹی وی پر نظر آئے تھے۔

ادھر فرانس میں متعین روسی سفیرالیگزینڈرے اورلوف نے جمعے کے روز کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد غالباً ’مہذب انداز‘ سے عہدہ صدارت چھوڑنے کے لیے تیار ہوں گے۔ ایک فرانسیسی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے اورلوف کا کہنا تھا، ’میرے خیال میں جو کچھ شام میں ہوچکا ہے، اس کے بعد بشار الاسد کا اقتدار میں رہنا مشکل ہوگا۔‘

دوسری جانب دمشق حکومت نے روسی سفیر کی جانب سے بشار الاسد کے اقتدار سے الگ ہونے سے متعلق سامنے آنے والے بیان کو سختی سے رد کردیا ہے۔ دمشق وزارت اطلاعات کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ بیان ’حقیقت کے برخلاف‘ ہے۔

اتوار, جولائی 22, 2012

پاکستانی پارلیمان میں سگے بھائیوں میں اضافہ

سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوجانے کے بعد پارلیمان کے ایوان زیریں میں موجود سگے بھائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔

نو منتخب رکن قومی اسمبلی عبدالقادر گیلانی کے بھائی علی موسٰی گیلانی کچھ عرصہ قبل ہی ضمنی انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور گیلانی برادران سے پہلے یہ یہ اعزاز مسلم لیگ نون اور جمیت علماء اسلام کے ارکان اسمبلی کو حاصل تھا۔

گیلانی برادران سے قبل عام انتخابات میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے بھائی مولانا عطاء الرحمان ڈیرہ اسماعیل خان سے جبکہ مسلم لیگ نون کے راجہ صفدر اور راجہ اسد جہلم کے دو حلقوں سے بیک وقت رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

مسلم لیگ ن کے رانا تنویر حسین اور ان کے بھائی رانا افضال بھی ایک ہی وقت میں پنجاب کے ضلع شیخوپورہ سے رکن قومی اسمبلی ہیں۔

سنہ انیس سو ترانوے میں مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف اور ان کے بھائی شہبازشریف بھی بیک وقت رکن قومی اسمبلی رہے۔ انیس سو ستانوے میں جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو ان کے ایک بھائی عباس شریف رکن قومی اسمبلی اور دوسرے بھائی شہبازشریف وزیراعلٰی پنجاب تھے۔

قومی اسمبلی میں جہاں ایک جماعت سے بیک وقت منتخب ہونے والے سگے بھائی رکن ہیں وہیں ایوان میں ایسے دو سگے بہن بھائی بھی ہیں جو بیک وقت دو مختلف جماعتوں سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
 
یاسمین رحمان کا تعلق حکمران جماعت پیپلزپارٹی سے ہے جبکہ ان کے بھائی پرویز ملک حزب مخالف کی جماعت مسلم لیگ نون کی جانب سے رکن اسمبلی ہیں۔

پیپلزپارٹی کے خرم جہانگیر وٹو اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں جبکہ ان کی بہن روبینہ شاہین وٹو رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔

ماضی میں اس کے برعکس پیپلزپارٹی کی مقتول سربراہ بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور ان کے بھائی مرتضٰی بھٹو سندھ اسمبلی کے رکن تھے۔

قومی اسمبلی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ایسے منتخب بہن بھائیوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو بیک وقت سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے رکن چنے گئے ہیں۔

ان میں سب سے نمایاں نام عوامی نیشنل پارٹی کے بلور برادران کا ہے۔ الیاس بلور رکن سینیٹ ہیں جبکہ ان کے بھائی وفاقی وزیر غلام احمد بلور قومی اسمبلی اور سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور خیبر پختونحوا اسمبلی کے رکن ہیں۔

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ قاف کےسربراہ چودھری شجاعت حسین اس وقت سینیٹر ہیں جبکہ ان کے بھائی چودھری وجاہت حسین رکن قومی اسمبلی ہیں۔

مسلم لیگ نون کے ہی خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی کے رکن ہیں جبکہ ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں اس طرح مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی ملک افضل کھوکھر کے بھائی سیف الملوک کھوکھر رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھائی احمد مجتبٰی گیلانی بھی ضمنی انتخابات میں رکن پنجاب اسمبلی کامیاب ہوئے۔ اس طرح گیلانی برادران بھی بیک رکن اسمبلی بننے والے بھائیوں میں شامل ہوگئے۔ تاہم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کی باعث یہ اعزاز برقرار نہ رہ سکا۔

