ایران کے رہنمائے اولٰی آیت اللہ خامنہ ای نے پہلی بار لوگوں سے بارھویں امام، مہدی علیہ السلام کے ظہور کے انتظار اور جنگ و اختتام جہان کے لیے تیاری کرنے کے لیے کہہ دیا ہے۔
کچھ ہی عرصہ پہلے جاری کردہ اپنے پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا ہے: ”اگر ہم خود کو امام دوازدہم کی سپاہ تصور کرتے ہیں تو ہمیں جنگ کے لیے تیار ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ اللہ کے زیر سایہ اور اس کی غیبی امداد سے ہم وہ کر ڈالیں گے جس سے پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو جائے۔ یہی ہمارا مقدر ہے“۔
ابتدا میں کچھ وضاحت کیا جانا درکار ہے۔ شیعہ حضرات کے عقیدے کے مطابق مہدی مسیحا ہیں۔ وہ غائب تصور کیے جاتے ہیں اور اللہ کے حکم پر قیامت سے پہلے اور اختتام جہان سے پیشتر ان کا ظہور ہوگا۔ وہ اس جہان میں آکر مسلمانوں کی رہبری کریں گے اور انصاف و خوشحالی پر مبی معاشرہ قائم کر دیں گے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ امام مہدی کا ظاہر ہونا ایک مذہبی عقیدہ ہے، جسے اس سے پہلے کسی نوع کی سیاسی حمایت حاصل نہیں رہی تاہم ایران کے موجودہ شیعہ حکام کے طفیل اس عقیدے کو سیاسی فلسفے کی شکل دے دی گئی اور اس تصور کا ایرانی سیاست میں مرکزی کردار بن چکا ہے۔
صدر احمدی نژاد بھی ظہور مہدی کے زبردست مبلغ ہیں جنہوں نے کئی بار اپنے سرکاری بیانات اور مقالہ جات میں اختتام جہان کے موضوع کو اٹھایا ہے۔ پھر انہوں نے نہ صرف ظہور مہدی جلد واقع ہونے کی بات کی ہے بلکہ اس بات کو اپنی سیاست کا محور بھی بنایا ہے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی جانب کہ صرف اس وقت ہی ایران کے رہبر کو کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے عقیدے کی یاد دلائیں۔ اس بارے میں صدر روس کے تحت، مذہبی اتحادوں کے ساتھ اشتراک عمل کی کونسل کے رکن اور ماہر فلسفہ الیکساندر اگناتینکو کہتے ہیں، ”مجھے یہ لگتا ہے کہ رہبر علی خامنہ ای نے اس وقت ظہور مہدی کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ خلیج فارس کے علاقے اور مشرق وسطٰی میں ایران کے خلاف جنگ کے تیور انہائی سرعت سے بڑھتے جارہے ہیں۔
صدر آحمدی نژاد کی طرح ایران کے رہنمائے اولٰی خامنہ ای کے لیے بھی لوگوں کو حوصلہ دینے کا فریضہ بہت زیادہ اہم ہے، ان میں فوج، سپاہ پاسداران، بسیج اور ایسے ملکوں میں جہاں موجود شیعہ برادریاں شامل ہیں جو جنگ کی صورت میں جواب دینے کے قابل ہوسکتے ہیں، میرے خیال میں جنگ سے مفر نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ایران کے مسئلے کے باعث مشرق وسطٰی اور مغربی ایشیا میں جو میسائل پیدا ہوچکے ہیں انہیں سفارتی طریقوں اور مذاکراتی عمل سے حل کیا جا سکتا ہے“۔
کچھ ہی عرصہ پہلے جاری کردہ اپنے پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا ہے: ”اگر ہم خود کو امام دوازدہم کی سپاہ تصور کرتے ہیں تو ہمیں جنگ کے لیے تیار ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ اللہ کے زیر سایہ اور اس کی غیبی امداد سے ہم وہ کر ڈالیں گے جس سے پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو جائے۔ یہی ہمارا مقدر ہے“۔
ابتدا میں کچھ وضاحت کیا جانا درکار ہے۔ شیعہ حضرات کے عقیدے کے مطابق مہدی مسیحا ہیں۔ وہ غائب تصور کیے جاتے ہیں اور اللہ کے حکم پر قیامت سے پہلے اور اختتام جہان سے پیشتر ان کا ظہور ہوگا۔ وہ اس جہان میں آکر مسلمانوں کی رہبری کریں گے اور انصاف و خوشحالی پر مبی معاشرہ قائم کر دیں گے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ امام مہدی کا ظاہر ہونا ایک مذہبی عقیدہ ہے، جسے اس سے پہلے کسی نوع کی سیاسی حمایت حاصل نہیں رہی تاہم ایران کے موجودہ شیعہ حکام کے طفیل اس عقیدے کو سیاسی فلسفے کی شکل دے دی گئی اور اس تصور کا ایرانی سیاست میں مرکزی کردار بن چکا ہے۔
صدر احمدی نژاد بھی ظہور مہدی کے زبردست مبلغ ہیں جنہوں نے کئی بار اپنے سرکاری بیانات اور مقالہ جات میں اختتام جہان کے موضوع کو اٹھایا ہے۔ پھر انہوں نے نہ صرف ظہور مہدی جلد واقع ہونے کی بات کی ہے بلکہ اس بات کو اپنی سیاست کا محور بھی بنایا ہے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی جانب کہ صرف اس وقت ہی ایران کے رہبر کو کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے عقیدے کی یاد دلائیں۔ اس بارے میں صدر روس کے تحت، مذہبی اتحادوں کے ساتھ اشتراک عمل کی کونسل کے رکن اور ماہر فلسفہ الیکساندر اگناتینکو کہتے ہیں، ”مجھے یہ لگتا ہے کہ رہبر علی خامنہ ای نے اس وقت ظہور مہدی کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ خلیج فارس کے علاقے اور مشرق وسطٰی میں ایران کے خلاف جنگ کے تیور انہائی سرعت سے بڑھتے جارہے ہیں۔