مسلم لیگ نون کے کھوسہ برادران کا شمار بھی ان منتخب نمائندگان میں ہوتا ہے جو بیک وقت قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔ سردار حسام الدین کھوسہ اور ان کے چھوٹے بھائی سردار دوست محمد کھوسہ پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں جبکہ ان کے ایک بھائی سیف الدین کھوسہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔

دوست محمد کھوسہ صوبائی وزیر اور وزیراعلٰی پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔

سنہ دو ہزار دو میں منتخب والی اسمبلی میں سمیرا ملک اور ان کی بہن عائلہ ملک بھی ایک ہی وقت قومی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔

سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں اپنے آبائی شہر ملتان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب میں حصہ لیا اور دونوں نشستوں پر کامیاب ہوگئے تاہم انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اور خالی ہونے والی نشست پر اپنے بھائی مرید حسین قریشی کو امیدوار نامزد کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

اس طرح مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف کے داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر ضمنی انتخاب میں اسمبلی کے رکن بنے جبکہ ان کے بھائی طاہرعلی مانسہرہ کی نشست پر کامیاب نہ ہوسکے۔

بدھ, جولائی 18, 2012

نیپال، کل کی ’کملاری‘ لیکن آج کی سیاستدان

شانتا کماری صرف آٹھ برس کی تھی جب اس کے والدین نے اسے بطور’کملاری‘ یعنی زرخرید غلام صرف 75 ڈالر کے عوض ایک گھرانے کو بیچ دیا تھا۔ 

معصوم بچی شانتا کماری نیپال کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ایک گھر میں روزانہ انیس انیس گھنٹے تک کام کرتی رہی۔ اس دوران اس سے کھانا پکوایا جاتا، صفائی ستھرائی کا کام لیا جاتا اور اس سے ناروا سلوک برتا جاتا رہا۔

اٹھارہ برس تک کملاری کے طور پر استحصال بھری زندگی بسر کرنے والی اب وہی بچی نیپال میں سیاستدان، انسانی حقوق کی کارکن اور ایک انتہائی اثر و رسوخ والی خاتون سمجھی جاتی ہے۔

ماضی کی اس کملاری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اپنے ماضی کے غمناک اور درد بھرے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’میں روزانہ صبح چار بجےاٹھتی۔ کوئی دن ایسا نہ تھا جب مجے مارا پیٹا نہ جاتا۔ میں نے بدسلوکی اور آبروریزی کو انتہائی قریب سے دیکھا‘‘۔

آنکھوں میں آنسو لیے شانتا کماری نے بتایا کہ اسے اب تک وہ تمام ظلم و جبر یاد ہے جس نے اس کے پچپن کو تباہ کردیا، ’’بے شک میں بیمار ہی کیوں نہ ہوتی لیکن مجھے اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑتا تھا‘‘۔ اس نے بتایا کہ جب اسے بیچ دیا گیا تو پھر اس نے اپنے والدین کو کبھی نہ دیکھا، ’’ماں کا پیار کیا ہوتا ہے، مجھے یہ تجربہ کبھی حاصل نہ ہوسکا‘‘۔

بتیس سالہ شانتا کماری کے بقول نیپال میں بہت سے کملاریوں کی آبروریزی کی جاتی ہے اور انہوں نے اس بات کا خود مشاہدہ کر رکھا ہے۔ کماری نے بتایا، ’’میری شادی کی عمر کسی کے گھر گزر گئی۔ جب میں اپنے ماضی کو یاد کرتی ہوں تو میرا کلیجہ پھٹنے کو آ جاتا ہے‘‘۔

شانتا کماری کو 2006ء میں اس وقت آزادی ملی تھی جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کملاری نظام کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں شانتا کماری کو مخصوص نشست پر پارلیمان میں نمائندگی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی طور پر ناخواندگی کے باعث اسے مسائل کا سامنا رہا لیکن اس پرعزم خاتون نے اپنے طور پڑھنا لکھنا سیکھا اور معاشرے کے مرکزی دھارے میں اپنی موجودگی کو منوایا۔ 

چائلڈ لیبر ایک عالمی مسئلہ
شانتا کماری کہتی ہیں کہ نہ صرف متعدد اعلیٰ حکومتی اہلکاروں بلکہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی کارکنان کے گھروں میں بھی بچوں سے مزدوری لی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم ایسے گھروں میں چھاپے نہیں ماریں گے، تب تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔

اگرچہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح نیپال میں بھی بچوں کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین کے باعث چائلڈ لیبر کے واقعات میں کمی ہوئی ہے لیکن شانتا کماری کے بقول ملک کے دور دراز علاقوں میں ابھی بھی بچوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے، جو کبھی ان کے ساتھ ہوا تھا۔

شانتا کماری کے بقول وہ زندگی بھر ایسی کوششیں کرتی رہیں گی، جن کی بدولت نیپال میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد ملے۔

نیپال، کل کی ’کملاری‘ لیکن آج کی سیاستدان

ہفتہ, جولائی 14, 2012

ایران کے رہنما جنگ اور اختتام جہان کی تیاری میں

ایران کے رہنمائے اولٰی آیت اللہ خامنہ ای نے پہلی بار لوگوں سے بارھویں امام، مہدی علیہ السلام کے ظہور کے انتظار اور جنگ و اختتام جہان کے لیے تیاری کرنے کے لیے کہہ دیا ہے۔

کچھ ہی عرصہ پہلے جاری کردہ اپنے پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا ہے: ”اگر ہم خود کو امام دوازدہم کی سپاہ تصور کرتے ہیں تو ہمیں جنگ کے لیے تیار ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ اللہ کے زیر سایہ اور اس کی غیبی امداد سے ہم وہ کر ڈالیں گے جس سے پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو جائے۔ یہی ہمارا مقدر ہے“۔

ابتدا میں کچھ وضاحت کیا جانا درکار ہے۔ شیعہ حضرات کے عقیدے کے مطابق مہدی مسیحا ہیں۔ وہ غائب تصور کیے جاتے ہیں اور اللہ کے حکم پر قیامت سے پہلے اور اختتام جہان سے پیشتر ان کا ظہور ہوگا۔ وہ اس جہان میں آکر مسلمانوں کی رہبری کریں گے اور انصاف و خوشحالی پر مبی معاشرہ قائم کر دیں گے۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ امام مہدی کا ظاہر ہونا ایک مذہبی عقیدہ ہے، جسے اس سے پہلے کسی نوع کی سیاسی حمایت حاصل نہیں رہی تاہم ایران کے موجودہ شیعہ حکام کے طفیل اس عقیدے کو سیاسی فلسفے کی شکل دے دی گئی اور اس تصور کا ایرانی سیاست میں مرکزی کردار بن چکا ہے۔

صدر احمدی نژاد بھی ظہور مہدی کے زبردست مبلغ ہیں جنہوں نے کئی بار اپنے سرکاری بیانات اور مقالہ جات میں اختتام جہان کے موضوع کو اٹھایا ہے۔ پھر انہوں نے نہ صرف ظہور مہدی جلد واقع ہونے کی بات کی ہے بلکہ اس بات کو اپنی سیاست کا محور بھی بنایا ہے۔

اب آتے ہیں اصل بات کی جانب کہ صرف اس وقت ہی ایران کے رہبر کو کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے عقیدے کی یاد دلائیں۔ اس بارے میں صدر روس کے تحت، مذہبی اتحادوں کے ساتھ اشتراک عمل کی کونسل کے رکن اور ماہر فلسفہ الیکساندر اگناتینکو کہتے ہیں، ”مجھے یہ لگتا ہے کہ رہبر علی خامنہ ای نے اس وقت ظہور مہدی کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ خلیج فارس کے علاقے اور مشرق وسطٰی میں ایران کے خلاف جنگ کے تیور انہائی سرعت سے بڑھتے جارہے ہیں۔