صدر آحمدی نژاد کی طرح ایران کے رہنمائے اولٰی خامنہ ای کے لیے بھی لوگوں کو حوصلہ دینے کا فریضہ بہت زیادہ اہم ہے، ان میں فوج، سپاہ پاسداران، بسیج اور ایسے ملکوں میں جہاں موجود شیعہ برادریاں شامل ہیں جو جنگ کی صورت میں جواب دینے کے قابل ہوسکتے ہیں، میرے خیال میں جنگ سے مفر نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ایران کے مسئلے کے باعث مشرق وسطٰی اور مغربی ایشیا میں جو میسائل پیدا ہوچکے ہیں انہیں سفارتی طریقوں اور مذاکراتی عمل سے حل کیا جا سکتا ہے“۔
یوں مہدی کا ذکر ایرانیوں کو حوصلہ بخشنے کے لیے ایرانی حکام کی جانب سے پرچار کے لیے برتے جانے والا ایک آلہ ہے، جسے اندرون ملک اور بیرون ملک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے اندر مسیحا کی آمد یعنی حق و باطل کے بیچ آخری جنگ سے پہلے لوگوں کو متحد رکھنے کی خاطر اور بیرون ملک مغرب کے ساتھ لڑنے کے فلسفے کے طور پر۔
مشرق وسطٰی کی سیاست بارے واشنگٹن کے انسٹیٹیوٹ کے شعبہ برائے ایران کے ماہرین کا خیال ہے کہ محمود احمدی نژاد سمیت ایران کے رہنماؤں کا ایک حصہ جنگ کے خطرات سہنے کی خاطر تیار ہے کیونکہ یہ امکان ہے کہ ایران پر اسرائیل یا اسرائیل امریکہ مشترکہ حملے کے باعث ایران کے حکام ایرانیوں میں مقبولیت پائیں گے۔
جیسا کہ ذرائع ابلاغ کی اطلاع ہے کہ ایران کے فوجیوں میں ”آخری چھ ماہ“ کے عنوان سے پمفلٹ بانٹا جا رہا ہے وہ بلاجواز نہیں، فوجیوں کو ظہور مہدی اور مغرب سے لڑائی کی خاطر جوش دلایا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی موجب استعجاب نہیں ہے کہ ظہور مہدی کی بات ایسے وقت میں کی جانے لگی جب ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کشیدگی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انٹرنیٹ سائٹ ”انتخاب“ پہ بتایا گیا تھا کہ آحمدی نژاد کے قریبی ساتھی اکثر ظہور مہدی کی خاطر تیاری کرنے کی بات کرتے ہیں اور ایران کے جوہری پروگرام کی تکمیل بھی اس کا حصہ ہے جو اسلامی تہذیب کی شان کو یقینی بنائے۔ اسی طرح جنگ کے لیے تیاری بھی۔
بلاشبہ حق و باطل کی لڑائی میں مذہبی بحث کا شامل ہو جانا کسی طرح بھی باعث حیرت نہیں ہے، لیکن مذہبی نظری معاملات کو جب ایک بڑے ملک کے حکام سیاسی نظریے کی شکل دینے لگیں تو یہ بات بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
ایران کے رہنما جنگ اور اختتام جہان کی تیاری میں
مشرق وسطٰی کی سیاست بارے واشنگٹن کے انسٹیٹیوٹ کے شعبہ برائے ایران کے ماہرین کا خیال ہے کہ محمود احمدی نژاد سمیت ایران کے رہنماؤں کا ایک حصہ جنگ کے خطرات سہنے کی خاطر تیار ہے کیونکہ یہ امکان ہے کہ ایران پر اسرائیل یا اسرائیل امریکہ مشترکہ حملے کے باعث ایران کے حکام ایرانیوں میں مقبولیت پائیں گے۔
جیسا کہ ذرائع ابلاغ کی اطلاع ہے کہ ایران کے فوجیوں میں ”آخری چھ ماہ“ کے عنوان سے پمفلٹ بانٹا جا رہا ہے وہ بلاجواز نہیں، فوجیوں کو ظہور مہدی اور مغرب سے لڑائی کی خاطر جوش دلایا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی موجب استعجاب نہیں ہے کہ ظہور مہدی کی بات ایسے وقت میں کی جانے لگی جب ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کشیدگی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انٹرنیٹ سائٹ ”انتخاب“ پہ بتایا گیا تھا کہ آحمدی نژاد کے قریبی ساتھی اکثر ظہور مہدی کی خاطر تیاری کرنے کی بات کرتے ہیں اور ایران کے جوہری پروگرام کی تکمیل بھی اس کا حصہ ہے جو اسلامی تہذیب کی شان کو یقینی بنائے۔ اسی طرح جنگ کے لیے تیاری بھی۔
بلاشبہ حق و باطل کی لڑائی میں مذہبی بحث کا شامل ہو جانا کسی طرح بھی باعث حیرت نہیں ہے، لیکن مذہبی نظری معاملات کو جب ایک بڑے ملک کے حکام سیاسی نظریے کی شکل دینے لگیں تو یہ بات بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
ایران کے رہنما جنگ اور اختتام جہان کی تیاری میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