صدر آحمدی نژاد کی طرح ایران کے رہنمائے اولٰی خامنہ ای کے لیے بھی لوگوں کو حوصلہ دینے کا فریضہ بہت زیادہ اہم ہے، ان میں فوج، سپاہ پاسداران، بسیج اور ایسے ملکوں میں جہاں موجود شیعہ برادریاں شامل ہیں جو جنگ کی صورت میں جواب دینے کے قابل ہوسکتے ہیں، میرے خیال میں جنگ سے مفر نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ایران کے مسئلے کے باعث مشرق وسطٰی اور مغربی ایشیا میں جو میسائل پیدا ہوچکے ہیں انہیں سفارتی طریقوں اور مذاکراتی عمل سے حل کیا جا سکتا ہے“۔
یوں مہدی کا ذکر ایرانیوں کو حوصلہ بخشنے کے لیے ایرانی حکام کی جانب سے پرچار کے لیے برتے جانے والا ایک آلہ ہے، جسے اندرون ملک اور بیرون ملک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے اندر مسیحا کی آمد یعنی حق و باطل کے بیچ آخری جنگ سے پہلے لوگوں کو متحد رکھنے کی خاطر اور بیرون ملک مغرب کے ساتھ لڑنے کے فلسفے کے طور پر۔

مشرق وسطٰی کی سیاست بارے واشنگٹن کے انسٹیٹیوٹ کے شعبہ برائے ایران کے ماہرین کا خیال ہے کہ محمود احمدی نژاد سمیت ایران کے رہنماؤں کا ایک حصہ جنگ کے خطرات سہنے کی خاطر تیار ہے کیونکہ یہ امکان ہے کہ ایران پر اسرائیل یا اسرائیل امریکہ مشترکہ حملے کے باعث ایران کے حکام ایرانیوں میں مقبولیت پائیں گے۔

جیسا کہ ذرائع ابلاغ کی اطلاع ہے کہ ایران کے فوجیوں میں ”آخری چھ ماہ“ کے عنوان سے پمفلٹ بانٹا جا رہا ہے وہ بلاجواز نہیں، فوجیوں کو ظہور مہدی اور مغرب سے لڑائی کی خاطر جوش دلایا جا رہا ہے۔

یہ بات بھی موجب استعجاب نہیں ہے کہ ظہور مہدی کی بات ایسے وقت میں کی جانے لگی جب ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کشیدگی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انٹرنیٹ سائٹ ”انتخاب“ پہ بتایا گیا تھا کہ آحمدی نژاد کے قریبی ساتھی اکثر ظہور مہدی کی خاطر تیاری کرنے کی بات کرتے ہیں اور ایران کے جوہری پروگرام کی تکمیل بھی اس کا حصہ ہے جو اسلامی تہذیب کی شان کو یقینی بنائے۔ اسی طرح جنگ کے لیے تیاری بھی۔

بلاشبہ حق و باطل کی لڑائی میں مذہبی بحث کا شامل ہو جانا کسی طرح بھی باعث حیرت نہیں ہے، لیکن مذہبی نظری معاملات کو جب ایک بڑے ملک کے حکام سیاسی نظریے کی شکل دینے لگیں تو یہ بات بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

ایران کے رہنما جنگ اور اختتام جہان کی تیاری میں

جمعہ, جولائی 13, 2012

امریکہ نے پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی

افغانستان میں متعین نیٹو فورسز کو پاکستان کے راستے سپلائی لائن کی بحالی میں امریکی وزیر ہلیری کلنٹن اور پاکستانی صدر آصف زرداری کی ملاقات نے اہم کر دار ادا کیا، جس دوران امریکی معذرت اور ٹرانزٹ فیس کے معاملات طے پائے۔

گزشتہ برس ایک امریکی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد حکومت نے سات ماہ سے بھی زائد عرصے تک نیٹو کی سپلائی لائن بند رکھی تھی۔ سپلائی کی بحالی کے لیے مئی میں پاکستانی صدر زرداری اور امریکی وزیرخارجہ کلنٹن کی شکاگو میں منعقدہ ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اپنے 24 فوجیوں کی ہلاکت کے معاملے پر اسلام آباد حکومت نے خوب احتجاج کیا اور بالآخر امریکہ کو معذرت پر مجبور کیا تاہم واشنگٹن نے بھی براہ راست معافی مانگنے کے بجائے نہایت سلیقہ مندی سے معذرت کے الفاظ چُنے۔

اس ضمن میں یہ احتیاط برتی گئی کہ اسلام آباد کی خواہش بھی پوری ہو اور رواں سال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات جیسے نازک مرحلے میں صدر باراک اوباما پر اندرون خانہ تنقید کے سلسلے کا آغاز بھی نہ ہو۔ ذرائع کے مطابق وزیردفاع لیون پنیٹا کے اس بیان نے بھی امریکی انتظامیہ کو معافی کے ردعمل سے کسی حد تک بچایا، جس میں انہوں نے متبادل سپلائی روٹ کے بدلے ہر ماہ واشنگٹن کو پہنچنے والے اضافی ایک سو ملین ڈالر کے اخراجات کا ذکر کیا۔ امریکی ذرائع کے مطابق وزیر دفاع پنیٹا اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی جیسے عہدیدار پاکستان سے معافی نہ مانگنے کے حق میں تھے۔

روئٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ شکاگو میں صدر زرداری کے ہمراہ پاکستانی وزیرخزانہ عبد الحفیظ شیخ بھی امریکی عہدیداروں سے ملے اور بعد میں انہوں نے ہلیری کلنٹن کے ایک نائب تھومس نائڈس کے ساتھ طویل رابطہ کاری کے بعد ٹرانزٹ فیس اور معافی نامے کے معاملات طے کیے۔ امریکی ذرائع کے مطابق پاکستان نے نیٹو کو گزرگاہ فراہم کرنے کے لیے اضافی فیس کے مطالبے سے بھی دستبرداری اختیار کی۔

روئٹرز کے مطابق یہ دونوں اتحادی ممالک سپلائی لائن کی بحالی کو دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے خاصا اہم خیال کررہے تھے۔ امریکی ذرائع کے مطابق ایوان اقتدار سے منسلک بہت سے عہدیدار پاکستان سے معانگی مانگنے کی اس لیے مخالفت کررہے تھے کہ وہ اسے خطے کے ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو وسیع امریکی امداد وصول کرکے بھی امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی گئی، ’’یہ افسوس کے اظہار کا ایک بیان تھا، جس میں معافی سے منسلک الفاظ استعمال کیے گئے۔‘‘ ایسے امکانات موجود تھے کہ اگر سپلائی لائن کی بحالی سے متعلق پاکستان کے ساتھ تصفیہ نہ ہوپاتا تو امریکی قانون ساز اسلام آباد کی مالی معاونت میں بڑے پیمانے پر کمی کر دیتے۔

”امریکہ نے پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی“

جمعرات, جولائی 12, 2012

کشمالہ طارق کا رپورٹر کے سوال پر روایتی سیاست دان کا انداز

کشمالہ طارق کا تعلق پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ہم خیال گروپ سے ہے۔ کشمالہ طارق تعلیم یافتہ سیاست دان اور رکن قومی اسمبلی ہیں لیکن ٹی وی رپورٹر کے سوال پر ان کا انداز بھی پاکستان کے روایتی سیاست دانوں جیسا ہے

بدھ, جولائی 11, 2012

دوہری تلوار

پاکستان میں ایک نیا نیٹو مخالف مظاہرہ ہوا۔ تقریباً تیس ہزار افراد نے اسلام آباد میں نیٹو کے امدادی سامان کے لیے راستہ کھولے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ پارلیمنٹ کے سامنے جلسہ کیا، امریکہ مخالف نعرے لگائے اور بنیاد پرست اجتماع ”دفاع پاکستان کونسل“ کے پلے کارڈوں کی نمائش کی۔

اس مظاہرے کا اہتمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور امریکہ و ہندوستان مخالف مذہبی گروہوں کے اتحاد ”دفاع پاکستان کونسل“ نے کیا تھا، جس نے 16-17 جولائی کو ایک اور مارچ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ”یہ تحریک ان مقامات پر توجہ دے گی، جہاں سے نیٹو کے لیے ٹرک افغانستان میں داخل ہوتے ہیں“۔ مذکورہ اتحاد کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے کہا، ”ہم کوئٹہ سے چمن تک اور پشاور سے ظورخم تک مارچ کریں گے“۔ انہوں نے کہا۔

پرہجوم مظاہرے اور سخت مطالبے حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ ایک جانب سے تو افغانستان میں نیٹو کے دستوں کے لیے امدادی سامان بھیجے جانے کی خاطر راستہ کھولا جانا حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی تصور ہوتا ہے۔ واشنگٹن نے نرم الفاظ میں ہی سہی لیکن پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جس کا پاکستان نے تقاضا کیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد کے منجمد کردہ ایک ارب بیس کروڑ ڈالر واگذار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر راستہ کھولے جانے سے بہت سے لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور اس طرح اضافی آمدنی خزانے میں جائے گی۔ ”امریکہ اور پاکستان نے ماضی کی کشیدگی کو پس پشت ڈالنے کی ہمت کرتے ہوئے مستقبل کو دیکھنے کی راہ اپنا لی ہے“۔ امریکہ کی سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلیری کلنٹن نے کہا۔

دوسری جانب راستہ پھر سے کھولے جانے کے باعث حکومت کی مقبولیت میں کمی آسکتی ہے اور سیاسی بحران مزید گہرا ہوسکتا ہے، ماسکو میں کارنیگی فاؤنڈیشن کے ماہر پیوتر تاپیچکانوو کہتے ہیں، ”امریکہ سے اتفاق کرنے کے باعث لوگ حکومت کے مخالف ہوجائیں گے کیونکہ امریکہ کے خلاف منفی جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت بہت زیادہ پاپولسٹ ہے۔ اسے عوام کی بھرپور حمایت درکار ہے۔ اگلے سال پاکستان میں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں۔ ملک میں انتخابی مہم کے سے حالات ہیں۔ پاکستان کے لیے اچھا ہوتا اگر امریکہ ان کی سرزمین سے گذرنے والے راستے کو نیٹو سپلائی کی خاطر استعمال کرنے سے انکار کردیتا“۔

راستہ پھر سے کھولے جانے کے بعد پاکستان میں انتہا پسند بنیاد پرست گروہ زیادہ فعال ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے کئی خطوں مین دھماکے ہوچکے ہیں۔ اتوار کے روز چمن کے راستے میں ایک زوردار دھماکہ کیا گیا۔ یہ ہی وہ راستہ ہے جہاں سے نیٹو کے لیے سامان لے جانے والے ٹرک افغانستان کی جانب جاتے ہیں۔ اس دھماکے میں 18 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ایک دوسرے دیشت گردانہ واقعے میں جو مرکزی پنجاب کے شہر گجرات کے نزدیک ہوا کم سے کم سات فوجی تب شہید ہوگئے جب حملہ آورون نے ان پر فائر کھول دیا۔

نیٹو کے لیے سپلائی روٹ پھر سے کھولا جانا حکومت مخالف لوگوں کے ہاتھ میں ترپ کا پتیہ بن سکتا ہے۔ گیلانی کے وزارت عظمٰی سے ہٹائے جانے کے بعد کا بحران ایک نیا موڑ لے سکتا ہے۔ قبل از وقت انتخابات کرائے جانے کا امکان حقیقت میں ڈھلنے کے نزدیک پہنچ چکا ہے، چنانچہ ایسے میں اس سوال کا جواب دیا جانا دشوار ہے آیا نیٹو کے لیے سپلائی روٹ پھر سے کھولا جانا حکومت کی کامیابی ثابت ہوگا یا ناکامی؟


دوہری تلوار

پیر, جولائی 02, 2012

پاکستان میں مقبول ترین سیاستدان

پاکستان میں اس وقت مقبول ترین سیاستدان کرکٹ کے سابق کھلاڑی اور موجودہ "تحریک انصاف" کے رہنما عمران خان ہیں۔ سب سے زیادہ غیر مقبول صدر آصف علی زرداری ہیں۔ سماجی آراء شماری کے معروف امریکی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کی پاکستان میں کی گئی تازہ ترین آراء شماری کے نتائج یہی ہیں۔

یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان نتائج کو دیکھ کر اچنبھا ہوا ہے: زرداری کو پسند کرنے والوں کی شرح 14 % رہی جو گذشتہ برس کی شرح 11% سے کچھ ہی زیادہ ہے لیکن تب کی نسبت جب وہ اس عہدے کے لیے چنے گئے تھے خوفناک حد تک کم ہے کیونکہ یہ شرح تب 64 % تھی۔ دلچسب بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر نااہل کردیے جانے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مقبولیت کی شرح 36 % ہے یعنی موجودہ صدر، جن کا کہ گیلانی آخری لمحے تک تحفظ کرتے رہے، کی ریٹنگ سے ڈھائی گنا سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ روس کے انسٹیٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے ایک ماہر بورس وولہونسکی کی اس بارے میں رائے یوں ہے،"ان نتائج کو آنکنے کے لیے مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں متنوع گروہ، قبیلے اور برادریاں ہیں اس لیے کسی طرح کی بھی رائے شماری کو آنکنے کی خاطر بہت زیادہ احتیاط برتے جانے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی شرحیں انتخابات پر براہ راست اثرانداز نہیں ہونگی، چاہے وہ 2013 میں ہوں یا معینہ مدت سے قبل اسی برس کے اواخر میں۔

علاوہ ازیں پارلیمانی انتخاب کا اکثریتی نظام اور صدر کا بالواسطہ انتخاب پارٹیوں کے اندر افسرشاہانہ ڈھانچے کے کردار کو کہیں فزوں تر بنا دیتا ہے۔ یوں عمران خان کی ذاتی مقبولیت اور ان کی پارٹی میں کئی نامور سیاستدانون کے شامل ہونے کے باوجود "تحریک انصاف" کی حیثیت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی روائتی پارٹیوں کی، تاحتٰی غیر مقبول صدر زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی۔"

فہرست میں دوسرے مقام پر مقبول ترین سیاستدان، سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی مقبولیت 2009 کی نسبت جب کہ یہ شرح 79% تھی، خاصی گر کر 62% ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود بہت بلند شرح ہے، بورس وولہونسکی کہتے ہیں:"وہ گذشتہ سالوں سے حزب اختلاف میں ہیں اور موجودہ حکومت کے اس بدنام ڈھانچے سے علیحدہ، جس نے ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ سب سے مضبوط صوبے پنجاب کی بااثر اشرافیہ نواز شریف کے حق میں ہے۔ پھر وہ مغرب اور سب سے بڑی بات یہ کہ امریکہ کی نظر میں خاصے قابل اعتبار سیاستدان ہیں۔ 2006-2007 میں جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مغرب کے تعلقات زیادہ کشیدہ ہوگئے تھے تب مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کی ہی امیدواری کو عوام میں پھیلایا تھا۔ اب جبکہ تعلقات تاریخ میں بدترین حیثیت اختیار کرچکے ہیں، تب نواز شریف واحد شخصیت ہیں جو ان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ تمام باتیں بھلا دی جائیں، جب ان پر 1990 کی دہائی میں بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے۔"

مذکورہ آراء شماری کے نتائج میں مسلح افواج کی مقبولیت بہت زیادہ پائی گئی ہے جو سول اداروں کی مقبولیت سے کہیں زیادہ ہے، موازنے کے طور پر ذرائع ابلاغ عامہ کی مقبولیت کی شرح 66 %، عدلیہ کی 58 % اور انتظامیہ و پولیس کی محض 24% ہے۔

فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لیے کئی مواقع تھے کہ وہ حکومت میں مداخلت کر لیتے لیکن انہوں نے ایک بار بھی ایسے ارادے کا اظہار نہین کیا۔ فوج کی مقبولیت کی انتہائی بلند شرح اس بات کی غمّاز ہے کہ اگر فوج نے کار سرکار میں مداخلت کی تو اسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہوگا۔

جمعرات, جون 28, 2012

تین اہم عہدوں کی ہم نام شخصیات

پاکستان کے تین اعلٰی ترین عہدوں پر فائز شخصیات ’ہم نام‘ ہیں جبکہ اس سے قبل صدر کے عہدے پر فائز شخص بھی انہی کا ہم نام تھا۔

حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کا نام اشفاق ’پرویز‘ کیانی ہے۔

وزیراعظم کا نام راجہ ’پرویز‘ اشرف ہے ۔

جس شخصیت کو ملک کے پہلے نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا ہے اس کا نام چوہدری ’پرویز‘ الہٰی ہے، جبکہ اس سے قبل ملک کے اعلٰی ترین صدارتی عہدے پر جنرل (ر) ’پرویز‘ مشرف فائز تھے۔